* سنت و نفل روزہ *
ولی اللہ مجید قاسمی
رمضان کے تقاضے کو ذہنوں میں تازہ اور اس کے پیغام کو یاد رکھنے کی خاطر متعدد مواقع پر روزہ رکھنے کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے تاکہ رمضان کا مہینہ ہماری پوری زندگی کے لئے ایک بہترین نمونہ بن جائے اور ہماری بقیہ زندگی اللہ کی بندگی اور پرہیزگاری اور تقوا کے ساتھ بسر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ الۡمُسۡلِمِيۡنَ وَالۡمُسۡلِمٰتِ وَالۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ وَالۡقٰنِتِيۡنَ وَالۡقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيۡنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيۡنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالۡخٰشِعِيۡنَ وَالۡخٰشِعٰتِ وَالۡمُتَصَدِّقِيۡنَ وَ الۡمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِيۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالۡحٰـفِظِيۡنَ فُرُوۡجَهُمۡ وَالۡحٰـفِظٰتِ وَالذّٰكِرِيۡنَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞
بیشک فرمانبردار مرد ہوں یا فرمانبردار عورتیں مومن مرد ہوں یا مومن عورتیں، عبادت گزار مرد ہوں یا عبادت گزار عورتیں، سچے مرد ہوں یا سچی عورتیں، صابر مرد ہوں یا صابر عورتیں، دل سے جھکنے والے مرد ہوں یا دل سے جھکنے والی عورتیں صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا صدقہ کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد ہوں یا روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد ہوں یا حفاظت کرنے والی عورتیں، اور اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے والے مرد ہوں یا ذکر کرنے والی عورتیں، ان سب کے لیے اللہ نے مغفرت اور شاندار اجر تیار کر رکھا ہے۔(سورہ الاحزاب: 35)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
* روزہ کے سواانسان کے ہر نیک عمل کا دس گنا سے لیکر سات سو گنا تک ثواب دیا جاتا ہے ۔ اور روزہ کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا ، وہ میری وجہ سے کھانا چھوڑ دیتا ہے، وہ میری وجہ سے پانی چھوڑ دیتا ہے ، وہ میری وجہ سے اپنی لذت چھوڑ دیتا ہے، وہ میری وجہ سے اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے ، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشگوار اور پاکیزہ ہے ، روزہ دار کے لئے دو خوشی ہے ، ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری خوشی پرودگار سے ملاقات کے وقت۔ (ابن خزیمہ)
* جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے ، جس سے صرف روزہ دار داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہوسکتا ہے اور جب روزہ دار داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا (بخاری و مسلم)
*قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں سفارش کریں گے ۔روزہ کہے گا : پروردگار! میں نے اسے کھانے اور شہوت سے روکے رکھا لہذا اس کے معاملے میں میری سفارش قبول کر لیجئے ۔ اور قرآن کہے گا : پروردگار! میں نے اسے رات میں سونے سے روکے رکھا لہذا اس کے بارے میں میری سفارش قبول کر لیجئے ۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی سفارش قبول کر لیں گے ۔(احمد ، طبرانی، حاکم)
* حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! مجھے ایسا کوئی عمل بتا دیجئے جو مجھے فائدہ پہنچائے اور ایک روایت میں ہے کہ جو مجھے جنت میں داخل کردے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ کو لازم کرلو کیونکہ اس جیسا کوئی نہیں ہے (نسائی، ابن حبان)
* جو بندہ اللہ کے راستے میں ایک روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو ستر سال کی مسافت کے بقدر جہنم سے دور کر دیتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان زمین وآسمان کے فاصلے کی طرح ایک خندق حائل کردیتے ہیں (بخاری ، مسلم، ترمذی)
اس حدیث کی شرح میں بعض علماء نے لکھا ہے کہ ہر روزہ اللہ کے راستے میں ہوتا ہے بشرطیکہ اس کا مقصد خالص اللہ کی رضامندی ہو( الترغیب والترہیب للمنذری 421/1)
مذکورہ آیت اور تمام احادیث مطلق اور عام ہیں اور ان کے عموم میں فرض و نفل ہر طرح کا روزہ شامل ہے ۔اس لئے مذکورہ اجر وثواب اور فضائل کا تعلق نفل روزہ سے بھی ہے لہذا نفلی روزوں کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ فرائض کے ساتھ نفل کی پابندی کی وجہ سے اللہ کی مدد شامل حال ہوجاتی ہے ،اور ہر موقع پر توفیق ربانی اس کی دستگیری کرتی ہے اور اس کے ہر عمل میں پروردگار کی اعانت اس کے ساتھ ہوتی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بندہ جن چیزوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ چیز فرائض ہیں اور وہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور پھر میں اس کے لئے کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کے لئے آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ، اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتاہے تو اس کی مراد پوری کر دی جاتی ہے ، اور اگر کسی چیز سے پناہ چاہتا ہے تو اسے پناہ دے دیتا ہوں۔ (بخاری)
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مکمل حمایت اور نگہبانی کا اعلان ہے ، ایسا شخص روئے زمین پر چلتا پھرتا ایک جنتی ہوتا ہے اور اس کے ہر کام میں اللہ کی رضا اور مدد شامل ہوتی ہے ۔
نفلی روزوں کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے فرض روزے میں ہونے والے کمی اور کوتاہی کی تلافی ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ حدیث میں ہے: قیامت میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال ہوگا ، اگر وہ ٹھیک رہی بندہ کامیاب اور بامراد ہوگیا اور اگر خراب نکلی تو ناکام اور برباد ہوگیا ۔ البتہ اگر فرض نماز میں کچھ کمی رہ گئی ہوتو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے : دیکھو ! میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہے ، اگر نفل ہے تو اس کے ذریعے فرض میں کمی کی تلافی کردی جائے گی اور پھر اسی طرح سے دوسرے اعمال (روزہ، زکاۃ وغیرہ) کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا یعنی اگر ان میں کچھ کمی ہوگی تو نفل کی ذریعے اسے پورا کر دیا جائے گا ۔ (ترمذی)
نیز نفلی عبادت حفاظتی دیوار کی طرح ہوتی ہے جس سے فرائض کی حفاظت کی جاتی ہے کہ جو شخص نوافل کا اہتمام کریگا یقینی طورپر وہ فرائض کا اس سے زیادہ خیال رکھے گا اور جو ایسا نہیں کریگا اس کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ ایک دن فرائض سے بھی غافل ہوجائے گا ۔ فقہ کی مشہور کتاب تاتار خانیہ میں ہے :
جو آداب میں سستی کرتا ہے وہ سنت سے محروم ہوجاتا ہے اور جو سنت میں کوتاہی کرتا ہے وہ فرائض سے محروم ہو جاتا ہے اور فرائض میں کسلمندی کرنے والا آخرت کی نعمتوں سے ہاتھ دھو لیتا ہے ۔( فتاوی تاتار خانیۃ 644/1)
اور خاص کر نفلی روزے کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے روزہ رکھنے کا تجربہ حاصل ہوتا رہتا ہے اس لئے رمضان کا روزہ رکھنے سے کوئی ڈر اور خوف پیدا نہیں ہوتا ہے
* شوال کے چھ روزے *
اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے کی توفیق عطا فرمائی اس کے شکریہ کے طور پر ، نیز نیکی سے محبت ، اس کی طرف سبقت اور تسلسل قائم رکھنے کے لئے عید کے بعد چھ روزے رکھنے چاہئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
جس نے رمضان کا روزہ رکھا اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ پورے سال کے روزے کی طرح ہے ۔ ( مسلم)
اس حدیث کے مطابق شوال کے روزوں کا ثواب رمضان کے روزوں کی طرح ہے اس طرح سے کل چھتیس روزے ہوگئے اور ایک نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے لہذا چھتیس روزے تین سو ساٹھ روزے کے برابر ہونگے ، اور اس طرح سے گویا کہ پورے سال کا روزہ ہوگیا ۔
* ذو الحجہ اور عرفہ کا روزہ *
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دوسرے دنوں کی بنسبت ذوالحجۃ کے دس دنوں میں نیک عمل کرنا اللہ عزوجل کو زیادہ پسند ہے ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ان دنوں میں نیک عمل کرنا جہاد سے بھی بڑھ کر ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ، البتہ اس مجاہد کا جہاد اس سے بہتر ہے جو اپنی جان اور اپنا مال لے کے اللہ کی راہ میں نکلا ہو اور پھر دونوں میں سے کسی کو واپس نہیں لے آیا (بخاری)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اس سے گذشتہ اور آیندہ دونوں سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں (مسلم)
* محرم اور عاشورہ کا روزہ *
محرم کا مہینہ قمری سال کا پہلا مہینہ ہے ، اس اعتبار سے گویا کہ کتاب زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو رہا ہے جس کا ہر ورق سفید اور تابناک ہے اس لئے اسے گناہ اور معصیت سے آلودہ اور تاریک نہیں کرنا چاہئے بلکہ عبادت اطاعت کی دیگر شکلوں کے ساتھ بندگی کا پیکر بن کر اس کی تابناکی اور روشنی میں اور اضافہ کرنا چاہئے، یعنی اللہ کی خوشنودی کے لئے زندگی کی ناگزیر ضرورت کھانا پانی سے دست بردار ہو جائے ، لہذا اس ماہ میں روزے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد افضل روزہ اللہ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد سب سے بہتر نماز رات کی نماز ہے ۔(مسلم)
اور خاص کر عاشورہ کے روزے کی حدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عاشورہ کے روزے سے گذشتہ سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (مسلم)
اور نبی کریم ﷺ اس دن کے روزے کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ : میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم ﷺ روزہ رکھنے کے لئے عاشورہ اور رمضان کے علاوہ کسی اور دن کو دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں۔ (بخاری و مسلم)
پچھلی امتوں میں بھی اس دن کو فضیلت کو فضیلت واہمیت کا دن سمجھا جاتا تھا، یہانتک کہ مکہ کی کافر بھی اس دن روزہ رکھا کرتے تھے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے اس دن روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد بھی آپ نے اسے باقی رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا البتہ جب رمضان کے روزے کا حکم نازل ہوگیا تو پھر اس کی پابندی باقی نہیں رہی ۔ اور آپ نے یہاں کے یہودیوں کو بھی جب اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی اور موسی علیہ السلام نے شکریہ میں روزہ رکھا ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حضرت موسیٰ کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت کے حقدار ہیں ، البتہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ اگر آئندہ سال باحیات رہا تو نو محرم کو بھی روزہ رکھوں گا ۔
* شعبان کا روزہ *
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے اور تقریباً پورا مہینہ روزہ کی حالت گذرتا ۔ (بخاری و مسلم). بعض صحابہ کرام نے اس ماہ میں کثرت سے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نےفرمایا :
رجب اور رمضان کے درمیان یہ ایک ایسا مہینہ ہے جسے لوگ غفلت میں گزار دیتے ہیں، حالانکہ اس ماہ میں بندوں کے اعمال پروردگار کے حضور پیش کئے جاتے ہیں ، اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میرے عمل کی پیشی ہو تو میں روزہ سے ہوں۔ (نسائی)
غرضیکہ کہ شعبان کا پورا مہینہ اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس لائق ہے کہ اس میں کثرت سے روزہ رکھا جائے البتہ بندہ کی کمزوری اور رمضان کی تیاری کے پیش نظر پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے سے منع گیا ہے "اذا انتصف شعبان فلا تصوموا ” (صحیح الجامع الصغیر)
گویا لوگوں کے روزہ کے لئے پندرہ شعبان آخری موقع ہے اور اس آخری دن میں فضیلت پیدا کردی گئی اور کہا گیا کہ پندرہ شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ سب کی مغفرت کر دیتے ہیں۔(صحیح ابن حبان481/12)
اور حضرت علی سے منقول ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ فرمایا : پندرہ شعبان کی رات میں نماز پڑھو اور دن میں روزہ رکھو ، کیونکہ اس رات کا سورج غروب ہونے کے بعد اللہ تعالٰی دنیاوی آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کوئی مغفرت مانگنے والا ہے جسے میں معاف کردوں ، کوئی روزی طلب کرنے والا ہے جسے میں نواز دوں ، مصیبت سے نجات مانگنے والا کوئی ہے جسے میں عافیت دے دوں اور اس طرح کا اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے ۔ (ابن ماجہ)
اس حدیث کے ایک راوی پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے اس بنیاد پر بعض لوگ اس کی اس حدیث کو بھی موضوع قرار دیتے ہیں ، لیکن محدث اعظمی کے بقول کسی ماہر حدیث عالم نے اس کی اس حدیث کو موضوع نہیں کہا ہے ، لہذا اس سے اس دن روزہ رکھنے کی ایک گونہ فضیلت معلوم ہوتی ہے بلکہ بہتر ہے کہ تیرہ ، چودہ اور پندرہ تینوں دن روزہ رکھے کیونکہ ہر مہینے کے ان تین دنوں میں اور پندرہ شعبان تک روزہ رکھنے کی فضیلت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے ۔
* سوموار اور جمعرات کا روزہ *
ساری مخلوق کے تمام اعمال ہر وقت اللہ کے سامنے ہوتے ہیں اور ہر شخص کے قول و فعل سے وہ بخوبی واقف ہیں یہاں تک کہ وہ دلوں کے بھید سے بھی آگاہ ہیں ، لیکن سب کچھ جاننے اور ہر چیز پر قدرت کے باوجود کائنات کو ایک نظام اور سسٹم کے ساتھ مربوط کر رکھا ہے جس میں سے ایک نظم یہ ہے کہ سال بھر کے اعمال شعبان میں اور ہفتے کے اعمال سوموار اور جمعرات کو ان کی بارگاہ میں پیش کئے جائیں اور بڑا خوش قسمت ہے وہ بندہ جس کے متعلق فرشتے کہیں : پروردگار! یہ اس بندے کے اعمال ہیں جس نے آپ کی خوشنودی کی خاطر آج کھانا پانی چھوڑے رکھا ہے ، نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں :
سوموار اور جمعرات کو اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش کیا جائے۔ (ترمذی)
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے، آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا: ان دو دنوں میں اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کی مغفرت کر دیتے ہیں سوائے ان دو لوگوں کے جنھوں نے ایک دوسرے سے تعلق کو توڑ رکھا ، ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انھیں چھوڑ دو یہاں تک کہ باہم صلح کرلیں ۔( ابن ماجہ)
اور صحیح مسلم میں ہے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال کی پیشی ہوتی ہے اور اللہ تعالی اس دن ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتے ہیں جو شرک میں مبتلا نہیں ہوتا ہے ، البتہ اگر دو لوگوں میں باہم دشمنی ہوتو ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان دونوں کے سلسلے میں کوئی فیصلہ مت کرو یہاں تک کہ وہ صلح کرلیں ۔
عمومی مغفرت اور بخشش کی راتوں اور دنوں میں دشمنی اور کینہ رکھنے والے کی مغفرت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور گناہ کے بارے میں یہ اندیشہ نہیں ہے کہ وہ اس کو کفر میں مبتلا کر دیگا اس لئے مومن ہونے کی بنیاد پر اس کی مغفرت اور دخول جنت کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ اگر وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے گا تو توبہ کی ذریعے معافی تلافی کرلیگا اور اگر توبہ نہ کر سکا تو پھر اس گناہ کی سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل کردیا جائے گا لیکن کینہ اور دشمنی کے بارے میں اندیشہ ہے کہ وہ انسان کو کفر اور شرک تک نہ پہنچا دے اور وہ ضد اور دشمنی میں اسلام سے خارج ہو جائے اس لئے اس کی مغفرت اور جنتی ہونے کا فیصلہ روک لیا جاتا ہے یہاں تک صلح کرلی ۔
حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میری پیدائش ہوئی ، اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا اور مجھے رسول بنایا گیا (مسلم)
* مہینے کا تین روزہ *
انسانی جسم اور زمین میں بڑا گہرا ربط ہے چنانچہ جس طرح سے زمین کا اسی فیصد حصہ پانی اور بیس فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے اسی طرح سے انسانی جسم اسی فیصد سیال اور بیس فیصد خشک اجزاء سے مرکب ہے ، نیز زمین کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیئم، سوڈیم ، سلفیٹ، کبریت ، فلورائڈ، کلورائیڈ، آئرن، اور نٹریٹ جیسے عناصر سے مل کر بنی ہے اورٹھیک یہی عناصر انسان میں موجود ہیں ۔
اگر آپ پانی کا باٹل لیں اور اس کے مشمولات کو پڑھیں توآپ کو مذکورہ تمام اجزاء ملیں گے کیونکہ پانی زمین سے نکلتا ہے ، اور اسی طرح سے مختلف پھلوں اور غلہ جات کا جائزہ لیں تو آپ کو اس میں مذکورہ تمام چیزیں موجود ہوں گی کیونکہ یہ زمین سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور چونکہ انسان کی تخلیق میں زمینی عناصر شامل ہیں نیز وہ زمین کی پیداوار اور زمین کا پانی کھاتا پیتا ہے اس لئے اس کے جسم میں مذکورہ تمام اجزاء پائے جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مِنۡهَا خَلَقۡنٰكُمۡ وَفِيۡهَا نُعِيۡدُكُمۡ وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ تَارَةً اُخرى.
اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا، اسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے، اور اسی سے ایک مرتبہ پھر تمہیں نکال لائیں گے۔(سورہ طہ :55)
اور چاند کی کشش کا اثر زمین پر پڑتاہے جس کی وجہ سے سمندر میں مد و جزر ہوتا ہے اور اس کی قوت کشش چاند کی تیرہ ، چودہ اور پندرہ تاریخ میں بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے مد و جزر میں اضافہ ہوجاتا ہے ، ان راتوں میں کسی بھی ساحلی علاقے میں جاکر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اور چونکہ انسان زمینی عناصر سے مرکب ہے اس لئے چاند کی کشش کا اثر اس کے جسم پر بھی پڑتاہے ۔اور چاند کی قوت کشش میں اضافہ کی وجہ سے انسانی جسم میں بھی ہیجان اور اضطراب برپا ہوجاتا ہے، چنانچہ ان راتوں میں قتل وغارت گری، ٹریفک حادثات ، لڑائی جگھڑے اور طلاق وغیرہ کے واقعات میں اضافہ ہوجاتا ہے ، امریکہ کا نفسیاتی ڈاکٹر لیبر کہتا ہے کہ چاند کی تکمیل اور شدت پسندانہ کاروائیوں میں مضبوط تعلق ہے ، ہسپتال اور پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ کے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں جرائم کی کثرت ہوتی ہے ، اور لڑائی جگھڑے اور طلاق کے معاملات بھی ان دنوں میں زیادہ ہوتے ہیں اور یہ ٹینشن اور ہیجان و اضطراب کا نتیجہ ہے ، اس کا ماننا ہے کہ چاند کی کشش سمندر کی طرح سے انسانوں میں بھی ہیجان کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
اس ہیجان اور اضطراب سے بچنے کا آسان راستہ روزہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے جسم میں پانی کی مقدار کم ہوجائے گی اور چاند کی کشش کا اثر کم سے کم ہوگا ۔ غرضیکہ روزہ انسان کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے اور بے حساب اجر و ثواب اور سعادت کا سبب بھی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر پہ ہوں یا سفر میں بہر صورت ان دنوں میں روز رکھتے ۔ (نسائی) اور صحابہ کرام کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے ۔ (ابوداؤد، ترمذی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کے تعلق سے فرمایا :
* صبر کے مہینے (رمضان) کا روزہ اور مہینے کا تین روزہ دل کے کھوٹ اور وسوسہ کو ختم کردیتاہے ۔( الترغیب والترہیب للمنذری 242/1)
* رمضان کا روزہ اور ہر مہینے کا تین روزہ پوری زندگی کا روزہ ہے ۔( مسلم، ابوداؤد، نسائی)
* جب تم مہینے کا تین روزہ رکھنا چاہوں تو تیرہ ،چودہ اور پندرہ کا روزہ رکھو ۔( احمد، ترمذی وغیرہ)
* ہر مہینے کا تین روزہ پورے سال کا روزہ ہے ، اور وہ ہے تیرہ ، چودہ اور پندرہ کا روزہ (نسائی، بیہقی)
* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایام بیض یعنی تیرہ ، چودہ اور پندرہ کے روزے کا حکم دیتے اور فرماتے کہ یہ پورے مہینہ کا روزہ ہے ۔ (ابوداؤد،نسائی)
* حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ*
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے پوچھا: تم ہمیشہ دن میں روزہ اور پوری رات نماز میں قرآن پڑھتے ہو ؟ عرض کیا : ہاں ۔ فرمایا: اس سے تو تمہاری آنکھ دھنس جائے گی اور نگاہ کمزور ہو جائے گی اور ایک دن تمہارا دل اکتا جائے گا ۔ جو ہمیشہ روزہ رکھے تو اس نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ ہر مہینے کا تین روزہ پورے مہینے کا روزہ ہے ۔عرض کیا میں اس زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں ۔ فرمایا: تو حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو ، وہ ایک دن روزہ
رکھتے اور ایک دن نہیں رکھتے ۔ (بخاری و مسلم)