سفر میں نفل
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
اسلام ایک آسان اور سہل دین ہے ،یہاں ہر موقع پر سہولتیں فراہم کی گئی ہیں، نماز کھڑے ہوکر پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے۔ بارش ہو، تیز آندھیاں چلیں،سخت دھوپ ہوتو مسجد کے بجائے گھر پر ہی پڑھ لینا جائز ہے۔ بڑھاپے یا مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتا ہوتو فدیہ کی گنجائش ہے۔ سفر کی کلفتوں اور مشقتوں کو دیکھتے ہوئے چار رکعت والی نماز دو رکعت کردی گئی ۔ سنت موکدہ کی تاکید اب باقی نہیں، جی میں آئے پڑھے ، نہ چاہے نہ پڑھے۔بعض حضرات کاکہنا ہے کہ فجر کی سنت کی تاکید سفر میں بھی برقرار رہتی ہے، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دوران فجر کی دو رکعتیں پڑھیں نیز دوران سفر اس سنت کی قضا کا بھی ذکر حدیث میں ہے۔(رکع النبی ﷺ فی السفر رکعتی الفجر ۔صحیح بخاری 1491 باب من تطوع فی السفر۔ صحیح مسلم239/1 باب قضاء صلاۃ الفائتہ نیز دیکھئے : اعلاء السنن 289/7 ‘ زاد المعاد 161/1)
تاہم کوئی مشقت اور پریشانی نہ ہو، سکون واطمینان کی حالت ہو تو پڑھ لینا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ حضرت براء بن عازب سے منقول ہے کہ وہ اٹھارہ سفروں میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے اور آپ ﷺ نے ہمیشہ سورج ڈھلنے کے بعد ظہر سے پہلے دو رکعت پڑھی۔ ( سافرت مع النبی ﷺ ثمانیہ عشر سفرا فلم ارہ ترک رکعتین اذا زاغت الشمس قبل الظہر۔ رواہ الترمذی 123/1 وقال غریب )
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں :
صلیت مع النبی صلی اللہ فی الحضر و السفر فصلیت معہ فی السفر … ۔
مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر و حضر دونوں میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ، میں نے حضر میں آپؐ کے ساتھ ظہر چار رکعت اوراس کے بعد دو رکعت پڑھی اور سفر میں ظہر دو رکعت اور اس کے بعد دو رکعت ( سنت)اور اسی طرح عصر دو رکعت، لیکن عصر کے بعد آپ نے کوئی نماز نہیں پڑھی اور مغرب سفر و حضر میں تین رکعت پڑھتے، اس میں کوئی کمی نہ کرتے اور یہ دن کا وتر ہے اور اس کے بعد دو رکعت (سنت) پڑھتے۔ (حوالہ سابق ، وقال حسن)
ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ آپؐ نے عشاء دورکعت اور اس کے بعد دو رکعت (سنت)پڑھی۔ (رواہ الطحاوی بسند حسن۔ اعلاء السنن 289/7)
اکثر صحابہ کرام کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓکا بیان ہے کہ ہم سفر و حضر میں فرض سے پہلے اور بعد میں سنت پڑھا کرتے تھے۔(رواہ ابن ماجہ وقال السندی : وفی الزوائد اسنادہ حسن۔( حاشیہ السندی 332/1)) حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ رسول ﷺ کے صحابہ سفر میں فرض سے پہلے اور بعد کی سنت پڑھتے تھے۔ (نیل الاوطار 220/3)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے جو یہ منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ سفر میں فرض سے پہلے اور بعد سنت نہیں پڑھتے تھے۔(روی عن ابن عمر ان النبی ؐ لا یتطوع فی السفر قبل الصلاۃ ولا بعدھا ترمذی 123/1 نیز دیکھئے‘ صحیح بخاری 149/1 وغیرہ)
تو اس سلسلہ میں امام نووی کا خیال ہے کہ شاید رسول اللہ ﷺ سنت اپنی قیامگاہ میں پڑھتے تھے؛ اس لئے حضرت ابن عمرؓ کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا۔(نیل الاوطار,220/3)
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جس وقت آپ ﷺ جلدی میں ہوتے یا سفر جاری رہتا اور تھوڑی دیر کے لئے کہیں رکنا ہوتا تو سنت نہیں پڑھتے اور جب کہیں خیمہ زن ہوجاتے ،سکون واطمینان کی حالت ہوتی تو اس وقت سنت ترک نہ فرماتے یا یہ کہ کبھی رخصت پر عمل کرتے ہوئے نہ پڑھتے اور کبھی استحباب کو بتلانے کے لئے ادا کرلیتے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے جو نفی کی ہے وہ پہلی صورت سے متعلق ہے۔(عمدۃ القاری 144/7)
سفر کی سنتوں میں قصر نہیں ہے، یا تو مکمل پڑھے یا چھوڑ دے(حوالہ سابق نیز دیکھئے معارف السنن 480/4)
فرض سے پہلے اور بعد کی سنتوں کے سوا دیگر سنتیں سفر میں مستحب ہیں۔ اس کے قائل حضرت عبداللہ بن عمر بھی ہیں‌(معارف السنن 479/4)امام بخاری نے ان کے واسطہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ سفر میں سواری پر نفل پڑھا کرتے تھے اور خود ان کا عمل بھی یہی تھا ۔ (کان النبی ﷺ یصلی فی السفر علی راحلتہ . نیل الاوطار 220/3)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے