شعبہ افتاء کے نصاب کا ایک جائزہ.

ولی اللہ مجید قاسمی۔

عام طور پر ہند و پاک کے شعبہ افتاء کے ایک سالہ کورس میں درج ذیل کتابیں پڑھائی جاتی ہیں:

1-الدر المختار:

علامہ محمد بن عبداللہ تمرتاشی (وفات 1006ھ) کی لکھی ہوئی کتاب ہے جو خوارزم کے ایک گاؤں تمرتاش کے رہنے والے اور علامہ ابن نجیم وغیرہ کے تلامذہ میں سے ہیں۔ انہوں نے فقہ حنفی کی متعدد کتابوں کو سامنے رکھ کر ایک جامع اور مختصر متن "تنویر الابصار” کے نام سے مرتب کی اور پھر خود ہی "منح الغفار "کے نام سے اس کی شرح لکھی۔
علامہ محمد بن علی__ جو دریائے دجلہ کے کنارے واقع "حصن کیفا” نامی جگہ کے رہنے والے ہیں اور اسی کی طرف نسبت کر کے حصکفی کہلاتے ہیں __ نے محسوس کیا کہ "تنویر الابصار "کو مزید نکھارنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے. اس احساس کے پیش نظر انہوں نے "الدر المختار” کے نام سے اس کی شرح لکھی جو عام طور پر شعبہ افتاء میں داخلہ نصاب ہے۔
اس کتاب کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور متعدد لوگوں نے اس کی شرحیں لکھی اور حاشیہ چڑھائے جن میں سے حاشیہ طحطاوی اور حاشیہ ابن عابدین بہت معروف و مشہور ہے ۔حاشیہ ابن عابدین کا نام "رد المحتار "ہے جسے کچھ لوگ فتاوی شامی کہا کرتے ہیں۔
فقہ حنفی کے لیے یہ کتاب ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے اور آج فقہ و فتاوی سے متعلق کوئی شخص اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے ۔علامہ شامی نے مسائل و جزئیات کو جمع کرنے اور ان کے درمیان جمع و تطبیق اور ترجیح کی بڑی کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں نقل کا اہتمام زیادہ ہے اور درایت کی طرف توجہ قدرے کم ہے۔
حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ائمہ حنفیہ اور مشائخ سے منقول مختلف فتاوی و اقوال میں کتاب و سنت کی روشنی میں جمع و تطبیق اور ترجیح کی کوشش کی جاتی اور متعدد اقوال میں حدیث سے قریب تر جو رائے ہے اسے اختیار کیا جاتا جیسا کہ علامہ فرنگی محلی اور علامہ کشمیری نے اس سلسلے میں قابل قدر کوشش کی ہے۔ کسی بھی فقہی کتاب کو اسی طریقے سے پڑھانے کی اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔

2-شرح عقود رسم المفتی:

علامہ محمد امین ابن عابدین شامی (وفات 1252ھ) نے افتاء کے اصول و آداب کو پہلے اشعار کی شکل میں بیان کیا کہ ان کو یاد کرنے اور یاد رکھنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے۔ دوبارہ انہوں نے اس کی توضیح اور تشریح کا بیڑا اٹھایا یہی تشریح "شرح عقود رسم المفتی” کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی ہے.
فقہاء حنفیہ کے طبقات ،کتابوں کی درجہ بندی ،تعارف نیز فتاوی کے لیے مناسب و معتبر اور غیر معتبر کتابوں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ فتاوی کے الفاظ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ افتاء کے طریقے اور آداب بیان کیے گئے ہیں۔ مذکورہ موضوعات پر یہ ایک جامع اور مفید کتاب ہے۔ مگر ایک مفتی کے لیے محض انہی چیزوں کا جاننا کافی نہیں ہے؛ اس لیے ضرورت ہے کہ آداب افتاء اور اس سے متعلق چیزوں کو جاننے کے لیے "اعلام الموقعین” اور "الموافقات” کو بھی مطالعہ یا محاضرہ کے لیے معاون کتابوں میں شامل کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی پیش آمدہ مسئلے میں علی وجہ البصیرہ امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔

3-الاشباہ و النظائر:

زین العابدین ابن ابراہیم مصری (وفات 970ھ) کی تالیف کردہ ہے جو ابن نجیم کے نام سے مشہور ہیں اور مذکورہ کتاب ان کی شہرہ آفاق تصانیف میں سے ایک ہے۔ "البحر الرائق” اور "شرح منار” کے مصنف کی حیثیت سے اہل علم اور ارباب فقہ و فتاوی کے درمیان ان کی بلند و بالا شخصیت روشنی کے منارہ کی طرح معروف و مشہور ہے.
مذکورہ کتاب ان کی اخیر عمر کی تالیف ہے چھ ماہ کی مختصر مدت میں انہوں نے یہ کتاب مرتب کی ہے ۔جمادی الاخری میں اس کتاب کی تالیف سے فارغ ہوئے۔ وقت کے قلت اور زود نویسی کی وجہ سے وہ اس کی کتاب کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ کر سکے جس کی وجہ سے بعض ضعیف اور غیر مفتی اقوال اس کتاب میں جگہ پا گئے ہیں نیز بہت سی جگہوں پہ نقل کردہ عبارتوں میں نقص ہے۔
یہ کتاب زیادہ تر علامہ سیوطی کی الاشباہ سے ماخوذ اور سات فنون پر مشتمل ہے اور ہر حصے میں بیش بہا فقہی مسائل کو قواعد کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
قواعد فقہ کو جاننے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے البتہ اس کے طرز تدریس میں قدر تبدیلی کی ضرورت ہے کہ کتاب میں مذکور مسائل و جزئیات پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ پیش آمدہ مسائل پر ان کی تطبیق اور اجرا کی کوشش کی جائے۔ بہتر ہوگا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے المدخل للزرقاء کو بھی زیر مطالعہ رکھا جائے اور قواعد کے احاطے کے لیے القواعد الفقہیہ للندوی وغیرہ کو بھی شامل نصاب کیا جائے۔

4-سراجی:

یہ کتاب عام طور پر مدارس میں عالمیت اور فضیلت کے درجات میں بھی پڑھائی جاتی ہے ۔وارثوں کے حصوں کو جاننے، یاد رکھنے نیز آسانی کے ساتھ ان کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے یہ ایک جامع اور بہترین کتاب ہے ۔
البتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسلام کے بعض مسائل پر کچھ حلقوں کی طرف سے شبہات اور اعتراضات وارد کیے جاتے رہے ہیں ان میں سے ایک وراثت کا مسئلہ بھی ہے اس لیے ضروری ہے کہ وراثت کی تدریس اس نہج اور طریقے سے ہو کہ اس سے اس اسلامی نظام وراثت کی حقانیت ،معقولیت اور برتری کا علم و احساس ہو۔ اس کے لیے دیگر مذاہب و نظریات اور نظام زندگی کے ساتھ تقابلی اور تنقیدی مطالعہ ضروری ہوگا۔

بعض تجاویز :

1-شعبہ افتاء میں اصول فقہ سے متعلق کسی جامعہ کتاب کو داخل نصاب کرنے کی ضرورت ہے جس میں کسی ایک مکتبہ فکر کی نمائندگی نہ کی گئی ہو بلکہ معروضی طریقے پر تمام مکاتب فکر کی رائے نقل کی گئی ہو اور سنجیدہ انداز میں اس پر تنقید بھی کی گئی ہو۔ "اصول فقہ لابی زہرہ” اور وہبہ زحیلی اس سلسلے میں مفید کتاب ثابت ہو سکتی ہے۔
جس طرح سے نحو و صرف کے پڑھنے کا مقصد ہے زبان کے استعمال میں انہیں جاری کر کے غلطیوں سے بچا جائے اسی طرح سے اصول فقہ کے پڑھنے کا بھی یہی مقصد ہونا چاہیے اور حل مسائل میں انہیں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
2-مذاہب اربعہ کے متون کا مطالعہ کرایا جائے اور ان کے درمیان آزاد تقابلی مطالعہ کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔بدایۃ المجتہد اور الفقہ الاسلامی و ادلتہ کو اس سلسلے میں معاون کتابوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
3-تمام مسالک کی وہ کتابیں شامل نصاب کی جائیں جو پہلے دور میں لکھی گئی ہوں جیسے امام محمد کی کتاب الجامع الصغیر اور امام شافعی کی کتاب الام وغیرہ ۔
4-اعلام الموقعین کے مطالعے یا اس کی روشنی میں محاضرہ کا نظم کیا جائے اور حجت اللہ البالغہ سے اسرار شریعت کی تطبیق سے متعلق بات کو داخل نصاب کیا جائے۔
5-کتاب کے بجائے فن کی تدریس ہونی چاہیے اور کم از کم رسمی طالب علمی کے اس آخری دور میں طلبہ کو بھی تدریس کے عمل میں شامل کیا جائے اور درس میں محاضراتی طریقہ اختیار نہ کیا جائے جیسا کہ عام طور پر مدارس میں رائج ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے