بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(39)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

39- بھوک ہڑتال:

اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے ایک متعین یا غیر متعین مدت تک کے لئے کھانے پینے کے ترک کا نام بھوک ہڑتال ہے ۔
اگر کھانا پینا چھوڑ دینے کی وجہ سے ہلاکت یا شدید کمزوری کا اندیشہ ہو تو یہ جائز نہیں ہے اللہ عز وجل کا فرمان ہے :
وَ اَنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ  اِلَی التَّہۡلُکَۃِ ۚۖۛ وَ اَحۡسِنُوۡا ۚۛ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ .
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (سورہ البقرۃ: 195)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا .
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔ (سورہ النسآء : 29)
اور حضرت عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا:
” إِنَّكَ لَتَصُومُ الدَّهْرَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ ". فَقُلْتُ : نَعَمْ. قَالَ : ” إِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ، وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الدَّهْرَ. صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ ". قُلْتُ : فَإِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ. قَالَ : ” فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ ؛ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَ لَاقَی
تم ہمیشہ روزہ رکھتے اور رات بھر نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا:ہاں ۔فرمایا اگر تم ایسا کرتے رہوگے تو تمہاری آنکھ دھنس جائے گی اور تمہارا جسم کمزور ہوجائے گا۔جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اس نے ( گویا )روزہ رکھا ہی نہیں.ہر مہینہ میں تین دن کا روزہ پورے سال کا روزہ ہے ۔عرض کیا : میں اس سے زیادہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہوں ۔فرمایا:داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے ۔اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو ثابت قدم رہتے ۔(صحیح بخاری: 1979)
ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
يا عَبْدَ اللَّهِ، ألَمْ أُخْبَرْ أنَّكَ تَصُومُ النَّهارَ وتَقُومُ اللَّيْلَ؟ قُلتُ: بَلى يا رَسولَ اللَّهِ، قالَ: فلا تَفْعَلْ، صُمْ وأَفْطِرْ، وقُمْ ونَمْ، فإنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وإنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وإنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.
عبداللہ! مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم دن میں روزہ رکھتے ہو اور رات میں نماز پڑھتے ہو؟ عرض کیا: یہ خبر صحیح ہے ۔فرمایا: ایسا مت کرو ،روزہ بھی رکھو اور کھاؤ پیو بھی، رات میں نماز بھی پڑھو اور سؤو بھی ؛کیونکہ تہمارے جسم کا تم پر حق ہے ،تمہاری انکھ کا تم پر حق ہے،تمہاری بیوی کا تم پر حق ہے۔( صحیح بخاری:5199 صحیح مسلم:1159)
اور علامہ شامی لکھتے ہیں:
فَإِنْ تَرَكَ الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ حَتَّى هَلَكَ فَقَدْ عَصَى؛ لِأَنَّ فِيهِ إلْقَاءَ النَّفْسِ إلَى التَّهْلُكَةِ وَإِنَّهُ مَنْهِيٌّ عَنْهُ فِي مُحْكَمِ التَّنْزِيلِ.
اگر کھانا پینا چھوڑ دے یہاں تک کہ ہلاک ہو جائے تو وہ نافرمان ہے؛ اس لیے کہ اس میں اپنے اپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور قران میں صراحتا اس سے منع کیا گیا ہے۔
( رد المحتار 338/6)
اور فتاوی ھندیہ میں ہے :
کھانے کے مختلف درجے ہیں پہلا درجہ فرض ہے یعنی اتنا کھانا جس کے ذریعے ہلاک ہونے سے بچ سکے ،لہذا اگر کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ دے یہاں تک کہ جان چلی جائے تو وہ نافرمان ہے ۔۔۔اور کم کھانے کی ایسی ریاضت جائز نہیں ہے جس سے فرائض کی سے عاجز ہوجائے ۔۔۔اور اگر کوئی شخص بھوکا رہا اور کھانے پر قدرت کے بعد نہیں کھایا یہاں تک کہ مرگیا تو وہ گنہ گار ہوگا ۔(الھندیہ336/5)
یہاں تک کہ اگر کھانے کے لئے حلال غذا میسر نہ ہو اور جان جانے کا خطرہ ہو تو مردار اور خنزیر کھاکر جان بچانے کا حکم دیا گیا ہے اور اگر ایسی حالت میں کوئی مردار کے کھانے سے احتراز کرے یہاں تک کہ اس کی جان چلی جائے تو وہ خود کشی کا مجرم ہوگا ،چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ  وَ الدَّمَ وَ  لَحۡمَ  الۡخِنۡزِیۡرِ  وَ  مَاۤ   اُہِلَّ  لِغَیۡرِ  اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضۡطُرَّ  غَیۡرَ  بَاغٍ  وَّ لَا  عَادٍ  فَاِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوۡرٌ  رَّحِیۡمٌ .
اس نے تو تمہارے لیے بس مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ البتہ جو شخص بھوک سے بالکل بےتاب ہو، لذت حاصل کرنے کے لیے نہ کھائے، اور (ضرورت کی) حد سے آگے نہ بڑھے تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ ( سورہ النحل :115)
لھذا بھوک ہڑتال کی وجہ سے اگر کوئی مرجائے تو وہ خودکشی کا مرتکب سمجھا جائے گا ۔
البتہ  اتنی مدت کے لیے بھول ہڑتال کرنا جس میں مرنے کا امکان اور نماز کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو اور اپنے آپ کو ظلم سے بچانے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں توایسی حالت میں محدود مدت کے لئے بھوک ہڑتال میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر موت کی حد تک پہنچ جائے یا اس کی وجہ سے اتنی کمزوری ہوگئی ہے کہ وہ کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتا تو پھر یہ کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ (دیکھئے:ردالمحتار 339/6)چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے افطاری اور سحری کے بغیر مسلسل روزہ رکھنے سے منع فرمایا (صحیح بخاری:1922)لیکن یہ ممانعت لازمی نہیں تھی ،بس لوگوں کو مشقت سے بچانے کے لئے بطور شفقت آپ منع کرتے تھے.(دیکھئے عمدة القاري 300/10)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے