بسم الله الرحمن الرحيم.
حج سے متعلق نئےمسائل۔
جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو یوپی۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔
موبائل: 9451924242
12- حجر اسود کی خوشبو :
بعض صحابہ کرام کے طرز عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں حجر اسود وغیرہ پر خوشبو لگانے کا رواج تھا ، چنانچہ امام باقر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کو کعبہ کے قریب اس حال میں دیکھا کہ کعبہ کی خوشبو ان کے سینے میں لگی ہوئی تھی ۔
(رأیت ابن عمر قاربا من الکعبۃ و قد تلطخ صدرہ من طیبھا ۔)
اور حضرت انس کے متعلق منقول ہے کہ ان کے کپڑے میں کعبہ کی خوشبو لگ گئی تھی اور وہ حالت احرام میں تھے لیکن انھوں نے اسے دھلا نہیں ۔
(انہ اصاب ثوبہ خلوق الکعبۃ و ھو محرم فلم یغسلہ دیکھیے مصنف ابن ابی شیبہ 3/209، المحلیٰ 7/83))
واضح رہے کہ ان میں سے پہلی روایت جابر جعفی کی وجہ سے اور دوسری روایت صالح بن حیان کی وجہ سے ضعیف ہے (دیکھیے التقریب :271،127)
اور حجر اسود پر خوشبو لگانا ایک مجبوری بھی ہے کیوں کہ بوسہ لینے والوں کی کثرت کی وجہ سے بد بو پیدا ہوجاتی ہے اور شاید اسی مجبوری کا خیال کرتے ہوئے مشہور تابعی حضرت عطا ء اور امام مالک کے نزدیک حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے یا ہاتھ لگاتے ہوئے منہ یا ہاتھ میں خوشبو لگ جائے تو اس کی وجہ سے کسی طرح کا کفارہ واجب نہیں ہے ، چاہے خوشبو کی مقدار کم ہو یا زیادہ ، جان بوجھ کر خوشبو پر منہ یا ہاتھ رکھے یا انجانے میں (دیکھیے المدونۃ :1/342)
اور شافعیہ اور حنابلہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی جان بوجھ کر کعبہ میں لگی خوشبو کو چھو دے اور وہ خشک خوشبو ہو تو کوئی کفارہ نہیں ہے اور اگر تر ہو تو فدیہ ہے (دیکھیے المجموع:7/272،المغنی 5/150)
اس کے برخلاف حنفیہ کہتے ہیں کہ جانے انجانے ہر حال میں کعبہ پر لگی خوشبو چھونے سے کفارہ واجب ہے اگرزیادہ خوشبو لگ جائے تو دم دینا ہوگا اور کم لگنے کی صورت میں صدقہ (دیکھیے المبسوط:4/124) ان کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں کسی تفصیل کے بغیر حالت احرام میں خوشبو سے منع کیا گیا ہے اور کفارہ واجب ہونے کے لیے قصد و ارادہ شرط نہیں ہے بلکہ غلطی اور انجانے میں بھی خوشبو لگ جانے سے کفارہ واجب ہوجاتا ہے (دیکھیے البدائع2/191، فتح القدیر :2/439)
دوسری دلیل یہ ہے کہ حدیث میں کہا گیا ہے :
فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ ".(بخاري 7288)
اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ ممنوعات سے ہر حال میں پرہیز کرنا ہے ، البتہ مامورات پر عمل استطاعت کے مطابق ہوگا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک ممنوع فعل مامور پر مقدم ہے ، اور ظاہر ہے کہ یہ ضابطہ اس وقت ہے جب مامور واجب ہو اور مامور مستحب ہو تو ممنوع کے مقابلہ میں اسے بدرجہ اولیٰ ترک کردیا جائے گا ، مذکورہ مسئلے میں حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ لگانا مستحب ہے لیکن اس پر عمل کی وجہ سے ایک ممنوع چیز کا ارتکاب لازم آتا ہے لہذا کسی مستحب امر کے لیے ممنوع کے ارتکاب کی اجازت نہیں ہوگی ۔