فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل:
فرض نمازوں سے پہلے سنت کی تعلیم اور ترغیب اس حکمت اور مصلحت سے دی گئی ہے کہ فرض نماز جو اللہ کے دربار عالی کی مخصوص حاضری ہے۔ اس میں مشغول ہونے سے پہلے انفرادی طور پر دوچار رکعت پڑھ کر اس دربار سے انسیت ، تعلق اور نزدیکی پیداکرلی جائے، اور فرض کے بعد نوافل کی ترغیب کا مقصد یہ ہے کہ فرض نمازوں میں کوئی کوتاہی رہ گئی ہوتو سنتوں کے ذریعہ اس کی تلافی ہوجائے۔
سنت فجر:
پنج وقتہ نمازوں میں کل بارہ رکعتیں سنت ِموکدہ ہیں، جس کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ام حبیبہؓ نے رسول ﷺ سے نقل کیا ہے :
من صلی اثنتی عشرۃ رکعۃ فی یوم ولیلۃ بنی لہ بیت فی الجنۃ وزادالترمذی اربعاً قبل الظھر و رکعتین بعدھا ورکعتین بعد المغرب ورکعتین بعدالعشاء ورکعتین قبل صلاۃ الفجر (رواہ مسلم والترمذی. بلوغ المرام 84)
جو کوئی دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھ لے تواس کیلئے جنت میں گھر بنادیا جائے گا، چار ظہر سے پہلے اور دو اس کے بعد، دو رکعت مغرب اور عشا کے بعد اور دورکعت فجر سے پہلے ۔
ان میں سب سے زیادہ تاکید اور فضیلت سنت فجر کی ہے جسے بعض علماء نے واجب بھی کہا ہے(1) حدیث میں ہے :
رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیھا (رواہ مسلم، احمد الترمذی۔ بلوغ الرام 84)
فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بہتر ہے۔
ان دو رکعتوں کی اہمیت کااندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جس میں کہا گیاہے : فجر کی دورکعتیں نہ چھوڑو گرچہ تمہیں گھوڑے کچل ڈالیں۔
(عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ لاتدعوا رکعتی الفجر ولوطردتکم الخیل ۔رواہ امام احمد،ابوداؤد، وقال العراقی ہذ احدیث صالح ،نیل الاوطار 15/3، اسناد صحیح، آثار السنن 180)
اور آنحضور ﷺ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں:
لم یکن النبیﷺ علی شئی من النوافل اشد تعاھداً منہ علی رکعتیی الفجر (رواہ البخاری ومسلم و ابوداؤد،و النسائی وابن خزیمہ ۔الترغیب والترھیب397/1)
نبی ﷺ صبح کی دو رکعتوں سے زیادہ کسی نفل نماز کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔
نیند کی کسل مندی اور تہجد پڑھنے والوں کی رعایت میں فجر سے پہلے صرف دورکعت نماز مسنون ہے اور اس سے زیادہ مکروہ ہے؛ اس لئے کہ یہ اپنے اوپر بے جا سختی ہے۔
یہ سنت بہت ہلکی پڑھی جائے:
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت فجر بہت ہلکی پڑھی جائیگی چنانچہ حضرت عائشہ کہتی ہیں :
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخفف الرکعتین اللتین قبل صلاۃ الفجر حتی انی لاقول ھل قرأ فیھا أم القرآن ؟
رسول ﷺ فجر کی سنت اس قدر ہلکی پڑھاکرتے کہ میں سوچتی کہ آیا آپﷺنے سورہ فاتحہ پڑھی ہے یا نہیں؟(2)
اورتمام فقہا و محدثین کے نزدیک یہی مسنون ہے۔ (معاف السنن 61/4) احناف بھی اسی کے قائل ہیں(3) البتہ علامہ طحاوی نے امام ابوحنیفہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ لمبی اور طویل سورہ پڑھنے کو مستحب قراردیتے ہیں۔خود علامہ طحاوی کا رجحان بھی یہی ہے(شرح معانی الاثار 146/1)
لیکن علامہ کشمیری کا خیال ہے کہ امام ابوحنیفہؓ سے یہ منقول روایت اُس صورت پر محمول ہے جب کہ کوئی تہجد کا عادی ہو اور کسی روز وقت پر بیدار نہ ہوسکے تو فجر کی سنت میں لمبی قرات کے ذریعہ اس کی تلافی کرلے۔چنانچہ امام صاحب کا جو عمل منقول ہے اس میں’’ربما‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایسا امام صاحب کبھی کبھار کیا کرتے تھے(معارف السنن 61/4)
مکمل روایت یہ ہے:
عن حسن بن زیاد قال سمعت ابا حنیفۃ یقول ربما قرات فی رکعتی الفجر جزءین من القرآن (شرح معانی الآثار 146/1)
حسن بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے امام ابوحنیفہؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ بسا اوقات میں فجر کی دونوں رکعتوں میں قرآن کا دو جزء پڑھ لیتا ہوں۔
وقت کے بعد فوراً اداکرنا:
عن حفصہؓ ان رسول اللہ ﷺ کان اذا اذن الموذن للصبح وبدأ الصبح صلی رکعتین خفیفتین (متفق علیہ ، ریاض الصالحین)
حضرت حفصہ فرماتی ہیں کہ جب موذن اذان سے فارغ ہوجاتا اور فجر اچھی طرح ظاہر ہوجاتی تو اللہ کے رسول ﷺ کھڑے ہوتے اور دورکعت ہلکی نماز پڑھتے ۔
اور حضرت عبداللہ عمر سے منقول ہے :
ویصلی الرکعتین قبل صلاۃ الفجر وکان الاذان باذنیہ .
اللہ کے رسول صبح میں فرض سے پہلے دورکعت پڑھتے اور اسے پڑھنے کیلئے اس قدر جلدی کرتے کہ گویا اقامت کہی جارہی ہے۔
اس حدیث کے پیش نظر فقہاء لکھتے ہیں کہ فجر کی سنت کو اول وقت میں پڑھنا مسنون ہے، علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
’’فجر کی سنت میں تین چیزیں مسنون ہیں، پہلی رکعت میں قل ایھا الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھنا، اول وقت میں اداکرنا، ان کو گھر میں پڑھنا "(البحر الرائق 48/2)
علامہ حلبی لکھتے ہیں:
لوگوں میں اختلاف ہے کہ فجر کی سنت کو جلدی ادا کرنا بہتر ہے یا موخر کرکے پڑھنا، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ دیر کر کے پڑھنا افضل ہے ۔ تاکہ سنت کی ادائیگی فرض کے قریب ہو۔ بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ پہلے اداکرنا بہتر ہے، حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے (کبیری 382)
مستحب سورہ:
سنت فجر کی پہلی رکعت میں’’قل ایھا الکافرون‘‘ اور دوسری میں ’’قل ھواللہ احد ‘‘ پڑھنا مسنون ہے (البحر الرائق 48/2، نووی علیٰ مسلم 251/1)
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ
رأیت النبی ﷺ شھرا فکان یقرء فی الرکعتین قبل الفجر ’’قل ایھا الکافرون وقل ھواللہ احد‘‘(صحیح مسلم 251/1 ، ابوداؤد 179/1)
تاہم انہیں دونوں سورتوں کو لازم سمجھ لینا بھی خلاف سنت ہے بلکہ مستحب ہے کہ کبھی ان دونوں سورتوں کو پڑھے اور کبھی دیگر سورتوں کو (4) چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اکثر فجر کی پہلی رکعت میں یہ آیت پڑھتے تھے:
قولواآمنا باللہ وما انزل الینا وما انزل الی ابراہیم واسمٰعیل واسحق و یعقوب والاسباط وما اوتی موسی وعیسی وما اوتی النبیون من ربھم لانفرق بین أحد منھم ونحن لہ مسلمون۔
کہدو ہم اللہ پرایمان رکھتے ہیں اور اس پر جو ہمارے پاس بھیجا گیا ہے اور اس پر بھی جو ابراہیم و اسمعیل ،و اسحاق و یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف بھیجا گیا اور اس پر بھی جو موسیٰ و عیسی کو دیا گیا، اور اس پر بھی جو دوسرے انبیاء کرام کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم ان کے درمیان تفریق نہیں کرتے اور ہم تو اللہ کے فرمانبردار ہیں۔(البقرۃ 136)
اوردوسری رکعت میں یہ آیت :
قل یا اھل الکتاب تعالو االی کلمۃ سواء بیننا وبینکم الانعبد الا اللہ ولانشرک بہ شیاً ولایتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ فان تولو فقولوا اشھدوا بانا مسلمون۔(آل عمران: 64 )
اے نبی! کہدو کہ اے اہل کتاب! ایسی بات کی طرف آؤ جو ہو ہمارے اور تمہارے درمیان میں برابر ہے وہ یہ ہے کہ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور ہم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو رب نہ ٹھہرائے، پھر اگر وہ لوگ حق سے اعراض کریں تو کہدو کے تم گواہ رہو کہ ہم تو فرمانبردار ہیں .(مسلم : 251)
حضرت ابن عباس ہی سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ پہلی رکعت میں’’قولوآمنا باللہ‘‘ (آخرتک) اور دوسری رکعت میں یہ آیت پڑھتے تھے:
” فلما احسّ عیسی منھم الکفر قال من انصاری الی اللہ قال الحواریون نحن انصار اللہ آمنا واشھدبانا مسلمون”۔ (آل عمران: 53)
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کا کفر محسوس کرلیا تو کہنے لگے اللہ کی راہ میں میری مدد کرنے والا کون ہے ؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم اللہ کی راہ کے مددگار ہیں، ہم ایمان لائے اور آپ اس پر گواہ رہئے کہ ہم فرمانبردار ہیں۔(ابوداؤد 179/1)
نماز میں مسنون سورتوں کے سلسلہ میں یہ ذہن نشین رہے کہ اکثر اس کے مطابق پڑھنا چاہئے مگر کبھی کبھار ترک کردینا بھی مناسب ہے تاکہ دیگر سورتوں سے اعراض کی کیفیت پیدا نہ ہوجائے۔ (البحر الرائق 342/1 قبیل باب الامامۃ)
اقامت کے بعد سنت فجر کی ادائیگی:
جماعت شروع ہوجانے کے بعد سنت پڑھنا مکروہ ہے (5)اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے، لیکن فجر کی سنت کے متعلق اختلاف ہے، امام ابوحنیفہ ،مالک، سفیان ثوری اور اوزاعی کے نزدیک اقامت کے بعد سنت فجر کی ادائیگی درست ہے، دیگر ائمہ کے یہاں تمام سنتوں کا حکم یکساں ہے۔ (معارف السنن 72/4)
سنت فجر کے اس خصوصی حکم کی وجہ حدیث میں اس کے پڑھنے کی حد درجہ تاکید اور صحابہ کرام کا طرز عمل ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ایک مرتبہ مسجد میں آئے تو نماز شروع ہوچکی تھی آپ نے علیحدہ سنت پڑھی پھر نماز میں شامل ہوئے. (6) حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی یہی منقول ہے. (رواہ الطحاوی طحاوی 219/1 واسنادہ حسن. صحیح اعلاء السنن 85/7)
حضرت عبداللہ بن عمر کا بھی یہی طرز عمل تھا (7) حضرت ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں آتے تو دیکھتے کہ حضرت عمر نماز پڑھا رہے ہیں ہم لوگ مسجد کے آخر میں سنت ادا کرکے قوم کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھے۔
(رواہ الطحاوی واسنادہ حسن ،آثار السنن 34/2)
خود حضرت عمرؓ بھی کبھی تاخیر ہوجاتی توایسا ہی کرتے تھے، نیز صحابی رسول حضرت ابودرداء اور تابعین میں مسردق، حسن بصری، مجاہد،مکحول، حماد بن ابی سلیمان اور ابراہیم نخعی کا یہی طرز عمل تھا (معارف السنن 73/4)
احناف کے یہاں یہ حکم اس وقت ہے جب کہ فرض کی آخری رکعت ملنے کی امید ہو (8) نیز اسے مسجد کے باہر ادا کرے (9) مسجد سے علحدہ کوئی جگہ نہ ہو تو ترک کرد ے صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
التقیید بالاداء عندباب المسجد یدل علی الکراہۃ فی المسجد.
مسجد کے دروازے کے پاس ادائیگی کی قید لگانا مسجدمیں کراہت کو بتاتا ہے۔(الھدایہ ، 152/1)
اور علامہ شامی کہتے ہیں:
مسجد کے دروازے سے مراد خارج مسجد ہے. (ردالمحتار481/1)
علامہ ابن ھمام کا بیان ہے:
فینبغی ان لا یصلی فی المسجد اذا لم یکن عند باب المسجد مکان لان ترک المکروہ مقدم علی فعل السنن (فتح القدیر416/1)
اگر مسجدکے دروازے کے پاس کوئی جگہ نہ ہو تومناسب ہے کہ مسجد میں نہ پڑھے ۔اس لئے کہ کسی مکروہ کو چھوڑ دینا سنت پر عمل کرنے سے بہتر ہے۔
بعض حنفی فقہاء کا رجحان ہے کہ مسجد کے دوحصے ہوں ایک کو سردی میں استعمال کیاجاتا ہے۔ دوسرے کو گرمی میں توخالی حصے میں سنت فجر پڑھی جاسکتی ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن نجیم مصری یہ رجحان ظاہر کرتے ہیں:
امام اندرونی حصہ میں ہوتو باہری حصے میں سنت فجر اداکرنے میں کوئی کراہت نہیں، کیوں کہ جگہ میں تبدیلی واقع ہوجانے کی وجہ سے جماعت سے علحدگی کا تصور نہیں کیاجاسکتا ،اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس صورت میں بھی مکروہ ہے کیونکہ دونوں حصے ایک ہی جگہ کی طرح ہیں، توجب مشائخ میں اختلاف ہے تو بہتر ہے کہ نہ پڑھے۔ (فاذا اختلف المشائخ کان الافضل ان لایفعل (البحر الرائق 74/2)
اس اختلاف کے باوجود تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ بغیر کسی آڑ کے اورخاص کر صف سے ملکر سنت فجر اداکرنا سخت مکروہ ہے ، ابن ھمام کہتے ہیں :
واشد مایکون کر اھۃ ان یصلیھا مخالطا للصف کمایفعلہ کثیر من الجھلۃ ۔
اور بہت سخت مکروہ صف سے ملکر ان سنتوں کو اداکرنا ہے ، جیسا کہ بہت سے جاہل کیا کرتے ہیں.(فتح القدیر416/1)
حاصل یہ ہے کہ فرض کی دوسری رکعت ملنے کی امید ہوتو مسجد سے باہر سنتِ فجر ادا کرلینا جائز ہے، امام ابوحنیفہ سے یہی مروی ہے، بعد کے لوگوں نے اس میں مزید گنجائش پیدا کی اور کہا کہ کسی حائل کی موجودگی میں مسجد میں پڑھ لینا بھی درست ہے، مگر کسی آڑ کے بغیر پڑھنے کو تمام لوگ مکروہ قرار دیتے ہیں۔(معارف السنن 72/4)
سنت فجر کی قضا :
سنت فجر کی خصوصی اہمیت اور فضیلت کی وجہ سے بہ صراحت اس کی قضاء کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابوہریرہ اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں :
من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس(10)
جو شخص سنت فجر کو نہ پڑھ سکا تو سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھے۔
سنت فجر کی قضا ء بھی سنت موکدہ ہے، علامہ ظفر احمد عثمانی کا یہی رجحان ہے. (اعلاء السنن 119/7)
واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ و ابویوسف کے نزدیک قضا صرف اس وقت مسنون ہے جب کہ فرض نماز بھی چھوٹ گئی ہو اور قضا زوال سے پہلے پڑھ رہا ہو اور اگر صرف سنت رہ گئی ہو تو اس کی قضا نہیں، امام محمد کے یہاں صرف سنت کی قضاء بھی زوال سے پہلے پسندیدہ ہے۔ (ردالمحتار 482/1، کبیری 380)
علامہ کشمیری کاخیال ہے کہ اس مسئلہ میں امام محمد کی رائے کو اختیار کرناچاہئے کیوں کہ امام ابوحنیفہ و ابویوسف سورج کے طلوع ہوجانے کے بعد قضاء سے منع نہیں کرتے ہیں۔ (العرف الشذی 99/1)
زوال کے بعد با اتفاق صرف سنت کی قضا نہیں، فرض کے ساتھ قضا کے سلسلہ میں مشائخ کے درمیان اختلاف ہے۔ (ہدایہ 153/1)قاضی خاں کی رائے ہے کہ زوال کے بعد بھی فرض کے ساتھ سنت کی قضا پڑھ سکتا ہے۔ (کفایہ مع فتح القدیر 417/1) کردری کا خیال ہے کہ دو دن تک ایسا کرسکتا ہے ۔(فتاوی بزازیہ 28/4)
فرض کے بعد سورج نکلنے سے پہلے امام ابوحنیفہ کے نزدیک سنت فجر کی قضا مکروہ کیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے:
لاصلوۃ بعد الصبح حتی تطلع الشمس ولاصلوۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس (متفق علیہ) ولفظ مسلم لاصلاۃ بعد الفجر۔
صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک کوئی نماز نہیں ہے اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہیں ہے۔(بلوغ المرام /48)
حدیث کی بعض کتابوں میں لکھا ہے ایک صحابی کو اللہ کے رسول ﷺ نے نماز فجر کے بعد سنت پڑھتے ہوئے دیکھ کر خاموشی اختیار کی جو اس عمل کے جائز ہونے کی دلیل ہے لیکن اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے. (دیکھئے المغنی 532/2) اس لئے ذکر کردہ عمومی صحیح اور قوی حدیث کو ترک نہیں کیاجاسکتا ہے، خصوصاً جب کہ حضرت ابوھریرہ کی مذکورہ روایت میں بطور خاص سورج طلوع ہونے کے بعد سنت فجر کی قضا کا حکم ہے۔
فرض وسنت کے درمیان لیٹنا :
حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ سنت فجر پڑھ کر دائیں پہلو پر لیٹ جایا کرتے تھے:
عن عائشہؓ کان النبی ﷺ اذا صلی رکعتی الفجر اضطجع علی شقہ الایمن (11)
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب فجر کی دورکعت پڑھ لیتے تو دائیں پہلو لیٹ جاتے ۔
مگر آنحضور کا لیٹنا بطور عادت کے تھا بطور عبادت نہیں (12) ایک دوسری حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ اگر حضرت عائشہ ؓ بیدار ہوتیں تو آپ ان سے بات کرتے ورنہ لیٹ جاتے :
عن عائشہ قالت کان رسول اللہ ﷺ اذا صلی رکعتی الفجر فإن کنت مستیقظۃ حدثنی والا اضطجع (13)
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دورکعت پڑھ لیتے تو اگر میں بیدار ہوتی تو مجھ سے گفتگو کرتے ورنہ تولیٹ جاتے ۔(متفق علیہ، نیل الاوطار 21/3 )
حضرت عائشہؓ سے منقول ایک روایت میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ہے کہ :
ان النبی لم یکن یضطجع لسنۃ ولکنہ کان یداب لیلتہ فیستریح. (مصنف عبدالرزاق 34/3، الاثر حسن. (اعلاء السنن 21/7)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سنت کی وجہ سے نہیں لیٹتے تھے بلکہ رات بھر (نوافل وغیرہ ) میں مشغول رہتے اُس لئے تھوڑی دیر لیٹ کرآرام کرلیتے۔
اس لئے بطور عادت فرض وسنت کے درمیان سو رہنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ آنحضرت ﷺ کی عادت شریفہ کی اتباع کے پیش نظر لیٹ جائے تو مستحق ثواب بھی ہے، علامہ انور شاہ کشمیری کا یہی خیال ہے۔(معارف السنن 17/2) علامہ ظفر احمد عثمانی بھی اس سے متفق ہیں (اعلاء السنن 22/7) اور یہی صحیح اور معتدل رائے ہے۔
طلوع فجر کے بعد دنیاوی بات چیت بہتر نہیں کیوں یہ فرشتوں کی حاضری کا وقت ہے ، اس لئے ذکر و تسبیح وغیرہ میں مشغول رہنا مناسب ہے۔ ایسے ہی فرض وسنت کے درمیان بے ضرورت گفتگو سے احتیاط کرنا چاہئے کہ فضول گوئی سے ثواب میں کمی آجاتی ہے۔(حاشیہ طحطاوی علی المراقی 258)
___________________________________
- (1) امام ابوحنیفہ سے بھی ایک قول وجوب کا مروی ہے (مراقی الفلاح ؍257 )لیکن علامہ عینی کا کہنا ہے کہ اس قول کی کوئی اصل نہیں و ھو شاذ لا اصل لہ (معارف السنن 58/4) حضرت حسن بصری بھی اس کے وجوب کے قائل ہیں۔ (نیل الاوطار15/3)
(2) صحیح بخاری 156/1، صحیح مسلم 250/1 ، سنن ابوداؤد 178/1 ، دیگر نمازوں میں آپ ﷺ کی طویل قرأت کو دیکھتے ہوئے بطور مبالغہ حضرت عائشہؓ نے یہ فرمایا کہ سورۃ فاتحہ پڑھی بھی ہے یا نہیں(شرح نووی علی مسلم 250/14)
(3) قال محمد : وبھذا ناخذ الرکعتان قبل الفجر یخففان (موطا امام محمد 145/1) نیز دیکھئے (کبیر ی ؍381
(4) فتستحب قرأۃ ھاتین السورتین وھذہ الآیات علی سبیل المناوبۃ أیاما طحطاوی علی المراقی 258
(5) حدیث میں ہے: جب اقامت شروع ہوجائے تو فرض کے علاوہ کوئی نماز نہیں. (اذا اقیمت الصلوۃ الاالمکتوبۃ. رواہ مسلم واصحاب بالسنن. جمع الفوائد 92/1)
(6) جاءنا ابن مسعود والامام یصلی الصبح فصلی رکعتین الی ساریۃ ولم یکن صلی رکعتی الفجر رجالہ موثقون (مجمع الزوائد 172/10) نیز دیکھئے (آثار السنن 32/2)
(7) وصح عنہ انہ قصد المسجد فسمع الاقامۃ فصلی رکعتی الفجر فی بیت حفصۃ ثم دخل المسجد فصلی مع الامام .(فتح الباری 126/2. طحاوی 183/1، آثار السنن 32/2)
(8) وھو ظاھرالمذہب کما فی الخلاصہ ورجحہ فی البدائع.( معارف السنن 73/4)
(9)امام ابوحنیفہ سے یہی منقول ہے اور یہی اصل مذہب ہے۔ ہدایہ ، بدائع ، عنایہ ، معراج الدرایۃ میں اسی کو ترجیح دی گئی ہے۔ (معارف السنن 72/4)
(10) جامع ترمذی 96/1، حدیث الباب قوی وصحہ الحاکم والذھبی أقرہ فی التلخیص ۔(معارف السنن 100/4 المغنی 532/2)
(11) صحیح البخاری 155/1، کتاب التہجد، لیٹنے سے متعلق آنحضور سے کوئی ارشاد ثابت نہیں ہے۔ ترمذی کے اس روایت کے متعلق: اذاصلی احدکم رکعتی الفجر فلیضطجع علی یمینہ.علامہ ابن تیمہ کہتے ہیں : ھذا باطل ولیس بصحیح وانما الصحیح عنہ الفعل لاالأمر بھا (زادالمعاد 104/1)
(12)امام ابوحنیفہ ، مالک و احمد کا یہی مذہب ہے.(دیکھئے المغنی 434/1، زادالمعاد، 106/1)
(13) صحیح بخاری 155/1۔،امام ابوحنیفہ ؒ،مالکؒ اور احمدؒ کا یہی مذہب ہے.( دیکھئے المغنی 434/1، زاد المعاد 106/1)امام شافعی کی ایک رائے کے مطابق لیٹنا مسنون ہے، جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ سنت و فرض کے درمیان فصل مسنون ہے خواہ لیٹنے کے ذریعہ ہو یا چلنے پھرنے یا بات کرنے کی صورت میں (فتح الباری 56/3، نیل الاوطار 22/3)