*نماز تراویح*

رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ نیکیوں کے پھلنے اور پھولنے کا موسم ہے۔ پوری فضا اور پورے ماحول کو ایک نورانی چادرڈھانک لیتی ہے۔ ایمان ویقین کی پربہار ہوائیں چلنے لگتی ہیں۔ جسے ہر وہ شخص محسوس کرسکتا ہے جس کے اندر ایمانی حرارت کی ایک چنگاری بھی موجود ہو ۔ ایسے پرتاثیر ماحول میں دن بھر بھوکا اور پیاسا رہ کر افطار کے کچھ ہی دیر بعد (جبکہ آرام کی شدید خواہش ہوتی ہے) جب بندہ اپنے پالن ہار اور پروردگار کے حضور دست بستہ کھڑا ہوتا ہے تو گویا اپنی عبدیت اور بندگی کی آخری تصویر بنارہا ہوتا ہے۔ اپنی عاجزی اور بے چارگی کے ساتھ جب قادر مطلق کی دربار میں آتا ہے تو رب کائنات کی رحمت جوش میں آجاتی ہے‘ اس کے کرم اور نوازش کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں اور بندہ مغفرت ورضا کے تمغہ سے سرفراز کردیا جاتا ہے کہ ایک مومن کی نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں‘ رسول خداﷺ کا ارشاد ہے:
من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔
جو کوئی ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان میں قیام کرتاہے تواس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔(رواہ الستہ ۔جمع الفوائد 118/1)
’’ ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے‘‘ کا مفہوم ہے کہ اس عبادت کا محرک محض ثواب اور خدائی وعدہ پریقین ہو‘ اس کے علاوہ نمودونمائش کا جذبہ کارفرما نہ ہو‘ اس احساس اور جذبہ کے تحت بندہ کا تھوڑا عمل بھی اللہ کے نزدیک بڑا قیمتی ہے۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان اللہ عزوجل فرض صیام رمضان و سننت قیامہ فمن صامہ و قامہ ایمانا واحتسابا خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہامہ
اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کا روزہ فرض کی ہے۔ اور میں نے تم پر اس کے قیام کو مسنون قراردیا ہے۔ پس جو کوئی ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھے اور رات میں قیام کرے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے کہ گویا ابھی وہ پیدا ہوا ہے ۔( اخرجہ النسائی بسند حسن۔ اعلاء السنن 57/7۔ قال الشوکانی فی اسنادہ النضربن شیبان وھو ضعیف ۔ نیل الاوطار ۔ 49/3)
اللہ کے رسول اللہ ﷺ بڑی پابندی سے رمضان میں نوافل پڑھا کرتے تھے اور چند دنوں جماعت سے بھی پڑھی ہے۔ مگراس اندیشہ سے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ کردی جائے آنحضور ﷺ نے جماعت سے پڑھنا ترک کردیا۔ حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں :
ان النبی ﷺ صلی فی المسجد فصلی معہ ناس ثم صلی الثانیۃ فکثر الناس ثم اجتمعوا من اللیلۃ الثالثہ اوالرابعۃ فلم یخرج الیھم رسول اللہ ﷺ فلما اصبح قال رایت الذی صنعتم فلم یمنعنی من الخروج الیکم الا انی خشیت ان تفرض علیکم وذالک فی رمضان ۔
نبی کریم ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی کچھ لوگ بھی آپ کے ساتھ شامل ہوگئے‘ دوسری رات بھی آپ نے نماز پڑھی اور بکثرت لوگ شریک ہوئے پھر وہ تیسری یا چوتھی شب میں جمع ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ باہر تشریف نہ لائے( حجرہ مبارکہ ہی میں رہے ) جب صبح ہوئی تو فرمایا ‘ میں نے رات میں تمہارے عمل کو دیکھا ،مجھے صرف اس چیز نے باہر آنے سے روک دیا کہ کہیں یہ نماز فرض نہ کردی جائے۔ یہ واقعہ رمضان میں پیش آیا ۔(صحیح بخاری و مسلم ۔نیل الاوطار 51/3)
مسند احمد میں یہی روایت کچھ اس طرح ہے :
کان الناس یصلون فی المسجد فی رمضان باللیل اوزاعا یکون مع الرجل شیٔ من القرآن فیکون معہ النفر الخمسۃ اوالسبعۃ اواقل من ذالک او اکثریصلون بصلاتہ قالت فامرنی رسول اللہ ﷺ ان انصب لہ حصیرا علی باب حجرتی ففعلت فخرج الیہ بعد ان صلی العشاء الاخرۃ فاحبتمع الیہ من فی المسجد فصلی بھم۔
لوگ رمضان کی شب میں مسجد میں متفرق طورپر علحدہ علحدہ نمازپڑھا کرتے تھے۔اگر کسی کو کچھ قرآن یاد ہوتا تو کچھ لوگ اس کے ساتھ شریک ہوجاتے (اور جماعت بن جاتی) حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے کہا کہ حجرہ کے دروازے پرچٹائی بچھادو۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ اللہ کے رسول ﷺ عشاء پڑھ کر باہر تشریف لے گئے، جو لوگ مسجد میں موجود تھے، وہ جمع ہوگئے اور آپؐ نے جماعت کے ساتھ انہیں نماز پڑھائی ۔(مسند احمد ۔ نیل الاوطار 51/3)
اللہ کے رسول ﷺ نے اس خدشہ سے جماعت سے نہ پڑھی کہ کہیں یہ فرض نہ ہوجائے چونکہ اب یہ اندیشہ نہیں‘ اس لئے اس پر دوام اور ہمیشگی سنت موکدہ ہے۔(کبیری 385) چاروں ائمہ کا اس پر اتفاق ہے۔ ( درمختار 1؍ کبیری ؍ 282 ‘ المغنی 455/1 شرح مھذب 30/4)

وقت:

تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر طلوع فجر تک ہے ‘ لیکن تہائی رات کے بعد اور آدھی رات سے پہلے پڑھ لینا بہتر اور مستحب ہے۔ عشاء کے فرض سے پہلے تراویح کا کوئی اعتبار نہیں‘ ایسے ہی عشاء کی نماز کے بعد تراویح ہوچکی‘ اس کے بعد معلوم ہوا کہ فرض نماز کسی وجہ سے درست نہیں ہوئی تو فرض پڑھنے کے بعد تراویح کا بھی اعادہ کرلینا چاہئیے۔ (مراقی الفلاح مع حاشیہ الطحطاوی 271)
وتر تراویح کے بعد پڑھنا بہتر ہے لیکن تراویح سے پہلے پڑھ لینے میں بھی کچھ حرج نہیں۔(کبیری/ 385 ‘ مراقی الفلاح/ 271)

قرات:

پورے رمضان میں ایک قرآن ختم کرنا سنت ہے‘ دو ختم لائق فضیلت اور تین مرتبہ ختم کرنا افضل ہے۔ ہر رکعت میں دس دس آیتیں پڑھی جائیں تو تیس دن میں ایک قرآن ختم ہوسکتا ہے۔
بعض لوگوں نے شب قدر کی اُمید میں ستائیس کے ختم کو مستحب قرار دیا ہے ۔(ردالمحتار 520/1)
بہتر ہے کہ مقدار قرأت کے سلسلہ میں لوگوں کی رعایت کی جائے۔اگر وہ ایک ختم پر راضی نہ ہوں اور جماعت ٹوٹ جانے کا یا کم ہونے کا اندیشہ ہوتو پھر چھوٹی چھوٹی سورتوں مثلاً الم ترکیف پر اکتفا کرنا چاہئیے۔(حوالہ سابق 522/1)

شبینہ :

کم سے کم تین دن میں قرآن ختم کرنا چاہئے کہ اس سے کم دن میں ختم کرنا مکروہ ہے،اللہ کے رسول ﷺ کاارشادہے:
٭ اقرأ القرآن فی کل ثلاث۔
قرآن تین دن میں مکمل کرو۔(بخاری 4/18)
٭ من قرء القرآن فی اقل من ثلاث لم یفقھہ
جس نے تین دن سے پہلے قرآن پڑھا اس نے اسے سمجھا نہیں۔ (ابوداؤد 220/1)
٭ اقرؤوا القرآن فی سبع ولاتقرؤہ فی اقل من ثلاث۔
قرآن سات روز میں پڑھواور اسے تین دن سے کم میں نہ پڑھو۔(فتح الباری 78/9)

جماعت:

تراویح باجماعت مسجد میں ادا کرنا’’ سنت کفایہ‘‘ ہے۔ یعنی اگر محلے کے چند لوگ مسجد میں جماعت سے پڑھ لیں تو سب کے طرف سے جماعت سے نہ پڑھنے کا وبال ختم ہوجائے گا۔ لیکن مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ پر جماعت سے پڑھیں اور مسجد میں جماعت نہ ہو تو تمام لوگ گنہ گار ہوں گے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ جماعت’’ سنت عین‘‘ ہے یعنی بغیر جماعت تنہا پڑھنے والا ترک سنت کا گنہ گار ہوگا۔ علامہ ظہیرالدین اسی کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ (ردالمحتار 52/1 کبیری 383) شوافع اور حنابلہ کے یہاں بھی جماعت مستحب ہے ۔ امام مالک و ابو یوسف کے نزدیک تنہا پڑھنا افضل ہے۔ ( شرح المھذب 35/4. المغنی 456/1)

تعداد رکعت :

رسول اللہ ﷺ سے چند راتوں میں جماعت سے تراویح پڑھنا ثابت ہے۔ لیکن ان راتوں میں آپ نے کتنی رکعت پڑھی؟ اس سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ حضرت عمرفاروق ؓ نے اپنے عہدخلافت میں بیس رکعت پر تمام لوگوں کو جمع کردیا۔ صحابہ کرام نے ان کے اس عمل پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ اس طرح گویا بیس رکعت پر صحابہ کا اجماع ہوگیا ۔( ھذا کالاجماع. المغنی 356/1)
علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
قدثبت ان ابی بن کعب کان یقوم عشرین رکعۃ فی قیام رمضان ویوتر بثلاث فرای کثیر من العلماء ان ذالک ھوالسنۃ لانہ اقامہ بین المھاجرین والانصار ولم ینکرہ منکر ۔
یہ ثابت ہوچکا ہے کہ حضرت ابی بن کعب رمضان میں بیس رکعت پڑھا کرتے۔ اس کے بعد پھر تین رکعت وتر پڑھتے، پس بہت سے علماء کا خیال ہے کہ یہی سنت ہے؛ کیونکہ انہوں نے ایسا مہاجرین اور انصار کی موجودگی میں کیا لیکن کسی نے نکیر نہیں کی۔(فتاویٰ ابن تیمیہ 112,113/23 )
ایک اور دوسری جگہ لکھتے ہیں:
فلما جمعھم عمر علی ابی بن کعب کان یصلی بھم عشرون رکعۃ ثم یوتر بثلاث ۔
جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں تمام لوگوں کوجمع کردیا تو وہ ان کو بیس رکعت اور تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔(حوالہ سابق272/22 )
ظاہر ہے کہ حضرت عمرؓ نے بیس رکعت کو اپنی طرف سے ایجاد نہیں کیا۔ یہ ان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ان کے پیش نظر اس سلسلہ میں اللہ کے رسول ﷺ کا عمل اور ارشاد ہے‘ کیونکہ یہ بیس رکعت کی تعداد ایسی کوئی چیز نہیں جسے سوچ سمجھ کراپنی طرف سے مقرر کیا جاسکے۔(ھکذا قال ابوحنیفہ ۔ مراقی الفلاح/81)
واضح رہے کہ حضرت عمر فاروقؓ سے زیادہ بدعات کا مخالف کون ہوسکتا ہے؟؟
اور بلفرض اگر حضرت عمرؓ نے ایک ایسی بات ایجاد کی جو آنحضور ﷺ سے ثابت نہیں ہے تو وہ صحابہ کرام کہاں تھے جو سنت کے پروانہ اور بدعات کے خلاف شمشیر برہنہ تھے؟ آخر انہوں نے اس اجتماعی بدعت کے خلاف کوئی آواز بلند کیوں نہ کی؟ کیا ان کی یہ خاموشی مجبوری کی غماز ہے؟ اس پاکیزہ جماعت کے بارے میں ایسا سوچنا پورے دین کے خلاف بدظنی اور بدگمانی کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے ۔
رہا حضرت عمرؓ کا خود یہ فرمانا کہ یہ بدعت بہت اچھی ہے’’ نعمت البداعۃ ھذہ‘‘ تو یہ صرف صورت کے اعتبار سے ہے؛ کیونکہ ایک امام کی امامت اور اجتماعی شکل میں رسول اللہ ﷺ سے صرف چند ہی روز پڑھنا منقول ہے‘ پورے رمضان میں آپﷺ نے ایسا نہیں کیا۔
چاروں ائمہ کے یہاں تراویح بیس رکعت ہے۔ امام مالک سے جو چھتیس رکعت پڑھنا منقول ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مکہ کے لوگ ہر چار رکعت کے بعد طواف کیا کرتے تھے۔ مدینہ والوں نے اس طواف کا بدل یہ نکالا کہ ہر دو تراویح کے بعد چار رکعت کا اضافہ کرلیا تاکہ طواف کی کمی کو پورا کیا جاسکے ، اس تحقیق کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان زائد رکعتوں کا تنہا تنہا بغیر جماعت کے پڑھنا ثابت ہے۔ نیز یہ بھی ثابت ہے۔ مدینہ والے کسی زمانے میں ان سولہ رکعتوں کو اخیر رات میں پڑھا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ درحقیقت امام مالک بھی بیس ہی رکعت کے قائل ہیں۔ (اس سلسلہ میں تفصیل کے لئے دیکھئے محدث شہیر ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمان الاعظمی کی کتاب’’ رکعات تراویح‘‘)

ترویحہ:

’’ترویحہ‘‘ کے لفظی معنی’’ آرام‘‘ کے ہیں۔ اصطلاح فقہ میں ہر چار رکعت کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنے کو ’’ترویحہ‘‘ کہتے ہیں۔ جس کی جمع تراویح آتی ہے۔ اسی نسبت سے اس نماز کا نام تراویح ہے۔
’’ترویحہ‘‘ صحابہ کرام سے ثابت ہے‘ اور اس کی مقدار اتنی ہی ہونی چاہئیے جتنی دیر میں چار رکعت ادا کی گئی ہے‘ تاہم نمازیوں کی گرانی کے پیش نظر اسے مختصر بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس وقفہ میں کوئی دعا رسول مقبول ﷺ سے منقول نہیں ہے۔ تسبیح پڑھنا‘ قرآن کی تلاوت کرنا ‘ تنہا نفل پڑھنا یا خاموش رہنا ہر ایک کی اجازت ہے‘ بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ ذیل کی دعا کو تین مرتبہ پڑھنا چاہئیے:
سبحان ذی الملک والملکوت سبحان ذی العزۃ والعظمۃ والقدرۃ والکبر یاء والجبروت سبحان الملک الحی الذی لاینام ولایموت سبوح ‘ قدوس ‘ربنا ورب الملائکۃ والروح ‘ لا الہ الااللہ‘ نستغفراللہ ‘نسالک الجنۃ ونعوذ بک من النار (ردالمحتار 522/1)

بسم اللہ کا مسئلہ :

قرآن میں سورہ نمل کے علاوہ بھی ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ ایک مستقل آیت ہے۔ جو دو سورتوں کے درمیان فصل اور امتیاز ظاہر کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے(حوالہ سابق 362/1) امام شافعی اور ایک اور روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل کے نزدیک’’ بسم اللہ‘‘ سورۃ فاتحہ اور ایسے ہی ہر سورہ کے شروع کا ایک حصہ اور جز ہے‘ امام مالک اور امام احمد کے دوسرے قول کے مطابق جو ان کے پیرو کاروں کے نزدیک راجح ہے۔’’ بسم اللہ ‘‘ سورہ نمل کے علاوہ قرآن کی آیت نہیں۔ امام ابو حنیفہ کا مذہب اوپر مذکور ہوچکا ہے۔ (معارف السنن 362/2)
لہٰذا سورہ نمل کے علاوہ بھی ایک مرتبہ بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔ نیز تراویح میں آواز سے پڑھنا بھی لازم ہے ورنہ سننے والوں کا قرآن مکمل نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے لئے کوئی جگہ یا سورہ متعین نہیں ہے کہیں بھی اور کسی بھی سورہ کے شروع میں پڑھا جاسکتا ہے۔ عام رواج’’ قل ھوﷲ احد‘‘ کے شروع میں پڑھنے کا ہے مگر اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے‘ بلکہ بہتر اس تعین کو چھوڑ دینا ہے۔
امام اور تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے کہ سورۃ فاتحہ اور کسی بھی سورہ کے شروع میں آہستہ سے بسم اللہ پڑھنا افضل اور بہتر ہے اس سلسلہ میں تراویح اور دیگر نمازوں کا حکم یکساں ہے۔(ردالمحتار 362/1)

تراویح پر اجرت :

طاعات و عبادات محض اللہ کے لئے ہونی چاہئیے۔ اس سے مقصود صر ف اللہ کی رضا اور ثواب ہو‘ یہ تو بندہ کی بندگی کا حق ہے‘ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آقا و مولیٰ کے ہر حکم کو بجالائے‘ یہاں مزدوری یا خرید و فروخت کا کوئی تصور نہیں‘ بلکہ یہ بندہ کی بندگی کے خلاف ہے۔ عبادت کی روح اور اسپرٹ کے منافی ہے۔ اس لئے تراویح کی امامت پر اجرت لینا نا درست اور ناجائز ہے اور قرآن بیچنے کے مترادف ہے۔
بعض دینی خدمات پر علماء نے دین کی حفاظت کے مقصد سے اجرت کی اجازت دی ۔ لیکن تراویح میں ایسی کوئی مصلحت نہیں‘ کیونکہ تراویح میں قرآن ختم کرنا سنت ہے اور فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر لوگوں کو ایک ختم سے گرانی ہو تو چھوٹی سورتوں پر اکتفا کیا جاسکتا ہے۔ جب اس مقصد کے لئے قرآن ختم نہ کرنے کی گنجائش ہے تو اس سے بڑی ممانعت کے ارتکاب سے بچنے کے لئے تو بدرجہ اولیٰ اسے چھوڑا جاسکتا ہے‘حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
پس جب تقلیل جماعت کے محذور سے بچنے کے لئے اس سنت کے ترک کی اجازت ہے ‘ تو استیجارعلی الطاعت (عبادت وطاعت پر اجرت لینے) کا محذور اس سے بڑھ کر اس سے بچنے کے لئے کیوں نہ کہا جائے کہ الم ترکیف سے پڑھ لے۔(امداد االفتاویٰ 484/4)
اور اس ترک کی وجہ سے دین کے ضائع ہونے یا قرآن سے بے توجہی کا بھی کوئی اندیشہ نہیں ہے‘ کیا اگر تنخواہ پر امام رکھ کر تراویح میں قرآن ختم نہ کیا جائے تو اس سے حافظوں کی کمی ہوجائے گی ؟ کیا قرآن کی حفاظت نہ ہوگی؟ دین کا کوئی شعبہ اس سے متاثر ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ان باتوں کا جواب’’ نہیں‘‘ میں ہوگا۔ بلکہ تنخواہ پر تراویح پڑھانے میں دین کا نقصان ہے کہ قرآن کمانے کا ذریعہ اور سامان تجارت بن جائے گا۔ پڑھانے والا اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے نہیں بلکہ محض تنخواہ کے مقصد سے پڑھائے گا۔ یہ محض امکانی باتیں نہیں بلکہ واقعہ بن کر سامنے آچکا ہے۔ اس کی وجہ سے طرح طرح کی جو خرابیاں پیدا ہورہی ہیں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں۔علامہ ابن عابدین شامی نے ’’ ایصال ثواب‘‘ پر اجرت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :
متون شروح اور فتاویٰ کی کتابیں اس پر متفق کہ مذکورہ چیزوں کے علاوہ طاعات پر اجرت لینا باطل ہے اور جائز ہونے کی وجہ انہوں نے ضرورت بتلائی ہے اور وہ ضروریات دین کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔ فقہاء نے اس وجہ کو بصراحت بیان کیا ہے‘ پھر یہ کہنا کیوں کر درست ہوگا کہ متاخرین کا مذہب مذکورہ ضرورت کے بغیر بھی محض تلاوت قرآن پر اجرت لینے کا جواز ہے۔ اس لئے کہ اگر ایک زمانہ گذر جائے اورکوئی اس کام کے لئے(ایصال ثواب کے لئے) کسی کو اجرت پر نہ رکھے تو کوئی نقصان نہ ہوگا بلکہ نقصان اس پر اجرت لینے پر ہوگا کہ قرآن کمائی کا ذریعہ اور سامان تجارت ہوجائے گا‘ پڑھنے والا اللہ کی رضامندی اور خوشنودی کے لئے نہیں بلکہ محض اُجرت کے لئے پڑھے گا۔
کچھ علماء نے حالات اور حافظوں کی معاشی ضرورت کی رعایت میں یہ حیلہ بتلایا ہے :
’’ اگر رمضان المبارک کے مہینہ کے لئے حافظ کو تنخواہ پررکھ لیا جائے اور ایک دو نمازوں میں اس کی امامت متعین کردی جائے تو یہ صورت جواز کی ہے‘ کیونکہ امامت کی اجرت (تنخواہ) کی فقہاء نے اجازت دی ہے(کفایت المفتی 380/3)
اس حیلہ کے متعلق حضرت تھانوی لکھتے ہیںٖ:
یہ جواز کا فتویٰ اس وقت ہے جب امامت ہی مقصود ہو، حالانکہ یہاں مقصود تراویح ہے اور یہ محض ایک حیلہ ہے‘ دیانات میں جو کہ معاملہ فی مابین العبد وبین اللہ ہے‘ حیلہ مفید واقعی جواز نہیں ہوئے۔ لہٰذا یہ ناجائز ہوگا ۔( امدادالفتاویٰ 485/1 )
(تراویح سے متعلق مسائل کی بہت سی کتابیں اردو میں منظرعام پرآچکی ہیں‘ اس لئے طوالت کے خوف سے چند مخصوص مسائل کے ذکر پراکتفا کیاگیا ہے۔)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے