بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(25)
ادب و ثقافت سے متعلق نئے مسائل

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.  9451924242

25-مٹھائی مجسمہ کی شکل میں:

گندھے ہوئے آٹے یا حلوہ یا کسی ایسی چیز سے جاندار کا مجسمہ بنائے جو بہت جلد خراب ہو جائے تو اس کی حرمت کے بارے میں فقہ مالکی میں دو قول ہے: کچھ لوگ اسے جائز کہتے ہیں جبکہ زیادہ تر لوگ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں. اور شافعیہ کے یہاں اس طرح کی مجسمے بنانا حرام ہے تاہم اسے بیچنا جائز ہے.( الموسوعہ 111/12)
اور مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
مٹی کی تصویریں یا ایسی مورتیاں جو باقی رہنے والی نہیں ،اسی طرح سے مٹھائی یا دوسری کھانے کی چیزیں اگر بشکل تصویر بنائی گئی ہوں تو ان کا استعمال اور خرید و فروخت بھی بچوں کے عام کھلونے اور گڑیوں کی طرح جائز ہوگا یا نہیں؟ کتب حنفیہ میں اس کے متعلق کوئی تصریح نہیں. اور بلوغ القصد والمرام میں فتح الباری سے اس بارے میں اختلاف اقوال نقل کرنے کے بعد عدم جواز کی ترجیح نقل کی ہے اس لیے یہ سب تصویریں ناجائز الاستعمال ہیں۔
اور عہود محمدیہ میں ہے کہ بچوں کو اس کی اجازت نہ دینی چاہیے کہ وہ کھانے کی چیزیں بشکل تصویر بنائیں یا مختلف رنگ کے مصور نقشے خریدیں بلکہ جس کو حق تعالی وسعت عطا فرمائیں اس کے لیے مناسب ہے کہ مٹھائی وغیرہ کے جو کھلونے بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں ان کو خرید کر توڑ دے اور لوگوں کو کھلا دے۔( جواہر الفقہ 260/7)
اور دار العلوم کراچی سے اس سلسلے میں درج ذیل فتوا جاری کیا گیا ہے :
مٹھائی مجسمہ کی شکل میں بنائی گئی ہو اور وہ کسی جاندار کا مجسمہ ہو اور اس میں چہرہ، آنکھ اور کان وغیرہ واضح ہوں تو شرعا ممنوع تصاویر میں داخل ہیں ، یعنی بنانے والی کمپنی کیلئے جاندار کا مجسمہ بنانا جائز نہیں، سخت گناہ ہے، البتہ ان مجسمات والی سویٹس کی خرید و فروخت سے چونکہ ان مجسمات کا خریدنا بیچنا مقصود نہیں ہو تا بلکہ مقصود مٹھائی ہوتی ہے ، لہذا فی نفسہ ایسی مٹھائیوں کی خرید و فروخت کی گنجائش ہے، یعنی مٹھائی کی خرید و فروخت حرام نہیں البتہ ایسی سویٹس کی خرید و فروخت میں ناجائز مجسمات کی کسی درجہ میں نشر و اشاعت ہوگی؛ اس لئے تصویر والی سویٹس کا کاروبار کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے ، جبکہ بنانے والے پر ہر حال میں اس سے مکمل اجتناب لازم ہے۔
جہاں تک ایسی سویٹس کے کھانے کا تعلق ہے تو ان کا کھانا جائز ہے۔
(فتاویٰ دار العلوم کراچی  12مئی 2016ء)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے