خواتین کی بہترین مسجد۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
مرد و عورت کی جنس الگ الگ ہے،دونوں کی جسمانی ساخت میں تفاوت ہے ، ذہن و مزاج میں فرق ہے ، فطری،طبعی اور جسمانی فرق کے اعتبار سے دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ ہے ، عورت کی فطرت کی رعایت، عصمت و عفت کی حفاظت اور سہولت اس میں ہے کہ وہ ’’خاتون خانہ‘‘ رہے ، ا س کی تگ و دو کی انتہا گھر کی چہار دیواری ہو ، اسے گھر سے باہر نکالنا اور ’’شمع محفل‘‘اور ’’چراغ انجمن ‘‘ بنانا فطرت سے بغاوت اور اس کے لیے باعث پریشانی و مصیبت ہے ۔
اسلام دین فطرت ہے اس لیے وہ ہر معاملہ میں وہی حکم دیتا ہے جو فطرت کے مطابق اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ہو ، اس لیے اس نے عورت کی فطرت کی رعایت اور اس کی سہولت کے پیش نظر اس کے میدان عمل کو گھر کی چہار دیواری تک محدود رکھا ہے ، ارشاد ربانی ہے :
’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی‘‘.
’’اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار کو دکھاتی نہ پھرو ‘‘۔( سورۃ الاحزاب:33)
اسے ایسے تمام کاموں سے بری رکھا گیا ہے جو گھر کے باہر سے متعلق ہوں اور باہر نکلنے اور مردوں کے ساتھ باہمی اختلاط کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے ، چنانچہ کسی محرم رشتہ دار کے بغیر اسے سفر کی اجازت نہیں ، یہاں تک کہ حج جیسی اہم عبادت بھی عورت پراسی وقت فرض ہے جبکہ وہ اپنے ساتھ کسی محرم رشتہ دار کو لے جانے پر بھی قادر ہو ،( دیکھیے :سنن ترمذی:131/1،کتاب الرضاع، سنن ابی داؤد:241/1، باب فی المرأۃ تحج بغیرمحرم۔)اور نہ ہی مردوں کی طرح اس پر جہاد فرض ہے ، اسی طرح نماز جمعہ سے بھی اس کو سبک دوش رکھا گیا ہے ،(سنن ابی داؤد:153/1،باب الجمعۃ للملوک والمرأۃ) اور نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت نہیں ہے ،(صحیح البخاری:170/1)ایسے ہی مرد کے لیے مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے ، مگر اس کے برعکس عورتوں کے لیے گھر کے ایک گوشے میں نماز پڑھنے کو افضل اور بہتر قرار دیا گیا ہے ، اس سلسلے کی احادیث ملاحظہ ہوں :
1۔عن ام حمید الساعدیۃ انھا قالت یا رسول انی احب الصلاۃ معک، قال قد علمت صلوتک فی بیتک خیرلک من صلوتک فی حجرتک وصلوتک فی حجرتک خیرمن صلوتک فی دارک وصلوتک فی دارک خیر من صلوتک فی مسجد قومک وصلوتک فی مسجد قومک خیرمن صلوتک فی مسجد الجماعۃ۔
’’ام حمید ساعدیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا : میں آپؐ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے لیے گھر کے چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنا بڑے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور بڑے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے اورگھر کے صحن میں نماز پڑھنا محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے اچھا ہے اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘۔
امام احمد اور طبرانی نے اس کی روایت کی ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی کے بیان کے مطابق حدیث کی سند حسن ہے .(فتح الباری :350/2)
سوچنے کی با ت ہے کہ ایک عورت امام الانبیاء کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کرتی ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنے کی آرزو کرتی ہے جہاں مسجد حرام کے سوا دیگر مسجدوں کی بہ نسبت ہزار گنا ثواب زیادہ ملتا ہے .(سنن ترمذی:44/1)
ان سب کے باوجود رسول اللہ ﷺ انہیں گھر کے ایک گوشے میں نماز پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ مسجد میں عورتوں کی آمد کو پسند نہیں کرتے تھے ۔
2۔عن ام سلمۃؓ قالت قال رسول اللّٰہ ﷺ صلوٰۃ المرأۃ فی بیتھا خیر من صلوٰتھا فی حجرتھا و صلوٰتھا فی حجرتھا خیر من صلوتھا فی دارھا و صلوتھا فی دارھا خیر من صلوتھا فی مسجد قومھا۔
’’ام المومنین حضرت سلمہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : عورت کے لیے گھر کے چھوٹے کمرے میں نماز پڑھنا بڑے کمرے میں نماز پڑھنے سے اور بڑے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا اپنی قوم کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘۔(السنن الکبری:۳/۱۳۱)
علامہ منذری نے کہا کہ حدیث کی سند جید ہے (الترغیب والترھیب:135/1)
اسی طرح کی ایک روایت ام المومنین حضرت عائشہؓ سے بھی مروی ہے جس کی سند کو امام سیوطی نے حسن قرار دیاہے ،(الجامع الصغیر:123/2، معرفۃ السنن:235/4)
حضرت ام سلمہؓ ہی سے منقول ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
3۔ قال رسول اللّٰہﷺ خیرمساجد النساء قعر بیوتھن۔
’’اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : عورتوں کے لیے بہتر ین مسجد گھرکا ایک گوشہ ہے ‘‘۔(مسند امام احمد:297/6،مستدرک حاکم:209/1،مسند ابویعلی: 291/6رقم الحدیث:6989۔)
حدیث کے الفاظ پرغور کیجیے کہ اس میں عورتوں کے لیے کس قدر سامانِ تسلی اور آسانی ہے کہ مردوں کو مشقت برداشت کرکے مسجد میں آکر نماز پڑھنے پر جو ثواب ملتا ہے وہ عورتو ں کو گھر بیٹھے حاصل ہے کہ گھرکا ایک گوشہ ہی ان کے لیے تمام مسجدوں سے بہتر ہے ، انہیں یہ سوچ کر تنگ دل نہ ہونا چاہیے کہ مرد مسجد میں جاکر زیادہ ثواب حاصل کرلیتے ہیں اور ہم اس سے محروم ہیں ، کیونکہ ثواب میں و ہ بھی مردوں کے ساتھ برابر شریک ہیں ، بلکہ مردوں کو یہ ثواب مشقت برداشت کرکے مسجد جانے پر ملتا ہے اور انہیں یہ دولت و نعمت گھر بیٹھے حاصل ہے ۔
4۔عن عبد اللّٰہ بن مسعودؓ قال قال رسول اللّٰہﷺ صلوٰۃ المرء ۃ فی بیتھا افضل من صلوتھا فی حجرتھا وصلوتھا فی مخدعھا افضل من صلوتھا فی بییتھا۔
’’عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : عورت کے لیے کوٹھری میں نماز پڑھنا ہال میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور پوشیدہ کمرے میں نماز پڑھنا کوٹھری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ‘‘۔(سنن ابوداؤد:84/1،امام حاکم نے کہا کہ یہ حدیث امام بخاری و مسلم کے معیار کے مطابق ہے اور علامہ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے.المستدرک)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں :
5۔ ما صلت امرأۃ من صلوۃ احب الی اللّٰہ من اشد مکان فی بیتھا ظلمۃ ۔
’’اللہ کے نزدیک عورت کی سب سے پسندیدہ نماز وہ ہے جو گھر کے انتہائی تاریک کمرے میں ہو ‘‘۔
امام طبرانی نے اسے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے قول کی حیثیت سے ذکر کیاہے اور کہا ہے کہ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں ’’رجالہ موثقون‘‘(مجمع الزوائد: 35/2)لیکن ابن خزیمہ نے اسے اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد کی حیثیت سے نقل کیا ہے ۔(الترغیب: 136/1)
نیز وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
6۔المرأۃ عورۃ وانھا اذا خرجت استشرفھا الشیطان. وانھا اقرب ماتکون الی اللّٰہ وھی فی قعربیتھا۔
’’عورت پوشیدہ رکھنے کے لیے ہے اور جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے اور وہ اللہ سے زیادہ قریب اس وقت ہوتی ہے جب کہ اپنے گھر کے گوشہ تنہائی میں ہو‘‘۔
علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس روایت کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں نقل کیا ہے اور راوی قابل اعتماد ہیں ،( ’’رجالہ موثقون‘‘)
اور علامہ منذری نے لکھا ہے کہ اسے امام طبرانی نے معجم اوسط میں بھی نقل کیا ہے اور اس کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں ،’’رجالہ رجال الصحیح‘‘(الترغیب :135/1)
آخری جملہ کے بغیر اس کی تخریج امام ترمذی ، ابن حبان اور ابن خزیمہ نے بھی کی ہے اور ہر ایک نے اسنادی حیثیت سے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے .(دیکھیے: الدرایۃ لابن حجر عسقلانی علی ہامش الھدایۃ: 78/1)
7۔عن عبد اللّٰہ بن عمرؓ قال رسول اللّٰہﷺ لاتمتنعوا نساء کم المساجد وبیوتھن خیرلھن۔
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :اپنی عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکو اور ان کے لیے گھر ہی میں نماز پڑھنا بہتر ہے ۔( ابوداؤد:105.حافظ ابن حجر اور حاکم کے بیان کے مطابق یہ روایت امام بخاری و مسلم کے معیار پر پوری اترتی ہے ، علامہ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے ۔(فتح الباری:350/2۔المستدرک:30/1)
غرضیکہ مختلف انداز سے مسجد کے بجائے گھر کے اندر نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے
اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسی میں عورت کی بہتری اور سہولت ہے ، لیکن اگر کوئی عورت افضل کو چھوڑکر غیر افضل کو اور سہولت کی جگہ مشقت کو اختیار کرنا چاہے تو اسے روکا نہ جائے ، ارشاد نبوی ؐ ہے :
8۔ لاتمتنعوا اماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ۔ ( صحیح بخاری:119/1، صحیح مسلم:183/1)
’’اللہ کی باندیوں کو اللہ کی مسجد میں آنے سے منع نہ کرو ‘‘۔
مسجد میں عورتوں کے آنے کی اجازت سے متعلق احادیث عام طو ر پر ایسے ہی الفاظ سے منقول ہیں اور یہ بڑا ہی حکیمانہ اسلوب ہے کیونکہ بذات خود مسجد میں آنا کوئی ایسا کام نہیں کہ اس سے روکا جائے ، البتہ بعض مصالح کے پیش نظر شریعت مسجد میں عورتوں کی آمد کو پسند نہیں کرتی ، اس لیے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ہے ، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اپنی عورتوں کو مسجد میں بھیجو یا انہیں اپنے ساتھ لایا کرو ، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ وہ آنا چاہیں تو انہیں منع نہ کرو اور اس اجازت کے ساتھ ایسی شرط لگادی گئی ہے جس کی وجہ سے مردوں کے ساتھ باہمی اختلاط اور کسی ناخوشگوار واقعہ پر قابو پایا جاسکتا ہے ، وہ شرائط یہ ہیں :
(الف): صرف ان نمازوں میں شرکت کی اجازت ہے جو رات کے اندھیرے میں پڑھی جاتی ہیں یعنی عشاء اور فجر ، کہ رات کی تاریکی کی وجہ سے پردے کا قدرتی انتظام ہوتا ہے اور جو نمازیں دن کی روشنی میں ادا کی جاتی ہیں ان میں شرکت کی اجازت نہیں ۔
9۔ عن عبد اللّٰہ بن عمران رسول اللّٰہﷺ قال ائذنوا النساء باللیل الی المساجد۔
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ رات کے وقت عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دے دو ‘‘۔(حوالہ مذکور:123/1،کتاب الجمعۃ)
10۔ عن عائشۃؓ قالت ان کان رسول اللّٰہ ﷺ لیصلی الصبح فینصرف النساء متلففات بمروطھن ما یعرفن من الغلس۔
’’حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو عورتیں پردے میں لپٹی ہوئی مسجد سے واپس ہوتی تھیں تاریکی کی وجہ سے وہ پہچانی نہ جاتیں ‘‘۔(صحیح بخاری:120/1، باب خروج النساء باللیل والغلس)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام اور مخصوص شاگرد نافع کہتے ہیں کہ خاص کر رات میں اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ تاریکی کی وجہ سے اچھی طرح پردہ دار ی ہوجاتی ہے ، (فکان اختصاص اللیل بذلک لکونہ استر، فتح الباری:347/2)
بعض حضرات کاخیال ہے کہ ان اوقات میں فاسقوں کی چلت پھرت کم ہوجاتی ہے اس لیے ان اوقات میں عورتوں کے لیے مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اب معاملہ الٹ گیا ہے ، ا س وقت تو رات میں ہی فتنے جاگتے ہیں اور فاسق و فاجر کمین گاہوں سے نکل کر باہر آجاتے ہیں ۔
(ب) : سادہ لباس میں پردے کی رعایت کرتے ہوئے آئیں، بن سنور کر اور خوشبو لگاکر مسجد آنے کی ممانعت ہے ۔
11۔ عن زینب قالت قال رسول اللّٰہﷺ اذا شھدت احداکن العشاء فلا تطیب تلک اللیلۃ۔
’’حضرت زینبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی عشاء کی نماز میں حاضر ہونا چاہے تو اس رات خوشبو کا استعما ل نہ کرے ‘‘۔(صحیح مسلم183/1)
12۔ عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہﷺ ایما امرأۃ اصابت بخورا فلا تشھد معنا العشاء الاٰخرۃ۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگالے وہ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو ‘‘۔(حوالہ مذکور)
13۔ وعنہ عن رسول اللّٰہﷺ ایما امرأۃ تطیبت ثم خرجت الی المسجد لم تقبل لھا صلوٰۃ حتی تغتسل۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگاکر مسجد میں آئے اس کی نماز قبول نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ اسے دھو ڈالے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ:381/1، ابواب الفتن باب فتنۃ النساء۔
14۔ عن عائشۃؓ عن رسول اللّٰہﷺ یا ایھا الناس، انہوا نساء کم عن لبس الزینۃ والتبختر فی المسجد فان بنی اسرائیل لم یلعنوا حتی لبس نساءھم الزینۃ وتبخترن فی المساجد۔
’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ لوگو! اپنی عورتوں کو بناؤ سنگھار اور ناز و ادا کے ساتھ مسجد آنے سے روکو ، کیونکہ بنی اسرائیل پر اسی وقت لعنت کی گئی جب کہ ان کی عورتیں زیب و زینت اور نازو ادا کے ساتھ مسجد میں آنے لگیں ‘‘۔( حوالہ مذکور)
(ج): مرد و عورت قریب قریب نہ کھڑے ہوں ، چاہے شوہر ،بیوی اور ماں بیٹے ہی کیوں نہ ہوں بلکہ مرد آگے رہیں اور عورتیں پیچھے ۔
15۔ عن انس بن مالک قال صلیت انا ویتیم فی بیتنا خلف النبی ﷺ وامی خلفنا ام سلیم۔
’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہم نے اپنے گھر میں اللہ کے رسول ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھی ،میں اور ایک یتیم لڑکا آنحضورﷺ کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور ہماری والدہ ام سلیمؓ ہمارے پیچھے ‘‘۔(صحیح البخاری:101/1،باب المرأۃ وحدھا تکون صفا)
16۔ عن عبد اللّٰہ بن عباس قال صلیت الی جنب رسول اللّٰہﷺ وعائشۃ خلفنا نصلی معنا۔
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ کے پہلو میں کھڑے ہوکر میں نے نماز پڑھی اور حضرت عائشہؓ ہمارے پیچھے کھڑی ہوکر ہمارے ساتھ نماز پڑھتی رہیں‘‘۔( سنن نسائی:129/1،باب موقف الامام اذا کان معہ صبی وامرأۃ)
(د): عورتیں مردوں کے بعد سجدہ سے سر اٹھائیں۔
17۔ عن اسماء بنت ابوبکرؓ قالت سمعت رسول اللّٰہﷺ یقول من کان منکم یؤمن باللّٰہ والیوم الاٰخرفلا ترفع راسھا حتی یرفع الرجال رؤسھم کراھیۃ ان یرین من عورات الرجال۔
’’حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو عورتیں اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں وہ مردوں کے سر اٹھانے سے پہلے سر نہ اٹھائیں ، یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ مردوں کی پوشیدہ جگہوں پر عورتوں کی نگاہ نہ پڑے ‘‘۔(سنن ابی داؤد: 124/1، نیز دیکھیے صحیح مسلم:182/1)
(ہ): مسجد آکر آواز سے گفتگو نہ کریں ،یہاں تک کہ نماز میں امام سے کوئی غلطی ہوجائے تو زبان سے تنبیہ کرنے کے بجائے ہاتھ پرہاتھ مارکر متنبہ کریں ، کیونکہ آواز کے ذریعہ اصلاح سے فساد کا اندیشہ ہے ۔
18۔ عن ابی ھریرۃؓ عن النبیﷺ قال التصفیق للنساء والتسبیح والرجال۔
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ (امام سے نماز میں غلطی ہوجانے پر عورتیں ہاتھ پر ہاتھ مارکر اور مرد سبحان اللہ کہہ کر تنبیہ کریں ‘‘۔(صحیح بخاری:168،باب التصفیق للنساء )
(و): آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ عورتوں کی آمد و رفت کے لیے ایک دروازہ مخصوص کردیا جاتا تو اچھا تھا ۔
۱۹۔ عن ابن عمرؓ قال رسول اللّٰہﷺ لوترکنا ھذا الباب للنساء۔
’’حضرت ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ کاش یہ دروازہ عورتوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ‘‘۔(سنن ابی داؤد:66/1
حضرت عمرؓ نے آپ ﷺ کی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے عورتوں کے لیے ایک دروازہ خاص کر دیا تھا ، جس سے مردوں کو آنے کی ممانعت تھی ۔( حوالہ مذکور:67/1)
(ہ): آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کا معمول تھا کہ نماز کے بعد تھوڑی دیر مسجد میں ٹھہر جاتے اور عورتوں کے جانے کے بعد مسجد سے نکلتے ، ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کا بیان ہے :
20۔ ان النساء فی عہد رسول اللّٰہ ﷺ کن اذا سلمن من المکتوبۃ قمن وثبت رسول اللّٰہﷺ ومن صلی من الرجال ماشاء اللّٰہ فاذا قام رسول اللّٰہﷺ قام الرجال۔
’’اللہ کے رسول ﷺ کے عہد میں عورتیں نماز کے بعد اٹھ کر چلی جاتیں اور رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھ نماز پڑھنے والے تمام مرد اپنی جگہ پر رہتے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد جب رسول اللہ ﷺ قیام فرماتے تو لوگ بھی اٹھتے ‘‘۔(صحیح بخاری119/1)
اتنی احتیاطی تدابیر کے باوجود آپ ﷺ نے فرما یا کہ مردوں کی بہترین صف آگے والی ہے کیونکہ اگلی صف میں عورتوں سے دوری کی وجہ سے فکری انتشار کا اندیشہ کم ہے اور مردوں کے لیے بدترین صف پچھلی صف ہے کہ یہاں عورتوں سے یک گونہ قربت کی وجہ سے ذہنی یکسوئی حاصل نہ ہوگی ، روایت کے الفاظ یہ ہیں :
21۔ عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہﷺ خیرصفوف الرجال اولھا وشرھا آخرھا وخیرصفوف النساء آخرھا وشرھا اولھا۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مردوں کے لیے بہترین صف آگے کی صف ہے اور بد ترین صف پیچھے کی صف ہے اور عورتوں کے لیے بہترین صف پچھلی صف ہے اور بدترین صف آگے والی ہے ‘‘۔(صحیح مسلم:182/1)
اتنی پابندی اور احتیاطی و انسدادی تدابیر کے ساتھ جس ماحول اور معاشرہ میں یہ اجاز ت دی گئی تھی وہ بھی ذہن نشین رہے کہ وہ ایک مثالی معاشرہ تھا ، سورج کی نگاہوں نے اس سے زیادہ مقدس اور پاکباز معاشرہ نہیں دیکھا تھا ،جس کی فضاؤں میں نیکی اور تقویٰ کی خوشبو رچی بسی تھی ، اچھائیوں کا دور دورہ تھا ، ایسے لوگ تھے جن کی پاکیزگی اور طہارت کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں ، اس فضا میں برے میلانات کو نشو و نما دینے والی آب و ہوا کا گزر نہ تھا ، ہیجان انگیز خیالات کے پنپنے کے ذرائع مسدود تھے ،صنفی انتشار کے اسباب گویا ناپید ہوچکے تھے ، دلوں میں ایمان و یقین اس درجہ راسخ تھا کہ بدی اور گناہ کے رجحانات ختم ہوگئے تھے اور اگر اخلاقی تربیت کے ناقص رہ جانے کی وجہ سے کسی فرد سے گناہ صادر ہوجائے تو اس کے لیے ایسی سزائیں مقرر تھیں کہ اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ، نیز ایسی انسدادی تدبیریں عمل میں لائی گئی تھیں کہ کسی بدطینت اور قانون سے بے خوف شخص کے لیے بدی کی طرف قدم بڑھانا بڑا مشکل ہوگیا تھا ۔
لیکن جب یہ صورت حال برقرار نہ رہی ، عورتوں میں پہلی جیسی سادگی باقی نہ رہی ،جذبۂ آرائش کا غلبہ ہوگیا تو مزاج شناس نبوت اور مقصد شریعت پر نگاہ رکھنے والے صحابہ کرام نے محسوس کیا کہ اب عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ ہونی چاہیے ، چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ :
22۔ لوادرک رسول اللّٰہﷺ ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بن اسرائیل فقلت لعمرۃ او منعن قالت نعم۔(۱)
’’رسول اللہ ﷺ نے آج کی عورتوں کی روش کو دیکھا ہوتا تو انہیں مسجد میں آنے سے روک دیتے ،جیساکہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئیں، راوی کہتا ہے کہ میں نے عمرہ سے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں ؟ تو انہوں نے کہا : ہاں ‘‘۔(صحیح بخاری:120/1،صحیح مسلم:183/1)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیلی عورتوں کو ابتداء مسجد آنے کی اجازت تھی لیکن جب ان میں بگاڑ پیدا ہوگیا تو وہ آنے سے روک دی گئیں اور اگر یہی وجہ اس امت کی عورتوں میں پائی جائے تو انہیں بھی مسجد آنے سے روکا جائے گا ،چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کے متعلق منقول ہے کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں آئی ہوئی عورتوں کو گھر جانے کے لیے کہتے تھے ،(1)حضرت عبداللہ بن عمرؓ ___جن سے مسجد میں آنے کی اجازت سے متعلق احادیث منقول ہیں ____ کے متعلق صحیح سند سے ثابت ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو عید گاہ نہیں بھیجتے تھے ،(2)یہی طرز عمل حضرت عروہ بن زبیر کا بھی تھا ،(3) اس کے علاوہ دیگر صحابہ کرام بھی اس عمل کو پسندید گی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے ( دیکھیے: صحیح بخاری:123/1)
ان کا یہ عمل حدیث کے خلاف نہیں بلکہ شریعت کے منشا و مقصد کی تکمیل ہے کیونکہ قرآن وحدیث پر نگاہ رکھنے والا سلیم الفطرت انسان حالات کی تبدیلی کو نظر انداز نہیں کرسکتا ہے ۔
یہ تبدیلی اس دور میں ہوچکی تھی جو حدیث کے مطابق بہترین دور (خیرالقرون) تھا،انسدادی تدابیر کے مطابق عمل تھا ، تعزیری قوانین نافذ تھے تواس دور کے متعلق کیا خیال ہے جو ارشاد نبویؐ کے مطابق بدترین دور ہے ، فحش و بے حیائی بالکل عام ہوچکی ہے ، جنسی ہیجان میں مبتلا کردینے والے گانے ، فلمیں اور فحش لٹریچر نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، اخلاق کی پاکیزگی کاکوئی تصور نہیں ، انسدادی اور احتیاطی تدابیر کاکوئی وجود نہیں ، بد کاری کو آرٹ اور فیشن کا درجہ حاصل ہے ، بدی کی تمام راہیں بالکل کھلی ہوئی ہیں ، اس راہ پرچلنے والوں کے لیے کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے ، بلکہ باہمی رضامندی سے بدکاری کوئی جرم نہیں ہے ، نامحرم عورتوں کو دیکھ کر نگاہ جھکا لینے کا تصور موجود نہیں اور پردہ کے نام پر استعمال کیا جانے والا نقاب دعوت نظارہ دیتاہے ، کیا اس ماحول میں خواتین اور مردوں کو احادیث میں مذکور شرائط کا پابند بنایا جاسکتا ہے ؟عورتوں کو بھڑکیلے اور دیدہ زیب لباس اور خوشبو کے استعمال سے روکا جاسکتا ہے ؟انہیں مجبور کیاجاسکتا ہے کہ وہ شرعی دائرے میں رہتے ہوئے گھر سے مسجد کا فاصلہ طے کریں ؟ صنفی انتشار اور جنسی تحریکات کے اسباب پر بند لگایا جاسکتاہے ؟ بدی کے میلانات کو پنپنے سے روکا جاسکتا ہے ؟کیا ہمارے پاس ایسی قانونی طاقت ہے جس کے ذریعہ انہیں ختم کرایا جاسکے ؟ ایسی حالت میں اجازت دی گئی تو یاد رکھیے مسجدوں کا تقدس برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا ، دین اور دینی مراکز کے وقار کو نقصان پہنچے گا ، موجودہ حالات کو نظرانداز کرکے اس طرح کاکوئی قدم اٹھایا گیا تو اس کے بڑے خطرناک نتائج نکلیں گے ۔
بالفرض مسجد میں آنے والے مرد اور خواتین کے متعلق امید لگائیں کہ وہ اپنے جذبات و خیالات کو پاکیزہ رکھیں گے تو کیا راہ چلتے لوگوں سے بھی اس کی توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ ان کی طرف غلط نگاہ نہیں اٹھائیں گے ، کوئی چھیڑخانی نہیں کریں گے اور اگر اس طرح کوئی واقعہ پیش آجائے تو مجرم کو سزا دلوا سکیں گے ، اگر آپ عورتوں کو ان شرائط کا پابند بناسکتے ہیں اور ان کی عصمت و عفت کی حفاظت کرسکتے ہیں اور جنسی تحریکات کے اسباب پر پابندی لگاسکتے ہیں تو ضرور عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت دیجیے۔
دوسرے اس جہت سے بھی غور کرنا چاہیے کہ عام طو ر پر لوگ سہولت پسند واقع ہوئے ہیں ، خاص کر دینی معاملا ت میں، لیکن نماز کے اس مسئلہ میں سہولت اور افضلیت کو چھوڑکر مشقت اور غیر افضل کی خواہش کیوں کی جاتی ہے ، مردوں کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتاہے کہ گھر پہ نماز پڑھنے کی سہولت صرف عورتوں کو کیوں دی گئی ہے ، ہمیں کیوں محروم رکھا گیاہے تو کسی درجہ میں قابل فہم بات تھی ، لیکن اس کے برخلاف عورتوں کی طرف سے یہ خواہش کہ ہمیں مردوں کے دوش بدوش مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے ، ایک ناقابل فہم بات ہے اور ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہیں یہ بیمار ذہنیت اور مغرب سے مرعوبیت کی علامت تو نہیں ہے ، کہیں مسجد میں آنے کے بہانے آزاد اور مخلوط معاشرہ کا مطالبہ تو نہیں ہے ۔
(1)عن عمرو بن شبیانی انہ رأی عبداللّٰہ یخرج النساء من المسجد یوم الجمعۃ ویقول اخرجن الی بیوتکن خیر لکن رواہ الطبرانی فی الکبیرورجالہ موثقون(مجمع الزوائد:35/2)۔(2)انہ کان لایخرج نساء ہ فی العیدین(مصنف ابن ابی شیبہ:183/2)
(3) انہ کان لا یدع امرأۃ من اھلہ تخرج الی فطر ولا اضحی،(حوالہ مذکور)۔