بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔

سلسله(6)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل

 

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242

 

8- تیراکی اور غوطہ خوری:

 

ورزش کے اعتبار سے تیراکی سب سے مفید کھیل ہے اور اسی کے ساتھ زندگی کی ایک ضرورت بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ ،مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں سمندر یا نہر نہ ہونے کے باوجود تیراکی سیکھنے کی طرف صحابہ کرام کو راغب کیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

كل شيء ليس من ذكر الله فهو لهو او سهو الا اربع خصال مشي الرجل بين الغرضين و تاديبه لفرسه وملاعبته اهله وتعليم السباحة.

جس چیز کا تعلق اللہ کے ذکر سے نہ ہو وہ کھیل تماشا یا غفلت ہے سوائے چار چیزوں کے

دو نشانوں کے درمیان چلنا (تیر اندازی کرنا) گھوڑے کو سدھانا ،اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا. ( أخرجه النسائي في السنن الكبرى:8891. والبيهقي:19771. إسناده جيد.).

اور حضرت بکر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

علِّموا بنيكمُ السِّباحةَ والرَّميَ۔

اپنے بچوں کو تیراکی اور تیر اندازی سکھاؤ ۔

(الجامع الصغیر للسیوطی مع الفیض 418/4

مختصر المقاصد للزرقانی: 688 • حسن لغيره .)

اور امام سیوطی نے نقل کیا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ کے بارے میں فرمایا کہ یہاں میری والدہ رکی تھیں اور یہیں پر میں نے بنی عدی بن نجار کے حوض پر اچھی طرح سے تیرنا سیکھا تھا۔(الباحة في فضل السباحة /61)

نیز انہوں نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام ایک دن کسی تالاب میں داخل ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھی کے پاس تیر کر جائے گا، چنانچہ ہر ایک نے ایسا ہی کیا، آخر میں صرف رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابوبکر رہ گئے۔ آپ ﷺ تیر کر ان کے پاس پہونچے اور ان سے بغل گیر ہوگئے اور فرمایا کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا ۔(الباحة في فضل السباحة /62 ۔حدیث مرسل اور سند حسن ہے۔ )

اور حضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ اپنے بچوں کو تیراکی اور بڑوں کو تیراندازی سکھاؤ۔( عَلِّمُوا غِلْمَانَكُمُ الْعَوْمَ، وَمُقَاتِلَتَكُمُ الرَّمْيَ. مسند احمد: 323)

اہل عرب میں اسلام سے پہلے اور اسلام کے شروعاتی دور میں جس شخص میں تین خوبیاں (لکھنا ،تیرنا اور تیر اندازی کرنا) جمع ہوجاتیں اسے ایک مثالی انسان سمجھا جاتا اور اسے "الکامل” کے لقب سے یاد کیا جاتا ۔

اور خلیفہ عبدالملک بن مروان نے امام شعبی سے کہا کہ میرے بچوں کو تیراکی سکھا دیں کیوں کہ انھیں ان کی طرف سے لکھنے والے تو مل جائیں گے لیکن ان کی طرف سے تیرنے والے نہیں ملیں گے ۔

ابو ہاشم صوفی سے پوچھا گیا: کہاں مشغول تھے ؟کہا: ایسی چیز کو سیکھ رہا تھا جو بھولتی نہیں ہے اور کسی بھی جاندار کو اس سے چھٹکارا نہیں ہے۔ پوچھا گیا: کون سی چیز؟ کہا تیراکی.(دیکھئے فیض القدیر 418/4)

اور حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ بسااوقات حضرت عمر فاروق مجھ سے فرماتے کہ آؤ ! ڈبکی لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس کی سانس لمبی ہے ؟ حالانکہ ہم اس وقت حالت احرام میں ہوتے ۔

(ربَّما قالَ لي عُمرُ بنُ الخطَّابِ : تعالَ أُباقيَكَ في الماءِ أيُّنا أطوَلُ نفَسًا ، ونحنُ مُحرِمونَ.

مسند الفاروق 305/1.مسند الشافعی :862. معرفۃ السنن والآثار:9705۔إسناده صحيح)

تیراکی ورزش اور کھیل کے ساتھ زندگی کی ایک ضرورت بھی ہے ۔ اور مرد و عورت ہر ایک کو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس کی اسی حیثیت کی وجہ سے موجودہ دور میں اسے بڑی اہمیت دی جاتی ہے اور جگہ جگہ سویمنگ پول بنائے جارہے ہیں اور انعامی مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں ۔اور ظاہر ہے کہ اگر جوا کی آمیزش نہ ہو تو اس میں انعامی مقابلہ درست ہے اور یہی حکم غوطہ خوری کا بھی ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے