*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

 

(3)*عظمت والا مہینہ*

 

ماہ رجب کی اہمیت 

 

اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا خالق اور مالک ہے، دن اور مہینے بھی اسی کے بنائے ہوئے اس لئے بذات خود کسی دن یا مہینے کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، اور اگر رب کائنات نے کسی خاص دن یا مہینے کو افضل قرار دیا ہے تو اس کی وجہ سے کسی خاص عبادت کو کوئی مخصوص فضیلت حاصل نہیں ہوگی الا یہ کہ وحی الٰہی کے ذریعے اس میں کسی عبادت کا خاص اجر و ثواب بیان کیا گیا ہو ، انسان محض اپنی چاہت اور سوچ سے کسی عبادت کا کوئی ثواب متعین نہیں کر سکتا ہے۔

کتاب و سنت میں محرم ،رجب،ذی قعدہ اور ذی الحجہ کو ادب اور احترام کا مہینہ قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مہینے میں جنگ و غارت گری کی ممانعت ہے اور ان میں عبادت کے ثواب اور نافرمانی کے گناہ  میں اضافہ ہو جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر چار مہینوں کو قابل احترام قرار دیا ہے اور ان کی عظمت و احترام کو بڑا عظیم قرار دیا ہے ان میں گناہ کرنے کے عذاب کواور نیک عمل کے ثواب کو بہت بڑھا دیا ہے(لطائف المعارف/ص٢٢٥)

عظمت وعزت والے مہینوں میں سے دوسرے مہینے کا نام رجب ہے جس کے معنی ہیں تعظیم کرنا اور اس کو رجب مضر بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ قبیلہ مضر کے لوگ دوسروں کی بہ نسبت اس مہینے کی زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے اس لئے ان کی طرف منسوب کرکے رجب مضر کہا جانے لگا (لسان العرب/ج١ ص٤١١)

عظمت و عزت والے مہینوں کے تعلق سے قرآن حکیم میں کہا گیا ہے

*اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ كِتٰبِ اللّٰهِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌؕ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ* *(سورةالتوبة:٣٦)*

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے جو اللہ کی کتاب (لوح محفوظ)کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں ،یہی ہے سیدھا دین۔ لہذا ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو

"ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم مت کرو” سے معلوم ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں بطور خاص گناہوں سے بچنا چاہیے کہ ان میں نافرمانی کا گناہ زیادہ ہوجاتا ہے (ایسیر التفاسیر ج ٢ /ص٧٤) اور امام جصاص رازی نے لکھا ہے کہ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان با برکت مہینوں کی خاصیت یہ ہے کہ جو کوئی ان میں عبادت کرتا ہے اسے بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق مل جاتی ہے اور جو شخص کوشش و ہمت کرکے ان میں اپنے آپ کو معصیت اور برے کاموں سے بچائے تو بقیہ مہینوں میں اس کے لئے برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے اس لئے ان مہینوں سے فایدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے (دیکھئے معارف القرآن ج٤ ص٣٧٣)

عظمت و حرمت کے تین مہینے مسلسل ہیں اور اہل عرب کے لئے اتنے دنوں تک جنگ و غارت گری سے دور رہنا بڑا شاق گزرتا تھا اس لئےوہ اس کے لئے محرم اور صفر کے مہینے کو آگے پیچھے کر دئیے تھے جس سے چار مہینوں کی تعداد تو پوری ہوجاتی لیکن اللہ تعالیٰ نے جس مہینے کو قابل احترام قرار دیا ہے اس کی حرمت پامال ہوجاتی چناں چہ قرآن حکیم میں ہے

*اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یُحِلُّوْنَهٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوْنَهٗ عَامًا لِّیُوَاطِــٴُـوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰهُؕ-زُیِّنَ لَهُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِهِمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ۠(٣٧)*

اور یہ نسیئ( یہ یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کر دینا) تو کفر میں ایک مزید اضافہ  ہے جس کے ذریعے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے یہ لوگ اس عمل کو ایک سال حلال کر لیتے ہیں  اور ایک سال حرام قرار دے دیتے ہیں تاکہ اللہ نے جو مہینے حرام قرار دیئے ہیں ان کی بس گنتی پوری ہوجائے اور اس طرح جو بات اللہ نے حرام قرار دی تھی اسے حلال سمجھ لیں ان کی بدعملی ان کی نگاہ میں خوشنما بنا دی گئی ہے اور اللہ ایسے کافروں کو ہدایت نہیں پہنچاتا

 

چونکہ قمری مہینے مختلف موسموں میں آتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے حج کبھی ایسے موسم میں آجاتا جو ان کی تجارت کے لئے سازگار نہیں رہتا جس کے لیے انہوں نے کبیسہ کا حساب ایجاد کرلیا تھا کہ حج ہمیشہ ایک معتدل موسم میں آتا ہے اور اس کے لیے ہر سال کچھ دنوں کا اضافہ کرکے قمری مہینوں کو شمسی مہینے کے موافق کرلیتے جیسا کہ آج بھی ہندی مہینوں کے لیے ایسا کیا جاتا جاتا ہے ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ٣٣ سال تک حج اپنے اصل وقت پر نہیں ہوتا صرف چوتیسویں سال ایک مرتبہ ٩ اور ١٠ ذوالحجہ کو  حج ادا ہوتا ٩ ہجری کو حج ٹھیک اپنی صحیح تاریخ میں ادا ہوا اور مکہ فتح ہو جانے کی وجہ سے ان کو اضافہ کرنے کا موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے دس ہجری کو بھی وہ اپنی جگہ پر باقی رہا  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:

*إِنَّ الزمانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللهُ السَّمَاوَاتِ والأَرْضَ: السنةُ اثنا عَشَرَ شَهْرًا، منها أربعةٌ حُرُمٌ: ثلاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وذُو الحَجَّةِ، والمحرمُ، ورَجَبُ مُضَرَ الذي بين جُمَادَى وشَعْبَانَ، (صحیح* *بخاری:٣١٩٧، صحيح مسلم:١٦٧٩)*

زمانہ گردش کرکے اپنی اس حالت پر واپس آ گیا ہے جس پر وہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت تھا سال میں بارہ مہینے ہوتے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم۔ اور قبیلہ مضر کا رجب شعبان اور جمادی کے درمیان ہے

اسلام سے پہلے رجب کے مہینے میں جانور ذبح کیے جاتے تھے جیسے "عتیرۃ” کا نام دیا گیا تھا،

 کیا اب اس مہینے میں جانور ذبح کرنے کا حکم باقی ہے یا ختم ہوگیا ہے؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے اکثر علماء کے نزدیک یہ طریقہ ختم کر دیا گیا ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لافرع ولا عتیرہ (صحیح البخاری ٥٤٧٤، صحيح مسلم ١٩٧٦)

جانور کے پہلے بچے کو ذبح یا رجب میں جانور ذبح کرنے کی کوئی حیثیت نہیں ہے

اس کے برخلاف بعض لوگ کہتے ہیں مذکورہ دونوں عمل اب بھی مستحب ہیں اور حدیث میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ مشرکین عرب کیا کرتے تھے یا یہ کہ اس کے وجوب کی نفی کی گئی ہے مشہور تابعی محمد بن سیرین کی بھی یہی رائے ہے امام شافعی اور امام احمد بن حنبل سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے (دیکھئے لطائف المعارف/ ٢٣١، فتح الباری) ان حضرات کے دلائل یہ ہیں :

1-حضرت مخنف بن سلیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم میدان عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں فرمایا :

*يا ايها الناس ان على كل اهل بيت في كل عام اضحيه وعتيرة. اتدرورن ماالعتيرة هذه التي يقول الناس الرجبيه (ابو داود: ٢٧٨٨،ترمزي ١٥١٨، ابن ماجه ٣١٢٥ ۔صحيح)*

اے لوگو! ہر گھر والے پر سال میں ایک بار قربانی کرنا ہے اور عتیرہ دینا ہے، تمہیں معلوم ہے کہ عتیرہ کیا ہے؟ عتیرہ وہی ہے جسے لوگ رجبیہ کہتے ہیں۔

2-اور حضرت نبیشہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جانور ذبح کیا کرتے تھے، اب آپ کا کیا حکم ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*اذبحوا الله في اي شهر كان بروا الله عز وجل واطعموا (ابو داود٢٨٣٠ نسائى ٤٢٢٨، ابن ماجه ٣١٦٧ صحيح)*

اللہ کے لیے ذبح کرو خواہ کسی بھی مہینے میں ہو اور اللہ تعالی کی اطاعت کرو اور دوسروں کو کھلاؤ

3- حضرت عمر بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ لوگوں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول عتیرہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے کہا کہ عتیرہ حق ہے، عتيرہ حق ہے(نسائى ٤٢٢٥ حسن)

4- حضرت ابورزین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دریافت کیا کہ رجب کے مہینے میں ہم زمانۂ جاہلیت میں جانور ذبح کیا کرتے تھے خود بھی کھاتے تھے اور آنے والے مہمانوں کو بھی کھلاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں، لا باس به (نسائى ٤٢٣٣)

اس سلسلے کی تمام حدیثوں کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عید قرباں کی طرح سے رجب کے مہینے میں ایک خاص عبادت کی حیثیت سے خون بہانے کا حکم باقی نہیں رہا اور "ولا عتيره” کہہ کر اس کی حیثیت کو ختم کردیا گیا البتہ جانور ذبح کرکے اس کے گوشت کو ضرورت مندوں میں تقسیم کر دینا ایک کار ثواب ضرور ہے اور یہ رجب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کسی بھی مہینے میں جانور ذبح کر کے تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور خون بہانے کا ثواب کا بطور ایک خاص عبادت  بس قربانی اور عقیقہ کے موقع پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں رجب کے  مہینے  کو عید کی طرح  منایا جاتا تھا اور اسی دن جانور ذبح کیا کرتے تھے جس کی حدیث میں تردید کی گئی ہے چناں چہ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ اسلام میں عتیرہ نہیں ہے، عتیرہ تو زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا لوگ رجب کے مہینے میں روزہ رکھتے اور پھر جانور ذبح کرتے (مسند علی بن الجعد ٣٢٣٧)

اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منقول ہے کہ وہ رجب کو عید بنانے کو مکروہ سمجھتے تھے اور مشہور تابعی حضرت عطاء کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رجب کے پورے مہینہ میں روزہ رکھنے سے اس لیے منع کرتے تھے تاکہ لوگ اسے عید نہ بنائیں اور حضرت طاؤس کہتے ہیں کہ کسی مہینے اور دن کو عید نہ بناؤ(مصنف عبدالرزاق ٧٨٥٣، ٧٨٥٤،٧٨٥٥)

علامہ ابن رجب حنبلی ان روایتوں کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس کی بنیاد اور وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے طور پر کسی دن کو عید بنالیں اور شریعت نے صرف یوم فطر، یوم اضحی، ایام تشریق اور یوم جمعہ کو عید قرار دیا ہے جمعہ ہفتے کی عید ہے اور بقیہ سالانہ عید ہے اس کے علاوہ کسی دن کو عید بنانا بدعت ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے(لطائف المعارف/٢٣٢)

حضرت انس بن مالک سے منقول ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے :

*اللهم بارك لنا في رجب وشعبان وبلغنا رمضان -*

یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے مگر متعدد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ قوت آجاتی ہے نیز فضائل میں ضعیف حدیث سے بھی کام چل جاتا ہے (دیکھئے تذکرۃ الموضوعات محمد طاہر الفتنی/١١٧ الفتح الربانی للساعاتی ج٩/ص٢٣)

اور علامہ ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے فضیلت والے زمانے تک جینے کی دعا کرنا مستحب ہے ہے تاکہ وہ ان اوقات میں نیک عمل کرنے کا موقع حاصل کرسکے (لطائف المعارف ٢٣٨)

رجب کے مہینے میں کسی دن کوئی مخصوص نماز حدیث سے ثابت نہیں ہے رجب کے پہلے جمعہ کو مخصوص طریقے پر نماز پڑھنے کا تذکرہ بعض کتابوں میں موجود ہے جسے صلاۃ رغائب کہا جاتا ہے ہے مگر یہ روایتیں بالکل من گھڑت اور باطل ہیں علامہ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ اس نماز کا رواج اور اس سے متعلق روایتوں کا وجود چوتھی صدی ہجری کے بعد ہوا اس لئے متقدمین اسے بالکل جانتے ہی نہیں اور اسی لئے انھوں نے اس سے متعلق روایتوں پر کوئی کلام نہیں کیا ہے (لطائف المعارف ٢٣٣)

اورامام نووی کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت نماز ہے،قابل مذمت ،ناپسندیدہ اور باطل ہے قوت القلوب اور احیاء علوم الدین میں موجود ہونے کی وجہ سے تم دھوکے میں نہ پڑ جانا (الاتحاف ج/٣ ص٧٠٣)

اسی طرح سے رجب کے روزے کے سلسلے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ رجب کا روزہ رکھنے والوں پر سختی کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ رجب کیا چیز ہے؟ رجب کے مہینے کو زمانے جاہلیت میں اہمیت دی جاتی تھی اور اس میں ختم کر دی گئی اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کہیں اس کے روزے کو سنت نہ سمجھ لیا جائے (لطائف المعارف ٢٣٤)

اور حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

رجب کے مہینے کی فضیلت یا اس کے روزے یا اس میں کسی متعین دن کے روزے یا اس کی کسی خاص رات کی فضیلت کے معاملے میں کوئی صحیح اور لائق استدلال حدیث موجود نہیں ہے یہ ہے(تبیین العجب/١١) 

حاصل یہ ہے  کہ ستائیس رجب کے روزے کے متعلق روایات من گھڑت اورباطل ہیں جس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ ایک روزے کا ثواب ایک ہزار روزے کے برابر ہے اور اسی وجہ سے اسے ہزاری روزہ کہا جاتا ہے

اسی طرح سے ستائیس رجب کی رات کو شب معراج منانا اور نوافل وغیرہ کا اہتمام کرنا بھی غلط اور بدعت ہے اس لئے کہ ایک تو ستائیس رجب کی رات کو شب معراج قرار دینا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے بلکہ معراج کس رات کو ہوئی اس کے بارے میں مختلف رائیں ہیں ، ربیع الاول ،ربیع الثانی ،رمضان، شوال، ذوالحجۃ اور رجب کے مہینے کے بارے میں معراج کے واقعہ کا پیش آنے کا تذکرہ سیرت وغیرہ کی کتابوں میں مذکور ہے اور جب اس کی تعیین کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے تو اپنے طور پر کسی مہینہ کو متعین کر لینا درست نہیں ہے

دوسرے یہ کہ معراج کا واقعہ ہے جس رات میں پیش آیا اس کی کوئی خاص فضیلت کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اس رات میں کسی عبادت کی ترغیب دی گئی ہے ہے چناں چہ علامہ ابن قیم لکھتے ہیں

متقدمین میں سے کسی کے بارے میں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے معراج کی رات کو باقی راتوں سے خصوصاً لیلۃ القدر سے افضل قرار دیا ہو اور نہ صحابہ کرام اور تابعین عظام معراج کی رات میں خصوصی طور سے کوئی عبادت کیا کرتے تھے بلکہ وہ تو اس انداز سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے اور یہ بات بھی معلوم نہیں کہ متعین طور پر وہ رات کون سی تھی اگرچہ معراج کی رات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل مبارک میں ایک عظیم الشان حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود شرعاً اس رات یا اس جگہ (بیت مقدس جہاں سے معراج ہوئی) کوئی عبادت شروع نہیں کی گئی بلکہ غار حرا جس میں سب سے پہلی وحی نازل ہوئی اور بعثت سے پہلے جہاں آپ جاکر عبادت کیا کرتے تھے مگر بعثت کے بعد مکہ میں رہتے ہوئے بھی آپ نے یا کسی صحابی نے اس غار میں جا کر اس دن کوئی عبادت کی ہو اور نہ ہی اس دن اور اس جگہ کوئی مخصوص عبادت شروع کی گئی (زادالمعاد ج١/ص١٤٤)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں جو عبادت اور خیر کے کاموں کی طرف رہنمائی کرتے اور خود بھی اس کی طرف تیزی سے بڑھا کرتے تھے جس طرح سے ہم دنیا کمانے کی فکر اور تدبیر کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ثواب کے کاموں کے لیے حریص تھے اور نیکی کی راہوں کی طرف دوڑ کر آیا کرتے تھے معراج کا واقعہ بعثت کے پانچویں سال پیش آیا جس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ١٨ مرتبہ وہ رات آئی لیکن کسی ضعیف بلکہ موضوع حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اس رات کے منانے کا اہتمام فرمایا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام موجود رہے لیکن کسی کے بارے میں منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس رات کو کوئی خاص اہمیت دی ہو اور جو چیز کتاب و سنت اور صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

*اما اهل السنة والجماعة فيقولون كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة ه‍و بدعة لانه لو كان خيرا سبقونا اليه انهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير الا وقد بادروا ايها (تفسير ابن كثير سوره الاحقاف)*

اہل سنت وجماعت اس بات کے قائل ہیں کہ جو قول و فعل صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اس لیے کہ اگر وہ نیکی کا کام ہوتا تو وہ اس کی طرف سبقت کرتے، اور خیر و بھلائی کا کوئی کام ایسا نہیں ہے جس کی طرف انہوں نے سبقت نہ کی ہو

بعض جگہوں پر ٢٢ رجب کو کونڈے بنانے کا رواج ہے جسے حضرت جعفر صادق کا فاتحہ بھی کہا جاتا ہے اور اس سلسلے میں بعض کہانیاں بھی عوام میں رائج ہیں لیکن یہ قصہ من گھڑت ہے۔ حضرت جعفر صادق کی ذات ان واہیات سے بری ہے۔ ٢٢ رجب کو نہ تو ان کی پیدائش ہوئی اور نہ وفات بلکہ ان کی پیدائش رمضان ســــــنہ٨٣ ه‍جری میں اور وفات شوال ســــــنہ١٤٨ه‍جرى میں ہوئی ہے بلکہ یہ شیعوں کی ایجاد ہے کیونکہ ٢٢ رجب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ہے جن سے شیعہ شدید بغض رکھتے ہیں اس لئے ان کی وفات کی خوشی میں وہ میٹھی چیز تقسیم کرتے ہیں اور اسے سنیوں میں رواج دینے کے لئے حضرت جعفر صادق کے نام سے ایک قصہ گھڑ لیا

حاصل یہ ہے کہ رجب کا مہینہ حرمت و عزت والے مہینوں میں سے ہے اس اعتبار سے اس کی ایک اہمیت ہے اس لیے اس میں خاص طور سے گناہوں سے بچنا چاہیے اور عبادت کی پابندی ہونی چاہیے لیکن بطور خاص اس مہینے میں کوئی نفلی نماز یا روزہ وغیرہ ثابت نہیں ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے