بیع وفا:
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
لاترتکبوا ما ارتکبت الیہود وتستحلوا محارم اللہ بأدنی الحیلن۔ (رواہ ابن بطہ…وھذا اسنادہ جید ۔اغاثۃ اللھفان433، ابن القیم الجوزیہ محمدبن ابی بکر ، دارطیبہ الریاض)
یہودیوں جیسی حرکت مت کرو اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو معمولی حیلے بہانے سے حلال مت کرو۔
یہودیوں کو سنیچر کے دن مچھلی کے شکار سے منع کیا گیاتھا، انھوں نے اس سے بچنے کا یہ حیلہ کیا کہ جمعہ کے دن دریا کے کنارے گڑھا کھود دیتے تاکہ سنیچر کے دن اس میں مچھلیاں آکر گرتی رہیں اور پھر اتوار کے دن انھیں پکڑ لیتے، انھیں اس کی پاداش میں سخت سزا دی گئی اور ان کی صورتیں بندروں جیسی بنادی گئیں۔
ان کے لیے چربی کھانا بھی حرام تھا، اس کے لیے انھوں نے یہ حیلہ کیاکہ چربی کو پگھلا دیا تاکہ اسے چربی کے بجائے دوسرا نام دیا جاسکے اور اسے بیچ کرکے اس کی قیمت کو اپنے لیے حلال سمجھ لیا۔ حضرت عمر سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قاتل اللہ الیھود حرمت علیھم الشحوم
فجملوھا فباعوھا(متفق علیہ ، اغاثۃ اللھفان 434)
اللہ یہودیوں کو برباد کرے، ان پر چربی حرام کی گئی تو اسے پگھلا کرکے بیچ دیا۔
اللہ کے رسول ﷺ نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے جس میں حرام چیزوں کا نام بدل کر اسے حلال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔(حوالہ مذکور 437)
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
یاتی علی الناس زمان یستحلون الربا باسم البیع۔(رواہ ابن بطہ باسنادہ عن الاوزاعی عن النبی …وھذا ان کان مرسلا صالح للاعتضاد بہ بالاتفاق۔ اغاثۃ اللہفان/ 438)
ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ ربا کو بیع کے نام سے حلال کرنے کی کوشش کریں گے۔
ربا کو حلال کرنے کے لیے جو مختلف نام دئے گئے ہیں انمیں سے ایک نام بیع بالوفا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
البیع الذی تعارف أھل زماننا احتیالا للربا وسموہ بالبیع الوفا ھو فی الحقیقۃ رھن۔ (الفتاویٰ الھندیہ 408/3 مکتبہ زکریا
وہ بیع جو ہمارے زمانے کے لوگوں میں متعارف ہے ،جو ربا لینے کا ایک حیلہ ہے اور جسے بیع وفا کہاجاتاہے ، وہ درحقیقت رہن ہے۔
بیع بالوفاء کی تعریف:
کوئی شخص کسی چیز کو اس شرط کے ساتھ فروخت کرے کہ جب وہ خریدار کو اس کی ادا کردہ قیمت یا اس کے دئے ہوئے قرض کو واپس کردے گا تو خریدار اس چیز کو اس کے حوالے کردے گا، خرید و فروخت کی اس صورت کو بیع وفا، بیع امانت، بیع اطاعت،بیع معاملہ وغیرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔(رد المحتار 545/7، البحرالرائق 7/6)
بیع وفا کی قسمیں:
بیع وفا کی دو قسمیں ہیں:
1- سامان فروخت کرنے والے کے ذمہ خریدار کا قرض ہے ، بیچنے والا کہتاہے کہ قرض کے بدلے یہ چیز فروخت کررہاہوں اس شرط کے ساتھ کہ قرض کی ادائیگی کے بعد یہ چیز مجھے مل جائے گی یا خریدار میرے ہاتھ اسے فروخت کردے گا۔
2- بیچنے والے کے ذمہ کوئی قرض نہیں ہے ، البتہ وہ خریدار سے کچھ نقد رقم کا طلب گار ہے ، جس کے بدلے میں وہ اپنی کوئی چیز اسے بیچ رہاہے، اس شرط کے ساتھ کہ اس رقم کی واپسی کے وقت اس کی چیز اسے واپس مل جائے گی یا خریدار اس کے ہاتھ فروخت کردے گا۔(العنایۃ علی ھامش الفتح القدیر 169 ، رد المحتار 545/7)
دونوں صورتوں میں یہ طے ہوتاہے کہ بیچنے والا جب قرض واپس کرے گا تو اس کا سامان اسے مل جائے گا اور حقیقت صرف یہ ہے کہ ایک شخص قرض کے بدلے میں مقروض کی کوئی چیز لے کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے ، جو صراحتاً ربا ہے اور اس سے بچنے کے لیے وہ خریدوفروخت کا ڈھونگ رچانا چاہتاہے ۔
بیع وفا کا حکم:
’’بیع وفا‘ پانچویں صدی ہجری میں ایجاد ہوئی۔(فقہ المشکلات 212 قاضی مجاہد الاسلام قاسمی)اس لیے فقہاء متقدمین سے اس سلسلہ میں کچھ منقول نہیں ہے، اسی طرح سے یہ بخاری وغیرہ تک محدود رہی ہے اس لیے دوسرے مکاتب فکر کے فقہاء سے اس مسئلے میں صراحتاً کچھ ثابت نہیں ہے اور حنفی فقہاء کی رایوں میں بڑا اختلاف پایاجاتا ہے، بعض لوگوں نے تفصیل سے انھیں ذکر کیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے:
1- بیع وفا اپنی حقیقت کے اعتبار سے ’’رہن‘‘ ہے اور اس میں ’’رہن‘‘ کے تمام احکام جاری ہوں گے، خریدار نہ تو اس کا مالک ہوگا اور نہ ہی اس سے فائدہ اٹھانے کا حقدار ہوگا۔ اس لیے کہ معاملہ کرنے والوں کی نیت اور مقصد کا اعتبارہوگا نہ کہ الفاظ و عبارات کا ۔ (لان الاعتبار بأغراض المتعاقدین۔الفتاویٰ البزازیہ علی ھامش الھندیۃ405/4)
عام طور پر فقہاء نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے کہ یہ معاملہ باطل ہے اور اس پر رہن کے تمام احکام جاری ہوں گے۔(والذی علیہ الأکثر انہ رھن. رد المحتار 546/7)
2- صاحب منظومہ کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے تمام مشائخ کے نزدیک بیع کا یہ معاملہ صحیح ہے اور اس پر بیع کے تمام احکام جاری ہوں گے اور بیچنے والے کو اسے واپس لینے کا حق حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ ان دونوں نے بیع کا لفظ استعمال کیاہے ، اس لیے اسے بیع سمجھاجائے گا۔ دونوں کی نیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔(الفتاویٰ البزازیہ 406/4)
3- قاضی خاں کا کہنا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ جب بیع کا لفظ استعمال کیاگیاہے تو اسے رہن نہیں کہاجاسکتاہے، البتہ دیکھاجائے گا کہ فسخ بیع کی شرط عقد کے اندر ہے یا نہیں، اگر بیع کے اندر شرط نہیں ہے لیکن دونوں نے بیع بشرط وفا یا بیع جائز کا لفظ استعمال کیاہے اور ان کا مطلب بیع جائز سے یہ ہے کہ یہ بیع لازم نہیں ہے، ان تمام صورتوں میں یہ بیع فاسد ہے اور اگر بیع کسی شرط کے بغیر ہوئی ہے اور بیع کے بعد بطور وعدہ فسخ کی شرط کو ذکر کیا گیا ہے تو بیع جائز ہے اور وعدہ کی پاسداری لازم ہے، اس لیے کہ ضرورت کی وجہ سے کبھی وعدہ کو پورا کرنا قانونی طور پر بھی لازم ہوجاتاہے۔(الھندیۃ 209/3، رد المحتار 547/7)
4- امام ظہیرالدین کہتے ہیں کہ اگر بیع میں یا بیع کے بعد وفا کی شرط لگائی گئی ہے تو بیع فاسد ہے، یہ نقطہ نظر اس پر مبنی ہے کہ شرط فاسد سے بیع فاسد ہوجاتی ہے اور اگر عقد سے پہلے وفا کی شرط لگائی گئی ہے اور معاملہ کسی شرط کے بغیر طے پایا ہے اور دونوں کو یہ اعتراف نہیں ہے کہ یہ معاملہ سابق شرط پر مبنی ہے تو بیع درست ہے ۔(الفتاویٰ البزازیۃ 407/4)
بعض فقہاء کہتے ہیں کہ یہ معاملہ بیع فاسد، صحیح اور رہن تینوں سے مرکب ہے اور ہرایک کے احکام اس پر جاری ہوں گے، بیع فاسد کی وجہ سے دونوں کو فسخ کا حق حاصل ہوگا اور بیع صحیح کی وجہ سے خریدار اس سے فائدہ اٹھانے کا حقدار ہے اور رہن کی وجہ سے وہ دوسرے کو فروخت نہیں کرسکتاہے۔(حوالہ مذکور 209/4)
حقیقت یہ ہے کہ بیع وفا، ربا کو حلال کرنے کا ایک بہانہ ہے ، جس زمانہ میں اس معاملہ کا رواج ہوا اس عہد کے صاحب بصیرت علماء نے سختی سے اس کی تردید کی ، امام ابوشجاع کہتے ہیں کہ میں نے ابوالحسن ماتریدی سے کہا:
قد فشا ھذا البیع بین الناس وفیہ مفسدۃ عظیمۃ وفتواک انہ رہن وانا أیضا علی ذلک فالصواب ان نجمع الائمۃ ونتفق علی ھذا ونظھرہ بین الناس فقال المعتبر الیوم فتوانا وقد ظھر ذلک بین الناس فمن خالفنا فلیبرز نفسہ ولیقم دلیلہ(فقہ المشکلات/ 217)
یہ معاملہ لوگوں کے درمیان پھیل چکا ہے اور اس میں بڑا فساد ہے اور آپ کا فتویٰ ہے کہ یہ رہن ہے اور میں بھی آپ کے موافق ہوں لہذا بہتر یہ ہے کہ ہم ائمہ کو جمع کریں اور سب لوگ اس پر متفق ہوجائیں اور اسے لوگوں کو بتلائیں ، انھوں نے کہا: اس وقت ہمارا فتویٰ ہی معتبر مانا جاتا ہے اور ہمارا یہ فتویٰ لوگوں کو معلوم ہے ، لہٰذا جو ہمارا مخالف ہے وہ سامنے آئے اور اپنی دلیل پیش کرے۔
اور اسی طرح کے معاملہ کے متعلق علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
جب کوئی واپس کرنے کے اختیار کی شرط لگائے قرض سے فائدہ اٹھانے کے بہانے تاکہ وہ فروخت کردہ چیز کی آمدنی اور نفع کو اتنی مدت تک حاصل کرتا رہے جب تک کہ قرض لینے والا ثمن سے فائدہ اٹھاتا رہے پھر ثمن کی واپسی کے وقت فروخت کردہ چیز کو لوٹا دے، اس معاملہ میں کوئی خیر نہیں ہے، اس لیے کہ یہ حیلہ و بہانہ ہے اور ثمن لینے والے کے لیے اس مدت میں اس سے فائدہ اٹھانا یا کوئی تصرف کرنا حلال نہیں ہے۔(المغنی 47/6 ، ابن قدامہ عبداللہ بن احمد، ت 620ھ، دارعالم الکتب الریاض 1986ء)
یہی رائے مالکیہ اور شوافع کی بھی ہے ، علامہ وھبہ زحیلی لکھتے ہیں:
فان قال البائع متی جئت بالثمن ردت الی المبیع لم یجز۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ 3508/5، الدکتور وھبۃ الزحیلی ، دارالفکر دمشق 2002ء)
اگر بیچنے والا کہے کہ جب میں ثمن واپس کروں گا تو تم سامان واپس کر دوگے تو یہ صورت مالکیہ کے یہاں جائز نہیں ہے۔
اور شافعیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ
ویبطل البیع ان کان الشرط منافیا مقتضی العقد مثل ان لا یبیع المبیع او لا یھبہ(حوالہ مذکور)
اگر شرط عقد کے تقاضے کے خلاف ہو جیسے یہ شرط کہ خریدار اسے کسی کے ہاتھ فروخت نہیں کرے گا یا بطور تحفہ نہیں دے گا تو اس صورت میں بیع باطل ہے۔
علامہ ابن حجر ہیثمی سے اس معاملہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیاکہ
بیع کا وہ طریقہ جو لوگوں کے درمیان رائج ہے کہ وہ اس پر اتفاق کرلیتے ہیں کہ ثمن مثل کے بغیر کوئی چیز فروخت کریں گے اور بیچنے والا جب اس ثمن کو واپس کرے گا تو خریدار سامان کو لوٹا دے گا لیکن یہ شرط عقد کے اندر نہیں ہے (اس لیے کہ اگر عقد کے اندر ہے تو معاملہ فاسد ہے) تو اس وقت بیع امام شافعی کے نزدیک صحیح ہے اور جب بیچنے والا ثمن لے کر آئے تو خریدار کو اختیار ہوگا کہ وہ سامان کو واپس کرے یا نہ کرے، لیکن واپس نہ کرنے کی صورت میں وہ دھوکہ دینے کی وجہ سے گنہ گار ہوگا، اس لیے کہ اگر بیچنے والے کو پہلے معلوم ہوجاتا کہ یہ واپس نہیں کرے گا تو وہ اس ثمن پر بیچنے پر آمادہ نہ ہوتا۔(فقہ المشکلات 227)
علامہ وھبہ زحیلی مجمع الفقہ الاسلامی جدہ کی قرارداد کو اس سلسلہ میں نقل کرتے ہیں کہ
اس معاملہ کی حقیقت یہ ہے کہ یہ قرض دے کر نفع حاصل کرنا ہے اور ربا لینے کا ایک بہانہ ہے ، جمہور علماء کے نزدیک یہ بیع صحیح نہیں ہے اور اکیڈمی سے وابستہ علماء کی بھی یہی رائے ہے کہ یہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے۔(الفقہ اسلامی وادلتہ 5203/7)
اس طرح کے معاملات سے متعلق علامہ ابن قیم کی ایک چشم کشا تحریر نقل کی جارہی ہے۔
حرام حیلوں میں صرف نام اور صورت بدل جاتی ہے ، حقیقت اپنی جگہ باقی رہتی ہے اور یہ یقینی طورپر معلوم ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس طرح کی چیزوں پر جو لعنت کی ہے اس کی وجہ اس میں موجود فساد عظیم ہے اور لعنت اس کی سزا کا ایک حصہ ہے اور حقیقت باقی رہتے ہوئے محض نام اور صورت بدل جانے کی وجہ سے یا شرط کو عقد سے پہلے کردینے کی وجہ سے وہ فساد ختم نہیں ہوتاہے، اس لیے کہ اس کا تعلق حقیقت سے ہے نام اور صورت سے نہیں۔
اسی طرح سے ربا پر مشتمل معاملات میں جو عظیم فساد ہے وہ اس کا نام "معاملہ” رکھ دینے کے باوجود باقی ہے ، اس لیے کہ اس کی جو حقیقت ہے اس پر عقد سے پہلے اتفاق ہوچکا ہے اور دونوں کو معلوم ہے اور جس سے دلوں کے بھید کو جاننے والا باخبر ہے ، ان دونون نے عقد سے پہلے صریح ربا پر اتفاق کیا ہے اور پھر اس کا نام "معاملہ” رکھ دیاہے اور بظاہر خرید و فروخت کررہے ہیں حالانکہ اس کا بالکل ارادہ نہیں ہے ، یہ بہانہ اور مکاری ہے اور اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دینا ہے ، ان میں اور یہودیوں میں کیا فرق ہے ، جنھوں نے حرام چربی کو اس کانام اور شکل بدل کر حلال سمجھ لیا ۔(اغاثۃ اللھفان /435-436)
نیز وہ لکھتے ہیں:
اگر اس طریقہ کو ڈاکٹر مریض کے ساتھ اپنائیں کہ ضرر رساں چیزوں کا نام اور شکل بدل کر استعمال کرنے کے لیے دے دیں تو مریض زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا، اسی طرح سے اللہ اور اس کے رسول نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ دل کی صحت اور ایمانی قوت کی حفاظت کے لیے ہے جیسے کہ ڈاکٹر جن چیزوں سے مریض کو پرہیز کرنے کے لیے کہتا ہے ، اس کا مقصد اس کی صحت جسمانی کی حفاظت ہے، اب اگر کوئی مریض یا ڈاکٹر اس نقصان دہ چیز کو اس کی شکل یا نام بدل کرکے استعمال کرنے یا کرانے لگے تو مرض اور بڑھتا ہی جائے گا ،یہاں تک کہ ہلاکت کے گڑھے میں جاگرے گا، جب تم ان حیلوں پر غور کروگے جن کا مقصد حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا ہے تو بالکل یہی حال پاؤگے، بلکہ اس کا نقصان ان حرام چیزوں سے بڑھا ہوگا جو اپنی اصل شکل اور نام پر باقی ہیں۔(اغاثۃ اللھفان 439)