بسم الله الرحمن الرحيم.
سلسله(8)
کھانے پینے سے متعلق نئے مسائل۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.
9-جانور کی گردن میں سوراخ کر دینا
بعض جگہوں پر ذبح کا یہ طریقہ رائج ہے کہ دو دھاری چاقو کو مرغی وغیرہ کی گردن سے آر پار کر دیا جاتا ہے جس سے خون بہنے لگتا ہے۔
ذبح کا یہ طریقہ حرام اور اس طرح سے ذبح کردہ جانور مردار کے حکم میں ہے کیونکہ ذبح میں خون کی دو رگوں اور سانس اور کھانے کی نالی کا کاٹنا ضروری ہے اور مذکورہ طریقہ میں گردن میں صرف ایک سوراخ ہو جاتا ہے اور مطلوبہ رگیں نہیں کٹتی ہیں، زمانہ جاہلیت میں اس طرح کا ایک طریقہ رائج تھا جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، حضرت ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شريطة الشيطان وهي التي تذبح فيقطع الجلد ولا تفرى الأوداج، ثم تترك حتى تموت۔
رسول اللہ ﷺ نے شیطانی شریطہ سے منع فرمایا ہے ۔شیطانی شریطہ یہ ہے کہ ذبح کرتے ہوئے جانور کی کھال کاٹ دی جائے اور رگوں کو نہ کاٹا جائے پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہانتک کہ مرجائے ۔
( ابوداؤد کتاب الاضاحی ،باب المبالغۃ فی الذبح رقم الحدیث:2826۔مسند أحمد :2618)
"شریطہ”یہ ہے کہ اونٹ وغیرہ کی گردن کی کھال کو تھوڑا سا کاٹ دیا جائے جیسے کہ سینگی لگانے والا چپیرا لگاتا ہے اور ایسا کرنے سے رگ نہیں کٹتی ہے اور نہ بہت زیادہ خون بہتا ہے زمانے جاہلیت میں اس کا رواج تھا کہ جانور کی گردن کو تھوڑا سا کاٹ کر چھوڑ دیتے تھے اور اسی کو وہ ذبح کرنا سمجھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو شیطان کی طرف اس لیے منسوب کیا کہ شیطان ہی نے ان کو اس فعل پر آمادہ کیا تھا۔(1)
(1)(الشريطة) من شرط الحجام إذا ضرب على موضع الحجامة، ولا يحصل به إلا شق الجلد، فالشريطة: ما يقطع جلدها، وفي (النهاية): هي الذبيحة التي لا تقطع أوداجها (ذبيحة الشيطان) فإنه الحامل على ذلك.(حاشیۃ السندی علی المسند)
(عن شريطة الشيطان) أي: الذبيحة التي لا تنقطع أوداجها ولا يستقصي ذبحها، وهو مأخوذ من شرط الحجام، وكان أهل الجاهلية يقطعون بعض حلقها ويتركونها حتى تموت، وإنما أضافها إلى الشيطان؛ لأنه هو الذي حملهم على ذلك. ذكره في النهاية. (عون المعبود )