مخصوص وقت اور مخصوص دن کی سنتیں

نماز تہجد:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

آخری رات کے پرسکون اور کیف آور ماحول میں جب کہ اللہ کی خاص رحمت، بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہے، قدسی صفات بندے اپنے رب سے راز و نیاز میں مصروف ہوجاتے ہیں، خدا کی معرفت کے ادراک سے ان کی روح سرشار ہوجاتی ہے ، ایک لگن ،شوق اور چبھن پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسی چسک پڑجاتی ہے کہ اس کے بغیر پوری دنیا اُجڑی، اجڑی سی لگتی ہے۔ اپنے پروردگار کے حضور سجدہ شوق کا نذرانہ پیش کئے بغیر چین نہیں ملتا، رب کائنات بھی ایسے چنندہ بندوں کا تذکرہ کچھ ایسے انداز سے کرتا ہے کہ کام و دہن ایک انوکھی لذت سے شاد و سرشار ہوجاتا ہے ، جب مثالی مومنوں کا تذکرہ آتا ہے تو بات پوری نہیں ہوتی جب تک کہ اس طرح کے الفاظ نہ آجائیں:
*الذین یبیتون لربھم سجداً وقیاما۔
‌ وہ جو اپنے رب کیلئے پوری رات سجدہ و قیام میں گزار دیتے ہیں( فرقان: 64)
*تتجافٰی جنوبھم عن المضاجع یدعون ربھم خوفاوطمعا ۔
ان کے پہلو خوابگاہوں سے علحدہ رہتے ہیں اپنے رب کو خوف و امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔(سورہ سجدہ)

*کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ ۔وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ۔
وہ رات کے و قت کم سوتے تھے۔ اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے۔ ( سورہ الذّٰریٰت : 17. 18)
تفسیر:
یعنی رات کا بڑا حصہ عبادت میں گذارنے کے بعد بھی وہ اپنے اس عمل پر مغرور نہیں ہوتے، بلکہ سحری کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استغفار کرتے ہیں کہ نہ جانے ہماری عبادت میں کون کون سی کوتاہیاں رہ گئی ہوں جن کی وجہ سے وہ عبادت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لائق نہ ہو، اس لیے آخر میں استغفار کرتے ہیں۔(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اپنے پیارے رسول محمد ﷺ کو تہجد کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
ومن اللیل فتھجد بہ نافلۃ لک عسی ان یبعثک ربک مقاما محموداً ۔
اوررات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو، تمہارے لئے بطور نفل ہے، ممکن ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کردے۔(سورہ بنی اسرائیل :79)
اس آیت میں تہجد کے حکم کے ساتھ آنحضرت ﷺ کو ’’مقام محمود ‘‘ کی امید دلائی گئی ہے۔ ’’مقام محمود‘‘ آخرت میں ’’شفاعت کبری‘‘ کا منصب ہے۔(تفسیر ابن کثیر 292/2)کہ جس گھڑی نفسی نفسی کا عالم ہوگا اس موقع پر رسول کریم ﷺ رب کائنات کے حضور سجدہ ریز ہوکر شفاعت کی درخواست کریں گے اور آپکی شفاعت قبول کی جائیگی، بعض حضرات کا خیال ہے کہ جنت میں بلند ترین مرتبہ کا نام ’’مقام محمود ‘‘ ہے۔ دنیا میں ’’مقام محمود ‘‘ کیا ہے؟ اس سلسلہ میں مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
’’حسن و کمال کا ایک مقام جہاں پہونچ کر خلائق کی عالمگیر اور دائمی مرکزیت حاصل ہوجائے گی ، کوئی زمانہ ہو، کوئی نسل ہو، کوئی ملک ہو لیکن کڑوڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی، ان گنت زبانوں پر اس کی مدحت طرازی ہوگی … یہ مقام انسانی عظمت کی انتہا ہے، اس سے بڑھ کر انسانی رفعت کا تصور نہیں کیاجاسکتا ، انسان کی سعی و ہمت ہرطرح کی بلندیوں تک اڑ کر جاسکتی ہے لیکن یہ بات نہیں پاسکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کا مرکز بن جائے۔ (ترجمان القرآن(308/4)
مذکورہ آیت میں ’’مقام محمود‘‘ کا تذکرہ تہجد کے ساتھ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد اور ’’مقام محمود ‘‘ میں ایک گونہ نسبت اور تعلق ہے، اور امتیوں میں سے بھی جو لوگ اس نماز کو پڑھتے رہیں گے انہیں ’’مقام محمود ‘‘ میں کسی درجہ کی اللہ کے رسول ﷺ کی رفاقت میسر ہوگی۔
اور حدیث میں فرض نماز کے بعد سب سے افضل اسی نماز کو قرار دیا گیا۔ (افضل الصلاۃ بعد صلاۃ المکتوبۃ الصلوۃ فی جوف اللیل ،رواۃ الجماعۃ الاالبخاری ۔نیل الاوطار 56/3)
نیز آپ ﷺ کاارشاد ہے تم رات کی نماز کو اپنے لئے لازم کرلو کیونکہ وہ تم سے پہلے کے نکو کار لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور اللہ سے نزدیکی کاذریعہ ہے، گناہوں کو مٹانے اور برائیوں سے روکنے والی ہے ۔ (رواہ الترمذی وابن خزیمہ ۔اعلاء السنن7 ؍ 38)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
‌اقرب مایکون الرب من العبد فی جوف اللیل الآخرفان استطعت ان تکون ممن یذکر اللہ فی تلک الساعۃ فکن ۔ رواہ الترمذی وابن خزیمہ وقال الترمذی حسن صحیح ۔(الترغیب للمنذری434/1)
اللہ اپنے بندہ سے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری درمیانی حصہ میں ہوتا ہے۔ اس لئے اگر تم سے ہوسکے کہ ان لوگوں میں شامل ہوجاؤ جو اس وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں تو ضرور ایسا کرو ۔
اور ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا :
یا ایھاالناس افشوالسلام واطعموالطعام وصلواالارحام وصلواباللیل والناس نیام تدخل الجنۃ بسلام ۔ رواہ الترمذی عن عبداللہ بن سلام ۔وقال حسن صحیح (الترغیب 423/1)
لوگو! سلام کو رواج دو ، کھانا کھلاؤ، رشتہ داریوں کو جوڑو،اور جب لوگ سورہے ہوں اس وقت نماز پڑھو جنت میں بہ سلامت دخل ہوجائو گے۔
نماز تہجد سے خود نبی کریم ﷺ کو کس قدر شغف تھا؟ اس کا اندازہ ذیل کی حدیث سے لگایا جاسکتا ہے:
عن عائشہؓ قالت کان النبی ﷺ یقوم من اللیل حتی تتفطر قدماہ فقلت لہ لم تصنع ھذا یارسول اللہ وقدغفرلک ماتقدم من ذنبک وماتاخر قال افلا اکون عبداً شکوراً ۔
(متفق علیہ ۔ ریاض الصالحین 462/2)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رات میں آپ ﷺ اس قدر طویل نماز پڑھتے کہ اس کی وجہ سے قدم مبارک پھٹ جاتے۔ آپ ﷺ سے عرض کیا گیاکہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ آپکی اگلی اور پچھلی تمام لغزشیں معاف کردی گئیں ہیں، رسول مقبول ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا : کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں؟۔
آنحضور ﷺ اس نماز کے اس قدر دلدادہ تھے کہ سفر میں ہوں یا گھر پہ کبھی بھی ترک نہ فرماتے۔ (صحیح بخاری 1؍ 1941) کسی وجہ سے رات میں نہ پڑھ سکتے تو دن میں قضا کرلیتے (۔صحیح مسلم 1؍256)
تہجد صحابہ کرام کی شناخت اور پہچان بن چکی تھی، چنانچہ بادشاہ روم ہر قل کے سامنے صحابہ کرام کا تعارف ان لفظوں میں کرایا گیا:
فی اللیل رھبان وفی النھار فرسان ۔
رات میں عبادت گذار اور دن میں شہسوار ہیں۔
تہجد اولیاء کرام اور بزرگان دین کا معمول رہا ہے، صوفیاء کا کہنا ہے کہ تہجد کے بغیر کوئی درجہ ولایت کو نہیں پہونچ سکتا ۔ واقعہ ہے کہ تہجد ایک عظیم نعمت ہے، روحانی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ، قرب الٰہی کا وسیلہ، اور دل کو تروتازہ ، شگفتہ اور گرم رکھنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ جسے اس لذت کا ادراک ہوجائے اس کے سامنے ساری دنیا کی دولت ہیچ ہے۔ اس کیلئے اس وقت آرام کی نیند سونا کانٹے کے بستر پر سونے کے مترادف ہے۔
ابتداء اسلام میں یہ نماز فرض تھی بعد میں یہ حیثیت ختم کردی گئی (حوالہ سابق) اس لے اب یہ نماز فرض نہیں لیکن نبی کریم ﷺ کی اس نماز پر ہمیشگی اور قرآنی انداز بیان نیز صحابہ کرم کے طرز عمل کے پیش نظر اس کی قانونی حیثیت سنت موکدہ سے کم نہیں ۔
(فقیام اللیل سنۃ موکدۃ تطابقت علیہ دلائل الکتاب والسنۃ واجماع الامۃ .شرح مھذب 4؍ 44)

وقت:

تہجد کا وقت عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے، البتہ جو شخص رات کا ایک تہائی حصہ تہجد میں گذارنا چاہے اس کیلئے افضل اور بہتر ہے کہ رات کے تین حصے کرکے درمیانی حصہ میں تہجد پڑھے اور اول و آخر حصہ میں آرام کرے، اگر آدھی رات عبادت میں گزارنا ہو تو آخری نصف میں تہجد پڑھنا اچھا ہے، بعض حضرات کی رائے میں رات کے چھ حصے کرکے اول کے تین حصوں میں آرام مناسب ہے، چوتھا اور پانچواں حصہ نماز میں مشغول ہو اور پھر چھٹے حصہ میں آرام کرے (ردالمحتار 506/1)
اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے :
احب الصلاۃ الی اللہ صلاۃ داود واحب الصیام الی اللہ صیام داود کان ینام نصف اللیل ویقوم ثلثہ وینام سدسہ ویصوم یوماً ویفطر یوماً ۔(صحیح بخاری ومسلم سنن ابوداؤد ، نسائی، ابن ماجہ.الترغیب 427/1)
اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز داؤد (علیہ السلام)کی نماز ہے اور سب سے محبوب روز ہ داؤد (علیہ السلام)کا روزہ ہے، وہ آدھی رات تک سوتے اور تہائی رات نماز پڑھتے پھر چھٹے حصے میں سوتے تھے اور ایک دن ناغہ کرکے روزہ رکھا کرتے تھے۔
سنت یہ ہے کہ عشاء پڑھ کر سورہے، اس کے بعد اٹھ کر تہجد پڑھے، تہجد سے متعلق عملی طور پر آنحضور ﷺ سے یہی منقول ہے تاہم اگر آنکھ نہ کھلنے کا اندیشہ ہوتو عشاء کی نماز کے بعد دو یا دو سے زائد رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ کے سو رہے اور رات میں اٹھ کر تہجد پڑھنے کا پختہ عزم بھی ہو، اگر نیند ٹوٹ جائے تو بہتر ہے ورنہ تو کوئی بات نہیں،رات میں قیام کا ثواب ان شاء اللہ ملے گا، حدیث میں ہے :
ان ھذا السفر جھد و ثقل فاذا اوتر احدکم فلیرکع رکعتین فان استیقظ واِلَّا کانتا لہ ۔
(اخرجہ الطحاوی والدارقطنی، وفی التعلیق المغنی: اسنادہ جید .اعلاء السنن 105/6)
’’سفر مشقت اور گرانی کا نام ہے۔ اس لئے جب تم وتر پڑھ لو تو اس کے بعد دورکعت بھی ادا کرلو، پس اگر رات میں اٹھ جاؤ تو بہتر ہے ورنہ یہ رکعتیں کافی ہوجائیں گی۔‘‘

تعداد رکعت:

تہجد کم سے کم دو رکعت ہے، زیادہ کی کوئی حد نہیں۔(دیکھئے معارف السنن 132/4، ردالمحتار 506/1) چنانچہ حدیث میں ہے :
اذا ایقظ الرجل اھلہ من اللیل فصلیا او صلی رکعتین جمیعا کتبا فی الذاکرین والذکرات .( رواہ ابوداؤد باسناد صحیح ۔ ریاض الصالحین 467)
جب کسی نے رات میں اپنی بیوی کو جگایا اور دونوں نے دو رکعت نماز پڑھ لی تو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والوں میں ان کا شمار ہوگا ۔
تاہم عملی طور سے رسول کریم ﷺ سے کم از کم چار رکعت اور زیادہ سے آٹھ رکعت پڑھنا ثابت ہے۔ ( دیکھئے معارف السنن 4/ 130-133)
لہذا کم سے کم چار رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت پڑھنا مسنون اور بہتر ہے۔

قرأت :

رات کی نماز میں آواز سے قرأت کرنا بھی جائز ہے اور آہستہ پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ ( معارف السنن 158/4)
حضرت عائشہ ؓسے دریافت کیا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ رات میں کیسے قرآت کرتے تھے؟ فرمایا : کبھی آہستہ پڑھتے اور کبھی آواز سے ۔(ربما أسر بالقرأت و ربما جھر۔ سنن ترمذی 100/1 وقال صحیح غریب ، نیل 59/3)
لیکن عام حالات میں جب کہ کسی کو تکلیف نہ ہو درمیانی آواز سے قرات کرنا بہتر ہے، نہ زیادہ پست اور آہستہ اور نہ زیادہ تیز ، حضرت ابوقتادہ راوی ہیں کہ ایک رات اللہ کے رسول ﷺ باہر نکلے دیکھا کہ حضرت ابوبکر بالکل ہلکی آواز میں پڑھ رہے ہیں اور حضرت عمر بلند آواز میں ،یہ دونوں حضرات جب آپ ﷺ کے پاس آئے تو آپؐ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا کہ میں رات تمہارے پاس سے گذرا تو دیکھا کہ تم پست آواز میں قرآن پڑھ رہے ہو، انہوں کہا : اللہ کے رسول! جس سے میں سرگوشی کررہا تھا اسے سنادیا۔ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا اپنی آواز کو تھوڑا بلند کرو، پھر حضرت عمر سے مخاطب ہوئے اور کہا عمر! میں نے تمہیں خوب بلند آواز سے قرأت کرتے دیکھا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں بلند قرأت کے ذریعہ غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا اور شیطان کو بھگانا چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی آواز کو قدرے پست کرلو۔(سنن ابوداؤد188/1)

جماعت:

اس مسئلہ پر تفصیلی بحث آئندہ ’’نفل کی جماعت ‘‘ کے عنوان سے ہوگی، موقع کی مناسبت سے مجدد الف ثانی کی ایک چشم کشا تحریر پیش ہے، وہ فرماتے ہیں:
افسوس صد افسوس کچھ ایسی بدعتیں جن کا دوسرے ’’سلاسل‘‘ میں نام و نشان تک نہیں ملتا اس عظیم المرتبت سلسلہ (نقشبندیہ) میں رواج پاگئی ہیں، نماز تہجد جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں، اطراف و جوانب سے اس وقت تہجد کیلئے جمع ہوتے ہیں اور اکھٹے ہوکر نماز پڑھتے ہیں، یہ عمل مکروہ تحریمی ہے، فقہاء کی ایک جماعت جن کے نزدیک مکروہ ہونے کیلئے لوگوں کو بلانا (تداعی) شرط ہے ان کے یہاں بھی ضروری ہے کہ وہ جماعت مسجد کے کسی گوشہ میں ہو اور تین آدمیوں سے زیادہ نہ ہوں اس لئے کہ تین آدمیوں سے زیادہ کی نفل بہ جماعت باتفاق مکروہ ہے۔( مکتوبات 131 ،دفتراول)

اذکار و دعائیں:

رات کے آخری حصہ میں اللہ کی رحمت خاص اپنے بندوں کیطرف متوجہ ہوتی ہے ۔ اور اس وقت دعائیں قبول ہوتی ہیں ؛ اس لئے اس وقت دعا و‌ استغفار کا اہتمام کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جو اس وقت مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (وبالاسحار ھم یستغفرون) اورحدیث میں ہے :
ینزل ربنا تبارک وتعالیٰ کل لیلۃ الی السماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الاخر یقول من یدعونی فاستجیب لہ من یسالنی فاعطیہ من یستغفرلی فاغفرلہ۔ ( صحیح مسلم 258/1 صحیح بخاری 153/1)
ہمارے رب رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں، اور کہتے ہیں کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا قبول کرلوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں نواز دوں، کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اسے معاف کردوں؟
’’اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں ‘‘ اس جملے کی تشریح میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، بعض حضرات کی رائے ہے کہ اس کی کیفیت سے صرف اللہ تعالیٰ ہی آگاہ ہیں، ہماری عقل وفہم اس کیفیت کے ادراک سے قاصر ہے، اکثر اسلاف کا یہی رجحان ہے، کچھ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’نزول ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا اپنی رحمت خاص کے ساتھ بندوں کی طرف متوجہ ہونا ہے۔(معارف السنن 138/4)
حضرت عبادہ بن صامت ؓ، اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو کوئی رات میں اٹھ کر یہ کلمات کہے:
لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شیٔ قدیر، و سبحان اللہ والحمد للہ ولاالہ الااللہ ، واللہ اکبر و لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، سلطنت اس کی ہے اور اسی کے لئے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ ہر عیب سے پاک ہے اور حمد ،اللہ ہی کے لئے ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے۔ اور طاقت و قوت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
پھر مغفرت طلب کرے (اللھم اغفرلی کہے) یا دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اگر وضو کرکے نماز پڑھے تو مقبول ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری 155/1 ، جامع ترمذی 178/2 کتاب الدعوات) ۔

تہجد کی پابندی :

کسی بھی اچھے عمل کو شروع کرنے کے بعد اس پر مداومت اور ہمیشگی بہتر ہے، خاص کر نماز تہجد کی کوشش بھر پابندی کرنی چاہئے ، رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن عمروکو مخاطب کرکے فرمایا:
یا عبداللہ لا تکن مثل فلان کان یقوم من اللیل فترک قیام اللیل ۔
عبداللہ! تم اس شخص کی طرح نہ ہوجاؤ جو رات میں نماز پڑھا کرتا تھا مگر پھر چھوڑدی۔ (بخاری 1541/1)
تہجد کیلئے پختہ عزم اور بیدار ہونے کی تمام تدبیریں کرلینا چاہئے، اس کے باوجود کسی وجہ سے آنکھ نہ کھلی تو تہجد پڑھنے کا ثواب ملے گا چنانچہ حضرت ابودرداء رسول اکرم ﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں :
من أتی فراشہ و ھو ینوی ان یقوم فیصلی من اللیل فغلبتہ عینہ حتی یصبح کتب لہ مانوی وکان نومہ صدقۃ علیہ من ربہ ۔ (نسائی، ابن ماجہ، باسناد صحیح علی شرط مسلم ( شرح مھذب 47/4)
جو کئی رات میں نماز پڑھنے کی نیت کرکے سوئے پھر اس کی آنکھیں نہ کھلیں یہاں تک کہ صبح ہوگئی تو اس کیلئے وہی لکھا جائے گا جس کی اس نے نیت کی ہے، اور اس کی نیند اللہ کی طرف سے صدقہ ہے۔

قضا:

نیند نہ کھلے یا کسی بیماری کی وجہ سے تہجد چھوٹ جائے تو فجر اور ظہر کے درمیانی حصہ میں قضا کرلینا مسنون ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی رات کی نماز بیماری یا نیند کی وجہ سے رہ جاتی تو آپ دن میں بارہ رکعت پڑھ لیا کرتے تھے۔ (وکان اذانام من اللیل اومرض صلی من النھار ثنتی عشرۃ رکعۃ۔ مسلم 256/1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں :
من نام عن حزبہ او عن شیٔ منہ فقرءہ فیما بین صلاۃ الفجر وصلاۃ الظھر کتب لہ کانما قرؤہ من اللیل (رواہ الجماعۃ الاالبخاری (نیل الاوطار 294/2)
جو کوئی نیند کی وجہ سے اپنے مقررہ وظیفہ کو نہ پڑھ سکا یااس کو مکمل نہ کرسکا پھر فجر اور ظہر کے درمیانی حصہ میں پڑھ لے تواسے اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ رات میں پڑھنے پر ملتا ۔
واضح رہے کہ طلوع فجر کے بعد نماز فجر سے پہلے اور ایسے ہی نماز فجر کے بعد تہجد کی قضا مکروہ ہے، البتہ اگر طلوع فجر سے پہلے شروع کیا اور مکمل طلوع کے بعد کی تواس کی گنجائش ہے۔ بلکہ افضل ہے کہ نماز مکمل کرے ۔(ردالمحتار 276/1)

گھروالوں کو جگانا:

کسی خوشی کے موقع پر تمام گھر والے شریک ہوں تو یہ مسرت جشن میں تبدیل ہوجاتی ہے ، اس موقع پر اگر کوئی محروم رہ جائے تو کس قدر تکلیف ہوتی ہے، لاکھ جتن کرکے تمام گھروالوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تہجد کے سلسلہ میں بھی رسول مقبول ﷺ نے یہی درس اور یہی پیغام دیا ہے کہ ممکن حد تک ہر ایک کو اس خدائی انعام اور نوازش وبرکات میں شامل کرناچاہئے، ارشاد ہے:
رحم اللہ رجلا قام من اللیل فصلی وایقظ امراتہ فصلت فان ابت نضح فی وجھھــــا الماء ،رحم اللہ امرأۃ قــــامت من اللیل فصلت وایقظت زوجھا فصلی فان ابی نضحـت فی وجھـہ الماء، (ابوداؤد ، نسائی ، باسناد صحیح ۔شرح مھذب46/4)
اللہ اس مرد پر رحمت نازل کرے جو رات کو اٹھا، نماز پڑھی اپنی بیوی کو بھی بیدار کیااور اس نے بھی نماز پڑھی ، اگر بیدار ہونے سے انکار کیا تو اس کے منہ پر ہلکا پانی چھڑک دیا، اللہ اس عورت پر رحمت نازل کرے جس نے رات میں اٹھ کر نماز پڑھی اور اپنے شوہر کو بیدار کیا اور اس نے بھی نماز پڑھی اوراگر اٹھنے سے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کا ہلکا سا چھینٹا دے کر بیدار کیا۔
واضح رہے کہ تہجد کیلئے دوسروں کو جگانا اسی وقت درست ہے جب کہ معلوم ہو کہ وہ اس عمل سے خوش ہوگا، اسے کوئی گرانی نہیں ہوگی، کسی قسم کی کشیدگی اور ناگواری کا باعث نہ ہو۔
(ولایخفی تقییدہ بما اذا علم من حال النائم انہ یفرح بذالک اولم یثقل علیہ ذالک. حاشیۃ السندی ، علی ابن ماجہ 401/1)

تہجد پڑھتے ہوئے نیند آنے لگے:

جب تک ذوق وشوق ہو، بدن میں چستی اور نشاط ہو تہجد میں مشغول رہناچاہئے، اگر اکتاہٹ محسوس ہو،طبیعت سست پڑجائے تو کچھ دیر بیٹھ کر آرام کرلینا چاہئے، دوبارہ نشاط پیدا ہوجائے تو تہجد شروع کردے ورنہ تو سوجائے، حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : جبتک نشاط باقی رہے نماز پڑھنا چاہئے اور جب سستی چھا جائے تو چاہئے کہ بیٹھ جائے۔( متفق علیہ ، مشکوۃ المصابیح 110/1)
نیند کا غلبہ ہو، پلکیں بند ہوجائیں، اونگھنے لگے تو اس وقت بھی جاکر سو جانا بہتر ہے حدیث میں ہے :
اذا نفس أحدکم فی صلاتہ فلیرقد حتی یذھب عنہ النوم فان احدکم اذاصلی وھو ناعس لعلہ یذھب یستغفراللہ فیسب نفسہ( صحیح بخاری و مسلم ۔مشکوۃ 110/1)
جب نماز پڑھنے میں تمہیں اونگھ آنے لگے تو جاکر سوجاؤ یہاں تک کہ نیند دور ہوجائے، کیونکہ اگر اونگھتے ہوئے نماز پڑھو گے تو بجائے استغفار کے (غفلت کی وجہ سے ) خود کو بددعا دینے لگوگے ۔

نبی ﷺ کی تہجد کی بعض تفصیلات:

آنحضور ﷺ جب رات میں تہجد کیلئے بیدار ہوتے تو پہلے مسواک اور وضو کرتے ، وضو کے دوران یا پہلے سورہ آل عمران کی یہ آیت : ان فی خلق السموٰت والارض ‘‘ ختم سورہ تک پڑھ جاتے۔ (صحیح مسلم 1/ 260-261)
حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، پہلے آپ نے اللہ اکبر ، اللہ اکبر، اللہ اکبر ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ کہا اس کے بعد نماز شروع کی ۔( سنن ابوداؤد)
نماز تہجد کی ابتداء دو مختصر رکعتوں سے کرتے ۔( کان النبی اذا قام من اللیل یصلی افتتح صلوتہ برکعتین خفیفتین۔ مسلم 262/1) اور اسی کا حکم بھی دیا ہے۔ (اذاقام احدکم من اللیل فلیفتح صلوتہ برکعتین خفیفتین ۔ حوالہ سابق)
ہر دورکعت پر سلام پھر دیا کرتے۔ ( کان یصلی ؐ مثنی مثنی ( مسلم 257/1)
اور اسی طرح نماز تہجد پڑھنے کو پسند فرماتے۔ ( ان رجلا سال عن صلوۃ اللیل فقال صلوۃ اللیل مثتی مثتنی (حوالہ سابق)
تہجد میں بہت طویل قرأت آپ سے منقول ہے، حضرت حذیفہ سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ چار رکعتوں میں آپ نے سورہ بقرہ، آل عمران، نساء ، مائدہ، یا انعام پڑھی، اس طور پر کہ سجدہ، رکوع وغیرہ بھی قرأت ہی کی طرح طویل کیا کرتے، (صحیح مسلم م ریاض الصالحین 466)
دوران قرأت اگر رحمت کی آیت آجاتی تو ٹھہر کر رحمت کی دعا کرتے اور جہاں عذاب کی آیت ہوتی وہاں اس سے پناہ مانگتے، بعض روایتوں میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آنحضور ﷺ رات کی نماز میں صبح تک ایک ہی آیت پڑھتے رہے، وہ آیت یہ ہے:
ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیزالحکیم ۔ (نسائی ،ابن ماجہ)
اگر آپ انہیں عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں (اور اس کے سزاوار ہیں) اوراگر معا ف کردیں تو بلاشبہ آپ غالب اور حکمت والے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے