رمضان اور عیدالاضحیٰ کی دس راتیں:
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
رمضان کے آخر کی دس راتوں اور ایسے ہی عیدالاضحیٰ کی شروع کی دس راتوں میں جاگنا اور عبادت میں مشغول رہنا پسندیدہ اور بہتر ہے۔(درمختار مع الردا 507 ‘ مراقی الفلاح 218)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں :
کان رسول اللہ ﷺ یجتھد فی العشر الاواخرمالا یجتھد فی غیرہ ۔
رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخر کے دس دنوں میں عبادت وغیرہ میں جو محنت و مشقت اٹھاتے تھے۔ دوسرے دنوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔(صحیح مسلم ۔ ریاض الصالحین 480)
حضرت عائشہؓ سے منقول ایک دوسری حدیث میں ہے :
اذا دخل العشر الاواخر من رمضان احیاء اللیل وایقظ اھلہ وجد و شد المئزر۔
جب رمضان کے آخری دس دن آتے تو رسول اللہ ﷺ(عبادت کے لئے) کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے، اور گھروالوں کو بھی جگا دیتے۔(صحیح بخاری و مسلم ۔ریاض الصالحین 480)
عیدالاضحیٰ کے دس راتوں کی فضیلت اس قدر ہے کہ قرآن میں ان راتوں کی قسم کھائی گئی ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
والفجر ولیال عشر ۔
اکثر علماء کی رائے ہے کہ ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں۔
اور حدیث میں ہے :
مامن ایام احب الی اللہ تعالیٰ ان یتعبدلہ فیھا من عشر ذی الحجہ یعدل صیام کل یوم منھا صیام سنۃ و قیام کل لیلۃ بقیام لیلۃ القدر
دنوں میں سے کسی بھی دن عبادت کرنا اللہ کو اتنا محبوب نہیں ہے جتنا کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں ہے۔ اس دس دن میں ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزہ کے برابر اور اس کے ہر رات کا قیام شب قدر میں قیام کے برابر ہے۔(جامع ترمذی 94/1 کتاب الصیام ۔ فضائل الاوقات 3461 للبیہقی وقال محققہ اسنادہ ضعیف ۔)
صحیح بخاری وغیرہ میں حدیث ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺ ما من ایام العمل الصالح فیھا احب الی اللہ عزوجل من ھذا الایام یعنی ایام العشر قالو ایا رسول اللہ ولاالجہاد فی سبیل اللہ قال ولا الجھاد فی سبیل اللہ الارجل خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع بشئی من ذالک
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کسی دن بھی نیک عمل کرنا اللہ کے یہاں اتنا پسندیدہ نہیں جتنا کہ ذی الحجہ کے دس دنوں میں ۔صحابہ کرام نے دریافت کیا اللہ کی راہ میں جہاد سے بھی یہ افضل ہے ؟ فرمایا: ہاں، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان اور مال کو لیکر اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلا اور کچھ بھی واپس نہ لاسکا۔ مال بھی اللہ کی راہ میں نچھاور کردیا اور جان بھی تووہ افضل ہے۔( صحیح بخاری:969.صحیح مسلم 376/1 باب القبلۃ‘ ابوداؤد 246/1 ‘ سنن دارقطنی 209/2)