علامہ فراہی کا تفسیری منہج
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی۔
گرامی قدر جناب مولانا اسیر ادروی صاحب!
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ ۔
ترجمان الاسلام میں مولانا فراہی سے متعلق آپ کا مضمون دیکھنے کو ملا جسے آپ نے شیخ امین احسن اصلاحی صاحب کی تحریروں کی روشنی میں ترتیب دیاہے۔ لیکن خود مولانا فراہی کی کتابوں میں اس سے متعلق اتنا مواد موجود ہے کہ اس سے ان کی فکر کو سمجھا جا سکتاہے، اس کی روشنی میں ان کی تصویر بڑی واضح دکھائی دیتی ہے ان میں اور انکارحدیث کرنے والوں میں بڑا کم فاصلہ معلوم ہوتاہے، اور وہ لوگ جو خود کو ان کی فکر سے وابستہ قرار دیتےہیں وہ تو رسمی طور پر بھی حدیث کے تعلق سے عاری نظر آتے ہیں، چنانچہ ان کے افکار کا تعارف کرانے والوں میں سے ایک شخص نے بالمشافہہ گفتگو میں مجھ سے کہا کہ ”بخاری میں خرافات ہیں اور بخاری نے دشمنوں کےہاتھ ہتھیارفراہم کیے ہیں“ ان کے انکارحدیث کی فہرست بڑی طویل ہے ،مناسب معلوم نہیں ہوتاہے کہ ان کانام ظاہر کرکے انہیں ”ہائی لائٹ“کیاجائے۔
اس فکرکے حاملین کو مجھے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اسی مناسبت سے استاذ محترم حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی نے”المعهدالعالی الاسلامی“ میں ”علامہ فراہی کاتفسیری منہج“ کے عنوان سے محاضرہ کی دعوت دی تھی، مارچ 2001ء کے اوائل میں یہ محاضرہ دیاگیا جو تحریری شکل میں آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
حالات زندگی:
علامہ حمید الدین فراہی کا تعلق اعظم گڑھ کے ایک گاؤں پھریہا سے ہے اس کی طرف نسبت کر کے ان کو فراہی کہا جاتا ہے اس گاؤں میں 16الجمادی الاخری 1280ھ مطابق 18 نومبر 1863ء میں ان کی ولادت ہوئی۔ ناظرہ اور حفظ قرآن پاک کے بعد عربی اور فارسی زبان اپنے ماموں زاد بھائی علامہ شبلی نعمانی سے سیکھی، مشہور عالم دین حضرت مولانا فاروق چریا کوٹی سے کسب فیض کیا اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے عربی ادب کی درسیات کی تکمیل کی، علم فقہ کے لئے مولا نا عبدالحی فرنگی محلی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے استفادہ کیا لیکن بقول علامہ امین احسن اصلاحی ”مولانا کی طبیعت ابتدا ہی سے تحقیق پسند واقع ہوئی تھی اور ان کے اس ذوق کو مولانا شبلی کے فیض صحبت نے اور زیادہ ابھار دیا تھا اس وجہ سے مولانا لکھنو میں کچھ زیادہ دن نہ ٹکے ، عصری تعلیم کے حصول کے لیے مختلف کالجوں سے ہوتے ہوئے 1891ء میں علی گڑھ کا رخ کیا ، اس وقت کالج کے اسٹاف میں نامور مستشرق پروفیسر آرنلڈ بھی تھے مولانا نے ان سے بھر پور استفادہ کیا، نیز ایک یہودی استاذ سے عبرانی زبان پڑھی ۔
عملی زندگی کی ابتدا مدرسہ الاسلام کراچی سے ہوئی وہاں سے شعبۂ عربی کے پروفیسر کی حیثیت سے علی گڑھ آگئے کچھ دنوں تک حیدر آباد میں بھی رہے وہاں سے پھر وطن واپس آگئے اور تصنیفی و تالیفی کاموں میں مشغول ہو گئے ، زندگی کے آخری مرحلہ میں بغرض علاج متھرا تشریف لے گئے اور یہیں قضا آ پہنچی ، 19الجمادی الاخری مطابق 11 نومبر 1930ء کو وفات ہوئی اور متھرا ہی میں دفن ہوئے ۔
علامہ فراہی ایک عالم دین ہی نہیں بلکہ شب زندہ دار زاہد بھی تھے اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلدادہ اور عاشق تھے ، نہایت ہی صابر و شاکر، اور تھوڑے پر قناعت کرنے والے تھے۔ وہ ایک بلند پایہ محقق اور عظیم مفسر تھے۔ اللہ کی کتاب کو سمجھنا اور سمجھانا ان کی زندگی کا محور اور مقصد تھا، اور وہ عمر بھر اسی بحر نا پیدا کنار کی شناوری اور غواصی کرتے رہے علامہ سید سلیمان ندوی کے الفاظ میں :
وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک اور صرف قرآن پاک کے فہم اور تدبر اور درس و تعلیم میں محو ہر شے سے بیگانہ اور ہر شغل سے نا آشنا تھی۔ (معارف 26 نومبر 1930ء)
وہ صرف عام معنوں میں ایک مفسر قرآن ہی نہیں بلکہ مفسر گر تھے لوگوں میں قرآن فہمی کی روح پیدا کر دیتے تھے انکی خواہش تھی کہ لوگوں کے سامنے ایسے اصول وضوابط آجائیں جنکے ذریعہ فہم قرآن کی راہ ہموار ہو جائے اور وہ خود قرآن کی تہ تک رسائی کی کوشش کریں وہ قرآن کے رنگ میں رنگ جائیں اور اس کے سمجھنے اور سمجھانے کو اپنی زندگی کا محبوب مشغلہ بنالیں۔
امتیازی وصف :
علامہ فراہی کا قابل قدر اور اہم امتیازی وصف یہ ہے کہ انہوں نے نظم قرآن کا جامع اور مکمل تصور پیش کیا
قرآن حکیم جو بیس سال سے زائد مدت میں مختلف حالات اور گوناگوں احکام کے سلسلے میں نازل ہوتا رہا اسکی آیتوں اور سورتوں میں با ہم کوئی ربط ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کے درمیان اختلاف رہا ہے لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ قرآن حکیم ایک مربوط اور منظم کلام ہے کیونکہ قرآن کی ترتیب نزولی نہیں ہے بلکہ جب کوئی سورت یا آیت نازل ہوتی تو رسول اللہ علی اللہ حکم دیتے کہ اسکو فلاں سورت کے بغل میں یا فلاں سورہ میں فلاں فلاں جگہ رکھی جاۓ اور جب سورت مکمل ہو جاتی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جبریل امین کو پوری سورہ از سرنو سنا دیتے علامہ فراہی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہی وہ جمع کرنا اور پڑھنا ہے جسکا ذکر سورہ قیامہ میں ہوا ہے جسکی پیروی کا آنحضور نے کو حکم ہوا تھا۔ ( مقدمه نظام القرآن / 33)
نیز وہ لکھتے ہیں کہ:
ہر سورہ میں ایک مخصوص نظام ہے اور سورتوں کے مطالب میں بے نظمی جو بظاہر نظر آتی ہے وہ محض قلت تدبر کا نتیجہ ہے یہ بات ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ قرآن کی سورتیں چھوٹی بھی ہیں اور بڑی بھی ،ہر سورت میں اگر کوئی ایک مقصد متعین نہ ہوتا جسکے پورے ہونے سے وہ سورت پوری ہو جاتی ہے تو یہ الگ الگ حد بندیوں کی کیا ضرورت تھی؟ سارے قرآن کو ایک ہی سورہ بنا دیا جاتا نیز جن سورتوں کیلئے کوئی خاص مقدار نہیں ٹھرائی گئی چھوٹی بڑی ہر طرح کی سورتیں ہیں تو اگر ہر سورہ کے اندر کوئی نظمی وحدت مد نظر نہیں ہے تو آیتوں کو ایک لڑی میں پرونے کی کیا ضرورت تھی ۔ اجزاء یونہی بکھیر دئے جاتے ۔ (مقدمہ نظام القرآن /51)
نظم قرآن کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
مزید براں مجھے یہ امید ہے کہ نظم قرآن پر غور کرنے سے ارباب عقل پر قرآن کی حکمتیں روشن ہونگی کیونکہ آیات کے مابین نظم کرنے والی چیز وہی حکمتیں ہوا کرتی ہیں۔ ان کی حثیت وہی ہوا کرتی ہے جو کسی ہار کیلئے لڑی کی ہوتی ہے۔ (تفسیری حواشی/1 )
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
نظم ہی وہ مضبوط رسی ہے کہ جو اسے مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے اس کو وہ انحراف سے محفوظ رکھتی ہے اور وہ روشن چراغ ہے جو حکمتوں کی طرف رہنمائی کرتا ہے کیونکہ آیات کے مابین ربط قائم ہوتا ہے ان ہی حکمتوں سے جو ان کے اندر پوشیدہ ہوتی ہیں۔ وہی ان کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہیں۔ (التکمیل /13)
ان کا خیال ہے کہ نظم قرآن ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کلام کے صحیح سمت کو متعین کیا جاسکتا ہے اور اسی سے اہل بدعت و ضلالت اور اصحاب تحریف کی کجرویوں کی اصلاح ہوسکتی ہے اور خدا کا کلام ان کی غلط تاویلوں سے محفوظ رہ سکتاہے۔ (نظام القرآن/31)
واضح رہے کہ علامہ کے نزدیک نظم کا یہ مفہوم نہیں کہ کسی طرح سے کھینچ تان کر دو چیزوں میں تعلق اور ربط پیدا کر دیا جائے بلکہ وہ کہتے ہیں :
و ہی نظم قابل قبول ہو گا جس میں ” تاویل کی خوبصورتی پائی جاتی ہو کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بودی اور رکیک تاویل کے ذریعہ بھی کلام میں رابط پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے غلط اور بے بنیاد باتوں کیلئے دروازہ کھل جاتا ہے اور اس صحیح اور بلند نظام کی راہ بند ہو جاتی ہے جو کلام الہی کی عظمت کے شایان شان ہے۔ (دلائل النظام /26)
گویا کہ علامہ کے نزدیک وہی نظم قابل قبول ہے جس میں تاویل کی خوبصورتی پائی جاتی ہو نیز وہ قرآنی حکمتوں اور حقائق کی شاہ کلید ثابت ہو۔ نظم قرآن کی اس حقیقت تک رسائی کیلئے وہ پہلے سورتوں کا عمود یعنی مرکزی مضمون متعین کرتے ہیں کیونکہ ان کے الفاظ میں اس سورہ میں کن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے کس اعتراض کا جواب مقصود ہے کسی عقیدہ و فکر کی اصلاح کی گئی ہے۔”؟
سورہ کی عمود کی تعین ہی اس کے نظام کی کلید ہوا کرتی ہے لیکن یہ بہت مشکل علم ہے اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی مماثل اور اس کے آس پاس کی سورتوں پر بار بار غور کیا جائے یہاں تک کہ اس سورہ کا عمود سپیده صبح کی طرح روشن ہو جائے اس سے پوری سورہ روشنی میں آجائیگی اور اس کا نظام بالکل واضح ہو جائیگا ہر آیت کا خاص محل متعین ہو جائیگا اور مختلف تاویلات میں سے جو راجح ہو گی وہ سامنے آجائیگی۔ (دلائل النظام /77)
نیز وہ لکھتے ہیں کہ:
یہ جان لو کہ نظام سے ہماری مراد یہ ہے کہ ہر سورۃ کا ایک تشخص ہو کیونکہ سورۃ کے مضامین جب ایک دوسرے سے مربوط ہونگے اور وہ تمام مضامین جب ایک دوسرے سے بالکل مربوط ہونگے اور وہ تمام مضامین ایک ہی مرکزی نقطے کی طرف بڑھ رہے ہونگے تو کلام میں وحدت کا رنگ نمایاں ہو جائیگا۔ (دلائل النظام /75) مثلا سورہ بقرہ کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ اس سورہ کا مرکزی مضمون یہود کے فساد و بگاڑ کو واضح کرنا اور ان کی کمیوں اور کوتاہیوں کا بیان ہے اور اس کے بعد امت مسلمہ کو منصب امامت پر سرفراز کیے جانے کا تذکرہ ہے اور اسی ذیل میں بہت سے احکام دے گئے ہیں۔ اس سورہ میں” الم” کے بعد "ذلك الکتاب ” مذکور ہے اور الکتاب سے عام طور پر قرآن کو مراد لیکر ذالک کو ھذا کے معنی میں لیا گیا ہے کیونکہ اس اعتبار سے ھذا ہی کا محل ہے لیکن علامہ فراھی کے نزدیک چونکہ اس سورۃ میں اصل خطاب یہود سے ہے اس لیے الکتاب سے مراد وہ کتاب ہے جو انکے ذہنوں میں ہے اور جس کا تذکرہ انکی مذہبی کتابوں میں ہے۔ ایسی صورت میں ذالک میں کسی تاویل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
وہ ایسی مناسبت کو تلاش کرتے ہیں جو قریبی اور متصل آیتوں میں ربط پیدا کر دے اور جو آیتیں ان سے پہلے آتی ہیں ان کو کاٹ کر نہ رکھدے بلکہ قریب دور دونوں طرح کی آیتوں کو مربوط کر کے ایک لڑی میں پرو دے۔ نیز وہی نظم قابل ترجیح ہے جس کیلئے خود عبارت ہی میں قرینہ ہو۔
یہ صحیح ہے کہ نظم قرآن کا تصور کوئی نیا نہیں ہے، بلکہ قدیم مفسرین میں سے بھی بہت سے لوگ اسکے قائل نظر آتے ہیں جیسے امام ابو بکر نیشاپوری ، امام رازی اور ابن العربی وغیرہ بلکہ بہتوں نے اس کو پیش نظر رکھ کر تفسیر بھی لکھی ہے، جیسے امام بقائی اور علامہ مہائمی وغیرہ لیکن اس حقیقت سے صرف نظر کرنا بھی مشکل ہے کہ اسے ایک فکر و فلسفہ کی شکل دینے میں علامہ فراہی منفرد اور امتیازی شان کے مالک ہیں۔لیکن اسکے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ قرآن حکیم کی آیتوں اور سورتوں کے درمیان نظم و ربط کی تلاش ایک انسانی کاوش ہے، اور قرآن وحدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے اس لیے اس میں نہ صرف غلطی کاامکان ہے بلکہ غلطی واقع بھی ہوتی ہے، اوراس سے اختلاف کرنےکی گنجائش ہے چنانچہ علامہ فراہی کے شاگرد رشید علامہ امین احسن اصلاحی بھی جگہ جگہ نظم بیان کرنےمیں ان سے اختلاف کرتےہیں، لہٰذا نظم قرآن کےذریعہ کی گئی تفسیر کو تفسیرالقرآن بالقرآن کے خانےمیں رکھنا اور جو حدیث اس کےخلاف نظر آئے اسے قرآن کےخلاف کہہ کر رد کردینا بہت بڑی غلطی ہے اوراپنی عقل اور کوشش کو قرآن بنانے کے مترادف ہے افسوس کہ علامہ فراہی سے یہ غلطی ہوئی ہے بلکہ ان کا تو اصول یہی ہے کہ :
اوراحادیث وروایات کے ذخیرے سے صرف وہی چیزیں لینی چاہیے جو نظم قرآن کی تائید کریں نہ کہ اس کے نظام کو درہم برہم کردیں۔ (مقدمہ نظام القرآن/38)
تفسیر قرآن کے ذرائع:
علامہ فراہی کے یہاں تفسیر قرآن کے کل چار ذرائع ہیں:
1-قرآن۔
2-احادیث۔
3-قوموں کے ثابت شدہ اور متفق علیہ حالات ۔
4-گذشتہ انبیاء کے صحیفے جو محفوظ ہیں۔
ان میں سے اصل اور بنیادی حیثیت قرآن کو حاصل ہے اور بقیہ تین فروع کی حیثیت سے ہیں جن سے قرآن کی تائید و تصدیق میں مدد لی سکتی ہے ۔
1۔ قرآن کی تفسیر قرآن کےذریعہ:
علامہ فراہی کاخیال ہے کہ”قرآن مجید بالکل قطعی الدلالۃ ہے، ہرآیت میں مختلف معانی کااحتمال محض ہماری قلت علم اور تدبر کا نتیجہ ہے۔ ‘‘(مقدمہ نظام القرآن /35.التکمیل /20-24)
اس لیے ان کے نزدیک قرآن مجید اپنی تفسیر کے لیے حدیث کا محتاج نہیں ہے، حدیث سے بےنیاز ہوکر بھی قرآن کو سمجھا جاسکتا ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں:
” یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ قرآن اپنی تفسیر کےلیے ان فروع (یعنی حدیث، تاریخ گذشتہ انبیاء کے محفوظ صحیفے)کا محتاج نہیں، وہ تمام کتابوں کےلیے خود مرکز و مرجع کی حیثیت رکھتاہے، اورجہاں کہیں اختلاف واقع ہو تو اسی کی روشنی جھگڑے چکانے والی بنے گی لیکن اگرتم کو قرآن مجید کی تصدیق و تائید کی ضرورت ہو تو ان فروع کی مراجعت سے تمہارے ایمان و اطمینان میں اضافہ ہوگا۔ “(مقدمہ نظام القرآن/40)
علامہ فراہی نظم قرآن کو قرآن ہی کاایک حصہ سمجھتے ہیں اوراس کےذریعہ کی گئی تفسیر کو تفسیرقرآن بالقرآن کے خانے میں رکھتےہیں، اوراس کےذریعہ سے وہ پورے قرآن حکیم کو قرآن حکیم ہی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتےہیں، چنانچہ وہ کہتےہیں کہ:
”میرے نزدیک سب سے بےخطر راہ یہ ہے کہ استنباط کی باگ قرآن مجید کےہاتھ میں دے دی جائےاوراس کا نظم و سیاق جس طرف اشارہ کرے اسی طرف جھکنا چاہیے۔ “(مقدمہ نظام القرآن/45)
لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ جسے بےخطر کہہ رہےہیں وہ اس قدر پُرخطر ہے کہ بیان نہیں کیاجاسکتاہے کہ کسی انسانی کاوش کو”کتاب اللہ“ کادرجہ دینے کا نتیجہ کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہے، یہ محتاج اظہار نہیں ہے۔
تفسیر سے متعلق روایت وحدیث بطور اصل نہیں بلکہ تائید کی حیثیت سے پیش کرتےہیں وہ قرآن پاک کو براہ راست قرآن کےذریعہ(اس سے ملتی جلتی آیت، نظائر، الفاظ اور اسلوب کی دلالت اورلغت) سمجھنے کی کوشش کرتےہیں اور سیاق و سباق کی روشنی میں اس کا نظم متعین کرتےہیں اوران سب کی روشنی میں جو مفہوم ان کی سمجھ میں آتاہے اس کےمطابق روایت ہو تو اسے قبول کرلیتےہیں خواہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہواور جو اس کےمطابق نہ ہو اسے رد کر دیتےہیں خواہ وہ بخاری و مسلم کی صحیح اور اتفاقی احادیث ہی کیوں نہ ہوں۔
یہ بات کہ قرآن اپنے معنی ومفہوم کو بتلانے میں احادیث کا محتاج نہیں ہے، بظاہر بہت معمولی اور خوش کن ہے، لیکن اسی قدر حقیقت سے دور، پرفریب، اور تباہ کن ہے، حدیث کی تشریعی حیثیت کاانکار، اورجمہورامت کے نقطہ نظر سے انحراف ہے۔ خود قرآن نازل کرنے والے نے اپنے پیغمبرکایہ فرض منصبی بیان کیاہے:
﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ ﴾(النحل :44)
”ہم نے آپ پرقرآن اس لیےنازل کیاہے کہ آپ لوگوں کےسامنے اسے خوب واضح کردیں“۔
اس سے واضح طور معلوم پر ہوتاہے کہ قرآن میں بعض مواقع پرکچھ ابہام، اجمال اور متعدد معانی کا احتمال ہے، اور بعض آیتیں کسی واقعاتی پس منظر سے متعلق ہیں، جن کی تفصیل، تشریح، تعیین اور وضاحت کےلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، بالفاظ دیگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد احادیث کے بغیر اس کی تفصیل اور تعین ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی اس کےلیے کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی تشریح اس سے بہتر کون سمجھ سکتا ہےجس پر خود وہ کتاب نازل ہوئی ہے، چنانچہ مطرف بن شخیر سے کسی نے کہاکہ آپ ہمارے سامنے قرآن کے علاوہ کچھ اور مت بیان کیجیے توانہوں نے فرمایا: (واللّٰه ما نريد بالقرآن بدلا، ولكن نريد من هو أعلم بالقرآن)
”خداکی قسم! قرآ ن کے بجائے ہم بھی کوئی اور کتاب نہیں چاہتے لیکن ہم اس سے کیسے قطع نظر کرسکتےہیں جو قرآن کاسب سےزیادہ جاننےوالاہے۔“ (الموافقات24/4)
دوسرے یہ کہ صحابہ کرام سے بڑھ کرزبان دانی کادعوی کون کرسکتاہے، جوایک ایک لفظ کے لغوی اورمحاورتی مفہوم سے واقف تھے۔ قرآن ان کےسامنے نازل ہورہا تھا، آیت کے پس منظر اور سیاق و سباق سے بخوبی آگاہ تھے، انہیں تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کئے بغیرقرآن سمجھ میں نہیں آیا، تو بعد کے لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کے بغیرقرآ ن کیسے سمجھ میں آسکتاہے؟ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ:
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ﴾(الا ٔنعام:82)
”وہ لوگ جو ایمان لائے اور اپنےایمان میں کسی ظلم کی آمیزش نہیں کی یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اوریہی لوگ راہ یاب ہیں۔ ‘‘
تو صحابہ کرام پریشان ہوگئے اور دربارنبوت میں آکر عرض کیاکہ (أیّنالم یظلم) ہم میں کون ایساہے جس نے ایمان کے بعد ظلم نہ کیاہو، کہ ہرطرح کی معصیت اورگناہ ظلم کے دائرے میں آتا ہے اور شاید ہی کوئی اس سے محفوظ ہو، لہٰذا اس آیت کے مطابق تو کوئی بھی فوز و فلاح کا مستحق نہ ہوگا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ یہاں ظلم کا عمومی مفہوم مراد نہیں ہےبلکہ ظلم کی ایک خاص اور انتہائی شکل شرک مراد ہے، چنانچہ قرآن ہی کی دوسری آیت میں شرک کو ظلم سے تعبیر کیا گیاہے۔( صحیح بخاری ۔کتاب الایمان ۔باب ظلم دون ظلم)
کیا کوئی محض لغت کی مدد سے یہ متعین کرسکتاہے کہ یہاں ظلم سے مراد عموی ظلم نہیں بلکہ شرک ہے۔ اس کے علاوہ متعدد مثالیں جن میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو قرآن سمجھنے کے لیے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے مراجعت کی ضرورت پڑی، بلکہ وہ بڑے اہتمام سے معانی قرآن کو سیکھتے اور سکھاتےتھے، چنانچہ علامہ سیوطی نے لکھاہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اورحضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جیسے صحابۂ کرام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے اوراس کے بعد جب تک کہ ان آیتوں کی علمی اور عملی کیفیات کونہ معلوم کرلیتےآگے نہیں بڑھتےتھے۔( الاتقان 176/2)
اگر قرآن کے معانی ومفہوم کو جاننے کے لیے زبان دانی کافی ہوتی اوراحادیث کی ضرورت نہ ہوتی تو صحابہ کرام کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنے اور سکھانے کی حاجت نہ ہوتی۔
علاوہ ازیں اگر مکمل قرآن قطعی الدلالت ہے تو صحابہ کرام کے درمیان قرآن فہمی کے سلسلہ میں اختلاف نہیں ہونا چاہیےکہ وہ اہل زبان تھے، اس کےعلاوہ نزول قرآن کے پورے ماحول سے باخبر اورسیاق وسباق سے پورے آگاہ، حالانکہ ان کے درمیان متعدد موقعوں پر اختلاف ہواہے جواس بات کی واضح دلیل ہے کہ پورا قرآن قطعی الدالالت نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن میں متعدد معانی کا احتمال ہے اورجس کے تعین کے لیے حدیث وغیرہ سے مراجعت ضروری ہے جیساکہ جمہورامت کایہی مسلک ہے۔ (دیکھئے: اصول الفقہ للخلاف /35)
چنانچہ علامہ شاطبی لکھتےہیں:
(لأن الکتاب یکون محتملا لأمرین فأکثر فتأتي السنۃ یتعین أحدھمافیرجع إلی السنۃ ویترک مقتضی الکتاب)( الموافقات 8/4)
’’ قرآ ن میں کبھی دویااس سے زیادہ معانی کااحتمال ہوتاہے، حدیث ان میں سےایک کو متعین کردیتی ہے لہٰذا سنت کی طرف رجوع کیاجائے گااور قرآن کے دیگر احتمالات کو ترک کردیا جائےگا۔ ‘‘
یہ تو بات دو اور دو چار کی طرح واضح ہے کہ بہت سے الفاظ متعدد معانی کا احتمال رکھتےہیں اوراہل لغت نے اس کے متعدد معانی بیان کیے ہیں، قرآن میں بھی بہت سی جگہوں پر ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ایسی حالت میں کسی ایک مفہوم کی ترجیح کےلیے دوہی راستے ہوسکتے ہیں۔ عقل انسانی یا جس پر قرآن نازل ہواہے اس کے ارشادات واقوال، پہلی صورت پُرخطر ہے اورانسانی کاوش اور ذہنی پیداوار کو نادانستہ قرآن بنانے کی کوشش، اور عقل کو معصوم سمجھنے کی غلطی، اورحدیث سے بے نیازی برتنے والے اسی غلطی میں مبتلا ہوتے ہیں، اللہ اس سے حفاظت فرمائے۔
2- حدیث
جیساکہ مذکور ہوا کہ علامہ فراہی کے نزدیک قرآن حکیم کی تفسیر میں اصل حیثیت خود قرآن کوحاصل ہے، احادیث وغیرہ کو محض تائید اور تصدیق کے لیےتابع کی حیثیت سے نقل کرتےہیں چنانچہ وہ کہتےہیں کہ:
’’ میں یہ یقین رکھنے کے باوجود کہ صحیح حدیثیں کبھی قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ہیں پہلے آیات کی تفسیر آیات کی روشنی میں کرتاہوں اوراحادیث کاتذکرہ تابع کی حیثیت سے کرتاہوں۔ ‘‘(نظام القرآن/9)
وہ یہ بھی کہتےہیں کہ :
’’بہت سی روایتیں بظاہر قرآن کے خلاف ہوتی ہیں مگر قرآن کی روشنی میں ان کی تاویل کی جائے تووہ بالکل قرآن کے مطابق ہوجاتی ہیں کیونکہ قرآن کی حیثیت ایک مرکز کی ہے اورتمام حدیثیں مختلف جہتوں سےاس کی طرف لوٹتی ہیں۔ ‘‘
علامہ فراہی کےاس خیال سے کون انکار کرسکتاہے کہ صحیح حدیث قرآن کے مخالف نہیں ہوسکتی ہے اور جو حدیث بظاہر قرآن کےخلاف معلوم ہو اس کی تاویل اور توجیہ کرکے قرآن کے موافق کرناچاہیے، البتہ یہ ہوسکتاہے کہ کسی آیت سے اخذ کیا ہوا مفہوم کسی صحیح حدیث کے خلاف ہو، ایسی صورت میں حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ ذہنی اپج کے مخالف ہوتی ہے، اس حالت میں طریق واضح یہ ہے کہ حدیث کو اختیار کیاجائے، اور عقلی مفہوم سے گریز، یہ بڑی جرأت کی بات ہوگی اپنے پندارعلم کے سامنے کسی صحیح حدیث کورد کردیاجائے جسے جمہورامت نے اخذ وقبول کی سند عطاکی ہو، اوراسے معتبر اور مستند قرار دیاہو۔ افسوس کہ علامہ فراہی کے یہاں اس طرح کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جن میں انہوں نےخود اخذ کردہ مفہوم کے بالمقابل صحیح احادیث کورد کر دیاہے اوربعض ایسی حدیثوں کا انکار کیا ہے جس کی تاویل ہوسکتی ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’…..اورسب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پرہے جو ایسی روایتوں کوقبول کر لیتے ہیں جو نصوص قرآن کی تکذیب کرتی ہیں مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ بولنے کی روایت۔ ‘‘ ( نظام القرآن، ص: 39)
یہ صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے جسے تاویل کرکے قرآن کے موافق بنایا جاسکتا ہے جیساکہ محدثین نے کیا بھی ہے اور خود ان کے شاگرد رشید شیخ امین احسن اصلاحی لکھتےہیں:
’’ اگر کذب کے معنی توریہ کےلیے جائیں تواس روایت کاصحیح محل متعین ہوجاتاہے اور عربی زبان کی روسے یہ معنی صحیح ہیں۔ ‘‘(حاشیہ نظام القرآن/39)
حدیثیں قرآن سے ماخوذ اور مستنبط ہیں، حدیث و قرآن میں شرح ومتن کا رشتہ ہے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد موقعوں پر حدیث بیان کرنے کے بعد اس کے قرآنی ماخذ کی نشاندہی کی ہے، علامہ فراہی نے عملی طورپر اپنی تفسیر میں اس اصول کو برتنے کی کوشش کی ہے، اور متعدد حدیثوں کے قرآنی ماخذ کی طرف رہنمائی کی ہے، اس موضوع پر”احکام الاصول“کےنام سےان کی ایک مستقل تصنیف ہے جس میں انہوں نے دکھایاہے کہ رؤیت باری، وارث کےلیے وصیت کاحکم، وصیت کاایک تہائی تک محدود ہونا، خالہ اور پھوپھی کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت آیت قرآنی سے ثابت ہے، لیکن یہ بھی ایک انسانی کوشش ہے جس کاصحیح ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کی بنیاد پرکسی صحیح حدیث کی ناقابل قبول تاویل یا انکار غلط اور ناروا ہے۔
واضح رہے کہ علامہ فراہی نظم قرآن سے عدم مطابقت کی وجہ سے صحیح حدیثوں کورد کردیتے ہیں، وہیں بکثرت ضعیف حدیث سے استدلال بھی کرتےہیں جوان کے خیال کے مطابق نظم قرآن کے موافق ہوتی ہے۔ قبول حدیث کےسلسلہ میں ان کا اصول یہ ہے کہ:
جس حدیث کا ماخذ قرآن میں متعین نہ کیا جاسکے اورحدیث کاحکم قرآن کے خلاف نہ ہو بلکہ اس پر اضافہ ہوتو یہ اضافہ اس بناپر قبول کرلیاجائے گا کہ وہ اس نوربصیرت کانتیجہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور خاص عطاء ہوئی تھی، ایسے احکام کو سنت میں مستقل اصل قراردیا جائےگا۔ ۔ ۔ احکام کی ایسی روایات جن کی بنیاد قرآن میں نہ ملتی ہو اور نہ اس اضافہ کا قرآن متحمل ہو سکتا ہو اور وہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہویاان کے ماننے سے قرآن کا جلی یاخفی نسخ لازم آتاہو ان کا ترک کرناضروری ہے کیونکہ ان کی نسبت آنحضور کی طرف درست نہیں ہے۔
متواتر حدیث کے ذریعہ”کتاب اللہ“ کی کسی آیت کو منسوخ کرنا ممکن ہے یانہیں یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔
جمہورفقہاء اور محدثین اس کے قائل ہیں، جن میں امام اعظم ابوحنیفہ اورامام مالک کانام سرفہرست ہے، امام شافعی وغیرہ اس کے قائل نہیں ہیں، علامہ فراہی بھی اسی نقطہ نظرکے مؤیدہیں لیکن جس لب ولہجہ میں انہوں نے حنفیہ وغیرہ کی تردید کی ہے وہ جادۂ اعتدال سے ہٹی ہوئی اورشدت پسندی پرمبنی ہے، وہ لکھتے ہیں :
’’ امام شافعی، احمدبن حنبل اورعام اہل حدیث، حدیث کو قرآن کےلیے ناسخ نہیں مانتے، اگرچہ حدیث متواتر ہو، پس جب ائمہ حدیث جو حدیث کے معاملہ میں صاحب البیت کی حیثیت رکھتےہیں اس بات کے قائل نہیں ہیں توہم اس بارے میں فقہاء و متکلمین کی رائے کوکوئی وزن نہیں دیتے، اللہ تعالیٰ ہم کو اس فتنہ سے امن میں رکھے کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ رسول، اللہ کے کلام کو منسوخ کرسکتاہے، اس طرح کے مواقع میں تمام تر دخل راویوں کے وہم اوران کی غلطی کوہے۔ ‘‘(مقدمہ نظام القرآن/41)
حقیقت یہ ہے کہ تمام فقہاء ومحدثین اس بات کےقائل ہیں کہ حدیث بھی ایک طرح سے ”وحی“اوراللہ کا کلام ہے، کہ الفاظ الہامی نہیں ہوتے لیکن معانی کا القاء من جانب اللہ ہوتاہے، اورجب وہ اللہ کاکلام ہے اور قطعی و یقینی ذریعہ سے ثابت ہے تواس کے ذریعہ سے کسی آیت کو منسوخ کرنےمیں کیا قباحت ہے کہ اسے فتنہ سے تعبیر کیاجائے، کہ یہ بھی کلام اللہ کو کلام اللہ کےذریعہ منسوخ کرنے کے قبیل سے ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے منسوخ کرتےہیں چنانچہ امام غزالی لکھتےہیں:
والحقیقۃ أن الناسخ ھوا للّٰه عزوجل علی لسان رسولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم والمقصودأنہ لیس من شرطہ أن ینسخ حکم القرآن بالقرآن بل علی لسان رسولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم بوحي لیس بقرآن، وکلام اللّٰہ تعالی ٰواحدھو الناسخ باعتباروالمنسوخ باعتبارولیس لہ کلامان أحدھماقرآن والآخرلیس بقرآن إنما الاختلاف فی العبارات فربمادل علي کلامہ بلفظ منظوم یأمرنابتلاوتہ فیسمّیٰ قرآناً اوربمادل بغیرلفظ متلوفیسمی سنۃوالکل مسموع من الرسول علیہ السلام والناسخ ھوا للّٰه تعالیٰ علی کل حال (المستصفیٰ1/125، ابوحامد محمد بن محمدالغزالی، ط: دارالمعرفہ بیروت لبنان)
”حقیقت یہ کہ ناسخ اللہ تعالیٰ ہی ہے اگرچہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، اور قرآن کے نسخ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قرآ ن ہی کے الفاظ کے ذریعہ ہو بلکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایسی وحی سے بھی نسخ ہوسکتاہے جوقرآن نہ ہو، لہٰذا ایک طرح سے ناسخ ومنسوخ دونوں خدا کا ہی کلام ہے، فرق صرف الفاظ و عبارت کاہے، اللہ کاکلام وہ بھی ہے جس کے الفاظ بھی منجانب اللہ ہیں اورہمیں اس کی تلاوت کاحکم ہے، جسے قرآن کہاجاتاہے اوروہ بھی ہےجس کے الفاظ ا للہ کی طرف سے نہیں ہیں، جسے سنت کہاجاتاہے، قرآن ہو یا سنت دونوں کو سنانے اور بیان کرنے والے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ہر حالت میں ناسخ اللہ تعالی ہی ہے ‘‘۔
اور علامہ شوکانی لکھتےہیں:
ولایخفاک أن السنۃشرع مناللّٰه عزوجل کماأن الکتاب شرع منہ سبحانہ وقدقال ماآتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھواوأمرسبحانہ باتباع رسولہ فی غیرموضع فی القرآن فھذابمجردہ یدل علیٰ أن السنۃ الثابتۃ عنہ ثبوتاعلی حدثبوت الکتاب العزیز حکمھاحکم القرآن فی النسخ وغیرہ ولیس فی العقل مایمنع من ذلک ولافی الشرع(ارشادالفحول، ص :191، محمدبن علی بن محمدالشوکانی، ت:1255ھ، ط :دارلمعرفہ بیروت، 1979ء۔)
”تم پریہ پوشیدہ نہیں ہے کہ جس طرح سے قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ شریعت ہے اسی طرح سے حدیث بھی ہے۔ اوراللہ تبارک وتعالیٰ فرماتاہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو پیش کریں اسے تھام لو، اورجس سے روکیں اس سے رک جاؤ، اور قرآن میں متعدد جگہوں پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کاحکم دیاگیاہے، جس سے معلوم ہوتاہے کہ جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یقینی اور قطعی ذریعہ سے ثابت ہے جس طرح سے کہ قرآن، اس کاحکم نسخ وغیرہ میں قرآن ہی کا حکم ہے، اوردین وعقل کے اعتبارسےیہ ممتنع نہیں ہے۔ ‘‘
امام شافعی کی یہ بات دلیل کے اعتبارسےاس قدرکمزورہے کہ خود ان کے پیروکاروں نے ان کے کلام کی تاویل کرکے اسے جمہور کے نقطہ نظر سے قریب تر بناناچاہاہے۔ (حوالہ مذکور 191-192)
مگر فراہی صاحب ہیں کہ اس قدر مضبوط اور معقول نقطہ نظر کے لیے”فتنہ“کالفظ استعمال کرتےہیں، سچ تویہ ہے کہ اس طرح کی بات وہی کہہ سکتاہے جوحدیث کی حیثیت سے ناواقف ہو یا اسے وحی الٰہی کے دائرے میں رکھنے کا قائل نہ ہو جیساکہ منکرین حدیث کاخیال ہے۔
صحیح بخاری و مسلم کی احادیث کو علماء محققین کی ایک جماعت نے مختلف قرائن اور شواہد کی روشنی میں قطعی اور یقینی قرار دیاہےاگرچہ وہ خبرواحد ہی کیوں نہ ہو۔ (دیکھئے:شرح نخبہ /7.مختصر علوم الحدیث/35)
لیکن علامہ فراہی کواس سے اتفاق نہیں ہے ان کے خیال کےمطابق یہ طرز عمل، علماء کو خدائی مقام دینے کے مترادف ہے۔( مقدمہ نظام القرآن 32-33)
حاصل یہ ہے کہ حدیث کے تعلق سے ان کے یہاں منفی طرز عمل اور شدت پائی جاتی ہے اوران کی تحریروں سے انکارسنت کی فکر کو غذا ملتی ہے ان سے متاثر شخص احادیث کے سلسلہ میں بڑا جری ہوجاتا ہے اورمعمولی وہم کی بنیاد پر حدیث کورد کردیتاہے۔
3- اسرائیلی روایات:
تفسیر کے خبری ماخذ میں سے ایک ماخذ اسرائیلی روایات بھی ہے، علامہ فراہی نے بھی اپنی تفسیر میں اس سے مدد لی ہے بلکہ وہ احادیث کے بہ نسبت اسرائیلی روایات سے کچھ زیادہ ہی اعتنا برتتے ہیں، اس سلسلہ میں اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتےہیں:
”اگرتم کو شبہ ہو کہ یہ کتب مقدسہ غیر محفوظ ہیں اس وجہ سے قرآن کی تاویل میں ان سے رجوع کریں گے تو غلطی میں پڑنے کا امکان ہے تویہ شبہ بالکل بجا ہے لیکن ہم یہ بات نہیں کہتے، ہمارا کہنا یہ ہے کہ پہلے قرآن کو خود قرآن اور عربی زبان کی مدد سے سمجھنا چاہیے، پھر اگر کتب مقدسہ میں ایسی بات ملے جو معنی اور اسلوب کے اعتبارسے قرآن سے ملتی جلتی ہو یااس سے واضح تعلق رکھتی نظرآئے تودونوں باتوں پر تدبر اوردونوں کے اسلوبوں کے تقابل سے قرآن کی بلاغت واضح ہوگی، نیز مختلف معانی میں سے ہم جس مفہوم کوترجیح دیں گے اس تائید سے مزید اس پر ہمارا اعتماد مضبوط ہوگا۔ ‘‘(مقدمہ نظام القرآن/46)
اپنے اس اصول کی پاسداری کرتےہوئے انہوں نےعام طورپراسرائیلی روایات کوچھان پھٹک کرتائید اور
تصدیق ہی کے طورپر پیش کیاہے، اور رطب و یابس روایات کو نقل کرنے سے گریز کیاہے، لیکن بعض جگہوں پر ایسا محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے قرآنی مقصد اور مفہوم کو اسرائیلی روایت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور واضح مفہوم کو نظرانداز کردیاہے، مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے بخیروعافیت دریا سے نکل جانے کے سلسلہ میں تورات کابیان ہےکہ پھر موسیٰ نے اپناہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلاکر اور سمندر کو پیچھے ہٹاکر اسے خشک زمین بنادیا اور پانی دو حصے ہوگیا۔
علامہ فراہی تورات کے اس بیان کو نقل کرنے کے بعد لکھتےہیں:
یہ پوربی آندھی رات بھر چلتی رہی اور صبح کو تھم گئی، ہوا کے زور نے سمندر کا پانی مغرب کی طرف خلیج سویز میں ڈال دیا اور مشرقی خلیج، خلیج عقبہ کو بالکل خشک چھوڑ دیا اور پھرجب آندھی تھم گئی تو پانی اپنی جگہ پر پھیل گیا اور موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرنے والی جماعت غرق ہوگئی، اس کی تصدیق قرآن مجید سے بھی ہوتی ہے۔ سورہ دخان میں ہے﴿فَأَسْرِ بِعِبَادِي لَيْلا إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا إِنَّهُمْ جُندٌ مُّغْرَقُونَ﴾(الدخان:23)
”پس میرے بندوں کورات کےوقت نکال لے جاؤ، تمہارا تعاقب کیاجائےگااور سمندر کو ساکن چھوڑدو بے شک وہ غرق ہونےوالی فوج ہے، ﴿وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾میں’ ’ رھوا ‘‘کےمعنی سکون کے ہیں اور دریاکاسکون ظاہرہے کہ ہواکے سکون سے ہوتاہے۔( تفسیر نظام القرآن 131-132)
علامہ فراہی کی یہ توجیہ صراحتاً قرآن سے متصادم ہے، کیونکہ قرآن یہ کہتاہے کہ بنی اسرائیل جب دریا کے پاس پہنچے تودریا اپنی پوری روانی سے بہہ رہاتھا اور فرعون کا لشکر ان کے بالکل قریب آچکا تھا، سامنے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اور پیچھے بالکل قریب فرعون کا لشکرجرار، یہ صورت حال دیکھ کربنی اسرائیل چیخ اٹھے﴿إِنَّا لَمُدْرَكُونَ﴾ ہم توپکڑلئےگئے“۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا﴿ كَلَّا إنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ﴾ یہ جواب بتلارہاہے کہ بنی اسرائیل کے سمندر تک پہنچنے سےپہلے کوئی راستہ نہیں بناتھا، اس کے بعداللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے۔ ﴿فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ﴾(ہم نےموسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی بھیجی کہ اپنا عصا سمندر پر مارو، چنانچہ سمندر دونیم ہوکر پہاڑ کی طرح دونوں جانب کھڑاہوگیا)﴿فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ﴾(الشعراء:52، 66)
لہٰذا یہ خیال کہ رات بھر آندھی چلتی رہی اور ہواکے زورسے سمندر کاپانی نہرسویز میں چلاگیا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے کیونکہ قرآن صرحتاً کہتاہے کہ پانی پہاڑکی طرح دونوں جانب نگاہوں کے سامنے موجودتھا۔
اگریہ کہا جائے کہ ہوا تو پہلے سے چل رہی تھی لیکن جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر لاٹھی ماری تو ہوا میں تیزی اور شدت آگئی جس کی وجہ سے سمندر دو لخت ہوگیا، اس کاتقاضا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عبور دریاکے وقت ہوا شدت سے چل رہی ہو تاکہ سمندر کاپانی اپنی جگہ پرنہ آجائے، لیکن یہ بھی قرآن کےبیان کے خلاف ہے کیونکہ قرآن کی وضاحت کے مطابق سمندر اس وقت پرسکون تھا ﴿وَاتْرُكْ الْبَحْرَ رَهْوًا﴾اور مولانافراہی کے الفاظ میں دریا کا سکون ظاہر ہے کہ ہوا کے سکون سے ہوتاہے۔
دوسرے یہ کہ دریا کے دولخت ہوجانے میں ” ہوا“کاکوئی دخل تھا تو قرآن میں اس کاکوئی تذکرہ کیوں نہیں ہے حالانکہ قوم عاد کی تباہی کے سلسلہ میں ہوا کا اثر تھاتو قرآن نے صراحتاً اس کا ذکر کیاہے، لہٰذا کیا ضرورت ہے کہ قرآن کی صراحت سے چشم پوشی کرکے مشکوک اسرائیلی روایت کے ذریعہ اس کے بیان پر اضافہ کیاجائے۔
حالانکہ ایسی اسرائیلی روایتوں کے سلسلہ میں جس کی تائید یا تردید قرآن میں مذکور نہ ہو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان کی تصدیق و تردید مت کرو۔
تفسیر کے لسانی ماخذ:
تفسیر فراہی کا سب سے اہم اور بنیادی ماخذ لغت ہے ، ان کی نگاہ میں تفسیر قرآن کیلئے” طریق واضح اتباع لغت اور تدبر قرآن ہے” لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ نہ تو لغت کی کسی کتاب سے مطمئن ہیں اور نہ ہی قدیم کلام عرب سے کہ” اس میں بہت کچھ ملاوٹ ہے اور غریب و نامانوس الفاظ کی بھی آمیزش ہے "
نحو ، بیان ۔ بلاغت اور اصول فقہ کی کتابوں پر بھی انہیں اطمینان نہیں ہے (دیکھئے: مقدمہ نظام القرآن 42-43) اس لئے وہ ان تمام موضوعات پر از سر نو کام کرنا چاہتے تھے، ان میں سے بعض موضوعات پر ان کی کچھ تحریر میں بھی ہیں جو تشنہ تکمیل ہیں۔
حاصل گفتگو :
علامہ فراہی کے نزدیک تفسیر قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ خود قرآن کا براہ راست مطالعہ کیا جائے ، اور لغت، کلام عرب کے اسالیب و استعمالات ،نظیر اور مماثل آیات، سیاق و سباق اور نظم قر آنی کے ذریعہ اس کے معنی و مفہوم کو متعین کیا جائے۔ اس کے بعد مزید اطمینان اور تائید و تصدیق کیلئے احادیث وغیرہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔ ان کی نگاہ میں پورا قرآن قطعی الدلالت ہے اور وہ اپنے معنی و مفہوم کو بتلانے کیلئے احادیث کا محتاج نہیں، بلکہ پورے قرآن کی تفسیر خود قرآن کے ذریعہ کی جا سکتی ہے اور یہ کہ نظم قرآن کے ذریعے کی گئی تفسیر ،تفسیر القرآن بالقرآن کے حکم میں ہے۔
(شائع شدہ:مجلہ ترجمان الاسلام بنارس ۔اپریل -جون۔2002)