بسم الله الرحمن الرحيم.

نکاح سے متعلق نئے مسائل:

مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو.

1-ضرورت رشتہ کا اشتہار:

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بذات خود کسی مناسب رشتے کو تلاش نہیں کرپاتا یا کسی کے یہاں براہ راست پیغام بھیجنے کو خلاف مصلحت سمجھتا ہے اس لئے دوسروں سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔امام أحمد بن حنبل نے نقل کیا ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: آپ شادی کیوں نہیں کرلیتے ہیں ؟ فرمایا:کس سے ؟انھوں نے عرض کیا: کنواری اور شوہر دیدہ دونوں موجود ہیں ۔فرمایا:کون ؟انھون نے عرض کیا:عائشہ اور سودہ بنت زمعہ ۔فرمایا :جاؤ اور رشتے کی بات کرو ۔۔۔(مسند أحمد بن حنبل 25769)
اور ہر دور میں اس طرح کے لوگ موجود رہے ہیں جنھیں اس کام میں مہارت حاصل ہوتی ہے لیکن پہلے اس سلسلے میں بہت زیادہ تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ کوئی شخص اس کام پر کسی اجرت کا مستحق نہیں ہوگا ،لیکن حالات کی تبدیلی کے بعد فتوا دیا گیا کہ اس کام کے لئے بھی اجرت لی جاسکتی ہے (1)
موجودہ دور میں اس کام نے بڑی وسعت اختیار کرلی ہے اور ایک ذریعہ معاش بن گیا ہے ،اخبارات میں اشتہار دیئے جاتے ہیں ،انٹرنیٹ پر اس کے لئے جگہ ریزرو کی جاتی ہے اور شادی کی خواہش رکھنے والوں سے اس کی اجرت طے کی جاتی ہے ۔
شرعی اعتبار سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ اگر نیک کام میں تعاون کا جذبہ کار فرما ہوتو باعثِ اجر وثواب بھی ہے ، البتہ اس کے لئے درج ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا چاہئے :
1-قابل اعتماد لوگوں کی نگرانی میں اس کام کو انجام دیا جائے اور رازداری کا مکمل لحاظ رکھا جائے ۔
2-خواہش مند کی تصویر شائع نہ کی جائے ۔
3-عمومی معلومات پر اکتفا کیا جائے اور نسوانی خصوصیات کا تذکرہ نہ کیا جائے ۔
4-مرد و عورت کو براہ راست گفتگو کرنے کی اجازت نہ دی جائے ،بلکہ جو لوگ اس کے لئے سنجیدہ ہوں انھیں خاتون کے سرپرست سے ربط کرنے کے لئے کہہ دیا جائے ۔

(1) الدلالة في النكاح لا تستوجب الاجر وبه يفتي الفضلي. ومشايخ زماننا كانوا يفتون بوجوب اجر المثل وبه يفتى.كذا في جواهر الاخلاطي.(الهندية487/4)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے