بسم اللہ الرحمن الرحیم

*ہفتے کی عید

جمعہ کی فضیلت

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔

جمعہ ہفتے کی عید کا دن ہے اور عید کے دنوں میں اللہ کی عظمت و کبریائی کے اعتراف واعلان اور حمد و ذکر کرنے کی بڑی اہمیت و فضیلت ہے۔

چناں چہ قرآن پاک میں ہے:

 

*یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۹﴾ فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿١٠﴾*

ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپک کے جاؤ او اور خرید و فروخت چھوڑ دو دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے ہے، اگر تم سمجھو۔ پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی نصیب ہو۔

اور حضرت حذیفہ اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

*أضل الله عن الجمعة من كان قبلنا فكان لليهود يوم السبت وكان للنصارى يوم الأحد فجاء الله بنا فهدانا الله ليوم الجمعة فجعل الجمعة والسبت والأحد وكذلك هم تبع لنا يوم القيامة نحن الآخرون من أهل الدنيا والأولون يوم القيامة المقضي لهم قبل الخلائق*

*(صحيح مسلم:٨٥٦ صحيح بخاري:٨٩٦)*

ہم سے پہلے کے لوگ جمعہ کی حیثیت و اہمیت کو نہیں جان سکے اور اللہ تعالی نے انہیں اس سے ناواقف رکھا اس لئے یہودیوں نے سنیچر کے دن کو اور نصرانیوں نے اتوار کے دن کو اپنے لیے پسند کیا،پھر ہم آئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی، اور دنوں کی ترتیب اس طرح سے بنائی جمعہ سنیچر اور اتوار، اسی طرح سے قیامت کے دن وہ ہمارے تابع ہوں گے ہم دنیا میں سب سے آخر میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے ہوں گے لہذا ہمارے حق میں سب سے پہلے فیصلہ ہوگا۔

اور امام مالک نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*”يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ ، إِنَّ هَذَا يَوْمٌ جَعَلَهُ اللَّهُ عِيدًا لِلْمُسْلِمِينَ ، فَاغْتَسِلُوا ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طِيبٌ فَلَا يَضُرُّهُ أَنْ يَمَسَّ مِنْهُ ، وَعَلَيْكُمْ بِالسِّوَاكِ "*(المؤطا:143باب السواک)

مسلمانو! اس دن کو اللہ تعالی نے عید قرار دیا ہے لہذا اس دن غسل کیا کرو اور اگر کسی کے پاس عطر ہے تو اسے لگانے میں کوئی حرج نہیں اور مسواک کو لازم پکڑ لو.

اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

*عُرِضتِ الجمعةُ على رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ جاءَهُ جبريلُ عليه السلام في كفِّهِ كالمرآةِ البيضاءِ في وسطِها كالنُّكتةِ السَّوداءِ فقالَ : ما هذا يا جبريلُ ؟ قالَ : هذِهِ الجمعةُ يعرضُها عليكَ ربُّكَ لتَكونَ لَكَ عيدًا ولقومِكَ من بعدِكَ ، ولَكُم فيها خيرًا تَكونُ أنتَ الأوَّلَ وتكونُ اليَهودُ والنَّصارى من بعدِكَ ، وفيها ساعةٌ لا يدعو أحدٌ ربَّهُ فيها بخيرٍ هوَ لَهُ قسمٌ إلَّا أعطاهُ ، أو يتعوَّذُ من شرٍّ إلَّا دُفِعَ عنهُ ما هوَ أعظمُ منهُ ، ونحنُ نَدعوهُ في الآخرةِ يومَ المزيدِ*

*(الترغيب ج١/ص٣١٦ حسن صحيح)*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کے دن کو لایا گیا،اسے جبرئیل امین علیہ السلام اپنے ہاتھ میں لے کے آئے وہ ایک سفید آئینے کی طرح تھا جس کے درمیان ایک سیاہ نقطہ تھا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: جبریل یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ جمعہ ہے، جسے آپ کے رب نے آپ کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ کے لئے اور آپ کے بعد آپ کی قوم کے لئے عید کا دن بن جائے اور آپ کے لئے اس میں خیر ہے، آپ اس معاملے میں سب س پہلے ہیں اور یہود و نصاریٰ اپ کے بعد ہیں (جمعہ پہلے ہے اور سنیچر اتوار اس کے بعد ہے) اس میں ایک ایسا وقت بھی ہے جو بھی اس میں کسی بھلائی کی دعا کرے گا تو قسمت میں ہوگی تو مل کر رہے گی اور اگر کسی شر سے پناہ چاہے گا تو اس سے بڑے شر کو دور کر دیا جائے گا اور ہم آخرت میں اسے اضافہ کا دن کہتے ہیں

 

*سب سے بہتر دن*

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا:

*خَيْرُ يومٍ طَلَعَتْ عليه الشمس يومُ الجُمعة: فيه خُلِقَ آدَم، وفيه أُدْخِلَ الجَنة، وفيه أُخْرِجَ منها* *(صحيح مسلم:٨٥٤)*

دنیا کے دنوں میں سب سے بہتر دن جمعہ ہے، اسی دن حضرت آدم بنائے گئے، اور اسی دن جنت میں داخل کئے گئے، اور اسی دن دنیا میں بھیجے گئے

حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*إن يوم الجمعة سيد الأيام، وأعظمها عند الله، وهو أعظم عند الله من يوم الأضحى ويوم الفطر، فيه خمس خلال، خلق الله فيه آدم، وأهبط الله فيه آدم إلى الأرض، وفيه توفى الله آدم، وفيه ساعة لا يسأل الله فيها العبد شيئا إلا أعطاه، ما لم يسأل حراما، وفيه تقوم الساعة، ما من ملك مقرب، ولا سماء، ولا أرض، ولا رياح، ولا جبال، ولا بحر، إلا وهن يشفقن من يوم الجمعة*

*ابن ماجه:١٠٨٤ قال العراقي اسناده حسن)*

اللہ کی نگاہ میں جمعہ کا دن سب دنوں کا سردار اور سب سے زیادہ باعظمت ہے اللہ کے نزدیک وہ عید فطر اور عید قرباں کے دن سے بھی زیادہ عظمت والا ہے، اس میں پانچ خصوصیتیں ہیں اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسی دن بنایا اور اسی دن زمین پر انہیں اتارا اور اسی دن وفات پائیں گے اور اس میں ایک ایسا وقت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے بندہ جو کچھ مانگتا ہے وہ اسے عطا کر دیا جاتا ہے جب تک کہ وہ حرام کا سوال نہ کرے اور اسی دن قیامت آئے گی، مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر سب جمعہ کے دن سے خوفزدہ رہتے ہیں

 

*قبولیت کی گھڑی*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا تذکرہ کیا اور فرمایا:

*فيه ساعةٌ، لا يُوافِقُها عبدٌ مسلمٌ، وهو قائمٌ يُصلِّي يَسأَلُ اللهَ تعالى شيئًا، إلا أعطاه إياه وأشار بيدِه يُقَلِّلُها* *بخارى: ٩٣٥ مسلم ٨٥٢)*

اس میں ایسا وقت ہے کہ اگر کوئی مسلمان نماز کی حالت میں اسے پالے اور اللہ تعالیٰ سے اس میں دعا کرے تو اسے ضرور نوازا جائے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ وہ وقت بہت تھوڑا سا ہے

قبولیت کی اس گھڑی کے سلسلے میں روایتوں میں اختلاف ہے ،حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*هي ما بين أن يجلس الإمام إلى أن تقضى الصلاة*

*(صحيح مسلم ٨٥٣)*

وہ وقت امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر نماز ختم ہونے تک ہے۔

اس روایت کو بعض لوگوں نے اضطراب اور انقطاع کی بنیاد پر ضعیف قرار دیا ہے ( دیکھئے فتح الباری ج٢/ص٤٢١وغیرہ)

اور حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت جابر سے منقول حدیث کے مطابق وہ وقت عصر کے بعد ہے (دیکھئے مسند احمد ،ابو داؤد ١٠٨٤،نسائى ١٣٨٩، حاكم ج١/ص٢٧٩وغيره) اور حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ صحابہ کرام میں سے کچھ لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور جمعہ کے دن کے خاص وقت کے بارے میں گفتگو ہونے لگی پھر وہ اس حالت میں وہاں سے روانہ ہوئے کہ سب متفق تھے کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے (رواہ سعید بن منصور و صححه الحافظ فتح البارى ج٢/ص٤٢١)

اور حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے دریافت کیا کہ وہ کس وقت ہے؟ آپ نے فرمایا:

*هي آخر ساعات النهار قلت انها ليست ساعةصلاة قال بلى ان العبد المؤمن إذا صلى ثم جلس لا يحبسه الا الصلاة فهو فى الصلاة*

*(ابن ماجه ١١٣٩، حسن صحيح نیز دیکھئے مؤطا ٢٩١،سنن نسائى ١٤٣٠)*

وہ دن کی آخری گھڑیاں ہیں، میں نے عرض کیا: وہ تو نماز کے اوقات نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں ؟مومن بندہ جب نماز پڑھ کر پھر وہیں صرف نماز کے انتظار میں بیٹھا رہے تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے۔

عصر کے بعد کا وقت ایک بابرکت وقت ہے ،یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کے نازل ہونے کا وقت ہے اور بعض حدیثوں میں ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمعہ کے دن عصر کے بعد ہوئی (دیکھئے صحیح مسلم ٢٧٨٩)

 

اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ زیادہ تر احادیث سے عصر کے بعد کی تائید ہوتی ہے (دیکھئے الترغیب والترہیب ج١/ص٣٢١)

اور صحابہ کرام کے درمیان بھی اس پر تقریباً اتفاق ہے اس لئے یہی صحیح ہے (دیکھئے فتح الباری وغیرہ)

 

*جمعہ کی رات اور دن میں درود و سلام پڑھنا*

حضرت اویس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*إن من افضل ايامكم يوم الجمعة ،فيه خلق آدم و فيه قبض و فيه النفخةوفيه الصَّعقةُ ، فأكثِروا عليَّ من الصَّلاةِ فيه ، فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ . قالوا وكيف تُعرضُ صلاتُنا عليك وقد أَرِمتَ فقال إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حرَّم على الأرضِ أن تأكلَ أجسامنا (ابو داوود، نسائى، ابن ماجه، ابن حبان، الترغيب ج١/ص٣١٧ صحيح)*

دنوں میں سب سے بہتر جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم بنائے گئے، اور اسی میں ان کی وفات ہوئی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور لوگوں پر بے ہوشی طاری ہو گی اس لیے اس دن کثرت سے مجھ پر درود پڑھا کرو اس لیے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے صحابہ کرام نے عرض کیا: آپ پر درود کیسے پیش کیا جائے گا حالاں کہ آپ کا جسم مبارک مٹی میں مل چکا ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل نے زمین کے لئے ہمارے جسموں کے کھانے کو حرام کردیا ہے۔

اور حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة؛ فإنه مشهود، تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي، إلا عرضت علي صلاته، حتى يفرغ منها قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق*

*(ابن ماجه ١٦٣٧،)*

علامہ سندھی نے لکھا ہے کہ حدیث کی سند دو جگہوں سے منقطع ہے (حاشیہ السندی علی ابن ماجہ،)اور علامہ منذری کہتے ہیں کہ ابن ماجہ کی سند جید ہے اور البانی نے حسن لغیرہ قرار دیا ہے الترغیب ج٢/ص٦٨٤)

جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو کوئی بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ میرے سامنے ضرور لایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہوجائے حضرت ابو درداء نے دریافت کیا ،وفات کے بعد بھی؟ فرمایا: وفات کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالی نے زمین پر انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام کردیا ہے، تو اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔

اور حضرت ابو امامہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*أَكْثِرُوا عليَّ مِنَ الصَّلاةِ في يومِ الجمعةِ ؛ فإنَّ صَلاةَ أُمَّتي تُعْرَضُ عليَّ في كلِّ يومِ جُمُعَةٍ ، فمَنْ كان أكثرَهُمْ عليَّ صَلاةً ؛ كان أَقْرَبَهُمْ مِنِّي مَنْزِلَةً* *(الترغيب ج٢/ص٦٩٤ حسن لغیرہ)*

جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ میری امت کا درود جمعہ کے دن میرے سامنے لایا جاتا ہے لہذا جو کوئی مجھ پر زیادہ درود بھیجے گا اس کا درجہ مجھ سے زیادہ قریب ہوگا۔

اور حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*اكثروا الصلاة في يوم الجمعة فمن صلى علي صلاة صلى الله عليه عشراً (رواه البيهقي في السنن الكبرى ٥٧٩٠ وقال النووى اسناده حسن خلاصة الاحكام ج٢/ص٨١٤)*

جمعہ کے دن اور رات میں مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل کرتے ہیں۔

اور علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ صحابہ کرام جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھنے کو پسند کیا کرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے زید بن وہب سے کہا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ہزار مرتبہ درود پڑھنے کو ترک مت کرنا (جلاء الافہام/ص٨٨)

نیز لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے سردار ہیں اور جمعہ تمام دنوں کا سردار ہے لہذا اس دن آپ پر درود بھیجنا آپ کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور کو حاصل نہیں ہے اور دوسری حکمت یہ ہے کہ امت مسلمہ کو دنیا و آخرت کی جو بھی نیکی اور بھلائی ملی ہے وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ملی ہے اور اللہ تعالی نے اس امت کو دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں سے نوازا ہے اور انھیں سب سے اہم کرامت و شرافت جمعہ کے دن حاصل ہوگی کیونکہ اسی دن وہ جنت کے اپنے محلوں میں پہنچیں گے اور جنت میں داخل ہونے کے بعد یہ دن اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں اور نوازشوں میں اضافے کا دن ہوگا اور دنیا میں یہ ان کے لیے عید کا دن ہے اس دن تعالی ان کی ضرورتیں اور خواہشیں پوری کرتے ہیں اور ان کی دعا و درخواست رد نہیں کی جاتی ان تمام چیزوں کی معرفت اور حصول آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے ہوا ہے لہذا آپ کی تعریف و توصیف، شکر گزاری اور حق کی ادائیگی کے لیے اس دن اور رات میں زیادہ سے زیادہ آپ پر درود بھیجنا چاہیے۔

 

*سورةالكهف پڑھنا*

حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعه اضاءله من النور ما بين الجمعتين. رواه النسائى والبيهقى والحاكم*

*وعن ابي سعيد موقوفا من قرأ سوره الكهف ليلة الجمعة اضاء له من النور ما بينه و بين البيت العتيق رواه الدارمى (الترغيب ج١/ص٣٣٢)*

جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکھف پڑھ لے تو اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کے لئے روشنی رہے گی (نسائی ،بیہقی، حاکم) اور حضرت ابو سعید خدری کا قول ہے کہ جو کوئی جمعہ کی رات میں سورہ کہف پڑھ لے تو اس کے اور کعبہ کے درمیان کا حصہ روشن ہو جائے گا (دارمی)

اور حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة سطع له نور من تحت قدمه إلى عنان السماء يضئ له يوم القيامة وغفر له ما بين الجمعتين*- *رواہ ابو بكر ابن مردويه بسند لا باس به (الترغيب ج١/ص٣٣٣)*

جو کوئی جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھ لے تو اس کے قدم سے لے کر آسمان تک روشنی کی لکیر کھینچ دی جاتی ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے روشن ہوگی اور اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک اس کی مغفرت کردی جاتی ہے

 

*رشتہ توڑنے کی نحوست*

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ

*إن أعمال بني آدم تعرض كل خميس ليلة الجمعة، فلا يقبل عمل قاطع رحم* *(مسنداحمد ١٠٢٧٢حسن*

ہر جمعہ کی رات میں انسانوں کے اعمال اللہ تعالی کو پیش کیے جاتے ہیں لیکن وہ رشتہ توڑنے والے کے عمل کو قبول نہیں کرتے ہیں۔

 

*جمعہ کے دن تجارت و حرفت*

اللہ تعالی نے جمعہ کی اذان کے وقت خرید و فروخت سے منع کیا ہے اور اذان سن کر مسجد جانے کا حکم دیا ہے البتہ نماز کے بعد تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے صحابی رسول حضرت عراک بن مالک کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا کرتے

*اللهم إني أجبت دعوتك وصليت فريضتك وانتشرت فی الارض كما أمرتني فارزقني من فضلك وأنت خير الرازقين۔ (تفسير قرطبى ج١٨/ص١٠٨)*

اے اللہ میں نے آپ کی پکار کا جواب دیا اور آپ کے فریضے کو ادا کیا اور آپ کے حکم کے مطابق باہر جا رہا ہوں لہٰذا آپ مجھے اپنے فضل سے روزی عطا کر دیجئے آپ سب سے بہتر رزق عطا کرنے والے ہیں

 

*جمعہ کے دن روزہ*

جمعہ کا دن ہفتے کی عید ہے اس لیے صرف جمعہ کا روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ جمعہ کے ساتھ جمعرات یا سنیچر کا روزہ بھی رکھا جائے تو کوئی کراہت نہیں یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کوئی کسی متعین تاریخ میں روزہ رکھتا ہو اور وہ تاریخ جمعہ کے دن آجائے یا عرفہ اور عاشورا کا روزہ جمعہ کے دن پڑ جائے تو ان تمام صورتوں میں تنہا جمعہ کا روزہ مکروہ نہیں ہے۔

ام المؤمنین حضرت جویریہ بنت حارث بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جمعہ کے دن آئے اور وہ روزہ سے تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:

*أصمت أمس؟ قالت: لا، قال: «تريدين أن تصومي غدا؟ قالت: لا، قال: فأفطري۔ صحیح بخاری١٩٨٦)*

کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا؟ عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ عرض کیا: نہیں۔

فرمایا: تب روزہ توڑ دو!

اور حضرت عامر اشعری کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا:

*إن يوم الجمعة عيدكم فلا تصوموه إلا أن تصوموا قبله أو بعده۔ (بزار ١٠٦٩ هيثمى فى المجمع ج٣/ص١٩٩حسن)*

جمعہ تمہاری عید کا دن ہے لہٰذا اس میں روزہ مت رکھو الا یہ کہ اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھو

اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*لا يصوم احدكم يوم الجمعة الا يوما قبله او بعده*. *(صحيح بخاري ١٩٨٥. صحيح مسلم ١١٤٤)*

صرف جمعہ کا روزہ مت رکھو مگر یہ کہ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی رکھو

اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*لا تخصُّوا ليلةَ الجمعةِ بقيامٍ من بينِ الليالي ، ولا تختَصوا يومَ الجمعةِ بصيامٍ من بينِ الأيامِ إلا أن يكونَ في صومٍ يصومُه أحدُكم۔ (صحيح مسلم ١١٤٤)*

راتوں میں سے خاص کر جمعہ کی رات میں تہجد مت پڑھو اور دنوں میں سے صرف جمعہ کے دن روزہ مت رکھو مگر یہ کی جمعہ اس تاریخ کو آ جائے جس میں کوئی روزہ رکھا کرتا ہے۔

اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جو کوئی نفلی روزہ رکھنا چاہے تو وہ جمعرات کے دن رکھے اور جمعہ کے دن نہ رکھے کیوں کہ وہ کھانے پینے اور ذکر کرنے کا دن ہے (مصنف ابن ابی شیبہ ج١/ص٤٤ حسن)

 

*جمعہ کی سنتیں اور آداب*

جمعہ کے دن غسل کرنا، اچھے سے اچھا کپڑا پہننا، خوشبو لگانا اور مسواک کرنا مسنون ہے،حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*لاَ يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الجُمُعة وَيَتَطهّرُ مَا اسْتَطاعَ منْ طُهر وَيدَّهنُ منْ دُهْنِهِ أوْ يَمسُّ طِيب بَيْته ثُمَّ يَخْرُجُ فَلاَ يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنينْ ثُمَّ يُصَلّي ما كُتِبَ له ُ ثُمَّ يُنْصِتُ إذَا تَكَلَّمَ الإمامُ إِلاَّ غُفِرَ لهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيَن الجمُعَةِ الأُخْرَى. (بخاري ونسائي الترغيب ج١/ص٣١٥)*

جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جہاں تک ہو سکے صفائی اور ستھرائی حاصل کرے، بالوں میں تیل لگائے اور گھر پر موجود خوشبو استعمال کرے اور پھر مسجد جائے اور مل کر بیٹھے ہوئے ہیں دو لوگوں کے درمیان میں نہ بیٹھے پھر جتنی رکعتیں مقدر میں ہیں انہیں پڑھے اور جب امام خطبہ دے تو خاموش رہے تو اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک اس کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد میں جانے اور وہاں جا کر ذکر و تلاوت اور نماز میں مشغول رہنے کی بڑی فضیلت ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح خوب اہتمام سے غسل کرے پھر جمعہ کے لیے جائے تو اس کے لئے اونٹ قربان کرنے کا ثواب ہے اور جو دوسری گھڑی میں جائے اس کے لئے گائے قربان کرنے کا ثواب ہے اور جو کوئی تیسری گھڑی میں جائے تو اس کے لئے سینگ والے مینڈھے کو قربان کرنے کا ثواب ہے اور جو کوئی چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے مرغی کو قربان کیا اور جو کوئی پانچویں گھڑی میں جائے تو گویا اس نے انڈے کو قربان کیا اور

جب امام خطبہ کے لئے آ جاتا ہے تو فرشتے ذکر سننے کے لیے آجاتے ہیں۔ (صحیح بخاری ٨٨١، صحیح مسلم ٨٥٠)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے