سنت اور وحی الٰہی ۔

ولی ﷲ مجید قاسمی
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔

اللہ تبارک و تعالیٰ نے رحمت و حکمت اور بندوں کی سہولت کے پیش نظر دین کے بنیادی اور کلی احکام کو الفاظ کے ساتھ نازل فرمایا تاکہ اسے یاد کرلینا اور محفوظ رکھنا آسان ہو اور اس کی جزئیات و تفصیلات کو معانی کی شکل میں اتارا اور اس کے مفہوم کی ادائیگی کو کافی سمجھا تاکہ اس کی حفاظت میں دقت اور سمجھنے میں پریشانی نہ ہو ، اس لیے کہ فروعات اور تفصیلات کو بھی اگر الفاظ کی شکل میں نازل کیاجاتا تو تمام تر تفصیلا ت کے باوجود اس کے سمجھنے میں دشواری ہوتی ، اس لیے کہ بہت سی چیزیں بتائی نہیں جاسکتیں ، بلکہ وہ کرکے دکھانے کی ہوتی ہیں ، اگر وہ بیان کر دی جائیں پھربھی ان کی عملی شکل کی تعیین میں شدید اختلاف رونماہوگا کیونکہ اس کے لیے ایک تو متعدد جلدوں پر مشتمل کتاب درکار ہوگی ، دوسرے یہ کہ وہ انسانی بول چال کے الفاظ میں ہوگی اور انسانی الفاظ میں یہ قدرت نہیں ہے کہ ان کے ذریعہ کوئی ایساقانون بنایا جاسکے جو اختلاف فہم کے نقص سے محفوظ رہے ، اس لیے اختلاف کو ختم کرنے کے لیے انبیاء کرام کو ہرطرح کی غلطی سے معصوم رکھاجاتا ہے اور انہیں اسوہ اور نمونہ بناکر اس کی عملی شکل متعین کر دی جاتی ہے اور عمارت کی تعمیرکے وقت اس کی مکمل نگرانی کی جاتی ہے ، اور کہیں بھی چوک ہوتی ہے تو فوراً تنبیہ کردی جاتی ہے ۔
انسانی فہم میں اختلاف کی وجہ سے نبی ﷺ کے ذریعہ بیان کردہ تشریح کے سمجھنے میں بھی اختلاف ہوا ہے ، لیکن یہ اختلاف اصولی باتوں میں نہیں کے برابر ہے اور فروعی اختلاف بھی بہت محدود ہے جو پانچ ، چھ مکتب فکر تک سمٹ کے رہ گیا ہے ، اگر یہ تشریح نہ ہوتی تو صرف نماز کے ہزاروں طریقے رائج ہوتے اور دو آدمی بھی مسجد میں مل کر ایک طرح سے نماز نہیں پڑھ سکتے اور جن بنیادی چیزوں میں اتفاق پایاجاتا ہے وہ بھی اختلاف کی نذر ہوجاتا اور لغت و جاہلی اشعار کے بھروسے کوئی بھی مشترک اسلامی معاشرہ وجود میں نہیں آپاتا ۔
حدیث وسنت کی حقیقت:

اللہ کے رسول ﷺ کے قول و عمل یاکسی صحابی کے قول و فعل پر آپ کی طرف سے ترک انکار کو حدیث و سنت کہا جاتا ہے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہے ، البتہ ثبوت کے اعتبار سے دونوں میں فرق ہے جسے بیان کیا جاچکا ہے ، حدیث وسنت کی درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :

1۔ تشریعی امور :

وہ چیزیں جسے آپؐ نے بحیثیت رسول انجام دیا ہو ، جیسے عقیدہ ، عبادت وغیرہ سے متعلق امور اور حلت وحرمت سے متعلق مسائل ، ایسے تمام معاملات میں وحی کے ذریعہ آپؐ کی رہنمائی کی جاتی ، یہ وحی کبھی بذریعہ القاء ہوتی یعنی آپؐ کے دل میں کوئی بات ڈال دی جاتی یا فرشتہ اسے لے کر آپؐ کے پاس آتا ۔
تشریعی امور میں کبھی آپؐ اجتہاد کے ذریعہ اپنی رائے ظاہر کرتے اور پھر وحی کے ذریعہ اس کی تائید کردی جاتی ،بسا اوقات صراحتاً اس کی تائید کی جاتی اور کبھی اس طرح سے اس کے صحیح ہونے کی سند مل جاتی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی نکیر نہیں کی جاتی ، جس کا لازمی مفہوم ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے ، اس لیے کہ رسول اس کی مرضی کے ترجمان اور اس کے نمائندے ہوتے ہیں ، وہ غلطی سے پاک ہوتے ہیں اور ہمیشہ ان کی نگرانی ہوتی ہے ، اگر ان کے کسی قول و عمل سے اللہ کی رضا کے خلاف ہونے کا شبہ بھی پیداہوتا ہے تو فوراً اس پر روک لگادی جاتی ہے ، اس طرح سے تشریعی امور کے سلسلہ میں آپؐ کا ہر قول و فعل وحی ہے اور اللہ کی طرف سے توثیق شدہ اور مستند ہے ۔

2۔ تدبیر ی امور :

وہ امور جن کا رسالت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جن کی تبلیغ پر آپ مامور نہیں تھے اور انسانی بصیرت و تجربہ کی بنیاد پر آپ ﷺ کوئی رائے قائم کرتے تھے، جیسے باغبانی اور کھیتی ، اور بعض چیزوں کی طبی خصوصیات اور جنگ کے لیے مناسب جگہ اور ہتھیار کاانتخاب ، اس طرح کی چیزوں کو آنحضور ﷺ حکمت وبصیرت کی روشنی میں دیکھتے اور صحابہ کرام ؓسے مشورہ لیتے اور قرآن میں ایسے ہی معاملات کے متعلق آپ ﷺ کو مشورہ لینے کا حکم دیاگیا ہے ۔

3۔طبعی امور :

یعنی وہ چیزیں جو آپ ﷺ ذاتی ، قومی اور ملکی عادت اور انسانی ضرورت کی بنیاد پر کیا کرتے تھے ، جیسے مخصوص وضع کا لباس ، ایک خاص طرح کا کھانا وغیرہ ۔
ظاہر ہے کہ ان دونوں امور میں وحی کی ضرورت نہ تھی ، اس لیے وحی کے ذریعہ ان کی کوئی مخصوص شکل متعین نہیں کی گئی بلکہ اس طرح کے معاملات میں انسان کو آزاد رکھا گیا اور صرف اصولی ہدایات پر اکتفا کیاگیا ۔

رسولؐ کی نبوی اور شخصی زندگی میں فرق:

ایک رسول کی زندگی میں نبوی اور ذاتی حیثیتیں اس طرح سے ملی جلی ہوتی ہیں کہ ان میں فرق نہیں کیا جا سکتا ہے ، نبی دنیا میں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لے آے ، وہ اللہ کا بندہ بن کر آتا ہے نہ کہ اپنی بندگی کرانے کے لیے ، چونکہ وہ اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے اس کی اطاعت ، اللہ کی اطاعت ہوتی ہے ،
’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ‘‘
اور اللہ کی طرف سے اس کی اطاعت کا حکم ہوتا ہے۔
’’وَمَآاَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ‘‘
اور وہ اپنی اطاعت کا اعلان کرتا ہے: ’’فَاتَّقُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ‘‘
اور اس کے ہر حکم اور فیصلے کے سامنے سرجھکا دینا ضروری ہوتا ہے ، اس سے کسی بھی طرح سے اختلاف کی اجازت نہیں ہے،البتہ شخصی حیثیت سے دیے گئے ان کے کسی حکم اور مشورے سے اختلاف کی گنجائش ہے ، لیکن یہ صرف نظری پہلو سے ہے ، عملی اعتبار سے نبی کی ذاتی اور نبوی حیثیت اس طرح سے ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہے کہ ہمارے لیے ان میں فرق کرنا ممکن نہیں ہے ، رسول کے سوا کوئی ان میں خط امتیاز نہیں کھینچ سکتا ہے ، کیونکہ نبی ﷺ کی ذات مکمل طور پر ہمارے لیے نمونہ ہے اور ہمیں رسول اللہ  ﷺ کی مطلق اطاعت کا حکم دیاگیا ہے اور ان کی شخصی اور نجی معاملات میں بھی شرعی طریقوں اور آداب کی تعلیم ہوتی ہے ، اس لیے ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ اپنے طور پر ان دونوں حیثیتوں میں فرق کریں ، بلکہ اس فرق کی وضاحت بھی خود رسول اکرم ﷺ کی طرف سے ہوگی یا آپ کی دی ہوئی تعلیم اور ضوابط کی روشنی میں اسے طے کیا جائے گا ،(دیکھیے: سیرت سرور عالم:243/1۔)
یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے مسائل میں صحابہ کرام آپ ﷺ سے دریافت کرتے تھے ، یہ آپؐ کی ذاتی رائے اور مشورہ ہے یا وحی الٰہی؟

وحی کے طریقے :

اللہ کی خوشنودی اور رضا کو نبی اور رسول کے ذریعہ ہی معلوم کیاجاسکتا ہے ، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء کرام کو اپنی پسند اور ناپسند سے باخبر کرنے کے لیے تین طریقے اختیار کیے جاتے ہیں :
1۔ اشارہ سے بات کرنا ،یعنی دل میں کسی آواز کے بغیر لفظ و معنی کا آجانا ۔
2۔ پردہ کے پیچھے سے بات کرنا ، جس میں آواز سنائی دیتی ہے ، البتہ بات کرنے والا (یعنی اللہ تبار ک و تعالیٰ) نظر نہیں آتا ۔
3۔ فرشتے کے ذریعہ پیغام بھیجنا ، قرآن کا نزول اسی تیسرے طریقے کے مطابق ہوا ہے ، مذکورہ تینوں طریقوں کے مطابق نبیوں کے پاس اللہ کے پیغام پہنچتے رہے ، ان میں سے
بعض ایسے بھی تھے جن کے پیغام کو کتابی شکل دی گئی اور زیادہ تر ایسے انبیاء آئے جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ان پر بھی کتاب کے علاوہ وحی نازل ہوتی رہی ، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نبوت ملنے کے بعد فرعون کے یہاں جانے اور مصر سے بنی اسرائیل کو لے کر نکلنے تک اسی طرح کی وحی نازل ہوتی رہی اور اسی وحی کو جھٹلانے کی وجہ سے فرعون عذاب کا مستحق ہوا ،اور توریت مصر سے نکلنے کے بعد نازل ہوئی ، اس کے نزول کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ لوگوں کو لے کر کوہِ طور پر جاتے ہیں ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور بجلی کی کڑک کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے لیے دعا کرتے ہیں تو اس کا جواب ان الفاظ میں ملتا ہے :
’’قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ  وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْْئٍ‘
اللہ نے فرمایا : اپنا عذاب تو میں اسی پر نازل کرتا ہوں جس پر چاہتا ہوں۔ اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ہے وہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔(الاعراف :156)
ایک موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے حکم سے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کے لیے کہتے ہیں ، وہ طرح طرح کے سوال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا جواب آتا ہے ،( دیکھیے : سورۃ البقرۃ آیت:71-76۔)یہ تمام چیزیں وحی غیر متلو ہیں اور قرآن کے ذریعہ سے ہم نے انہیں جانا ہے ، اسی طرح سے حضرت نوح، ابراہیم ، زکریا ، یوسف اور عیسی علیہم السلام پر کتاب کے بغیر وحی کا آنا اور فرشتوں سے ہم کلام ہونا قرآن سے ثابت ہے ۔

سنت بھی وحی ہے :

تمام انبیاء کی طرح آخری رسول محمد ﷺ پر قرآن کے علاوہ وحی الٰہی نازل ہوتی رہی اور اس کے ذریعہ زندگی کے مسائل میں رہنمائی ملتی رہی ، جس کے دلائل یہ ہیں :

1-’’اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ‘‘(الانعام :106)
’’اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ وحی کی پیروی کرو ‘‘۔
اور آنحضرت ﷺ کی زبانی یہ کہلایاگیا:
’’اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ‘‘(الانعام:50)
’’میں اس چیز کی اتباع کرتاہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے ‘‘۔
اور مومنین کو حکم دیاگیا کہ :
’’اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ‘‘(الاعراف :3)
’’اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ کی اتباع کرو اور اس کے علاوہ سرپرستوں کی اتباع مت کر و ‘‘۔
دوسری طرف قرآن میں بیسیوں جگہ مطلقاً رسول اللہ ﷺ کی اتباع کاحکم دیاگیا ہے (دیکھیے: سورہ آل عمران :31 و 35، سورۃ الاعراف :157، التوبہ:117،وغیرہ)اور سورۂ اعراف کی ایک آیت کے شروع میں رسول اور نبی امی ﷺ کی اتباع اور آخر میں نور کی اتباع کا ذکر ہے ،جس سے مراد قرآن ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کی اتباع ان باتوں میں بھی مطلوب ہے جو قرآن میں موجود نہیں ، اس طرح کی آیتوں کے متعلق یہ کہنا کہ اس سے قرآن کی پیرو ی مراد ہے ، قطعاً غلط ہے ، اس لیے کہ اسی صورت میں قرآن کی اتباع کا حکم ہونا چاہیے نہ کہ رسول کی اتباع کا حکم ، نیز ایسی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو آئیڈیل اور نمونہ بنانے کا بھی کوئی مطلب نہیں ہے ۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سے ایسے احکام دیے ہیں جو قرآن میں مذکور نہیں ہیں لیکن قرآنی حکم کی طرح اس کی پابندی کرائی گئی اور خلاف ورزی پر سرزنش کی گئی ،  جیسے نماز کے لیے اذان دینے اور جمعہ کے دن مخصوص نماز پڑھنے اور خطبہ دینے اور سننے کا حکم قرآن میں کہیں موجود نہیں ہے ، اذان دیے جانے کا تذکرہ بطور حکایت قرآن میں دو جگہ ہے ، ایک سورۂ جمعہ میں ، دوسرے سورۂ مائدہ میں ، جس میں کہاگیا ہے کہ مسلمان جب نماز کے لیے اذان دیتے ہیں تو کافر اس کا مذاق اڑاتے ہیں ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول سے پہلے اذان دی جاتی رہی ہے لیکن قرآن کی کوئی ایسی آیت نہیں بتائی جاسکتی ہے جس میں اس کا حکم دیا گیا ہو ، بلکہ یہ حکم وحی غیر متلو کے ذریعہ دیاگیا اور پھر وحی متلو کے ذریعہ اس کی توثیق کردی گئی اور سورۂ جمعہ میں کہا گیا ہے کہ جب جمعہ کے دن اذان دی جائے تو لپک کر اللہ کے ذکر کی طرف آؤ لیکن جمعہ کے دن ایک مخصوص نماز پڑھنا اور خطبہ دینا اس سے پہلے قرآن میں مذکور نہیں ہے ، لیکن جب لوگوں کی طرف سے اس سلسلہ میں کوتاہی ہوئی تو اس پر اسی طرح سے گرفت کی گئی جس طرح قرآنی احکام کی خلاف ورزی پر کی جاتی ہے ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے دیے ہوئے احکام بھی بعینہٖ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں ، رسول کی طرف نسبت کی تحقیق ضروری ہے ، لیکن ثابت ہے تو ان کا انکار خود اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار ہے ، (دیکھیے تدبر قرآن :388/7)
2- اسی طرح سے آنحضرت ﷺ نے  مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کاحکم دیا لیکن اہل عرب کے دلوں میں کعبہ کی جو عظمت و حیثیت تھی اس کی وجہ سے یہ حکم ان کے لیے سخت آزمائش کا سبب تھا
’’وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ‘‘(سورۃ البقرۃ:143)
اور اس حکم کے مطابق آنحضور اور صحابہ کرام بیت مقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے لگے اور پھر مدینہ ہجرت کے سترہ ماہ بعد کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم نازل ہوا اور بیت مقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی یہ وجہ بیان کی گئی :
’’وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ‘‘(سورۃ البقرۃ:240)
’’جس قبلہ کی طرف تم رخ کرتے تھے ہم نے اسے قبلہ اس لیے بنایا تھا تاکہ ہم جان لیں کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون رخ پھیر لیتا ہے ‘‘۔
بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسے اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم قرار دیاہے ، یہ صریح ثبوت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی اور قرآنی حکم کی طرح اس پر بھی عمل کرنا فرض اور ضروری ہے اور رسول کی اتباع اس درجہ اہم ہے کہ اسے جانچنے کے لیے ایک غیر مستقل حکم دیا جارہا ہے تاکہ اللہ کے رسول پر اور اپنی عقلوں پرایمان لانے والوں میں فرق ہوسکے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول کی اتباع وہی لوگ کرتے ہیں جو راہ راست پر ہیں اور ان کی اتباع سے روگردانی کرنے والا گمراہی کا شکا ر ہے ۔
3-سورۃ البقرہ کی ایک دوسری آیت میں ہے  :
’’حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی  وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَo فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا ، فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ‘‘
’’نمازوں کی پابندی کرو اور درمیانی نماز کی بھی اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہوا کرو ، پھر اگر کوئی خطرہ ہو تو پید ل چلتے ہوئے اور سواری پر بیٹھے ہوئے پڑھ لو ، پھر جب اطمینان ہوجائے تو اللہ کو اسی طرح سے یاد کرو جیسے اس نے تم کو سکھایا ہے ‘‘۔( سورۃ البقرہ:238-239)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نمازوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہے ، جس میں ایک درمیانی نماز بھی ہے ، نیز حالتِ امن اور خوف کی نماز کا الگ الگ طریقہ ہے اور یہ تعداد اور نماز کی کیفیتِ ادا ، اللہ کے رسول کے ذریعہ مسلمانوں کو بھی معلوم ہے لیکن یہ قرآن میں مذکور نہیں ہے اور اس کے باوجود اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیاہے اور کہاکہ ’’جیسا کہ ہم نے تمہیں سکھایا ہے ‘‘ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کے ذریعہ دیاگیا غیر قرآنی حکم بھی اللہ کاحکم ہے اور اس کی اتباع اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی کی اتباع ہے ۔
غرضیکہ قرآن میں بندگی سے متعلق بنیادی ہدایات ہیں اور ان کی تفصیلات سنت کے ذریعہ بتلائی گئیں اور یہ تفصیلات بھی وحی کے ذریعہ آپ ﷺ پر نازل ہوئیں ۔
4- اللہ عز وجل کا ارشاد ہے :
لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖo اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗo فَاِذَا  قَرَاْنٰہُ فَا تَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ o
’’اے نبی! تم قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت مت دو ، اسے تمہارے سینے میں محفوظ کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے ، اس لیے جب ہم اسے پڑھیں تو اس پڑھنے کی پیروی کرو، پھر اس کی وضاحت بھی ہمارے ذمہ ہے ‘‘۔(سورۃ القیامہ:16-19
اس آیت سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر قرآنی وحی کے علاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی ، اس لیے قرآنی احکام اور اس کی مخصوص اصطلاحات کی تشریح قرآن میں موجود نہیں ہے ، اس لیے کہ اگر یہ چیزیں قرآن میں درج ہوتیں توپھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ اس کامطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے کیونکہ وہ قرآن ہی میں مل جاتی بلکہ اللہ تعالیٰ نے غیر قرآنی وحی کے ذریعہ سے آپ کوان چیزوں کا علم دیا اور پھر دوسرے لوگوں کے سامنے اس وضاحت کو پیش کرنے کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی ، ارشاد ربانی ہے :
’’وَاَنْزَلْنَآاِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘
’’اور ہم نے تم پر نصیحت (کی کتاب ) اتاری ہے تاکہ لوگوں کے پاس جو مضامین بھیجے گئے ہیں آپ انہیں واضح کردیں تاکہ وہ غور فکر کریں ‘‘۔(سورۃ النحل :44)۔
بیان دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، ایک اعلان اور اظہار کے معنی میں یعنی اخفاء کے برخلاف ، دوسرے توضیح اور تفسیر کے معنی میں اور یہاں اسی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اس لیے کہ آیت کے آخر میں ’’بیان ‘‘ کا مقصد غور و فکر کرنا بتایا گیا ہے اور سوچنے سمجھنے کے لیے وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہے نہ کہ اعلان اور اظہار کی ، کیونکہ مخفی معاملہ کو ظاہر کرنا سننے اور ماننے کے لیے تو مناسب ہوسکتاہے مگر سوچنے کے لیے نہیں ۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے :
’’اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآاَرکَ اللّٰہُ‘‘
’’ہم نے تم پر سچائی کے ساتھ کتاب اتاری ہے تاکہ لوگوں کے درمیان اللہ کے بتائے ہوئے کے مطابق فیصلہ کریں ‘‘۔( سورۃ النساء:105)۔
بالکل ظاہر ہے کہ یہ بیان و شرح اور فیصلہ’’تلاوت ‘‘سے ایک زائد چیز ہے ، اس لیے کہ شرح کی ضرورت کے وقت لائق تشریح عبارت کو دوبارہ پڑھ دینے کا نام کسی بھی باشعور شخص کے نزدیک شرح نہیں ہے ، نیز جس بیان کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے اور اس کی تبلیغ کو رسول اللہ ﷺ کا فرض منصبی قرار دیا ہے ، وہ قرآن کے لفظی معنی و مفہوم سے الگ ایک دوسری چیز ہے ، اس لیے کہ جن کے درمیان قرآن نازل ہورہا تھا وہ قرآنی الفاظ کے مفہوم کو جاننے کے لیے کسی ترجمہ اور لغت کے محتاج نہ تھے ، عربی ان کی مادری زبان تھی ، وہ اس کے اسلوب کے ماہر اور زبان و ادب کے میدان کے شہسوار تھے ، اور انہیں اس پر بھرپور عبور اور مکمل دسترس تھا اور وحی کے نزول کے وقت گرد و پیش کے حالات اور پس و پیش منظر کا براہ راست مشاہدہ کر رہے تھے ، ان سب کے باوجود وہ نبوی شرح و بیان کے محتاج تھے ، اور یہ تشریح و وضاحت ایسی نہیں تھی کہ قرآن کے الفاظ سے سمجھا جاسکے ، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا توپھر نہ اللہ تعالیٰ کو بیان کی ذمہ داری لینے کی ضرورت تھی اور نہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی تبلیغ کی حاجت، بلکہ اہل عرب از خود سمجھتے اور بعد میں آنے والے لغت اور جاہلی اشعار کی مدد سے اسے حل کرتے اور اللہ کے رسول اور صحابہ کرام کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ قرآن کی طرح جاہلی اشعار کی حفاظت بھی یقینی بناتے ، کیونکہ اس کے بغیر قرآن سمجھا نہیں جاسکتا ہے ۔

5-اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :

’’وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ   وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا‘‘(سورۃ النساء:113)
’’اور اللہ نے تم پر کتاب و حکمت نازل کی اور وہ سکھایا جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا تجھ پر بہت بڑا فضل ہے ‘‘۔
اور سورۂ احزاب میں ہے :
’’وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ‘‘(سورۃ الاحزاب :34)
’’اور ان چیزوں کو یاد کرو جو تمہار ے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں یعنی اللہ کی آیات اور حکمت کی باتیں ‘‘۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ﷺ پر کتاب کے علاوہ ایک چیز حکمت بھی نازل ہوئی تھی اور یہ ایک ایسی چیز تھی جسے آپ لو گوں کو سناتے اور سکھاتے بھی تھے اور تلاوت کے ساتھ کتاب و حکمت کی تعلیم آپؐ کے فرض منصبی میں شامل تھی ۔(دیکھیے: سورۃ البقرہ:129، آل عمران :164،الجمعۃ:2)
6- اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْی’‘ یُّوْحٰی‘‘(سورۃ النجم:3-4)
’’نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتا بلکہ اس کی بات وحی ہوتی ہے جو اللہ کی  طرف سے کی جاتی ہے ‘‘۔
اس آیت کو قرآن کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، بلکہ یہ ظاہری اور حقیقی مفہوم سے انحراف ہے ، اس لیے کہ قرآن کے ساتھ خاص کرنے کا مطلب ہوگا کہ اس کے علاوہ رسول کی باتیں خواہش نفس پرمبنی ہوسکتی ہیں اور جب کسی رسول کے سلسلہ میں اس طرح کا شبہہ بھی پیدا ہوجائے تو پھر اس کی رسالت پر ایمان و اعتماد باقی نہیں رہ سکتا ہے ، اور ان کی اس بات پربھی کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ جس چیز کو وہ قرآن بتا رہے ہیں وہ واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے یا اپنی بات کو اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں؟ علاوہ ازیں کافروں کو صرف قرآن سنانے پر اعتراض نہیں تھا بلکہ قرآن کی تعلیم اور اس کی عملی تشکیل پربھی اعتراض تھا اور اسی کے جواب میں مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔
چونکہ نبی پیغمبرانہ حیثیت میں کوئی بات آسمانی وحی کے بغیر نہیں کہہ سکتا ہے ، اس لیے بغیر کسی تفصیل و تفریق کے اس کی اطاعت کاحکم دیاگیا ہے اور اس کی اطاعت اللہ کی اطاعت قرار دی گئی ہے اور قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس میں اللہ کی اطاعت کا بیان ہو اور رسول کی اطاعت کا ذکرنہ ہو ، البتہ اس کے برخلاف ضرور ہے کہ رسول کی اطاعت کا ذکر ہے مگر اللہ کی اطاعت کاحوالہ نہیں ہے ، (دیکھیے: سورۃ النور:56) اس لیے کہ اللہ کی اطاعت کا طریقہ بھی رسول کے ذریعہ ہی معلوم ہوسکتا ہے ،اس لیے محض اس کی اطاعت کے ذکر کو  کافی سمجھا گیا ہے کیونکہ اس کی اطاعت شخصی اور ذاتی حیثیت سے نہیں ہے بلکہ وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے۔
’’مَنْ  یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ‘‘
لیکن محض اللہ کی اطاعت کے  حکم پر اکتفا نہیں کیاگیاہے تاکہ اطاعتِ رسو ل کو نظر انداز کرنے کے لیے کوئی معمولی سا شبہہ باقی نہ رہے ۔
اور رسول کو معصوم و محفوظ رکھ کر اور امت کے لیے انہیں نمونہ اور منارۂ نور بناکر ان کے نقش قدم کی پیروی کا حکم دیاگیا ،( سورۂ آل عمران :31)اور ان کے حکم سے سر تابی کرنے والوں کو دردناک عذاب کی دھمکی دی گئی ہے (سورۃ النور:63) اور آپ کے ہر فیصلے پر سرتسلیم خم کردینے کا حکم دیاگیاہے (سورۃ الاحزاب :36)
اور کسی بھی طرح سے اختلاف اور چوں و چرا کی گنجائش نہیں ہے بلکہ دل میں تنگی محسوس کرنے کی اجازت نہیں ہے ،( سورۃ النساء:65)ظاہرہے کہ اگر آپ کا فیصلہ وحی پر مبنی نہ ہوتا بلکہ آپ کی شخصی رائے ہوتی تو ضرور اس سے اختلاف کی گنجائش ہوتی ، کیا کسی کے ذاتی فیصلے کو یہ حیثیت حاصل ہے کہ اسے دل و جان سے تسلیم کرلیاجائے اور جوکوئی کسی کے فیصلہ پر تنقید کرے یا دل میں بھی غلط سمجھے تو اس کی پاداش میں اس کا ایمان چھن جائے ۔
حاصل یہ ہے کہ قرآن کی طرح سنت بھی بذریعہ وحی نازل ہوئی ہے ، کبھی جبرئیل امین اسے لے کر آتے تھے اور کبھی براہ راست آنحضور ﷺ کے سینے میں محفوظ کر دیاجاتا اور بسا اوقات آپ ﷺ دینی معاملات میں بھی ذاتی اجتہاد سے کوئی حکم دیتے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہ صراحت یا خاموش تائید کر دی جاتی یا اس کی تردید آجاتی ، اس طرح یہ اجتہاد بھی وحی کی شکل اختیارکر لیتا اور اس طرح کتاب و سنت دونوں کا سرچشمہ ایک ہے ، دونوں ہی محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں اور اللہ کی مرضی اور منشا کو جاننے کا اصل ذریعہ کتاب نہیں بلکہ نبی ہوتا ہے ، چنانچہ ایسے بہت سے نبی آئے جن کے ہمراہ کوئی کتاب نہیں تھی لیکن ایسی کوئی کتاب نازل نہیں کی گئی جس کے ساتھ کوئی نبی نہ ہو ، مکہ کے کافروں کا مطالبہ بھی تھا کہ نبی کے واسطے کے بغیر براہ راست ان پر کتاب اتاری جائے ، لیکن ان کا یہ مطالبہ مسترد کردیاگیا ، ظاہر ہے کہ ان کے مطالبے کو مان لینے کی صورت میں معجزہ کا اظہار ہوتا اور زیادہ سے زیادہ لوگ بیک وقت مسلمان ہوجاتے اور پھر اسی نوشتہ کو محفوظ رکھنے کا نظم کیاجاتا ، لیکن اس ظاہری فائدے کے باوجود ایسا نہیں کیا گیا ، اس لیے کہ اصل چیز وحی یا کتاب پرایمان لانا نہیں ہے بلکہ رسول پر ایمان اور اس کی تصدیق ہے اور اسی تصدیق کے نتیجے میں اس پر نازل کی گئی کتاب کو اللہ کا فرمان مانا گیا ، ایسا نہیں ہے کہ ’’کتاب ‘‘ کے ذریعہ رسول کو جانا گیا ہو بلکہ رسول کے ذریعہ ’’کتاب‘‘ کا علم ہوا ہے ، لہٰذا کتاب اور رسول کی سنت میں فرق کرنا اور یہ کہنا کہ ایک اللہ کا کلام ہے اور دوسرا رسول کا ، اور دونوں میں وہی فرق ہے جو اللہ اور اس کے رسول میں ہے ، غلط ہے ، اس طرح کی باتیں عقل وفہم کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی ہیں ۔
اگر ان میں کوئی فرق ہے تو صرف اس قدر کہ ایک کو لفظ بہ لفظ نازل کیا گیا ہے اور دوسرے کا صرف معنی ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کبھی یہ تو دریافت کرلیتے کہ یہ آپ کی ذاتی رائے اور مشورہ ہے یا اللہ کاحکم ؟ لیکن کسی نے بھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ آپ کا فرمان ہے یا قرآن کا ؟
دوسرا فرق صحابہ کرام کے بعد والوں کے لیے ثبوت کے اعتبار سے ہے کہ قرآن مکمل طور پر قطعی اور یقینی ہے ، اس کے ثبوت میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے ، اس کے برخلاف حدیثیں دو طرح کی ہیں ، متواتر اور غیر متواتر ، متواتر بالکل قرآن کی طرح سے ہے اور اس کا انکار کرنے والا اسی طرح سے دائرۂ اسلام سے خارج ہے جیسے کسی قرآنی آیت کا منکر ،اور غیر متواتر احادیث ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہیں اور اس طرح کی صحیح روایتوں کے متعلق گمان غالب ہے کہ اللہ کے رسول کی طرف اس کی نسبت درست ہے ، اس کی صحت کو جانچنے کے لیے روایت و درایت ہر اعتبار سے محدثین نے اپنی آخری قوت لگادی ہے اور کوئی انسان اس سے زیادہ کا مکلف نہیں کہ دنیا کا بیشتر نظام اسی ظن غالب پر قائم ہے نہ کہ یقین پر ، یہاں تک کہ خود انسان کے لیے ثابت النسب ہونے کا ذریعہ بھی یہی ہے ۔

کیا قرآن محتاج تشریح ہے ؟

کہاجاتاہے کہ قرآن خود واضح ہے ، اس کی آیتوں کے لیے جگہ جگہ ’’بینات‘‘ (واضح) کا لفظ استعمال کیاگیا ہے اور جو خود واضح ہو اس کی شرح اور تفصیل کی کیا ضرورت ہے ؟ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے :
’’مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ  مِنْ  شَیْئٍ ‘‘
’’اور ہم نے کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ‘‘۔
نیز ارشاد ربانی ہے :
’’وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا  لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘
’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو ہرچیز کی وضاحت کرنے والی ہے ۔‘‘
اور یہ بھی فرمایا گیاہے :
’’ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْکُمُ الْکِتَابَ مُفَصَّلًا‘‘
’’وہ جس نے تم پر مفصل کتاب نازل کی ‘‘۔
اس کاجواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں ’’کتاب ‘‘ سے مراد لوح محفوظ ہے جس میں ہر چھوٹی بڑی چیز کا ذکر ہے ، کیونکہ اس سے پہلے یہ کہا گیا ہے کہ روئے زمین پر جو بھی چلنے یا اڑنے والے جانور ہیں وہ بھی تمہاری طرح ایک گروہ ہیں اور اس کے بعد فوراً کہاگیاہے کہ ہم نے کتاب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے یعنی انسانوں کی طرح ان دوسرے گروہوں سے متعلق تمام تفصیلات اس میں درج ہیں ۔
اور اگر مان لیاجائے کہ کتاب سے مراد اس آیت میں بھی قرآن ہی ہے ، جیساکہ اس کے بعد ذکر کردہ دوسری آیت میں کتاب سے مراد قرآن ہے تو بھی اس کا عمومی مفہوم ممکن ہی نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن میں ہرچیز کا بیان اور تفصیل موجود ہے ،خواہ اس کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیاوی امور سے اور اسے کسی بھی حال میں ثابت نہیں کیاجاسکتا ہے کیونکہ دنیاوی امور کو چھوڑدیں ، دینی چیزیں بھی تفصیل سے قرآن میں موجود نہیں ہے ، یہاں تک کہ نماز کامفہوم اور اس کا طریقہ بیان نہیں کیاگیا ہے اور اگر اس میں تمام چیزیں موجود ہوں تو پھر رسول کو الگ سے بیان کرنے کی ذمہ داری دینے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس لیے اس کی تاویل ضروری ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دینی امور سے متعلق تمام اصولی اور بنیادی چیزیں بیان کردی گئی ہیں اور یہ بیان بالکل مفصل ہے ، اس میں کوئی پیچیدگی اور الجھائو نہیں ہے ، توحید ، رسالت اور آخرت وغیرہ سے متعلق چیزیں اور ان کے دلائل اس قدر واضح اور تفصیلی ہیں کہ ذراسی توجہ کی جائے تو دل و دماغ میں اتر جائے ، عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث کی طرح اس میں کوئی الجھاؤ نہیں ہے کہ ساری دنیا مل کر بھی اسے طے نہیں کرپائی کہ کیسے تین مل کر ایک ہوجائیں گے، اسی سے ذکر کردہ تیسری آیت کا مفہوم بھی معلوم ہوگیا کہ تفصیل کامفہوم یہ ہے کہ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔
اسی طرح سے احکام سے متعلق بھی تمام کلیات ذکر کر دی گئی ہیں اور اس کی جزئیات اور تفصیلات اور عملی طریقہ کابیان رسول کے حوالے کردیا گیا اور مومنین کوحکم دیاگیا ہے کہ وہ رسول کی اطاعت کریں اور ان کی طرف سے بیان کردہ تفصیلات کی پابندی کریں اور جیسا کہ ذکر کیاگیا کہ وضاحت اور تفصیل بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ، اس لیے یہ بھی قرآن کا ایک حصہ ہے اور اس طرح سے یقینی طور پر قرآن میں ہر چیزکا بیان ہے ، اور اس میں کوئی نقص اور کوتاہی نہیں ہے ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ان عورتوں پر لعن طعن کرتے ہیں جو چہرے پر سے بال کو اکھاڑتی ہیں ، انہوں نے کہا کہ میں ایسی عورت پر لعنت کیوں نہ بھیجوں جس پر خود اللہ کے رسول نے لعنت بھیجی ہے اور یہ کتاب اللہ میں بھی موجود ہے ، اس خاتون نے کہا کہ میں نے شروع سے آخر تک پورا قرآن پڑھ لیا لیکن مجھے اس میں یہ چیز نہیں ملی ، حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ اگر تم نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو تمہیں یہ بات مل جاتی کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’ مَآاٰتٰئکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا‘‘(الحشر:7)
’’ رسول جو تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاو‘‘۔
یا یہ کہ ان آیتوں میں ’’ کتاب‘‘ سے مراد احکام و شریعت ہیں ، اس لیے کہ قرآن وحدیث کے اصطلاحی مفہوم میں عام طور پر’’کتاب‘‘ سے مراد وہ احکام و شریعت ہیں جو نبی پر بذریعہ وحی نازل ہوتے ہیں اور اس اعتبار سے حدیث بھی کتاب کے مفہوم میں شامل ہے اور قرآن و بیان دونوں مل کر بالکل واضح ہیں اور اللہ کی مرضی کی تکمیل کرتے ہیں ۔

قرآن مکمل ہے :

کہاجاتاہے کہ ’’وحی غیر متلو‘‘ کو ماننے کا مطلب ہے کہ قرآن بذات خود نامکمل اور ایک دوسری چیز کا محتاج ہے ۔
یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے جو علم قانون کے ایک مسلم قاعدے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیداہوئی ہے کہ ایک شخص جسے قانون سازی کا اعلیٰ اختیار حاصل ہو ،اگر وہ ایک مجمل حکم دے کر یا اصول طے کرکے اپنے ماتحت کسی ادارے یا شخص کو اس کی تفصیلات اور فروعات اور قواعد وضوابط طے کرنے کا اختیار دے دے تو یہ چیز قانون سے الگ نہیں ہوتی بلکہ اسی قانون کا ایک حصہ ہوتی ہے ، اس کا مفہوم یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے کہ قانون ساز نے جو قانون بنایا تھا وہ ناقص ہے اور دوسرے شخص نے اس نقص کو دور کیا ہے یا اس نے جو زائد باتیں لکھی ہیں وہ اس کے مخالف ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہی طریقہ اختیار کیاہے کہ کچھ مجمل ہدایات و اصول دے کر اور اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کرکے رسول کے سپرد کردیا کہ وہ لفظی طورپر اس کی تفصیلات بیان کریں اور عملی طور پر اسے کرکے دکھائیں ۔(دیکھیے: سنت کی آئینی حیثیت:86۔)
اور اللہ تعالیٰ نے خود اس کی ذمہ داری لی ہے کہ ہم اس کے بیان اور تفصیل کی طرف آپ کی رہنمائی کریں گے تاکہ اس کی روشنی میں ’’لتبین للناس‘‘ کا فریضہ انجام دیں، اس لیے حضور کی طرف سے زبانی و عملی بیان کو قرآن سے الگ نہیں بلکہ قرآن کی وضاحت کے مطابق وہ قرآن ہی کا ایک حصہ ہے، اور اس کے بعد مکمل طرح سے اس عمل میں آ پ کی نگرانی کی جاتی رہی، اورجہاں کہیں اس سلسلہ میں آپ سے معمولی کوتاہی ہوئی فوراً اس پر تنبیہ کردی گئی، چنانچہ ایک موقع پر ازواج مطہرات کی خوشی کے پیش نظر آپ ﷺ نے ایک جائز چیز کو اپنے لیے حرام قرار دے دیا۔ ظاہر ہے کہ ایک نجی اور انفرادی چیز تھی، عمومی قانون سازی پر اس کی وجہ سے کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا لیکن اس پر بھی آپ کو متنبہ کیا گیا، تا کہ اسلامی قانون عملی شکل میں نبی کے پیکر کی صورت میں اللہ کے بندوں تک پہنچ جائے اور اس لیے اللہ کے رسول کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ قرار دیا گیا اور ان کی اتباع کو لازم ٹھہرایا گیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘ حَسَنَۃ ’‘ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ  وَالْیَوْمَ  الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ  کَثِیْرًا‘‘(سورۃ الاحزاب:21)
’’اللہ کے رسول میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے اس شخص کیلیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو خوب یاد کرتا ہو‘‘۔
” اللہ تعالیٰ نے یہ نمونہ کی چیز براہ راست اپنی ہدایات کے تحت بنوائی، اس کے معمار کو نقشہ تعمیر بھی دیا اور اس کا مطلب بھی خود سمجھایا، اس کی تعمیر کی حکمت بھی سکھائی اور عمارت کا ایک ایک گوشہ بناتے وقت اس کی نگرانی بھی کی، تعمیر کے دوران میں ’’وحی جلی‘‘ کے ذریعہ سے بھی اس کی رہنمائی کی اور’’ وحی خفی‘‘ کے ذریعہ سے بھی، کہیں کوئی اینٹ رکھنے میں اس سے ذرابھی چوک ہوگئی تو فوراً ٹوک کر اس کی اصلاح کردی گئی، تاکہ جس عمارت کو ہمیشہ کے لیے نمونہ بننا ہے اس میں کوئی ادنی سی خامی بھی نہ رہ جائے پھر جب اس معمار نے اپنے آقا کی ٹھیک ٹھیک مرضی کے مطابق یہ کار تعمیر پورا کردیا تب دنیا میں اعلان کیا گیا”:(سنت کی آئینی حیثیت؍110)
’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ  دِیْنًا‘‘(المائدہ :3)
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا‘‘۔

سنت کی ضرورت:

یہ حقیقت ہے کہ قرآن کو وحی کی رہنمائی کے بغیر سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے، یعنی اس وحی کے بغیر جسے سنت، الہام، یا وحی غیر متلو کہاجاتاہے، اس لیے کہ قرآن میں زیادہ تر اصولی باتیں بیان کی گئی ہیں، جزئیات اور تفصیلات اس میں موجود نہیں، اور بہت سے اصطلاحی الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور ان کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، اس کی تشریح اور تفصیل کے لیے ایک معلم کی ضرورت ہے جو اسے پڑھائے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرے، اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ احکام کے خاکے میں رنگ بھرنے کا کام انجام دے، اور اس کی عملی شکل دنیا والوں کے سامنے پیش کرے۔ ایسا معلم نبیؐ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے؟ کسی آسمانی کتاب کی تشریح اس سے بہتر کون کرسکتا ہے جس پر کتاب نازل ہوئی ہے؟ اور خود نازل کرنے والے نے اس کی معلمی کافریضہ اسے سونپا ہو اور بقول مولانا امین احسن اصلاحیؒ:
’’آپ کا معلم ہونا آپ کے منصب رسالت کا ایک پہلو ہے، اس وجہ سے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو کچھ لوگوں کوبتایا ،سکھایا اس کوآپ کے فرائض نبوت سے نہ تو خارج کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کا درجہ اصل کتاب کے مقابلہ میں گرایا جاسکتا ہے، اس لیے کہ آپ قرآن مجید کے صرف سنا دینے والے  نہ تھے جیسا کہ منکرین سنت کا گمان ہے بلکہ اس کے مبین اور معلم بھی تھے جیسا کہ قرآن کا بیان ہے:
’’ھُوَالَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ  وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘ (الجمعۃ:2)
’’وہی خدا ہے جس نے اٹھایا امیوں میں سے ایک رسول انہی میں سے جوان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک یہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے‘‘۔( مبادی تدبر حدیث: 34)
اس آیت میں قرآن پڑھنے اور دوسروں کو سنانے (تلاوت) کے ساتھ تعلیم کا بھی ذکر ہے اور تلاوت کے بعد تعلیم کا مطلب ہے کہ یہ تلاوت سے زائد کوئی چیز ہے، اور جس کے لیے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں، اور یہ آپ کی رسالت کا ایک حصہ ہے، اس لیے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، علامہ امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ میں:
ان میں اجمال و تفصیل کاتعلق ہے، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں، دونوں ایک جان دو قالب ہیں اور ہم ان دونوں کے یکساں محتاج ہیں۔(مبادی تدبر حدیث :38)
قرآن مجید نے زندگی کے مسائل کے متعلق جو خاکہ پیش کیا ہے اس میں اس کے صرف چاروں گوشے متعین کیے گئے ہیں، کلیات اور اصول بتائے گئے ہیں، جزئیات و تفصیلا ت اور اس میں رنگ بھرنے کا کام اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں رسول اللہ ﷺ نے انجام دیا ہے، جیسے نماز کے لیے قرآن حکیم میں تہتر(73) سے زائد مرتبہ تاکیدی حکم دیا گیا، لیکن کہیں بھی اس کی حقیقت اور مجموعی ہیئت بیان نہیں کی گئی ہے، رکوع، سجدہ، قیام کا ذکر قرآن میں ضرور ہے لیکن یہ مذکور نہیں ہے یہ چیزیں نماز کا حصہ ہیں، یا الگ سے کوئی عبادت و ریاضت ہے، نماز ایک رکعت پر مشتمل ہے یا اس سے زیادہ،اسی طرح نماز کے لیے جنابت سے پاک ہونا ضرور ی ہے
’’وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا ‘‘
لیکن جنابت کا مفہوم کیا ہے؟نیز اس سے پاکی کا طریقہ کیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں قرآن خاموش ہے، اور محض لغت کے ذریعہ سے ان کے مفہوم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
نیز زکوٰۃ ادا کرنے سے متعلق قرآن میں تیس سے زیادہ جگہوں پر حکم مذکور ہے، لیکن زکوٰۃ کیا ہے؟ کس پر فرض ہے؟ اس کی ادائیگی کی شرح کیا ہے؟ کس طرح کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے اور کب واجب ہے؟ قرآن سے ان سوالوں کا جواب حاصل نہیں کیا جاسکتاہے. اور نہ ہی لغت اور عقل کے ذریعہ اس کی تعیین اور تفصیل کی جاسکتی ہے، یہی حال روزہ اور حج کا بھی ہے، اور معاشی، معاشرتی، اور سیاسی معاملات، اور حدود ،تعزیرات کے مسائل بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اگر ان چیزوں سے سنت کو نکال دیا جائے۔’’تو اگر چہ ہم دین کی اصولی باتوں سے واقف ہوں گے لیکن ان کی عملی شکل سے اسی طرح بے خبر ہوں گے جیسے دور جاہلیت میں دین حنیفی کے پیروکار تھے، وہ خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے اور کہتے کہ اے رب! ہم نہیں جانتے کہ تیری عبادت کس طرح کریں، ورنہ اسی طرح سے کرتے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن سنت ہی سے واضح ہوتا ہے، اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’  الاانی اوتیت القرآن ومثلہ معہ‘‘  آگاہ رہو مجھے قرآن دیا گیا اور اسی کے مانند اس کے ساتھ اور بھی‘‘۔( مبادی تدبر حدیث :26)
اسی حقیقت کو بعض لوگوں نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ سنت جس قدر قرآن کا محتاج ہے اس سے زیادہ قرآن سنت کا محتاج ہے ، اس لیے کہ حدیث میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور تفصیل کے لیے اجمال کی اس قدر ضرورت نہیں ہوتی ہے جس قدر اجمال کے لیے تفصیل و تشریح کی ضرورت ہوتی ہے، بات صرف اتنی ہے کہ قرآن مجید کی تشریح کے لیے سنت کی احتیاج و ضرورت ہے، لیکن عربی زبان کے لفظ ’’محتاج‘‘ کااستعمال اردو میں کراہت پیدا کردیتا ہے خصوصا جب اس کے ساتھ یہ تصور وابستہ ہوکہ قرآن مجید تو اللہ کا حکم ہے اور حدیث رسول کا فرمان، اور یہ شور مچانا شروع کردیاجائے کہ کیا اللہ اپنے رسولؐ کا محتاج ہو سکتا ہے؟ حالانکہ یہ تصور ہی سرے سے غلط ہے کہ سنت، رسول کا کلام ہے بلکہ قرآن اور حدیث  دونوں اللہ کی طرف سے ہیں اور اگر دونوں کے درمیان روح اور قالب کا تعلق ہو جیسا کہ علامہ امین احسن اصلاحی کا خیال ہے تو ظاہر ہے کہ روح کو روپ اور شکل دینے کے لیے سنت کی احتیاج و ضرورت ہوگی۔
اور یہی مفہوم ہے یحییٰ بن کثیر کے اس قول کا کہ سنت کتاب الٰہی کے لیے فیصلہ کن ہے، ’’ السنۃ قاضیۃ علی الکتاب‘‘ یعنی کسی قرآنی آیت میں ایک سے زیادہ مفہوم کی گنجائش ہو تو ایسی صورت میں اس مفہوم کو لیا جائے گا جو سنت سے ثابت ہو، ’’فمعنی کون السنۃ قاضیۃ علی الکتاب انھا مبینۃ لہ‘‘(الموافقات للشاطبی:8/4)
یہ بالکل ظاہر ہے کہ اللہ کی مرضی و منشا کے تعین میں اس کے رسول کے قول وفعل کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔ دوسرے یہ کہ جب سنت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہ ثبوت میں بھی مثل قرآن ہے تو پھر اللہ کے تشریحی اور تفصیلی کلام کو اس کے مبہم اور مجمل کلام پر فیصلہ کن حیثیت دینے میں کیا قباحت ہے؟ حاصل یہ ہے کہ عبادات و معاملات وغیرہ کے سلسلہ میں قرآن میں اجمالی اور کلی حکم پر اکتفاء کیا گیا ہے اور اس کی تفصیل و تشریح کے لیے سنت کی طرف رجوع ایک ناگزیر ضرورت ہے، اور اس کی وہی شرح معتبر ہوگی جو سنت کے معیار پر پوری اترتی ہو۔ قرآن کی تشریح اور تفہیم میں سنت کو اساسی حیثیت حاصل ہے اور اس بنیاد کو نظر انداز کرکے جو تشریح کی جائے گی وہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کے لائق ہے۔

سنت کی مستقل حیثیت:

قرآن وسنت در حقیقت دو جسم اور ایک جان اور وحی الٰہی کے دو الگ الگ روپ ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تائید اور تاکید کرتے ہیں، اور تشریح اور تبیین بھی، اور بسا اوقات ایک دوسرے سے زائد اور مستقل حکم بھی بیان کرتے ہیں ارشاد ربانی ہے:
’’یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ  فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ  تُؤْمِنُوْنَ  بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘‘(سورۃ النساء:59)
’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور جو لوگ حکمراں ہیں ان کی بھی اور اگر تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو، اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔
اس آیت سے واضح طور پر چند چیزیں معلوم ہوتی ہیں:
(الف) رسول کی اطاعت مستقل حیثیت سے ہے، کیونکہ اطاعت کے فعل کو دومرتبہ ذکر کیا گیا ہے، اس لیے رسول کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے، خواہ اس کا تعلق کتاب کی شرح و بیان سے ہو، یا اس سے الگ اور زائد حکم سے، اس لیے کہ وہ اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے، وہ اس کی نمائندگی بعینہٖ اس کے الفاظ کو نقل کر کے یا اس کے مقصد کو اپنے الفاظ میں بیان کرکے کرے، دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اسی لیے بعض جگہوں پر صرف رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے(دیکھیے: سورۃ النور:54-56) اور اس کے حکم سے روگردانی پر شدید عذاب کی دھمکی دی گئی ہے، اور محض پیغمبر کی اطاعت سے انکار کی وجہ سے بعض قوموں کو عذاب میں مبتلا کیا گیا، جیسے کہ قوم فرعون کے ساتھ ہوا، کیونکہ رسول کے آنے اور اس کی اطاعت سے انکار کی وجہ سے حجت قائم ہوجاتی ہے چاہے اس پر کتاب نازل ہو یا نہ ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا‘‘(الاسراء:15)
’’اور ہم عذاب نہیں دیتے جب تک کہ پیغمبر نہ بھیج دیں‘‘۔
(ب)  رسول کے کسی حکم اور فیصلہ سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ معصوم ہوتا ہے اوراس کا حکم وحی پر مبنی ہوتا ہے۔
(ج)  حکمراں اور سربراہ کی اطاعت کا حکم ضمنی ہے،یہ اس کے لیے صریح دلیل ہے کہ رسول کی اطاعت بحیثیت حکمراں نہیں ہے، بلکہ اس کی نوعیت اس سے الگ اور بالاتر ہے۔
2۔ ایک دوسری آیت میں ہے:
’’وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا إِلٰی مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلٰی الرَّسُوْلِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا‘‘(سورۃ النساء:61)
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس کی طرف آؤ جسے اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو تم دیکھو گے کہ منافقین تم سے رخ موڑ لیتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں ’’ما انزل اللّٰہ‘‘ اور ’’الی الرسول‘‘ کے درمیان واؤ تفسیر کیلیے ہو تو مطلب ہوگا کہ وہ سب کچھ اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو رسول کہے۔ اور اگر واؤ عاطفہ ہو تو مفہوم ہوگا ’’ ما انزل اللّٰہ ‘‘ یعنی قرآن کے علاوہ ’’الرسول‘‘ ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے، اور قضا و فیصلے کے دو مستقل ذرائع ہیں اور ان میں سے کسی ایک سے روگردانی منافقین کا شیوہ ہے، اور اسی مستقل حیثیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ النساء کی ایک آیت میں رسول کے فیصلہ پر راضی رہنے کو ایمان کیلیے ضروری قرار دیا گیاہے:
’’فَلاَ وَرَبِّکَ لَا یُوْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْ کَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجاًمِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘(سورۃ النساء:65)
’’تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپ کو حکم نہ ٹھہرائیں، اور پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے خلاف اپنے دل میں تنگی نہ پائیں اور سر تسلیم خم کردیں‘‘۔
3۔  قرآن حکیم میں نبی امی کی صفت کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے :
’’یأَ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَھُمُ الْطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبَائِثَ‘‘(سورۃ الاعراف:157)
’’وہ اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے منع کرتا ہے، اور پاک چیزو ں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام کرتا ہے۔
اس آیت میں حلال و حرام قرار دینے کی نسبت نبی ﷺ کی طرف کی گئی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا اختیار دیا گیا ہے، اور اس اختیارکے نتیجے میں لازمی طور پر مستقل سنتیں پائی جائیں گی، اور در حقیقت یہی سنتیں اطاعت رسول میں داخل ہیں، اس لیے کہ شرح و بیان پر مشتمل سنتیں تو اطاعت الٰہی کے حکم میں شامل ہیں اسی حقیقت کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’الا! یوشک رجل شبعان علی اریکتہ یقول علیکم بہذا القرآن فماوجدتم فیہ من حلال فاحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ وان ما حرم رسول اللّٰہ کما حرم اللّٰہ الا لایحل لکم الحمار الاھلی و کل ذی ناب من السباع…‘‘ ( رواہ ابوداؤد والترمذی)
’’سنو! قریب ہے کہ ایک پیٹ بھرا شخص تخت پر بیٹھا ہوا کہے گا کہ تم پر صرف قرآن کی پیروی لازم ہے، اس میں جوحلال پاؤ اسے حلال سمجھو اور جو حرام پاؤ اسے حرام جانو حالانکہ اللہ کے رسول نے جو حرام قرار دیا ہے وہ بھی اللہ کے حرام کردہ کی طرح ہے، سنو تمہارے لیے گدھا حرام ہے اور اسی طرح سے نکیلے دانت رکھنے والے درندہ جانور‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام کے سامنے حلال و حرام کا کوئی مسئلہ آتا تو اس کے لیے وہ قرآن سے دلیل طلب نہیں کرتے، بلکہ ان کے لیے اتنا کافی تھا کہ یہ اللہ کے رسول کا فرمان ہے، اور ہمیں ان کی اطاعت کاحکم دیا گیا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس ایک خاتون آئیں اورکہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ان عورتوں پر لعنت کرتے ہیں جواپنے بال کو اکھاڑتی اور جسم کو گودتی ہیں، انہوں نے کہا کہ میں ایسی عورتوں پر لعنت کیوں نہ بھیجوں جن پر اللہ کے رسول نے لعنت کی ہے اور جن کا ذکر اللہ کی کتاب میں ہے اس خاتون نے کہا کہ میں نے شروع سے آخر تک قرآن پڑھ لیا لیکن مجھے اس میں یہ بات نہیں ملی، حضرت عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ اگر تم نے قرآن پڑھا ہوتا تواس میں ضرور یہ ملتا  :
’’ ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا‘‘
اور مشہور تابعی حضرت عبدالرحمن بن یزید نے ایک شخص کو دوران حج سلاہوا کپڑا پہنے دیکھا، انہوں نے اسے ٹوکا اور حالت احرام میں بغیر  سلے ہوئے کپڑے پہننے کے لیے کہا، ا س نے کہا کہ اس کے لیے قرآن سے کوئی دلیل پیش کیجیے، حضرت عبدالرحمان نے مذکورہ آیت پڑھ کر سنادی  ۔
ظاہر ہے کہ چہرے کے بال کو اکھاڑنے اور جسم کو گودنے اور حالت احرام میں بغیر سلے ہوئے کپڑے پہننے کے سلسلہ میں قرآن خاموش ہے،اور اس شرعی حکم کو بیان کرنے کے سلسلے میں حدیث منفرد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت کو ایک مستقل حیثیت حاصل ہے، اور اطاعت و اتباع کے سلسلہ میں دونوں یکساں ہیں اور اس حیثیت سے دونوں میں فرق کرنا کافرانہ روش ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُقُوْلُوْنَ نُوْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذَالِکَ سَبِیْلاً ‘‘(سورۃ النساء :150)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور دونوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کچھ پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک درمیانی راہ نکال لیں‘‘۔
اس آیت میں جس تفریق کو قطعی کفر کہاگیا ہے وہ اطاعت میں تفریق ہے اس لیے کہ اللہ و رسول کی ذات وصفات کے اعتبار سے دونوں میں تفریق عین ایمان ہے اور اس میں وحدت و یکسانیت کفر وشرک ہے۔

کتاب و سنت میں اختلاف:

کتاب وسنت کا سرچشمہ ایک ہے، اور دونوں اللہ کی طرف سے ہیں، اور جو چیز اللہ کی طرف سے ہو، اس میں اختلاف ممکن نہیں، اس لیے صحیح حدیث کبھی بھی قرآن کی مخالف نہیں ہوسکتی ہے، اگر کہیں بظاہر اختلاف نظر آئے تو وہ قصور فہم کا نتیجہ ہے، علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں:
’’ہم اللہ تعالیٰ اور ا س کے فرشتوں کو گواہ بناکر کلی طور پر کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کی حدیث میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن یا عقل صریح کے مخالف ہو بلکہ آنحضور کا کلام، قرآن کا بیان اس کی تفسیر اور تفصیل ہے۔ جس حدیث کو کسی نے یہ خیال کرکے رد کردیا کہ وہ مخالف قرآن ہے تو وہ درحقیقت قرآن کے مطابق ہے، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسی حدیثیں قرآن سے زائد ہیں، اور رسول اللہ ﷺ نے ایسی روایتوں کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔
قرآن کا مرتبہ اس اعتبار سے بہت بلند ہے کہ اس کے الفاظ بھی اللہ کی طرف سے ہیں، اور اس جیسے کلام کے پیش کرنے سے انسان عاجز ہے، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ دلیل کے اعتبارسے کتاب و سنت میں کوئی فرق ہو، اس لیے کہ قرآن کی حجیت صرف اس پہلو سے ہے کہ وہ ’’وحی الٰہی ‘‘ ہے، اگر وہ معجزہ نہ ہوتا اور اس کے الفاظ اللہ کی طرف سے نہ آتے، پھربھی اس کی حجیت کا اقرار کرنا لازم ہوتا، لہٰذا حجیت کے پہلو سے دونوں یکساں ہیں اور دونوں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ سنت ثابت ہے یا نہیں، کیونکہ خود قرآن کا ثبوت سنت کے ذریعہ ہے، اس لیے کہ وہ کتاب کی شکل میں سب کے سامنے آسمان سے نہیں اتارا گیا ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ قرآن ہے، اور کسی آیت کا قرآن ہونا اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ نبی ﷺ یہ نہ کہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
اس لیے دونوں میں اگر بظاہر اختلاف محسوس ہو تو جس طرح سے قرآن کی دو آیتوں میں اختلاف کی صورت میں موافقت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح سے کتا ب و سنت کی اختلافی چیزوں کو دو آیتیں یا دو سنتیں مان کر مطابقت پیدا کرنے کی کوشش ہونی چاہئے، یہ طرز عمل سخت ناپسندیدہ ہے کہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کی وجہ سے کسی حدیث کو رد کرنا چاہا تو اسے مخالف قرآن کہہ کر نظر انداز کردیا۔
یہ صحیح ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے بعض حدیثیں ظنی ہوتی ہیں، اور قران مکمل طور پر قطعی ہے، لیکن دلالت کے اعتبار سے اس کی تمام آیتیں یکساں نہیں ہیں، یعنی ایسا نہیں  ہے کہ اس کی تمام آیتوں کا مفہوم اس درجہ قطعی اور یقینی ہو کہ اختلاف کی گنجائش نہ ہو بلکہ  بہت سی آیتیں ایسی ہیں جن کے سمجھنے میں اختلاف ہوسکتا ہے اور ہوا ہے، اس لیے کہ کبھی ایک آیت عام اور مطلق ہوتی ہے اور اس کی تخصیص اور تقیید میں اختلاف ہوسکتا ہے، اور حدیث خاص ہوتی ہے لیکن ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہے، اس کے ذریعہ کتاب کی تخصیص ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، علاوہ ازیں اس کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی حدیث قرآن کی صراحت کے خلاف ہے یا قرآن سے ہم نے جو سمجھا ہے اس کے مخالف ہے، اپنی فہم پر اعتماد کرتے ہوئے کسی صحیح حدیث کورد کردینا بے جا جسارت اور اپنی عقل کو معصوم سمجھنے اور قرآن بنانے کی جرأت ہے ،عام طور پر صحیح حدیثیں باطل شبہات اور مستشرقین کے اعتراضا ت سے مرعوبیت کی وجہ سے رد کی گئیں ہیں، اور اس کے لیے مخالف قرآن ہونے کا سہار ا لیا گیا ہے۔

سنت کے ذریعہ قرآن کا نسخ:

متواتر حدیث کے ذریعہ قرآن کی کسی آیت کو منسوخ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے، جمہور فقہاء و محدثین اس کے قائل ہیں، اور امام شافعی ا س کے منکر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے اور اپنی طرف سے اس میں کسی تبدیلی کا اختیار آپ کو نہیں ملا ہے۔ کافروں کا مطالبہ تھا کہ اس قرآن کے علاوہ دوسرا قرآن لاؤ یا اس میں کچھ تبدیلی کردو تو اس کے جواب میں آپ کی زبان سے کہلایا گیا:
’’قُلْ مَا یَکُوْنِ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّامَایُوْحٰی اِلَیَّ‘‘(یونس:15)
’’کہہ دو کہ مجھے اپنی طرف سے قرآن میں تبدیلی کا حق نہیں ہے، میں تو صرف اس چیز کی اتباع کرتا ہوں جو میری طرف نازل ہوئی ہے‘‘۔
اور ایک دوسری آیت میں ہے:
’’مَانَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْمِثْلِھَا‘‘۔(البقرہ:106)
’’ہم جس آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی کی طرح لے کر آتے ہیں‘‘۔
ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اپنی مرضی سے قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا ہے، اس کے کسی حکم کو اللہ تعالیٰ ہی منسوخ کرسکتے ہیں، اس کا اختیار اس کے مخلوق میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے،(الرسالہ:106) امام شافعی کی رائے اور استدلال اس درجہ کمزور ہے کہ خود ان کے ماننے والوں نے شدت سے اس کا انکار کیا ہے۔ قائلین نسخ کہتے ہیں کہ حدیث بھی وحی اور اللہ کا کلام ہے اور خود امام شافعی بھی اس کے قائل ہیں اور جب وہ اللہ کا کلام ہے اور قطعی و یقینی ذریعہ سے ثابت ہے تو ا س کے ذریعہ کسی حکم قرآنی کو منسوخ کرنے میں کیا حرج ہے، چنانچہ علامہ ابن حزم لکھتے ہیں:
’’یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادقُلْ مَا یَکُوْنِ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَائِ نَفْسِی سے بھی استدلال کرتے ہیں، حالانکہ اس آیت میں ان کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے کیونکہ ہم ہرگز اس کے قائل نہیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی کے مطابق از خود تبدیلی کردی ہے، بلکہ ایسا کہنے والا تو بلاشبہ کافر ہے، ہمارا صرف یہ کہنا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کی وجہ سے بدل دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو برملا یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ’’اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ‘‘ لہٰذا اس سے صراحتاً وحی کا وحی کے ذریعہ نسخ کا ممکن ہونا ثابت ہوا اور چونکہ سنت بھی وحی ہے اس لیے سنت کے ذریعہ قرآن کا نسخ بھی جائز ہوا‘‘۔(الاحکام:120/4)
امام غزالی لکھتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ ناسخ اللہ تعالیٰ ہیں اگرچہ الفاظ اس کے رسول کے ہیں اور قرآن کے نسخ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قرآن ہی کے الفاظ کے ذریعہ ہو، بلکہ رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ ایسی وحی سے بھی نسخ ہوسکتا ہے جو قرآن میں نہ ہو، اس لیے کہ ناسخ ومنسوخ دونوں اللہ ہی کا کلام ہے، فرق صرف الفاظ و عبارت کا ہے، اللہ کا کلام وہ بھی ہے جس کے الفاظ بھی اسی کی طرف سے ہیں اور ہمیں اس کی تلاوت کا حکم ہے جسے قرآن کہا جاتا ہے، اور وہ بھی ہے جس کے الفاظ اس کی طرف سے نہیں ہیں جسے سنت کہا جاتا ہے، قرآن ہو یا سنت دونوں کو سنانے اور بیان کرنے والے رسول اللہ ﷺ ہیں اور ہر حال میں ناسخ اللہ تعالیٰ ہیں۔(المستصفیٰ:125/1)
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
’’ تم پر یہ پوشیدہ نہیں ہے کہ جس طرح سے قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے اس طرح سے حدیث بھی، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رسول جو دیں اسے تھام لو اور جس سے روکیں اس سے رک جاؤ، اور قرآن میں متعدد جگہوں پر رسول کی پیروی کا حکم دیا گیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی طرح جو سنت قطعی اور یقینی ذریعہ سے ثابت ہو وہ قرآن کے حکم میں ہے، اور اس کے ذریعہ قرآن کا نسخ کیا جاسکتا ہے، اور یہ دین وعقل کے اعتبار سے ممتنع نہیں ہے‘‘۔( ارشاد الفحول:191)
سنت کے ذریعہ قرآن کا نسخ صرف ایک نظریاتی معاملہ ہے، واقعات کی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے، یعنی کوئی ایسی سنت ثابت نہیں ہے جس کے ذریعہ قرآن کے کسی حکم کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہو، نسخ کی بحث میں عام طور پر جو مثالیں پیش کی جاتی ہیں وہ تخصیص کے قبیل سے ہیں، اور عام طور پر تخصیص یا اضافہ کو سلف نسخ کہا کرتے تھے، اور سنت متواترہ کے ذریعہ قرآنی حکم کی تخصیص، اہل سنت کے درمیان ایک اتفاقی معاملہ ہے، بلکہ امام شافعیؒ و احمدؒ کے نزدیک خبرواحد کے ذریعہ بھی تخصیص کی جاسکتی ہے، اور ماضی قریب کے بعض لوگوں نے اس تخصیص کے لیے یہ شرط لگائی ہے۔
’’اگر اس تخصیص سے قرآن کے عموم کے اندرسے کوئی ایسی چیز نکل جاتی ہے جو لفظ کے مفہوم میں واضح طور پر شامل ہے، اور اس کے لیے قرآن کے حکم سے بالکل الگ حکم بیان ہو، جو قرآن کے حکم سے بھی اشد ہے تو یہ تخصیص نہیں، نسخ ہے اور قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کرنے کا اختیار پیغمبر کو بھی نہیں ہے‘‘۔(مبادی تدبرحدیث :41)
لیکن ا س شرط کا نتیجہ صرف ایک مثال ہے اور وہ ہے رجم، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’دوسری تخصیص -جو نسخ کے حکم میں داخل ہے- کی مثال جو سورہ نور کے حکم الزانیۃ والزانی…… میں کی گئی ہے کہ بعض روایت کی بنا پر اس کو غیر شادی شدہ کے لیے خاص کردیا گیا ہے اور شادی شدہ کو اس سے الگ کرکے ایک مستقل حکم اس سے بھی زیادہ سخت بیان کیا گیا ہے، حالانکہ الفاظ اور آیت کے اندر اس امتیاز کے لیے کوئی قرینہ و اشارہ نہیں ہے‘‘۔( حوالہ مذکورہ:45)
حالانکہ وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ کتاب وسنت دونوں اللہ کی جانب سے ہیں، دونوں ایک جان دو قالب ہیں، اوریہ کہ ’’سنت مثل قرآن ہے، سنت اپنے ثبوت میں بھی ہم پایۂ قرآن ہے، اس لیے کہ قرآن امت کے قولی تو اتر سے ثابت ہے، اور سنت عملی تواتر سے،
ہم ان دونوں کو مقدم و موخر نہیں کرسکتے، اور کسی کو ادنیٰ واعلی نہیں قرار دے سکتے، دونوں دین کے قیام کے لیے یکساں ضروری ہیں‘‘(مبادی تدبرحدیث :35) علاوہ ازیں وہ خود بھی اسی طرح کے بعض مسائل میں خبر واحد کے ذریعہ قرآن میں تخصیص کے قائل ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلَ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘‘(سورہ النساء:11)
’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت دیتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے‘‘۔
ان کے الفاظ میں ’’آیت کے حکم کی عمومیت کا تقاضا ہے کہ ہر باپ اپنے بیٹے کا اور ہر بیٹا اپنے باپ کا وارث ہو‘‘ لیکن درج ذیل حدیث کی وجہ سے اس میں تخصیص کردی گئی ہے:
’’لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم‘‘
’’مسلمان کافر کا اور کافر مسلم کا وارث نہیں ہوسکتاہے‘‘۔
اب بھلا بتائیے کہ جب اولاد کہا جائے تو مسلم اور غیر مسلم کا تصور کہاں سے پیدا ہو گیا کہ اس سے غیرمسلم مراد نہیں ہوسکتا ہے دونوں پر اس کا اطلاق ہونا چاہئے اور غیر مسلم کو الگ کرنے کے لیے کوئی قرینہ اور اشارہ بھی آیت میں موجود نہیں ہے اس لیے یہ بھی نسخ ہے، تخصیص نہیں،اور مذکورہ ضابطہ کے مطابق اس نسخ کو درست نہیں ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ بعض صحابہ کرام جو قرآن کے اسلوب اور انداز بیان سے بخوبی واقف تھے اور جنہیں مذکورہ حدیث نہیں پہونچی تھی وہ اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان کسی کا فر کا وارث ہوسکتا ہے۔

درایت حدیث:

کسی حدیث کی نسبت، اللہ کے رسول ﷺ کی طرف صحیح ہے یا نہیں ؟ اسے جانچنے کے لیے محدثین نے بڑی جانفشانی اور باریک بینی سے کام لیا ہے، اس سلسلہ میں ان کے بے مثال کارناموں اور لازوال شاہکار کا غیروں نے بھی اعتراف کیا ہے، انہوں نے اپنی پوری عمر اس میں صرف کردی کہ مسلمانوں کے پاس اللہ کے رسول کے حوالے سے جو بات پہنچے اس میں کوئی کمی اور کوتاہی نہ رہے۔
حدیث کی صحت کو جانچنے کے لیے دو طریقے اختیار کیے گئے، علم روایت اور علم درایت، علم روایت کا تعلق سند سے ہے، جس کے نتیجے میں جرح و تعدیل اور علم تاریخ کا عظیم الشان فن وجود میں آیا، اور تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کی پوری زندگی کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہمارے سامنے ہے، انہوں نے حدیث کے راویوں کے متعلق جو احوال و کوائف پیش کیے  ہیں وہ تاریخ دانوں کی طرح محض ظن اور قیاس پر مبنی نہیں تھا بلکہ مشاہدہ، تجربہ اور اجتہاد پر مبنی تھاانہوں نے راویوں سے ملاقات کی ، ان کے ساتھ رہے اور اچھی طرح سے جانچا اور پرکھا اور ان کے متعلق دوسرے لوگوں سے معلوم کیا۔
علم درایت کا تعلق متن سے ہے جس میں یہ جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حدیث کا مفہوم اسلامی مزاج و مذاق کے مناسب ہے یا نہیں، نیز اس سے کون سے مسئلے معلوم کیے جاسکتے ہیں، محدثین نے اس میدان میں بھی انمٹ نقوش چھوڑے اور انہوں نے یہ ضابطہ بنایا ہے کہ صحت کے باوجود وہی خبر واحد قبول کی جائیگی جو درج ذیل معیار پر کھری ثابت ہو۔
1۔ روایت عقل کے خلاف نہ ہو، یعنی اس عقل کے خلاف نہ ہو جو وحی الٰہی سے روشنی حاصل کرتی ہو، کیونکہ عقل کو وحی کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے آنکھ کو دیکھنے لیے خارجی روشنی ناگزیر ہے، وہ عقل جو وحی کی روشنی سے محروم ہو وہ جانور سے بھی بدتر ہے اور ہمیشہ تاریکیوں میں بھٹکتی رہے گی اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ لَھُمْ قُلُوْب’‘  لَّایَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُن’‘ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا ،وَلَھُمْ  اٰذَان’‘ لَّایَسْمَعُوْنَ بِھَا ، اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ ‘‘(سورۃ الاعراف:179)
’’ان کے پاس دل ہیں لیکن سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں، لیکن دیکھتے نہیں  ان کے پاس کان ہیں لیکن سنتے نہیں، یہ جانور کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ‘‘۔
اس لیے کہ وحی کی موجودگی میں عقل کو اس کے تابع رہنا چاہئے، اس سے آگے بڑھنے کی کوشش اپنے دائرہ کار اور اپنی صلاحیت سے تجاوز کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو اس کے بعد کسی کو کوئی اختیار باقی نہیں رہتاہے،چنانچہ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’بلاشبہ عقل کے استعمال پر ہم کوئی پابندی نہیں لگاسکتے، نہ کسی کہنے والے کی زبان پکڑ سکتے ہیں لیکن بہر حال یہ امر یقینی ہے کہ اسلامی علوم سے کورے لوگ ،اناڑی پن کے ساتھ کسی حدیث کو خوش آئند پاکر قبول اور کسی کو اپنی مرضی کے خلاف پا کر رد کرنے لگیں یا اسلام سے مختلف کسی دوسرے نظام فکر و عمل میں پرورش پائے ہوئے حضرات یکایک اٹھ کر اجنبی معیاروں کے لحاظ سے احادیث کے رد و قبول کا کاروبار پھیلا دیں تو مسلم ملت میں نہ ان کی درایت مقبول ہوسکتی ہیں اور نہ اس ملت کا اجتماعی ضمیر ایسے بے تکے عقلی فیصلوں پر کبھی مطمئن ہوسکتا ہے، اسلامی حدود میں تو اسلام ہی کی تربیت پائی ہوئی عقل اور اسلام کے مزاج سے ہم آہنگی رکھنے والی عقل ہی ٹھیک کام کرسکتی ہے، اجنبی رنگ و مزاج کی عقل یا غیر تربیت یافتہ عقل بجز اس کے کہ انتشار پھیلائے کوئی تعمیری خدمت اس دائرے میں انجام نہیں دے سکتی ہے‘‘۔(سنت کی آئینی حیثیت:60)
دیکھا یہ جارہا ہے کہ اہل مغرب اور مستشرقین کی طرف سے پیش کی گئی ہر بات کو عقل کے مطابق سمجھا جاتا ہے اور آنکھ بند کرکے اس پر اعتماد کیا جاتا ہے، اور اس کی راہ میں رکاوٹ اسلامی اصولوں اور اقدار کی ایسی تاویل کی جاتی ہے کہ وہ نام نہاد عقل کے مطابق ہوجائے اور اگر اس راستے میں حدیث آڑے آئے تو اس کا انکار کردیا جائے، یہ مرعوب اور بیمار ذہنیت کی علامت ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ہم سب لوگوں کی حفاظت فرمائے۔
2۔ خلاف مشاہدہ نہ ہو، ایسی روایت جو مشاہدہ کے خلاف ہو قابل رد ہے، جیسے یہ موضوع روایت کہ بیگن ہر مرض کے لیے شفاء ہے۔
3۔ قرآن کی قطعی دلالت، سنت متواترہ اور اجماع قطعی کے خلاف نہ ہو جیسے یہ موضوع روایت کہ زنا کی اولاد سات نسل تک جنت میں نہیں جائے گی۔ یہ روایت قرآنی آیت کی صریح معارض ہے، جس میں کہا گیا کہ کوئی کسی دوسرے کے جرم کے بوجھ کو نہیں اٹھائیگا ’’وَلَاتَزِرُوَازِرَۃٌ وِزْرَاُخْریٰ‘‘۔
یہاں بھی یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ خلاف قرآن ہونے کے سلسلہ میں انہیں لوگوں کا فیصلہ معتبر ہوگا جنہوں نے کتاب و سنت کے مطالعہ وتحقیق میں اپنی پوری زندگی کھپادی ہو اور اس سے بے پناہ شغف اور تعلق نے ان میں ایک تجربہ کار جوہری جیسی بصیرت اور صلاحیت پیدا کردی ہو اور جن کی عقل اسلامی نظام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو اور ان کی فکر پر بیرونی اثرات کی چھاپ نہ پڑی ہوئی ہو۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ قرآن کی صراحت کے خلاف ہونا ایک الگ چیز ہے اورقرآن سے اخذ کیے ہوئے مفہوم کے خلاف ہونا دوسری چیز ہے، ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی آیت سے اخذ کیا ہوا مفہوم کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو، ایسی صورت میں حدیث، قرآن کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ ذہنی اپج کی مخالف ہوتی ہے، ایسی حالت میں سیدھا راستہ یہ ہے کہ حدیث کو اختیار کیا جائے اور عقلی مفہوم سے گریز کیا جائے یہ بڑی جرأت کی بات ہوگی کہ انسانی کاوش اور ذہنی ورزش کو قرآن بنانے اور عقل کو معصوم سمجھنے کی غلطی کی جائے اور اس کی وجہ سے کسی صحیح حدیث کو رد کردیا جائے جسے جمہور امت نے اخذ وقبول کی سند عطا کی ہو اور اسے مستند و معتبر قرار دیا ہو۔ حدیث سے بے نیازی برتنے والے عام طور پر اسی غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ قرآن کے خلاف ہونے اور قرآن سے زائد ہونے میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے مگر کچھ لوگ اس فرق کا لحاظ نہیں رکھتے اور حدیث کے مقبول ہونے کا یہ معیار مقرر کرتے ہیںکہ وہ قرآن کے مطابق ہو اور قرآن کے علاوہ کسی اصول یا احکام کو بیان نہ کرے ،ظاہر ہے کہ اس معیار کے بعد حدیث کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے، اس لیے کہ اس سے اگر کوئی زائد بات معلوم نہ ہو تو پھر قرآن ہی کافی ہے، قرآن کو اپنی تائید کے لیے کسی روایت کی ضرورت بھی کیا ہے؟ نیز نماز کے اوقات، رکعتوں کی تعداد او ر کیفیت ادا جیسی تفصیلات قرآن کی کس آیت کے مطابق ہیں کیا یہ قرآن سے زائد چیزیں نہیں ہیں۔
4۔ تاریخ کے خلاف نہ ہو جیسے اہل خیبر سے جزیہ وصول کرنے والی روایت جس میں حضرت سعد بن معاذ کی شہادت کا ذکر بھی ہے، حالانکہ جزیہ کا حکم غزوۂ تبوک کے بعد    9ھ میں نازل ہوا اور حضرت سعد بن معاذ غزوہ خیبر سے بہت پہلے غزوہ خندق میں شہید ہوگئے تھے۔
5۔ ایسے امور سے متعلق نہ ہوں جس میں قطعی اور یقینی علم کی ضرورت ہو یا ان کا تعلق کسی ایسے اہم واقعہ سے نہ ہو جسے متعدد راویوں سے منقول ہونا چاہئے، ایسے معاملات میں خبر و احد کا اعتبار نہیں کیا جائیگا، جیسے بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ حجۃ الوداع سے واپسی کے موقع پر اللہ کے رسول نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام کی موجود گی میں حضرت علی کو خلافت عطا کی تھی حالانکہ شیعوں کے علاوہ کسی کے یہاں یہ روایت موجود نہیں ہے۔
6۔ اس میں لفظی و معنوی رکاکت موجود نہ ہو، رسول اللہ ﷺ کے کلام میں ظاہری اور معنوی اعتبار سے بڑی گیرائی و گہرائی اور عظمت و نفاست  ہوتی ہے، اور ذوق سلیم کا مالک شخص پہچان لیتا ہے کہ یہ نبی ﷺ کا کلام ہے یا نہیں۔
محدثین ان تمام اصولوں کی روشنی میں کسی حدیث کی صحت کا فیصلہ کرتے ہیں اس لیے یہ تصور سرے سے غلط ہے کہ ان کی تمام تر توجہ سند پر رہی اور درایت کا پہلو ان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ یہ ایک انسانی کوشش ہے اور اس میں بہر کیف غلطی کا امکان ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بحیثیت انسان ہم کس چیز کے پابند ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا ہے، ہم پر یہ پابندی عائد نہیں کی گئی ہے کہ جب تک ہر معاملہ میں یقینی کیفیت پیدا نہ ہوجائے اس پر عمل نہ کیاجائے، روایت کی طرح شہادت اور گواہی میں بھی عدالت ضروری ہے اور کسی گواہ کے عادل ہونے کے سلسلہ میں یقینی فیصلہ کرنا محال ہے، اس لیے کسی شخص کے عادل ہونے کے سلسلہ میں اسی حد تک تحقیق ضروری ہے جوکسی انسان کے بس میں ہو اور پوری کوشش کے باوجود گواہوں کی عدالت اور ان کے بیانات ظنی ہوتے ہیں، اور قاضی کے فیصلے میں غلطی کا امکان ہے، لیکن اس کے باوجود گواہی اور عدالتی فیصلے کا نظام باقی رکھا جاتا ہے، اور فیصلہ نافذ ہوتا ہے، بلکہ اسی امکانی کوشش کی بنیادپر ایک ایسے شخص کے قتل کا فیصلہ کیا جاتا ہے جس کا خون بہانا حرام ہوتا ہے، غرضیکہ کسی بھی فیصلہ کے لیے خلوص نیت، اجتہادانہ صلاحیت اور امکانی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔
محدثین نے حدیث کی تحقیق اور تنقید کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور حدیث کی صحت وضعف کو جانچنے کے لیے انہوں نے اپنی پوری زندگی صرف کردی، انہوں نے روایت و درایت ہر پہلو پر بھرپور توجہ دی، اس لیے احادیث کا وہ ذخیرہ جسے امت کے فقہاء و محدثین کے یہاں قبول عام حاصل ہے، وہ بالکل بے غبار ہے اور اسے مشکوک ٹھہرانے کی ہر کوشش قابل رد ہے۔

سنت کی حفاظت:

اللہ کے رسول ﷺ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی وحی نازل ہوئی وہ ’’ذکر‘‘ ہے اور اس ’’ذکر‘‘ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ:
’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ (الحجر:9)
’’ہم نے ہی ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔
حدیث بھی وحی ہے اور اللہ کی طرف سے قرآن کا بیان ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی طرح اس کی بھی حفاظت فرمائی، اس لیے کہ اگر حدیثوں کی حفاظت نہ کی جاتی تو لازم آتا کہ قرآن کی شرح کا جو علم آپ کو دیا گیا تھا اور جس کے ذریعہ آپ نے لوگوں کا تزکیہ کیا اس کی حفاظت کا کوئی نظم نہیں کیا اور جو لوگ عربی زبان کے شہسوار اور قرآنی اسلوب سے بخوبی واقف تھے ان کے لیے تو شرح نازل کی گئی اور جو لوگ ان سے زیادہ ضرورت مند تھے ان کے لیے وہ شرح ضائع ہوگئی اور انہیں اندھیرے میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی رسالت ہمیشہ اور ہر زمانے کے لیے ہے اس کا بھی لازمی تقاضا ہے کہ سنتیں محفوظ ہوں ورنہ اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ ہمیں پیغمبر کی اطاعت اور اتباع کا حکم تو دیا گیا ہے لیکن واقعات کی دنیا میں اس پر عمل ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کا قول و عمل محفوظ نہیں رہا اور نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی ختم ہوگئی اور ان کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت وہی ہے جو آدم علیہ السلام اور ان کے بعد دیگر انبیاء کے ساتھ ہے کہ ہم ان کو نبی تو مانتے ہیں مگر ان کا کوئی اسوہ نہیں ہے جس کی ہم اتباع کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور بیان دونوں سے مل کر دین کی تکمیل ہوتی ہے اور بیان کے ضائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دین ناقص ہے اور اس سلسلہ میں ان لوگوں کی کوششیں کامیاب ہوگئیں جو اللہ کے دین کی روشنی کو بجھانا چاہتے تھے اور مفسدوں و کافروں کو غلبہ حاصل ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل اور غالب فرمادیا ہے اس لیے قرآن کی طرح سنت کی حفاظت کے لیے بھی تدبیریں اپنائی گئیں کہ جس طرح نزول قرآن کے وقت سیکڑوں لوگ اسے زبانی یاد کرلیتے اور پھر ان سے ہزاروں لوگوں نے، اور ان سے لاکھوں لوگوں نے سن کر اسے سینے میں محفوظ کر لیا اور یہ سلسلہ ایک نسل سے دوسری نسل تک دراز ہوتا گیا قرآنی آیت نازل ہوئی کہ ’’اقیمواالصلاۃ‘‘ نماز قائم کرو اسے لکھ لیا گیا اور یاد کر لیا گیا، لیکن کس طرح سے قائم کی جائے؟ یا کب اور کتنی رکعت پڑھی جائے؟ یہ تفصیلات آپ ﷺ کے ذریعہ بچوں تک کو معلوم ہوگئیں  اور لاکھوں لوگوں نے ایک نسل سے دوسری نسل تک اسے منتقل کیا بلکہ قرآنی آیت تو چند لوگوں کے پاس لکھی ہوئی اور بعض لوگوں کے سینے میں محفوظ تھی لیکن سنت پر تو پورا مسلم معاشرہ عمل پیرا رہا اور عالم و جاہل، مرد و عورت چھوٹا اور بڑا ہر ایک اس سے آگاہ تھا۔

حفاظت کے طریقے:

اللہ کے رسول ﷺ کے عہد میں سنت کی حفاظت کے لیے تین طریقے اختیار کیے گئے۔
1۔ عملی طریقہ:
اللہ کے رسول ﷺ جو کچھ کرتے یا کہتے مسلم معاشرہ میں فوراً اس پر عمل شروع ہوجاتا، آپ نے عبادت کے جو طریقے اپنائے، صحابہ کرامؓ نے اسے اپنی زندگی کا شیوہ بنالیا، شادی بیاہ کے جو ضابطے آپ نے متعین کیے، مسلم خاندانوں میں اسی کے مطابق عمل شروع ہوگیا، خرید و فروخت کے جو طریقے آپؐ نے بتلائے، بازاروں میں وہی رائج ہوگئے۔
غرضیکہ عقائد و عبادات، نکاح و طلاق، تجارت و معیشت، محنت و مزدوری، اخلاق و معاشرت، سیاسی معاملات اور دوسری قوموں سے تعلقات وغیرہ سب اسی سنت کے مطابق طے پائے اور زندگی کے ہر شعبہ میں وہ تعلیمات رچ بس گئیں اور اس کے مطابق پوری امت تیار ہوگئی اورجو معاشرہ بنا اس کی زندگی میں ایک دن کا بھی انقطاع نہیں ہوا بلکہ قرآن کے بیان پر مشتمل معاشرہ تسلسل کے ساتھ ہم تک پہنچا اور ظاہر ہے کہ کسی چیز کی حفاظت کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لیے کہ رٹے ہوئے جملوں کے بھول جانے اور لکھی ہوئی یاد داشتوں میں تبدیلی کا احتمال  ہے،لیکن عملی تسلسل میں اس طرح کا کوئی امکان نہیں ہے۔
2۔ روایت:
اللہ کے رسول ﷺ کا معمول تھا کہ وہ اہم چیزوں کو تین بار بیان کرتے تھے تاکہ لوگ اسے محفوظ کرلیں، نیز بیان کردہ باتوں کو بسا اوقات صحابہ کرام سے سنا بھی کرتے تھے تاکہ یہ اندازہ کیا جاسکے کہ لوگ اسے محفوظ کرنے کا اہتمام کررہے ہیں یا نہیں اور صحابہ کرام کا یہ حال تھا کہ کسی مشغولیت کی وجہ سے روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکتے تو باری مقرر کرلیتے، اور اللہ کے رسول ﷺ سے سنی ہوئی باتوں کو دوسرے سے آکر بیان کرتے تھے۔
خود آپ ﷺ کا ارشاد تھا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جو میری باتوں کو سنے اور محفوظ رکھے پھر اسے دوسروں تک پہنچادے ، نیز آپ نے فرمایا کہ مجلس میں حاضر شخص یہاں غیر موجود لوگوں تک میری بات پہنچا دے فلیبلغ الشاہد الغائب۔
اللہ کے رسول ﷺ کے ان ارشادات کے پیش نظر صحابہ کرام احادیث کو سینوں میں محفوظ رکھنے اور اس سرمایہ کو دوسروں تک منتقل کرنے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل عرب کو غیر معمولی قوت یادداشت سے نوازا تھا، اس وصف نے احادیث کو یاد رکھنے میں ان کی مدد کی۔

3۔ کتابت:

نزول قرآن کے ابتدائی دور میں اللہ کے رسول ﷺ نے حدیثوں کو لکھنے سے منع فرمایا تھا البتہ زبانی بیان کرنے کی اجازت تھی ایسا اس لیے کہا گیا تاکہ قرآن کے ساتھ خلط ملط نہ ہوسکے ،لیکن جب لوگ قرآنی اسلوب سے واقف ہوگئے تو احادیث کے لکھنے کی اجازت دی گئی،متعدد حدیثوں سے آپ ﷺ کا حدیث لکھنے کا حکم دینا ثابت ہے، اور آپ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے بہت سے  صحابہ کرام نے حدیثوں پر مشتمل نوشتے تیار کیے، باون سے زیادہ صحابہ اور صحابیات کے پاس حدیثیں لکھی ہوئی شکل میں موجود تھیں، اور تابعین میں ایسے لوگوں کی تعداد ڈھائی سو کے قریب ہے جن کے پاس حدیث کے مرتب مجموعے موجود تھے اور تبع تابعین میں یہ تعداد ہزاروں تک پہونچ جاتی ہے، اس لیے یہ کہنا قطعاً غلط ہے کہ حدیث کی کتابت تیسری صدی ہجری میں عمل میں آئی،دوسری بات یہ کہ کسی چیز کے قابل اعتماد ہونے کے لیے اس کا لکھا جانا ضروری نہیں ہے، حفاظت اور تبدیلی و غلطی سے بچاؤ کا مدار اس پر ہے کہ اس کے حاملین عادل اور قابل اعتماد ہوں، اگر ایسا نہ ہو تو کسی نوشتہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یہود و نصاریٰ توریت و انجیل لکھا کرتے تھے اس کے باوجود اس میں تبدیلی ہوئی اس لیے کہ لکھنے والے عادل نہیں تھے۔
نیز اگر کسی چیز کا تحریری شکل میں ہونا ہی حجیت کیلیے ضروری ہے تو یہود و نصاریٰ  کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ قرآن حجت نہیں ہے کہ اس لیے کہ وہ تحریری شکل میں آسمان سے نازل نہیں ہوا ہے اگر وہ حجت ہوتا تو توریت کی طرح اسے بھی تختیوں پر لکھ کر آسمان سے اتارا جاتا لیکن صورت حال اس کے برعکس ہے، یہاں تک کہ حضور ﷺ کا لکھوایا ہوا قرآن بھی آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، اور اگر موجود بھی ہوتا تو کیسے یقین کیا جاتا کہ وہ کاتبین وحی کا لکھا ہوا قرآن ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے قطعیت صرف اسی صورت میں حاصل ہوگی جب کہ زندہ اور قابل اعتماد انسانوں کے ذریعہ اس کی تائید ہو۔
حفاظت کے ان تین طریقوں کے ذریعہ جو سنت ہم تک پہنچی ہے اس کا بیشتر حصہ تواتر سے ثابت ہے،یہ قطعی اور یقینی ہے، بلکہ دین سے متعلق تمام ضروری، اصولی اور بنیادی چیزیں متواتر ہیں۔ خبر واحد کا تعلق صرف جزئیات اور فروعات سے ہے، اور وہ بھی ایسی ظنی نہیں ہے جس کی پیروی سے قرآن میں منع کیا گیا ہے بلکہ اس سے ظن غالب اور بسا اوقات یقین حاصل ہوتا ہے اور ظن غالب کو غیر معتبر مان کر انسان ایک دن بھی زندگی نہیں گذار سکتا ہے اور یہاں تک کہ خود کو صحیح النسب باور کرنا مشکل ہوجائے گا۔حاصل یہ ہے کہ قرآنی نظام کی تشکیل اور اس کی تشریح و تفہیم میں سنت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اس سے بے نیاز ہو کر نہ تو قرآن سمجھنا ممکن ہے اور نہ اس پر عمل پیرا ہونا، اور قرآن کے محفوظ ہونے کا لازمی تقاضا ہے کہ سنت بھی محفوظ رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے