*خود سپردگی اور جانثاری کی ایک انوکھی تاریخ*

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو ۔

اسلام در حقیقت خود سپردگی اور قربانی کا نام ہے اللہ تعالی کی اطاعت و رضا میں اپنی مرضی و خواہش کو قربان کر دینا ہی اسلام ہے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسی سے عبارت ہے چنانچہ قرآن حکیم میں ہے:

اذ قال له رب اسلم قال اسلمت لرب العالمين (سورة البقرة: ١٣١)

جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ سر تسلیم خم کر دو تو فوراً بولے میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا

اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

یہاں سر تسلیم خم کرنے کے لئے قرآن نے اسلام کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابعِ فرمان ہو جانے کے ہیں ہمارے دین کا نام اسلام اسی لیے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ ہی کا تابع دار بنے (آسان ترجمہ)

حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے ہیں اور اسی کے ساتھ یہ دعا بھی مانگ رہے ہیں

ربنا واجعلنا مسلمين لك ومن ذريتنا امة مسلمة لك وارنا مناسكنا وتب علينا انك انت التواب الرحيم (سورة البقرة:١٢٨)

اے ہمارے پروردگار! ہم دونوں کو اپنا مکمل فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری تابع دار ہو اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ قبول فرما لے بے شک تو اور صرف تو ہی معاف کردینے کا خوگر اور بڑی رحمت کا مالک ہے۔

پوری زندگی ہی کوشش کرتے رہے کہ اللہ کا کوئی حکم ٹوٹنے اور چھوٹنے نہ پائے اور اس کی انجام دہی میں کوئی تاخیر اور کوتاہی نہ ہو اللہ تعالی کی رضا جوئی کی خاطر ماں باپ سے رشتہ توڑا خاندان اور رشتہ ناتا  چھوڑا ۔گھر سے بے گھر ہوئے زندگی کے آخری مرحلے میں اولاد کی نعمت سے نوازے گئے مگر حکم ہوا کہ ماں اور بچے کو ایک ایسی جگہ چھوڑ آؤ جہاں نہ پانی ہے اور نہ سبزہ اور نہ جینے کے لیے کوئی دوسرا سہارا اور یہاں تک کہ جب وہ بچہ چلنے پھرنے کے لائق ہو گیا تو خواب کے ذریعے حکم ہوا کہ اسے ذبح کر دو اور وہ بے چون وچرا ذبح کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے اور اس کے بارے میں معصوم بیٹے سے پوچھا تو اس نے برجستہ عرض کیا:

يا أبت أفعل ما تؤمر ستجدني ان شاء الله من الصابرين (سورة الصافات ١٠٢)

ابا جان! آپ وہی کیجئے جس کا حکم دیا جا رہا ہے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔

اس کے آگے کے منظر کو قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ (١٠٣) وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ (١٠٤) قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (١٠٥) إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ (١٠٦) وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ(١٠٧) (سورة الصافات)

چنانچہ جب دونوں نے ہمارے حکم کے آگے سر جھکا دیا اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل گرا دیا تو ہم نے انہیں آواز دی: اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا یقیناً ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں یقیناً یہ ایک کھلا ہوا امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم ذبیحہ کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا.

اور اللہ عزوجل کو یہ جذبہ اطاعت اس درجہ پسند آیا کہ حکم ہوا کہ لوگ ہر سال اس کی یاد میں جانور کی قربانی کیا کریں

وتركنا عليه في الاخرين (سورةالصافات:١٠٨)

اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان میں یہ روایت قائم کی۔

اور زندگی کے آخری مرحلے میں انہوں نے اپنی اولاد کو جو وصیت کی ہے اس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (سورة البقره:١٣٢)

اور اسی بات کی ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور یعقوب نے بھی کی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لئے منتخب فرما لیا ہے لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم فرماں بردار ہو

حج وقربانی در حقیقت حضرت ابراہیم، حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زندگی کی یادگار ہے جس میں قدم قدم پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اصل عبادت اللہ کے حکم کی اطاعت ہے اور بذات خود کسی عمل یا جگہ میں کوئی فضیلت نہیں، مثلاً مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے لیکن آٹھ ذوالحجۃ کو حکم الہی ہوتا ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ کر منی چلے جاؤ اور پانچ وقت کی نماز وہاں جا کر پڑھو حالانکہ اس دن وہاں حج کا کوئی کام انجام نہیں دیا جاتا نہ قربانی کرنا ہے نہ جمرات پر پتھر مارنا اور نہ ہی وہاں نماز پڑھنے کا کوئی زائد ثواب ہے مگر حکم کی تعمیل میں وہاں جانا ضروری ہے اور اگر کوئی حرم کی فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے وہیں رہ جائے تو ثواب  درکنار وہ گنہ گار ہوگا۔

اسی طرح سے دوسرے دنوں میں عرفات کے میدان میں جا کر ٹھہرنا اور جبل رحمت کے پاس جانا کوئی ثواب کا کام نہیں ہے لیکن نویں ذوالحجۃ کو وہاں جا کر ٹھہرنے کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بغیر حج ہی درست نہیں یہی حال جمرات پر پتھر مارنے کا ہے کہ عام دنوں میں اس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن حج کے ایام میں وہ ایک اہم عبادت ہے۔

معلوم ہوا کہ اصل چیز حکم الہی کی اتباع ہے نہ کہ خواہش اور جذبات کی پیروی اور اسی وجہ سے کسی چیز اور جگہ میں اہمیت و فضیلت آتی ہے اور وہ عبادت بنتی ہے خواہ وہ حکم عقل کے سانچے میں فٹ ہو یا نہ ہو اس کی حکمت ومصلحت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ہمیں اس کی پابندی کرنی ہے اس لئے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں عقل کے بندے نہیں

طواف،صفا و مروہ کی سعی، جمرات کی رمی اور قربانی وغیرہ کی عقلی توجیہ مشکل ہے اور توجیہ کی ضرورت بھی نہیں ہے اس لیے کہ ان کے ذریعہ تو عقل و خرد کے بت کو پاش پاش کرنا مقصود ہے یہ سب کیا ہی جاتا ہے اس لیے کہ اِس حقیقت کو دل و دماغ میں پیوست کیا جائے کہ اصل چیز اللہ کے حکم کی اطاعت ہے نہ عقل و خواہش کی غلامی اور پیروی۔

 

عبادت و ریاضت کا موسم

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی اس درجہ اہمیت ہے کہ قرآن کریم میں اس کی قسم کھائی گئی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس اور جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ والفجر ولیال عشر (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی) میں دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں (لطائف المعارف ٥٠٤)

اور قرآن حکیم میں ایک دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ یہ ایام اللہ کی کبریائی کے اعلان اور ذکر کے ایام ہیں

 ارشاد ربانی ہے:

اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّ عَلٰى كُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍۙ(۲۷)لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِۚ-فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ٘ (سورة الحج: الآية. ٢٧/۲۸)

اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو وہ تمہارے پاس پیدل آئیں اور دور دراز کے راستے سے سفر کرنے والی ان اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں (جو لمبے سفر سے) دبلی ہو گئی ہوں تاکہ وہ ان فوائد کو دیکھیں جو ان کے لیے رکھے گئے ہیں اور متعین دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو انہیں عطا کئے گئے ہیں لہذا ان جانوروں میں سے خود بھی کھاؤ اور اور تنگ دست و محتاج کو بھی کھلاؤ

حضرت عبداللہ بن عمر ابن عباس اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں "اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ” (متعین دنوں) سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں اور چوپایوں پر اللہ کا نام لینے کے سلسلے میں زیادہ صحیح تاویل یہ ہے کہ اس سے مراد جانوروں کی تسخیر کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ادا کرنا ہے اور یہ محض ذبح کے وقت کے ساتھ خاص نہیں ہے جیسا کہ دوسری آیت میں کہا گیا ہے

كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ (سورة الحج:٣٧)

اس نے یہ جانور اسی طرح تمہارے تابع بنا دیے ہیں تاکہ تم اس بات پر اللہ کی کبریائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی (لطائف المعارف٥٠٧) 

اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما من أيَّامٍ العملُ الصَّالحُ فيهنَّ أحبُّ إلى اللهِ من هذه الأيَّامِ العشرِ . قالوا : يا رسولَ اللهِ ولا الجهادُ في سبيلِ اللهِ ؟ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ولا الجهادُ في سبيلِ اللهِ إلَّا رجل خرج بنفسِه ومالِه فلم يرجِعْ من ذلك بشيءٍ جامع ترمذى:٧٥٧ ،نيز دیکھئے صحيح بخاري: ٩٦٩)

ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے مقابلے میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہو صحابہ کرام نے عرض کیا: کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی؟ فرمایا: ہاں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنا بھی، البتہ اس شخص کا عمل اس سے بہتر ہے جو اللہ کی راہ میں جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور جان و مال میں سے کچھ بھی واپس لے کر نہ آئے

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أفضل أيام الدنيا أيام العشر يعني عشر ذي الحجة قيل: ولا مثلهن في سبيل الله؟ قال: ولا مثلهن في سبيل الله إلا رجل عفر وجهه بالتراب (الترغيب والترهيب:جلد٢/ص١٩٠؛  وا اسناده حسن قاله الہیثمى والمنذرى وقال الباني صحيح لغيره صحيح الترغيب: ١١٥٠)

دنیا کے دنوں میں سب سے بہتر اور افضل دن ذوالحجہ کے دس دن ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی اس کے برابر نہیں ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بھی، الا یہ کہ وہ شہید ہو جائے.

ذوالحجہ کے مہینے کو اس اعتبار سے بھی اہمیت حاصل ہے کہ حج جیسی عظیم الشان عبادت اسی ماہ میں ادا کی جاتی ہے حج کے علاوہ دوسری تمام عبادتیں سال بھر ادا کی جا سکتی ہیں لیکن ان دونوں کو صرف مخصوص دنوں میں ہی ادا کیا جاسکتا ہے اسی طرح سے وقوف عرفہ، مزدلفہ میں رات گزارنا یا جمرات کی رمی کرنا بھی صرف ان ہی دنوں میں عبادت ہے 

ذوالحجہ کے مہینے میں اور خصوصاً ابتدائی دس دنوں میں خوب اللہ کا ذکر اور اس کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار و اعلان کرنا چاہیے، امام بخاری نقل کرتے ہیں کہ:

كان ابن عمر وأبوهريرة يخرجان إلى الى السوق فى أيام العشر يكبران ويكبر الناس بتكبيرهما. (صحيح بخاري تعليقا)

حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ذوالحجۃ کے دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور تکبیر کہتے اور ان کی تکبیر کو سن کر دوسرے لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے

اور حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے تکبیر کے یہ الفاظ منقول ہیں:

اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، وللہ الحمد (مصنف ابن ابی شیبة: ٥٦٥٣)

اور ذوالحجہ کا چاند دیکھ کر مسنون ہے کہ وہ شخص اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے جسے قربانی کرنے کا ارادہ ہے

حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ كان له ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ، فإذا أُهِلَّ هِلال ذِي الحِجَّة، فلا يَأْخُذَنَّ من شَعْرِه ولا من أظْفَارِه شيئا حتى يُضَحِّي (صحيح مسلم: ١٩٧٧)

اگر کوئی شخص قربانی کرنا چاہتا ہے تو ذوالحجۃ کا چاند دیکھنے کے بعد اپنے بال اور ناخن کو بالکل نہ کاٹے یہاں تک کہ قربانی کر لے.

فقہاء نے لکھا ہے کہ قربانی نہ کرنے والے کے لئے بھی ایسا کرنا مستحب ہے اور بعض روایتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا

أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ ” ، فَقَالَ الرَّجُلُ : أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا ؟ قَالَ : ” لَا ، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (مسنداحمد: ٦٥٧٥، سند حسن، اسناده قوي تخريج سنن ابي داؤد: ٢٧٨٩، شعيب ارناؤوط اسناده صحيح تخريج صحيح ابن حبان: ٥٩١٤، شعيب ارناؤوط)

مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں قربانی کے  دن کو عیدبنا دوں ۔اللہ تعالی نے اس دن کو اس امت کے لئے عید بنائے۔ اس شخص نے عرض کیا اگر میرے پاس قربانی کا جانور نہ ہو سوائے اس کے کہ میرے بیٹے نے دودھ کے لیے ایک جانور عاریت پر دے دیا ہے کیا میں اسی کو ذبح کروں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں البتہ اس دن اپنے بال، ناخن اور مونچھ کو کاٹ لو اور زیر ناف کے بال کو مونڈ دو تو اس سے اللہ کی نگاہ میں تمہاری قربانی پوری ہو جائے گی

 احرام کی حالت میں بال اور ناخن کاٹنا منع ہے اور ان کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کے لیے دوسروں کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ وہ دس دنوں کے دوران بال اور ناخن نہ کاٹیں تاکہ حج و عمرہ کرنے والوں پر فضل و کرم کی جو بارش ہو رہی ہے وہ ان کی مشابہت اختیار کر کے اس کے ساتھ شریک ہوجائیں۔ 

 

جہنم سے آزادی کا دن

حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک یہودی نے کہا کہ قرآن حکیم میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کو عید کا دن بنا لیتے، حضرت عمر نے پوچھا: کون سی آیت؟ یہودی نے کہا: یہ آیت:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (سورةالمائدة: ٣)

آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر ہمیشہ کے لئے پسند کر لیا

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے وہ دن بھی معلوم ہے اور وہ جگہ بھی یاد ہے جہاں یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی آپ جمعہ کے دن عرفہ میں قیام فرما تھے (صحيح بخاري: ٤٥) اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا یہ دونوں تو بحمداللہ پہلے ہی سے ہمارے لئے عید کے دن ہیں (فتح الباري)

  رمضان کے روزے کی تکمیل کے سب بندہ اللہ کی رحمت و مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا مستحق ہوجاتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی ہے

فمن زحزح عن النار وادخل الجنه فقد فاز (سورة آل عمران: ١٨٥)

پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹا لیا گیا اور جنت میں داخل کر دیا گیا وہ صحیح معنوں میں کامیاب ہوگیا .

اور اس کامیابی پر خوشی، شکرگزاری اور ہدایت یابی کے اظہار کے لئے عید کو مشروع کیا گیا "لتكبر الله على ما هداكم (سورة البقرة: ١٨٥)

اور حج جیسی اہم عبادت کی تکمیل پر عید قرباں کو شروع کیا گیا جس کی فضیلت عید فطر سے بھی زیادہ ہے اور حج کی ادائیگی اصلاً عرفہ کے دن ہو جاتی ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:

"الحج عرفة” حج وقوف عرفہ کا نام ہے(ابو داوود: ١٩٤٩، ترمذى:٨٨٩)

اور عرفہ کا دن جہنم سے آزادی کا دن ہے اس دن مسلمانوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دیا جاتا ہے خواہ وہ حج کے لئے گیا ہو یا نہ گیا ہو اور اسی مناسبت سے دوسرے دن کو عید قرار دیا گیا ہے جس میں تمام مسلمان شریک ہوتے ہیں اور اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور بطور تشکّر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اور اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں 

كذلك سخر هالكم لتكبر الله على ما هداكم (دیکھئے لطائف المعارف:٥١٨)

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما مِن يومٍ أكثر مِن أنْ يُعْتِقَ اللهُ فيه عبدًا مِن النارِ، مِن يومِ عرفة، وإنَّه ليدنو، ثم يُباهي بهم الملائكةَ، فيقول: ما أراد هؤلاء؟ (صحيح مسلم: ١٣٤٨)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی عرفہ کے علاوہ کسی اور دن اس قدر کثرت سے بندوں کو جہنم سے آزاد نہیں کرتے وہ ان کے قریب آ جاتے ہیں اور خوشی میں فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ میرے بندے کیا چاہتے ہیں

اور عرفہ کے دن کی اسی اہمیت کے پیش نظر حاجیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے حضرت ابو قتادہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صِيامُ يومِ عَرَفَةَ أحْتَسِبُ على اللهِ أنْ يُكَفِّرَ السنَةَ التي قَبلَها، والسنَةَ التي بَعدَها (صحيح مسلم:١١٦٢)

اللہ کی ذات سے امید ہے کہ عرفہ کے روزے کی وجہ سے اگلے اور پچھلے دو سالوں کا گناہ معاف کر دیں گے

عرفہ کے دن کی دعا

عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!

خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 

سب سے بہتر دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور میں نے اور مجھ سے پہلے دوسرے نبیوں نے سب سے اچھی جو دعا کی ہے وہ ہے "لا اله الا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير (ترمذي: ٣٥٨٥ حسن لشواهده)

اور محدث ط طبرانی نے اس حدیث کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں

افضل ما قلت والنبيون قبلي عشية عرفة لا اله الا الله… الى آخره

عرفہ کی شام میں سب سے بہتر دعا جو میں نے کی ہے اور مجھ سے پہلے کے نبیوں نے کی ہے وہ لا اله الا الله۔۔۔ (آخر تک) ہے (اس کی سند جید ہے)

اور امام احمد بن حنبل نے قابل اعتماد راویوں کی سند سے یہ الفاظ نقل کئے ہیں

كان اكثر دعاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عرفة لا اله الا الله وحده لا شريك له… إلى آخره

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے دن زیادہ تر ان الفاظ میں دعا کرتے تھے لا اله الا الله وحده لا شريك له۔۔۔ (آخر تک)

(دونوں روایتوں اور ان پر کلام کے لئے دیکھیے "تحفةالاحوذی”)

 

عظیم تر دن:

حضرت عبداللہ بن قرط کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اعظم الايام عند الله يوم النحر (مسنداحمد: ١٩٠٧٥ ،ابو داؤد: ١٨٦٥)

اللہ تعالی کی نگاہ میں سب سے عظیم دن قربانی کا دن ہے

دسویں ذوالحجہ یعنی قربانی کے دن نہانا، عمدہ کپڑا پہننا اور خوشبو لگانا مستحب ہے،اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ عید فطر کے دن کچھ کھا کر عید گاہ جاتے اور عید قرباں کے دن کچھ کھائے پئے بغیر عیدگاہ جاتے اور واپس آنے کے بعد قربانی کا گوشت تناول فرماتے۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

ولا يغدوا يوم الفطر حتى يأكل ولا يأكل يوم الاضحى حتى يرجع فياكل من اضحيته (مسنداحمد: ٢٢٩٨٤ ،ترمذى: ٥٤٢) 

عید فطر اور عید قرباں کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے بلاضرورت مسجدوں میں عید کی نماز پڑھنا خلاف سنت ہے

حضرت ابو سعید خذری سے منقول ہے:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والاضحى الى المصلى (صحيح بخاري:٩٥٦)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر اور عید قربان میں عید گاہ جایا کرتے تھے

عیدگاہ پیدل چلنا اور پیدل واپس آنا بھی سنت ہے حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم العيد ماشيا ويرجع ماشيا (ابن ماجه: ١٢٩٥)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن پیدل جاتے اور پیدل واپس آتے

عیدگاہ جاتے اور واپس آتے ہوئے بلند آواز سے تکبیر کہنا چاہیے اور اس معاملے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے افسوس یہ ہے کہ یہ سنت آہستہ آہستہ متروک ہوتی جا رہی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کی ایک راستے سے عیدگاہ جاتے اور پھر دوسرے راستے سے واپس آتے تاکہ قیامت کے دن اللہ کے حضور دونوں راستے اس کے حق میں گواہی دیں اور متعدد جگہوں پر اللہ کی کبریائی کا اعلان ہو 

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:

كان النبي صلى الله عليه وسلم اذا كان يوم العيد خالف الطريق (صحيح بخاري: ٩٨٦)

اور عید کی نماز کے سلسلے میں علامہ ابن قیم لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید فطر کی نماز تاخیر سے اور عید قرباں کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے (زادالمعاد جلد١/ص ٤٢٥)

لہذا عید قرباں کی نماز  جلدی پڑھنی چاہیے تاکہ لوگ جلد سے جلد قربانی کر سکیں

مبارکباد دینا

محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ باہلی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خدمت میں رہا ہوں وہ لوگ عید کی وہ لوگ عید کی نماز سے واپس آتے ہوئے ایک دوسرے سے کہتے تھے

تقبل الله منا ومنكم

اللہ تعالی ہمارے اور آپ کے نیک اعمال کو قبول کرے

قربانی:

جانور کی قربانی کا طریقہ حضرت آدم علیہ السلام کے عہد مبارک سے چلا آرہا ہے چنانچہ قرآن مجید میں ہے

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (سورةالمائدة: ٢٧)

اور اے پیغمبر ان کے سامنے آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناؤ جب دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تھی اور ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگی اور دوسرے کے قبول نہیں ہوئی اس (دوسرے) نے پہلے سے کہا میں تجھے قتل کروں گا پہلے نے کہا کہ اللہ تو ان لوگوں کی قربانی قبول کرتا ہے جو تقوی والے ہوں

 حضرت عبداللہ بن عباس سے عمدہ سند کے ساتھ منقول ہے جس بیٹے کی قربانی قبول ہوئی تھی اس نے ایک مینڈھے کی قربانی دی تھی اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے فدیہ کے طور پر جنت سے یہی مینڈھا لایا گیا تھا کہ (تفسیر ابن کثیر)

اور یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب میں جانور کی قربانی کا تصور موجود ہے ،خود کلام پاک میں کہا گیا ہے:

وَلِكُلِّ أُمَّةٍۢ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُواْ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُخْبِتِينَ (سورةالحج: ٣٤)

اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی اس لئے مقرر کی ہے کہ وہ ان مویشیوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے ہیں ،تو تمہارا معبود صرف ایک ہے لہذا صرف اس کی فرمانبرداری کرو اور خوش خبری سنا دو ان لوگوں کو جن کے دل اللہ کے آگے جھکے ہوتے ہیں 

اور اس کے آگے فرمایا گیا:

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ (سورة الحج: ٣٧)

اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اس نے یہ جانور اس لیے تمہارے تابع بنا دیئے ہیں تاکہ تم اس پر اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی اور جو لوگ خوش اسلوبی سے نیک عمل کرتے ہیں انہیں خوش خبری سنا دو

یعنی قربانی اللہ کے حکموں کے سامنے سرتسلیم خم کر دینے اور خود سپردگی و فدا کاری کی علامت ہے اور اس بات کا خاموش عہد ہے کہ جس طرح سے ہم نے تیرے حکم پر جانور کی قربانی پیش کی ہے اسی طرح سے تیری رضا کی خاطر ہم اپنی گردن کٹانے اور اپنے مال کو لٹانے کے لیے بالکل تیار ہیں اور جس طرح سے ہم نے جانور کے گلے پر چھری چلا دی ہے اسی طرح سے نفس و شیطان کے مکر و فریب کی گردن پر بھی چھری چلا دیں گے

اور اس حقیقت کا اظہار و اعلان ہے کہ ہمارا سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے اس لئے سب کچھ اس کے لئے قربان ہے 

قل ان صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي لله رب العالمين (سورةالانعام: ١٦٢)

کہہ دو کہ بے شک میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور مرنا سب کچھ اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے

لہذا ہم نماز کے لیے وقت اور راحت اور تجارت، اور زکوۃ کے لئے مال و دولت اور روزے کے لئے بھوک اور پیاس اور حج کے لئے وقت، مال و دولت اور آرام راحت اور جہاد کے لئے جان و مال کی قربانی کے لیے بخوشی آباد ہیں

جیسا کہ گزر چکا ہے کہ ہر قوم و ملت میں بحثیت عبادت قربانی کا تصور موجود ہے مگر ان میں اس کی حیثیت محض رسم کی رہ گئی بلکہ اس کی حقیقت تبدیل کر دی گئی اور اللہ عزوجل کے نام کے بجائے دیوی اور دیوتاؤں کے لئے قربانی کی جانے لگی جانور کے خون کو بتوں کے چہروں پر ملا جانے لگا یہاں تک کہ بیت اللہ کی دیواریں بھی ان کے خون سے آلودہ کی جانے لگیں تو قرآن حکیم میں سختی سے اس کی تردید کی گئی اور حکم دیا گیا کہ جس طرح سے اللہ عزوجل کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح سے غیر اللہ کے نام قربانی بھی نہیں کی جاسکتی

"فصل لربك وانحر” لہذا تم اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو

اور قربانی کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ہمیشہ قربانی کرتے رہے اور ارشاد و عمل کے ذریعہ دوسروں کو اس کی ترغیب دیتے رہے حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن كان له سَعَة، ولمْ يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنّ مُصَلّانا (احمد: ٨٢٧٣، ابن ماجه: ٣١٢٣، حدیث حسن ہے)

جو شخص کو وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے

اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما عملَ ابن آدم يومَ النَّحرِ أحبُّ إلى اللهِ من إهراقِ الدَّمِ (ترمذى: ١٤٩٣، وقال حسن غريب)

اللہ کی نگاہ میں قربانی کے دن خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں 

 

کھانے پینے اور ذکر کے ایام

اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:

وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ (سورةالبقرة: ٢٠٣)

اور گنتی کے چند دنوں میں اللہ کو یاد کرتے رہو

علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ گنتی کے چند دنوں سے مراد ایام تشریق ہیں حضرت عبداللہ بن عباس اسی کے قائل ہیں اور ان کے شاگرد ہیں عکرمہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ایام تشریق میں پنج وقتہ نمازوں کے بعد الله اكبر، الله اكبر کہا جائے (تفسير ابن كثير)

 

اور حضرت نبیشہ هذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ايام التشريق ايام واكل وشرب وذكر الله (صحيح مسلم: ١١٤١)

تشریق کے ایام کھانے پینے اور اللہ کو یاد کرنے کے دن ہیں

اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:

جمہور سلف، فقہاءصحابہ اور ائمۂ مجتہدین کہتے ہیں کیا عرفہ کے دن کی فجر سے تشریق کے آخر دن تک ہر نماز کے بعد تکبیر تشریق کہی جائے نیز عید کی نماز کے لیے جاتے وقت ہر شخص بلند آواز سے تکبیر کہے (مجموع فتاوی: جلد ٢٤/ص٢٢٠ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے