بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(21)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

21-بچوں کے کھلونے۔

صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں چنانچہ وہ کہتی ہیں:
كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ، فَيَلْعَبْنَ مَعِي.
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی میری کچھ سہلیاں بھی  میرے ساتھ کھیلتی تھیں لیکن جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے وہ چھپ جاتی تھیں۔ اللہ کے رسول انہیں میرے پاس بھیجتے تو وہ میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔ (صحيح بخاري:6130،صحیح مسلم 2440)
قاضی عیاض اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے اور جن حدیثوں میں تصویروں کی ممانعت ہے گڑیوں کو اس سے خاص کر لیا گیا ہے کیونکہ اس سے عورتوں کو بچپنے ہی میں اپنی ذات کے سلسلے میں اور خانہ داری اور اولاد کی پرورش اور تربیت کے تعلق  سے مشق ہو جائے گی. جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں کہ بچیوں کے لیے گڑیوں سے کھیلنا جائز ہے ۔(المنہاج حدیث: 2440)
‏‏اور ان سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے:
قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ – أَوْ خَيْبَرَ – وَفِي سَهْوَتِهَا سِتْرٌ، فَهَبَّتْ رِيحٌ فَكَشَفَتْ نَاحِيَةَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَائِشَةَ ؛ لُعَبٍ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا يَا عَائِشَةُ ؟ ". قَالَتْ : بَنَاتِي. وَرَأَى بَيْنَهُنَّ فَرَسًا لَهُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ ، فَقَالَ : ” مَا هَذَا الَّذِي أَرَى وَسْطَهُنَّ ؟ ". قَالَتْ : فَرَسٌ. قَالَ : ” وَمَا هَذَا الَّذِي عَلَيْهِ ؟ ". قَالَتْ : جَنَاحَانِ. قَالَ : ” فَرَسٌ لَهُ جَنَاحَانِ ؟ ". قَالَتْ : أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَيْمَانَ خَيْلًا لَهَا أَجْنِحَةٌ ؟ قَالَتْ : فَضَحِكَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے تو میرے طاق پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ ہوا چلی جس نے پردے کا ایک حصہ کھول دیا۔ جس کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیا سامنے آگئی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: میری گڑیا ہیں. اور آپ نے ان کے بیچ میں گھوڑا دیکھا جس کے اوپر کاغذ کے دو پر لگے ہوئے تھے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: گھوڑا ہے. پھر آپ نے فرمایا اس گھوڑے کے اوپر یہ کیا لگے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا دو پر ہیں . آپ نے فرمایا :گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ حضرت عائشہ نے عرض کیا :کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر لگے تھے. وہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر آپ ہنس پڑے یہاں تک کہ دندان مبارک نمایاں ہوگئے ۔ ( أبو داؤد:4932)
اس طرح کی احادیث کے پیش نظر علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مجسموں کی حرمت سے بچوں کے لیے گڑیا اور دوسرے کھلونے مستثنی ہیں اور اس بنیاد پر اس کی خرید و فروخت بھی درست ہے، حنفیہ مالکیہ اور شافیہ وغیرہ اسی کے قائل ہیں، اس کے برخلاف بعض علماء کا خیال ہے کہ گڑیوں کی اجازت سے متعلق احادیث تصویر کی ممانعت سے پہلے کی ہیں لہذا یہ حدیثیں منسوخ ہیں۔علامہ منذری اور حلیمی کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ کی گڑیا درحقیقت تصویر تھی ہی نہیں بلکہ کپڑوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بس ہاتھ پیر وغیرہ بنا دیا گیا تھا، وہ مکمل تصویر نہیں تھی ؛اس لئے آنحضرت ﷺ دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ ،اگر مکمل طور پر تصویر ہوتی تو پھر پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
اور علامہ خطابی کہتے ہیں کہ چونکہ نابالغ شرعی احکام کے مکلف نہیں ہوتے ہیں اس لیے ان کی خاطر اجازت ہے علاوہ ازیں کھلونے پامال بھی ہوتے ہیں اس لیے یہ پامال تصویر کے دائرے میں ہیں اور جائز ہیں۔(الموسوعہ 112/12،فقہ البیوع 308/1)
اور مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کہتے ہیں کہ بچیوں کے لیے گڑیوں کی اجازت ان کھلونے سے متعلق ہیں جو بہت چھوٹے اور بتوں کے مشابہ نہیں ہوتے ہیں لیکن آج کل جو بڑے بڑے کھلونے رائج ہیں وہ مکمل طور پر بتوں کے مشابہ ہیں اور میرا ظن غالب یہ ہے کہ کھلونوں کو جائز کہنے والے اگر انہیں دیکھ لیتے تو وہ بھی اسے ممنوع قرار دیتے.(فقہ البیوع 308/1)
کیا کھلونوں کی اجازت صرف بچیوں کے لیے ہے یا بچوں کے لیے بھی ہے؟
علامہ شامی وغیرہ نے اس سلسلے میں جو الفاظ نقل کیے گئے ہیں اس سے  معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجازت بچے اور بچی دونوں کے لیے ہے؛ کیونکہ انہوں نے” صبیان "کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں دونوں شامل ہیں ،ان کے الفاظ یہ ہیں:
(يجوز بيع لعبة وان يلعب بها الصبيان) وظاهره انه قوله لا روايه عنه حتى يقال ان هذا يشعر بضعفه ونسبته الى بيوسف لا يدل على ان الامام يخالفه.
گڑیوں کو بیچنا اور بچوں کا اس سے کھیلنا جائز ہے۔اس عبارت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ امام ابو یوسف کا قول ہے، محض ان سے نقل کی جانے والی ایک روایت نہیں ہے یہاں تک کہ کہا جائے کہ اس سے اس قول کے ضعیف ہونے کا احساس ہوتا ہے اور امام ابو یوسف کی طرف اس کی نسبت اس بات پر دلالت نہیں کرتی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس کے برخلاف ہے۔(رد المحتار 478/7)
اور علامہ حلیمی نے کھلونا کے جواز کے دو فائدے بیان کئے ہیں ایک فائدہ تو فوری ہے اور دوسرا فائدہ کچھ دنوں کے بعد حاصل ہوگا، فوری فائدہ یہ ہے کہ کہ اگر بچہ خوشحال اور شاداں و فرحاں اور کشادہ دل رہے گا تو وہ جسمانی اعتبار سے زیادہ مضبوط اور اس کی نشوونما بہتر انداز میں ہوگی اس لیے کہ خوشی کی وجہ سے دل  کشادہ ہوتا ہے اور دل کی کشادگی سے روح  فرحت محسوس کرتی ہے اور یہ فرحت پورے جسم میں پھیل جاتی ہے اور اعضا اور جوارح میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور بعد میں حاصل ہونے والا فائدہ یہ ہے کہ خواتین کو بچوں کی پرورش کا طریقہ معلوم ہوگا اور ان کے تعلق سے محبت و شفقت کے جذبات پروان چڑھیں گے ۔(دیکھئے:الموسوعہ 113/12)
پہلے فائدے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ کھلونوں کی اجازت بچہ اور بچی دونوں کے لئے ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے