دینی تعلیم میں عصری علوم کی شمولیت۔

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی

جس طرح جسمانی صحت کے لیے مناسب غذا ضروری ہے، اسی طرح تعلیم کے لیے بھی مناسب نصاب لازمی ہے۔ غذا سے جسم کی صحت و تندرستی وابستہ ہے اور تعلیم سے روح کی زندگی اور بالیدگی متعلق ہے۔ غذا کی طرح نصاب تعلیم میں بھی مزاج و ماحول کی رعایت اور زمان ومکان کے فرق کا لحاظ ضروری ہے۔ ان کو نظرانداز کرکے جو تعلیم دی جائے گی، اس سے دنیا و آخرت کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
مسلمانوں میں رائج نظام تعلیم پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ وہ دینی اور دنیوی تعلیم کی تفریق سے عاری تھا۔ ہر طرح کے فائدہ مند علوم اس میں شامل تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے :
‘‘علوم پانچ ہیں، دین کے لیے ’علم فقہ‘، جسم کے لیے ’علم طب‘ ﴿میڈیکل سائنس﴾، تعمیر کے لیے ’علم ہندسہ‘ ﴿انجینئرنگ﴾، زبان دانی کے لیے ’علم نحو‘ اور وقت جاننے کے لیے ’علم نجوم‘۔﴿احیاء علوم الدین :22/1﴾
اور امام شافعی ؒ کا قول ہے:
علم دو چیزوں کا نام ہے جسم کے لیے ’علم طب‘ اور دین کے لیے ’علم فقہ‘ ﴿مفتاح السعادۃ :267/1﴾
امام غزالی ‘احیاءعلوم الدین” میں بڑی حسرت کے ساتھ کہتے ہیں کہ لوگ ’علم فقہ‘ پر ٹوٹے پڑتے ہیں۔ کیونکہ اس کی وجہ سے قاضی بننے کی راہ ہموار ہوجاتی ہے اور یتیموں اور لاوارثوں کے مال و جائداد کی تولیت مل جاتی ہے۔ وہ اختلافی مسائل میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ مگر کسی کو ’علم طب‘ کی طرف توجہ کی فرصت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے شہروں میں غیرمسلموں کے سوا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ حالانکہ بہت سے ایسے طبی مسائل ہیں، جن میں غیرمسلم ڈاکٹر کی رائے اور گواہی معتبر نہیں ہے۔( احیاء علوم الدین 22/1)
اور فقہاء نے اس طرح کے علوم کو”فرض کفایہ” قرار دیاہے چنانچہ علامہ زیلعی لکھتے ہیں :
’فرض کفایہ ہر وہ علم ہے، جس پر دُنیوی زندگی کا دارو مدار ہو، مثلاً: ڈاکٹری، حساب، لغت، وراثت کی تقسیم، کتابت، اسی طرح سے علم آثار و تاریخ اور علم رجال اور صناعات کی بنیادی چیزیں جیسے کھیتی، پارچہ بافی وغیرہ ﴿ردالمحتار29/1﴾
’درس نظامی‘ کے نام سے ’ہندی مسلمانوں ‘ کے درمیان جو نظام تعلیم معروف و مشہور ہے، اس میں بھی دینی اور دنیوی تعلیم کی کوئی تفریق نہیں تھی۔ کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ حساب، ہیئت، قدیم سائنس ﴿منطق و فلسفہ﴾ کی کتابیں بھی نصاب میں شامل تھیں۔ ملکی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے فارسی پڑھائی جاتی تھی اور جو لوگ ان مدرسوں سے پڑھ کر نکلتے تھے وہی مسند دعوت وارشاد پر فائز ہوتے تھے اور ایوان حکوت کی زینت اور رونق بھی انھی کے دم سے قائم تھی۔ امامت وخطابت کافریضہ بھی یہی لوگ انجام دیتے تھے اور حکام یا آفیسرز بھی یہیں سے فراہم ہوتے تھے۔ غرضیکہ ’استعمار‘ سے پہلے دین و دنیا دونوں کی ضرورت کی تکمیل انھی مدرسوں سے ہوتی تھی۔ لیکن "استعمار” کے سورج کے غروب ہونے کے بعد جب اس نظام تعلیم پر نظرثانی کئی گئی تو فائدہ مند علوم کو رفتہ رفتہ نکال باہر کیاگیا اور ’ازکار رفتہ‘ اور ’آثار قدیمہ‘ جیسے علوم کو باقی رکھاگیا۔
ایک زمانہ تھا کہ الحاد اور باطنیت کے علم بردار منطق وفلسفہ کے ہتھیار سے لیس ہوکر اسلامی عقائد پر حملہ آور ہوئے۔ علماء اسلام نے ان سے مقابلے کے لیے ان علوم کو سیکھا، ان کو نکھارا اور سنوارا۔ اس قدر اضافہ کیا گیا کہ اگر ان علوم کے مدون زندہ ہوتے تو رشک و حیرت کی نگاہ سے دیکھتے۔ ابن حبان، ابن رشد، رازی اور غزالی نے جس طرح سے ’فلسفہ و منطق‘ کو ترقی دی اور ان کی کمیوں پر تنقید کی وہ ارسطو اور سقراط کی پہنچ سے باہر ہے۔ انھوں نے الحاد اور زندقہ کی طرف دعوت دینے والے علم کو اس طرح پیش کیاہے کہ وہ اسلامی علوم کا ایک حصہ نظرآنے لگا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ان علوم کے متعلق فرمایا:
‘‘ہم تو جیسا بخاری کے مطالعے میں اجر سمجھتے ہیں، میروزاہد ،امور عامہ کے مطالعے میں بھی ویسا ہی اجر سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ اس کا شغل بھی اللہ کے واسطے ہے اور اس کا بھی۔ ’’ ﴿النور، ربیع الثانی :1361ھ﴾
آج یہ علوم غیرضروری ہوچکے ہیں اور سائنس و حساب اور تاریخ نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ آج ان علوم کو وہ درجہ کیوں نہ دیاجائے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے میر زاہد کو دیاتھا۔ دورحاضر میں سماجیات، سیاسیات، معاشیات ایسے علوم ہیں، جن کاجدید ذہن کی تشکیل میں بہت بڑا کردار رہاہے اور ڈارون، فرائڈ اور کارل مارکس نے انسانیت کو گمراہ کرنے میں شیطان کو بھی شرمسار کردیاہے۔ جس طرح سے ہمارے اسلاف نے منطق اور فلسفے جیسے ’الحادی علم‘ کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر پیش کیا، ضرورت ان کے جانشینوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ بھی ان علوم سے آگاہی حاصل کریں۔ انھیں اسلامی سانچے میں ڈھالیں اور انھیں ’مسلمان بناکر‘ ان سے اسلام کے دفاع، تحفط اور اشاعت کا کام لیں۔ ان علوم کو نظرانداز کرکے اور اسلام کی روشنی میں ان کی تحلیل اور تجزیے کے بغیر اسلام کی حفاظت و اشاعت مشکل ہے جو کہ مدارس کے قیام کا اصل مقصد ہے۔ مولانا محمدیوسف بنوریؒ لکھتے ہیں :
‘‘علم کلام جدید، فلسفہ جدید، علم الاقتصاد اور بعض جدید علوم سے قدیم نصاب کا دامن خالی ہے اور آج اس کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، جس طرح پہلے جہمیہ، حشویہ، خوارج، معتزلہ و قدریہ مسلک سے ہٹے ہوئے تھے اور باطل فرقے پیدا ہوئے اور جس طرح ان کے عقائد اور ان کی تردید دین کا اہم جز تھا، اسی طرح آج لادینی نظامِ حیات، اشتراکیت و فسطائیت وغیرہ کے مسائل پر قواعد اسلام کے پیش نظر نقد و تبصرہ دین کا اہم جز ہے۔ آج اگر ہمارے اسلاف زندہ ہوتے تو جس طرح سے اس وقت فرق باطلہ کی تحقیق و تنقیح کے بعد امت کے لیے اسلحہ تیار کرکے دیا اسی طرح آج بھی جدید اسلحہ دفاع کے لیے تیار کرتے اور علوم کا بیش بہا اضافہ کرتے۔ ﴿دینی مدارس کا نصاب /230﴾ منطق قدیم ،فلسفہ قدیم، کلام قدیم اور ہیئت قدیم میں بہت سرسری معلومات بھی کفایت کرسکیں گی اور ان کی جگہ کی تکمیل کے لیے جدید علم کلام، جدید علم ہیئت، ریاضی و اقتصادیات کو دینا چاہیے۔ ﴿حوالہ مذکور /236﴾
علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ اپنے بعض تلامذہ کو سائنس اور دوسرے جدید علوم کی کتابیں پڑھاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب علما کو قدیم فلسفہ و ہیئت کے ساتھ جدید فلسفہ و ہیت کا بھی علم حاصل کرنا چاہیے۔ ﴿سوانح قاسمی/301﴾
فارسی زبان ایک مشرک قوم اور مسلم دشمن کی زبان تھی۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ساتھ کبھی امتیازی سلوک نہیں کیا۔ بلکہ اسے سیکھا اور کتاب و سنت کی تعلیمات سے اسے آراستہ کیا۔ یہاں تک کہ ایک دور ایسا بھی آیاکہ عربی زبان کے بعد اسلامی علوم کا سب سے بڑا ذخیرہ فارسی زبان میں تھا اور آج حال یہ ہے کہ فارسی زبان سیکھنے کے لیے اسلامی اصطلاحات کا جاننا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اسلام کسی خاص زبان کا پابند نہیں بلکہ وہ ایک پیغام کانام ہے اور اس پیغام کو عام کرنے کے لیے ہر اس زبان کا سہارا لیا جا سکتا ہے، جو ملکی اور بین الاقوامی پیغام رسانی کاذریعہ ہو اور یہی وہ حکمت ہے، جس کی وجہ سے ہر رسول اپنی قوم کے سامنے اس کی زبان میں ‘‘امانت الٰہی‘‘ کی تبلیغ کرتا ہے۔ ﴿وماارسلنا من رسول الابلسان قومہ﴾
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ’بھارتی مسلمان‘ تعلیمی اعتبار سے پستی کی انتہا کو چھور ہے ہیں اور مدارس اسلامیہ سے جڑنے والے طلبہ کی تعداد چار فیصد سے بھی کم ہے اور ان میں بھی مقامی طلبہ کی نمائندگی ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے، وہ ہے تعلیم میں دین و دنیا کی تفریق۔ ضرورت ہے کہ اس فرق کو مٹایا جائے اور درس نظامی سے حساب وغیرہ کو جو نکال باہر کیا گیا ہے، اسے دوبارہ شامل کیاجائے اور قدیم منطق اور فلسفے کی جگہ جدید سائنس کو دی جائے اور انگریزی زبان جو ملکی اور بین الاقوامی ربط اور پیغام رسانی کاذریعہ ہے، اسے وہی حیثیت دی جائے جو قدیم نصاب میں فارسی زبان کو دی گئی تھی۔ دینی مدارس میں عصری علوم کی شمولیت وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور زندہ قومیں وقت کی رفتار کے ساتھ چلتی ہیں۔

شائع شدہ: ماہنامہ زندگی نو دہلی ۔ ستمبر 2010ء

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے