عرف و عادت
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
زندگی ہر دم رواں دواں ہے،نت نئے انقلابات کا نام ہی زمانہ ہے ،اور حالات کے انقلاب سے فکر و نظر میں تبدیلی آجاتی ہے،سوچ اور نگاہ کا پیمانہ بدل جاتا ہے،یہ تبدیلی زندگی کے ہر گوشہ میں ہوتی ہے اور ذہن و دماغ پر اس قدر چھا جاتی اور معاشرہ اور ماحول میں اس قدر رچ بس جاتی ہے کہ اسے چھوڑنا اور اس کے خلاف جانا مشکل ہو جاتا ہے اسی وجہ سے فقہاء نے کہا ہے:
وفي الخروج عن العادة حرج۔
عادت کو چھوڑنا دشوار ہوتا ۔
(نشر العرف مجموعہ رسائل: 141/2 لابن عابدين شامي)
شریعت کی بنیاد آسانی اور سہولت پر قائم ہے، شرعی احکام سے مقصود حرج اور تنگی نہیں ہے، رب حقیقی اپنے بندوں کو مشقت اور پریشانی سے دوچار کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس نے اپنی ہدایات و تعلیمات میں آسانی اور سہولت فراہم کی ہے:
يريد الله بكم اليسر ولا يريد بكم العسر ۔
اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا۔( بقره/ 185)
اس کا تقاضا ہے کہ معاشرہ میں رواج یافتہ چیزوں کی بھی قانونی حیثیت حاصل ہو ،کیونکہ ان کے چھوڑنے میں تنگی اور پریشانی ہے۔مگر ساتھ ہی اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اکثر لوگ غیر شرعی باتوں کے خوگر ہو جاتے ہیں،مجرمانہ زندگی ہی ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے،رواج یافتہ چیزیں براہ راست اسلامی اصول اور اقدار سے متصادم ہوتی ہیں۔ اس طرح کے مسائل میں عرف و عادت اور رواج کے نام پر تبدیلی گوارہ کر لی جائے تو شریعت کی بنیاد ہی منہدم ہو جائے گی،اور اسلام ماضی کی یادگار بن کر رہ جائے گا۔اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ اسلامی قانون میں عرف و رواج کی کس حد تک گنجائش ہے، اس کی حدیں کیا ہیں؟ کوئی عمل کب عرف و عادت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، اور اس کی وجہ سے کن احکام میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے؟۔
لغوی اور اصلاحی تعریف:
عرف کا مادہ ع، ر، ف اور مصدر معرفت اور عرفان ہے بقول امام راغب اصفہانی:
(عرف) المعرفة والعرفان ادراك الشيء بتفكر وتدبر لاثره وهو اخص من العلم ويضاده الانکار ۔
معرفت اور عرفان کسی چیز کے آثار و نتائج میں غور و فکر اور تدبر کرکے اس کی حقیقت تک پہنچنے کا نام ہے یہ علم سے خاص ہے اور اس کی ضد انکار ہے(المفردات/334)
لسان العرب میں ہے کہ عرف، عارفہ اور معروف مترادف الفاظ ہیں اس کی ضد "نکر "اور "منکر” ہے
العرف والعارفة والمعروف ضد النکر وهو كل ما تعرفه النفس من الخير وتطمئن اليه.(لسان العرب :239/9)
عرف ، عارفہ اورمعروف "نکر” کی ضد ہے اور عرف ہر اس اچھی چیز کو کہتے ہیں جس سے انسانی طبیعت مانوس و مطمئن ہو۔
اس کے علاوہ بھی عرف متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے مثلا:
1۔پے بہ پے ،لگاتار، یہ لفظ خود قرآن میں اس معنی میں استعمال ہوا ہے ارشاد پاک ہے :
"والمرسلات عرفا”
قسم ہے بے پے بہ پے چلنے والی ہواؤں کی، (الصحاح: 1401/4)
2۔ریت کا بلند ٹیلہ اور تودہ، الرمل المرتفع (الصحاح: 1401/4)
3۔سخاوت (لسان العرب: 239/9)
4۔خوشبو
5۔صبر
6۔اقرار و اعتراف، خیر، رفق، احسان( تاج العروس:192/6 اصول في الفقه الاسلامي:/180 لاحمد محمود شافعي)
عرف کے ان تمام معنوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اسے صرف دو لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے "جاننا پہچاننا” اور اس کی اصطلاحی تعریف بھی یہی ہے یعنی جانی اور پہچانی ہوئی چیز صرف چند قیود کا اضافہ ہے یعنی معاشرہ میں جو چیز معروف اور متعارف ہو انسانی طبیعت جس سے مانوس اور مطمئن ہو ،جو لوگوں کے درمیان جانی پہچانی ہو اور اجنبی نہ ہو ۔ بالفاظ دیگر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے سلسلے میں اکثریتی تعامل کو عرف کہتے ہیں۔(المدخل 840/2 للزرقاء۔المدخل /260 للشلبي)
عادت کا ماخذ ع، و، د، ہے یعنی لوٹنا، اسی سے "معاد” ہے آخرت کو "معاد” اس لیے کہا جاتا ہے کہ آخر کار انسان جہاں سے آیا تھا وہیں لوٹ کر جائے گا ۔ عید بھی اسی سے مشتق ہے کہ ہر سال بار بار لوٹ کر آتی ہے (لسان العرب: 316/2 تاج العروس: 439/2)غرضیکہ لغوی اعتبار سے جس چیز میں تکرار پائی جائے اسے عادت کہیں گے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں:
العادة اسم لتكرير الفعل والانفعال حتى يصير سهلا تعاطيه كالطبع ولذلك قیل العادة طبيعة ثانية ۔
عادت کسی فعل یا انفعال کے بار بار وقوع پذیر ہونے کا نام ہے یہاں تک کہ فطری طور پر اس کو کرنا آسان ہو جائے اس لیے کہا جاتا ہے کہ عادت "فطرت ثانیہ” ہے۔(المفردات/258)
علماء اصول عادت کی تعریف الفاظ میں کرتے ہیں:
الامر المتكرر من غير علاقة عقلية ۔
عادت وہ چیز ہےجو عقلی مناسبت کے بغیر بار بار وقوع پذیر ہو ۔(تيسير التحرير: 317/1 نیز دیکھئے التقرير والتحرير: 282/1)
یعنی بغیر کسی عقلی وجہ کے کوئی کام بار بارکرنا ،عادت ہے، اگر کام کا تکرار عقلی تقاضے سے ہو تو اسے عادت نہیں بلکہ "لزوم عقلی” کہیں گے جیسے علت کے وجود پر معلول کا پایا جانا کہ انگلی کو جب جب حرکت دی جائے گی انگوٹھی بھی ساتھ ہی ساتھ ہلتی رہے گی انگوٹھی کا بار بار حرکت کرنا عادت نہیں ہے بلکہ "لازم عقلی” ہے (المدخل838/2 للزرقاء)
ابن نجیم مصری نے "شرح مغنی” کے حوالے سے عادت کی تعریف یہ کی ہے:
العادة ما يستقر في النفوس من الامور المتكرة المعقولة عند الطباع السليمة ۔
عادت وہ چیز ہے جس میں تکرار ہو، جو طبیعت انسانی میں اپنی جگہ بنا لے، سلیم الطبع افراد اسے معقول سمجھیں۔(الاشباه /93 )
عبداللہ ابن احمد نے اپنی کتاب "مستعفی” میں عرف و عادت کی مشترکہ تعریف یہ کی ہے:
العرف والعادة ما استقر في النفوس من جهة العقول وتلقته الطباع السليمة بالقبول ۔
جو بات عقلی اعتبار سے ذہن میں جاں گزیں ہو اور طبیعت سلیمہ اسے قبول کر لے وہ عرف و عادت ہے(نشر العرف: 114/2اصول الفقه:828/2 للزحيلي)
عرف و عادت کے درمیان فرق:
اپنے الفاظ میں عرف و عادت کی تعبیر ہم یوں کر سکتے ہیں کہ عرف و عادت کسی قوم یا طبقہ کا ایسا تعامل ہے جسے عقل سلیم کی تائید حاصل ہو اور فطرت سلیمہ اسے قبول کرے .اس کا محرک ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات نہ ہو .اس سے معلوم ہوا کہ حقیقت کے اعتبار سے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے گو مفہوم کے اعتبار سے کچھ تفاوت ہے ماضی قریب کے مشہور عالم دین ابن عابدین شامی کا بیان ہے:
فالعرف والعادة بمعنى واحد من حيث المصداق (اي ما ينطبق عليه من حالات) وان اختلفا من حيث المفهوم
عرف و عادت مصداق کے اعتبار سے ایک ہی ہیں گو مفہوم جدا جدا ہیں۔(نشر العرف 114/2)
بعض لوگوں نے عرف و عادت کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ عادت کا تعلق لوگوں کے انفرادی معاملات سے ہے جبکہ عرف تمام لوگوں کے مشترکہ رسم و رواج کا نام ہے عرف کا مرکز ذہن و فکر اور طبیعت سلیمہ ہے اور عادت ان افعال کو بھی کہا جاتا ہے جو بار بار وقوع پذیر ہو خواہ وہ:
1۔ کسی طبعی وجہ سے ہو جیسے گرم ممالک میں پھلوں کا جلدی تیار ہو جانا اور سرد ملکوں میں دیر سے۔
2۔خواہش نفسانی، شہوت، یا اخلاقی بگاڑ کی وجہ سے ہو جسے فقہاء "فساد زمانہ” سے تعبیر کرتے ہیں جیسے ظلم، فسق جنسی انار کی اور شہوت کی گرم بازاری
3۔ یا کسی خاص حادثہ سے ہو (المدخل: 840/2)
محمد یاسین فادانی عرف و عادت کے درمیان فرق کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
ان لفظي العرف والعادة تارۃ يستعملان بمعنى واحد وتارة يستعمل كل منهما في خلاف فيراد بالعرف استعمال خاص وهو نقل اللفظ من موضعه الاصلي الي معناه المجازي شرعا وغلبة استعماله فيه ويراد بالعادة نقله الى المعنى المجازي عرفا ومنه قول الاصولیین تترك الحقيقة بدلالة الاستعمال والعادة وقد يراد بالعرف الاستعمال الشامل بلا انواع الثلاثه آنفا وبالعادة تكرار حصول الشيء (الفوائد الجنيه في الاشباه والنظائر للشافعيه: 291/1)
عرف عادت کبھی ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی ان کے درمیان فرق کیا جاتا ہے اس وقت عرف سے مراد شرعا لفظ کے معنی حقیقی کو چھوڑ کر معنی مجازی کو اختیار کرنا ہے اگر عام لوگوں کے استعمال کی وجہ سے معنی حقیقی کو ترک کیا جا رہا ہے تو اسے عادت کہیں گے اسی فرق کے اعتبار سے علماء اصول کہتے ہیں کہ حقیقی معنی استعمال و عادت کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے گا اور کبھی عرف سے مراد وہ ہے جو مذکورہ تینوں قسموں کو شامل ہو اور عادت سے مراد کسی چیز کا تکرار ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عرف کا تعلق قول سے ہے اور عادت کا فعل و عمل سے چنانچہ ابن ہمام نے لکھا ہے:
العادة هي العرف العملي۔
عادت وہ عرف عملی ہے۔ ( تيسير التحرير 317/1)
فخر الاسلام بزدوی اور عبدالعزیز احمد بخاری کا بھی یہی نقطہ نظر ہے (كشف الاسرار 175/2)
عرف و اجماع کے درمیان فرق:
مذکورہ تعریف سے اجماع اور عرف کے درمیان فرق کی وضاحت بھی ہو گئی ہے کہ کسی قوم یا طبقہ کے عادت وسیرت کا نام عرف ہے۔ جبکہ اجماع میں یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ اجماع مجتہدین کے اتفاق رائے کا نام ہے عوام کو اس میں کوئی دخل نہیں شیخ عبدالوہاب خلاف لکھتے ہیں:
العرف یتكون من تعارف الناس على اختلاف طبقاتهم بخلاف الاجماع فانه یتكون من اتفاق المجتهدين ولا دخل للعامة في تكوینه (علم اصول الفقه : /89 )
طبقاتی اختلاف کے باوجود عوام و خواص کے درمیان کسی چیز کے متعارف ہونے سے عرف بنتا ہے بخلاف اجماع کے کہ اس کا مبنی مجتہدین کا اتفاق ہے عوام کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے ۔
علامہ وہبہ زحیلی نے اس فرق کی وضاحت اس طرح کی ہے :
ان الاجماع مبناه اتفاق مجتهدين الامة اما العرف فلا يشترط فيه الاتفاق وانما يكفي فيه سلوك الأكثرية بما فيهم من العوام والخواص (اصول الفقه 829/2 للزحيلي)
اجماع کی بنیاد امت کے مجتہدین کا اتفاق ہے رہا عرف تو اس میں اتفاق شرط نہیں ہے عوام و خواص میں سے اکثر لوگوں کا اس پر عمل کرنا کافی ہے .
نیز اجماع سے ثابت شدہ حکم میں تبدیلی کی گنجائش نہیں برخلاف عرف کے کہ وہ عرف کی تبدیلی سے بدلتا رہتا ہے اور عرف کے لیے ایک حد تک ہمیشگی اور استمرار شرط ہے جبکہ اجماع کے لیے صرف مجتہدین کا اتفاق کافی ہے اور کسی مسئلہ پر اجماع کے انعقاد کے بعد اجتہاد کی گنجائش باقی نہیں رہتی بخلاف عرف کے کہ اس کے ثبوت کے باوجود اجتہاد کی گنجائش برقرار رہتی ہے (الاجتهاد فيما لا نص فيه: 185/2 الدكتور طيب الخضري)
عرف کی قسمیں:
لفظ کے استعمال اور لوگوں کے افعال و معاملات کے اعتبار سے عرف کی دو قسمیں کی گئی ہیں 1۔ لفظی 2۔ عملی۔
عرف لفظی یہ ہے کہ کوئی لفظ یا محاورہ کسی مخصوص معنی میں استعمال ہونے لگے گو لغت کے اعتبار سے عام ہو اس طرح کے جب بھی وہ لفظ بولا جائے ذہن فورا اس طرف متوجہ ہو جائے اور اس عام معنی کی طرف خیال نہ جائے شیخ زرقاء لکھتے ہیں:
فهو ان يشيع بين الناس استعمال بعض الالفاظ او التراكيب في معنى معین بحيث يصیح ذلك المعنى هو المفهوم المتبادر منها الى اذهانهم عند الاطلاق بلا قرينة (المدخل: 845/2)
عرف لفظی یہ ہے کہ بعض الفاظ و تراکیب لوگوں کے درمیان کسی مخصوص معنی میں استعمال ہونے لگیں اس طرح کے جب بھی وہ لفظ استعمال کیا جائے قرینہ اور عقلی رشتہ کے بغیر ذہن اسی مخصوص معنی کی طرف منتقل ہو جائے۔
مذکورہ عبارت سے معلوم ہوا کہ اس مخصوص معنی کو سمجھنے کے لیے کسی قرینہ یا عقلی مناسبت کی ضرورت نہ پڑے بلکہ خود بخود ذہن اس کی طرف متوجہ ہو جائے اگر اس مخصوص معنی کے مراد لینےکیلئے لیے کوئی قرینہ یا عقلی مناسبت ہے تو اسے عرف لفظی نہیں بلکہ "مجاز” کہیں گے جیسے کوئی کسی سے کہے کہ یہ سامان میں تمہیں دس روپیہ میں "ہبہ” کرتا ہوں حالانکہ مقصد ہبہ نہیں بلکہ بیچنا ہے اور روپیہ کا تذکرہ اس کے لیے قرینہ ہے کہ "ہبہ” کا لفظ اپنے حقیقی معنی میں مستعمل نہیں بلکہ ایک مخصوص معنی مراد ہے۔ ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ عدالت نے فیصلہ کیا ہے، حالانکہ عدالت فیصلہ نہیں کرتی بلکہ قاضی فیصلہ کرتا ہے، لوگ اس لفظ سے سمجھتے بھی یہی ہیں کیونکہ عدالت تو جگہ کا نام ہے اس کے اندر فیصلہ کی صلاحیت نہیں مگر ایک گونہ مناسبت کی وجہ سے مجازا ایسا کہہ دیا جاتا ہے ان دونوں مثالوں میں لفظ ایک مخصوص معنی میں استعمال ہے مگر اس کی وجہ عرف عادت نہیں بلکہ قرینہ اور عقلی مناسبت ہے۔
عرف لفظی کی مثال:
لفظ "دابۃ” باعتبار لغت ہر قسم کے جانوروں کو شامل ہیں مگر بعض علاقوں میں صرف گھوڑے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے .
2۔لفظ "لحم” لغت کی رو سے مچھلی پر بھی بولا جا سکتا ہے خود قرآن نے مچھلی کیلئے اسے استعمال کیا ہے:
وهو الذي سخر لكم البحر لتاكلوا منه لحما طريا (النحل 14) مگر عرف میں مچھلی کے گوشت پر لحم کا اطلاق نہیں ہوتا ہے لہذا اگر کسی کو بازار گوشت لانے بھیجا جائے اور وہ مچھلی اٹھا لائے تو اسے تعمیل حکم کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا۔
3۔”ولد” لغت کے اعتبار سے مذکر و مونث دونوں کو شامل ہے خود قرآن نے اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے ۔
ولكم نصف ما ترك ازواجكم ان لم يكن لهن ولد (نساء: 12)مگر محاورہ اور استعمال کے اعتبار سے یہ لڑکے کیلئے مخصوص ہے چنانچہ اگر کوئی کسی کے "ولد” کیلئے وقف یا وصیت کرتا ہے تو اس میں لڑکیاں شامل نہ ہوگی (نشر العرف 115/2۔ المدخل 845/2 ۔علم اصول الفقه للخلاف/89)
عرف عملی :
عرف عملی یہ کہ لوگ اپنی انفرادی زندگی یا آپسی معاملات میں کسی چیز کے خوگر و عادی ہوجائیں جیسے کھانا پینا ،لباس پہننا وغیرہ یا جیسے نکاح ،خرید و فروخت، اور قرض ادائیگی وغیرہ کے معاملات،
فهو اعتبار الناس على شيء من الافعال العادية او المعاملات الدينية (المدخل:246/2)
علماء اصول عام طور سے عرف لفظی اور عرف عملی کی تعریف الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہی کرتے ہیں،لیکن قرافی کی تعبیر کچھ زیادہ ہی مختلف ہے، وہ لکھتے ہیں :
وذلك ان العرف القولي ان تكون عاده اهل العرف يستعملون اللفظ في معنى معين ولم يكن ذلك لغة…. اما العرف العملي فمعناه ان يوضع اللفظ لمعنى یكثر استعمال اهل العرف لبعض انواع ذلك المعنى دون بقیۃ انواعه (الفروق171/2 و 273 )
اہل عرف لفظ کو کسی متعین معنی میں استعمال کریں لیکن وہ معنی لغت میں نہ ہو تو وہ عرف قولی ہے۔ عرف عملی یہ ہے کہ لفظ کسی معنی کے لیے بنایا گیا ہو لیکن اہل عرف اس لفظ سے اس کے معنی کی تمام قسموں کو چھوڑ کر کسی خاص قسم کو مراد لیتے ہیں۔
عرف عام:
عرف عام کی عمومی طور سے یہ تعریف کی جاتی ہے:
وہ عادت جو تمام شہروں میں متعارف ہو اسے عرف عام کہتے ہیں ۔(العادة المتعارفة في سائر البلاد تسمي العرف العام .شرح المجلة 1/35)
زحیلی نے اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
کسی بھی وقت میں تمام شہروں کے اکثر لوگوں کے درمیان جو چیز متعارف ہو وہ عرف عام ہے ۔
(وهو ما يتعارفه غالبة اهل البلدان في وقت من الاوقات اصول الفقه: 829/2)
عرف عام کی مذکورہ تعریف چونکہ "اس عرف” کو بھی شامل ہے جس پر نہ صحابہ نے اعتراض کیا ہو نہ تابعین نے اور نہ ہی کسی عالم دین نے، حالانکہ حقیقت میں یہ عرف نہیں بلکہ "اجماع” کی مکمل ترین شکل ہے اس لیے شیخ ابو زہرہ کا خیال ہے کہ عرف عام کی یہ تعریف ہونی چاہیے:
ان العرف العام هو الذي يسود في كل الامصار من غير نظر الي القرون الغابرة (علم اصول الفقه/ 217لابي زهرة)
عرف عام وہ ہے جو تمام شہروں میں رائج ہو گزشتہ زمانوں کی طرف نظر کیے بغیر ،
حاصل یہ ہے کہ تمام شہروں کے اکثر لوگوں کے رسم و عادت کا نام عرف عام ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ تمام شہروں سے ایک ملک کے تمام شہر مراد ہیں یا پوری دنیا کے تمام شہر؟اس کا جواب حتمی طور سے مجھے نہیں مل سکا، خیال ہوتا ہے کہ وہ ممالک جن کا ماحول و معاشرہ ایک ہو، جن کا رہن سہن ایک دوسرے سے ملتا جلتا ہے ان کی اکثریت کا رسم و رواج عرف عام کہلائے گا تمام دنیا کے ممالک اس میں شامل نہیں ؛کیونکہ اگر ایسا ہوا تو پھر عرف عام کا دائرہ بہت سمٹ جائیگا مشکل سے عرف عام کی دو چار مثالیں مل پائیں گی، گویا نہ ہونے کے برابر ہوگا۔
عرف خاص:
کسی خاص گروہ ، طبقہ یا شہر کا عرف عرف خاص کہلاتا ہے جیسے صنعت کاروں، تاجروں وغیرہ کا عرف،
شیخ زرقاء رقم طراز ہیں:
فهو الذي يكون مخصوصا ببلد او مكان دون آخر او بين فئة من الناس دون اخرى.
عرف خاص وہ ہے جو کسی شہر، جگہ یا مخصوص طبقہ کے درمیان رائج ہو، نہ کہ دیگر لوگوں میں۔(المدخل 848/2)
عرف کی یہ قسم حد درجہ متنوع ہے کیونکہ لوگوں کی ضروریات، مزاج و ماحول، معاشرہ اور حالات میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے اس لیے اس کی کوئی محدود اور متعین قسم بیان نہیں کی جا سکتی۔
عرف صحیح اور فاسد :
عرف صحیح وہ ہے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہو اور کتاب وسنت کے خلاف اور شریعت کے مزاج کے مغائر نہ ہو ۔شیخ عبد الوہاب خلاف لکھتے ہیں:
هو ما تعارفه الناس ولا يخالف دليلا شرعيا ولا يحل محرما ولا يبطل واجبا (علم اصول الفقه/89 للخلاف)
عرف صحیح وہ ہے جو لوگوں کے درمیان رائج ہو اور کسی شرعی دلیل کے مخالف نہ ہو، اور کسی حرام کو حلال اور کسی واجب کو باطل نہ کرے
الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہی تعریف زحیلی نے بھی کی ہے (اصول الفقہ: 830/2 للزحیلی) لیکن ان میں سب سے زیادہ واضح اور جامع تعریف ڈاکٹر عبدالکریم زیدان کی ہے وہ لکھتے ہیں :
مالا يخالف نصا من النصوص الشرعية ولا قاعدة من قواعدها وان لم يرد به نص خاص (المدخل لدراسة الشريعة الإسلامية /206)
عرف صحیح وہ ہے جو شریعت کے کسی نص اور قاعدہ کے خلاف نہ ہو اگرچہ اس کے متعلق کوئی خاص نص موجود نہ ہو۔
عرف فاسد :
وہ عرف جو کتاب و سنت سے متصادم ہو جس کی وجہ سے محرمات کا دروازہ کھل جاتا ہو، شرعی حدود ٹوٹ جاتے ہوں،وہ عرف فاسد کہلاتا ہے (اصول الفقہ 830/2 للزحیلی)
جیسے شراب نوشی، سود خوری کا رواج، رشوت کی گرم بازاری، جنسی انارگی، نفسانی خواہشات کی پیروی۔
ایسا عرف مردود ہے کیونکہ اسے معتبر مان لینے میں شریعت کی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔
عرف کے قانون شرعی ہونے کی دلیل :
قرآن: عرف کی حجیت کے سلسلے میں عام طور سے قرآن پاک کی اس آیت سے استدلال کیا جاتا ہے:
خذ العفو وامر بالعرف واعرض عن الجاهلين (سوره الاعراف :199)
معافی کو اختیار کرو، بھلائی کا حکم دو ، اور جاہلوں سے اعراض کرو ۔
نیز بعض لوگوں نے قرآن کی اس آیت کو بھی بطور استدلال پیش کیا ہے :
ويتبع غير سبيل المؤمنين نوله ما تولي ونصله جهنم (النساء/115)
طرز استدلال یہ ہے کہ مومن ومسلم کے طریقے کے علاوہ کسی اور راستے کے اختیار کرنے پر وعید سنائی گئی ہے گویا "سبیل مومن ” کی اتباع واجب ہے اور مومن کا راستہ وہی ہے جسے وہ زندگی کی روش میں اچھا اور بہتر خیال کرتا ہے (الفوائد الجنیہ /290 )
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کا فقہاء کے اصطلاحی عرف سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ عرف سے مراد یہاں وہ چیز ہے جسے خود شریعت نے اچھا اور پسندیدہ قرار دیا ہو، اور جیسے لوگوں نے اپنی فکر ونظر اور خیال کے مطابق اچھا سمجھا ہو وہ مقصود نہیں ہے نیز دوسری آیت بھی عرف سے متعلق نہیں ہے کیونکہ عرفی احکام پر عمل کرنا صرف جائز ہے واجب نہیں ہے جبکہ اس آیت سے وجوب معلوم ہوتا ہے اور اس پر عمل نہ کرنے سے کہ جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔لہذا یہ اجماع کیلئے دلیل تو بن سکتی ہے مگر عرف کیلئے نہیں ۔البتہ عرف کی حجت کے سلسلے میں قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے :
وعلی المولود رزقهن وكسوتهن بالمعروف (البقرۃ /233)
کہ اس آیت میں "معروف” سے مراد وہی نفقہ اور کپڑا ہے جو معاشرہ اور سوسائٹی میں رائج ہو ۔
حدیث:
عرف کی حجیت کی سب سے اہم دلیل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ہے کہ آپ نے بہت سے اسلامی احکام کی بنیاد عرف و عادت پر رکھی ہے چنانچہ عربوں کے رواج کے مطابق خون بہا کا ذمہ دار خاندان والوں اور ہم پیشہ افراد (عاقلہ) کو قرار دیا۔
ایسے ہی حدیث میں غیر موجود چیز کی فروختگی سے منع کیا گیا ہے مگر عرف و رواج کی وجہ سے "سلم” کی اجازت دی گئی ہے حالانکہ یہ بھی غیر موجود کی فروختگی ہے۔نیز نکاح میں مسئلہ کفاءت کی بنیاد عرف و رواج پر ہے (علم اصول الفقہ/90 للخلاف)
نیز رمز شریعت سے ہم آشنا اس کے مزاج و مذاق کا شناور، مشہور صحابی عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :
ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن وما رآه المؤمنون قبيحا فهو عند الله قبيح ۔
جسے مسلمان اچھا سمجھیں تو وہ اللہ کے یہاں بھی اچھا ہے اور جسے مسلمان قبیح و برا سمجھیں تو وہ اللہ کے یہاں بھی برا ہے۔
(اس روایت کو بخاری نے حسن کہا ہے، عجلونی کے بھی یہی رائے ہے. ہیثمی کہتے ہیں ورجاله موثقون) (المقاصد الحسنه/367 الفوائد الجنيه/290 مجمع الزوائد 178/1)
یہ گرچہ ایک صحابی کی اپنی رائے اور اپنا خیال ہے لیکن چونکہ اس طرح کی بات قیاس اور رائے سے نہیں کہی جا سکتی اس لیے ہو سکتا ہے کہ عبد اللہ ابن مسعود نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی کہا ہو۔ وانه كان موقوفا عليه فله حكم المرفوع لانه لا مدخل فيه للرأی (شرح القواعد/219 للزرقاء)
ابن مسعود کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ عرف عام میں جس چیز کو اچھا خیال کیا جاتا ہے وہ بلا شبہ "حسن” ہے یہ صرف ایک صحابی کی رائے نہیں بلکہ تمام صحابہ کرام کا یہی طرز عمل رہا ہے۔چنانچہ استصناع (یعنی آرڈر دے کر کوئی چیز بنوانا) غیر موجودہ چیز کو کو فروخت کرنا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر موجود کی فروختگی سے منع بھی فرمایا ہے مگر تمام صحابہ کرام نے اجماعی طور پر عرف و رواج کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے اور سمجھا کہ حدیث اس خاص معاملے کو شامل نہیں ہے کیونکہ عرف عام کی مخالفت میں حرج دشواری پائی جاتی ہے اور لوگوں کو تنگی و دشواری میں مبتلا کرنا شریعت کی روح اور مقصد کے خلاف ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ما جعل عليكم في الدين من حرج.
اجماع:
عرف کی حجیت کے سلسلے میں فی الجملہ تمام مکتب فکر کے لوگوں کا اتفاق ہے اور ائمہ اربعہ کا اس پر اجماع ہے ،اس سے متعلق تمام فقہاء کی رائے کو نقل کرنا باعث طوالت ہے اس لیے چند حضرات کی رائے پر اکتفا کیا جاتا ہے، ممتاز و مشہور عالم دین علامہ عابدین شامی لکھتے ہیں:
” بہت سے احکام زمانہ کی تبدیلی کی وجہ سے بدل جایا کرتے ہیں کیونکہ لوگوں کا عرف بدل جاتا ہے نئی ضرورت پیش آجاتی ہے، بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے .اگر ان سب کے باوجود بھی پہلے حکم ہی کو باقی رکھا جائے تو لوگ تنگی و مشقت میں مبتلا ہو جائیں اور یہ بات شریعت کی اصول کے خلاف ہے جس کی بنیاد آسانی اور ضرر دور پیدا کرنے پر ہے (نشر العرف /125/2)
دوسری جگہ رقم طراز ہیں :
یہ تمام مثالیں واضح دلیل ہیں کہ مفتی کے لیے درست نہیں کہ وہ ظاہر روایت سے منقول عبارتوں پر جمود اختیار کرے۔ اور زمانہ و اہل زمانہ کی کوئی رعایت نہ کرے اگر وہ ایسا کرتا ہے تو بہت سے "حقوق” تلف ہو جائیں اور اس کا نقصان نفع سے بڑا ہوگا (نشر العرف 125/2)
فقہ مالکی کی ترجمانی کرتے ہوئے امام قرافی لکھتے ہیں :
"جب بھی نیا عرف سامنے آئے اس کا اعتبار کرو، جب بدل جائے تو اسے چھوڑ دو ،ہمیشہ محض کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر جمے نہ رہو، بلکہ تمہارے پاس اگر کسی دوسرے ملک کا کوئی آدمی فتوی پوچھنے آئے تو اسے اپنے عرف کے مطابق مسئلہ نہ بتاؤ بلکہ اسی کے یہاں کے عرف کے بارے میں معلوم کرو، اور اسی کے مطابق جواب دو، صحیح اور حق یہی ہے ۔ہمیشہ منقولات پر جمے رہنا، گمرہی، علماء مسلمین کے مقاصد سے ناواقفیت اور سلف کے طریقے کے خلاف ہے (الفروق 176/1 للقرافی)
شوافع بھی عرف کو کوئی کم اہمیت نہیں دیتے چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں:
جان لو کو فقہ میں عرف و عادت پر مبنی مسائل بےشمار ہیں ۔
واعلم ان اعتبار العادة والعرف رجع اليه في الفقه مسائل لا تعد كثرة(الاشباه والنظائر /182 للسيوطي)
دبستان فقہ حنبلی کے ترجمان ابن قیم لکھتے ہیں:
"یہ فصل زمان و مکان حالات، نیتوں اور عادتوں کے بدل جانے کی وجہ سے فتوی کی تبدیلی کے بیان میں ہے
یہ فصل بہت ہی عظیم النفع ہے کہ اس کے نہ جاننے کی وجہ سے شریعت کے سلسلے میں کافی غلطیاں رونماں ہوتی ہیں، اور جس کی وجہ سے لوگ ایسی مشقت اور پریشانی اور مشکل میں پڑ گئے جس کی کوئی بنیاد نہ تھی، اس سے معلوم ہوگا کہ روشن شریعت جس میں اعلیٰ درجہ کی مصلحتیں ہیں ایسا حکم کبھی نہیں دے سکتی، کیونکہ شریعت کی بنیاد ہی حکمت و مصلحت پر ہے اس کے پیش نظر دنیا و آخرت دونوں جگہوں کی مصلحتیں ہیں یہ مکمل عدل ہے، رحمت ہے، سراپا حکمت و مصلحت ہے، ہر وہ مسئلہ جس میں عدل کے بجائے ظلم ہو، رحمت کی جگہ زحمت ہو۔ اچھائی نہ ہو بگاڑ ہو، حکمت نہ ہو بلکہ بےکاری ہو تو وہ شریعت کا حکم نہیں ہو سکتا ۔(اعلام الموقعین : 14/3۔15)
عقل و قیاس :
بہت سے شرعی احکام عرف و عادت سے متعلق ہوا کرتے ہیں، لیکن عادت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی بلکہ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، اس تبدیلی کے باوجود پہلے حکم کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے تو نئے عرف سے مانوس نہ ہونے کی وجہ سے مزید پریشانی ہوگی، حالانکہ شرعی احکام سے مقصود سہولت اور آسانی ہے اس لیے حرج و مشقت اور تنگی و پریشانی سے بچانے کے لیے عقل کا تقاضا ہے کہ ہر زمانے کے عرف کو ایک قانونی حیثیت حاصل ہو، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاطبی لکھتے ہیں:
ووجه ثالث وهو انه لما قطعنا بان الشارع جاء باعتبار المصالح لزم القطع بانه لابد من اعتباره العوائد، ووجه رابع وهو ان العوائد لو لم تعتبر لادى الى تكليف ما لا يطاق وهو غير جائز او غير واقع (الموافقات 134/1 للشاطبي)
تیسری وجہ یہ ہے کہ یقینی طور پر شریعت نے مصالح کا اعتبار کیا ہے اس حیثیت سے عادت کو معتبر ماننا بھی ضروری ہے اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ اگر عادت کا اعتبار نہ ہو تو اس کی وجہ سے ناقابل برداشت تکلیف ہوگی، حالانکہ یہ غیر جائز یا غیر واقع ہے۔
عرف کے معتبر ہونے کی شرطیں:
ایسا نہیں کہ ہر وہ چیز جو رواج پذیر ہو جائے شریعت اسے قبول کر لے . جس چیز کو بھی لوگ کرنے لگیں مذہب اسے سند جواز دیدے خواہ اس کے لیے اصولوں کا خون ہی کیوں نہ کرنا پڑے، اگر یہ بات اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے بارے میں کہی جائے تو قابل قبول ہو سکتی ہے، لیکن اسلام سے یہ توقع رکھنا عبث اور بے کار ہے، اسلام تو آیا ہی ہے اس لیے کہ وہ جاہلیت کے غلط رسم و رواج کو اپنے پیروں تلے روند ڈالے، البتہ صالح عادات کے بارے میں اسلام کا رویہ ہمیشہ ہمدردانہ رہا ہے، وہ لوگوں کو خواہ مخواہ کی تنگی میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا ہے، وہ ان رسم و رواج کو جو اس کے اصولوں سے متصادم نہیں ہو نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنے دامن میں جگہ دیتا ہے، چنانچہ فقہاء نے شریعت کے مجموعی مزاج و مذاق کو سامنے رکھ کر اس سلسلے میں چند اصول متعین کیے ہیں، جو بھی عرف اس معیار پر پورا اترے گا اسلام اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ اصول و شرائط درج ذیل ہیں:
1۔سب سے پہلے اس سلسلہ میں یہ دیکھنا ہوگا کہ جس وقت معاملہ طے پا رہا ہے یا کوئی حکم دیا جا رہا ہے اس وقت وہ عرف لوگوں میں موجود تھا یا نہیں، جو عرف معاملہ طے پاجانے کے بعد قائم ہو اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہ ہوگا ایسے ہی اگر حکم دیتے وقت وہ عرف نہ ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں، چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں :
لا عبرۃ بالعرف الطارى.
بعد میں پیش آنے والے عرف کا اعتبار نہیں ہے۔ (الاشباه/97 لابن نجيم)
اور امام قرافی کا بیان ہے :
ولا عبرة في هذا البيع لتبدل العادات بعده في النقود كذلك النصوص الشرعية لا يؤثر فيها الا ما قارنها من العادة (تنقيح الفصول /194 للقرافى .بہ اختصار)
اس سلسلے میں بیع کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ نقدی کے معاملے میں بیع کے بعد عرف وعادت بدل سکتی ہے ، ایسے ہی شرعی نص میں وہی عادت موثر ہے جو نص کے ساتھ موجود ہو ۔
2۔ عرف کسی نص شرعی یا دلیل قطعی کے خلاف نہ ہو، شریعت کی روح اور اس کے مقاصد سے متصادم نہ ہو۔
ان لا يكون في العرف تعطيل النص الثابت او لاصل قطعي في الشرع۔
عرف کی وجہ سے کسی شرعی نص یا اصول قطعی کو ترک نہ کرنا پڑے۔ (المدخل 880/2 للزرقاء)
3۔ صراحت عرف کے خلاف نہ ہو۔
ان لا يعارض العرف تصريح خلافه (المدخل 879/2 للزرقاء) مثلا عرف ہو کہ مزدور آٹھ گھنٹہ کام انجام دیتا ہے مگر معاملہ طے کرتے وقت مزدور نے کہہ دیا کہ وہ صرف چار گھنٹہ کام کرے گا تو اب عرف کے مطابق مزدور کو آٹھ گھنٹہ کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
حیدر علی ترکی رقم طراز ہیں:
ان العرف يكون حجة اذا لم يكن مخالفا لنص او شرط لاحد العاقدين فلو استاجر شخص اجيرا للعمل من الظهر الى العصر فقط ليس له ان يلزمه بالعمل من الصباح الى المساء بحجة ان عرف البلدة هكذا بل يتبع للمدة المعينه بينهما (درر الحكام47/1ماده 370)
نیز امام عز الدين عبد السلام لکھتے ہیں:
كل ما يثبت بالعرف اذا صرح المتعاقدان بخلافه ما يوافق مقصود العقد ويمكن الوفاء به صح (قواعد الاحکام 178/2۔ بہ اختصار) جو چیز عرف سے ثابت ہو اگر معاملہ کرنے والوں میں سے کوئی ایک اس کے برخلاف ایسی صراحت کر دے جو عقد کے مقصود کے موافق ہو اور اسے پورا کرنا بھی ممکن ہو تو ایسا کرنا درست ہے۔
4۔ اکثر لوگ زندگی کے ہر معاملہ میں اس کو ملحوظ رکھتے ہوں ایسا نہ ہو کہ کبھی اس پر عمل کرتے ہوں اور کبھی چھوڑ دیتے ہو نیز ایسا نہ ہو کہ اس پر عمل کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں برابر ہوں جسے اصطلاح میں "عرف مشترک” کہا جاتا ہے.علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
والعرف المشترك لا يصح الرجوع اليه مع التردد۔
عرف مشترک پر جس میں کسی ایک جانب رجحان نہ ہو رجوع کرنا صحیح نہیں ہے۔ (نشر العرف 134/2)
یہ شرط عرف عام، خاص، لفظی و عملی ہر ایک کو شامل ہے۔
عرف اور نص عام میں تعارض:
"عرف مقارن” اگر نص عام کے معارض ہو تو اس کے معتبر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں "عرف مقارن” سے مراد وہ عرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں موجود ہو جیسے "استصناع” (آرڈر دے کر کوئی چیز بنوانے) میں عرف کا اعتبار کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ معدوم چیز کی فروختگی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیز کو بیچنے سے منع کیا ہے جو اپنے پاس نہ ہو۔ لیکن چونکہ استصناع کا رواج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہی سے جاری ہے، اس لیے مذکورہ عام حدیث کو عرف کی وجہ سے خاص کر لیا گیا ہے۔
عرف خاص خواہ مقارن ہی کیوں نہ ہو باتفاق نص کے لیے مخصص نہیں بن سکتا ہے۔ (نشر العرف116/2 المدخل 898/2)
عرف عام حادث {وہ عرف جس کا رواج عہد نبوی کے بعد کسی دور میں ہوا} کے معتبر ہونے میں قدرے اختلاف ہے امام رازی فرماتے ہیں:
اگر "عادت” کی دوسری نوعیت ہے (یعنی جو عہد نبوی میں موجود نہ ہو) تو اس کے ذریعے نص عام کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ لوگوں کی عادات و افعال شریعت کے خلاف حجت نہیں ہوتے(المحصول 198/3) مگر بعض علماء کو اس سے اختلاف ہے کہ ان کا خیال ہے کہ عرف عام اگرچہ حادث ہو پھر بھی اس کے ذریعے نص میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ابن عابدین لکھتے ہیں:
اگر تم کہو کہ آپ نے جو بیان کیا ہے کہ عرف عام نص کے لیے مخصص بن سکتا ہے اور اس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑا جاسکتا ہے اس سے مراد وہ عرف ہے جو دور صحابہ اور اس کے بعد سے ہی عام ہو کیونکہ فقہاء استصناع کے جواز کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ جائز نہ ہو، لیکن اس قیاس کو ایسے تعامل کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے جس پر نہ صحابہ نے نکیر کی اور نہ تابعین نے، اور یہ ایسی دلیل ہے جس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑا جا سکتا ہے تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ فقہاء کی جزئیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ عرف سے مراد ان کے یہاں اس سے عام ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ بیچنے اور شرط لگانے سے منع کیا ہے "نهى عن شرط وبيع” اس کے باوجود فقہاء نے تصریح کی ہے کہ وہ شرط جو متعارف ہو وہ خرید و فروخت کے لیے مفسد نہیں ہے، مثلا چمڑا اس شرط پر خریدنا کے بیچنے والا اسے جوتے کی سائز پر کاٹ دے گا، پرانا موزہ اس شرط پر خریدنا کے بیچنے والا اسے درست کر کے حوالے کرے ان معاملات کو فقہاء نے عرف کی بنیاد پر ہی درست قرار دیا ہے اور اسی وجہ سے نص میں تخصیص کی ہے۔ (نشر العرف 125/2)
لیکن شیخ زرقاء لکھتے ہیں کہ تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ عرف حادث گرچہ عام ہو نص شریعت کیلئے مخصص نہیں بن سکتا۔(ولا يصلح مخصصا للنص الشريعي باتفاق الفقهاء ولو كان عرفا عاما۔المدخل 900/2)
فقہاء کا اتفاق ہے کہ عر ف گرچہ عرف عام ہی کیوں نہ ہو نص شرعی میں تخصیص نہیں کر سکتا ہے۔
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ عرف حادث کے ذریعہ نص تخصیص نہیں کی جا سکتی ، الا یہ کہ وہ نص عرفی ہو یا اس کا دارومدار کسی علت پر ہو ( معلول بعلۃ) خواہ نص کے اندر اس علت کی صراحت ہو یا قیاس و اجتہاد کے ذریعہ علت کو معلوم کیا گیا ہو ۔ علامہ ابن عابدین شامی نے عرف حادث کے معتبر ہونے کی جتنی بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ سب (معلول بعلت) کے قبیل کی ہیں، یعنی اس طرح کے معاملہ سے ممانعت کی خاص وجہ ہے ، چونکہ موجودہ عقد میں وہ وجہ نہیں پائی گئی، اس لیے وہ حدیث کے ذیل میں داخل نہیں، چنانچہ شرط متعارف کے ذیل میں اکمل الدین بابرتی رقم طراز ہیں:
لا يقال فساد البيع شرط ثابت بالحديث والعرف ليس بقاض عليه لانه معلول بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة والعرف ینفي النزاع فكان موافقا لمعني الحديث۔
یہ نہ کہا جائے کہ عقد فاسد ہونے کی وجہ ایک ایسی شرط ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے اور عرف حدیث پر حاکم نہیں ہے اس لئے کہ حدیث میں شرط سے ممانعت کی وجہ باہمی نزاع ہے جس کی وجہ سے عقد کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے،لہذا یہ حدیث منازعت ختم کرنے کیلئے ہے، اور عرف بھی نزاع کو ختم کردیتا ہے لہذا یہ حدیث کے معنی کے موافق ہے۔(العناية مع الفتح 442/6 )
نیز محقق تمرتاشی لکھتے ہیں :
فان قلت إذا لم يفسد الشرط المتعارف العقد يلزم ان يكون العرف قاضيا علي الحديث،قلت ليس بقاض عليه بل علي القياس،لان الحديث معلول بوقوع النزاع المخرج للعقد عن المقصود به وهو قطع المنازعة والعرف ينفي النزاع فكان موافقا لمعني الحديث ،ولم يبق من الموانع الا القياس والعرف قاض عليه (نشر العرف 121/2)
ابن عابدین شامی نے اپنی رائے کی تائید میں ابن ہمام کی کتاب "التحریر” کا بھی حوالہ دیا ہے، لیکن واقعہ یہ کہ ابن ہمام کی وہ رائے عرف مقارن کے سلسلے میں ہے، عرف حادث سے متعلق نہیں ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ عرف مقارن کے ذریعہ "نص عام” کی تخصیص کی جاسکتی ہے۔ (دیکھئے العرف والعادۃ فی رای الفقہاء/ 100-94 محمد فہمی)
اور اس طرح کے معاملہ میں کسی نے بھی یہ نہیں لکھا کہ چونکہ یہ عرف حادث عام ہے، اسلئے اس کے ذریعہ سے نص میں تخصیص کردی گئی ہے،بلکہ وہ تخصیص کی ایک دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی شرط کے صحیح ہونے کیلئے ضروری نہیں کہ عرف عام ہو،بلکہ عرف خاص کے ذریعہ سے بھی ایسی شرطیں لگانا درست ہے،علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
ومثله في ديارنا شراء قبقاب علي هذا الوجه اي علي أن يسمو له سيرا (فتح القدير 451/6)
اور اسی طرح ہمارے دیار میں کھڑاؤں اس شرط پر خریدنا کہ بیچنے والا اس میں تسمہ لگادے گا۔
ظاہر ہے کہ یہ معاملہ حادث اور خاص ہے، کیونکہ بہت سے ایسے شہر ہیں جہاں قبقاب (کھڑاؤں) پہننے کا بھی تصور بھی نہیں ۔خود علامہ ابن عابدین کو اعتراف ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
فهذا عرف حادث وخاص ايضا اذ كثير من البلاد لا يلبس فيه القبقاب وقد جعله معتبرا للنص الناهي عن بيع وشرط
یہ عرف حادث ہے اور خاص بھی ہے، اس لیے کہ بہت سے ایسے شہر ہیں جہاں کھڑاؤں پہننے کا رواج نہیں حالانکہ صاحب فتح القدیر نے اس رواج کو بھی نص کے بالمقابل معتبر مانا ہے جس میں بیچنے اور شرط لگانے کی ممانعت ہے۔ (نشر العرف 125/2)
اس معاملہ کی اس کے علاوہ اور توجیہ کیا کی جا سکتی ہے کہ ممانعت کی جو علت ہے وہ اس میں موجود نہیں۔ رہا یہ کہنا کہ مذکورہ مثال میں عرف خاص حادث کی وجہ سے نص میں تخصیص کرلی گئی ہے ایک بے دلیل بات ہے، خود ابن ہمام نے جس سیاق میں اس مسئلہ کو ذکر کیا ہے اسکی تردید کے لیے کافی ہے، علاوہ ازیں تخصیص احناف کے یہاں "نسخ” کے حکم میں ہے۔ کیا کسی عرف کے ذریعے "نص” کو منسوخ کیا جاسکتا ہے؟ شیخ زرقاء کے الفاظ میں:
اس لئے کہ اگر بعد میں وجود میں آنے والے مخالف عرف کے ذریعے نص میں تخصیص جائز ہو تو یہ شرعی حکم کو منسوخ کرنا ہوگا اور ایسا کرنا جائز نہیں، کیونکہ اگر اسطرح تخصیص کی جاتی رہی تو اکثر احکام کی جگہ نئے نئے عرف لے لیں گے اور شریعت بے معنی ہو کر رہ جائے گی (المدخل 900/2)
عرف اور نص خاص میں تعارض:
اگر لوگ ایسے اعمال کے عادی ہوجائیں، جس سے شریعت نے خاص طور سے منع کیا ہو یا شریعت کے منشاء کے مطابق اسے ممنوع ہونا چاہیے تو عرف ان کے جواز کے لیے سند نہیں بن سکتا ہے، خواہ عرف عام ہو یا خاص، مقارن ہو، یا حادث، کیونکہ اگر اس صورت میں نص کو چھوڑ کر عرف پر عمل کیا جائے تو شرعی احکام کا مقصد ہی باقی نہیں رہے گا، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
اذا خالف العرف الدليل الشرعي فان خالفه من كل وجه بان لزم منه ترك النص فلا شك في رده لتعارف الناس كاشياء المحرمات من الربا وشرب الخمر (نشر العرف 116/2)
اگر عرف دلیل شرعی کے مخالف ہو، تو اگر مکمل طور سے مخالف ہو کہ اس کی وجہ سے نص کو ترک کرنا پڑے تو اس کے غیر معتبر ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، جیسے کہ بہت سی حرام چیزوں کا عرف و رواج، مثلا سودخوری شراب نوشی وغیرہ۔
علامہ شاطبی مزید کچھ تفصیل فراہم کرتے ہیں:
رواج پذیر عادتوں کی دو قسمیں ہیں ایک وہ عادتیں جن کے جائز اور ناجائز ہونے کے بارے میں شریعت نے صراحت کردی ہے، بایں طور کے اسے واجب، مستحب، یا حرام و مکروہ کہا ہے۔ اس کے کرنے یا نہ کرنے کی تصریح کر دی ہے ۔دوسری وہ عادت جن کے اثبات و انکار کے لیے کوئی دلیل شرعی موجود نہیں۔
عادت کی پہلی قسم تمام شرعی معاملات کی طرح ہمیشہ برقرار رہے گی، مثلا غلام کا شہادت کا اہل نہ ہونا، اللہ سے مناجات کے لیے طہارت اور ازالہ نجاست کا حکم دینا، ستر کو چھپانا۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کے طواف سے منع کرنا، اور اس طرح کی دوسری عادتیں جو لوگوں میں رائج ہیں ،جن کی اچھائی یا برائی کی شریعت نے صراحت کردی ہے، یہ تمام شریعت کے دائرہ کار میں آتے ہیں، لہذا اس میں کوئی تبدیلی گوارا نہیں، اگر اس کے بارے میں فکری رجحان بدل جائے تو بھی ان میں جو چیزیں اچھی ہیں وہ بری نہیں ہو سکتیں ، اور جو بری ہیں وہ اچھی نہیں ہو سکتیں، مثلا یہ کہا جائے کہ اس وقت غلاموں کی گواہی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، لہذا ہم اسے جائز کردیں، آج ستر کھولنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اس لیے ہم اسے صحیح کہ دیں، یا اس طرح کی اور باتیں، اگر اسے درست تسلیم کر لیا جائے تو شریعت کے دائمی اور پائیدار احکام کی منسوخی لازم آئیگی۔(الموافقات209/2)
نص عرفی:
شریعت میں بہت سے احکامات عرف و عادت پر مبنی ہیں، حالات و زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے وہ حکم دیا گیا ہے، اگر بعد کے کسی دور میں احوال و عادات میں تبدیلی واقع ہو جائے تو یقینی طور پر اس تغیر کا اثر "نص عرفی” پر پڑے گا، اگر حالات کے تبدیلی کے باوجود پہلے حکم کو جوں کا توں برقرار رکھا جائےتو یہ منشا شریعت کے خلاف ہوگا، مثال کے طور پر باکرہ عورت کے بارے میں حدیث ہے کہ”اذنھا صماتھا” اس کی خاموشی اجازت ہے، یعنی نکاح کی اجازت لیتے وقت شوہر سے ناآشنا عورت (باکرا) خاموش رہے تو اس کی خاموشی رضامندی کی دلیل سمجھی جائیگی کیونکہ "بن بیاہی” عورتیں شرم و حیا کی وجہ سے منہ سے کچھ نہیں بولتیں ان کا نہ بولنا راضی ہونا سمجھا جائیگا، لیکن اگر کسی عہد یا علاقہ میں عورتوں کی اس عادت میں تبدیلی ہو جائے جیسا کہ یورپ وغیرہ کی صورت ہے کہ وہ اس معاملہ میں اظہاررائے پر کوئی شرمندگی محسوس نہ کریں تو وہاں کی وہاں خاموشی کو دلیل رضامندی نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ وہاں صراحت ضروری ہوگی کیونکہ مقصد شریعت عورت کی رضامندی ہے، اور یہاں صاف لفظوں میں اقرار کرنا کوئی معیوب نہیں ہے، لہذا چپ رہ جانا کافی نہیں جیسا کہ شوہر دیدہ عورت کی اجازت کے لیے صراحت ضروری ہے، یا جیسے کہ حدیث میں چھ چیزوں کے بارے میں صراحت ہے کہ اضافہ و زیادتی کے ساتھ ایک جنس کا باہم تبادلہ کرنا سود ہے ۔ وہ چھ چیزیں یہ ہیں، سونا، چاندی، گیہوں، جو، نمک، کھجور،اور اضافہ و زیادتی کا معیار ناپ اور تول کو قرار دیا گیا ہے۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مذکورہ چھ چیزوں میں سے سونا اور چاندی تول کر بیچے جاتے تھے اور بقیہ چار چیزیں ناپ کر، مگر آج صورتحال یہ ہے کہ مذکورہ تمام چیزیں تول کر بیچی جاتی ہیں، اب اگر کوئی گیہوں کا تبادلہ گیہوں سے کرتا ہے تو کیا وزن کے اعتبار سے برابری ضروری ہے یا پیمانے کے اعتبار سے؟ خواہ وزن کے اعتبار سے زیادہ ہو جائے
امام ابو حنیفہ اور محمد کی رائے ہے کہ آج بھی بقیہ چار چیزوں میں برابری کے لیے ناپ کا اعتبار ہوگا، کیونکہ نص کے معاملہ میں عرف غیر معتبر ہے اس کے برخلاف امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ عرف پر عمل کرتے ہوئے برابری کا اعتبار کیا جائے گا، اگر عرف تول کر بیچنے کا ہے تو پھر وزن ہی کے اعتبار سے برابری شرط ہے، چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں آخر کی چار چیزیں ناپ کر بیچی جاتی تھیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساوات کے لیے ان میں ناپ کو معیار قرار دیا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تول کر بیچی جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تول ہی کو معیار قرار دیتے، جیسا کہ سونا چاندی میں ہے، دوسرے لفظوں میں آپ نے اپنے زمانہ کے عرف کے مطابق ناپ یا تول کو معیار قرار دیا، چونکہ اب عرف بدل گیا، اسلئے بدلے ہوئے عرف کے مطابق عمل کرنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرنے کے مترادف ہے، عام طور پر فقہاء نے امام ابو یوسف کے نقطہ نظر کو ترجیح دی ہے۔
ابن عابدین شامی کا بیان ہے چونکہ حدیث میں بعض چیزوں کی کیلی اور بعض کے وزنی قرار دینے کی علت عرف و عادت ہے، لہذا عرف و عادت ہی کا اعتبار ہوگا اور اس کے بدل جانے پر حکم بھی تبدیل ہو جائے گا، اس لیے اس مسئلہ میں بدلے ہوئے عرف کا اعتبار کر لینے میں نص کی مخالفت نہیں، بلکہ اتباع ہے، ابن ہمام کے کلام کے ظاہر سے اس روایت کی ترجیح معلوم ہوتی ہے (نشر العرف119/2)
عرف عام اور قیاس میں تعارض:
عرف عام ایسے قیاس سے متصادم ہو جس کی علت نص سے ثابت ہو یا وضاحت کے اعتبار سے نص کے مشابہ ہو تو وہ معتبر نہیں ہے، رہے وہ احکام جو قیاس اجتہادی، عرفی، استحسان یا مصالح مرسلہ پر مبنی ہوں تو ان پر عرف عام حاکم ہوگا۔ والعرف قاض علي القياس (الهدايه 43/3)
اور ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
فان العرف العام يصلح مخصصا… ويترك به القياس (نشر العرف/116)
عرف عام کے ذریعے تخصیص کی جا سکتی ہے، نیز اس کی وجہ سے قیاس کو چھوڑا جا سکتا ہے۔
بلکہ علامہ ابن ہمام تو یہاں تک کہتے ہیں :
نص کی غیر موجودگی میں عرف اجماع کے درجے میں ہے۔(ان العرف بمنزلة الاجماع عند عدم النص . فتح القدير157/6)
واقعہ ہے کہ عرف کا دائرہ عمل، مسائل اجتہادیہ ہی ہیں، یہی وہ میدان ہے جہاں عرف مکمل طور پر اثر انداز ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسائل میں تبدیلی کی اکثر مثالیں اسی قسم کی ہیں، اور منشاء شریعت بھی یہی ہے کہ کچھ چیزوں میں اتنی لچک رکھی جائے کہ زمانے کی تبدیلی کی وجہ سے تنگی و پریشانی نہ ہو، اس لیے ان کے بارے میں کوئی صریح حکم نہیں دیا گیا، چنانچہ اس کی وجہ سے فقہ اسلامی کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ تغیر پذیر قدروں کا ساتھ دے سکے۔علامہ شاطبی کے الفاظ میں:
ان الله انزل من الاحكام ما يصلح لكل زمان ومكان فمنها ما نص عليه نصا صريحا، ومنها قواعد عامه يمكن تطبيقها حسب ظروف الناس واحوالهم وبيئاتهم (الموافقات94/2) اللہ نے ایسے احکام نازل فرمائے جن میں ہر زمان و مکان کی صلاحیت موجود ہے، ان میں کچھ احکام تو وہ ہیں جن کے بارے میں صریح حکم دیا گیا ہے اور بعض کے لیے عمومی قواعد ہیں جنہیں حالات ماحول اور معاشرہ کے مطابق منطبق کیا جا سکتا ہے۔
عرف خاص اور قیاس میں تعارض:
اس پر اتفاق کے نص شرعی کے بہ مقابل عرف خاص کا اعتبار نہیں ہے، لیکن قیاس اجتہادی کے بہ مقابل عرف خاص معتبر ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں قدرے اختلاف ہے، عام رجحان یہی ہے کہ عرف خاص کی وجہ سے قیاس اجتہادی کو ترک نہیں کیا جا سکتا ہے .
(فان العرف الخاص لا ہترک بہ القیاس فی الصحیح ۔نشر العرف 118/2 بخلاف الخاص فانہ یثبت بہ الحکم الخاص مالم یخالف القیاس او لاثر ۔رسم المفتی، مجموعہ رسائل 47/1)
لیکن بعض مشائخ احناف مثلا ابو علی نسفی، نصیر بن یحیی، محمد بن سلمہ وغیرہ کا خیال ہے کہ عرف خاص کی وجہ سے بھی قیاس اجتہادی میں تخصیص پیدا کی جا سکتی ہے، یا اسے چھوڑا جا سکتا ہے، اسی بنا پر ان حضرات کی رائے کے اگر کسی کو کپڑا بننے کے لیے دھاگہ دیا جائے اور اس دھاگے سے تیار شدہ کپڑے کے ایک حصے کو بطور اجرت متعین کرلیا جائے تو درست ہے،
ان لوگوں کے دور میں بخاری میں یہ طریقہ رائج تھا، اس لیے وہاں کے عرف کا اعتبار کرتے ہوئے اس معاملہ کو درست قرار دیا، جبکہ دیگر فقہاء اس معاملہ کو "حدیث طحان” پر قیاس کرتے ہوئے نا درست کہتے ہیں اور عرف خاص کو اس قیاس کے لیے مخصص نہیں مانتے ہیں، "حدیث طحان” کی تفصیل یہ ہے کہ بعض روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "قفیز طحان” منع کیا، نهى عن عسب الفحل وقفيز الطحان (رواه الدار قطني, ابو ليلى, بيهقي, وقال ابن حجر في اسناده ضعيف ۔الدراية على هامش الهدايه) اور قفیز طحان سے مراد یہ ہے کہ گیہوں پیسنے کے لیے کسی کو دیا جائے اور پسے ہوئے آٹے میں سے پسائی کی اجرت طے کر لی جائے۔اس حدیث میں معاملہ کی ایک خاص شکل سے روکا گیا ہے، ممانعت کی وجہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں بعض حضرات کا خیال ہے کہ اس کی وجہ مقدار کا معلوم نہ ہونا ہے، چونکہ مقدار اجرت غیر متعین ہے اس لیے یہ معاملہ درست نہیں ہے(الفقہ الاسلامی وادلتہ 51/4 للزحیلی) امام طحاوی کا خیال ہے کہ اس نے آٹے کو اجرت بنایا ہے حالانکہ آٹا ابھی موجود نہیں، لہذا ایک غیر موجود چیز کو اجرت ٹہرایا گیا ہے اور یہ درست نہیں ہے(مشکل الآثار 307/1)
بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ ممانعت کی وجہ عامل کے عمل کے ذریعہ وجود میں آنے والی چیز کو بطور اجرت طے کرنا ہے، لہذا جس معاملہ میں بھی یہ چیز پائی جائے گی وہ درست نہیں، اور یہ قیاس سے نہیں بلکہ دلالت النص سے ثابت ہے، لہذا جن لوگوں نے سوت والے معاملہ کو جائز قرار دیا ہے انہوں نے عرف خاص کی وجہ سے نص میں تخصیص کی ہے اور یہ درست نہیں شمس الائمہ سرخسی، صاحب عنایہ، علامہ بابرتی اور ابن عابدین شامی وغیرہ کا یہی رجحان ہے(عنایہ مع الفتح 108/9 نشر العرف/116) اس کے برخلاف شمس الائمہ حلوانی، اور ان کے استاد ابو علی نسفی اور فاضل چلپی کے خیال میں یہ مسئلہ قیاس پر مبنی ہے(فتح القدیر 108/9)
اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ مسئلہ قیاس پر مبنی ہے اس لیے کہ "دلالت النص” کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ کسی لفظ کو سنتے ہی حقیقی معنی کے ساتھ کسی اور معنی کی طرف بھی ذہن منتقل ہو جائے اور اس انتقال ذہنی کے لیے کسی اجتہاد اور غور و خوض کی ضرورت نہ پڑے جسے قرآن میں کہا گیا ہے والدین کو اف مت کہو،(لاتقل لہما اف) ہر وہ شخص جو عربی زبان سے آشنا ہے جب وہ اس آیت کو سنے گا تو اس کا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ جب اف کہنے کی ممانعت ہے تو مارنے اور پیٹنے اور گالی دینے کی ممانعت تو بدرجہ اولی ہوگی، برخلاف علت قیاس کے کہ اس کے لیے غور و فکر اور اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہے،
"حدیث طحان” کو سن کر یہ سمجھنے کے لیے کہ حدیث سے مراد وہ معاملہ جس میں عامل کے جزو عمل کو اجرت مقرر کیا گیا ہے ایک مجتہد کے ذہن رسا کی ضرورت ہے، اور عامی کا ذہن یہاں تک پہنچنے سے قاصر ہے بلکہ مجتہد کے فکر و نظر میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے، ہر مجتہد کا ذہن اس مفہوم تک نہیں پہنچے گا، اور اسی کا نام قیاس ہے، حاصل یہ کہ جن لوگوں نے سوت والے مسئلے کو جائز قرار دیا ہے، انہوں نے عرف خاص کی وجہ سے نص میں تخصیص نہیں کی ہے، اور ان جلیل القدر اور صاحب فکر و نظر فقہاء کے بارے میں ایسا سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے بلکہ انہوں نے عرف خاص کی وجہ سے قیاس اجتہادی میں تخصیص کی ہے، اور اس میں اختلاف کی گنجائش ہے۔
قیاس اجتہادی کے سوا دیگر مسائل میں عرف خاص موثر ہے، اس کی وجہ سے ان مسائل کو چھوڑا جا سکتا ہے، اس پر فقہاء کا اتفاق ہے،چنانچہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
واما العرف الخاص اذا عارض النص المذهبي المنقول عن صاحب المذهب فهو معتبر۔ (نشر العرف133/2)
عرف خاص گرچہ اس صراحت کے خلاف ہو جو صاحب مذہب سے منقول ہے تو بھی معتبر ہے۔
عرف اور قواعد عامہ میں تعارض:
قواعد عامہ شریعت کی روح اور مزاج و مذاق کے ترجمان ہوا کرتے ہیں، لہذا ایسے عرف کا کوئی اعتبار نہیں جو عام اصول اور شرعی قواعد کے خلاف ہو چنانچہ سید خضری عرف صحیح کی شرط بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان لا يخالف دليلا من ادلة الشرع او قاعدة من قواعده.
عرف شرعی دلائل میں سے کسی دلیل اور قواعد شرعیہ میں سے کسی کے مخالف نہ ہو۔ (الاجتهاد فيما لا نص فيه 205/2)
اور علامہ وہبہ زحیلی کہتے ہیں:
العرف المقبول بالاتفاق هوالعرف الصحيح العام المطرد من عهد الصحابة ومن بعدهم الذي لم يخالف نصا شرعيا ولا قاعدة اساسية ۔(اصول الفقه للزحيلي)
بہ اتفاق وہی عرف مقبول ہے جو صحیح ہو اور صحابہ اور ان کے بعد سے چلا آرہا ہو، جس میں کسی نص شرعی یا بنیادی قاعدے کی مخالفت نہ ہو۔
عرف اور لغت میں تعارض:
عرف لفظی بہ اتفاق معتبر ہے یعنی متکلم کے کلام کو اس کے عرف کی روشنی میں سمجھا جائیگا اور لغوی مفہوم کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ چنانچہ ابن عابدین شامی میں لکھتے ہیں:
يحمل كلام الحالف والناذر والموصى والواقف وكل عاقد على لغته وعرفه وان خالف لغة العرب ولغة الشارع (نشر العرف133/2)
قسم، نذر اور وقف اور ایسے ہی ہر معاملہ میں کلام کو صاحب معاملہ کی لغت اور اس کے عرف پر محمول کیا جائیگا اگرچہ وہ عربی اور شرعی لغت کے خلاف ہو۔
نیز یہ فقہی اصول ہے:
الحقيقه تترك بدلاله العادۃ۔
حقیقت تعامل کی وجہ سے چھوڑ دی جاتی ہے۔(الاشباہ/93 لابن نجیم)
عرف عملی لغت کے بالمقابل معتبر ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں امام قرافی مالکی کا رجحان یہ ہے :
ان العرف القولي يؤثر فی اللفظ اللغوي تخصيصا وتقييدا وابطالا وان العرف الفعلی لا يؤثر في اللفظ اللغوي تخصيصا ولا تقييدا ولا ابطالا (الفروق 373/1)
عرف قولی کے ذریعہ لغوی الفاظ میں تخصیص اور تقید ہو سکتی ہے، نیز اسے مکمل طور پر ختم بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن عرف فعلی کے ذریعہ لغت میں نہ تخصیص ہو سکتی ہے اور نہ تقیید اور نہ ہی اس کے ذریعہ لغوی مفہوم کو بالکل نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
شوافع کا بھی یہی رجحان ہے، لیکن محققین مالکیہ اور احناف کے یہاں عرف عملی کا بھی اعتبار ہے گرچہ عرف خاص ہو کہ اس کے ذریعے لغوی مفہوم کو محدود کیا جا سکتا ہے، نیز اسے بالکل نظر انداز بھی کرنا درست ہے، لہذا کہیں تعامل ہو کہ "طعام” سے عرف گیہوں یا "لحم” سے صرف بھیڑ کا گوشت مراد لیا جاتا ہو، اور ایسی جگہ کسی کو وکیل بنا کر "طعام” یا "لحم” لانے کے لیے بھیجا جائے اور وہ چاول یا بھینس کا گوشت لے کر آجائے تو تعمیل حکم کرنے والا نہیں سمجھا جائیگا اور یہ خریداری موکل کے لیے نہیں ہوگی (نشر العرف115/2)
عرف اور لغت شرعی میں تعارض ہو تو ایسی صورت میں اس لفظ سے شریعت کا کوئی حکم متعلق نہیں تو عرفی استعمال کو ترجیح دی جائے گی۔(الا يتعلق بالشرع حكم فيعدم عليه عرف الاستعمال۔الاشباہ /187 للسیوطی)لہذا اگر کوئی قسم کھا لے کہ وہ "فراش” پر نہیں بیٹھے گا یا "سراج” سے روشنی حاصل نہیں کرے گا تو وہ زمین پر بیٹھنے یا سورج سے روشنی حاصل کرنے کی وجہ سے حانث نہیں ہوگا، اگرچہ قرآن میں زمین کو "فراش” اور سورج کو "سراج” کہا گیا ہے کیونکہ عرفی مفہوم اس سے محدود ہے کہ "سراج” صرف چراغ کے معنی اور "فراش” صرف بچھونے کے مفہوم استعمال ہوتا ہے
ایسے ہی قسم کھالے کہ "لحم” نہیں کھائیگا تو مچھلی کھانے کی وجہ سے قسم نہیں ٹوٹے گی اگرچہ قرآن میں مچھلی کو "لحم” کہا گیا ہے، کیونکہ عرفی استعمال میں مچھلی پر "لحم” کا اطلاق نہیں ہوتا ہے ۔لیکن اگر استعمال شرعی سے کوئی حکم متعلق ہو شریعت نے اسے مخصوص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا ہو تو ایسی صورت میں عرف کا اعتبار نہیں۔( ان يتعلق به حكم فيقدم على عرف الاستعمال ۔ الاشباہ /187 للسیوطی)
ابن نجیم مصری نے بھی اس اصول کی رعایت کی ہے,(الاشباه لابن نجیم/ 97)
مثلا شریعت نے صوم، صلاۃ، اور حج وغیرہ کو مخصوص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا ہے اور اس سے شرعی احکام متعلق ہیں، لہذا یہ ہمیشہ انہیں مخصوص معنوں میں استعمال ہوں گے۔عرف کی تبدیلی اس پر اس پر اثر انداز نہ ہوگی ، لہذا "صوم "کا اطلاق عرفی اعتبار سے اجناس کا استعمال نہ کرنے پر ہونے لگے، اور کوئی روزہ رکھنے کی منت مان لےتو اسے غیر اجناس کے استعمال کی بھی اجازت نہیں ہوگی، اور اسے روزے کی حالت میں ان تمام چیزوں سے بچنا ضروری ہوگا جس کاشریعت نے پابند بنایا ہے۔
عرف کی وجہ سے قول ضعیف پر عمل :
یہ صحیح ک فقہاء قول ضعیف پر فتوی کو نادرست اور خلاف اجماع کہتے ہیں (ان الحكم والفتوى بما هو مرجوح خلاف الاجماع ۔رد المحتار 602/2 كتاب العدة) مگر ایسا بھی نہیں کہ اسے بالکل ہی ناقابل اعتناء سمجھتے ہوں، بلکہ جہاں کہیں واقعی مصلحت ہوتی ہے تو دوسرے مسلک سے خوشہ چینی کے بجائے ضعیف قول پر عمل کو ترجیح دیتے ہیں، علامہ ابن عابدین شامی کا بیان ہے:
فما مر من انه ليس له العمل بالضعيف والافتاء به محمول على غير موضع الضرورة۔(مجموعه رسائل ابن عابدين50/1)
ابھی جو یہ کہا گیا ہے کہ قول ضعیف پر عمل اور فتوی دینا درست نہیں ہے تو یہ اس صورت میں جب کہ ضرورت نہ ہو ۔
عرف و تعامل اور حالات کی تبدیلی بھی ایک طرح کی ضرورت ہے اس لیے فقہاء اس کی وجہ سے قول ضعیف پر فتوی کی اجازت دیتے ہیں۔ مثلا متون اور ظاہر روایت میں صراحت ہیکہ رمضان کے ثبوت کے لیے مطلع صاف نہ ہو تو ایک عادل کی گواہی کافی ہے لیکن صاف ہونے کی صورت میں ایک کثیر تعداد کی گواہی ضروری ہے
"والا فلابد من جمع عظیم” لیکن اس سلسلہ میں حسن بن زیاد امام ابو حنیفہ سے نقل کرتے ہیں کہ دونوں صورتوں میں ایک اور دو آدمی کی گواہی کافی ہے، اس روایت کے بارے میں علامہ ابن نجم مصری کا کہنا ہے
” ولم ار من رجح ھذہ الروایۃ” مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے اس روایت کو ترجیح دی ہو کیونکہ مطلع کے صاف ہونے کا تقاضا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے دیکھیں اور بھاری تعداد میں آکر گواہی دیں ایسی صورت میں ایک یا دو آدمیوں کا گواہی دینا ان کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔ مگر رفتہ رفتہ حالات میں تبدیلی ہوتی ہوئی لوگ چاند دیکھنے میں اب اہتمام نہیں کرتے اگر آج بھی ثبوت کے لیے مجمع کثیر کو معیار قرار دیا جائے تو ہمیشہ چاند کا ثبوت دوسرے یا تیسرے دن کے بعد ہو۔("لم یثبت الا بعد یومئین او ثلاثہ” )کیونکہ لوگ اولا تو خود چاند دیکھتے نہیں اگر کوئی دیکھ کر گواہی دے اور تعداد کے نہ ہونے کی بنا پر اس کی گواہی رد کر دی جائے تو معاشرہ میں طرح طرح کے طعن و تشنیع کا نشانا بنایا جاتا ہے آخرکار یہ بھی ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے، لہذا مناسب ہے کہ ایسی صورتحال میں حسن بن زیاد والی روایت کو قبول کر لیا جائے گرچہ وہ ضعیف اور ظاہر روایت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ("وینبغی العمل علیھا فی زماننا”) ابن عابدین شامی نے ابن نجیم کی اس رائے کی ان الفاظ میں تائید کی ہے:
یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ ایک بہتر کلام ہے خاص کر ہمارے زمانے میں۔(ولا یخفی انه کلام وجیه خصوصا فی زماننا .نشر العرف 186/2)
عرف کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی:
اگر عرف ایک مکتب فقہ میں منقول اقوال کے خلاف ہو اور دوسرے مسلک میں ایسی رائے موجودہ ہو جو حالات حاضرہ کے مطابق ہو تو اسے اختیار کیا جا سکتا ہے مثلا فقہ حنفی میں صراحت ہے کہ کے "منافع”کی خود کوئی قیمت نہیں لہذا غاصب غصب کردہ مال سے فائدہ اٹھانے کا ضامن نہیں ہوگا وہ صرف اصل سامان یا اس کی قیمت کی واپسی کا ذمہ دار ہے اس دوران جو کچھ اس سامان سے فائدہ اٹھایا ہے اس کا کوئی تاوان نہیں، لیکن متاخرین احناف نے جب دیکھا کہ لوگ اس طرح غصب کے سلسلے میں جری ہوتے جا رہے ہیں کہ کسی کا بھی سامان چھین لیا کچھ دنوں تک فائدہ اٹھاتے رہے پھر واپس کردیا، اس صورتحال کو دیکھ کر انہوں نے فتوی دیا کہ غاصب "منافع” کا بھی ضامن ہوگااگر غصب کردہ مال وقف یا یتیم کا ہو یا اسے کرایہ پر دیا جاتا ہو جیسا کہ امام مالک، شافعی اور احمد کی رائے ہے کہ "منافع” بھی مال ہیں۔ گویا فساد زمانہ کی وجہ سے مکمل طور سے نہ سہی جزوی طور پر متاخرین نے اپنے مذہب کے خلاف "منافع” کو مال قرار دیا۔
یا جیسے کہ فقہ حنفی کے تینوں ستون یعنی امام ابو حنیفہ ابویوسف و محمد اس پر متفق ہیں کہ "طاعت” پر اجرت درست نہیں جبکہ ان کے بالمقابل امام شافعی جواز کے قائل ہیں، لیکن جب متاخرین احناف نے دیکھا کہ سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے بیت المال کا دروازہ دینی کام کرنے والوں کے لیے بند ہوگیا ہے، فساد زمانہ اور معاشی تگ ودو کی وجہ سے مفت تعلیم قرآن یا امامت وغیرہ کا انتظام مشکل ہے ۔اگر تعلیم قرآن وغیرہ سے متعلق لوگوں کی معاشی کفالت نہ کی جائے تو وہ پریشان ہو کر کوئی دوسری راہ تلاش کرلیں گے جس کی وجہ سے دین کا ضیاع ہوگا، چنانچہ دینی مصلحت کے پیش نظر انہوں نے اپنے مذہب کے خلاف تعلیم قرآن، امامت اور اذان پر اجرت لینے کو جائز قرار دیا علامہ مرغینانی رقم طراز ہیں :
وبعض المشايخ استحسنوا الاستجار على تعليم القرآن اليوم لانه ظهر التواني في الامور الدينية ففي الامتناع يضيع القرآن وعليه الفتوى (الهدايه287/3)
بعض مشائخ نے آج قرآن کی تعلیم پر اجرت کو جائز رکھا۔ہے، اس لیے کہ دینی معاملات میں سستی عام ہے، لہذا ایسا نہ کرنے میں حفظ قرآن کے ضیاع کا خدشہ ہے، اور اس پر فتوی ہے ۔
یہاں صرف انہی دو مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے، ورنہ تو اس طرح کے مسائل کی تعداد بے شمار ہے۔ اس سے صاف طور سے معلوم ہوتا ہے کہ عرف تعامل کی وجہ سے ایسی گنجائش نکالی جاسکتی ہے جو اپنے مذہب کے خلاف اور دوسرے ائمہ کے اصول کے مطابق ہو۔
حضرت تھانوی لکھتے ہیں، "دیانات میں تو نہیں لیکن معاملات میں جس میں ابتلاء عام ہوتا ہے دوسرے امام کے قول پر اگر جواز کی گنجائش ہوتی ہے تو اس پر فتوی دفع حرج کے لیے دیتا ہوں(فقہ حنفی کے اصول و ضوابط /169 مرتب مفتی محمد زید)
اور مولانا رشید احمد گنگوہی ارشاد فرماتے ہیں:
ضرورت کے وقت روایت غیر مفتی اور مذہب غیر پر عمل کرنا درست ہے، اگرچہ اولی نہیں خصوصا اضطرار اور عموم بلوی میں(فتاوی رشیدیہ/179)
علماء کے ان بیانات سے معلوم ہوا کہ تعامل، عموم بلوی اور حالات کی تبدیلی کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دیا جا سکتا ہے یہ جزوی تبدیلی اپنا مسلک چھوڑنے کے ہم معنی نہیں ہے۔
عرف کی وجہ سے مسائل عرفیہ میں تبدیلی:
وہ مسائل جو عرف و عادت پر مبنی ہوں حالات کی تبدیلی کی وجہ سے ان کا بدلنا ایک مسلم حقیقت ہے، فقہ حنفی میں اس کی مثالیں اس قدر ہیں کہ احاطہ مشکل ہے علامہ ابن عابدین کا بیان ہے،
"بہت سے مسائل میں مجتہد اپنے گرد و پیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے آج وہ اس بدلے ہوئے عرف کے وقت موجود ہوتا تو اپنی رائے سے رجوع کر لیتا اور موجودہ عرف کے مطابق فتوی دیتا، اس لیے مجتہد کے واسطے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات و عادات سے واقف ہو، کیونکہ بہت سے مسائل زمانہ کے تغیر سے بدل جایا کرتے ہیں، اس لیے کہ اہل زمانہ کا عرف بدل جاتا ہے۔ نئی ضرورت پیش آجاتی ہے، اہل زمانہ میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، اب اگر سابقہ حکم کو باقی رکھا جائے تو اس سے مشقت اور تنگی کا اندیشہ ہے اور ان شرعی قواعد کے خلاف بھی ہے، جن کی اساس سہولت و آسانی پر رکھی گئی ہے، جن کا مقصد ضرر اور فساد کو دور کرنا ہے، تاکہ یہ کائنات بہترین نظام کے مطابق چلتی رہے۔ تم دیکھو گے کہ مشائخ اکثر مذہب کے خلاف فتوی دیا کرتے ہیں، کیونکہ وہ مسائل مجتہد کے زمانے کے مطابق تھے، اور مشائخ اس بات سے آگاہ تھے، اگر مجتہد ان کے زمانے میں موجود ہوتا تو وہی کہتا ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ (نشر العرف125/2-126)
نیز اس میں کسی کا اختلاف نہیں تمام ہی ائمہ اور فقہاء اس پر متفق ہیں، امام قرافی مالکی لکھتے ہیں :
وہ احکام جو عادت پر مبنی ہیں، انہیں عادت کے بدل جانے کے باوجود باقی رکھنا اجماع کی خلاف ورزی اور دین سے ناواقفیت کی دلیل ہے، بلکہ ہر وہ احکام جو عادت کی رہن منت ہے ان کا حکم تبدیل عادت کے بعد میں بدلے ہوئے نئی عادت کے مطابق ہوگا۔ ایسا کرنا مقلدین کی طرف سے وہ گزشتہ مجتہدین کے اجتہاد کی تجدید نہیں کہ اس کے لیے اہلیت اجتہاد ضروری ہو بلکہ یہ ایک ایسا قاعدہ ہے جس کے سلسلے علماء نے اجتہاد کر کے اتفاق کرلیا ہے۔ اب ہم انہی کے پیروکار ہیں کوئی نیا اجتہاد نہیں کر رہے ہیں (الاحکام /231 للقرافی)
ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ وہ احکام جن کے بارے میں واضح علامات موجود ہوں کہ وہ عرف و رواج پر مبنی ہیں، حالات کی تبدیلی کے ساتھ ان کا بدلنا ناگزیر ہے ورنہ لوگ مشقت و تنگی میں مبتلا ہو جائیں گے، اور یہ مقصد شریعت کے خلاف ہے ۔۔۔ اور یہ تبدیلی صرف مباح اور جائز ہی نہیں بلکہ واجب اور ضروری ہے،
علامہ ابن عابدین قنیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں
ليس للمفتي وللقاضي ان يحكما بظاهر الرواية ويتركا العرف (نشر العرف133/2)
مفتی اور قاضی کے لیے درست نہیں کہ وہ ظاہر روایت پر فیصلہ کریں اور عرف کو چھوڑدیں،
قرافی کی اس تصریح کے بعد یقینی طور سے کسی کو اس سے انکار نہ ہوگا:
متى تغيرت فيه العادة تغير الحكم باجماع المسلمين وحرمت الفتيا بالاول (الفروق 1/45للقرافي)
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ جب عادت بدل جائے تو حکم بدل جائے اور پہلے حکم پر فتوی حرام ہوگا ۔
اور اس سلسلے میں عرف عام و خاص کے درمیان کوئی فرق نہیں چنانچہ ابن عابدین شامی کا بیان ہے
فان قلت اذا كان على المفتي اتباع العرف وان خالف المنصوص عليه في كتب ظاهر الرواية فهل هنا فرق بين العرف العام والعرف الخاص قلت لا فرق بينها الا من جهة ان العرف العام يثبت به الحكم العام والعرف الخاص يثبت بها الخاص (نشر العرف 132/2)
تم اگر کہو کہ مفتی پر عرف کی پیروی ضروری ہے اگرچہ ظاہر روایت کی حامل کتابوں کی صراحت کے خلاف ہو تو کیا یہاں عرف عام اور خاص کے درمیان کوئی فرق ہے؟ میں کہوں گا کہ ان میں اس مسئلہ میں کوئی فرق نہیں ہے مگر اس اعتبار سے کہ عرف عام سے عمومی حکم ثابت ہوگا اور عرف خاص سے خصوصی حکم۔
عرف سے متعلق فقہی قواعد:
عرف وعادت کی حیثیت ایک اصول کی سی ہے اس سے متعلق بہت سے ذیلی قواعد ہیں، ان میں سے کچھ کا تذکرہ ضمنی طور پر گزشتہ اوراق میں آچکا ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے ان تمام کو یکجا کر دیا جائے تاکہ عرف و عادت کے خدوخال نمایاں ہوسکیں، اس کی شرطیں اور حدیں واضح ہو جائیں، اس سلسلہ میں فقہاء کی تعبیرات حسب ذیل قواعد کی شکل اختیار کر گئی ہیں:
1۔استعمال الناس حجة يجب العمل بها.
لوگوں کا تعامل دلیل شرعی ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے، یعنی اگر کسی معاملہ میں نص شرعی نہ ہو تو عرف و عمل وہاں دلیل کے قائم مقام ہوتا ہے، جس طرح سے شریعت کے کسی حکم کو بجا لانا ضروری ہوتا ہے ایسے ہی اس کے نہ ہونے کی صورت میں عرف کا درجہ ہے اس کو سرخسی نے الفاظ میں ادا کیا ہے:الثابت بالعرف كالثابت بالنص.
مذکورہ بالا قاعدہ میں "عادت” کے بجائے "استعمال” کا لفظ آیا ہے. ایا معنی ومفہوم کے اعتبار سے ان میں باہم کچھ فرق یا نہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کرام کے مختلف رائیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں مترادف ہیں کوئی فرق نہیں، بعض حضرات کی رائے ہے کہ اگر شرعی اصطلاح کی وجہ سے لفظ کا معنی مجازی مراد ہو تو اسے "استعمال” کہیں گے اور اگر عرف کی وجہ سے معنی حقیقی کو چھوڑا جا رہا ہے تو وہ "عادت” ہے (الاشباہ والنظائر/93)
2۔الممتنع عادة كالممتنع حقيقتة.
جو چیز عادتا ناممکن ہو اس کا وہی حکم ہے جو حقیقتا ناممکن کا ہے، مثلا اگر کوئی شخص اپنے سے بڑی عمر والے کے متعلق کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے تو یہ ناقابل تسلیم ہے کیونکہ یہ حقیقتا ناممکن ہے ایسے ہی اگر کوئی بالکل فقیر اور قلاش ہو اور کسی پر بہت مال کا دعوی کرے اور یہ نہ معلوم ہو کہ کس طرح سے یہ مال اس تک پہنچا ہے تو اس کا یہ دعوی ناقابل سماعت ہے جب تک کہ یہ نہ ثابت کرے کہ اس نے یہ مال کیسے حاصل کیا، کیونکہ اس قدر مال کا دعوی اس کی معروف غربت کی بنا پر ناممکن ہے.
3۔الحقيقه تترك بدلالة العادة.
یعنی عرف و عادت کی وجہ سے لفظ کے حقیقی معنی کو چھوڑ دیا جائے گا اور جن معنوں میں لوگ استعمال کر رہے ہیں اسی کے اعتبار ہوگا مثلا "سری پایا” لغت کے اعتبار سے ہر جانور کے سر اور پیر پر بولا جاسکتا ہے لیکن عرف میں یہ صرف بکرے اور بھینس وغیرہ کے سر اور پیر کے لیے استعمال ہوتا ہے لہذا اگر کوئی قسم کھائے کہ وہ "سری پایا” نہیں کھائے گا تو مرغ کا سر اور پیر کھا لینے کی وجہ سے حانث نہیں ہوگا۔
4۔المعروف عرفا كالمشروط شرطا.
یعنی جو باتیں لوگوں میں مشہور و معروف ہوں اگر معاملات میں ان کا تذکرہ نہ بھی کیا جائے تو بھی وہ بحیثیت شرط ملحوظ ہوں گی، مثلا اگر مہر کی رقم فی الفور ادا نہ کرنے کا عرف ہو اور عقد کے وقت فورا ادائیگی کی صراحت نہ کی گئی تو عورت کے لیے عقد کے بعد فورا مہر کی ادائیگی کا مطالبہ کرنا صحیح نہ ہوگا
5۔المعروف بين التجار كالمشروط بينهم
مذکورہ بالا قاعدہ کا تعلق عرف عام سے ہے اور یہ عرف کی ایک خاص قسم ہے، مگر مفہوم دونوں کا یکساں ہے یعنی تاجروں کے مابین معروف و مشہور چیز بغیر صراحت بھی عقد میں ملحوظ ہوگی، مثلا اگر کہیں کے تاجروں کا عرف ہو کہ وہ سامان کی قیمت قسط وار لیتے ہیں، اس امید پر پر کوئی جا کر معاملہ کرے، بعد میں تاجر یک مشت ادائیگی کا مطالبہ کرے تو یہ مطالبہ درست نہیں۔
6۔لا عبره للدلالة في مقابلة التصريح
صراحت کے مقابلے میں عرف کا اعتبار نہیں مثلا رواج تو صرف آدھا مہر فوری دینے کا ہے لیکن عقد کے وقت عورت نے صراحت کر دی کہ وہ پورا مہر فوری لے گی اور شور نے اسے قبول کر لیا تو اب عرف کا اعتبار نہ ہوگا
7۔العرف غير معتبر في المنصوص عليه
جس معاملہ میں شریعت کا کوئی حکم پہلے سے موجود ہو وہاں عرف کا کوئی اعتبار نہیں تفصیل گزر چکی ہے
8۔العرف الذی تحمل علیہ الالفاظ المقارن السابق دون المتاخر۔
وہی عرف معتبر ہے جو معاملہ سے پہلے یا اس کے ساتھ ہو اگر بعد میں عرف بدل جائے تو اس کا سابق معاملہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔
9۔العبرة للغالب والشائع لا للنادر
یعنی اس عرف کا اکثر لوگ زندگی کے ہر معاملہ میں لحاظ کرتے ہوں ایسا تعامل جسے کچھ لوگ کریں کچھ ترک کر دیں تو قابل اعتبار نہیں۔
10۔لا ينكر تغير الاحكام بتغير ال
ازمان
یعنی حالات و زمانہ کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی ہوجایا کرتی ہے. ایک یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔
(شائع شدہ مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ۔ ۔ جنوری -مارچ 1998ء)