نیت :
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
دل میں کسی کام کا ارادہ کرلینے کا نام نیت ہے۔ نیت تمام نمازوں کے لئے ضروری ہے، البتہ سنت و نقل کے لئے صرف یہ ارادہ کافی ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں، یہ کہنا بھی ضروری نہیں کہ یہ نماز اللہ کے لئے ہے، کیونکہ نماز اللہ ہی کے لئے پڑھی جاتی ہے، دوسروں کے لئے نہیں. (مراقی الفلاح 150) بعض حضرات کی رائے ہے کہ فرض سے پہلے اور بعد والی سنتوں میں، نیز تراویح میں سنت یا متابعت رسول کہنا ضروری ہے۔ قاضی خان نے اس کو صحیح کہا ہے.(فتاوی قاضی خاں 236/1 باب التراویح) لہذا احتیاط اسی میں ہے کہ تعیین کرلی جائے. (السعایۃ102/2)
بعض لوگ سنت کی نیت میں ’’سنت رسول ﷺ‘‘ کہا کرتے ہیں۔ اس سے مقصود اگر یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی اور متابعت میں یہ سنت پڑھ رہا ہوں توکوئی حرج نہیں۔ لیکن عام طور سے عوام کے ذہنوں میں اس سے یہ تصور ابھرتا جارہا ہے کہ فرض اللہ کے لئے اور سنت رسول اللہ کے لئے پڑھی جاتی ہے، اس لئے اس سے احتیاط کرنا چاہئے۔
جیسا کہ مذکور ہوا کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، مگر آج کل زبان سے نیت کرنے کے ایک عام رواج سا بن گیا ہے، حالانکہ یہ نہ تو اللہ کے رسول سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام اور تابعین عظام سے اور ائمہ اربعہ سے بھی کوئی صراحت منقول نہیں۔(دیکھئے ۔ مراقی الفلاح مع الطحطاوی 164، السعایہ 99/2) اس کے باوجود اسے اس قدر ضروری سمجھ لیاگیا ہے کہ زبان سے کہے بغیر تشفی ہی نہیں ہوتی، اسے لازم اور ضروری خیال کرلیا گیا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ عوام تو صرف زبان ہی سے کہتے ہیں وہ جانتے بھی نہیں کہ نیت دل کے ارادہ کا نام ہے۔ سنت نبوی کا دیوانہ ، فقہ کا دلدادہ، اسلامی مزاج و مذاق کا شناور ،روح شریعت سے ہم آشنا امام ربانی، مجددالف ثانی عوام کی اسی حالت کو دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں:
زبان سے نیت کرنا نہ تونبی کریم ﷺ سے منقول ہے اور نہ صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ، نہ کسی صحیح روایت میں اس کا تذکرہ ہے اور نہ کسی ضعیف حدیث میں۔ یہ لوگ تو قیام کے بعد صرف تکبیر تحریمہ کہا کرتے تھے اس لئے زبان سے نیت کرنا بدعت ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھی بدعت ہے ۔(بدعت حسنہ) یہ فقیر کہتا ہے کہ یہ تو فرض کوختم کردیتی ہے، چہ جائیکہ سنت، اس لئے کہ اکثر لوگ صرف زبان سے کہہ لینے پر اکتفا کرلیتے ہیں اور ان کا دل اس سے غافل ہوتا ہے، اس وقت نیت جو نماز کے فرائض میں سے ایک فرض ہے بالکل چھوٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔(مکتوبات 160/1 مکتوب 186)