بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
عید فطر ۔فضائل و مسائل

ولی اللہ مجید قاسمی
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو

اہمیت و فضیلت کے اعتبار سے جن مہینوں کو نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل ہے ان میں سے ایک شوال کا مہینہ بھی ہے اس مہینے کو متعدد جہتوں سے خصوصی حیثیت حاصل ہے چنانچہ یہ حج کا پہلا مہینہ ہے
قرآن حکیم میں ہے:
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ (سورة البقرة: ١٩٨)
حج کے چند مہینے متعین ہیں چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں احرام باندھ کر اپنے اوپر حج لازم کر لے تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے ،نہ کوئی گناہ ،نہ کوئی جھگڑا۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ شوال ،ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن حج کے مہینے ہیں (صحيح بخاري)
دوسرے یہ کہ اس کی پہلی تاریخ کو عید فطر ہے جو ایک طرح سے رمضان بھر کی محنت کا اجر و ثواب ملنے کا دن ہے نیز رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہمیں اپنے احکام کا مخاطب بنایا اور تاج خلافت کے لیے ہمیں منتخب کیا اس کے اس کرم و نوازش پر خوشی منانے اور اس کی عظمت و کبریائی کے اعلان و اظہار کا دن ہے۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (سورةالبقرة:١٨٥)
تاکہ تم روزوں کی گنتی پوری کر لو اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی ہے اس پر اس کی کبریائی بیان کرو اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔
اور حضرت عمر بن عبدالعزیز عید الفطر کے خطبہ میں کہا کرتے تھے تمہیں معلوم ہے کہ تم گھر سے نکل کر عید گاہ کیوں آئے ہو؟ تم نے تیس دن تک روزہ رکھا تیس راتوں میں قیام کیا پھر گھر سے باہر نکل کر آئے ہو اپنے رب سے درخواست لے کر کہ وہ تمہارے اعمال کو قبول (حلیۃ الاولیاء جلد ٥/ص٣٠٢)
اور حضرت انس بن مالک سے روایت ہے:
قدِمَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ المدينةَ ولَهم يومانِ يلعَبونَ فيهما فقالَ ما هذانِ اليومانِ قالوا كُنَّا نلعبُ فيهما في الجاهليَّةِ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَ اللَّهَ قد أبدلَكم بِهِما خيرًا مِنهما يومَ الأضحى ويومَ الفطرِ (ابوداؤد:١١٣٤،نسائى:١٥٥٦، احمد: ١٢٠٠٦)
رسول اللہ صلی اللہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں کے لوگ سال کے دو دنوں میں کھیل تماشا کیا کرتے تھے آپ نے ان سے پوچھا کہ ان کی حیثیت کیا ہے ؟انہوں نے عرض کیا:ہم زمانہ جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں اس سے بہتر دو دن تمہیں عنایت کر دیئے ہیں عید فطر اور عید قرباں کا دن.
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
دَخَلَ أبو بَكْرٍ وعِندِي جَارِيَتَانِ مِن جَوَارِي الأنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بما تَقَاوَلَتِ الأنْصَارُ يَومَ بُعَاثَ، قالَتْ: وليسَتَا بمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقالَ أبو بَكْرٍ: أمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ في بَيْتِ رَسولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وذلكَ في يَومِ عِيدٍ، فَقالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: يا أبَا بَكْرٍ، إنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وهذا عِيدُنَا. (صحيح بخاري:٩٥٢،صحيح مسلم:٨٩٢)
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے گھر آئے اور میرے پاس انصار کی دو بچیاں فخریہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر کہے تھے اور وہ پیشہ ور گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر نے کہا: اللہ کے رسول کے گھر میں شیطان کی بانسری بج رہی ہے، وہ عید کا دن تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر!چھوڑ دو، ہر قوم کے لیے عید کا دن ہے اور یہ ہماری عید کا دن ہے.
نیز وہ کہتی ہیں:
وكانَ يَومَ عِيدٍ، يَلْعَبُ السُّودانُ بالدَّرَقِ والحِرابِ، فَإِمَّا سَأَلْتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وإمَّا قالَ: تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ؟ فَقُلتُ: نَعَمْ، فأقامَنِي وراءَهُ، خَدِّي علَى خَدِّهِ، وهو يقولُ: دُونَكُمْ يا بَنِي أرْفِدَةَ. حتَّى إذا مَلِلْتُ، قالَ: حَسْبُكِ؟ قُلتُ: نَعَمْ، قالَ: فاذْهَبِي. (صحيح بخاري:٩٤٩،صحيح مسلم ٨٩٢)
عید کے دن حبشہ کے لوگ نیزوں اور ڈھالوں سے کھیلتے تھے میں نے آپ سے درخواست کی یا خود آپ نے فرمایا کیا یہ تم کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا ہاں آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا میرا رخسار آپ کے رخسار کے پاس تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: حبشہ کے لوگو! اور تماشا دکھاؤ یہاں تک کہ میں جب میں اکتا گئی تو آپ نے پوچھا: بس، میں نے کہا: ہاں ،
فرمایا: تب چلی جاؤ ۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں
بينا الحبشة يلعبون عند النبي صلى الله عليه وسلم بحرابهم، دخل عمر فأهوى إلى الحصى فحصبهم بها، فقال: دعهم يا عمر (صحيح بخاري ٢٩٠١، صحيح مسلم٨٩٣)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حبشہ کے لوگ اپنے نیزوں سے کھیل رہے تھے اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگئے انہوں نے کنکری لے کر انہیں مارا، آپ نے فرمایا: عمر! انہیں چھوڑ دو،
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عید کے دن کی خوشی میں جائز کھیل تماشے میں کوئی حرج نہیں ۔

عید کی بعض سنتیں:

حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر عید قرباں اور عید الفطر کے دن جب عیدگاہ کے لیے نکلتے تو آواز کے ساتھ تکبیر کہتے یہاں تک کہ عید گاہ پہنچ جاتے اور وہاں پہنچنے کے بعد بھی تکبیر کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ امام نماز پڑھانے کے لئے آجاتا (سنن دارقطنی١٨١٦- صحیح)۔
عیدین میں کثرت سے تکبیر کی مشروعیت پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے اور یہ درحقیقت مذکورہ آیت پر عمل کی ایک شکل ہے جس میں کہا گیا ہے کی تمام روزوں کی گنتی پوری کرو اور اللہ تعالی نے جس ہدایت سے تمہیں صرف سرفراز کیا ہے اس پر اس کی کبریائی اور عظمت کا اعلان کرو اور شکر گزار بنو (دیکھئے سورۃ البقرة،١٨٥)
حنفیہ کے نزدیک عید فطر میں قدرے پست آواز سے اور عید قرباں میں کچھ بلند آواز سے تکبیر کہی جائے گی۔ اور حضرت علی و حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے تکبیر کے الفاظ منقول ہیں
الله اكبر الله اكبر لا اله الا الله والله اكبر الله اكبر ولله الحمد (مصنف ابن ابي شيبه،٥٦٥٣)
عید کے لیے غسل کرنا اور اچھے سے اچھا کپڑا پہننا مستحب ہے نیز بہتر ہے کہ عید کی نماز کے لیے جانے سے پہلے کھجور تناول کرلے اور اس میں طاق عدد کی رعایت کرے (صحیح بخاری،٩٥٣)
سنت یہ ہے کہ عیدین کی نماز عید گاہ میں پڑھی جائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا (صحیح بخاری ٩٥٦صحیح مسلم ٨٨٩) الا یہ کہ بارش ہو رہی ہو یا کوئی اور عذر ہو تو مسجد میں عید کی نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن بلاوجہ مسجد میں عیدین کی نماز پڑھنا خلاف سنت ہے
عید گاہ پیدل جانا چاہیے اور پیدل ہی واپس آنا چاہیے (سنن ابن ماجہ، ١٢٩٥) اور ایک راستے سے جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے (صحیح بخاری ٩٨٦) تاکہ قیامت کے دن دو جگہیں اس کے لئے گواہی دیں اور متعدد جگہوں پر اللہ کی کبریائی کا اعلان ہو ۔
عید فطر کی نماز میں قدرے تاخیر بہتر ہے علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید فطر کی نماز تاخیر سے اور عید قرباں کی نماز جلدی پڑھا کرتے تھے (زاد المعاد جلد ١/ص ٤٢٥)
عید کی نماز سے پہلے اور اس کے بعد عیدگاہ میں کوئی نفل نماز نہیں پڑھی جائے گی حضرت عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں
أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر، فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها (صحيح بخاري ٩٦٤ صحيح مسلم ٨٨٤)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی
حنفیہ کے نزدیک عیدین کی نماز میں چھ زائد تکبیریں کہی جائیں گی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان تکبیروں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا
يكبر اربعا ثم يقرأ ثم يكبر فيركع ثم يقوم في الثانيه فيقرأ ثم يكبر اربعا بعد القراءة (مصنف عبد الرزاق،٥٦٨٧ ابن ابي شيبه،٥٦٩٩ السنن الكبرى، ٦١٨٤)
چار تکبیریں کہے پھر قرأت کرے پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے پھر دوسری رکعت کے لئے اٹھے اور قرأت کرے اور اس کے بعد چار تکبیریں کہے
یاد رہے کہ پہلی چار تکبیروں میں تکبیر تحریمہ اور دوسری چار تکبیروں میں رکوع کی تکبیر شامل ہے اور اس طرح سے زائد تکبیریں صرف چھ ہوئیں حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت حذیفہ سے بھی اسی طرح منقول ہے (دیکھئے نصب الرایۃ جلد ٢/ص ٢١٤) حضرت عبداللہ ابن عباس،حضرت مغیرہ بن شعبہ اور تابعین میں سے ایک کثیر تعداد سے یہی رائے منقول ہے اور علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں اصل دلیل صحابہ کرام کا فتویٰ اور عمل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے اور سب کو معلوم ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں صحابی کا فتوی اور عمل مرفوع حدیث کے حکم میں ہے کیونکہ اس میں قیاس کو کوئی دخل نہیں (بدايةالمجتهد جلد ١/ص٢٢٦)

عیدین کا خطبہ:
عیدین میں سب سے پہلے نماز ہوتی ہے اور پھر خطبہ دیا جاتا ہے، سنت سے یہی ثابت ہے اور اسی پر امت کا عمل ہے عیدین کے خطبہ میں بھی کثرت سے تکبیر کہنا چاہیے بہتر یہ ہے کہ پہلے خطبہ میں کم سے کم نو مرتبہ اور دوسرے میں کم سے کم سات مرتبہ تکبیر کہی جائے مشہور تابعی حضرت مسروق کہتے ہیں:
كان عبد الله يكبر في العيدين تسعا تسعا يفتح بالتكبير ويختم به (السنن الكبرى للبيهقي ٦٢١٥)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ عید فطر اور عید قرباں میں نو نو مرتبہ اللہ اکبر کہا کرتے تھے ،خطبہ کے شروع میں بھی تکبیر کہتے اور آخر میں بھی
اور حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کی سنت یہ ہے کہ عید فطر اور عید قربان میں منبر پر خطبہ سے پہلے نو مرتبہ مسلسل تکبیر کہی جائے اور ان کے درمیان کوئی کلام نہ ہو اس کے بعد خطبہ دیا جائے اور پھر بیٹھ جایا جائے اور دوسرے خطبہ کے لیے اٹھنے کے بعد شروع میں مسلسل سات مرتبہ تکبیر کہی جائے اور ان کے درمیان کوئی کلام نہ ہو اور امام شافعی نے اپنی سند سے نقل کیا ہے کہ اسماعیل ابن علیہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سنا ہے کہ پہلے خطبہ کے شروع میں نو مرتبہ مسلسل تکبیر کہی جائے گی اور دوسرے میں سات مرتبہ (معرفۃ السنن جلد ٥/ص ٨٨)
تکبیرات کے درمیان الحمداللہ اور لا الہ الا اللہ کہنا بھی بہتر ہے
امام شافعی لکھتے ہیں :
فان ادخل بين التكبيرتين الحمد والتهليل كان حسنا ولا ينقص من عدد التكبير شيئا (كتاب الام جلد ١/ص٢٣٩)
اگر دو تکبیروں کے درمیان الحمدللہ اور لا الہ الا اللہ داخل کردے تو بہتر ہے اور تکبیر کی تعداد میں کوئی کمی نہ کرے.
اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے خطبہ کے شروع میں دو مرتبہ تکبیر تشریق کہہ لے اور پھر الگ سے ایک مرتبہ اللہ اکبر کہہ لے تو کل نو تکبیریں ہو جائیں گی کیونکہ کی تکبیر تشریق میں چار مرتبہ اللہ اکبر موجود ہے اور دوسرے خطبہ کے شروع میں ایک مرتبہ تکبیر تشریق اور الگ سے تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ لے تو سات تکبیریں ہو جائیں گی .

عید فطر کی مبارک بادی:
محمد بن زیاد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ باہلی اور دوسرے صحابہ کرام کے ساتھ رہا ہوں جب یہ لوگ عید سے واپس ہوتے تھے تو ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ اللہ تعالی ہماری اور آپ کی عبادت قبول فرمائے ،تقبل اللہ منا ومنکم (الجوہر النقی جلد ٣/ص ٣٢٠ المغنى جلد ٢/ص٢٩٦)
اور حضرت جبیر بن نفیر بیان کرتے ہیں کہ عید کے دن جب صحابہ کرام باہم ملتے تو ایک دوسرے سے کہتے اللہ تعالیٰ ہماری اور آپ کی عبادت قبول فرمائے (المغنی جلد ٢/ص ٢٩٦
اس کے علاوہ دوسرے جائز کلمات سے بھی مبارکباد دی جاسکتی ہے

شوال کے چھ روزے :

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صام رمضان ثم أتبعه ستًّا من شوال كان كصيام الدهر (صحيح مسلم١١٦٤)
جو کوئی رمضان کا روزہ رکھے اور اس کے بعد شوال میں سے چھ روزے رکھ لے تو وہ پورے سال کے روزے کی طرح ہے
اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
صيام شهر بعشرة أشهر وستة أيام بعدهن بشهرين فذلك تمام سنة يعني شهر رمضان وستة أيام بعده سنن دارمى ١٧٩٦، مسنداحمد ٢٢٤١٢،)
ایک مہینہ کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور چھ دن اس کے بعد کا روزہ دو مہینہ کے برابر ہے تو یہ پورے سال کا روزہ ہو جائے گا یعنی رمضان اور اس کے بعد چھ دن کا روزہ ۔
امام ابن ماجہ نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں:
من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها (سنن ابن ماجه ١٧١٥),
جو کوئی عید فطر کے بعد چھ روزے رکھے تو پورے سال کا روزہ ہوجائے گا جو نیکی کرے گا اسے دس گناہ ملے گا.
علامہ ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے کہ شعبان اور شوال کے روزے کی حیثیت فرض نماز سے پہلے اور بعد کی سنت جیسی ہے جس کے ذریعہ فرض روزے میں کمی کوتاہی کی تلافی ہو جاتی نیز رمضان کے روزے کے بعد روزہ رکھنے کی توفیق اس کی قبولیت کی علامت ہے کیوں کہ نیکی کے بعد دوسری نیکی پہلی نیکی کی قبولیت کی علامت ہے، اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرض کی بجا آوری کی توفیق اور ہمت دی اس کے شکریہ میں دوبارہ روزہ رکھا جائے (لطائف المعارف٤١٨)
اس قدر فضیلت اور برکت والے مہینے کو زمانے جاہلیت میں منحوس سمجھا جاتا تھا کہا جاتا ہے کبھی اسی مہینے میں طاعون آگیا جس کی وجہ سے بہت سی دلہنیں مر گئیں اس لئے اس کو منحوس سمجھا جانے لگا اور اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے تھے (لطائف المعارف ١٤٧)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے اس عقیدے کی تردید فرمائی وہ کہتی ہیں:
تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ- كَانَ أَحْظَى عِنْدَهُ مِنِّي قَالَ وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءهَا فِي شَوَّالٍ (صحیح مسلم ١٤٢٣)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں مجھ سے نکاح کیا اور اسی مہینے میں رخصتی عمل میں آئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں ان کی محبت کی بہ نسبت مجھ سے زیادہ خوش قسمت کون ہے راوی کہتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے متعلق عورتوں کی رخصتی شوال میں کرانا پسند کرتی تھیں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے