مشترکہ اور جداگانہ خاندانی نظام۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

    اسلام میں خاندانی نظام کو بڑی اہمیت دی گئی ہے ، ہر ایسی کوشش کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے جس کے ذریعہ اسے استحکام حاصل ہو اور ایسے طرزعمل کی مذمت اور حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو اس نظام میں خلل انداز ہو۔ خاندانی نظام، اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ ایک فطری گہوارہ ہے، جہاں شفقت و محبت بھی ملتی ہے اور باہمی تعاون ، ہمدردی اور پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے ، بغیر خاندان کے انسان ایک کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہوتاہے ، جس کی زندگی ہوا کے رحم و کرم پر ہوتی ہے ۔
اس نظام کو مستحکم اور پائدار رکھنے کے لیے ارکان خاندان میں سے ہر ایک کے حقوق و فرائض کو تفصیل سے بیان کیاگیاہے ، والدین ، اولاد، میاں ، بیوی، اعزاء و اقارب ہر ایک کے حدود اور حقوق متعین کردئے گئے ہیں تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور  ظلم و جورکو راہ نہ مل سکے، اس لیے کہ عدل و انصاف پر مبنی نظام خوشگوار بھی ہوتاہے اور دیرپابھی۔ اس لیے اہم چیز ان حقوق و فرائض کی حفاظت اور خاندانی نظام کا استحکام ہے اور مشترکہ اور جداگانہ نظام میں سے اس کے لیے جو زیادہ معاون ہو وہی بہترہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب و سنت میں ان میں سے کسی ایک طریقے کی پیروی کا نہ تو حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی بہتر کہا گیا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے عہد مبارک اور اس سے پہلے بھی دنیا کے دیگر قوموں کی طرح اہل عرب میں بھی دونوں طرح کا نظام رائج تھا۔

اہل بیت کا گھریلو نظام:

    رشتہ داروں کے حقو ق و فرائض کی رعایت اور حفاظت کرنے والا اللہ کے رسول ﷺ سے بڑھ کر کون ہوسکتاہے ، اس لیے آپ نے ازواج مطہرات کو الگ الگ گھروں میں رکھا ۔ ان کے کھانے، پینے کا نظام اور مالی معاملات کو بھی ایک دوسرے سے بالکل الگ اور جداگانہ رکھا، یہاں تک کہ اگرایک کے یہاں دوسرے کا کوئی سامان ضائع ہوجاتا تو اس کا تاوان اداکرتے، حضرت انس روایت کرتے ہیں:
ان النبی ﷺ کان عند بعض نسائہ فارسلت احدی امھات المومنین مع خادم بقصعۃ فیھا طعام فضربت بیدھا فکسرت القصعۃ فضمھا وجعل فیھا الطعام وقال کلوا وحبس الرسول والقصعۃ حتی فرغوا فدفع القصعۃ الصحیحۃ وحبس المکسورۃ
نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے کسی کے پاس تھے، دوسری بیوی نے خادم کے ساتھ پیالے میں کھانے کی کوئی چیز بھیجی، جس بیوی کے پاس موجود تھے انھیں یہ ناگوار گذرا، انھوں نے پیالہ پر ہاتھ مارا اور وہ گرکر ٹوٹ گیا، اللہ کے رسول ﷺ نے ٹوٹے ہوئے حصہ کو ملاکر اس میں کھانے کو رکھ دیا اور گھر میں موجود لوگوں سے کہاکہ کھاؤ اور خادم کو روکے رکھا ، جب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو آپ نے دوسرا اچھا پیالہ اس خادم کو دے کر بھیج دیا اور ٹوٹا ہوا رکھ لیا۔۔(صحیح بخاری/493)
ازواج مطہرات کے کھانے کے نظام کو مشترک رکھنے کی صورت میں قدرے بچت ہوسکتی تھی، اس لیے کہ دس لوگوں کا کھانا الگ الگ پکانے میں خرچہ زیادہ آئے گا اور
ایک جگہ پکانے میں اس کے بالمقابل کم صرفہ آئے گا۔لیکن اس صورت میں سوکنوں کی فطری چپقلش سے نہیں بچا جاسکتا ہے، جس کا مشاہدہ مذکورہ واقعہ میں بھی کیاجاسکتاہے، اس لیے حقوق کی ادائیگی اور تلخیوں سے بچنے کے لیے رہائش اور خورد و نوش کے نظام کو الگ رکھناہی بہترتھا۔ اسی پس منظر میں جب حضرت فاطمہؓ کا نکاح حضرت علی سے ہوا تو آپؐ نے ان کے لیے بھی علاحدہ گھرکا انتظام کیا، وہ آپ کے چچرے بھائی تھے، آپ انھیں اولاد کی طرح عزیز رکھتے تھے اور اپنی چہیتی بیٹی سے ان کا رشتہ کیا، لیکن ایک کمرے پر مشتمل گھر میں ان کو ساتھ رکھنے پر ان کی انفرادیت اور پرائیویسی متاثرہوسکتی تھی۔

صحابہ کرام کا نظام زندگی:

    صحابہ کرام کے معاشرے کو دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ عام طور پر جداگانہ رہائش کے نظام پر عمل پیرا تھے، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:
لیس علی الاعمی حرج ولا علی الاعرج حرج ولا علی المریض حرج ولا علی انفسکم ان تاکلوا من بیوتکم أو بیوت آباءکم أو بیوت امھاتکم أو بیوت اخوانکم أو بیوت اخواتکم أو بیوت اعمامکم أو بیوت عمٰتکم أو بیوت أخوالکم أو بیوت خلتکم أو ما ملکتم مفاتحہ أو صدیقکم ، لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا أو اشتاتا۔
نابینا، لنگڑا، بیمار اور خود تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ کھانا کھاؤ اپنے گھر، اپنے باپ کے گھر، یا اپنی ماں کے گھر یا اپنے بھائی کے گھریا اپنی بہن کے گھر یا اپنے چچا کے گھر یا اپنی پھوپھی کے گھر یا اپنے ماموں کے گھر یا اپنی خالہ کے گھر یا ایسے لوگوں کے یہاں جن کی کنجیوں کے تم مالک ہو یا دوست کے گھر اور تم پر اس میں بھی کوئی حرج اور تنگی نہیں ہے کہ تم کھانا کھاؤ ایک ساتھ یا الگ الگ ہوکر۔(النور:61)
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت باپ ، بھائی وغیرہ کے گھر الگ الگ ہوتے تھے، نیز ان کا خورد و نوش بھی علاحدہ ہوتاتھا۔
حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ عام طور پر لوگ اس دور میں شادیوں کے بعد الگ گھر بسالیتے تھے، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر کہتے ہیں کہ ایک موقع پر نبی ﷺ نے فرمایاکہ جس کے گھر دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ ایک مہمان لیتا جائے، حضرت ابوبکرؓ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے کر آئے، عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اس وقت ہمارے یہاں کل پانچ افراد تھے؛میرے والدین، میں اور میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور میرے والد کے گھر کے درمیان مشترک تھا یعنی ایک خادم دونوں گھروں میں کام کرتا تھا۔ (فھو انا و ابی و امی و لا أدری ھل قال امرء تی وخادمی بین بیتنا و بیت ابی بکر۔دیکھئے صحیح بخاری مع فتح الباری 2614/2، کتاب المناقب باب علامۃ النبوۃ ، بیت الافکار الدولیۃ)
اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ حضرت ابوبکر اور ان کے لڑکے عبدالرحمن الگ الگ گھروں میں رہائش پذیر تھے اور اس کی بھی صراحت ہے کہ الگ رہنے کے باوجود وہ اپنے والد کی خدمت سے کنارہ کش نہیں ہوئے، وہ اس بات کے پابندتھے کہ والدین کی گھریلو ضروریات اور خدمات کا لحاظ رکھیں اور اس میں کوتاہی پر وہ اپنے والد کی ناراضگی بھی برداشت کرتے۔
بعض صحابہ کرام مشترکہ رہائش اختیار کیے ہوتے تھے ، ان کے حالات کا یہی تقاضا تھا اور اسی شکل میں حقوق کی ادائیگی اور زیرکفالت افراد کی دیکھ ریکھ ہوسکتی تھی، حضرت جابربن عبداللہ کہتے ہیں:
میرے والد شہید کردئے گئے اور اپنے پیچھے سات یا نو لڑکیاں چھوڑ گئے ،میں نے ایک شوہردیدہ عورت سے شادی کرلی، اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے پوچھا: جابر!تمہاری شادی ہوگئی؟ میں نے کہا :ہاں، فرمایا: کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟۔ میں نے کہا :شوہر دیدہ سے. آپ نے فرمایا کسی دوشیزہ سے شادی کیوں نہیں کی؟ تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی۔ میں نے کہا میرے والد عبداللہ کا انتقال ہوگیا اور وہ بیٹیاں چھوڑ کر گئے، مجھے یہ اچھا نہیں لگاکہ انہی جیسی کوئی لڑکی لے کر آؤں ، اس لیے میں نے ایسی عورت سے شادی کی جو ان کی دیکھ بھال کرے اور ان کے معاملات کو ٹھیک رکھے۔ نبی ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تمہیں برکت عطافرمائے۔(صحیح بخاری 1164)
اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت جابر کے اس طرز عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی تعریف فرمائی، خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے اپنی نعمت قرار دیاہے کہ کسی کے لڑکے اس کے ساتھ اور اس کے پاس رہیں:
ذرنی و من خلقت وحیدا وجعلت لہ ما لا ممدودا وبنین شھودا ومھدت لہ تمھیدا.
چھوڑدو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیداکیا اور بہت سا مال اس کو دیا اور اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دئے اور اس کے لیے سرداری کی راہ ہموار کی۔(سورۃ المدثر:14)
مفتی محمد شفیع صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ولیدبن مغیرہ پر اللہ تعالیٰ نے جودنیا میں انعامات مبذول فرمائے تھے، ان میں
ایک یہ بھی فرمایاکہ ’’بنین شھودا‘‘ یعنی اولاد حاضر و موجود، اس سے معلوم ہواکہ جیسے اولاد کا پیدا ہونا اور اس کا باقی رہنا اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں، اسی طرح اولاد کا اپنے پاس حاضر و موجود ہونا بھی ایک بڑا انعام ہے جو والدین کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلب کے سکون کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، ان کی حاضری سے اپنی خدمت اور کاروبار میں امداد کا فائدہ مزید براں ہے۔(معارف القرآن 614/8، مولانا مفتی محمدشفیع ط بیت الحکمت دیوبند1983ء)

مشترکہ نظام قابل اصلاح:

    اس سے کسی کو انکار نہیں کہ مشترکہ نظام میں بعض خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں جن کی اصلاح کی شدید ضرورت ہے ، ان بے ضابطگیوں کے ساتھ یہ نظام فائدہ مند اور نتیجہ خیز ہونے کے بجائے ضرر رساں اور تکلیف دہ ثابت ہورہاہے اور اس گھٹن زدہ ماحول میں ایک ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہورہاہے، رشتوں کے احترام اور پاس و لحاظ رکھنے کی جگہ دشمنیاں جنم لے رہی ہیں، نزدیکیاں دوریوں میں تبدیل ہورہی ہیں، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے کی جگہ خوش ہونے کا مزاج بن رہاہے، شب و روز کے توتو ،میں میں نے گھر کے سکون کو درہم برہم کردیاہے۔

معاملات کی خرابیاں:

    معاملات کی صفائی اور اسے ہر طرح کی لڑائی، جھگڑے سے پاک رکھنے، خاص طور سے مالی معاملات میں شفافیت کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادہے:
یاایھا الذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ولا تقتلوا انفسکم ان اللہ کان بکم رحیما ومن یفعل ذلک عدواناوظلما فسوف نصلیہ نارا وکان ذلک علی اللہ یسیرا ۔
ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے پر مت کھاؤ، سوائے اس کے کہ باہمی رضامندی اور خوش دلی سے تجارت کے ذریعہ کسی کا مال لیا گیا ہو اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، بلاشبہ اللہ تم پر بہت مہربان ہے اور جو کوئی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے ایسا کرے گا اسے ہم جلدہی جہنم میں داخل کردیں گے اور یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔(النساء:29-30)
اور اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
لایدخل الجنۃ جسد غذی بحرام(رواہ ابویعلی والبزار والطبرانی وحسنہ المنذری بعض اسانیدہ ، وقال الالبانی صحیح لغیرہ، الترغیب والترھیب للمنذری 714/2، ط مکتبۃ المعارف ریاض)
جس جسم کی پرورش حرام غذا سے ہوئی ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
الا لا یحل مال امرء الا بطیب نفسہ(مشکوٰۃ المصابیح 255 کتاب البیوع باب الغصب والعاریۃ)
سن لو! کسی دوسرے کا مال اس کی خوشدلی کے بغیر حلال نہیں ہے۔
وہ مال حلال اور پاکیزہ ہے جو اپنی کمائی یا وراثت کے ذریعہ حاصل ہو یا باہمی رضامندی سے تجارت یا خوشی کے ساتھ تحفہ کے ذریعہ ملا ہو یا اس کے علاوہ کسی جائز ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو، کسی کی رضامندی اور خوش دلی کے بغیر اس کے مال کو لے لینا یا حرام ذریعہ سے مال کمانا باطل اور روحانی خودکشی کے مترادف ہے۔ علامہ ابن کثیر مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ولاتقتلوا انفسکم ای بارتکاب محارم اللہ و تعاطی معاصیہ واکل اموالکم بینکم بالباطل(تفسیر ابن کثیر 587/1، اسماعیل بن کثیر الدمشقی ط دار عالم الکتب الریاض 1997ء)
اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو کا مطلب یہ ہے کہ حرام اور معصیت کا ارتکاب کرکے نیز آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے پر کھاکر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔
مشترک نظام میں مالیاتی پہلو سے بے ضابطگی ایک امر واقعہ ہے، اس نظام میں لڑائی،جھگڑا، دشمنی اور نفرت ، الزام تراشی اور تہمت کی بنیادی وجہ مالی معاملات اور حساب‌ و کتاب میں عدم شفافیت ہے، اس لیے مالی معاملہ اور خورد و نوش مشترک ہونے کی صورت میں ہرچیز معلوم اور متعین ہوناچاہیے۔ کوئی چیز راز اور سربستہ نہ ہو ، ہر ایک کی ملکیت الگ یا متعین ہوناچاہیے اور اشتراک کے لیے کسی پر کسی قسم کا جبر و دباؤ کا دخل نہ ہو بلکہ خوش دلی اور باہمی رضامندی سے ایک معاہدہ کرلیاجائے ۔ زور زبردستی اور معاشرتی جبر و دباؤ کے ذریعہ کسی کو اس نظام کے ساتھ باندھ کر رکھنا صحیح نہیں ہے۔

فضول خرچی اور لاپرواہی:

    مالی مشترک ہونے کی صورت میں ہرشخص اسے پرایا مال سمجھ کر نہایت بے احتیاطی کے ساتھ استعمال کرتاہے، اسی طرح سے کھانے پینے کی چیزوں میں فضول خرچی ایک عام بات ہے۔ علاوہ ازیں خود کمانے اور کھانے کی جگہ دوسروں پر انحصار کا مزاج بنتا ہے۔ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا جذبہ پروان چڑھتا ہے، ناکارہ اور نکمے افراد کی تعداد بڑھتی ہے ، جس کی وجہ سے خاندان کے کماؤ افراد کے بوجھ میں اضافہ ہوتاہے اور معاشی اور اقتصادی ترقی گھٹتی ہے، اس لیے ضرورت ہے کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی جائے، اپنے ہاتھ کی کمائی کھانے کا مزاج بنایاجائے، شدید مجبوری کے بغیر دوسروں سے مالی مدد نہ لی جائے، نیز میانہ روی کی حوصلہ افزائی اور فضول خرچی کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

نامحرم کے ساتھ خلوت:

    پردہ کی مشروعیت کا بنیادی مقصد ہے عصمت و عفت کی حفاظت اور جنسی تعلقات کی پوشیدگی، اسی مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات محرم مردوں کو بھی گھر میں داخل ہوتے وقت اجازت لینے کا حکم دیاگیاہے (النور:58)اور ایسے لوگوں کی تعداد کو کم سے کم رکھا گیا ہے جن کے سامنے عورت کو بے حجاب آنے کی اجازت ہے (النور:31)اور وہ ایسے لوگ ہیں جن سے عورت کے لیے رشتہ نکاح قائم کرنا ہمیشہ کے لیے حرام ہے یا انھیں جنسی تعلقات سے آگاہی یا کوئی مطلب نہیں ہے ، نامحرم کے سامنے عورت کا بے حجاب آنا، اس کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے۔
ہمارے معاشرے میں دیور، بھابھی کا آپس میں بے ہودہ مذاق اور تنہائی میں یکسوئی ایک عام بات ہے ، خاص کر مشترک خاندان میں اس کے مواقع زیادہ ملتے ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے، حالانکہ غیر کی نسبت ان اپنوں سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
ایاکم والدخول علی النساء فقال رجل من الانصار یا رسول اللہ افرأیت الحمو قال الحموالموت
عورتوں کے پاس جانے سے بچو، ایک انصاری نے دریافت کیا : کیا شوہر کی طرف غیر محرم رشتہ داروں بھائی،بھتیجا،چچا، چچازاد بھائی وغیرہ کا کیا حکم ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ان لوگوں سے تو موت کی طرح بھاگنے کی ضرورت ہے۔۔(صحیح بخاری :1135، صحیح مسلم :136 )
علامہ نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ان الخوف منہ اکثرمن غیرہ والشر یتوقع منہ والفتنۃ اکثر متمکنۃ من الوصول الی المرءۃ والخلوۃ من غیر ان ینکر علیہ بخلاف الاجنبی۔
دوسروں کے بالمقابل شوہر کے رشتہ داروں سے اندیشہ زیادہ ہوتاہے، ان سے برائی کے امکانات اور فتنہ میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ زیادہ ہوتاہے، اس لیے کہ انھیں عورت تک رسائی اور تنہائی میں یکجائی میں کوئی رکاوٹ نہیںہوتی ہے اور اسے غلط اور برا بھی نہیں سمجھاجاتا، اس کے برخلاف دوسرے لوگوں کو ایسی چھوٹ حاصل نہیں ہوتی ہے ۔(المنھاج فی شرح صحیح مسلم بن حجاج 1360)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
لاتلجوا علی المغیبات فان الشیطان یجری من احدکم مجری الدم۔
جن عورتوں کے شوہر گھر میں موجود نہ ہو ں ان کے یہاں مت جاؤ کیونکہ شیطان تمہارے اندر خون کی طرح رواں ہوتاہے۔(الجامع للترمذی مع التحفۃ، 1188/1)
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلہ میں لاپروائی اور بے حسی کو دور کیاجائے اور اس مسئلہ میں لوگوں کو حساس بنایا جائے تاکہ ایک صالح اور برائیوں اور بے حیائیوں سے پاک معاشرہ وجودمیں آئے۔

پردہ پوشی اور سامان کی حفاظت:

    مشترکہ نظام میں انسان کی رازداری اور پرائیویسی بھی متاثر ہوتی ہے اور بے تکلف اور خوشگوار ازدواجی زندگی گذارنا بھی دشوارتر ہوتاہے، علاوہ ازیں شوہر کے گھر کے افراد ، عورت کے سازوسامان کو مال مفت سمجھ کر دل بے رحم کا سا سلوک کرتے ہیں، اس لیے شوہر کی ذمہ داری ہے وہ عورت کو ایک الگ کمرہ مہیا کرے جس میں وہ اس کے ساتھ بے تکلف جنسی تعلقات قائم کرسکے نیز اس کے سامان کی حفاظت ہوسکے۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
وعلی الزوج ان یسکنھا فی دار مفردۃ لیس فیھا أحدمن أھلہ الا ان تختار ذلک…واذا وجب حقا لھا لیس لہ ان یشرک غیرھا فیہ لأنھا تتضرربہ فانھا لا تامن علی متاعھا ویمنعھا عن المعاشرۃ مع زوجھا ومن الاستمتاع۔
شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کو الگ گھر میں رکھے، جس میں اس کے گھر کے لوگوں میں سے کوئی نہ ہو، مگریہ کہ خود عورت ان کو رکھنا چاہے۔…اور یہ جب عورت کے حق کے طور پر واجب ہے تو شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس میں دوسروں کو شریک کرے۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے عورت کو پریشانی ہوگی۔ اس کا سامان محفوظ نہیں رہے گااور نہ ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ بے تکلف رہ سکتی ہے اور نہ اس سے لطف اندوز ہوسکتی ہے۔(الھدایۃ441/2)
اور علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
ویجب لھا مسکن بدلیل قولہ تعالیٰ اسکنوھن من حیث سکنتم من وجدکم فاذا وجبت السکنی للمطلقۃ فللتی فی صلب النکاح  اولیٰ، قال تعالیٰ وعاشروھن بالمعروف ومن المعروف ان یسکنھا فی مسکن، ولأنھا لا تستغنی من المسکن للاستتار عن العیون وفی التصرف والاستمتاع وحفظ المتاع۔
عورت کے لیے گھر ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: اپنی وسعت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان کو بھی رکھو اور جب طلاق یافتہ عورت کے لیے گھر ضروری ہے تو جو عورت نکاح میں ہے اس کے لیے بدرجہ اولیٰ گھر واجب ہے ، اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ عورتوں کے ساتھ ’’معروف‘‘ کے مطابق رہا کرو اور ’’معروف‘‘ کا تقاضا ہے کہ عورت کو ایک گھر مہیا کرے اور اس لیے بھی کہ لوگوں کی نگاہوں سے بچنے اور شوہر کے ساتھ رہنے اور سامان کی حفاظت کے لیے ایک عورت گھر سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ہے۔(المغنی 355/11)
غرضیکہ عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی کو جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی اور مواقع حاصل ہوں، دن و رات کے جس حصے میں وہ چاہیں اپنی ضرورت پوری کرلیں، خصوصاً نوجوان جوڑے کے لیے ان کے سرپرستوں کی طرف سے اس سلسلہ میں پابندی مناسب نہیں ہے بلکہ اس کے لیے انھیں آسانی اور مواقع میسر ہونے چاہیے، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
اذا دعا الرجل زوجتہ لحاجتہ فلتاتہ وان کانت علی التنور(الجامع للترمذی مع التحفہ 1182، وقال الترمذی حسن غریب وصححہ الالبانی)
جب کوئی اپنی عورت کو ضرورت پوری کرنے کے لیے بلائے تو وہ فوراًآجائے، گرچہ تنورمیں روٹی جل جائے۔
حضرت جابربن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے کسی عورت کو دیکھا، آپ اپنی بیوی حضرت زینب کے پاس آئے، اس وقت وہ چمڑے کو دباغت دینے میں مصروف تھیں، آپ نے ان سے اپنی ضرورت پوری کی پھر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہاعورت شیطان کی صورت میں آتی جاتی ہے ، اس لیے اگر تم میں سے کسی کی نظر دوسری عورت پر پڑجائے تو وہ اپنی بیوی سے اپنی ضرورت پوری کرے کہ یہ اس کی پریشان خیالی کو ختم کردے گی۔(صحیح مسلم مع المنھاج 870 کتاب النکاح ،  بیت الافکارالدولیۃ)
اور علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
ولأنہ یحتاج الی جماعھا ومعاشرتھا فی ای وقت یتفق ولا یمکن ذلک مع ثالث(ردالمحتار 321/5، محمدامین الشھیر بابن عابدین ، مکتبہ زکریادیوبند)
اور اس لیے بھی کہ شوہر کو کسی بھی وقت عورت کے ساتھ رہنے اور ہم بستری کرنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور یہ کسی تیسرے کی موجودگی میں ممکن نہیں ہے ۔
لیکن اس مقصدکے لیے علاحدہ گھر ضروری نہیں ہے ، ایک کمرے سے بھی   یہ ضرورت پوری ہوسکتی ہے(الھدایۃ 441/2)یہ شوہر کے حالات پر منحصر ہے، اگر کسی کے پاس  وسعت ہوتو وہ اس انداز سے گھر بنائے کہ اس میں ایک ،دو کمروں پر مشتمل مختلف یونٹ ہو، ہریونٹ ایک مستقل گھر کی حیثیت رکھتی ہو ، اس طور پر کہ ساتھ میں کچن اور ٹوائلٹ وغیرہ بھی ہو، بیوی شوہر کے لیے ایک یونٹ اور بالغ اولاد ،والدین اور زیر کفالت دیگر رشتہ داروں کے لیے دوسری یونٹ، اس طرح سے والدین کی دیکھ ریکھ بھی ہوسکے گی اور دیگر رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی بھی اور آج یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

جداگانہ نظام کی خرابیاں:

    یہ صحیح ہے کہ جداگانہ رہائش کے ذریعہ بہت سی معاشرتی خرابیوں سے بچا جاسکتا ہے لیکن اس کا تاریک ترین پہلو یہ ہے کہ والدین اور دیگر زیرکفالت افراد کے حقوق کی ادائیگی اور ان سے متعلق ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیارکیا جاتا ہے ، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے ، وہ بالکل تنہا اور بے سہارا ہوجاتے ہیں، ان کے حقوق و فرائض کتابوں کی زینت بن کر رہ جاتے ہیں، کسی بھی اولڈہاؤس میں جاکر ان کی مظلومانہ زندگی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور بوڑھوں کے لیے مستقل ہاسٹل کی تعمیر، جداگانہ رہائش ہی کا نتیجہ ہے ، جس کا چرچا کبھی مغربی ملکوں میں تھا لیکن اب مشرق میں بھی اس کی شروعات ہوچکی ہے۔
جداگانہ رہائش میں کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک شخص اللہ کے خوف یا معاشرے کے ڈر سے والدین یا طلاق یافتہ بہنوں اور یتیم بھتیجوں کو اپنے ساتھ رکھ لیتا ہے، لیکن اس کے دوسرے بھائی اپنی بیوی اور بچوں میں مشغول ہوکر ان کو یکسر فراموش کردیتے ہیں، والدین اپنے دوسرے بچوں کی شکل دیکھنے کے لیے ترس جاتے ہیں۔
اور کبھی والدین کی جاگیر لگادی جاتی ہے کہ وہ چند دن یا مہینے ایک کے ساتھ رہیں اور اس کے بعد دوسرے اور تیسرے کے یہاں گذارہ کریں، یہ کیفیت والدین کے لیے خصوصاًحساس طبیعت والوں کے لیے کس درجہ تکلیف دہ ہے الفاظ اس کے بیان سے عاجز ہیں۔
والدین کے حقوق و فرائض میں کوتاہی، ان سے متعلق ذمہ داریوں سے فرار، بیوہ ، مطلقہ اور یتیموں کی حق تلفی ایسی خرابی ہے جو مشترکہ نظام کی تمام خرابیوں پر بھاری ہے اس لیے جداگانہ رہائش کی حوصلہ افزائی کی جگہ حقوق و فرائض کی اہمیت بیان کی جائے اور ان کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جائے، جن کے متعلق کتاب و سنت میں واضح اور صاف لفظوں میں تاکیدی حکم دیاگیاہے، نیز معاملات کی صفائی، پردہ کی رعایت، اجنبی کے ساتھ یکجائی سے متعلق اسلامی احکامات کو رواج دیاجائے کہ اس کی روشنی میں جوزندگی گذاری جائیگی وہ بڑی خوشگوار اور نہایت پائیدار ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ہر ایک سے متعلق ذمہ داریوں اور اصول و ضوابط کو صراحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اور مشترکہ اور جداگانہ رہائش کے تعلق سے خاموشی اختیار کی گئی ہے کہ ان میں سے حالات کی روشنی میں جس کے ذریعہ حقوق بہترطریقے سے ادا ہوں اسے اختیار کیاجاسکتا ہے اور ان میں سے کوئی بذات خود نہ تو باعث فضیلت ہے اور نہ قابل نفرت۔

بہو کی ذمہ داری:

    امورخانہ داری اور اس سے متعلق چیزیں عورت کی ذمہ داری میں شامل ہیں یا نہیں؟ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ، سلف و خلف میں سے ایک جماعت کی رائے ہے کہ گھر سے متعلق امور کی انجام دہی عورت پر واجب ہے ، امام ابوثور کہتے ہیں کہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر چیز میں اپنے شوہر کی خدمت کرے ۔(علیھا ان تخدم زوجھا فی کل شیء .زادالمعاد187/5، ابوعبداللہ محمدبن ابی بکر ، الشھیر بابن القیم الجوزیۃ 751ھ ، موسسۃ الرسالۃ بیروت) امام مالک سے منقول ہے کہ شوہر کے تنگ دست ہونے کی صورت میں امور خانہ کی انجام دہی بیوی پر واجب ہے، گرچہ اس کا تعلق کسی مالدار اور شریف گھرانے سے ہو(فتح الباری 3845/3، بیت الافکار الدولیۃ) حنفیہ میں سے علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ اخلاقی طور پر یہ چیزیں عورت پر واجب ہیں، قانونی طور پر نہیں(فتح القدیر201/4) امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے فقہاء کی رائے ہے کہ یہ چیزیں عورت پر واجب نہیں ہیں، علامہ ابن قیم نے دونوں طرح کی رایوں سے متعلق دلائل کا تفصیلی تذکرہ کیاہے، جس کا حاصل یہ ہے:
واجب نہ کہنے والوں کی دلیل یہ ہے کہ عقد نکاح کا تقاضا صرف یہ ہے کہ مرد عورت سے جنسی فائدہ حاصل کرے، اس سے خدمت لینا تقاضائے عقد کے برخلاف ہے اور صحابیات کا امور خانہ داری کو انجام دینا ان کی طرف سے رضاکارانہ تعاون ہے، اس لیے اس طرح کے واقعات کو وجوب کے لیے دلیل بنانا صحیح نہیں ہے ۔
جولوگ اسے واجب کہتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں یہ ہیں:
1-جس ماحول اور معاشرہ میں قرآن نازل ہوا وہاں کے عرف اور رواج کے مطابق گھریلو کام عورت ہی سے متعلق تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
ولھن مثل الذی علیھن بالمروف۔
اور عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔(سورۃ البقرۃ:228)
شوہر، بیوی کی خدمت کرے ، جھاڑو لگائے، آٹا گوندھے، روٹی پکائے، کپڑا دھلے اور اس کے علاوہ دوسرے گھریلو کام کرے، یہ چیزیں اس معاشرہ میں ’’معروف‘‘ کے بجائے منکر کے زمرے میں شامل تھیں۔
2-ایک دوسری آیت میں ہے:
الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض وبما انفقوا من اموالھم۔
مرد عورتوں پر حاکم ہیں ، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے ان پر اپنا مال خرچ کیا ہے ۔(سورۃ النساء:34)
اگرعورت کی جگہ گھر یلوکام مرد انجام دینے لگے تو ایسی صورت میں عورت کی حکومت ہوگی نہ کہ مرد کی ۔
3-حدیث میں ہے :
اتقوا اللہ فی النساء فانھن عوان عندکم۔
عورتوں کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔
اس روایت میں عورت کو ’’قیدی‘‘ کہا گیا ہے اور قیدی و غلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مالک کی خدمت کرے اور اس کے حکم کو بجالائے۔
4-حضرت اسماء بنت ابی بکر کے متعلق صحیح روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے شوہر حضرت زبیر کے گھر کا تمام کام انجام دیاکرتی تھیں اور گھریلو کام سے فارغ ہوکر ان کے گھوڑے کی دیکھ بھال کرتیں، پانی ڈھوکر لاتیں اور گھر سے کافی فاصلہ پر جاکر گھوڑے اور اونٹ کے لیے چارے کا نظم کرتیں۔
5-حضرت فاطمہ کے گھریلو کام کرنے اور پانی لانے کا واقعہ بہت مشہور ہے ، یہاں تک کہ جب کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا تو رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک غلام کے لیے حاضر ہوئیں اور اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے انھیں غلام کی جگہ سو مرتبہ سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر پڑھنے کی ترغیب دی۔
اس موقع پر حضرت علی سے یہ نہیں فرمایاکہ یہ تمہاری ذمہ داری ہے ، فاطمہ کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، تم اگر خود انجام نہیں دے سکتے ہو تو اس کے لیے کوئی بندوبست کرو۔ اسی طرح سے حضرت اسماء کے سرپہ چارے اور گھاس کا ٹوکرا دیکھ کر آپ نے حضرت زبیر سے یہ نہیں کہاکہ یہ ان پر ظلم ہے ، یہ تمہارا کام ہے ، تم اسے انجام دو، یا اس کا کوئی انتظام کرو۔
6-دیگر صحابہ کرام کی بیویاں بھی ان کی خدمت اور گھریلو کام انجام دیا کرتی تھیں لیکن آپﷺ نے کبھی اسے ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا بلکہ اس عرف و رواج کو باقی رکھا حالانکہ یہ معلوم و مشہور ہے کہ تمام عورتیں خوش دلی سے یہ کام انجام نہیں دیتی تھیں بلکہ ان میں کچھ یقینی طور پر ایسی ہوں گی جنھیں یہ سب کچھ کرنا گوارا نہیں ہوگا۔
7-اللہ تعالیٰ نے عورت کا خرچہ، کپڑا، رہائش، مرد پر واجب قرار دیاہے، یہ چیزیں مرد کے ذمہ کیوں ہیں؟ کیا صرف اس لیے کہ مرد اس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کرتاہے، لیکن اس میں تو عورت بھی مرد کے ساتھ شریک ہے ، وہ بھی اپنی خواہش اس کے ذریعہ پوری کرتی ہے ۔ دونوں ہر ایک سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مرد پر یہ ذمہ داری اس لیے ڈالی گئی ہے کہ عورت پر گھر کی ذمہ داری عائد کی گئی ہے ۔(زادالمعاد187/5-188)
اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ شوہر کی خدمت ،عورت پر ضروری ہے یانہیں؟ جیسے گھر کی صفائی ستھرائی ، کھانے پینے کا نظم، اس کے غلاموں کے کھانے کا انتظام اور اس کے جانوروں کے لیے چارہ مہیا کرنا وغیرہ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واجب نہیں ہے،  یہ ایک کمزور نقطہ نظر ہے جیسے کہ ان لوگوں کا قول ضعیف ہے جو کہتے ہیں کہ شوہر پر عورت کے ساتھ رہنا اور صحبت کرنا واجب نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ ’’معروف معاشرت‘‘ کے برخلاف ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں عورت پر واجب ہیں اور یہی صحیح ہے(فتاویٰ ابن تیمیہ 234/2)
خلاصہ یہ ہے کہ عورت پر اپنے شوہر ور اس کے ماں باپ سے متعلق خانگی ذمہ داریاں واجب ہیں۔ خاص کر اس وقت جب بیٹیاں سسرال چلی جائیں اور ساس کو اپنی ضروریات کے لیے تعاون کی ضرورت ہو اور تعاون ایسا ہو کہ بیٹا خود اسے انجام نہ دے سکتا ہو، حضرت جابرؓ کا واقعہ گذرچکا ہے کہ انھوں نے صرف اپنی بہنوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے لیے ایک شوہردیدہ عورت سے نکاح کیا اور اللہ کے رسول ﷺ نے اس پر
خوشی کا اظہار فرمایا۔ آپ ؐ نے یہ نہیں کہاکہ تمہاری بیوی پر تمہاری بہنوں کی دیکھ بھال کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، اس سے بہتر تھا کہ کسی کنواری عورت سے نکاح کرلیتے ور ان کے لیے کسی تجربہ کار باندی کو لے آتے اور اس دورمیں غلام، باندی کا نظم کرنا مشکل بھی نہیں تھا۔
دوسرے یہ کہ حدیث میں کہاگیاہے کہ عورت پر شوہر کی اطاعت فرض ہے ، اس لیے اگر شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت کا پابند بناتا ہے تو ایسی صورت میں عورت کے لیے اس کی اطاعت ضروری ہے، فقہ حنفی کی مشہور کتاب رد المحتار میں ہے:
وحقہ علیھا ان تطیعہ فی کل مباح یامرھا بہ ’الدرالمختار‘ ظاھرہ انہ عند الامر بہ منہ یکون واجبا علیھا کامر السلطان الرعیۃ بہ(رد المحتار 388/4، مکتبہ زکریادیوبند)
شوہر کا حق ، عورت پر یہ ہے کہ وہ ہر جائز کام میں اطاعت کرے جس کا شوہر اسے حکم دیتاہے(درمختار) اس عبار ت سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ شوہر کے حکم دینے کے وقت عورت پر اس کی اطاعت واجب ہوگی جیسے کہ بادشاہ کی اطاعت رعایا پر واجب ہے جب وہ کسی جائز کا حکم دے۔

شائع شدہ: سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ ۔جنوری 2012ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے