ضبط تولید سے متعلق شرعی احکام و مسائل

مقالہ نگار : نسیم ظفر بلیاوی

متعلم : مدرسہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو

دور حاضر میں مسائل کی اس قدر بھرمار ہو گئی ہے کہ ایک مسئلہ حل نہیں ہوتا، دوسرا مسئلہ وجود پذیر ہو جاتا ہے، فقہاء اسلام ابھی ایک موضوع سے نمٹنے بھی نہیں پاتے کہ دوسرا معاملہ ان کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے، ان میں سے بعض موضوعات ایسے ہیں، جن کی صراحت و وضاحت قرآن و حدیث میں موجود ہیں، جس کی بنا پر مسائل کی توضیح و تشریح کے لیے علماء و فقہا کو بڑی حد تک آسانی ہوتی ہے، لیکن وہیں بعض موضوعات ایسے ہیں، جن کا قرآن و حدیث میں باضابطہ کوئی حکم دستیاب نہیں ہے، وہاں علماء و فقہاء کو مسئلے کی نوعیت و حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے، مشقت و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فقہاء و مجتہدین اور سلف صالحین کی کتابوں کو کھنگالنا پڑتا ہے، لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ماضی تاحال امت میں ایسے دقیق النظر، دور رس اور بابصیرت علماء و مجتہدین کا سلسلہ رہا ہے اور ہے، جو جدید اور اختلافی مسائل کا حل مآخذ اصلیہ سے نکالنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں اور قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح اسلامی فکر و فلسفہ کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہیں، جس پر کلام کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔

اسی طرح کا ایک مسئلہ "فیملی پلاننگ اور ضبط تولید” کا بھی ہے، جس پر ہمارے اسلاف نے بڑے محقق و مدلل انداز میں کام کیا ہے، اس کے باوجود آج یہ مسئلہ ہمارے اندر بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے، لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، جس سے عوام یکسر طور پر ناواقفیت و لا علمی کا شکار ہیں اور کچھ باخبر ہیں، تو وہ بھی حد درجہ متاثر و منفعل ہیں ۔

 واضح رہے کہ یہ مسئلہ ہندوستان کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ مغرب کی ناجائز پیداوار ہے، جو پہلے ایک خاص معاشی نوعیت کی حیثیت سے تھا، لیکن پھر بعد میں سیاسی و اقتصادی حدود سے متجاوز ہو کر مذہبی رخ اختیار کر گیا اور فقہی مباحث کا موضوع بن گیا ۔

 اس لیے اس موضوع کی باریکی و حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعظیم کے قابل، باوقار عالم و مفتی، استاذ محترم حضرت مولانا "مفتی ولی اللہ مجید قاسمی” صاحب دامت فیوضہم کا "ضبط تولید” پر خامہ فرسائی کا حکم ہوا، جو بہ حمداللہ تیار ہے، جس میں راقم الحروف نے قرآن و سنت کی روشنی میں قدیم و جدید فقہاء و علماء کی فقہی عبارات سے "ضبط تولید” کے تمام تر پہلو پر تفصیلی گفتگو کیا ہے؛ نیز اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ ضبط تولید کے مالہ وما علیہ سے مکمل آگاہی و واقفیت ہو جائے ۔

 البتہ ضبط تولید کے مسئلے میں فقہی جزئیات پر غور کرنے سے قبل میں آپ کے سامنے اسلام کے چند اساسی و کلیدی اصول کو بیان کرنا مناسب و موزوں سمجھتا ہوں جو مسئلے کی توضیح میں ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں تاکہ اس کی ورق گردانی کے بعد اگر ایک طرف آپ کو ضبط تولید سے متعلق فقہی مسائل کا علم ہو جائے، تو وہیں دوسری طرف معاشرے میں رائج اس کی برائیوں اور خرابیوں سے بھی صحیح طور پرمعلومات و آشنائی ہو جائے ۔

نکاح کا مقصد

سب سے پہلے یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اسلام میں نکاح کی بڑی اہمیت ہے، انبیاء کرام کی مبارک سنت ہے، انسانی بقا و تحفظ کا ضامن ہے، دیگر فطری ضروریات کی طرح نکاح بھی انسان کی ایک اہم فطری اور ناگزیر ضرورت ہے اور ہر انسان اپنے فطری جذبات، گہرے احساسات اور اپنی قلبی خواہشات کو تکمیل کرنے کا خواہاں اور آرزومند رہتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ اسلام میں صرف نکاح سے جنسی تسکین اور خواہشات کی تکمیل ہی اصل مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود "توالد و تناسل” ہے چناں چہ جب ہم ازدواجی تعلقات کے مقصد کو سمجھنے کے لیے قرآن کی آیت کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو قرآن کہتا ہے "فاتوا حرثكم أنى شئتم” ( البقرۃ : 223 )

 اس کی مزید توضیح کے لیے جب ہم آقا ﷺ کی حدیث کی طرف رخ کرتے ہیں تو آقا ﷺ کا یہ فرمان ملتا ہے کہ "تناكحوا تناسلوا” (احیاء علوم الدین 48/2،کتاب آداب النکاح) نکاح کرو اور اس سے نسل کی افزائش کرو ۔

 اور جب ہم صحابہ رضی اللہ عنہ کے اقوال کی طرف منتقل ہوتے ہیں، تو ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول باصرہ نواز ہوتا ہے کہ میں صرف بچوں کے لیے شادی کرتا ہوں،( احیاء علوم الدین 45/2 کتاب آداب النکاح) اسی طرح امام غزالی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نکاح کا سب سے پہلا فائدہ بچہ ہے، وہی نکاح کا اصل منشاء ہے، اسی کے پیش نظر نکاح ہوا ہے؛ تاکہ نسل انسانی باقی رہے اور دنیا نوع انسانی سے خالی نہ ہو جائے ۔ (احیاء علوم الدین 225/2، کتاب آداب النکاح)

ان نصوص سے یہ عیاں ہے کہ اسلام میں نکاح سے صرف جنسی تسکین مطلوب نہیں ہے بلکہ اصل توالد و تناسل مقصود ہے ۔

 بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ نکاح سے اصل عزت و آبرو اور فحاشی و برائی کا خاتمہ مقصود ہے، ان کی یہ بات ایک حد تک درست ہے، بلا شک و شبہ نکاح عفت و عصمت کا تحفظ ہے، لیکن اس کا درجہ توالد و تناسل کے بعد آتا ہے، کیونکہ "ایک مرتبہ ایک صحابی حضرت محمد ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا کہ ایک خوبصورت عورت ہے، میرا اس پر دل آگیا ہے، مگر اس کو بچہ نہیں ہوتا، کیا میں اس سے نکاح کر لوں ؟ تو اللہ کے نبی ﷺ نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ ایک کالی بچہ پیدا کرنے والی عورت میرے نزدیک اس حسینہ و جمیلہ سے بہتر ہے” (احیاء علوم الدین 26/2، کتاب آداب النکاح) اب اگر نکاح سے صرف عفت و عصمت مقصود ہوتا، تو اللہ کے نبی ﷺ صحابی کے اجازت طلب کرنے پر اجازت دے دیتے نہ کہ نفی میں جواب دیتے، یہی وجہ ہے کہ ابو اسحاق شاطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے "ان الشارع قصد بالنكاح مثلا التناسل اولا ثم يتبعه التعفف مما حرم الله او نحو ذلك” (الموافقات فی اصول الشریعہ 146/1 النوع الاول فی الاسباب) نکاح سے شارع تعالی کا اولین مقصود توالد و تناسل ہے، عفت و پاکدامنی ثانوی درجے میں مقصد نکاح ہے ۔

الغرض اس بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلام میں نکاح سے توالد و تناسل مقصود ہے نہ کہ محض جنسی خواہشات کی تکمیل، مزید برآں اسی بحث کے ضمن میں یہ معاملہ بھی آشکار ہو گیا کہ آج کل جو فقر و فاقہ، اقتصادی بحران، کثرت اولاد کی وجہ سے تنگ حالی و تنگ دستی میں اضافے کا خوف اور اہل و عیال کی پرورش؛ نیز ان کی ضروریات زندگی کے بارے میں بوجھ اور خرچ سے ڈر کر باقاعدہ فیملی پلاننگ کے ذریعے ضبط تولید یعنی "بچے کی پیدائش کو ضائع کر دیا جاتا ہے” بزبان دیگر اولاد کو قتل کر دیا جاتا ہے۔

 واضح رہے کہ قرآن اس فعل مذموم کی سخت مذمت و ملامت کرتا ہے چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے :

"لا تقتلوا أولادكم من املاق نحن نرزقكم و اياه‍م” (انعام : 151) اپنی اولاد کو بھوک و افلاس کی وجہ سے قتل نہ کرو، ہم ہی تم کو بھی رزق دیتے ہیں اور اس کے بھی رزق رساں ہیں ۔

دراصل اللہ تعالی یہاں صرف قتل کی ممانعت نہیں فرما رہا، بلکہ حقیقت میں اس مکروہ تصور کی ممانعت بیان کر رہا ہے، جو انسان معاش و فقر، خورد و نوش اور اولاد کے سارے جھمیلوں اور اخراجات کے ڈر کی وجہ سے افزائشِ نسل کو برباد کر رہا ہے، نیز آیت قرآن کے آخری فقرے سے یہ واضح کرنا بھی مقصود ہے کہ جس چیز کو ان لوگوں نے قتل اولاد کا سبب بنا لیا ہے، وہ باطل ہے اور خدا ہی ان کے رزق کا ضامن ہے ۔

دوسری بات یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کائنات کا خالق اللہ تعالی ہے، اسباب و وسائل کی کنجی اسی کے ہاتھ میں ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس نے انسانوں کو بس یوں ہی پیدا کردیا ہے؛ بلکہ اس نے تمام انسانوں کو پیدا کرنے کے ساتھ ان کے رہنے سہنے کا نظم و نسق اور بند و بست بھی کر دیا ہے، جیسے جیسے اس دنیا میں انسانوں اور جانوروں کی خلقت ہوتی ہے، ویسے اللہ تعالی خوراک و طعام کے دائرہ کار کو بھی وسیع کر دیتا ہے، اس لیے اگر وہ چاہ جائے تو اپنی مخلوقات کو دنیا کے کسی کونے میں بھی زندہ رکھ سکتا ہے، لیکن اگر وہ کسی کے لیے دشواری و پریشانی ہی مقدر کر دے تو انسان لاکھ کوشش کر لے وہ پریشانی و تنگی کو کسی بھی صورت میں مٹا نہیں سکتا ۔

"له مقاليد السموات والأرض يبسط الرزق لمن يشاء و يقدر له” (شوریٰ:12)

ضبط تولید کی تحریک کے مہلک اثرات

ضبط تولید کے ذریعے اولاد کو قتل کرنا نہایت مذموم فعل ہے، مالک حقیقی سے بغاوت اور دھوکہ دھڑی کے مترادف ہے؛ نیز اسی کے ساتھ اس سوال کا جواب دینا اور قارئین کا جاننا بھی ازحد ضروری ہے کہ سماج میں ضبط تولید کی تحریک کے کیا اثرات و حوادثات ہیں، اور مصلح قوم و ملت آخر اس کی مذمت و کراہت کیوں بیان کررہے ہیں ؟

( 1 ) ضبط تولید کی پہلی خرابی یہ ہے کہ سماج و معاشرے میں ضبط تولید کی تحریک کے جو اثرات رو بہ عمل ہوئے ہیں، جو فواحش و منکرات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور جن ممالک میں اس تحریک کو فروغ و بڑھوتری حاصل ہوئی ہے اور اب تک کے تجربات مشاہدات سے اس کی وجہ سے جن اخلاقی برائیوں، بے حیائیوں اور بے خرابیوں کا علم ہوا ہے، وہ بڑی تشویش انگیز اور ذہن و دماغ کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کر دینے والی ہیں، چناں چہ جب ضبط تولید کے مہلک اثرات کے متعلق ہم تحقیق و جستجو کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک تخمینہ کے مطابق امریکہ میں ہر سال اوسطاً 10 لاکھ حرامی بچے اسقاط کے ذریعے ضائع کر دیے جاتے ہیں، 50 فیصد کنواری عورتیں اور 60 فیصد تک شادی شدہ عورتیں زنا میں ملوث رہتی ہیں (اسلام اور ضبط ولادت :41) اور امریکہ میں ضبط تولید کا سامان 25 بڑے کارخانے رات دن بنا رہے ہیں اور امتناع حمل کی گولیاں 15 لاکھ روز بنتی ہیں، اور ہر سال تقریباً سوا ارب روپیہ کا ضبط تولید کا سامان تیار ہوتا ہے (فریب تمدن :248)

واضح رہے کہ یہ رپورٹ آج سے کئی سال پہلے کے ہیں، اب نہ معلوم یہ اعداد و شمار کہاں تک پہنچے ہوں گے

 اسی طرح خود ایک فرانسی جج (مارشل سکوٹ) کا کہنا ہے کہ پیرس میں 8 ہزار عصمت فروش عورتیں اپنے ہوٹلوں اور مکانوں سے نکل کر شام ہوتے ہی اپنا کاروبار شروع کر دیتی ہیں اور ہر رات ان 10 ہزار عورتوں کو تقریبا 50 ہزار گاہک ملتے رہتے ہیں (عورت اسلامی معاشرے میں: 308) مزید افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اپنا ملک ہندوستان بھی اس سے پیچھے نہیں ہے، مذہبی ملک ہونے کے باوجود اس میں بھی فواحش و مضرات کی جڑیں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہیں، حالیہ ایمرجنسی کے دوران صرف مہاراشٹر میں جن عورتوں نے اسقاط حمل کرایا ہے، ان میں تین ہزار سے زیادہ کنواری 200 سے زیادہ بیوائیں اور 300 سے زیادہ عورتیں ایسی ہیں، جو اپنے شوہروں سے علیحدہ و کنارہ کش ہو کر زندگی بسر کر رہی ہیں (انڈین ایکسپریس: 28/دسمبر 1976ء)

طلاق کی کثرت

( 2 ) ضبط تولید کی دوسری بڑی خرابی طلاق کی کثرت اور اس کا بکثرت رواج ہے، آج ہر جگہ طلاق کی بہتات ہو گئی ہے، باتوں بات میں شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے، لفظ طلاق کا بلا ضرورت و بےجا استعمال عام سا ہو گیا ہے، طلاق کے بارے میں بڑی افراط و تفریط کا ماحول ہے، اس کی بنیادی وجہ "ضبطِ تولید” ہے کیونکہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ "اولاد” میاں بیوی اور ماں باپ کے درمیان تعلق قائم رکھنے میں ایک مضبوط کڑی ہوتی ہے اور اولاد کی تعلیم و تربیت، ان کی دیکھ بھال، ماں باپ کی شرکت، اور ان کے درمیان محبت قائم رکھنے میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے اور بسا اوقات کبھی زوجین کے درمیان چپقلش اور کشیدگی واقع ہو جاتی ہے، تو صرف اولاد کی وجہ سے زوجین حتی الامکان اختلاف و انتزاع سے احتراز کرتے ہیں اور اگر بعض دفعہ افتراق ہو بھی جاتی ہے، تو اولاد کی وجہ سے ہی ان کے مابین جلد یا بدیر صلح و مصالحت ہو ہی جاتی ہے اور جب اولاد کا وجود اور نام و نشان ہی نہ ہو، تو پھر زوجین کے لیے ایک دوسرے سے الگ ہو جانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، دونوں کے درمیان مضبوط و مستحکم رشتہ پائیدار نہیں ہو پاتا، ایک دوسرے کو چھوڑ دینا بہت آسان ہو جاتا ہے، اس لیے عام طور پر باہمی ناچاقیاں اور طلاق اس فعل بد کا لازمی نتیجہ ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ "سویت روس” میں ایک روسی ڈائجسٹ کے بیان کے مطابق روزانہ اوسطاً 2 ہزار طلاق کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ہر تین میں ایک شادی طلاق پر ختم ہوتی ہے (دعوت /7 اپریل 1978ء) اسی طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلس خواتین کی اہم عہدہ دار "محترمہ اسماء زہرہ” کا کہنا ہے : کہ ہندوستان میں "آر ٹی آئی” کے ذریعے 2011 سے 2015 کے درمیان مسلم اکثریتی اضلاع کے طلاق کے اعداد و شمار جو سامنے آئے ہیں، وہ بے حد مایوس کن اور چوکا دینے والے ہیں؛ چناں چہ مسلمانوں میں طلاق کے معاملے 1307 ہندوؤں میں 16505 عیسائیوں میں 4827 اور سکھوں میں 8 طلاق کے معاملے سامنے آئے ہیں” (نودیئے ٹائمس ہندی 30/اپریل2017ء) اور سروے کے مطابق طلاق حاصل کرنے والوں کی اکثریت ان لوگوں سے تعلق رکھتی ہے، جو بے اولاد ہیں ۔

اس تجزیہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مذکورہ واقعات بھی ان ممالک کے ہیں، جو ممالک مادی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں اور جن کو اپنے سپر پاور ہونے کا دعوی ہے، خود کو ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ قوم گردانتے ہیں، مگر اب وہ معاشرتی و خاندانی اعتبار سے بالکل دیوالیہ ہو چکے ہیں، ان کے خاندانی نظام کا شیرازہ بری طرح منتشر ہو چکا ہے اور یہ ظلم انہوں نے خود اپنے اوپر ڈھایا ہے، عالمی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ 60 سال پہلے کے حالات سے تقابل کریں، تو آج دنیا میں شادیاں کم اور طلاقیں زیادہ ہو رہی ہیں ۔

بہرحال یہ ہیں ضبط تولید کی تحریک کے مہلک کرشمے، یہ تو ابھی صرف فواحش کی کثرت، طلاق کی کثرت اور اس کے نقصانات کا معمولی تجزیہ تھا، ورنہ ضبط تولید کی وجہ سے سماج میں جو کمزوریاں اور بے حیائیاں فروغ پا رہی ہیں اور اس کی وجہ سے جو جسمانی نقصانات، خانگی و گھریلو اختلافات، اخلاقی و تربیتی مضرات نیز قومی اور اجتماعی نقصانات جو معرضِ وجود میں آ رہے ہیں، ان کا تجزیہ کرنا اور اندازہ لگانا مشکل اور تفصیل طلب مسئلہ ہے ۔

واضح رہے کہ یہ بے حیائی و عریانیت اگرچہ یقینی و لازمی نہیں ہے، لیکن امکان غالب کے درجے میں ضرور ہے اور یہ بات ہرکس و ناکس جانتا ہے کہ شریعت نے اُن چیزوں کی بھی نکیر فرمائی ہے، جن سے کسی برائی کا پیدا ہونا یقینی ہو، یا اس کا ظن غالب ہو، مثلا اللہ تعالی نے نہ صرف زنا سے منع فرمایا ہے، بلکہ دواعئی زنا سے بھی بچنے کی پوری تاکید فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد باری تعالی ہے : "لا تقربوا الزنا” (الاسراء :32) زنا کے قریب بھی نہ جاؤ) لا تقربوا لفظ سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ ان محرکات و وجوہات سے بھی دوری اختیار کرو، جس سے آگے چل کر عفت و عصمت کے مجروح ہونے کا اندیشہ ہو ۔

حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں، کہ ضبط تولید کی تحریک کے سماج پر کیا اثرات و نتائج ہیں، یہ مسئلہ نہ تو شرع اسلام کی کسوٹی پر صحیح ثابت ہو رہا ہے اور نہ ہی عقلی اس کو رواج دینے پر راضی ہے، یہ چند باتیں جو ذکر کی گئی ہیں، اصول و قوانین کی حیثیت رکھتی ہیں، بلکہ ریڑ کی ہڈی کی حامل ہیں، عام اور خالی ذہن افراد کے لیے یہی امور شریعت کا نقطۂ نظر سمجھنے کے لیے کافی و شافی ہیں ۔

ضبط تولید فقہ اسلامی کی روشنی میں

ان ابحاث کے بعد اب ہم اس مسئلے پر خالص فقہی حیثیت سے گفتگو کریں گے اور علماء و فقہاء کی آراء و تجاویز اور ان کی کتابوں میں مذکور امثال و نظائر کی روشنی میں اس مسئلہ کا حقیقت پسندانہ و انصاف پسندانہ جائزہ لیں گے ۔

 سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ ضبط ولادت کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء کی کئی صورتیں رائج ہیں، ان میں سے ایک "مانع حمل” بھی ہے، جس میں مرد کا مادۂ منویہ عورت کے رحم تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا، جیسے نرودھ (Condom)” اور "عزل” وغیرہ میں ہوتا ہے، یہاں محض عزل کے بارے میں چند مسائل ملاحظہ کرلیں، اس کی متماثل صورت خود بہ خود واضح ہو جائیں گی ۔

عزل سے متعلق احکام

یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ صرف موجودہ دور میں عزل کرنے کا ہی رواج نہیں ہے بلکہ گزشتہ زمانے میں بھی اس کی مختلف صورتیں اختیار کی جاتی تھیں، احادیث میں عزل سے متعلق تفصیلی تذکرہ ملتا ہے، مگر بہ ظاہر ان میں ایک گونہ اختلاف محسوس ہوتا ہے، عزل کے بارے میں جائز و عدم جواز دونوں قسم کی روایتوں کا ثبوت ملتا ہے؛ چناں چہ جن حدیثوں میں جواز کا ثبوت ملتا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

جواز کا ثبوت

 حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "کنا نعزل علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و القرآن ینزل” (صحیح بخاری :5208 و ابن ماجہ : 1927)

ہم اللہ کے رسول کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن کا نزول جاری تھا) مشہور محدث سفیان بن عینیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : "کہ اگر عزل ممنوع اور ناجائز ہوتا تو قرآن ضرور اس سے منع کرتا” لوکان شئیا ینھی عنہ نھانا عنہ القرآن . (صحیح مسلم 465/1) لہٰذا جب ایسا نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ عمل جائز ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک اور حدیث جس میں ایک شخص نے اپنی باندی سے عزل کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے عزل کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا: "اگر تم چاہو تو عزل کر سکتے ہو، لیکن قدرت نے اس کے لیے جو مقدر کر رکھا ہے، وہ بہرحال ہو کے رہے گا” (صحیح مسلم: 3556)

صحیح مسلم کی حدیث ہے: جس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد میں عزل کیا کرتے تھے، آپ کو اس کی اطلاع ہوئی لیکن آپ نے منع نہیں کیا ۔ (صحیح مسلم:3561)

مذکورہ حدیثیں عزل کے جائز اور درست ہونے کے سلسلے میں صریح اور ظاہر ہیں، مگر اس کے برعکس جن احادیث میں عزل سے متعلق کراہت و ناپسندیدگی کا اشارہ ملتا ہے، وہ بھی قابل غور و عمل ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں :

عدم جواز کا ثبوت

حضرت جزامہ بن یوسف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

"حضرت رسول اللہ فی اناس ثم سالوہ عن العزل فقال رسول اللہ ذالک الواد الخفی و ھی اذا المودۃ سئلت.” (صحیح مسلم 465/1، رقم : 3565، مسند احمد،عن جدامہ بنت وہب، حدیث نمبر : 27036)

میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کچھ لوگوں کے درمیان براجمان تھے، لوگوں نے آپ ﷺ سے عزل کے بارے میں دریافت کیا، چناں چہ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ وہ ایک درجے میں بچے کو زندہ دفن کرنا ہے اور قرآن کی آیت "اذا المودۃ سئلت” کا مصداق ہے ۔

اسی طرح ایک جگہ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے حبیب ﷺ سے عزل کے متعلق دریافت کیا گیا تو فرمایا کہ تمہارا کیا نقصان ہے، اگر تم ایسا نہ کرو جو مقدر ہے وہ تو ہو کر رہےگا "لا علیکم الا تفعلوا ذاکم فانما ھو القدر” (صحیح مسلم 465/1، حدیث نمبر:1438)

حدیث کے ایک راوی محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کا یہ فرمانا کہ تمہارا نقصان کیا ہے،اگر تم ایسا نہ کرو ممانعت سے زیادہ قریب ہے (ایضا 465/1)

جواز و عدم جواز کے دلائل کا ماحصل

الغرض عزل کے سلسلے میں جائز و عدم جواز دونوں کے قائلین ہیں اور دونوں کے پاس شواہد ہیں اور اس کے علاؤہ احادیث کی متداول کتب میں عزل سے متعلق جو روایتیں آئی ہیں، ان کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ عزل اگر حرام نہیں ہے، تو کراہت سے خالی بھی نہیں ہے، اسی طرح آپ ﷺ نے عزل کی ہمت افزائی تو کہیں نہیں فرمائی ہے اور اس طریق کار کو پسند نہیں فرمایا ہے، نیز نہ ہی اس کی ترغیب و تحریص کے لیے لوگوں کو ابھارا ہے، البتہ اس کی ناپسندیدگی اور فضول ہونے کا اظہار ضرور فرمایا ہے، تو اس کا حاصل یہ نکلا کہ یہ (عزل) عمل جائز مگر مکروہ اور ناپسندیدہ ہے؛ نیز صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت کا بھی یہی مسلک ہے کہ اس عمل کو مکروہ قرار دیا جائے، چناں چہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بخاری کی شرح میں فرمایا ہے: کہ اس عمل کی کراہت ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابن عمر اور ابو امامہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، ابراہیم نخعی، سالم بن عبداللہ، اسود بن یزید اور طاؤس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ عزل مکروہ ہے اگرچہ اس کے جواز کے بھی کچھ قائلین ہیں، جیسا کہ احناف میں امام طحاوی (طحاوی، باب العزل :22) اور شوافع میں امام غزالی رحمہ اللہ کو اس پر بہت اصرار ہے (احیاء علوم الدین 51/2) مگر سلف صالحین، فقہاء مجتہدین اور عام طور پر فقہاء امت کا رجحان ان تمام روایات کو دیکھنے کے بعد یہی ہے کہ یہ عمل مکروہ ہے اور صحابۂ کرام کی آراء سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے،جیسا کہ فتح القدیر اور رد المحتار میں ان کی تصریحات موجود ہیں ۔

بعض شرعی عذر کے پیش نظر منع حمل کی اجازت

تاہم کچھ اعذار اور مجبوریاں ایسی ہیں، جو زوجین کو درپیش ہوتی ہیں، جس کی بنا پر شوہروں کو منع حمل کے لیے وقتی، عارضی اور غیرمضر تدابیر اختیار کرنے کی اجازت ہے، چوں کہ عذر اور مجبوری کے حالات ہر جگہ مستثنیٰ ہوا کرتے ہیں، لہذا یہاں بھی خاص شرعی اعذار کی وجہ سے یہ کراہیت باقی نہ رہے گی ۔

 استقرار حمل سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنا مندرجہ ذیل صورتوں میں جائز ہے ۔

(1) وہ تدبیر وقتی اور عارضی ہو، ایسا نہ ہو کہ اس سے قوت تولید مستقل طور پر فوت ہو جائے ۔

 (2) استقرار کے باعث ماں کی صحت خراب ہو جائے گی، مثلا وہ دماغی الجھن کا شکار ہو جائے گی، کمزوری و نقاہت بڑھ جائے گی، شکم میں سخت اور ناقابل برداشت تکلیف اٹھ جائے گی ۔

(3) ماں باپ کو کوئی ایسا مرض ہے، جس سے اندیشہ ہے کہ بچہ بھی متاثر ہوگا، جیسے وہ ایڈز وغیرہ کے امراض میں مبتلا ہوں ۔

(4) رحم کمزور ہے اور خطرہ ہے کہ استقرار ہوا تو حمل قبل از وقت ضائع ہو جائے گا ۔

(5) کسی دور دراز کے سفر میں ہے، یا کسی ایسے مقام پر ہے، جہاں پر قیام و قرار کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔

الغرض یہ اور اس طرح کے دوسرے اعذار کے پائے جانے کی صورت میں حمل سے بچنے کی عارضی تدابیر اختیار کرنا جائز ہے ۔

اسی طرح اگر کوئی شخص انفرادی غرض کے تحت عزل کرے، جو اسلامی اصول کے خلاف ہو، تو اس کا یہ عمل جائز نہیں کہلایا جائے گا، مثلاً یہ خیال کہ "لڑکی ہوگی تو بدنامی ہوگی” تو اس کے اس عمل کو کسی بھی صورت میں جائز نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ اس کی بناء وہ نظریہ ہے، جس پر قرآن نے جابجا نکیر فرمائی ہے ۔

یہاں ایک اور بات یاد رکھنے کی ہے کہ گزشتہ زمانے میں کسی اجتماعی پروگرام سازی اور منصوبہ بندی کے ساتھ عزل کرنے کی تبلیغ و ترویج نہیں کی جاتی تھی، بلکہ یہ طریقہ محض ایک انفرادی اور ذاتی حد تک ہی محدود تھا، لہذا اب اگر شخصی اور انفرادی طور پر کسی شخص کو عذر پیش آ جائے تو ” ماابیح للضرورۃ یتقدر بقدرھا” (الاشباہ و النظائر :252) کے تحت اس طرح کا عمل بلا کراہت جائز ہوگا، اجتماعی سطح پر اس کی ترویج و اشاعت کرنا، ایک عام طرز عمل اور قومی پالیسی بنا لینا احکام اسلام کے قطعاً خلاف ہے ۔

مانع حمل دوائیں

ضبط تولید کی دوسری صورت یہ ہے کہ "مادہ منویہ تو رحم میں پہنچ جائے، مگر ایسی دواؤں کا استعمال کیا جائے کہ استقرار حمل ہی نہ ہو سکے” بہ ظاہر یہ صحیح ہے، کیونکہ ابھی مادہ ہے، روح اور زندگی سے خالی ہے، لیکن فقہی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت بھی ناجائز ہے اور اصطلاحی قتل کے زمرے میں آتا ہے، کیونکہ یہ بدیہی بات

ہے اگر دوا کا استعمال نہ کیا جاتا، تو کچھ مدت تک گزرنے پر وہی مادہ ایک زندہ نفس کی شکل اختیار کر لیتا، اس لیے یہ مانع حمل دوائیں بھی ناجائز ہیں ۔

ابن عامدین شامی نے لکھا ہے کہ عورت کے رحم میں نطفہ قرار پا جانے کے بعد اس کو برباد کر دینا مکروہ ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں نطفہ جا کر بالآخر زندگی کی شکل و ہیئت اختیار کر لیتا ہے، اس لیے اس نطفہ پر بھی زندگی کا حکم جاری ہوگا، اسی طرح شمس الائمہ سرخسی، امام عزالی، علامہ محمد احمد علیش مالکی، ابن یونس اور مشہور فقیہ عز الدین بن سلام رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ مانع حمل دوا کا استعمال جائز نہیں ہے۔

الغرض ان تصریحات و اقوال سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ مانع حمل دواؤں کے عدمِ جواز پر تمام مکاتب فکر کے قابل ذکر فقہاء کا اتفاق ہے اور کوئی بھی اس کے جواز کا قائل نہیں ہے، تاہم اگر کوئی غیر معمولی عذر ہے، جس سے کسی بڑی مضرت و پریشانی کا اندیشہ ہے، تو اس صورت میں کمتر نقصان کو گوارا کر کے اس سے بڑے دوسرے نقصان سے اجتناب کیا جائے گا۔

اسقاط حمل

ضبط تولید کی تیسری صورت "اسقاط حمل” کی ہے، اس بارے میں مختصراً عرض یہ ہے کہ روح اور آثار زندگی پیدا ہو جانے کے بعد اگر اسقاط حمل (یعنی حمل کو ساقط کرنا) کی جائے، تو اس کی حرمت پر کسی کلام کی گنجائش ہی نہیں ہے، کیوں کہ جیسے بچے کے دنیا میں آنے کے بعد اگر اس کو قتل کیا جائے، تو "نفس کشی” کہلاتا ہے، اسی طرح اگر بطن مادر میں ہی بچے کو ہلاک کر دیا جائے، تو بھی "نفس کشی” کے مترادف ہی شمار کیا جائے گا؛ چناں چہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : "اسقاط الحمل حرام، باجماع المسلمین و ھو من الواد الذی قال تعالی فیہ و اذا الموءودۃ سئلت بای ذنب قتلت” (فتاوی ابن تیمیہ 217/4) اسقاط حمل بالاجماع حرام ہے اور وہ اسی نفس کشی میں داخل ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن زندہ دفن کر دی جانے والی معصوم بچیوں سے سوال کیا جائے گا، آخر تمہیں کس جرم میں قتل کر دیا گیا ہے ؟ ۔

اور اگر بچے کا مکمل جسم نہیں بنا ہے، بلکہ صرف ڈھانچہ بنا ہے، تو فقہاء نے پھر بھی ان کو کامل الخلقت وجود ہی کے حکم میں رکھا ہے، چناں چہ علامہ شامی نقل کرتے ہیں : "و اما ما استان بعض حلقہ کظفر و شعر کتام” (رد المحتار: فصل فی الجنین :590/6) جس کی بعض خلقت عیاں ہو جائے، جیسے ناخن اور بال تو وہ تام الخلقت کی طرح ہے ۔

اسی اصول کی روشنی میں فقہاء نے لکھا ہے اگر مکمل خلقت سے پہلے ہی حمل ساقط کر دیا جائے، تو شرعا وہی ضمان واجب ہوتا ہے، جو ایک کامل الخلقت حمل ضائع کرنے کی صورت میں واجب ہوتا ہے (تفسیر مظہری 196/10، تفسیر سورہ التکویر)

 خلاصہ یہ ہے کہ اسقاط جیسے روح پیدا ہونے کے بعد حرام ہے، اسی طرح روح کے پیدا ہونے سے پہلے بھی حرام ہے اور کسی ناگزیر عذر اور غیر معمولی عذر کے بغیر کسی بھی مرحلے میں اس کا ارتکاب کرنا شرعا جائز نہیں ہے قال ابن وھبان فاباحۃ الاسقاط محمولۃ علی علۃ العذر. (رد المحتار 380/2)

حاصلِ بحث

مذکورہ بالا سطور میں فیملی پلاننگ، خاندانی منصوبہ بندی اور ضبط تولید کا جو فقہی اور شرعی طرز و اسلوب میں جائزہ لیا گیا ہے، اس کا حاصل شدہ نتیجہ یہ ہے کہ ضبط ولادت کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا، جس سے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت و قوت ہی بالکلیہ ختم ہو جائے، اور توالد و تناسل کی اہلیت ہی باقی نہ رہے مثلاً "نس بندی” کرانا (یہ بھی ناجائز عمل ہے، تمام فقہاء و علماء کا اتفاق ہے کہ عضو تناسل میں ایسی کوئی تبدیلی کہ افزائش نسل کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے رک جائے، ناجائز و حرام ہے (حجۃ اللہ البالغہ 123/2) اس سلسلے میں مردو عورت دونوں کا حکم یکساں اور برابر ہے) وغیرہ، اسی طرح کسی دوا یا انجیکشن یا دیگر تدابیر سے کوئی ایسا اسلوب اختیار کرنا، جو اسلام کی تعلیمات و احکامات کے خلاف ہو، تو قرآن و احادیث اور فقہا کی عبارات کی روشنی میں ایسا کرنا بھی ناجائز اورحرام ہے، کیونکہ جہاں یہ عمل قرآن و حدیث اورفقہی عبارات کی روشنی میں غیر معقول و غیرمعتبر ہے، وہیں اس خاندانی منصوبہ بندی اور ضبط تولید کی وجہ سے اسلام کا اصول بھی مجروح ہوتا ہے، اور اسلامی اعتقادات اور اسلام کے معاشرتی مزاج کو بھی اس سے کافی ٹھیس پہنچتی ہے؛ نیز لوگوں کا یہ تصور "کہ پیدا ہونے والے بچے یا بچی کے لیے کھانے پینے رہنے اور سہنے کا بار اٹھانا پڑے گا یا بدنامی ہوگی” اسلام کی نگاہ میں ایسا تصور بے معنی اور باطل ہے اور احادیث و آیات سے کھلا تضاد ہے، کیوں کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ رازق ہے، پرودگار ہے اور وہی افزائش نسل کے ساتھ وسائل معاش میں بھی اضافہ کرتا ہے، اس کے علاوہ چند شرعی اعذار کی بنا پر اس عمل کی ایک حد تک اجازت دی گئی ہے، اور اس کو بھی انفرادی و شخصی زندگی تک ہی محدود رکھا گیا ہے نہ کہ اجتماعی و معاشرتی سطح تک؛ مزید برآں جس فعل کو اللہ کے رسول ﷺ قوم و ملک کے لیے ناجائز و پسندیدہ اور مہلک قرار دے رہے ہیں، اس کو قومی اور اجتماعی حیثیت سے رواج دینا اور اس کو فلاح و نجات کا ذریعہ قرار دینا، نظام ربوبیت و الوہیت میں بےجا مداخلت اور شرعی نقطۂ نظر کے بالکلیہ خلاف ہے، جو کسی بھی طرح سے برادران اسلام کو زیب نہیں دیتا ۔

 امید ہے کہ مذکورہ بحثوں پر جو فقہی تجزیہ و رپورٹ پیش کیا گیا ہے اور اسلام کے بنیادی اصول پر ائمہ و مجتہدین اور سلف صالحین کے اجتہادات کی روشنی میں اس پر جو کچھ بھی سپرد قلم و قرطاس کیا گیا ہے، وہ مسائل پر غیر جانبدارانہ نگاہ ڈالنے والے اہل قلم و اہل تحقیق؛ نیز غواص لوگوں کے خاطر خواہ اور مسئلے کے صحیح نتائج تک پہنچنے کے لیے کافی و شافی ہوگا ۔

وفقنا اللہ و ایاھم لما یحب و یرضی آمین ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے