بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(13)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
حرام اور مکروہ کھیل :
اللہ عزوجل نے کامیاب مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ۔
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔(سورہ المؤمنون آیت :3)
تفسیر:
لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا.
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
اور اپنے خاص بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا۔
اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے۔ اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔( سورہ الفرقان: 72)
اور باشعور دنیاداروں کے نزدیک بھی عقلمند اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو اپنے آپ کو فضول کاموں سے دور رکھتا ہے۔ اور دنیاوی اعتبار سے انھیں کے حصے میں کامیابی آتی ہے جو زندگی کے لمحات کی قدر کرتے ہیں اور قیمتی وقت کو بیکار اور فضول کھیل کود میں ضائع نہیں کرتے ہیں ۔
اسلام دین فطرت ہے ، جودنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتا ہو وہ بے مقصد اور فضول کھیل تماشا کو کیسے گورا کرسکتا ہے ؟چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَ اللَّهْوِ إِلَّا ثَلَاثٌ : تَأْدِيبُ الرَّجُلِ فَرَسَهُ، وَمُلَاعَبَتُهُ أَهْلَهُ، وَرَمْيُهُ بِقَوْسِهِ وَنَبْلِهِ.
لھو و لعب میں صرف تین چیزیں شامل نہیں ہیں ۔اپنے گھوڑے کو سدھانا ،اپنی گھر والی کے ساتھ دل لگی کرنا اور تیر چلانا۔(ابوداؤد: 2513)
علامہ خطابی مذکورہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ کھیل تماشا کی تمام قسمیں ممنوع ہیں سوائے اس کے جو اس حدیث میں ذکر کی گئی ہیں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ کھیلوں کی اجازت اس لیے دی کہ غور کرنے پر معلوم ہوگا ان میں سے ہر ایک یا تو حق کام کے لیے معاون ہے یا اس کا ذریعہ ہے اور اس کے مفہوم میں وہ تمام کھیل شامل ہیں جن سے کسرت اور ورزش ہوتی ہو اور جسم مضبوط اور دشمن سے مقابلے کی قوت حاصل ہوتی ہو جیسے کہ ہتھیاروں کا مقابلہ اور دوڑ لگانا اور اس جیسے دوسرے کھیل۔ رہے وہ کھیل جسے نکمے لوگ کھیلتے ہیں جیسے کہ چوسر اور شطرنج اور کبوتر بازی وہ سب ممنوع ہیں اس لیے کہ اس سے نہ تو کسی نیک کام میں مدد ملتی ہے اور نہ ہی کسی واجب کی ادائیگی کے لیے فرحت کا سامان حاصل ہوتا ہے۔(معالم السنن 242/2)
اور مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:
اوپر یہ بات تفصیل سے آچکی ہے کہ مذموم اور ممنوع وہ لہو اور کھیل ہے جس میں کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو، جو کھیل بدن کی ورزش صحت اور تندرستی باقی رکھنے کے لیے یا کسی دوسری دینی و دنیاوی ضرورت کے لیے یا کم از کم طبیعت کا تھکان دور کرنے کے لیے ہوں اور ان میں غلو نہ کیا جائے کہ انہی کو مشغلہ بنا لیا جائے اور ضروری کاموں میں ان سے حرج پڑنے لگے ایسے کھیل شرعا مباح اور دینی ضرورت کی نیت سے ہوں تو ثواب بھی ہے۔(معارف القرآن 23/7)
حاصل یہ ہے کہ ہر وہ کھیل ناجائز ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہو یا وہ جوا اور قمار پر مشتمل ہو یا اس سے کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ وابستہ نہ ہو ، نہ اس سے جسمانی ورزش ہوتی ہو اور نہ ذہنی نشوونما، نہ اس سے مقصود دماغی الجھن سے چھٹکارا پانا ہو اور نہ تفریح طبع اور نہ دل و دماغ کو راحت پہچانا۔محض وقت گذاری کا ایک ذریعہ ہو، جس میں وقت کے ضیاع و نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہ ہو ۔اور ایک طویل وقت تک کھیلا جائے ۔قلت انہماک ہر کھیل کے جواز کے لئے بنیادی شرط ہے ۔
1-کنکری مارنا :
انگلی پر کنکری رکھ کر پھینکنے کو عربی زبان میں "خذف” کہا جاتا ہے. یہ ایک بے کار مشغلہ ہے اس لئے حدیث میں شدت کے ساتھ اس سے منع کیا گیا ہے ۔حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی کہتے ہیں:
نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَذْفِ ، وَقَالَ : ” إِنَّهُ لَا يَقْتُلُ الصَّيْدَ وَلَا يَنْكَأُ الْعَدُوَّ، وَإِنَّهُ يَفْقَأُ الْعَيْنَ وَيَكْسِرُ السِّنَّ ".
نبی ﷺ نے کنکری پھینکنے سے منع کیا ہے اور فرمایا ہے : اس سے نہ تو کسی جانور کا شکار کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی دشمن کو گہری چوٹ پہونچائی جاسکتی ہے ۔البتہ کسی انسان کی آنکھ پھوٹ سکتی ہے اور دانت ٹوٹ سکتا ہے ۔ (صحیح بخاری: 6220. صحیح مسلم :1954)
قاضی عیاض کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس لیے منع کیا کہ یہ نہ تو آلات حرب و ضرب میں سے ہے کی اس کی مشاقی جائز ہو جیسے کہ تیر اندازی ہے اور نہ شکار کے آلات میں سے ہے کہ شکار میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے ۔لہذا یہ فضول اور لایعنی کھیل ہے، اسے کھیلنا جائز نہیں ہے۔ اور کبھی اس کا انجام غلط ہوسکتا ہے کہ اچانک کسی کی آنکھ میں لگ جائے اور وہ پھو
ٹ جائے (اکمال المعلم 393/6)