فیملی پلاننگ۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
نکاح کا بنیادی مقصد نسل انسانی کی افزائش ہے اور اسی غرض اساسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن حکیم میں عورت کو ’’کھیت‘‘ سے تشبیہ کی گئی ہے:
فأتوا حرثکم أنی شئتم۔
تم اپنی کھیتی میں آؤ جس طرح چاہو۔ (البقرہ:232)
اور حدیث میں ایسی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جس میں تولیدی صلاحیت زیادہ ہو۔
تزوجوا الودود والولود ۔
ایسی عورت سے نکاح کرو جو زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو.(سنن ابی داؤد، نسائی۔ المشکاۃ/267)
اور ایسے طریقے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جس سے مقصود افزائش نسل کو روکنا اور بند لگانا ہو۔
نیز اسلام نے ہمیں یہ عقیدہ دیا ہے کہ اللہ ہر چیز سے باخبر ہے اور اس کا ہر کام حکمت سے پر ہے ، اس نے ہر چیز ضرورت کے مطابق پیدا کی ہے ، کوئی چیز ضرورت سے زائد، فالتو اور بے کار نہیں ہے :
انا کل شیء خلقناہ بقدر۔
ہم نے ہر چیز کو اندازہ سے پیدا کیا ہے۔(سورہ القمر:49)
وہ خالق ہے ، پروردگار ہے اور ساتھ ہی ہرجاندار کی رزق رسانی کا ذمہ دار بھی۔
وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا۔۔ روئے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کا رزق اللہ کے ذمہ ہے. (سورہ ہود:6)
لیکن وحی الٰہی سے ناآشنا ذہن یہ سوچتا ہے کہ اس کے دوش ناتواں ہی پر رزق رسانی کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے ، لہٰذا نسل کی افزائش پر روک نہیں لگاۓ گا تو وہ کیسے کھلائے گا؟ کہاں سے انتظام کرے گا؟ اسی طرح سے نسل بڑھتی رہی تو ترقی رک جائے گی اور معیار زندگی پست سے پست تر ہوجائے گا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسی سوچ اور فکر کا انسان معصوم کلیوں کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیتا تھا اور انھیں زندگی کی نعمت سے محروم کر دیتا تھا۔
آنحضور ﷺ کے زمانے تک یہ صورت برقرار رہی کہ غربت اور افلاس کے ڈر سے بچوں کو زندہ دفن کردیاجاتھا، قرآن حکیم نے بڑی شدت اور سختی کے ساتھ اس پر پابندی لگائی۔ فرمان ربانی ہے:
لاتقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقکم وایاکم ان قتلھم کان خطأ کبیرا ۔
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تمہیں بھی۔ یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔(سورہ بنی اسرائیل/31)
اور اس جدید دورمیں جاہلیت کی تاریخ دہرائی جارہی ہے اور فرق صرف اس قدر ہے کہ اس گھناونے اور بھیانک عمل پر الفاظ کا خوبصورت سا پردہ ڈال دیا گیا ہے اور برتھ کنٹرول یا فیملی پلاننگ کا نام دے دیا گیا ہے، یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پرانی چیز کا نیانام ہے ، نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔ ؎
نیا جال لایا پرانا شکاری۔
اس وقت فیملی پلاننگ کی جو شکلیں رائج ہیں وہ مجموعی اعتبار سے تین طرح کی ہیں:
1-عارضی طریقے۔
2-مستقل طریقے۔
3-اسقاط حمل۔
1-عارضی طریقے:
یعنی ایسی کوئی تدبیر اختیار کرنا کہ قوت تولید باقی رہے لیکن حمل نہ ٹھہرے، اس وقت اس کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔
1-نرودھ۔ (condom)
2-لوپ اور کوائل۔
3-مانع حمل دوائیں۔
4-پانی کی پچکاری سے دھونا ۔(duch) عارضی طریقے ہی کی ایک صورت عزل (withrawal) ہے ، عزل کا مفہوم یہ ہے کہ جماع کے وقت منی نکلنے سے پہلے ہی عورت سے علاحدہ ہوجائے۔
احادیث میں عزل سے متعلق تفصیلی تذکرہ ملتاہے مگر بظاہر ان میں ایک گونہ اختلاف محسوس ہوتا ہے، کچھ حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ عزل جائز ہے جبکہ بعض دوسری حدیثوں سے نادرستگی اور ناپسندیدگی کا اظہار ہوتاہے، جن حدیثوں میں جواز کا تذکرہ ملتاہے ، ان میں سے بعض یہ ہیں:
1- عن جابر قال کنا نعزل علی عھد رسول اللہ ﷺ فبلغ ذلک النبی ﷺ فلم ینھانا۔
حضرت جابر کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں عزل کیاکرتے تھے، آپ ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی لیکن آپ ﷺ نے منع نہیں کیا۔(صحیح مسلم 465/1)
2- حضرت جابر ہی سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں عزل کیاکرتے تھے اور قرآن نازل ہورہاتھا۔(کنا نعزل علی عھد رسول اللہ ﷺ والقرآن ینزل ۔مسلم465/1) مشہور محدث سفیان بن عیینہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر عزل ممنوع اور ناجائز ہوتا تو قرآن ضرور اس سے منع کرتا۔(لوکان شیئا ینھی عنہ نھانا عنہ القرآن (حوالہ سابق)
3- عن ابی سعید الخدری ان رجلا قال یا رسول اللہ ان لی جاریۃ وانا اعزل عنھا وانا اکرہ أن تحمل وانا ارید ما یرید الرجال، ان الیھود تحدث ان ذلک مؤدۃ الصغری قال کذبت الیھود ولو اراد اللہ ان یخلقہ ما استطعت ان تصرفہ.
حضرت ابوسعید خدری نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ً!میری ایک باندی ہے اور میں اس سے عزل کرتاہوں اور پسند نہیں کرتا کہ وہ حاملہ ہو لیکن میں اس سے صحبت بھی کرنا چاہتا ہوں حالانکہ یہود کہتے ہیں کہ یہ عزل چھوٹے پیمانے پر زندہ دفن کرنا ہے ، آنحضور ﷺ نے فرمایا : یہود جھوٹے ہیں، اگر اللہ پیدا ہی کرنا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔(سنن ابوداؤد295/1، سنن ترمذی216/1)
4- عن جابر قال ان رجلا أتی رسول اللہ ﷺ فقال ان لی جاریۃ ھی خادمتنا وساقینا فی النخل وانا اطوف علیھا واکرہ ان تحمل فقال علیہ الصلاۃ والسلام اعزل عنھا ان شئت فانہ سیاتیھا ما قدر لھا.
حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہاکہ میری ایک باندی ہے جو ہماری خدمت اور کھجور کے باغ کی سینچائی کرتی ہے ، میں اس کے ساتھ سوتا بھی ہوں لیکن یہ پسند نہیں کرتا کہ حاملہ ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایاکہ اگرتم چاہو تو اس سے عزل کرو کیونکہ جو اس کے مقدر میں ہے وہ ہوکر رہے گا۔(صحیح مسلم 465/1)
یہ حدیثیں عزل کے جائز اور درست ہونے کے سلسلہ میں بالکل ظاہر ، واضح اور صریح ہیں، ان کے برخلاف جن احادیث سے کراہت کا اظہار اور ناپسندیدگی کا اشارہ ملتاہے، وہ یہ ہیں:
1- عزل سے متعلق دریافت کیے جانے پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ذلک الوأد الخفی.
یہ پوشیدہ طور سے زندہ دفن کردینا ہے۔ (حوالہ سابق465/1)
2- حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیاگیا تو فرمایاکہ تمہارا کیا نقصان ہے ، اگر تم ایسانہ کرو جو مقدر ہے وہ تو ہوکررہے گا .( لا علیکم الا تفعلوا ذاکم فانما ھوالقدر. حوالہ مذکور 466/1باب جواز الغیلۃ)
حدیث کے ایک راوی محمدبن سیرین کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا یہ فرمانا کہ تمہارا کیا نقصان ہے ، اگر تم ایسا نہ کرو ممانعت سے زیادہ قریب ہے۔(قولہ لاعلیکم اقرب الی النھی۔حوالہ مذکور 465/1)
3- حضرت ابوسعید خدری کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عزل کا تذکرہ ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا وہ کیا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا عورت ابھی بچے کو دودھ پلا رہی ہوتی ہے اور شوہر اس سے صحبت کرنا چاہتاہے لیکن یہ پسند نہیں کرتا کہ حاملہ ہو، ایسے ہی مالک اپنی باندی کے پاس جانا چاہتاہے لیکن یہ گوارا نہیں کرتا کہ اسے حمل رہ جائے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایاکہ کیا حرج ہے اگر تم ایسا نہ کرو، جو مقدر ہے وہ ہوکر رہے گا۔ (فلاعلیک الا تفعلوا ذاکم فانما ھو القدر.(حوالہ مذکور)
حدیث کے راوی ابن عون کہتے ہیں جب میں نے یہ حدیث حسن بصری کو سنائی تو وہ بول اٹھے کہ اللہ کی قسم یہ تو ڈانٹنا ہے۔ (واللہ لکان ھذا زجر.حوالہ سابق)
عزل سے متعلق مختلف حدیثوں کی وجہ سے صحابہ کرام کے درمیان بھی یہ مسئلہ
اختلافی رہاہے ۔ حضرت عمرؓ، ابن عمر، ابن مسعود اسے مکروہ سمجھتے ہیں(المغنی 236/7) جبکہ حضرت علیؓ، سعد بن ابی وقاص ، ابی بن کعب، زید بن ثابت، جابر، عبداللہ بن عباس، خباب بن الارت اور حسن بن علی کا رجحان جواز کی طرف ہے بلکہ اکثر صحابہ کرام کا یہی نقطہ نظر ہے ، تابعین میں سے سعید بن المسیب، طاؤس ، عطاء اور نخعی کا بھی یہی خیال ہے ، امام اعظم ابوحنیفہ، مالک ، شافعی اور احمدبن حنبل کی بھی یہی رائے ہے ۔(المغنی 236/7، الاتحاف 185/6، فتاویٰ ابن تیمیہ 108/32)
جن احادیث سے ممانعت یا ناپسندیدگی کا اشارہ ملتاہے کہ ان کی یہ حضرات مختلف توجیہیں کرتے ہیں، علامہ بیہقی اور امام غزالی وغیرہ کا خیال ہے کہ ان حدیثوں سے صرف ترک افضل اور خلاف اولیٰ کا اظہار ہوتاہے ، ممانعت یا مکروہ تحریمی معلوم نہیں ہوتی ہے ۔(الفتح الباری 385/9، احیاء علوم الدین مع الاتحاف 193/6) امام طحاوی کا رجحان ہے کہ جن معاملات میں وحی نہ ہوتی ان میں آنحضور ﷺ یہود کی موافقت پسند کرتے تھے ، اس لیے آپ ﷺ نے پہلے یہود کے نظریہ کے مطابق عزل کو پوشیدہ طور سے زندہ دفن کرنا (وأد خفی) سے تعبیر فرمایا لیکن پھر وحی کے ذریعہ آپ ﷺ پر یہود کی غلطی واضح ہوگئی تو فرمایاکہ یہود جھوٹے ہیں۔ اللہ جسے پیدا کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔( کذبت یہود ولو اراد اللہ ان یخلقہ ما استطعت ان تصرفہ ۔الفتح الباری385/9) امام طحاوی کے خیال کی تائید ان روایتوں سے ہوتی ہے جن میں ہے کہ بعض صحابہ کرام بھی یہود کے نظریہ کے مطابق عزل کو چھوٹے پیمانے پر زندہ درگور کرنا۔ (وأد اصغر) کہا کرتے تھے، چنانچہ عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس اور بعض دوسرے صحابہ کرام کا یہی خیال تھا مگر جب اصل صورت حال سامنے آگئی تو اس
سے رجوع کرلیا۔(قال ابن عباس العزل ھو الوأد الاصغر۔احیاء علوم الدین مع الاتحاف 194/6۔وعن عباس انکر ان یکون العزل وأدا (الفتح الباری 386/9) اور دیکھئے اعلاء السنن 401/17) عن ابن مسعود قال فی العزل ھو موأدۃ الصغری قال الھیثمی رجالہ رجال الصحیح وقد رجع عنہ ۔اعلاء السنن402/17) نیز حضرت عمر بھی اسے مکروہ سمجھتے تھے لیکن جب ایک مجلس میں حضرت علیؓ نے اس نظریہ پر علمی اور عقلی انداز سے نقد کیا تو پھر انھوں نے اس کی تائید فرمائی۔ چنانچہ حضرت عدی بن عبداللہ کی روایت ہے کہ
حضرت عمرؓ کے پاس صحابہ کرام کے درمیان عزل کا تذکرہ چھڑگیا اور مختلف رائیں سامنے آئیں، حضرت عمر نے کہا آپ جیسے پاکباز اور جنگ بدر میں شامل لوگوں میں اختلاف ہے تو آپ کے بعد لوگ کیا کریں گے؟ پھر دیکھاکہ دو آدمی چپکے چپکے کچھ بات کرہے ہیں تو پوچھا کہ یہ کیسی سرگوشی ہے؟ ان لوگوں نے کہاکہ یہود عزل کو چھوٹے پیمانہ پر زندہ دفن کرنا کہتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا یہ زندہ دفن کرنا کیسے ہوسکتا ہے؟ زندہ دفن کرنا تو اسی وقت ہوگا جبکہ جنین پر سات مرحلے گذر جائیں پھر آپ نے قرآن کریم کی آیت تلاوت کی جن میں ان مراحل کا تذکرہ ہے کہ مٹی کا خلاصہ پہلے نطفہ بنتاہے پھر جما ہوا خون پھر گوشت کا لوتھڑا پھر ہڈی پھر گوشت پوست، ان سب کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے (روح پھونکے جانے سے پہلے ہی زندہ درگور کرنا کیسے ہوسکتاہے۔) حضرت عمرؓ نے یہ لطیف استدلال سن کر کہاکہ آپ نے بالکل درست کہا، اللہ آپ کی عمر طویل کرے۔( صدقت اطال اللہ بقاءک.سندہ صحیح .اعلاء السنن401/17) سندہ جید.فتح الباری 386/9۔ نیز دیکھئے الاتحاف 194/6)
واضح رہے کہ یہود کے قول چھوٹے پیمانے پر زندہ درگور کرنا (مؤدۃ صغریٰ) اور حدیث میں وارد لفظ "وأد خفی”(پوشیدہ طور سے زندہ دفن کرنا) میں بظاہر کوئی خاص فرق نہیں ہے ، ایک ہی حقیقت کی ترجمانی مختلف الفاظ میں کی گئی ہے ۔
غرضیکہ احادیث سے عزل کا جائز ہونا ثابت ہے اور دریائے حدیث و فقہ کے شناور فقہاء اور محدثین کا عام رجحان بھی یہی ہے ،تاہم اس سلسلہ کی تمام حدیثوں پر نگاہ رکھنے والے سے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے، اس طریق کار کو پسند نہیں فرمایا گیا ہے کیونکہ اس میں تقدیر سے ایک گونہ فرار ہے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حدیث میں کہاگیاہے :
فلا علیکم الا تفعلوا فانما ھو القدر۔
نیز ارشادہے کہ تم عزل کیوں کرتے ہو؟ اس لیے کہ جو روح کہ دنیامیں آنے والی ہے وہ آکررہے گی۔( لم یفعل ذلک احدکم فانہ لیست نفس مخلوقۃ الا اللہ خالقھا.صحیح مسلم 465/1)
عزل ہی کی طرح دیگر عارضی طریقوں کا بھی حکم ہے ، چنانچہ فقہاء نے عزل پر قیاس کرتے ہوئے لکھاہے:
یجوز للمرأۃ ان تسد فم الرحم من وصول ماء الرجل الیہ لاجل منع الحمل واشترط صاحب البحر لذالک اذن الزوج.
عورت کے لیے درست ہے کہ مرد کی منی کو بچے دانی تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اس کا منھ بند کردے اور علامہ ابن نجیم مصری نے اس کے لیے شوہر کی اجازت ضروری قرار دی ہے ۔(رد المحتار 412/2)
امام ابن تیمیہ سے دریافت کیا گیا کہ جماع کے وقت عورت کے لیے دوا رکھنا
جائز ہے تاکہ منی بچے دانی تک نہ پہنچ سکے؟ نیز اگر دوا اندر ہی رہ جائے تو کیا غسل کے بعد اسی حالت میں نماز اور روزہ درست ہے؟ تو انھوں نے جواب دیاکہ دوا کی موجودگی میں بھی نماز اور روزہ درست ہے ، البتہ دوا رکھنے کے سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ، احتیاط اسی میں ہے کہ ایسانہ کرے۔(اما صلاتھا و صومھا فصحیحۃ وان کان ذلک الدواء فی جوفھا اما جواز ذلک ففیہ نزاع بین العلماء والأحوط ان لا یفعل۔فتاوی ابن تیمیہ 272/32)
لہٰذا کسی عذر کی وجہ سے عارضی طریقوں کو اختیار کرنا درست ہے لیکن اسے ایک عام طرزعمل اور قومی پالیسی بنالینا احکام اسلام کے قطعا خلاف ہے۔
چونکہ یہ ایک انفرادی معاملہ ہے ، اس اعتبار سے عذر بھی مختلف ہوسکتے ہیں، تاہم عام طور سے جو عذر پیش آسکتے ہیں ،وہ یہ ہیں:
1-حمل کی وجہ سے ماں کی زندگی خطرہ میں ہو ، کسی شدید بیماری کا اندیشہ ہو، اس کے اندر زچگی برداشت کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔
2-حمل کی وجہ سے دودھ پیتے بچے کی صحت پر خراب اثر پڑنے کا احتمال ہو، اس صورت کا تذکرہ خود حدیث میں بھی ہے لیکن اس سلسلہ کی احادیث میں بظاہر کچھ اختلاف ہے، چنانچہ ابوداؤد میں ہے :
’’لاتقتلوا اولاد کم سرا فان الغیل یدرک الفارس فیدعثرہ عن فرسہ‘‘۔
اپنے بچوں کو پوشیدہ طور سے قتل مت کرو کیونکہ دودھ پیتے بچے کی موجودگی میں جماع کرنے سے اس کی صحت پر خراب اثر پڑتا ہے اور یہ خراب اثر اس کی جوانی تک باقی رہتاہے کہ جوانی میں اگر وہ گھوڑ سواری کرتاہے تو اس کمزوری کی وجہ سے اس پر سے گر پڑتاہے۔(سنن ابوداؤد 562/2 کتاب الطب)
ابن ماجہ میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہ روایت اس طرح ہے:
’’لاتقتلوا اولادکم سرا فوالذی نفسی بیدہ ان الغیل لیدرک الفارس علی ظھر فرسہ حتی یصرعہ‘‘.
اپنی اولاد کو پوشیدہ طور سے قتل مت کرو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ دودھ پیتے بچے کی موجودگی میں جماع کرنے کی وجہ سے اسے جو کمزوری لاحق ہوتی ہے وہ جوانی میں گھوڑے کی پشت پر ظاہر ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ اس سے گر پڑتا ہے۔(سنن ابن ماجہ/145کتاب النکاح)
جبکہ بعض روایتیں اس کے برخلاف ہیں مثلاً مسلم شریف میں ہے :
’’لقد ھممت ان انھی عن الغیلۃ ثم رأیت الفارس والروم یفعلونہ ولا یضر اولادھم ذلک شیئا‘‘۔
میری خواہش تھی کہ لوگوں کو دودھ پیتے بچے کی موجودگی میں جماع سے روک دوں ، پھر میں نے دیکھا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں مگر ان کے بچوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔(صحیح مسلم466/1)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اور کہا میں اپنی بیوی سے عزل کرتا ہوں ، آنحضور ﷺ نے فرمایا: ایسا کیوں کرتے ہو؟ عرض کیا کہ بچوں کی صحت کے خوف سے۔ (اشفق علی ولدھا) یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: اگریہ نقصان دہ ہوتاتو فارس اور روم والوں کو بھی نقصان پہنچاتا۔(حوالہ سابق)
ان مختلف احادیث میں موافقت بیان کرتے ہوئے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ دودھ پیتے بچے کی موجودگی میں جماع سے نقصان کا نظریہ عربوں کا تھا، اس عمومی خیال کی وجہ سے آپ ﷺ نے بھی اس سے منع فرمایا لیکن جب مشاہدہ اور تجربہ سے اس کے خلاف ہونا ثابت ہوگیا تو آپ ﷺ نے منع کرنا چھوڑدیا لیکن ایک مشہور محدث اور شارح حدیث علامہ سندی کہتے ہیں کہ یہ توجیہ بہت بعید ہے ، اس لیے اگر ممانعت عربوں کے خیال کی وجہ سے تھی تو آپ ﷺ نے قسم کھاکر کیوں کہا؟۔ محض لوگوں کے کہنے کی وجہ سے آنحضور ﷺ بذریعہ قسم ممانعت نہ کرتے.( لوکان علی زعم العرب لما استحسن القسم باللہ) لہٰذا حدیث سے قریب تر مفہوم یہ ہے کہ جن حدیثوں میں محض خواہش کا اظہار ہے اور ممانعت نہیں ہے وہ پہلے کی ہیں لیکن بعد میں اس کا نقصان آپ ﷺ پر واضح ہوگیا تو صراحتاً اس سے منع فرمادیا۔(حاشیۃ السندی علی ابن ماجہ 621/2)
علامہ ابن قیم نے اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دودھ پیتے بچے کی موجودگی میں جماع بچہ کے حق میں نقصان دہ تو ہے تاہم یہ نقصان کچھ زیادہ نہیں ہے ، لیکن اس نقصان کے اندیشہ سے جماع پر پابندی لگا دینے کی وجہ اس سے زیادہ مفسدہ پیدا ہوسکتاہے کہ مردوں کو مسلسل دو سال تک اپنے اوپر جبر کرنا بڑا مشکل ہوگا، خاص طور سے نوجوانوں اور ارباب شہوت کے کسی برائی میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے، لہٰذا آپ نے اس قوی تر مفسدہ کی وجہ سے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔(مفتاح دارالسعادۃ/146)
اس وقت چونکہ عارضی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اس مفسد سے بچا جاسکتا ہے نیز بچوں کی صحت کا تحفظ بھی ہوسکتاہے ، اس لیے دوران رضاعت یا تو مباشرت سے بچنا چاہیے یا ان عارضی طریقوں کو اختیار کرنا چاہیے۔
3-بچوں کی تربیت اور نگرانی کا مناسب انتظام مشکل ہو جس کی وجہ سے ان کے بگڑ جانے اور خراب ہوجانے کا امکان ہو، چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں:
ان خاف من الولد السوء فی الحرۃ یسعہ العزل بغیر رضاھا لفساد الزمان۔
آزاد عورت سے جماع کرنے میں خراب بچے کا اندیشہ ہو تو اس کی رضامندی کے بغیر عزل کرنا درست ہے ، فساد زمانہ کی وجہ سے (رد المحتار)
معاشی پریشانی کے خوف سے ان عارضی طریقوں کے استعمال کی اجازت نہیں کیونکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ رازق ہے ، وہ افزائش نسل کے ساتھ وسائل معاش میں بھی اضافہ کرتاہے، نیز محض حسن و جمال کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضبط تولید نادرست ہے کہ زیبائش و آرائش کا یہ مبالغہ آمیز تصور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
2-مستقل طریقے:
مرد و عورت کے اعضائے تناسل میں ایسی کوئی تبدیلی کردی جائے کہ ہمیشہ کے لیے پیدائش کا سلسلہ بند ہوجائے، اس کے زمرے میں درج ذیل طریقے آتے ہیں:
1-نسبندی.(vesectomy)
2-گرہ بندی.(tuballigation)
3-اخراج رحم.(hystertomy)
زمانہ قدیم میں اس مقصد کے تحت لوگ خصی ہوجاتے تھے ، روایتوں میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کرام نے گوشہ نشینی اور عبادت میں کامل یکسوئی کے مقصد سے خصی ہوجانے کی اجازت چاہی تو آنحضور ﷺ نے شدت کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرمایا، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :
رد رسول اللہ ﷺ علی عثمان بن مظعون التبتل ولو اذن لاختصینا۔
رسول اللہ ﷺ نے عثمان بن مظعون کو گوشتہ نشینی کی خواہش کو رد کردیا اگر آپ ﷺ اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہوجاتے۔(صحیح بخاری759/2)
حضرت عثمان بن مظعون ہی کے متعلق ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
قال یا رسول اللہ انی رجل یشق علی العزوبۃ فاذن لی فی الخصاء قال لا ولکن علیک الصیام۔
حضرت عثمان نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ پر تجرد کی زندگی گراں ثابت ہورہی ہے ، لہٰذا آپ مجھے خصی ہوجانے کی اجازت دے دیجئے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، ہاں تم روزہ رکھا کرو۔(فتح الباری 146/9)
حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں رہتے اور ہمارے ساتھ ہماری عورتیں نہیں ہوتی تھیں تو ہم نے اللہ کے رسول ﷺ سے دریافت کیاکہ کیوں نہ ہم خصی ہوجائیں تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا۔(نغزو مع رسول اللہ ﷺ و لیس لنا شیء فقلنا الا نستخصی فنھانا عن ذلک۔ صحیح بخاری759/2) )
حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے شکایت کی کہ میں کنوارا ہوں اور بیوی کے خرچ کا بار نہیں اٹھا سکتا ہوں ، کیا مجھے خصی ہوجانے کی اجازت ہے؟ تو آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خصی بنے یا بنائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(شکا رجل الی رسول اللہ ﷺ العزوبۃ فقال ااختصی ؟ قال لیس منا من خصی أو اختصی (فتح الباری 149/9)
میں نے متعدد حدیثیں اس لیے نقل کردی ہیں کہ ان احادیث پر غور کی نگاہ اس حقیقت کو اچھی طرح آشکارا کردے گی اور اصحاب فکر و نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہ جائے گی کہ جسم کے کسی حصہ میں ایسی کوئی تبدیلی جس سے اس کا اصل مقصد ہی ختم ہوجائے کسی صورت جائز نہیں ہے، صحابہ کرام ایک نیک مقصد اور ضرورت کی بناپر اس کی اجازت چاہتے ہیں اور اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہیں مگر ان کی یہ آرزو بارگاہِ رسالت میں رد کردی جاتی ہے ، وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کرکے ہم ہر طرح کے بکھیڑوں سے دور ہٹ کر مکمل یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکیں گے۔ وہ تقاضائے نفس سے پریشان ہیں مگر نکاح کی استطاعت نہیں ، ناداری اور غربت کی وجہ سے بیوی کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے سوچتے ہیں کہ اپنی اس خواہش کو مکمل طور سے ختم کرلیں لیکن پیغمبر خدا کی طرف سے حکم ہوتاہے کہ نہیں ، ایسا کرنا جائز نہیں،کیونکہ یہ اللہ کی ساخت میں تبدیلی اور اس کی بناوٹ میں دخل اندازی اور اس کی تخلیق کے مقصد کو ختم کرنا ہے۔
اور اس کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کیاجائے سب کا یہی حکم ہوگا کیونکہ کسی حکم کا دارومدار اثر اور نتیجہ پر ہوتاہے، لہٰذا خصی ہوجانے اور نس بندی وغیرہ میں اگرچہ اس حیثیت سے فرق ہے کہ خصی بن جانے میں تولیدی صلاحیت اور خواہش دونوں ختم ہوجاتی ہے اور نس بندی میں صرف قوت تولید بے کار ہوجاتی ہے اور خواہش برقرار رہتی ہے، لیکن دونوں کا اثر اور نتیجہ ایک ہے ۔ دونوں ہی ہمیشہ کے لیے افزائش نسل کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں، ظاہرہے کہ کسی چیز کی اصل منفعت اور مقصد کو ختم کردینے یا بعینہٖ کسی چیز کو ختم کردینے کا حکم یکساں ہے، کسی کے ہاتھ کو مکمل طور سے کاٹ دینے یا اسے بے کار کردینے میں فرق کا کوئی قائل نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ فقہائے اسلام نے کسی عضو کو کاٹ دینے یا اس کے فائدے کو زائل کردینے کا حکم ایک بیان کیاہے،علامہ کاسانی کا فقہ و فتاویٰ میں جو ممتاز مقام ہے وہ محتاج اظہار نہیں ہے ، وہ اپنی مشہور زمانہ کتاب بدائع میں لکھتے ہیں:
اماالذی فیہ دیۃ کاملۃ فالکلام فیہ فی موضعین أحدھما فی بیان سبب الوجوب والثانی فی بیان شرائطہ ، أما السبب فھو تفویتا لمنفعۃ المقصودۃ من العضو علی الکمال وذلک فی الاصل بأحدین الامرین ابانۃ العضو واذھاب معنی العضو مع بقاء العضو صورۃ۔ جن چیزوں میں مکمل دیت ہے ان میں دو باتوں پر غور کرنا ہے ، ایک سبب وجوب اور دوسری شرط، رہا سبب تو وہ اس نفع کو ختم کردینا ہے جو کسی عضو سے مقصود ہے ، اس کی دو صورت ہوسکتی ہے ایک یہ کہ وہ عضو ہی جسم سے الگ کردیاجائے، دوسرے یہ کہ وہ عضو بظاہر توباقی رہے لیکن جو اس سے مقصود ہے وہ برقرار نہ رہے۔(البدائع الصنائع 311/7)
آگے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی کسی کی پشت پر چوٹ لگادے جس کی وجہ سے منی پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو اس میں بھی مکمل خونبہا ہے کیونکہ یہ جنس کی منفعت کو ختم کرنا ہے ۔ (الصلب اذا احدودب بالضرب وانقطع الماء و ھو المنی فیہ دیۃ کاملۃ لوجود تفویت منفعۃ الجنس.البدائع الصنائع 311/7)
واقعہ ہے کہ نس بندی وغیرہ ایک ناجائز عمل ہے ، تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ عضو تناسل میں ایسی کوئی تبدیلی کہ افزائش نسل کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے رک جائے ، درست نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ ابن حجر شافعی لکھتے ہیں:
اتفقوا علی منع الجب والخصا فیلحق بذلک ما فی معناہ من التداوی بالقطع۔
تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ عضو تناسل کو کاٹ دینا یا خصی ہوجانا درست نہیں، لہٰذا اس کے حکم میں وہ دوا بھی داخل ہے جس کی وجہ سے صلاحیت ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔(فتح الباری 138/9)
اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کہتے ہیں: عضو تناسل کو کاٹ دینا اور جنسی قوت کو ختم کردینے والی دواؤں کا استعمال کرنا یہ تمام چیزیں اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی ہیں۔(حجۃ اللہ البالغۃ 123/2)
غرضیکہ نس بندی یا اس جیسے مانع حمل طریقے جو ہمیشہ کے لیے قوت تولید کو ضائع کردیتے ہیں وہ قرآن و حدیث کی رو سے ایک غیر اسلامی طریق کار ہے، اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔
اسقاط حمل:
اسقاط حمل کی دو صورت ہے: روح پڑ جانے سے پہلے حمل کو ضائع کرنا یا روح پڑ جانے کے بعد حمل کو ساقط کرنا۔
نفخ روح سے پہلے اسقاط حمل:
نطفہ جب تک کہ بار آور نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں، لیکن رحم مادر میں پڑ جانے کے بعد زندگی کی ابتدا ہوجاتی ہے، اس لیے اس پر یک گونہ زندگی کے احکام جاری ہوجاتے ہیں۔(فان الماء بعد ما وقع فی الرحم ما لہ الحیاۃ فیکون لہ حکم الحیاۃ ۔رد المختار 519/1) لہٰذا اسے ضائع کرنے کی کوشش ناجائز اور نادرست ہوگی، چنانچہ امام
سرخسی لکھتے ہیں:
’’عورت کے رحم میں منی جاکر جب تک کہ فاسد نہ ہو اس وقت تک وہ زندگی قبول کرنے کا اہل ہوتا ہے، لہٰذا اس کو ضائع کرنے کا تاوان ایک زندہ شخص کے تاوان کی طرح ہے ، جیساکہ کوئی شخص حالت احرام میں کسی شکار کا انڈا توڑدے تو اس پر وہی تاوان ہے جو ایک شکار کو مار ڈالنے کا ہے۔(المبسوط 87/26)
اور شیخ علیش مالکی لکھتے ہیں:
منع حمل کے لیے دوا کا استعمال نادرست ہے اورجب رحم منی کو روک لے تو میاں بیوی یا ان میں سے کسی کے لیے (اور اگر باندی ہوتو)آقا کے لیے عضو کے بننے سے پہلے بھی اس کو ساقط کرنے کی کوشش کرنا جائز نہیںہے۔(فتح العلی399/1)
اور امام غزالی فرماتے ہیں:
زندگی کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ نطفہ رحم میں قرار پاجائے اور اس میں زندگی کی صلاحیت پیدا ہوجائے اس کو بھی ضائع کرنا گناہ ہے، پھر اگریہ خون اور گوشت کا لوتھڑا بن جائے تو گناہ میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔(احیاء العلوم53/2)
یہ مختلف مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء کے خیالات ہیں جن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نطفہ جب رحم میں قرار پاجائے تو اسے ضائع کرنے کی کوشش ناروا ہے لیکن یہ حکم عمومی حالت میں ہے ، کسی شرعی مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے ضائع کرانے کی گنجائش ہوگی مثلاً ماں کے اندر زچگی کی صلاحیت نہ ہو، اس کی جان کا خدشہ ہو یا شدید بیماری میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو، جنین کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو یا اس درجہ ناقص الخلقت ہو کہ متعلقین کے لیے بوجھ بن جائے، ان تمام صورتوں میں نفخ روح سے پہلے اسقاط کی گنجائش ہوگی، چنانچہ فقہ حنفی کی مشہور کتاب رد المحتار میں ہے کہ عذر کی وجہ سے اسقاط جائز ہے۔ ( قال ابن وھبان فاباحۃ الاسقاط محمولۃ علی علۃ العذر. رد المحتار 380/2)
نفخ روح کے بعد:
قرآن میں ہے کہ سات مرحلوں سے گذر کر ایک زندہ انسان کا وجود ہوتا ہے ، ارشاد ربانی ہے :
ولقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین ثم جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلقنا العلقۃ مضغۃ فخلقنا المضغۃ عظاما فکسونا العظام لحما ثم انشأناہ خلقا آخر فتبارک اللہ أحسن الخالقین۔
ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ(یعنی) غذا سے بنایا ۔پھر ہم نے اسے ٹپکی ہوئی بوند کی شکل میں ایک محفوظ جگہ پر رکھا۔ پھر ہم نے اس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر اس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنا دیا، پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کردیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا، پھر اسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہوگیا۔ غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے۔(سورہ المومنون:12 -14)
اور حدیث میں ہے کہ ان مراحل کی تکمیل 120/دن میں ہوجاتی ہے(صحیح بخاری و مسلم) بارآوری کے بعد جب اتنے دن گذر جائیں تو جنین میں روح ڈال دی جاتی ہے ، روح پڑجانے کے بعد جنین اور زندہ انسان میں کوئی فرق نہیں ہے، لہٰذا اسے ساقط کرانا نہایت ہی قبیح جرم ہے ، اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر خود قرآن ناطق ہے ، چنانچہ فرمان باری ہے:
لاتقتلوا اولادکم خشیۃ املاق نحن نرزقکم وایاکم ان قتلھم کان خطأ کبیرا ۔
اپنے بچوں کو افلاس کے اندیشہ سے قتل مت کرو، کیونکہ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بے شک ان کا قتل کرنا بڑا گناہ ہے۔(بنی اسرائیل 31)
عربوں میں ایک نہایت ہی گھناونی رسم تھی کہ وہ معاشرہ اور سوسائٹی میں بدنامی کے خوف سے نیز ناداری اور افلاس کے اندیشہ سے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن
کردیتے تھے، علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اسقاط حمل بھی جاہلیت کے اس طریقہ کی نقل ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
’’اسقاط الحمل حرام باجماع المسلمین وھو من الوأد الذی قال تعالیٰ فیہ واذا الموؤودۃ سئلت بأی ذنب قتلت‘‘۔
اسقاط حمل کے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ زندہ دفن کردینے کی ایک شکل ہے جس کے متعلق ارشاد باری ہے : جب دفن کردی جانے والی بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیاگیا۔(فتاوی ابن تیمیہ 217/2)
روح پڑ جانے کے بعد اگر چہ جنین ناقص الخلقت اور متعدی امراض کا حامل ہو اسقاط کی گنجائش نہیں ہے مگریہ کہ یقینی طور سے معلوم ہوجائے کہ حمل کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ ہے، اسقاط کے بغیر اس کا بچایا جانا ممکن نہیں تو ایسی صورت میں اسقاط کی اجازت ہوگی ، کیونکہ شریعت کا ضابطہ ہے کہ دو ضرر رساں چیزوں میں سے اسے اختیار کیاجائے گا جس کا ضرر کم ہو، چونکہ ماں کی زندگی مستقل اور اصل ہے، نیز اس پر خاندان کی اساس ہے، اس لیے بچہ کی بنسبت اس کی ہلاکت میں ضرر زیادہ ہے۔ لہٰذا اسے بچانے کی خاطر بچے کی زندگی قربان کی جاسکتی ہے۔
شائع شدہ: ماہنامہ حیات نو اعظم گڑھ ۔اکتوبر 2000ء