سوال:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صلح حدیبیہ کے سال عمرہ کے ارادے سے روانہ ہوئے تھےاور عمرہ کرنے والے کے لیے قربانی نہ تو لازم اور نہ سنت ۔ پھر وہ اپنے ساتھ قربانی کا جانور کیوں لے کر گئے تھے۔

عبد المالک بی بی پور ،گھوسی ،مئو

جواب:
عمرہ میں قربانی نہیں ہے البتہ اگر کسی کو احرام باندھنے کے بعد عمرہ کے لئے جانے سے روک دیا جائے تو اس کے لئے حرم میں قربانی کرانا ضروری ہے اس کے بعد ہی وہ احرام سے نکل سکتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ فَاِنۡ اُحۡصِرۡتُمۡ فَمَا اسۡتَیۡسَرَ مِنَ الۡہَدۡیِ ۚ وَ لَا تَحۡلِقُوۡا رُءُوۡسَکُمۡ حَتّٰی یَبۡلُغَ الۡہَدۡیُ مَحِلَّہٗ.
اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا پورا ادا کرو، ہاں اگر تمہیں روک دیا جائے تو جو قربانی میسر ہو (اللہ کے حضور پیش کردو. اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔
(سورہ البقرۃ:196)
مولانا محمد ‌تقی عثمانی صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو جب تک حج یا عمرے کے اعمال پورے نہ ہوجائیں احرام کھولنا جائز نہیں، البتہ کوئی ایسی مجبوری پیش آسکتی ہے کہ احرام باندھنے کے بعد مکہ مکرمہ تک پہنچنا ممکن نہ رہے ؛ چنانچہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ صورت پیش آئی کہ آپ اور آپ کے صحابہ عمرے کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے ؛ لیکن جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے آگے بڑھنے سے روک دیا، اسی موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، اور ان میں ایسی صورت حال کا یہ حل بتایا گیا کہ ایسی صورت میں قربانی کرکے احرام کھولا جاسکتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک میں یہ قربانی حدود حرم میں ہونی چاہیے، جیسا کے اگلے جملے میں فرمایا گیا ہے، اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے، نیز اس کے بعد جس حج یا عمرے کا احرام باندھا تھا اس کی قضا بھی ضروری ہے ؛ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عمرے کی قضا اگلے سال فرمائی۔(آسان ترجمہ قرآن)
اس وقت کے حالات کے پیش نظر یہ اندیشہ ضرور تھا کہ آپ کو عمرہ کرنے سے روکا جائے گا اس لئے آپ نے اپنے ساتھ قربانی کا جانور لے لیا تاکہ روکے جانے کی صورت میں آسانی سے قربانی کی جاسکے اور موقع پر خریدنے کی ضرورت نہ پڑے۔
اور جو خطرہ تھا وہ پیش آگیا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الٰہی کے مطابق قربانی کو حدیبیہ کے اس حصے میں ذبح کردیا جو حرم میں واقع ہے ۔
اور صلح کے معاہدے کے بعد دوسرے سال اس طرح کا کوئی خوف نہیں تھا اس لئے قربانی کا جانور نہیں لایا گیا۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے