بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

طلبہ کی تقریری و تحریری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا طریقہ۔

ولی اللہ مجید قاسمی

زبان و بیان اور قرطاس و قلم کی اہمیت محتاج اظہار نہیں ، رب کائنات نے خود پہلی وحی میں تخلیق انسانی کے بعد قلم کا تذکرہ کر کے انسانی زندگی میں اس کی حیثیت کی وضاحت کر دی ہے ۔اور اس نام سے اپنی پاک کتاب میں ایک مکمل سورہ نازل کر کے اور اس کی قسم کھا کر اس کی عظمت و رفعت کو لازوال کر دیا ہے ۔
نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ ۙ
ن (اے پیغمبر) قسم ہے قلم کی، اور اس چیز کی جو وہ لکھ رہے ہیں۔(سورہ القلم:1)
اور اس کے آخری پیغمبر کا ارشاد ہے :
إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمُ۔
اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔(ابو داؤد:4700 ترمذی:3319)
اس لیے زندگی کی دوڑ میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جنہیں قلم کی حیثیت اور اولیت کا اندازہ ہے اور اسی کے مطابق ان کا عمل ہے ۔
اور امام تفسیر مجاہد نے ابو عمر سے نقل کیا ہے کہ اللہ رب العزت نے ساری کائنات میں چار چیزیں اپنے دست قدرت سے خود بنائی ہیں۔ اور ان کے سوا باقی مخلوقات کے لیے حکم دیا "کن "یعنی ہو جاؤ تو وہ موجود ہو گئیں، وہ چار چیزیں یہ ہیں قلم ،عرش ،جنت عدن ،آدم علیہ السلام ۔(معارف القرآن 785/8)
اسی طرح سے اللہ تعالی نے سورہ رحمن میں تخلیق انسانی کے بعد خصوصی طور پر اس کی قوت بیان کا تذکرہ فرمایا ہے :
الرحمن .علم القران .خلق الانسان وعلمه البيان.
رحمن ہی نے قران کی تعلیم دی اس نے انسان کو پیدا کیا اور دل کی بات کو ظاہر کرنا سکھایا . (سوره الرحمن)
"اللہ تعالی نے انسان کو جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں وہ بے شمار ہیں ان میں خاص طور سے تعلیم بیان کو یہاں ذکر کرنے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن نعمتوں کا تعلق انسان کے نشو و نما اور وجود و بقا سے ہے جیسے کھانا پینا، سردی اور گرمی سے بچنے کا سامان ،رہنے بسنے کا انتظام وغیرہ ان نعمتوں میں ہر جاندار شریک ہے۔ وہ نعمتیں جو انسان کے ساتھ خاص ہیں ان میں سے پہلے تو تعلیم قرآن کو یہاں بیان کیا گیا اور اس کے بعد تعلیم بیان کو ؛کیونکہ تعلیم قرآن سے فائدہ اٹھانا اور فائدہ پہنچانا بیان کے بغیر ممکن نہیں . اور بیان میں زبانی بیان بھی داخل ہے اور تحریر و کتابت نیز سمجھنے اور سمجھانے کے جتنے طریقے ہیں وہ سب بیان کے مفہوم میں شامل ہیں” .(معارف القرآن 785/8)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مومن اپنی تلوار سے بھی جہاد کرتا ہے اور زبان سے بھی.
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ ”
جو ان سے اپنے ہاتھ کے ذریعے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو زبان کے ذریعے جہاد کرے وہ مومن ہے۔اور جو اپنے دل کے ذریعے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان کا حصہ نہیں ہے.(صحیح مسلم:50)
اور حضرت طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ : أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ : ” كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ ".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری کے پائیدان پر اپنا پیر رکھ دیا تھا اس وقت ایک آدمی نے دریافت کیا کہ بہتر جہاد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا .( سنن نسائی 4209.اسنادہ صحیح ۔التیسیر للمناوی 182/1)
حضرت انس سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جاهدوا المشركين باموالكم وانفسكم والسنتكم.
جہاد کرو مشرکوں سے مال ، جان اور زبان کے ذریعے .(رواه احمد والنسائي والحاكم وصححه واقره الذهبي.التيسير 485/1)
اور حضرت حسان بھی ثابت اپنے اشعار کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشرکوں کی طرف سے کیے گئے بے ہودہ اعتراض کا جواب دیا کرتے تھے نیز آگے بڑھ کر ان پر حملہ کیا کرتے تھے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اشعار کے سلسلے میں فرمایا یہ ان پر تیروں کی بوچھار سے زیادہ سخت ہیں( فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ "(صحيح مسلم :2490)
اس کی اثر انگیزی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا.
بہت سے بیان جادو کی طرف ہوتے ہیں. (صحيح بخاري :5767)
زبان و قلم کے ذریعے دلوں پہ حکومت کی جاتی ہے .اس کے ذریعے تیغ و تفنگ کے بغیر قوموں اور ملکوں کی تاریخ بدل دی جاتی ہے. تاریخ کے دھارے کو موڑ دینے میں ان کا کردار عسکری انقلابات سے زیادہ ہے .ان میں وہ طاقت ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں اور فلک بوس ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیتی ہے .
فرق صرف یہ ہے کہ تقریر سے پڑھا لکھا ،ان پڑھ ہر شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے، اس کے ساتھ ہی بولنے والے کی حرکات و سکنات، چہرے کی کیفیت، لب و لہجہ اور طرز تخاطب بھی مخاطب پر اثر انداز ہوتا ہے اور تحریر کی رسائی حاضر سے غائب تک ہے۔ صدیوں بلکہ رہتی دنیا تک اس کا فائدہ باقی رہ سکتا ہے قلم بظاہر خاموش رہتے ہوئے بھی بلاغت کے موتی بکھیرتا ہے اور فصاحت کے جادو جگاتا ہے ۔
یہ دونوں چیزیں اللہ کی امانت اور انمول تحفہ ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کو اس امانت کی حقیقت کا احساس ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو زبان و قلم کے دھنی ہیں لیکن انہوں نے اس کی عظمت کو گہن لگایا ہے۔ اس کی حرمت کو پامال کیا ہے ۔روشن خیالی اور آزادی کے نام پر بے حیائی، بدچلنی اور برائی پھیلانے کی کوشش کی ہے ۔
غرضیکہ یہ ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہے جو صحیح ہاتھوں میں ہو تو ظلم و جور اور بے حیائی کا صفایا کرتی ہے اور غلط ہاتھوں میں ہو تو تباہی اور بربادی کے خیمے گاڑ دیتی ہے ۔
اس لیے ضرورت ہے کہ اسلامی مزاج اور اسلامی علم رکھنے والے نوجوان اس امانت کو سنبھالیں تاکہ معاشرے سے برائی کا خاتمہ ہو اور بھلائی کو پنپنے اور پھیلنے کا موقع ملے ۔

تقریر و تحریر کے عناصر:

اللہ تبارک و تعالی نے ہر انسان کے اندر تقریر و تحریر کی صلاحیت رکھی ہے، بس کوشش اور محنت کے ذریعے اس صلاحیت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ہر چیز شروع میں مشکل معلوم ہوتی ہے اور سیکھ لینے کے بعد اس درجہ آسان محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس کے لیے کسی محنت و مشقت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ایک بچے کے لیے حرف شناسی کس درجہ مصیبت ہے؟ لیکن شعور کی عمر میں اس سے زیادہ آسان کوئی اور چیز نظر نہیں آتی.

1-زبان دانی:

تقریر اور تحریر دونوں کے لیے سب سے اہم چیز زبان دانی ہے ایک خطیب اور قلم کار کے لیے یہ اسی طرح سے ضروری ہے جیسے کہ زندگی کے لیے ہوا اور پانی۔ زبان پر مکمل دسترس اور اس کے قواعد و ضوابط سے اگاہی کے بغیر مطالعہ اور مشاہدے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اللہ تبارک و تعالی نے دنیا میں جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے ہیں وہ سب زبان دانی اور شیریں بیانی میں تمام لوگوں پر فائق تھے سب سے اول اور ہر ایک سے بہتر خطیب انبیاء کرام تھے اور ان پر جو کتاب نازل کی جاتی تھی وہ زبان و ادب کا شاہکار ہوا کرتی تھی۔
آخری کتاب قران مجید فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بے مثال ہے اور جس ہستی پر اسے نازل کیا گیا وہ اپنے اخلاق و کردار کی طرح زبان و بیان کے بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متعلق خود کہا کرتے تھے کہ میں عربوں میں سب سے زیادہ فصیح ہوں۔(التلخيص الحبير 1298/4)
عربوں میں زبان سیکھنے کے لیے اس درجہ اہتمام تھا کہ وہ اس کے لیے اپنے شیر خوار بچوں کو خود سے جدا کر لینا گوارا کر لیتے اور انہیں پرورش کے لیے دیہات بھیج دیتے تاکہ وہاں کی خالص عربی زبان سیکھ سکیں. کہا جاتا ہے کہ خلفاء بنو امیہ میں سے ولید کو کسی وجہ سے دیہات میں پرورش کے لیے بھیجا نہ جا سکا .جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صحیح عربی زبان نہیں بول سکتا تھا۔
دعوت و تبلیغ اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے شیری بیانی، دلکشی اور روانی وراثت نبوی ہے اور انبیاء کے وارثوں کو کتاب الہی میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ معرکہ خیر و شر میں بہتر سے بہترین اسلوب کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں۔
رب کائنات کا ارشاد ہے :
* اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ
اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو ، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ یقینا تمہارا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں، اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو راہ راست پر قائم ہیں۔(سورہ النحل : 125)
* وَ قُوۡلُوۡا لِلنَّاسِ حُسۡنًا .
اور لوگوں سے اچھی بات کہو
(سوره البقره: 83)

2-مطالعہ اور مشاہدہ:

ایک مقرر اور قلم کار کے لیے زبان دانی کے بعد دوسری اہم چیز مطالعہ اور مشاہدہ ہے کہ اس کے بغیر نہ تو وہ اپنے فن کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے اور نہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے ۔
مطالعے کے لیے کتاب و سنت کے ساتھ تاریخ بھی پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ یہ تینوں چیزیں ایک مسلم مقرر اور خطیب کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک مقرر اور قلم کار کے لیے کتاب الہی اور سنت نبوی سے آگاہی کس درجہ ضروری ہے؟ وہ محتاج بیان نہیں ہے .اور تاریخ کے ذریعے قوموں کے عروج و زوال سے واقفیت حاصل ہوتی ہے، انسانی تجربوں کا علم ہوتا ہے جس کے ذریعے خیالات میں وسعت اور شعور میں پختگی آتی ہے اور موجودہ حالات کو سمجھنے اور مسائل کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

3-مشق و تمرین:

تیسری اہم چیز مشق و تمرین ہے کہ اس کے بغیر زبان و بیان پر قدرت ،مطالعہ اور مشاہدہ کی وسعت بے معنی ہے کہ مشق نہ ہونے کی وجہ سے جب کسی مجمع میں بولنے کی نوبت آتی ہے تو گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ خوف و ہراس کی وجہ سے زبان بند ہو جاتی ہے اس لیے مشاقی از حد ضروری ہے ۔
مشق کے دوران صحیح تلفظ، لب و لہجہ میں اتار چڑھاؤ نیز اپنے حرکات و سکنات پر خصوصی توجہ ضروری ہے کہ یہ چیزیں بھی سامعین پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
مضمون کی رعایت سے نرم و گرم ہونا اور موقع کے لحاظ سے مسرت یا غم آگیں اسلوب اختیار کرنا اور ہر حال میں سنجیدگی کا دامن تھامے رہنا بھی لازمی ہے۔

4-اخلاص اور حسن اخلاق:

ان سب کے ساتھ ایک خطیب اور قلم کار کے لیے سب سے اہم اور ضروری چیز ہے اس کا کردار اور اخلاص کہ اس کے بغیر نہ تو زبان دانی سے کچھ حاصل ہے اور نہ کثرت مطالعہ اور مشاہدہ کا کوئی فائدہ ہے اس لیے کہ :
آدمی سنتا نہیں آدمی کی باتوں کو .
پیکرعمل ہو کر غیب کی صدا بن جا ‌۔

تجاویز اور مشورے:

1-ہر طالب علم کو خطیب اور قلم کار بنانے کے بجائے ایسے طلبہ کا انتخاب کیا جائے جنہیں تحریر و تقریر سے مناسبت ہو ۔
2-ان کے معیار کے مطابق ادبی تاریخی اور سیرت کی کتابوں کا نظم کیا جائے.
3-مشہور قلم کاروں کی کتابوں کا خلاصہ تیار کرایا جائے ۔
4-مشہور خطیبوں کی کتابوں نیز ان کی آڈیو اور ویڈیو کیسٹ کے ذریعے خطیبانہ انداز کی مشق کرائی جائے ۔
5-رسائل و جرائد اور اخبارات کا مطالعہ کرایا جائے ۔
6-ان کے درمیان مقابلہ رکھا جائے اور تشجیعی انعامات مقرر کیے جائیں ۔
7-کسی خاص علاقہ، جگہ یا ضلعی سطح کی انجمن بنانے کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ اس کی وجہ سے تعصب اور علاقائیت کو پنپنے کا موقع ملتا ہے بلکہ مخلوط انجمنوں کا قیام روبہ عمل لایا جائے ۔
8-مدارس میں تحریر و تقریر سیکھنے کے لیے جو طریقہ رائج ہیں انھیں فعال اور کارگر بنایا جائے.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے