سنت عصر:
عصر کا وقت بڑا مصروف وقت ہے، کاروبار زندگی اس وقت شباب پر ہوتا ہے، بازاروں کی چہل پہل اور دوکانوں کی رونق میں اضافہ ہوجاتا ہے، دوکانداروں کیلئے یہ بڑا قیمتی لمحہ ہوتا ہے، ایسی گھڑی میں دوکان سے منہ موڑ کر مسجد کی راہ لینا بڑا آزمائشی مرحلہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں تاکید کے ساتھ بطور خاص اس نماز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔(10)
ایسے مشغول وقت میں فرض کے ساتھ اگر کوئی سنت کا اہتمام بھی کرے تو زبان رسالت اس کیلئے رحمت کی دعا کرتی ہے، ارشاد ہوتا ہے:
رحم اللہ امرئً صلی قبل العصر اربعاً (11)
اللہ اس پر حمت ناز ل کرے جو عصر سے پہلے چار رکعت پڑھ لے۔
ان چار رکعتوں کی فضیلت اس قدر ہے کہ قید بیان میں نہیں آسکتی ہے اس لئے اللہ کے رسول ﷺ نے کوئی متعین فضیلت بیان کرنے کے بجائے مطلق رحمت کا تذکرہ کیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے :
من صلی اربع رکعات قبل العصر لم تمسہ النار . (12)
جو عصر سے پہلے چارکعت پڑھے تو اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
عصر سے پہلے کی یہ سنت ،سنت غیر موکدہ اور مستحب ہے۔ (ھدایہ 146/1)
چار رکعت یا دو رکعت دونوں حدیث سے ثابت ہیں (13) وقت کی گنجائش اور طبیعت کی بشاشت کے پیش نظر جس پر چاہے عمل کرے سنت ادا ہوجائے گی۔
سنت مغرب:
فرض سے پہلے:
مغرب کا وقت بہت کم اور مختصر ہوتا ہے اس لئے حدیث میں نماز مغرب سے پہلے کسی سنت کی تاکید نہیں آئی ہے، ابتداء میں آنحضور ﷺ نے مغرب سے پہلے نماز پڑھنے کی ترغیب دی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ جس کے جی میں آئے پڑھے اور جو نہ چاہے نہ پڑھے۔(رواہ البخاری ومسلم (جمع الفوائد 112/1)
تاکہ لوگ اسے ضروری اور سنت موکدہ قرار نہ دے لیں۔ (فتح الباری 60/3 ، عمدۃ القاری 246/4)
اورخود آپ ﷺ نے مغرب سے پہلے دورکعت پڑھی بھی ہے ۔(سبل السلام 384/2)
اور بعض صحابہ کرام بھی مغرب سے پہلے سنت پڑھاکرتے تھے۔(14)
چونکہ مغرب کا وقت بڑا مختصر ہوتا ہے، نیز مغرب کی نماز اول وقت میں جلدی پڑھ لینے کی بھی بڑی اہمیت اور تاکید بیان کی گئی ہے اور اگر امام سنت پڑھنے والوں کا انتظار نہ کرے تو ان کی پہلی تکبیر فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے اس لئے بعد میں اس کی ترغیب کو باقی نہ رکھا گیا اور صحابہ کرام نے اس سنت کو پڑھنا ترک کردیا چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کی سنت پر سختی سے کار بند رہنے والے ایک ایک سنت کی تلاش اور جستجو رکھنے والے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں:
مارأیت احدا علی عھد رسول اللہ ﷺ یصلیھا (رواہ ابوداؤد 182/1)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ، میں کسی کو ان دورکعتوں کو پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔
واضح رہے کہ امام مالک،شافعی اور امام احمد کے نزدیک مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔(15)یہ حضرات ان روایتوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جن میں مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کی ترغیب آئی ہے نیز بعض صحابہ کرام کا طرز عمل بھی ان کے سامنے ہے۔ اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنا مکروہ ہے، ان کے پیش نظر حضرت عمر ؓ کی حدیث ہے جس کی وجہ سے وہ ترغیبی احادیث کو منسوخ مانتے ہیں، کیونکہ ہمارے لئے یہ باور کرنا بڑا مشکل ہے کہ نسخ کے بغیر صحابہ کرام کی اکثریت نے مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے آنحضورﷺ کی سنت کو نظر انداز کردیا ہو، انفرادی طور پر کسی کیلئے مشغولیت اس سنت کو ترک کرنے کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن اکثریت کے متعلق اس کی وجہ سے ترک کرنے کا حکم لگانا بڑا دشوار ہے۔
یہ ذہن میں رہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مغرب سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور بعض صحابہ کرام آنحضور ﷺ کے بعد بھی اس پر عمل کرتے رہے اور نسخ کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ بہت سے فقہاء بھی اس کے مستحب یا جائز ہونے کی قائل ہیں۔ خود علماء حنفیہ میں متعدد علماء جواز کی طرف رجحان رکھتے ہیں، جیسے علامہ ابن ہمام (فتح القدیر 386/1) اور علامہ کشمیری وغیرہ اس لئے مغرب سے پہلے کوئی سنت پڑھتا ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے۔
فرض کے بعد:
فرض کے بعد باتفاق دو رکعت سنت موکدہ ہے، بلکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ فجر کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اسی سنت کی ہے۔ کیوں کہ آنحضور سفر میں ہوں یا گھر پر کبھی اسے چھوڑتے نہیں تھے۔ (کبیری 268)
ان رکعتوں میں قل یایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد کا پڑھنا مسنون ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں :
مااحصی ما سمعت رسول اللہ ﷺ یقرء فی الرکعتین بعد المغرب و فی الرکعتین قبل الفجر بقل یا ایھا الکافرون و قل ہواللہ. (سنن ترمذی94/1)
میں نے بار ہا اللہ کے رسول ﷺ کو مغرب کے بعد اور فجر سے پہلے کی دو رکعتوں میں’’ قل یا ایھا الکافرون اور قل ھوا احد ‘‘پڑھتے ہوئے سنا ۔
بہتر ہے کہ مغرب کے فرض اور سنت کے درمیان کوئی بات چیت نہ کرے، حدیث میں ہے ‘
من صلی بعد المغرب قبل ان یتکلم رکعتین وفی روایۃ اربع رکعات رفعت صلاتہ فی علیین (16)
جوکوئی مغرب کے بعد بات کرنے سے پہلے دو کعت یا چار رکعت پڑھ لے تو اس کی نماز ’’علیین ‘‘ کی طرف اٹھالی جاتی ہے۔
ان کا گھر میں پڑھنا افضل ہے:
ویسے تو چند کو چھوڑ کر بقیہ تمام سنتوں کو گھر پڑھنا افضل اور مسنون ہے، مگر مغرب کی ان رکعتوں کے بارے میں خصوصیت سے گھر میں ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ’’مسجد بنی اشھل ‘‘ میں مغرب کی نماز پڑھی اور نماز کے بعد سنت مغرب کے بارے میں فرمایا کہ یہ گھر میں پڑھنے کی نماز ہے (ھذہ صلوۃ البیوت .رواہ ابوداؤد، نسائی ، ترمذی ۔زادالمعاد104/1)
صحابہ کرام کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا ، چنانچہ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن الخطاب ؓ کے زمانہ میں دیکھا کہ لوگ مغرب کی فرض نماز پڑھ کر مسجد سے نکل جایا کرتے تھے یہاں تک کہ کوئی بھی مسجد میں نہ رہ جاتا۔ (زاد المعاد 103/1)
یہ حکم ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں اپنے نفس پر اعتماد ہوکہ وہ گھر جاکر سنت ادا کرلیں گے، چونکہ آجکل سستی کا غلبہ ہے اس لئے اب مسجد ہی میں پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے کیوں کہ افضیلت کی تلاش کی راہ سے نفس ترک سنت کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔