نماز استسقاء(بارش کے لئے نماز)

ولی اللہ مجید قاسمی

جب ہرطرف ظلم، سرکشی اور گناہ کے بادل منڈلانے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے بادل کو روک لیتے ہیں، جب خدا کی زمین فساد اور بگاڑ سے بھر جاتی ہے توپھر سیرابی سے محروم کردی جاتی ہے، سرسبز اور لہلہاتا ہوا چمن خزاں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان سرکشی و نافرمانی سے باز آجائے۔ تواضع، انکساری، عاجزی اور فروتنی کا پیکر بن کر رحمن و رحیم کے حضور سجدہ ریز ہوجائے،پریشان حال ،پراگندہ بال،مسکین صورت اور گناہوں پر ندامت کے ساتھ کسی میدان یا جنگل میں نکل کر نماز پڑھے۔ بہتر ہے کہ اپنے ساتھ بچوں اور جانوروں کو بھی لیتا جائے کہ ان کی وجہ سے رحمت الہی جوش میں آجائے گی۔

استسقاء کا طریقہ :

باران رحمت طلب کرنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کے لئے کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے تین طریقے منقول ہیں:
1۔ آبادی سے باہر نکل کر عام نمازوں کی طرح دو رکعت نماز پڑھی جائے۔سورہ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں’’ سبح اسم ربک الاعلیٰ‘‘ اوردوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھنا بہتر ہے۔ نماز کے بعد یا اس سے پہلے امام خطبہ دے پھر نیک فالی کی غرض سے اپنی چادر کو اُلٹ دے اس کے بعد دعا کرے ۔ طلب باراں کی یہ سب سے بہتر اور مکمل شکل ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ
لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بارش نہ ہونے اور قحط پڑجانے کی شکایت کی،آپ نے حکم دیا کہ منبر عیدگاہ میں رکھ دیا جائے اور اک دن متعین کردیا کہ اس دن تمام لوگ وہاں موجود رہیں(مقررہ دن) رسول اللہ ﷺ دن نکلتے ہی وہاں تشریف لے گئے، منبر پر بیٹھے، اللہ کی کبریائی اور حمد بیان کی،پھر کہا تم لوگوں نے سوکھا پڑجانے اور وقت پر بارش نہ ہونے کی شکایت کی اور اللہ کا حکم ہے کہ تم اس سے دعا کرو، اس کا وعدہ ہے کہ وہ قبول کرے گا‘ پھر آپ نے یہ الفاظ کہے:
الحمد اللہ رب العالمیمن الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ‘لاالہ اللہ یفعل مایرید ‘اللھم انت اللہ لاالہ إلا أنت،أنت الغنی و نحن الفقراء۔ انزل علینا الغیث واجعل ما انزلت علینا قوۃ وبلاغا الی حین۔
تمام تعریف سارے عالم کے پروردگار کے لئے ہے‘ وہ نہایت رحم والا اور بہت مہربان، جزاء کے دن کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اے اللہ ! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی اور نہیں، تو غنی اور ہم فقیر ہیں، ہم پر بارش نازل فرما اور جو بارش نازل فرما اسے ہمارے لئے باعث قوت اور ایک مدت تک کفایت کا ذریعہ بنادے ۔
پھر آپ نے دونوں ہاتھ اوپر(دعا کے لئے) اٹھائے اور خوب بلند کیا۔ یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی نظر آنے لگی،پھر اپنا رخ لوگوں کی طرف سے پھیر کر قبلہ کی طرف کرلیا اور چادر کو پلٹ دیا اور ابھی تک آپ کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے، پھر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور منبر سے اتر کردو رکعت نماز پڑھی۔ اللہ کے حکم سے بدلی اٹھی اور گرج اور چمک کر برسنے لگی۔ ابھی آپ مسجد تک پہونچے بھی نہ تھے کہ پانی کی وجہ سے راستے اور نالے بھر گئے۔ جب آپ نے یہ دیکھا کہ لوگ تیزی سے گھروں کی طرف بھاگے چلے جارہے تھے تو آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔آپ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور میں اس کا بندہ اور رسول ہوں(رواہ ابوداؤد 65/1 وقال: اسنادہ جید و قال النووی فی الاذکار اسنادہ صحیح ۔ اعلاء السنن 153/8)
2۔ فرض نماز کے بعد یا خطبہ جمعہ کے دوران امام دعا کرے اور لوگ اس کی دعا پر آمین کہیں ،حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں آیا،رسول اللہ ﷺ اس وقت خطبہ دے رہے تھے، وہ شخص آپ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا : یا رسول اللہ ﷺ! مویشی ہلاک ہوگئے، راستے بند ہوگئے،آپ ﷺ ، اللہ سے بارش کی دعا کیجئے، آپ ﷺ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیا اور کہا: اللھم اسقنا ‘اللھم اسقنا‘ اللھم اسقنا‘ ۔
یااللہ !ہمیں سیراب کردے‘یا اللہ! ہمیں سیراب کردے‘یا اللہ ہمیں سیراب کردے۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں بخدا آسمان پر اس وقت بادل کا کوئی ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا لیکن دعا کے بعد پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کی مانند بادل ظاہر ہونا شروع ہوا اور اوپر آکر پھیل گیا اور پھر اس قدر بارش ہوئی کہ اللہ کی قسم ! ہم نے سات روز تک سورج نہیں دیکھا۔(صحیح بخاری 137/1)
3- صرف دعا اور استغفار پر اکتفاء کیا جائے۔ لیکن یہ دعا نہ تو خطبہ میں ہو اور نہ ہی کسی نماز کے بعد۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے :
جاء اعرابی الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ !لقد جئتک من عند قوم مایتزود لھم براع ولا یخطرلھم فحل فصعدالنبیﷺ المنبرفحمداللہ ثم قال اللھم اسقنا غیثا مغیثا مرئیاً مریعا طبقا غدقا عاجلا غیررائث ثم نزل فما یاتیہ احد من وجہ من الوجوہ قالوا قداحینا۔
دیہات کا ایک شخص خدمت نبویؐ میں حاضرہوا اور کہا : اللہ کے رسول! میں ایسے لوگوں کے پاس سے آرہا ہوں جن کے چرواہے کے پاس کوئی توشہ نہیں اور نہ ہی جانور کمزوری کی وجہ سے جفتی کرسکتا ہے۔ یہ سن کر آپ منبرپرتشریف فرما ہوئے اور حمد وثناء کے بعد یہ دعا مانگی:
اللھم اسقنا غیثا مغیثا مریئا مریعا طبقا غدقا عاجلا غیر رائث
اے اللہ ! ہمیں سیرابی عطا فرما، جو اس پریشانی میں ہمارا مددگار ہو‘خوشگوار ہو،شادابی کا ذریعہ ہو،ہرطرف موسلادھار بارش ہو۔جلد از جلد سیرابی عطا کر، اس میں کوئی تاخیر نہ ہو۔
پھر آپ منبر سے اُتر گئے۔ اس کے بعد جس طرف سے بھی لوگ آتے کہتے کہ ہمارے یہاں خوب بارش ہوئی۔(رواہ ابن ماجہ‘ ورجالہ ثقات۔ دیکھئے۔ نیل الاوطار 9/4)
حضر ت عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک مرتبہ طلب باراں کے لئے آبادی سے باہر نکلے اور استغفار کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے تو استسقاء کیا ہی نہیں۔ انھوں نے فرمایا :میں نے اللہ سے آسمان کے ان ستاروں کے ذریعہ(یعنی توبہ و استغفار کے ذریعہ) دعا کی ہے جن کی وجہ سے بارش ہوتی ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
استغفروا ربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدرارا-(دیکھئے مصنف ابن ابی شبیہ 474/2 سنن کبری 351/3 الاتحاف 730/3)
حاصل یہ ہے کہ طلب بارش کے لئے نماز پڑھنا ہی ضروری اور سنت موکدہ نہیں بلکہ دیگر طریقے بھی ہیں۔ ہاں نمازپڑھ کر دعا کرنا بہتر اور مستحب ہے‘ امام ابوحنیفہؓ کا یہی خیال ہے۔امام قدری وغیرہ نے جو یہ لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک نماز سنت نہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز سنت موکدہ نہیں۔( معارف السنن 492/4)لیکن دیگر ائمہ کے یہاں نماز سنت موکدہ ہے۔(الفقہ علی المذاھب 361/1)

قرأت:

جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ استسقاء میں سورہ فاتحہ کے بعد پہلی رکعت میں ’’ سبح اسم ربک الاعلی‘‘ اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھنا بہتر ہے۔(دیکھئے: کنزالعمال 280/8 قال صاحب کنزالعمال و رجالہ ثقات) نیز اس نماز میں آواز سے قرات مسنون ہے۔رسول اللہ ﷺ سے یہی منقول ہے۔(وجھر فیھمابالقراءۃ رواہ احمد والبخاری و ابوداؤد و النسائی۔ نیل الاوطار 4/4)

خطبہ:

امام نماز کے بعد خطبہ دے جس میں استغفار کے الفاظ بکثرت ہوں یہی امام محمد اور دیگر ائمہ کا مذہب ہے۔ اور یہی حدیث سے ثابت ہے۔اور امام ابوحنیفہؓ کے نزدیک نماز استسقاء میں خطبہ نہیں ہے۔
صحیح بخاری اور سنن ابوداؤد کی روایت میں نماز کے پہلے ہی خطبہ دینا منقول ہے ، لیکن ابن ماجہ کی روایت میں نماز کے بعد خطبہ کا ذکر ہے۔(فصلیٰ بنارکعتین بلا اذان واقامۃ ثم خطبنا ۔ابن ماجہ 91/1 قال السندی: اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات( شرح سنن ابن ماجہ 384/1) اس لئے دونوں طرح سے خطبہ کی گنجائش ہے. لیکن افضل اور مستحب نماز کے بعد ہی ہے.(والمستحب تقدیم الصلاۃ لاحادیث اخر. عمدۃ القاری 34/7) کیونکہ خطبہ کی حکمت یہ ہے کہ نماز کے بعد بھی کچھ غفلت ہو تو خطبہ کے ذریعہ سے اسے دور کیا جاسکے اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوگا جبکہ خطبہ نماز کے بعد ہو۔(دیکھئے: اعلاء السنن 152/8)

چادر اُلٹنا:

خطبہ کے بعد بہتر ہے کہ امام اپنی چادر کو الٹ دے‘ بایں طور کہ چادر چوکور ہو تو اس کے نچلے حصے کو اوپر اور اوپری حصہ کو نیچے کردے اور گول ہو تو داہنے جانب والے حصے کو بائیں جانب اور بائیں جانب والے حصے کو دائیں طرف کردے۔ یہ بھی امام محمد کا قول ہے اور اس پر فتوی ہے۔(ردالمحتار 664/1۔) علامہ کشمیری نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہؓ سے اس عمل کی جو نفی منقول ہے اس سے مراد وجوب کی نفی ہے۔(والنفی فی المتون محمول علی نفی الوجوب ۔فیض الباری۔377/2) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن استسقاء کے لئے نکلے تو ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔اذاں واقامت کے بغیر، پھر خطبہ دیا اور دعا کی اور قبلہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔پھر اپنی چادر کو پلٹ دیا اور دائیں کو بائیں پر اور بائیں کو داہنے (کندھے) پر کرلیا۔(رواہ احمد وابن ماجہ ۔نیل الاوطار 4/4)
چادر اُلٹنے سے مقصود نیک فالی ہے اور دعا ہی کا ایک حصہ ہے کہ اے اللہ! جس طرح چادر الٹ دی گئی ہے اسی طرح تو بھی موجودہ صورت حال کو بالکل پلٹ دے، قحط کے بدلے فراوانی اور خشک سالی کی جگہ باران رحمت سے سیراب کردے چنانچہ حدیث میں ہے: وحول رداءہ یتحول القحط۔
آپ ﷺ نے اپنی چادر الٹ دی تاکہ قحط سالی پلٹ جائے ۔( سنن دارقطنی 66/2۔ کنزالعمال 280/8 ۔ نصب الرایہ 243/3)
چادر الٹنے کے اس عمل میں مقتدی شریک ہوںگے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان قدرے اختلاف ہے، امام محمد،لیث اور بعض مالکیہ کے نزدیک چادر الٹنے میں مقتدی امام کی اقتدا اور پیروی نہیں کریں گے جبکہ امام مالک،شافعی اور احمد کے یہاں اس عمل میں بھی دونوں شریک رہیں گے۔(معارف السنن 495/4) حدیث سے اسی نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے۔(وحول ردائہ فقلبہ ظھرالبطن وتحول الناس معہ۔ رواہ احمد : وفی روایۃ ’’ وحول الناس ‘‘ نیل الاوطار 12/4‘ نصب الرایۃ 243/2)

چادر الٹنے کا وقت:

حضرت ابوہریرہؓ کی مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ اور دعا کے بعد چادر الٹی جائے گی اور بعض دوسری احادیث سے اندازہ ہوتاہے کہ خطبہ کے بعد دعا سے پہلے چادر الٹنے کا وقت ہے۔ مثلا ابوداود میں ہے کہ جس وقت قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس وقت آنحضور نے چادر الٹنے کایہ عمل کیا وحول ردائہ حین استقبل القبلۃ(ابوداؤد 165/1 نیز دیکھئے‘ بخاری ومسلم وغیرہ۔) خطبہ کے وقت آپ کا رخ انور لوگوں کی طرف تھا اور خطبہ کے بعد دعا کے لئے قبلہ رو ہوگئے اور اس وقت چادراُلٹی(بذل المجہود 214/2) یہ تمام صورتیں جائز ہیں۔ ہرایک کی گنجائش ہے‘تاہم بہتر خطبہ کے بعد ہی ہے۔

دعا:

آخر میں امام قیام کی حالت میں قبلہ رو ہوکر دعا کرے اور تمام لوگ اس کی دعا پر آمین کہیں۔ دیگر دعاؤں کی بہ نسبت اس دعا میں اپنے ہاتھ خوب اوپر اٹھائے، یہاں تک کہ سر سے بلند ہوجائے۔ نیز ہتھیلیوں کی پشت آسمان کی طرف ہو،حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ استسقاء کے سوا دیگر دعاؤں میں اپنے ہاتھ کو اس قدر نہیں اٹھاتے تھے‘ اس میں آپؐ اپنے ہاتھ کو اس قدر بلند کرتے تھے کہ بغل کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی ۔(عن انس کان النبیؐ لایرفع یدیہ فی شئی من دعائہ الافی الاستسقاء فانہ یرفع حتی یری بیاض ابطیہ ۔متفق علیہ ۔مشکاۃ 131/1)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ استسقاء کے وقت آپ کی ہتھیلیاں زمین کی طرف ہوتیں۔(کان یستقی ھکذا یعنی مدیدیہ جعل بطونھما ممایلی الارض ۔ابوداؤد 454/1۔ ان النبی استسقی فاشار بظہر کفیہ الی السماء۔ مسلم 293/1)
استسقاء کی دعا میں بطور خاص نیکوکار اور بزرگان دین کے وسیلہ سے دعا کرنا چاہئے، حضرت انس سے مروی ہے کہ خشک سالی کے وقت حضرت عمر بن خطاب آنحضور ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور یوں کہتے کہ : اے اللہ ! ہم لوگ تیرے حضور اپنے رسولؐ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے اور آپ ہمیں بارش سے نواز دیتے تھے۔ اب ہم تیرے حضور اپنے نبیؐ کے چچا کے وسیلہ سے دعا مانگتے ہیں تو ہمیں خالی ہاتھ واپس نہ کر ۔(بخاری 137/1)

تکرار استسقا:

رسول ﷲ ﷺ نے جب بھی بارش کے لئے دعا کی فوراً بدلی اٹھی اور زور کی بارش ہوئی۔صحابہ کرام کے زمانے میں بھی یہی صورت حال تھی۔ اس لئے تکرار استسقاء کے لئے کوئی روایت نہیں،حدیث میں البتہ عام دعاوؤں کے سلسلہ میں تین مرتبہ مانگنے کا تذکرہ آیا ہے۔استسقاء بھی ایک طرح سے دعا ہی ہے اس لئے اگر پہلے دن نماز استسقاء پڑھنے کی وجہ سے بارش نہ ہو تو تین دن تک باہر نکل کر استسقاء کی نماز پڑھی جائے۔(مراقی الفلاح 359 اعلاء السنن 157/8)

نماز استسقاء سے پہلے بارش:

نماز استسقاء کے لئے وقت متعین کیا جاچکا ہے کہ اس سے پہلے بارش ہوگئی تو مستحب ہے کہ لوگ متعین جگہ پر جائیں اور شکر خداوندی بجا لائیں۔(درمختار 625/1 ، حاشیہ طحطاوی 359) اور دعا کریں کہ اللہ اس بارش کو عام اور نافع بنائے۔اگر باہر نکلنے میں دشواری اور پریشانی ہوتو پھر مسجد یا کسی محفوظ جگہ چلے جانا چاہئیے تاکہ اجتماعی طورپر شکریہ ادا کیا جاسکے۔امام نووی شافعی نے لکھا ہے کہ اس وقت بطور شکریہ دو رکعت نماز بھی مستحب ہے۔(شرح مھذب 96/5)

بارش کے وقت رسول ﷺ کا طرز عمل :

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ بارش کے وقت یہ دعا پڑھتے:
اللھم صیبا نافعا۔ (صحیح بخاری 140/1 سنن ابن ماجہ میں روایت کے الفاظ یہ ہیں :
اللھم صیباھنیا ۔(ابن ماجہ بہ شرح السندی 447/2)
بہتر ہے کہ ان دونوں کو ملاکر بار بار پڑھا جائے۔(شرح مہذب 93/50 حاشیہ طحطاوی 362)
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے کہ اتنے میں بارش شروع ہوگئی،اللہ کے رسول ﷺ نے کپڑا اتارا اور باہر نکل گئے یہاں تک کہ بھیگ گئے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا : یہ ابھی ابھی اپنے رب کے پاس سے آرہی ہے۔( لانہ حدیث عھد بربہ .صحیح مسلم 294/1 )
مستحب ہے کہ جب پہلی بارش ہوتو ستر کے علاوہ پورے بدن کو کھول کر بارش میں نکل جائے۔ (حاشیہ طحطاوی/362)

بارش بند ہونے کے لئے :

بارش کثرت سے ہونے لگے، سیلاب آجائے تو اس وقت نماز مشروع نہیں۔(الاتحاف 737/3)البتہ دعا کرنی چاہئیے،حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اس وقت آپ جمعہ کے خطبہ میں مشغول تھے، اس نے کہا: یا رسول اللہ !جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے. اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش بند ہوجائے تو آنحضور ﷺ نے ہاتھ اٹھایا اور ان الفاظ کے ساتھ دعا کی:
اللھم حوالینا ولا علینا اللھم علی الاکام والظراب وبطون الاودیۃ ومنابت الشجر .
اے اللہ ! بارش ہمارے اردگرد ہو اور ہمارے اوپر نہ ہو۔ اللہ یہ بارش پہاڑوں، چٹانوں اور باغات میں ہو۔ (بخاری 138/1)

مختلف مسائل:

نماز استسقاء کے لئے کوئی وقت متعین نہیں، اوقات مکروہ کے سوا دن و رات کے کسی بھی حصے میں پڑھنا درست ہے، تاہم دن کے شروع حصہ میں پڑھنا بہتر ہے،حضرت عائشہ سے منقول ایک حدیث میں رسول مقبول ﷺ کا یہی طرز عمل بتلایاگیا ہے۔(دیکھئے: ابوداؤد 165/1)
اس نماز کے لئے اذان واقامت بھی نہیں ہے۔ البتہ لوگوں کو جمع کرنے کی غرض سے اعلان کیا جاسکتا ہے۔(رحمۃ الامۃ. 34)
دعاء استسقاء میں مشرکوں اور کافروں کو شریک نہیں کیا جائے گا ، اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ نکلنا بھی چاہیں تو اس سے منع کیا جائے گا ۔(الدرالمختار 624/1 ،حاشیہ طحطاوی 362)
استسقاء کے لئے نکلنے سے پہلے بہتر ہے کہ تین دن کا روزہ رکھا جائے اور چوتھے دن نکلا جائے اور نکلنے سے پہلے صدقہ وخیرات کرنا نہ بھولے۔
اور ضعیف،کمزور اور بچوں کو بھی ساتھ میں رکھا جائے۔ جانور بھی ساتھ میں ہوں تو اور بہتر ہے۔اور ان کے بچوں کو ان سے جدا اور علٰحدہ کردیا جائے۔(درمختار مع الرد 234 ‘ حاشیہ طحطاوی 359)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے