عقد مسنون
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی
شادی کارڈ پر یہ جملہ لکھا ہوا ضرور ملتا ہے مگر خارج میں عقد مسنون بہت کم نظر آتا ہے بلکہ یہیں سے عقد غیر مسنون کی ابتدا ہوجاتی ہے اور قیمتی سے قیمتی اور بے مثال اوریادگار شادی کارڈ کا آڈر دیا جاتا ہے اور فضول خرچی اور نمائش کی مثال قائم کی جاتی ہے ،
حالانکہ رشتہ نکاح ایک نہایت پاکیزہ اور بہت ہی سادہ بندھن ہے ،
دیکھئے یہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف ہیں جو ان دس لوگوں میں شامل ہیں جنھیں جنت کی بشارت دی گئی تھی ، ابھی جلد ہی مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے ہیں ، ایک روز خدمت نبوی میں حاضر ہوئے، لباس پر عقد زواج کی کچھ علامتیں نظر آئیں ، رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے پوچھا کیا نکاح کرلیا ہے ؟عرض کیا : ہاں۔فرمایا کس سے ؟ عرض کیا :ایک انصاری خاتون سے۔ فرمایا : مہر کیا رکھا؟ عرض کیا:گٹھلی کے بقدر سونا۔فرمایا: ولیمہ کرو گرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔
( صحیح بخاری:2048)
حضرت جابر ایک انصاری صحابی ہیں ایک غزوے سے واپسی کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : جابر !تم نے نکاح کرلیا ؟عرض کیا:ہاں۔ فرمایا کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟عرض کیا :شوہر دیدہ سے۔۔۔ ۔ (صحیح بخاری:4052)
ان دونوں واقعات میں غور کا مقام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں موجود ہیں ۔ اس کے باوجود صحابہ کرام نکاح سے پہلے آپ کو اس کی کوئی اطلاع نہیں دیتے۔ اور نہ ہی آپ کی طرف سے کسی ناگواری یا شکایت کا اظہار ہوتا ہے کہ تم نے شادی میں مجھے کیوں نہیں پوچھا اور میری دعوت کیوں نہیں کی ؟
یہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا نتیجہ تھا اور آپ اس کی حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ نکاح کو آسان سے آسان تر بنایا جائے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم خرچ ہو ۔ (مسند احمد 24529)
لیکن آج مسلمانوں کی حالت اس کے بالکل الٹ ہے وہ غیر اسلامی رسم و رواج کے مضبوط بندھنوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور اس معاملے میں دانا اور نادان ، عالم اور عامی سب یکساں ہیں ، اور کراہنے اور سسکنے کے باوجود سب اس بندھن سے بندھے رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہے کہ بیٹی کی پیدائش بوجھ بن گئی ہے ۔ اور پیدا ہوتے ہی اس کے جہیز کی فکر پریشان کرنے لگتی ہے اور ایک بڑی تعداد اس کے لئے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو اپنی مجبوری سمجھتی ہے اور دوسری طرف جہیز لینے والوں کا حال یہ ہے کہ پورا گھر اٹھا کر دے دینے پر بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا ۔اور اصلاح معاشرہ کے نام پر ہونے والی تقریریں چکنے اور اوندھے گھڑے پر پانی ڈالنے کی طرح ثابت ہورہی ہیں ۔
لیکن اس اندھے اور بہرے معاشرے میں کچھ دانا اور بینا بھی ہیں اور اس اندھیر نگری میں کبھی کبھار روشنی کی کرن نمودار ہوجاتی ہے اور اکا دکا ایسے واقعات بھی سننے میں آ جاتے ہیں جس معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہے ۔
تقریباً سال بھر پہلے ڈاکٹر فیضان احمد اعظمی کے بیٹے حافظ محمد حمزہ ندوی سے میری بیٹی کا رشتہ طے ہوا تھا جن کے بارے میں معلوم ہوچکا تھا کہ وہ جہیز کے سخت مخالف ہیں اور ان کے بڑے بیٹے کا نکاح شادی کے تین نقطوں کے بغیر ہوئی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر کے عہدے سے ابھی جلد ہی ریٹائر ہوئے ہیں۔
تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں لیکن جہیز سے احتراز کاداعیہ ڈاکٹر اسرار احمد کی تقریروں کو سن کر پیدا ہوا ۔ انھوں نے رشتہ طے کرنے سے پہلے ہی کہہ دیا کہ نہ تو جہیز لونگا اور نہ کسی بھی طرح کا رسم و رواج ہوگا ، صرف دوچار لوگ آئیں گے ، سادگی کے ساتھ مسجد میں نکاح ہوگا اور اس کے بعد رخصتی ہوجائے گی۔
شادی کی تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی تھی رسم و رواج کی بندشوں کی وجہ سے بعض الجھنیں بھی پیش آرہی تھیں، ڈاکٹر صاحب سے اس کے بارے میں دریافت کرتا تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ کچھ نہیں چاہئے۔
بالکل آخر آخر میں پوچھا کہ شراکت کا کپڑا جائے گا؟ جواب ملا یہ کونسی مصیبت ہے ؟ میں نے کہا کہ آپ کے بھائی بہن ،والدہ ، بیٹے بیٹی وغیرہ کے لئے کپڑا ۔
کہا بالکل نہیں ، میں نے کہا عورتیں اعتراض کریں گی۔ کہا کہ جو اعتراض کریں گی میں انھیں اپنی طرف سے کپڑا دے دونگا۔مین نے پوچھا نوشہ کے لئے بطور تحفہ دو ایک جوڑا کپڑا دے د یا جائے تو کیا حرج ہے ؟ جواب ملا ہرگز نہیں۔
چنانچہ طے شدہ پروگرام کے مطابق29نومبر2021 کو ڈاکٹر صاحب اپنے وطن اصلی چریاکوٹ سے چند لوگوں کے ہمراہ عصر کے بعد گھوسی پہونچے، قریب کی مسجد میں نکاح ہوا، اور ان کی خواہش پر مہرفاطمی( ایک کیلو سات سو پچاس گرام چاندی)کو مہر مقرر کیا گیا جسے سونے کے دو کنگن کی شکل میں ادا کردیا گیا اور مغرب بعد رخصتی ہوگئی۔
نہ جوڑا نہ گھوڑا،نہ جہیز نہ بارات نہ کوئی تام جھام اور نہ رسم و رواج اور نہ گمچھا اور رومال نہ گھڑی نہ انگوٹھی۔ نہ منہ دکھائی نہ سلام کرائی اور نہ رخصتی کی مٹھائی، نہ چینی نہ لائی۔ بلکہ آخر تک یہی کوشش رہی کہ یہ شادی عقد مسنون کے دائرے ہی میں رہے، اور دیکھنے والوں کا کہنا ہے ایسی شادی تو ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی، اللہ کرے کہ یہ جوڑا ایک مثالی جوڑا ثابت ہوآمین یا رب العالمین اللہ ۔
عقد مسنون -2
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
بہت سے علماء اور جماعتیں زبانی طور پر اصلاح معاشرہ کا پروگرام کرتی رہتی ہیں جس میں خاص طور پر جہیز اور بارات کے بغیر نکاح کرنے کی تلقین کی جاتی ہے ۔لیکن ڈاکٹر فیضان احمد اعظمی صاحب میدان عمل کے آدمی ہیں وہ عملی طور پر بذات خود ایک تحریک ہیں ۔انھوں نے اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی شادی جہیز اور بارات کے بغیر سنت طریقے پر کی ۔اور چونکہ انھوں نے پورے گھر کا ماحول بنا رکھا ہے اس لئے شادی کے بعد بھی بہؤوں کو اس معاملے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے اور جہیز نہ لانے پر ساس اور نندوں کے طعنے سننے کو نہیں ملتے ہیں ۔
اور دوسروں کو بھی اس راستے پر چلانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں ۔چنانچہ ان کی ترغیب پر ان کے ایک بھائی نے سنت کے مطابق اپنے بیٹے کا رشتہ کیا ۔
میری بڑی بیٹی ان کی بہو ہے ۔اس کے بعد والی بیٹی کا رشتہ انھوں نے اپنے چچا بھائی جناب جاوید توفیق صاحب کے صاحب زادے معاذ أحمد سے طے کرایا ،چونکہ جہیز اور بارات اور کسی بھی طرح کے رسم و رواج کے بغیر رشتہ طے تھا اس لئے بالکل ٹینشن فری تھا ۔درمیان میں عورتوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ وہ بارات لانا چاہتے ہیں ۔
میں نے اپنے دوست مفتی اشرف علی صاحب محمد پوری سے گفتگو کی جن کا مینہ نگر آنا جانا رہتا ہے اور وہاں کے لوگوں سے باخبر ہیں اور رشتہ طے کرنے سے پہلے بھی میں نے ان سے مشورہ کیا تھا ۔
انھوں نے کہا کہ حاجی جاوید صاحب تو ایسے نہیں ہیں ۔آپ براہ راست ان سے گفتگو کرلیجئے ۔چنانچہ ان سے گفتگو کی گئی تو معلوم ہوا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
چنانچہ گیارہ نومبر 2023 کو نہایت سادگی کے ساتھ جامع مسجد گھوسی میں نکاح کیا گیا ۔اسی دن میرے بیٹے سلمان مجید کا ولیمہ تھا ۔یہ رشتہ بھی جہیز اور بارات کے بغیر ہوا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے بیک وقت دو فریضے کو انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی ۔
موقع کی مناسبت سے برات کے تعلق سے حضرت مصلح الامت سے خصوصی تعلق رکھنے والے حکیم وصی أحمد کا ایک واقعہنقل کیا جارہا جسے حضرت مولانا اعجاز أحمد اعظمی رح نے بیان فرمایا ہے :
حکیم صاحب نکاح و شادی کی رسوم کو اسی دینداری اور خدا پر توکل کے جذبہ سے بالکل بیخ و بن سے اکھاڑنے پر تلے رہتے ، اپنے بچوں اور بچیوں کے نکاح میں کوئی خلاف سنت رسم نہ ہونے دی ، اور نہ ایسی شادیوں میں شریک ہوتے ، جہاں خلاف شرع رسوم کی پابندی ہوتی ، اس طرح کی دعوتوں سے بھی احتراز کرتے مجلس نکاح میں شرکت کر لیتے ،مگر بارات کے عنوان سے جو دعوت کھلائی جاتی اس سے اجتناب کرتے ، اور اس سلسلے میں وہ کسی کی پرواہ نہ کرتے ۔
اس سلسلہ میں وہ یہاں تک پختہ تھے کہ بڑی سے بڑی نسبتوں کو ٹھکرا دیتے ، انھیں اپنی اولاد کے دنیوی مستقبل سے زیادہ اخروی مستقبل کی فکر رہا کرتی تھی ۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے محض اللہ کے واسطے جب اونچی نسبتوں کو ٹھکرایا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر انتظام فرمادیا ۔
ایک روز بڑے لطف سے انھوں نے ایک صاحبزادی کے نکاح کی داستان سنائی ، میں نے جب یہ داستان سنی اسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ اسے کسی وقت لکھ کر شائع کردوں گا ، خیال تھا کہ حکیم صاحب کو دکھالوں گا، ان کی تصدیق اور نظر ثانی کے بعد اس کی اشاعت ہوگی۔ لیکن کیا پتہ تھا کہ وہ اتنی جلدی آنکھیں موند لیں گے ، اور مجھے ان کے تذکرے کے ضمن میں یہ ایمان افروز داستان سنانی پڑے گی ۔
فرمانے لگے کہ گورکھپور میں ایک بڑے عہدہ دار جو مسلمان تھے ، عرصہ سے تعینات تھے، صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے، اور اسی صوم و صلوۃ کی پابندی کی وجہ سے حکیم صاحب کے مطب اور علاج کے واسطے سے ان کے روابط حکیم صاحب سے ہوئے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہوتے گئے ، انھیں معلوم تھا کہ حکیم صاحب کی ایک بچی اب نکاح کی عمر کو پہنچ چکی ہے، ایک دن وہ بہت خوش خوش آئے اور ضلع کے ایک بڑے عہدہ دار کلکٹر یا نائب کلکٹر کے صاحبزادے کا پیغام لے کر آئے اور کہا کہ لڑکا بڑا تعلیم یافتہ ہے ، اونچی ملازمت پاچکا ہے، اس کے ساتھ لڑکی کا رشتہ ہو جائے تو لڑ کی کی زندگی ٹھکانے لگ جائے، حکیم صاحب نے غور سے ان کی بات سنی اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا کہ آپ نے میری لڑکی کی فکر رکھی لیکن صاحب بات یہ ہے کہ میں اپنی لڑکی کی شادی اپنی برادری میں کروں گا ، برادری سے باہر نہیں کروں گا، وہ صاحب چونکے، انھوں نے کہا کہ میں تحقیق کر چکا ہوں ، جس برادری کے آپ ہیں اسی برادری کے وہ بھی ہیں، حکیم صاحب نے کہا جی نہیں ان کی اور میری برادری ایک نہیں ہے ، میں ایک ملا آدمی ہوں ، میں بھی نماز پڑھتا ہوں میرے بچے بھی نماز پڑھتے ہیں ، میرے چہرے پر داڑھی ہے، میرے گھرانے کا ہر چہرہ باریش ہے، اور جہاں آپ میری بچی کا نکاح کرنا چاہتے ہیں ، وہ گھرانا دین سے دور ہے ، سنت سے دور ہے ، وہ میری برادری میں نہیں ہے، اس کو سن کر وہ مایوس ہوئے لیکن انھوں نے حکیم صاحب کو سمجھایا اور اس نکاح کے فوائد بتائے ، پھر اصرار کیا، اور اتنا اصرار کیا کہ حکیم صاحب نے بادل ناخواستہ ہاں کہہ دی ، وہ صاحب لڑکے کے باپ کو لے کر آئے تا کہ بات پختہ ہو جائے ، گفتگو ہوئی ، حکیم صاحب نے کہا کہ رشتہ ہونے کیلئے ایک شرط ہے، اگر وہ آپ کو منظور ہو تو خیر ورنہ اس بات کو یہیں دفن کر دیجئے ، فرمایا کہ میرے گھر بارات نہیں آئے گی ، میں اس رسم کی شریعت میں گنجائش نہیں پاتا ، ان صاحب نے کانوں پر ہاتھ رکھے کہ بغیر بارات کے شادی کیسی ؟ حکیم صاحب نے تاکید مکرر فرمایا کہ بغیر بارات کے ہی نکاح ہوگا ، میرے دروازہ پر خانہ خدا (مسجد)ہے ، آپ بچے کو لے کر یہاں آجائیے، نماز پڑھئے، نماز کے بعد میں نکاح پڑھا دونگا۔ جیسا وقت ہوگا ، اس کے لحاظ سے کچھ خاطر مدارات کردوں گا ، کھانے کا وقت ہوگا تو ماحضر پیش کردوں گا، کوئی اور وقت ہوگا تو چائے پلا دوں گا ، یہ بات ان صاحب کی کسی طرح سمجھ میں نہیں آرہی تھی ، وہ حکیم صاحب کو بارات پر قائل کرنا چاہ رہے تھے اور حکیم صاحب اپنی رائے پر پختہ تھے ، جو صاحب درمیان میں تھے ، انھوں نے بچے کے باپ کی طرف سے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ حکیم صاحب! آپ جیسا فرماتے ویسا ہی ہوگا، حکیم صاحب نے پھر تاکید کردی کہ میرے پاس بارات ٹھہرانے کی جگہ نہیں ہے ، اسے نہ لائیے گا، پھر تاریخ مقرر ہوگئی وہ صاحب
باہر نکلے تو اپنے ساتھی سے بولے، ارے بارات آئے گی، حکیم صاحب پر اس وقت مولویت سوار ہے ، جب بارات آجائے گی تو دروازے کی عزت کا خیال کریں گے ۔
بھلا کوئی آئی ہوئی بارات کو پلٹاتا ہے، اس وقت غبارے کی سب ہوا نکل جائے گی ، وہ بیچارے نہیں سمجھ سکے کہ حکیم صاحب کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
وہ تاریخ آگئی ، حکیم صاحب اپنے مطب میں مریضوں کے جھرمٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں ، کوئی گیارہ بارہ بجے کا وقت رہا ہوگا ، ایک شخص دوڑتا ہوا آیا کہ دروازے پر بارات آئی ہے، نوشہ کے والد آپ کو بلا رہے ہیں، حکیم صاحب نے کہا کہ میرے دروازے پر بارات نہیں آئے گی ، وہ کہیں اور کی بارات ہوگی ، اس شخص نے باصرار تمام کہا کہ نہیں ، وہ آپ ہی کے دروازے پر آئی ہے ، حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میں باہر نکلا تو سو آدمیوں کی بارات تھی ، دولہا سر پر پگڑی باندھے ایک بڑے گھوڑے پر سوار ہے، گھوڑا قدم قدم اچھل رہا ہے، اور دولہا کے سر پر چھتر سایہ ہے، جو برابر گردش میں ہے، دولہا کے والد بھی ہمراہ ہیں اور وہ درمیانی واسطہ بھی موجود ہیں ، انھوں نے پوچھا کہ حکیم صاحب بارات کہاں ٹھہرے گی؟ اس وقت حکیم صاحب کے مکان سے کچھ فاصلہ پر کسی بھنگی کے یہاں شادی کا اہتمام تھا ، وہ لوگ اپنی حیثیت کے لحاظ سے خیمہ وخرگاہ لگائے ہوئے تھے ، باجہ مسلسل بج رہا تھا حکیم صاحب نے اسی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ہمارے یہاں ایسی جو بارات آتی ہے ، وہ اس جگہ ٹھہرتی ہے ، ان لوگوں نے سمجھا کہ حکیم صاحب کی رائے تبدیل ہوگئی ہے۔ اب نہ صرف یہ کہ بارات قبول ہے بلکہ اس کے لوازمات باجہ وغیرہ کا بھی انتظام کر رکھا ہے ، بارات آگے بڑھ گئی ، اور حکیم صاحب اپنے مطلب میں جا کر حسب معمول پھر مریضوں کی مسیحائی میں لگ گئے ، بارات بڑی شان سے بھنگیوں کے شامیانے تک پہونچی ، بھنگیوں نے جب اپنے آقاؤں کو دیکھا تو ایک دم باجا بجانا روک کر ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے کہ حضور ادھر کہاں نکل آئے ؟ ان صاحب نے کہا کہ کیا یہ حکیم صاحب کا شامیانہ نہیں ہے؟ بھنگیوں نے کہا نہیں حضور ! یہاں ہم غریبوں کی بارات آنے والی ہے، اب تو یہ لوگ بہت چراغ پا ہوئے اور ادھر ہی سے بارات واپس لے گئے، حکیم صاحب خبر تک لینے نہیں گئے ، بعد میں وہ "واسطہ درمیاں” بہت خفا ہوئے حکیم صاحب نے نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ میں اپنی برادری سے باہر اپنی بچی کا نکاح نہ کروں گا۔ ادھر تو یہ ہوا ، ادھر گھر کے لوگ بھی حکیم صاحب پر ناراض ہوئے کہ اتنا اچھا
رشتہ محض بارات کی وجہ سے رد کر دیا، حکیم صاحب کچھ جواب نہ دیتے ، بس اللہ سے دعا کرتے کہ بارالہا! میں نے صرف دین کے واسطے یہ رشتہ کاٹا ہے ، آپ کو قدرت ہے آپ اس کا نعم البدل عطا فرمادیجئے ۔
اس کے بعد کی داستان سننے کے لائق ہے، ایک دو ہفتہ حکیم صاحب نے گھر والوں کی ناراضگی میں گزارا، ایک روز صبح کے وقت ٹیلیفون کی گھنٹی بجی حکیم صاحب نے فون اٹھایا اور پوچھا کون؟ ادھر سے آواز آئی ، وصی اللہ الہ آباد، حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب ہوں گے ، کیونکہ حضرت کو ٹیلیفون وغیرہ سے کیا مناسبت؟ میں نے پوچھا کون وصی اللہ ؟ ادھر سے آواز آئی آپ نہیں جانتے کہ پوچھ رہے ہیں اتنے میں انھوں نے پہچان لیا ، عرض کیا حضرت؟ فرمایا ہاں جی! حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ اس آواز سے میرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا، میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا حضرت کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ مولوی عبد المجید (مالک اسرار کریمی پر لیں الہ آباد) کے یہاں سے آپ کو فون کر رہا ہوں ، آپ کی وہ بچی ہے نا جو مجھے ابا کہتی تھی، اس کا نکاح کہیں طے تو نہیں کیا ہے ، میں نے کہا نہیں حضرت ! حضرت نے فرمایا میں نے اس کا ایک مناسب رشتہ دیکھا ہے آپ آ جائے ، اگر پسند ہو تو عقد ہو جائے۔ حضرت اقدس گورکھپور کے زمانہ قیام میں عرصہ تک حکیم صاحب کے مکان پر رونق افروز رہے تھے، اس کی وجہ سے حضرت کے ساتھ ان کا تعلق بالکل خاندان
جیسا تھا تفصیل آگے آرہی ہے۔
حکیم صاحب مسرت سے بے تاب ہو گئے ، اہل خانہ سے فرمایا کہ اب تمہاری بچی کا نکاح میں نہیں ، دنیا کے نہیں، دین کے بادشاہ کریں گے ، پھر انھوں نے ساری تفصیل بتائی ، اہلیہ پر فرحت و مسرت کا ایک کیف چھا گیا، حکیم صاحب نے شکرانے کی نماز پڑھی ۔ پھر صاحبزادی سے اجازت لی کہ حضرت اقدس کو اختیار کامل ہے، جس سے چاہیں جتنی مہر پر چاہیں اور جب چاہیں نکاح کر دیں ، اس کے بعد اپنے بڑے بھائی حاجی ولی محمد صاحب کو لے کر الہ آباد حاضر خدمت ہوئے ، حضرت بہت مسرور ہوئے ، دوسرے دن مجلس مبارک میں جو روزانہ ارشاد و اصلاح کے سلسلے میں منعقد ہوتی تھی ، نکاح پڑھا دیا ، یہ رشتہ نہایت با برکت ثابت ہوا، اور ماشاء اللہ ہر اعتبار سے بہتر اور بڑھ چڑھ کر ۔
حکیم صاحب نے اپنے تمام بچوں اور بچیوں کے نکاح میں یہی طریقہ اختیار کیا۔رکاوٹیں اور دشواریاں ضرور سامنے آئیں مگر مرد مؤمن کی عزیمت ،قلبی قوت اور اللہ پر توکل و اعتماد کے سامنے سب غبار بن کر اڑگئیں۔
(کھوئے ہوؤں کی جستجو/ 255-260)
اور مولانا اسیر ادروی صاحب لکھتے ہیں:
مسلمانوں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں کی معاشرتی ، سماجی تہذیبیں اور تمدنی زندگی کو جتنا متاثر کیا وہ تاریخ کی ایک نا قابل انکار حقیقت ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود مسلمان بھی یہاں کے مذہبی سماجی اور تمدنی اصولوں سے تدریجی طور پر متاثر ہوتا رہا اور آج اس کو یہ احساس بھی نہیں کہ ہم کون سا پر کشش اسلام کا پیغام لے کرآئے تھے جس کی وجہ سے یہاں کے باشندوں نے ہمارا استقبال کیا ، ہماری پذیرائی کی ، اور اسلام قبول کر کے ہماری صفوں میں شامل ہو گئے یہاں مذہبی اصولوں کی بنیاد پر انسانوں کی درجہ بندی تھی اور آج بھی ہے ، ہریجن ، چھتری ، ویش اور شودر، انسانوں کا ایک طبقہ اعلیٰ اور شریف ترین دوسرا ارزل اور ذلیل ترین ، اونچ نیچ ، چھوت ،چھات ، عزت وذلت کا یہ معیار مذہبی بنیاد پر ہے جو نہ مٹا ہے نہ مٹ سکتا ہے اس کے برعکس اسلام کا قانون تھا "لا فضل لعربی علی عجمي ولا لاحمر على اسود كلكم بنوادم دادم من تراب "اسلام میں اونچ نیچ ، چھوت چھات کا کوئی تصور نہیں، اسلام انسانوں کی نسل و خون کے لحاظ سے کوئی درجہ بندی نہیں کرتا ، دنیا میں اسلام کی اشاعت کا سب اہم سبب اسلام کی یہی تعلیم تھی، لیکن ہندوستان میں اسلام کی اس تعلیم کو پس پشت ڈال دیاگیا اور یہاں کے برہمنی نظام کو عملی طورپر اپنایا گیا، یہ سب سے پہلا تاثر تھا جو ہندوستان میں آکر مسلمانوں نے قبول کیا ۔
جب اسلام کے نظریہ مساوات واخوت اور عام انسانوں کی برابری کا قانون دیکھ کر یہاں کے باشندوں نے اسلام قبول کر لیا، وہ اپنے ساتھ اپنی پہلی زندگی کے کچھ خیالات اور توہمات سے دامن نہ چھڑا سکے، ان کی سماجی زندگی میں کہیں کہیں ان کے اثرات باقی رہے ، خوشی وغم ولادت و وفات کی مجلسوں اور تقریبات میں اس کی جھلک نظر آتی رہی تیرتھ یاترائیں، درشن ، پوجا ، چڑھاوا، نذر ونیاز جو وہ کرتے رہے مسلمان ہونے کے بعد وہ قبروں ،مزاروں پر میلے ٹھیلے عرس کے نام پر کرنے لگے۔ تیجہ، چہلم، برسی وہ پہلے بھی مناتے تھے مسلمان ہو کر بھی وہ یہ تقریبات کرتے رہے پھر عام مسلمانوں نے انہیں رسوم کو اسلام سمجھ کر اختیار کر لیا، یہ یہاں کے قدیم باشندوں سے مسلمانوں کا دوسرا تاثر تھا ۔
تیسرا تاثر شادی اور خوشی کی تقریبات میں ہوا ، بارات تلک، جہیز ،سہرا ،آتشبازی،پٹاخے، ہندوانہ رسم ورواج تھے ، مسلمانوں نے ان رسموں کو اس طرح اپنا لیا کہ آج کوئی سوچتا بھی نہیں کہ یہ اسلام کی تعلیم نہیں بلکہ ایک ایسی قوم یا مذہب کے رسم و رواج ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام میں شادی اتنی سہل الحصول بنا دی گئی ہے کہ ہر امیر و غریب اسی پر عمل کر سکتا ہے ۔عہد رسالت میں یہ کام اتنا سادگی سے ہوتا تھا کہ بعض مقرب ترین صحابہ نے شادیاں کیں اور حضور کو اس کا علم تک نہیں ہوا ، ایک صحابی کے کپڑے پر زرد رنگ کا دھبہ دیکھ کر دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا حضور میں نے شادی کرلی ہے ، آپ نے فرمایا:
اولم و لو بشاۃ۔(ایک بکری ذبع کر کے ولیمہ کر دو)
حضور کا ارشاد ہے کہ وہ نکاح ہے بابرکت ہے جس میں کم سے کم آدمی زیر بار ہو، آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ رشتہ کے وقت چار باتوں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ظاہری حسن و جمال ، مال و دولت، خاندانی اعزاز و افتخار اور دین داری ، تم دینداری کو ترجیح دو، شریک حیات کا مسلک و عقیدہ صحیح ہو اس کا خاندان دین دار ہو، لیکن آج کل دینداری کو چھوڑ کر اور سب کچھ دیکھا جاتا ہے ، جو منشارسالت کے خلاف ہے ، سادگی اسلام میں پسندیدہ تر ہے لیکن ہندوستان کے مسلمان کو یہی منظور نہیں کیونکہ انکی ناک کٹ جائیگی ، بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی خاندانی اعتبار سے جاگیردار اور رئیس رہے،حضرت شیخ الہند جو دیوبند کے ے بہت ہی خوشحال گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے ان دونوں حضرات نے اپنی کئی کئی لڑکیوں کی شادیاں اس طرح کیں کہ مسجد میں نماز کے بعد نمازیوں کو روک لیا گیا کہ نکاح ہوگا آپ نے لڑکے کو بلاکر خودہی اپنی لڑکی کا نکاح پڑھ دیا اور ڈولے میں گھر والوں نے لڑکی کو رخصت کر دیا ، ان حضرات کی تو ناک نہیں کٹی۔ آج لاکھوں اور کروڑوں آدمی ان کی عظمت کے سامنے سر جھکاتے ہیں ، اگر آپ بھی شادی میں اسلام کی سادگی کو اپنا لیں تو آپ کی ناک بھی سلامت رہے گی ، انشاء اللہ آپ کو عزت واحترام بھی حاصل ہوگا ۔
(مجلہ ترجمان الاسلام. بنارس.اپریل -جون.1998ء)
یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت میں اشاعت اسلام کی راہ میں سب بڑی رکاوٹ برادری واد ، ذات پات اور شادی کے رسوم و رواج اور جہیزاور بارات ہے ۔اگر مسلمان غیر مسلموں کو اپنے گھر خاندان میں ضم کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں اور سادگی کے ساتھ نکاح کریں تو اتنی کثرت کے ساتھ لوگ اسلام قبول کریں گے کہ سوچا نہیں جاسکتا ہے ۔
لوگ آپ کے عمل کی وجہ سے اسلام سے دور ہورہے ہیں۔اور یقینی طور پر آخرت میں اس سنگین جرم کے بارے میں آپ کو جواب دہ ہونا پڑے گا ۔