صلوۃ التسبیح
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے چچا حضرت عباس سے فرمایا : میرے چچا‘ کیا میں آپ کو ایک گرانقدر تحفہ عنایت نہ کروں؟ کیا میں آپ کو ایک خاص بات نہ بتاؤں‘ کیا میں آپ کو دس ایسی چیزوں سے آگاہ نہ کروں کہ اگر آپ ان پرعمل کرلیں تو آپ کے اگلے پچھلے‘ نئے‘ پرانے‘غلطی سے ہونے والے‘ جان بوجھ کر کئے جانے والے ‘چھوٹے ‘ بڑے‘ پوشیدہ اور کھلے طورپر کئے ہوئے تمام گناہوں کو اللہ مٹا دے گا۔ وہ عمل یہ ہے کہ آپ چار رکعت نماز پڑھیں ہررکعت میں سورہ فاتحہ اور کوئی سورہ پڑھیں‘ جب قرات سے فازغ ہوجائیں تو قیام ہی کی حالت میں پندرہ مرتبہ سبحان اللہ والحمد اللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر پڑھیں۔ پھررکوع میں یہی دعا دس مرتبہ پڑھیں اور رکوع سے اٹھ کر قیام کی حالت میں بھی دس مرتبہ یہی کلمات کہیں پھر سجدہ میں چلے جائیں اور اس میں بھی دس مرتبہ یہ کلمات کہیں پھرسجدہ سے اٹھ کر بیٹھنے کی حالت میں دس مرتبہ پڑھیں پھردوسرے سجدہ میں دس دفعہ اور دس بار دوسرے سجدہ سے اٹھ کر کھڑے ہونے سے پہلے بیٹھنے کی حالت میں پڑھیں‘ تو ہررکعت میں پچھہتر مرتبہ ہوگیا۔ اس طرح سے چاررکعت میں پڑھیں۔( یہ حدیث تقریباً دس صحابہ کرام سے منقول ہے‘ ان میں سند کے اعتبار سے سب سے قوی مذکورہ روایت ہے۔ قدیم محدثین میں سے کسی نے بھی اسے موضوع نہیں کہا ہے۔ بعض نے صحیح اور بعض نے حسن کا حکم لگایا ہے۔ دیکھئے : معارف السنن 4؍285 الآثار المرفوعہ ؍ 123،علامہ البانی نے بھی حسن قرار دیا ہے۔)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس نماز کی حکمت کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے نفل نمازوں میں بہت سے دعائیں منقول ہیں۔ جو لوگ ان اذکارودعاؤں کو یاد نہیں کرسکتے اورموقع کے اعتبار سے ان کو پڑھ نہیں سکتے ‘ وہ اذکار و دعاوؤں والی کامل ترین نماز سے محروم رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے یہی صلوۃ التسبیح اس کامل ترین نماز کی جگہ لے لیتی ہے۔ کیونکہ اس میں ذکر وغیرہ کی ایک بڑی تعداد شامل کردی گئی ہے اور چونکہ اس میں ایک ہی دعا بار بار پڑھی جاتی ہے۔ اس لئے اسے یاد رکھنا اور موقع کے اعتبار سے پڑھنا عام لوگوں کے لئے بھی مشکل نہیں ہے(حجۃ اللہ البالغہ 2؍20) کس قدر امت پرشفقت ہے ؟ ثواب کی اور بخشش کی کن کن آسان راہوں کی نشاندہی کی گئی ہے ؟ اس کے باوجود بھی کوئی تہی دامن رہ جائے تو اس سے بڑابدنصیب کون ہوگا ؟؟ جس نے بھی کہا ہے‘ بہت سچ کہا ہے کہ’’ اس قدر فضیلت جان لینے کے باوجود کوئی اس نماز کو چھوڑ دے تووہ دین کے معاملہ میں بہت سست ہے(ردالمحتار 1؍508)
پڑھنے کا طریقہ:
صلوۃ التسبیح کے پڑھنے کا ایک طریقہ تووہی ہے جو اوپر کے حدیث میں مذکور ہے۔ ایک دوسرا طریقہ جلیل القدر محدث اور فقیہہ حضرت عبداللہ بن مبارک سے منقول ہے‘ جس میں الحمداللہ سے پہلے پندرہ بار اور دس بار الحمداللہ اور سورہ پڑھ کر مذکورہ کلمات کو کہنا ہے پھر رکوع میں دس مرتبہ اور دس باررکوع سے اٹھ کر دونوں سجدہ میں اور دونوں سجدہ کے درمیان دس ‘دس دفعہ پڑھے جائیں البتہ دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح ہررکعت میں پچھتہر مرتبہ اور چار رکعتوں میں تین سو مرتبہ یہ دعا پڑھی جائے گی (جامع ترمذی 1 ؍109)
علامہ ابراہیم حلبی اور کچھ دوسرے فقہاء نے اس دوسرے طریقہ کو ترجیح دی ہے۔ کیونکہ اس میں دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھنا نہیں پڑتا اور دوسرے سجدہ کے بعد بیٹھنا عام نمازوں میں حنفیہ کے یہاں مکروہ ہے(کبیری ؍ 411) لیکن علامہ کشمیری نے پہلے ہی طریقہ کو افضل اور بہتر قراردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عام نمازوں کی بہ نسبت اس نماز کی ایک الگ ہی شان ہے۔ لہذا پسندیدہ پہلا طریقہ ہے(معارف السنن 4؍285)
وقت:
اس نماز کے لئے کوئی وقت متعین نہیں‘ تاہم زوال کے بعد پھر دن میں کسی وقت پھر رات میں پڑھنا افضل ہے‘ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر کو یہی تعلیم دی (سنن ابوداؤد 1؍184) افضل تو یہی ہے کہ یہ نماز روزانہ پڑھی جائے‘ اگر روزانہ دشوار ہوتو ہر جمعہ کو ایک مرتبہ یہ بھی نہ ہوسکے تو مہینہ میں ایک بار‘ یہ بھی مشکل ہوتو پھر سال میں ایک بار اور کم سے کم زندگی میں ایک دفعہ تو پڑھ ہی لینا چاہئیے۔( جامع ترمذی 1 ؍109)
مختلف مسائل:
ایک روایت میں دعا کے الفاظ یہ ہیں۔ سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔( مستدرک حاکم 1؍319) یہ دعا رکوع اور سجدہ کی تسبیح پڑھنے کے بعد پڑھی جائے گی (جامع ترمذی 1؍109 عن عبداللہ بن مبارک) کسی جگہ دعا بھول جانے یا مقررہ عدد سے کم پڑھنے کی صورت میں اس کے بعد والے رکن میں پڑھ لینا چاہئیے۔( ردالمحتار 1؍508) ان تسبیحات کی تعداد کو ذہن ودماغ میں محفوظ رکھنا چاہئیے لیکن اس کی وجہ سے خشوع وخضوع برقرار نہ رہے تو پھر شمار کرنے کے لئے کوئی علامت مقرر کرلینا بہتر ہے۔ بایں طور کہ ایک مرتبہ پڑھنے کے بعد ایک انگلی کودباتا جائے‘ زبان سے ہرگز نہ شمار کرے کہ اس سے نماز ٹوٹ جائے گی(حوالہ سابق) حدیث کے الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ چاررکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں گی(معارف السنن 4؍286) لیکن عبداللہ بن مبارک کا خیال ہے کہ رات میں دو سلام سے پڑھنا چاہئیے اور دن میں اختیار ہے چاہے ایک سلام سے چاہے دو سلام سے (جامع ترمذی 1؍109) حضرت عبداللہ ابن عباس سے دریافت کیاگیا کہ اس نماز کے لئے کوئی مخصوص سورہ ہے تو انہوں نے فرمایا ہاں‘ سورہ تکاثر العصر والکافرون اور الاخلاص ہے(ردالمحتار 1؍508) لیکن علامہ بنوری فرماتے ہیں کہ یہ روایت حدیث کی کس کتاب میں ہے؟ میں اس سے واقف نہ ہوسکا لم اقف علی تخریج ھذہ الروایۃ (معارف السنن 4؍287) بعض حضرات کی رائے میں سورہ حدید‘ حشر‘صف اور تغابن کو پڑھنا افصل ہے کیونکہ اس نماز اور ان سورتوں کے نام میں مناسبت ہے(ردالمحتار 1؍508) علامہ ھیشمی نے ایک حدیث نقل کیاہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اول مفصلات کوپڑھنا چاہئیے۔ فاقرء بفا تحۃ الکتاب وسورۃ ان شئت وان شئت جعلتھا من اول المفصل (حدیث ضعیف ہے‘ وفیہ نافع بن ھرمز وھوضعیف مجمع الزوائد 2 ؍ 281)
ان تسبیحات کوقومہ کی حالت میں ہاتھ باندھ کرپڑھنا چاہئیے(حاشیہ طحطاوی علی الدر 1؍218)