بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
سلسله(7)کھیل کود سے متعلق نئے مسائل
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
wmqasmi@gmail.com-mob.n.9451924242
9- دوڑ میں مقابلہ:
دوڑنا بھی ایک بہترین اور عمدہ ورزش ہے ، اس سے بدن میں چستی اور پھرتی آتی ہے ، آنحضرت ﷺ نے خود اپنی امت کی تعلیم کی خاطر نیز خوش طبعی کے لیے حضرت
عائشہ کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا ، چنانچہ وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے دوڑ میں مجھ سے مقابلہ کیا اور میں آگے نکل گئی، پھر جب میرا جسم فربہ ہوگیا اور دوبارہ مقابلہ کیا تو آپ ﷺ جیت گئے اور فرمایا:یہ اس وقت کا بدلہ ہے۔(ابوداؤد 348/1کتاب الجہاد ، مسند احمد39/6 )،
پیدل چلنے میں بھی آپ ﷺ کی رفتار بہت تیز ہوا کرتی تھی، حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے زیادہ تیز چلتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا ،ایسا لگتا تھا کہ آپ کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہے ،جب ہم آپ کے ساتھ چلتے تو ہمیں بہت مشقت برداشت کرنی پڑتی تھی ۔ (الشمائل للترمذی :129. مسند احمد 8604.صحیح ابن حبان: 6309)
آپ ﷺ نے مکہ سے طائف کا تقریبا 110 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا تھا۔
صحابہ کرام بھی آپ ﷺ کی اجازت اور موجودگی میں دوڑ کا مقابلہ کیا کرتے تھے چنانچہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر انہوں نے آپ سے دوڑ میں مقابلہ کی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا: جیسی تمہاری مرضی ۔
(وعندما قفل النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه من غزوة تبوك قالت الأنصار: السباق؟! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن شئتم. رواه ابن أبي شيبة 12/ 508).
اور حضرت سلمہ بن اکوع اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر کے موقع پر ایک انصاری جو دوڑنے میں بہت تیز تھے کہنے لگے کیا مدینہ تک کوئی مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کر سکتاہے ؟ ہے کوئی جوان مرد جو مجھ سے مقابلہ کرے؟ میں نے ان سے کہا: آپ کسی شریف کی عزت کا خیال نہیں کرتے؟ آپ کے دل میں کسی باعزت شخص کی قدر و قیمت نہیں ہے؟ وہ کہنے لگے میں اللہ کے رسول ﷺ کے سوا کسی کی پروا نہیں کرتا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے جاکر اجازت چاہی، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو تو جاؤ مقابلہ کرلو، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑ کا مقابلہ کیا اور آگے ہی رہا۔(صحیح بخاری: 2960.صحیح مسلم:1802)
بلکہ آپ ﷺ بچوں کے درمیان بھی دوڑ کا مقابلہ کرایا کرتے تھے چنانچہ حضرت عبداللہ بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ ، عبیداللہ اور حضرت عباس کے دوسرے لڑکوں کو ایک صف میں کھڑا کر کے فرماتے کہ تم میں سے جو سب سے پہلے میرے پاس آئیگا اس کے لئے فلاں فلاں انعام ہے چنانچہ وہ بچے دوڑتے اور آپ کی پشت اور سینے پر جاکر گر جاتے آپ انہیں خود سے چمٹا لیتے اور انہیں بوسہ دیتے ۔
( كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُفُّ عَبْدَ اللَّهِ، وَعُبَيْدَ اللَّهِ، وَكَثِيرًا بَنِي الْعَبَّاسِ، ثُمَّ يَقُولُ : ” مَنْ سَبَقَ إِلَيَّ، فَلَهُ كَذَا وَكَذَا ". قَالَ : فَيَسْتَبِقُونَ إِلَيْهِ، فَيَقَعُونَ عَلَى ظَهْرِهِ وَصَدْرِهِ، فَيُقَبِّلُهُمْ، وَيَلْتَزِمُهُمْ.مسند احمد:1836)
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ اور زبیربن العوام ؓمیں دوڑ کا مقابلہ ہوا۔ حضرت زبیر آگے نکل گئے اور کہا: رب کعبہ کی قسم! میں جیت گیا۔ اور پھر دوبارہ جب دوڑ کا مقابلہ ہوا، تو حضرت عمرؓ جیت گئے گئے تو انہوں نے وہی جملہ دہرایا: ربِ کعبہ کی قسم! میں جیت گیا۔( السنن الكبرى للبیہقی 10/ 29).
ان روایات کے پیش نظر فقہاء نے لکھاہے کہ دوڑ میں مقابلہ کرنا اور معاوضہ مقرر کرنا جائز ہے بشرطیکہ جوا کا عنصر شامل نہ ہو۔(ہندیہ 322/5)، نیز یہ کہ دوڑ میں مقابلہ شرف و وقار ، علم و فضل اور بزرگی کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جب حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا ، اس وقت آپ کی عمر پچاس سے زائد تھی۔(نیل الاوطار 92/8)