سجدہ تعظیمی:

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

سجدہ صرف اللہ کے لئے زیبا ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کا سجدہ گرچہ تعظیم اور سلام کے مقصد سے ہو ناجائز اور حرام ہے۔

حدیث میں صراحتاً اس سے منع کیاگیاہے چنانچہ حضرت قیسؓ بن سعد سے منقول ہے:

’’ اتیت الحیرۃ فرایتھم یسجدون لمرزبان فقلت رسول اللہ احق ان یسجدلہ فاتیت النبی ﷺ فقلت انی اتیت الحیرۃ فرایتھم یسجدون لمرزبان فانت احق ان یسجد لک قال أرأیت لو مررت بقبری ان کنت تسجدلہ قلت لاقال فلا تفعلوا لوکنت آمراً احدا ان یسجد لاحد لامرت النساء ان یسجدن لازواجھن .

میں حیرہ گیا وہاں دیکھا کہ لوگ اپنے مذہبی پیشوا کو سجدہ کررہے ہیں، میں نے سوچا کہ اللہ کے رسول ﷺ تواس کے زیادہ مستحق ہیں ،واپس آکر میں نے آپﷺ سے یہ واقعہ بیان کرکے کہا کہ آپ تو اس سجدہ کے زیادہ مستحق ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا خیال ہے کہ اگر تم میری قبر کے پاس سے گذروگے تو اس کو سجدہ کروگے؟ انہوں نے کہا :نہیں. فرمایا :تو میری زندگی میں بھی ایسا نہ کرو اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔(رواہ ابوداؤد و فی اسنادہ شریک وقد اخرج لہ المسلم فی المتابعات ووثق الترغیب 55/3 وقال ظفر احمد العثمانی۔ شریک حسن الحدیث اعلاء السنن 433/17)

اسی طرح کی خواہش کااظہار حضرت معاذ بن جبل نے شام کے سفر سے واپسی پر کیا تھا۔ مگر اللہ کے رسول ﷺ نے سجدہ کی اجازت نہیں دی۔(رواہ ابن ماجہ وغیرہ۔ حدیث صحیح ہے۔نیل الاوطار 128/6))

امام ترمذی نے اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے:

لو کنت آمرا أن یسجد لاحد لامرت امرءۃ ان تسجد لزوجھا۔

اگر کسی کو سجدہ کا حکم دیتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔(نیل الاوطار 91/3)

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ انصار کے ایک گھرانے میں ایک اونٹ تھا جس سے وہ باغوں کو سیراب کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ بدک گیا‘ انصاری صحابی اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا ہمارا ایک اونٹ ہے جس سے ہم باغ کی سیرابی کا کام لیا کرتے ہیں۔وہ بدک گیا ہے اور کسی کو قریب آنے نہیں دیتا۔ حالانکہ کھیتوں اور باغوں میں پانی کی ضرورت ہے۔آنحضور ﷺ صحابہ کرام کو لے کر اٹھے اور باغ میں داخل ہوئے۔ اونٹ ایک گوشہ میں تھا۔آپؐ اس کی جانب چلے۔انصار نے کہا یارسول اللہ ! وہ پاگل کتے جیسا ہوگیا ہے ، ہمیں اندیشہ ہے کہ آپؐ پر حملہ نہ کردے۔ آپؐ نے کہا مجھے اس سے کوئی خوف نہیں ۔ جب اونٹ نے آپؐ کو دیکھا تو آپؐ کی طرف آیا اور سجدہ میں گرگیا۔ آپؐ نے اس کی پیشانی کا بال پکڑا اور کام میں لگادیا۔ یہ دیکھ کر صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہ یہ بے عقل جانور آپؐ کا سجدہ کررہا ہے تو ہم جو عقل و شعور کے مالک ہیں اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ کا سجدہ کریں۔ آپ نے فرمایا کسی انسان کو زیب نہیں کہ وہ کسی انسان کا سجدہ کرے اگر ایسا ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ شوہر کو سجدہ کرے۔(رواہ احمد والنسائی واسنادہ جید۔ الترغیب 55/3)

یہ حدیث تقریباً گیارہ صحابہ کرامؓ سے مروی ہے ، نیز اس مضمون کی روایت (یعنی سجدہ کی اجازت سے متعلق) بیس صحابہ کرامؓ سے منقول ہے جن میں سے بعض کی سندیں صحیح ، بعض دوسرے درجے کی (حسن) اور کچھ تیسرے درجے کی یعنی ضعیف ہیں۔ (احکام القرآن 24/1 ظفر احمد العثمانی ) اورحدیث کی مشہور کتابیں مثلاً ترمذی، ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ، مسند احمد ، بیہقی ، مستدرک حاکم، طبرانی، اور شرح السنہ وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ اور تدریب راوی میں ہے کہ جس حدیث کے ناقل دس صحابہؓ ہوں وہ متواتر ہے۔ یہی قول مختار ہے۔ (والحدیث اذا روی عن عشرۃ فھو متواتر علی القول المختار۔ حوالہ سابق)

ان احادیث میں یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ صحابہ کرام ؓ سجدۂ عبادت کی اجازت ہرگز نہیں مانگ سکتے کیونکہ ان کے سامنے واضح ہوچکا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت شرک ہے۔ قرآن نے ابتدا سے جس ذہن کی تعمیر کی تھی ممکن نہیں کہ وہ غیر اللہ کے سامنے بطور عبادت سجدہ کی رغبت ظاہر کرے، قرآن تو شروع ہی سے یہ فکر لیکر اٹھا تھا کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ ہے، محال ہے کہ جو اس فکر کے سانچے میں ڈھل چکے ہوں، توحید جن کے رگ و ریشہ میں پیوست ہوچکی ہو، وہ ایسی بے ہودہ خواہش کااظہار کریں۔ یقینا یہ صرف بطور تعظیم سجدہ کرنے کی آرزو اور تمنا تھی لیکن علمبردار توحید نے ان کے اس دلی جذبہ پر بھی بند لگادی کہ اس سے شرک کے سوتے پھوٹ سکتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

لعن اللہ الیھود والنصاری اتخذ واقبور انبیائھم مساجد۔

اللہ یہود ونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔(صحیح بخاری ومسلم)

واضح رہے کہ یہود ہمیشہ وحدانیت کے قائل رہے ہیں۔ غیر اللہ کی عبادت کو کبھی انھوں نے جائز نہیں سمجھا ۔اس لئے اس حدیث میں ان پر لعنت کی گئی ہے وہ یا تو اس وجہ سے کہ انبیاء کی قبروں کو سمت قبلہ بنائے ہوئے تھے یا بطور تعظیم قبروں پر سجدہ کیا کرتے تھے۔ بعض احادیث کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دوسری شق ہی متعین ہے۔ حضرت معاذ بن جبل نے شام میں مذہبی لوگوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہوئے دیکھ کر پوچھا:

ای شی تصنعون ھذا قالوا تحیۃ الانبیاء قلت نحن احق ان نصنع بنبینا فقال نبی اللہ انھم کذبواعلیٰ انبیائھم کما حرفوا کتابھم ۔

تم لوگ کیا کررہے ہو؟ جواب ملا یہ نبیوں کا سلام ہے تو میں نے کہا کہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ اپنے نبی کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا :ان لوگوں نے اپنے نبیوں پر بہتان باندھا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں تبدیلی کردی ہے ۔ ( رجالہ رجال الصحیح مجمع الزوائد 309/4)

‌اپنے اس خیال کے تحت کہ اس سجدہ کی حیثیت سلام کی ہے زندوں پر قیاس کرکے وفات یافتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اختیار کرلیا۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر اس کی حیثیت محض ’’سلام‘‘ کی ہے تو پھر زندوں اور مردوں میں فرق کا کوئی معنی نہیں ۔

امام ترمذی نے بہ سند حسن نقل کیا ہے کہ ایک صحابی ؓ نے عرض کیا:

یارسول اللہ الرجل منا یلقی اخاہ اوصدیقہ أینحنی لہ ٗ فقال لا:

اللہ کے رسول ! ہم میں سے کوئی اپنے بھائی ،اوردوست سے ملاقات کے وقت جھک سکتا ہے، آنحضورؐ نے فرمایا: نہیں۔ (جامع ترمذی :2728)

جب بطور تعظیم اور سلام جھکنے کی اجازت نہیں ہے تو سجدہ _ جو تعظیم کی آخری اور انتہائی شکل ہے_ کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے؟ جس شریعت میں آقا کو ’’رب ‘‘ کہنے سے اور غلام کو ’’عبد‘‘ کہنے سے (دیکھئے صحیح مسلم 237/2) محض اس وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ اس میں شرک کی جھلک ملتی ہے اس میں سجدہ تعظیمی و سلامی کو کیسے جائز رکھا جاسکتا ہے؟۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فقہاء و محدثین کا اجماع اور اتفاق ہے کہ سجدہ تعظیمی حرام اور ناجائز ہے، البتہ اس کا مرتکب کافر ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں قدرے اختلاف ہے۔ جن کی نگاہ میں سجدہ تعظیمی پچھلی امتوں میں جائز تھا انھوں نے شرک اور کفر کہنے سے احتیاط کیا۔ جن حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ سجدہ شرعی (پیشانی کو زمین پر ٹیکنا) کبھی بھی غیر خدا کے لئے مشروع نہیں رہا ان کی نظر میں اس کا ارتکاب کرنے والا کافر اور مشرک ہے ۔(دیکھئے الاعلام 34/2) شمس الائمہ سرخسی کا رجحان اسی جانب ہے ۔وہ کہتے ہیں:

ان کان لغیر اللہ علی وجہ التعظیم کفر ۔۔ اگر سجدہ غیراللہ کے لئے بطور تعظیم ہو تو وہ کفر ہے۔

’’ظہیریہ ‘‘ میں اسی کو ترجیح دی گئی ہے کہ (’’ یکفر بالسجدۃ مطلقاً ‘‘ ردالمحتار 33/5) علامہ عینی کا بھی یہی خیال ہے۔

رہا فرشتوں کا حضرت آدم کو سجدہ کرنا یا یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کا حضرت یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا تو اس کی مختلف توجہیات کی گئی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

1۔ پچھلی امتوں میں سجدۂ تعظیمی کی اجازت تھی مگر اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں شرک کے درآنے کا موقع مل گیا اس لئے خاتم النبیین کی شریعت میں اسے منسوخ کر دیا گیا تاکہ شرک کے لئے کوئی رخنہ باقی نہ رہے، ناسخ اوپر مذکورہ متواتر احادیث ہیں اور ’’حدیث متواتر ‘‘ سے قرآن میں مذکور کسی حکم کو منسوخ کیاجاسکتا ہے۔

نیز یہ آیتیں لفظی اعتبار سے گو قطعی ہیں مگر بہ اعتبارِ معنی ظنی ہیں کہ سجدہ سے مراد سجدہ شرعی ہے یا محض اطاعت و فرمانبرداری، جھکنا یا سر سے اشارہ کرنا مقصود ہے یا آدم و یوسف کی حیثیت محض سمت قبلہ کی تھی۔ اور مسجود باری تعالیٰ ہی تھا ، معلوم ہوا کہ باعتبار معنی آیت ظنی ہے جس کا نسخ خبر واحد سے بھی درست ہے بلکہ اسے نسخ کیا تخصیص یا مراد خداوندی کی وضاحت کہنا زیادہ صحیح ہے۔ (البنایه 256/4)

2۔ ’’سجدہ ‘‘ سے مراد لفظی مفہوم اطاعت و فرماں برداری اور عجز و نیاز ہے، اس معنی میں ’’سجدہ‘‘ کا لفظ خو د قرآن میں متعدد جگہوں پر آیا ہے مثلاً کہاگیا ہے :

والنجم والشجر یسجدان ۔

ستارے اور درخت دونوں تابع فرمان ہیں۔

یا مقصود جھکنا یا سرسے اشارہ کرنا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے آدم علیہ السلام کے قصہ کی یہی تفسیر منقول ہے( ’’ کان ذالک انحناء ولم یکن خروراً علی الذقن ‘‘۔تفسیر ماجدی) بلکہ حضرت یوسف کے واقعہ میں یہی توجیہ متعین ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں کہ ’’ وہ لوگ اپنے سروں سے اشارہ کرتے تھے۔ یہی ان کا سلام تھا۔ (’’یومئون برؤسھم ایماء کذالک کانت تحیتھم ‘‘.تفسیر قرطبی ) ۔ بائیبل سے بھی اس نقطۂ نظر کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انھوں نے اپنے خیمے کے طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لئے دوڑے اور زمین تک جھکے، عربی بائبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کے گئے ہیں وہ یہ ہیں:

’’فلما نظر رکض لاستقبالھم من باب الخیمۃ وسجد الی الارض۔‘‘ (تکوین :18-3)

حضرت سارہ کے دفن کے لئے ’’بنی حت ‘‘ کے لوگوں نے جب مفت زمین دے دی تو اس موقع پر اردو بائبل کے یہ الفاظ ہیں:

’’ ابراہام نے اٹھ کر بنی حت کے آگے جو اس ملک کے لوگ ہیں آداب بجالا کر ان سے یوں گفتگو کی ‘‘

اور جب ان لوگوں قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ پورا ایک کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کردیا تب ’’ابراہام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا ‘‘ مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجالانے اور جھکنے کے لئے ’’سجدہ کرنے ‘‘ ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔( ’’فقام ابراہیم و سجد لشعب الارض لبنی حت ‘‘ .تکوین 331-7)

انگریزی بائبل میں اس موقع پر Bowed کا لفظ استعمال کیاگیا ہے۔ اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائبل میں ملتی ہیں۔ اور ان سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلام کے اصطلاحی لفظ سجدہ سے سمجھاجاتا ہے۔ (دیکھیئے تفہیم القرآن )

3۔ حضرت آدم کا یہ واقعہ عالم ارواح کا ہے عالم ناسوت کا ہے ہی نہیں اور تکلیفات شرعیہ کا تعلق اسی عالم ناسوت سے ہے۔ (تفسیر ماجدی )

4۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے کہ یوسف علیہ السلام کے پانے کی خوشی میں حضرت یعقوب اوران کے دیگر بیٹوں نے اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا( ’’خروا لہ ای لاجل وجدانہ سجدوا للہ ‘‘)

امام رازی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک آیت کا یہی مفہوم متعین ہے، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

حضرت یوسف علیہ السلام کی عقل و دینداری سے بعید ہے کہ وہ یہ گوارا کریں کہ ان کے بوڑھے باپ جو مقام نبوت پر فائز اور علم و دینداری میں ان پر فائق تھے ان کا سجدہ کریں۔ (تفسیر کبیر 212/18)

رہا بعض صوفیہ کا رجحان اور طرز عمل تو وہ کسی یقینی اور مستند ذریعہ سے ثابت نہیں ،اور ان کا عمل لائق اعتبار نہیں کیونکہ ’’بقول مجدد الف ثانی ‘‘ یہاں امام محمد کے قول کا اعتبار ہے، مسائل فقہیہ میں جنید و شبلی کا قول معتبر نہیں ۔

واقعہ ہے کہ سجدہ تعظیمی ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ امت کے تمام فقہاء محدثین کا یہی رجحان ہے۔ چند ایسے لوگوں کے فعل سے استدلال کرنا جن کا علم وتحقیق میں کوئی بلند مقام نہیں نامناسب اور تحقیق واحتیاط کے خلاف ہے۔

 

****

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے