مسئلہ امامت۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
اتحاد و اتفاق کی اہمیت کو ئی ’’نظری ‘‘ نہیں جس پر دلیل کی ضرورت ہو بلکہ ایک مشاہداتی اور بدیہی امر ہے جس سے ہر کس و ناکس واقف اور آگاہ ہے ، یہ کوئی فلسفیانہ نکتہ نہیں، جس سے صرف اہل عقل آشنا ہوسکیں ، کوئی علمی مسئلہ نہیں جسے عام مسلمان حل نہ کرسکیں ، بلکہ ہر خاص و عام ، دیہاتی اور شہری ، عالم اور ان پڑھ سب اس کی اہمیت سے واقف اور اس کی ضرورت سے آشنا ہیں ، رب کائنات نے اتحاد و اتفا ق کاحکم ان الفاظ میں دیا ہے :
’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘۔
’’اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور فرقہ بندی نہ کرو ‘‘۔(سورہ آل عمران:103)
اختلاف، انتشار اور باہمی نزاع اور جھگڑے کی قباحت و شناعت اور برائی سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے :
’’وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنِ‘‘۔
’’اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں نہ جھگڑو کہ اس سے تم لغزش کھا جاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔( سورۃ الانفال:46)
حدیث میں باہمی تعلقات کی درستگی کو نماز ، روزہ اور صدقہ سے افضل قرار دیا گیا ہے ،ارشاد نبویؐ ہے :
’’ الا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصدقۃ والصلاۃ قال قلنا بلیٰ یا رسول اللّٰہ قال اصلاح ذات البین وفسادات البین ھی الحالقۃ‘‘۔
’’کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتلاؤں جو نماز ، روزہ اور صدقہ سے افضل ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ضرور بتلائیے ، آپؐ نے فرمایا :باہمی تعلقات کو درست کرنا کہ آپس میں بگاڑ مذہب کو بنیاد سے ختم کرنے والا ہے‘‘۔( ابوداؤد، ترمذی)
اسلام میں جھوٹ کی شناعت و قباحت کس قدر ہے ؟ سب اس سے واقف ہیں ، لیکن اتحاد و اتفاق کی فضا بنانے کے لیے اس قدر قبیح اور بری چیز کو بھی گوارا کرلیا گیا ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایاہے : صرف تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے ، اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے ، دشمنوں سے جنگی راز چھپانے کے مقصد سے ، لوگوں کے درمیان صلح کی غرض سے ۔(ابوداؤد)
اسلام میں عبادات کے نام سے جتنے بھی فرائض ہیں ان میں کوئی بھی اجتماعی روح سے خالی نہیں ، خاص کر نماز میں یہ حیثیت اور دو چند ہوجاتی ہے ، پنج وقتہ نمازوں میں جماعت کی پابندی کو واجب قرار دیاگیا اور مختلف انداز ، مختلف پیرایہ میں اور اسلوب بدل بدل کر جماعت کی پابندی کی ترغیب دی گئی اور کچھ نمازیں مثلاً جمعہ اور عیدین تو جماعت کے بغیر درست ہی نہیں ،مگر افسوس کہ نماز ہی جیسی اہم عبادت کو اختلاف و انتشار کا سب سے بڑا ذریعہ بنالیا گیا ہے ، آج خانۂ خدا تنازعات کا مرکز سا بن گیا ہے جس میں اکثر اختلاف امامت کے سلسلے میں ہوتا ہے ، اس مضمون میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر کیا ہے اور اسلام کے اولین پیروکاروں کا طرز عمل کیا تھا ؟
اللہ کے رسول ﷺ کی نگاہوں سے غیب کے پردے کھول دیے گئے ، آپؐ نے مستبقل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا کہ امت میں اختلاف کے در آنے کا ایک بڑا سبب مسجد کی امامت بھی ہے ، اس لیے آپ نے بطور پیش بندی فرمایا :
’’صلوا خلف کل بر و فاجر‘‘۔
’’ ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھو ‘‘۔( الجامع الصغیرمع فیض القدیر:201/4)
آپؐ کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ پر جان قربان کردینے والے صحابہ کرام نے آپؐ کے اس فرمان پر جس طرح سے عمل کیا، ان سے پہلے اور ان کے بعد اس کی مثال ملنی مشکل ہے ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حجاج جیسے ظالم و جابر کی اقتدا میں بلاتامل نماز پڑھ لیتے تھے ، حضرت ابوسعید خدریؓ، مروان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ،ولید بن عقبہ جیسے شرابی کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے ،(دیکھیے فقہ السنہ:209/1)خود صحابہ کرام کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف رہا ہے لیکن اس کے باوجود بلاجھجک ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے،صحابہ کا خاموش طرز عمل ایک طرح سے اجماع اور اتفاق ہے کہ مسائل میں اختلاف کے باوجود اقتدا درست ہے ،(دیکھیے المغنی: 11/2،الانصاف:/109) یہی حال تابعین کرام اور فقہائے عظام کا بھی ہے ، فقہ مالکی کی مشہور کتاب ’’شرح کبیر‘‘ میں ہے :
’’ وجاز اقتداء بامام مخالف فی الفروع الظنیۃ کشافعی وحنفی و لو اتی بمناف لصحۃ الصلاۃ‘‘.
’’ایسے امام کی اقتدا جائز ہے جو فروعی ظنی مسائل میں ہم سے اختلاف رکھتا ہے جیسے شافعی و حنفی ، گرچہ وہ ایسا عمل کر گزرے جو نماز کی صحت کے منافی ہو ‘‘۔(الشرح الکبیر:333/1)
علامہ دسوقی اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ولواتی فی ذلک الامام المخالف فی الفروع بمناف لصحۃ الصلاۃ ای مناف علی مذہب الماموم والحال انہ غیر مناف علی مذہب الامام‘‘۔
’’اگر چہ وہ امام جو فروعی مسائل میں اختلاف رکھتا ہے نماز میں ایسا کام کر گزرے جو نماز کی صحت کے منافی ہے یعنی مقتدی کے مسلک کے اعتبار سے وہ نماز کے منافی ہے لیکن امام کے مذہب کے اعتبار سے منافی نہیں ہے ‘‘۔(حاشیہ الدسوقی:333/1)
ابن قدامہ، حنبلی مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’جن فروعی مسائل میں ہمارا اختلاف ہے ، جیسے اما م ابوحنیفہ ، مالک اور شافعی کے متبعین ، ان کی اقتدا میں نماز بلا کراہت درست ہے ، امام احمد سے اس کی صراحت منقول ہے ، اس لیے کہ صحابہ ، تابعین اور ان کے بعد کے لوگ فروعی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز پڑھا کرتے تھے ، گویا اس پر اجماع تھا ۔
…اگر امام نماز میں کسی ایسے فعل کو چھوڑ دیتا ہے جو مقتدی کے اعتقاد کے مطابق رکن و شرط ہے مگر امام کے اعتقاد کے مطابق نہیں ہے تو بھی اقتدا درست ہے ، امام احمد کے کلام سے یہی معلوم ہوتا ہے ‘‘۔( المغنی:11/2)
امام احمد کا نقطہ نظر تھاکہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ے ، امام مالک اور سعید بن المسیب خون کو ناقض وضو شمار نہیں کرتے ، امام احمد سے دریافت کیاگیا کہ کیا آپ ایسے شخص کی امامت میں نماز پڑھنا گوارہ کریں گے جو خون کو ناقض وضو نہیں سمجھتا؟ آپ کا جواب اس لائق ہے کہ اسے سرمہ چشم بصیرت بنالیا جائے ، فرماتے ہیں :
’’افلا نصلی خلف سعید بن المسیب ومالک‘‘ .
’’میں سعید بن المسیب اور امام مالک کے پیچھے نماز نہ پڑھوں گا ؟‘‘۔(حوالہ مذکور)
شافعی علماء کے یہاں اس مسئلے میں قدرے اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ اگر یقین ہو کہ امام مقتدی کے مذہب کے مطابق نماز صحیح ہونے کے لیے جو افعال ضروری ہیں ان کی پوری رعایت کرتا ہے یا رعایت کرنے اور نہ کرنے میں شک ہو تو اس وقت اقتدا درست ہے لیکن یقینی ذریعہ سے معلو م ہوجائے کہ امام مقتدی کے مسلک کی رعایت نہیں کرتا ہے تو ایسے امام کی امامت میں نماز درست نہیں ہے ، بعض شافعی علماء مثلاً اردنی ، حلیمی ، قفال اور رافعی وغیرہ کا رجحان ہے کہ ہر حالت میں اقتدا درست ہے ،(دیکھیے شرح مہذب: 288/2،فتح العزیزعلی ہامش المجموع:133/2)خود امام شافعی کے متعلق منقول ہے کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ کی قبر کے قریب فجر کی نماز ادا کی لیکن اپنے مسلک کے مطابق دعائے قنوت نہیں پڑھی اور ارشاد فرمایا:
’’ربما انحدرنا الی مذھب اھل العراق‘‘ .
کبھی ہم اہل عراق کے مذہب کو اختیار کرلیتے ہیں ۔۔(الانصاف:/110)
حنفی علماء میں قاضی خاں ، ابن نجیم مصری ، علاء الدین حصکفی وغیرہ کا رجحان ہے کہ شرائط و فرائض میں امام مقتدی کے مسلک کی رعایت کرتا ہے تو اقتداء درست ہے ورنہ نہیں ، اس کے برخلاف ابوبکر جصاص رازی، ہندوانی ، شیخ سراج الدین اور صاحب نہایہ وغیرہ کا خیال ہے بہر صورت اقتداء درست ہے ، (دیکھیے رد المحتار:494/1،البحرالرائق:38/2،فتح القدیر:146/1۔)
حنفی علماء کا یہ اختلاف اس پر مبنی ہے کہ نماز کی صحت کے لیے اصل مقتدی کے مذہب کا اعتبار ہے یا امام کے ؟ جو لوگ مقتدی کے مذہب کا اعتبار کرتے ہیں ،ان کے یہاں اقتداء کے درست ہونے کے لیے مقتدی کے مذہب کی رعایت ضروری ہے ، جن لوگوں کے یہاں اصل امام کا مذہب ہے ان کے یہاں رعایت نہ ہو پھر بھی اقتدا درست ہے ، اصولی اعتبار سے دیکھاجائے تو یہ آخری رائے ہی زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق اصل امام ہے ، اس لیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
’’الامام ضامن‘‘
امام ذمے دار ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ مقتدی کے لیے فاتحہ پڑھنے کو درست نہیں سمجھتے نیز ان کے یہاں نفل پڑھنے والے کی امامت میں فرض پڑھنے والے کی نماز صحیح نہیں ہے ، اس کے علاوہ اور بہت سے مسائل ہیں جس میں انہوں نے اصل امام ہی کو قرار دیا ہے ، علاوہ ازیں فقہ حنفی میں جصاص رازی کا جو مقام ہے و ہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے ، قاضی خاں، حصکفی اور ابن نجیم کو ان سے کیا نسبت؟
واضح رہے کہ خود امام ابوحنیفہ جب حج کرنے کے لیے جاتے تو مالکی امام کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے ، نیز فقہ حنفی کے اہم ستون اور عملی حیثیت سے فقہ حنفی کو نافذ و متعارف کرانے والے اور امام ابوحنیفہ کے بعد جن کا درجہ مسلم ہے اور انہیں کے ارشاد و عمل کو ترجیحی حیثیت حاصل ہے ، میری مراد اس سے امام ابویوسف ہیں ،ان کے متعلق مذکور ہے کہ انہوں نے ہارون رشید کی امامت میں نماز پڑھی اور نماز کا اعادہ نہیں کیا ، حالانکہ ہارون رشید نے پچھنا لگوا کر امامت کی تھی اور فقہ حنفی کے مطابق پچھنا لگوانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔( الانصاف:109)
اور اسی کے پیش نظر علامہ کشمیری لکھتے ہیں :
’’چاروں اماموں کے پیروکاروں کا آپس میں ایک دوسرے کی اقتدا کسی تفصیل اور کراہت کے بغیر درست ہے اور یہی ظاہر ہے اور شیخ ابن ہمام نے اپنے استاذ سراج الدین قاری الہدایۃ سے نقل کیاہے کہ فروعی مسائل میں مخالف کی اقتدا کی وجہ سے نماز فاسد ہونے کاقول متقدمین حنفیہ سے منقول نہیں ہے ‘‘۔(معارف السنن:331/2)
نیز وہ کہتے ہیں کہ :
’’عملی طور پر تمام سلف کا اتفاق ہے کہ فروعی مسائل میں مخالف کی اقتداء کسی تفصیل کے بغیر درست ہے ، چنانچہ وہ بے جھجک ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں اور یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ تم فروعی مسائل میں میر ی رعایت کرتے ہو یا نہیں ؟ اور کیا تم نے فلاں فلاں کام کیا ہے؟ … کچھ حضرات کہتے ہیں کہ اختلافی مسائل میں امام کے مسلک کا اعتبار ہوگا اور کچھ اس کے برعکس کہتے ہیں کہ مقتدی کے مسلک کا اعتبار ہوگا، لیکن میرے نزدیک حق وہ ہے جسے میں نے ذکر کیا اور یہ اپنے مسلک سے باہر نکلنا نہیں ہے بلکہ مسلک ہی پر عمل کرنا ہے ‘‘۔(معارف السنن:332/2)
اور علامہ بنوری ان کے متعلق لکھتے ہیں :
’’اور ہمارے شیخ نے فرمایا کہ حق یہ ہے کہ اس میں امام کے مسلک کا اعتبار ہوگا ،مقتدی کے مسلک کا نہیں‘‘۔(حوالہ مذکور 161/2)
یہ تفصیل فروعی مسائل میں اختلاف سے متعلق ہے ،اعتقادی مسائل میں اگر اختلاف ہے تو مخالف امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں فقہ حنفی میں ہمیں یہ وضاحت ملتی ہے :
’’غلام اور بدعتی کی امامت مکروہ تنزیہی ہے اور بدعت اللہ کے رسول ﷺ سے جو چیزیں مشہور ہیں ان کے خلاف اعتقاد رکھنے کانام ہے ، ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی شبہہ کی بنیاد پر ،اور ہر وہ شخص جو’’ اہل قبلہ ‘‘ میں سے ہو کسی بدعت کی وجہ سے اس کو کافر نہیں کہا جائے گا ، یہاں تک کہ ان خارجیوں کو بھی نہیں جو ہمارے خون اور مال کو حلال سمجھتے ہیں اور اللہ کے رسول کے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی رویت کے انکاری ہیں ، کسی تاویل اور شبہہ کی وجہ سے ، اس دلیل سے کہ ان کی گواہی قابل قبول ہے ، (حالانکہ فاسق اور کافر کی گواہی مقبول نہیں )…کسی نے فاسق یا بدعتی کی امامت میں نماز پڑھ لی تو وہ جماعت کا ثواب پائے گا ‘‘۔
ابن عابدین شامی اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’وہ جماعت کاثواب پائے گا ، اس جملہ سے معلوم ہوا کہ فاسق یابدعتی کے پیچھے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘۔( الدرمختار مع رد المحتار:415/1،باب الامامۃ)
اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ بدعت سے مراد اعتقادی اختلاف ہے ، بشرطیکہ وہ کفر کی حد تک نہ پہنچی ہو اور کلمہ گو جب تک وہ دین کے اصول اور ضروریات کو مانتا ہو ، کسی بدعت کی وجہ سے کافر نہیں کہا جائے گا اور ایسے بدعتی کی اقتدا میں نماز مکروہ تنزیہی ہے اور اس کی امامت میں پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے افضل اور بہتر ہے ہندوستان میں مشہور اسلامی جماعتوں کے درمیان اعتقادی اختلاف اس حد تک نہیں کہ ان کو کافر کہاجاسکے ، بلکہ بعض فرقوں میں تو یہ اختلاف بہت ہی معمولی ہے ، صرف لفظی اختلاف ہے ، ایک دوسرے کے نقطہ نظرکے سلسلہ میں غلط فہمی پیداہوگئی ہے ، لہٰذا ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز ہے ۔
منصب امامت کا تقاضا ہے کہ اس عہدہ پرفائز ہونے والا اخلا ق و کردار میں نمایاں حیثیت رکھتا ہو ، مثالی اوصاف کامالک ہو ، نیکوکار ، پرہیزگار ، شریعت کا عالم اور اس پر عامل ہو ، وہ ان خصوصیات کاحامل نہ ہو جس کی وجہ سے اس پر انگلیاں اٹھائی جاسکیں ، بدکار ، بدکردار اور بری عادت و خصلت کامالک اس مرتبہ کے لائق نہیں ہے ، تاہم ایسا کوئی شخص اس منصب پر قابض ہوجائے تو اسے مسئلہ بنا کر معاشرہ میں انتشار ، ٹکراؤ اور بکھراؤ کی فضا بنانا اس سے بدتر ہے ، خیر خواہی ، نصح ،ہمدردی اور گر د وپیش کے ماحول پر نظر رکھتے ہوئے اسے اس مقام و مرتبہ سے علاحدہ کرنے کی کوشش ہونی چاہیے ، لیکن اس کی وجہ سے آپسی بگا ڑ ، نزاع اور فساد کا اندیشہ ہو ، گروہی اختلاف کے سر اٹھانے کا ذریعہ بن سکتا ہو ، امت کے درمیان افتراق کا باعث ہو تو اس وقت اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنا ہی زیادہ بہتر ہے ، عبداللہ بن مسعودؓ اور دیگر صحابہ کرام کا طرز عمل ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے کہ وہ ولید بن عقبہ جیسے شرابی اور ابن عبید جیسے گمراہ کی امامت میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے ، ( دیکھیے فقہ السنہ:210/1، شرح فقہ اکبر:107)
امام ابوحنیفہ سے منقول ہے کہ ہرنیک وبد
کے پیچھے نماز پڑھ لینا اہل سنت والجماعت کی پہچان ہے ۔
’’ سئل عن ابی حنیفۃ عن مذہب اھل السنۃ والجماعۃ فقال ان تفضل الشیخین ابابکروعمر وتحب الختنین ای عثمان وعلیا وان تری المسح علی الخفین وتصلی خلف کل بروفاجر‘‘۔
’’امام ابوحنیفہ سے اہل سنت والجماعت کے مسلک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ وہ دونوں شیخ یعنی ابوبکرؓ و عمرؓ کو افضل جانے (اللہ کے رسول ﷺ کے )دونوں داماد یعنی عثمانؓ و علیؓ سے محبت رکھے ، موزہ پر مسح کو جائز سمجھتا ہو اور ہر نیک و بد کے پیچھے نماز پڑھ لے ‘‘۔( شرح فقہ اکبر:107)
ملا علی قاری حنفی فرماتے ہیں کہ فاسق و فاجر امام کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بدعت ہے :
’’فمن ترک الجمعۃ والجماعۃ خلف الامام الفاجر فھو مبتدع عند اکثر العلماء والصحیح انہ یصلیھا ولا یعیدھا‘‘۔
’’جوکوئی فاجر امام کی اقتدا میں جمعہ اور جماعت میں شریک نہ ہو ، وہ اکثر علماء کے نزدیک بدعتی ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے اور اس کا اعادہ نہ کرے ‘‘۔۔( حوالہ مذکور:106)
واقعہ یہ ہے کہ امامت سے متعلق آئے دن نت نئے جھگڑے حساس اور درد مند لوگوں کے لیے نہایت ہی تکلیف دہ امر ہے ، اس کا تعلق صرف مسجد ہی سے نہیں بلکہ علماء کا وقار اس سے متعلق ہے ، مذہبی شخصیتوں نیز مذہب اسلام کی عزت و آبرو کا مسئلہ ہے ، غیر وں کو طعنہ زنی کا موقع ملتا ہے اور اپنے لوگ دین سے دور بلکہ بیزار ہوجاتے ہیں ، رہی سہی اسلامی وحدت کو ٹھیس پہنچتی ہے ، تفرقہ پسند طبیعتوں کو شہ ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر اسلام اور اسلاف کی روایات کے خلاف ہے ،اسلامی اخوت ،وحدت اور مسجد کی حرمت کے پیش نظر اصحاب علم و دانش اور مذہبی اشخاص کیا تھوڑی سی فراخ چشمی اور کشادہ دلی کے لیے تیار ہیں ؟؟؟