(6)
غلے اور پھلوں کی زکات۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
سونا، چاندی ، روپیہ پیسہ ، مویشی اور تجارتی سامان کی طرح زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں پر بھی زکات فرض ہے جسے فقہی اصطلاح میں ’’عشر‘‘ کہا جاتا ہے۔ عشر کے معنی ہیں کسی چیز کا دسواں حصہ ، پیداوار کی سینچائی بارانی اور قدرتی پانی سے ہو تو اس میں دسواں حصہ بطور زکات فرض ہے ، اسی مناسبت سے اس کو عشر کہاجاتاہے۔
غلہ اور پھل میں سے زکات نکالنے کا حکم قرآن حکیم میں بھی ہے اور حدیث نبوی میں بھی ۔ اجماع کے ذریعہ بھی اس کی ادائیگی ثابت ہے اور عقل و حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
قرآن حکیم:
قرآن مجید کی وہ تمام آیتیں عشر کے لیے دلیل ہیں جو زکات کے حکم اور ترغیب پر مشتمل ہیں کیونکہ عشر بھی زکات کے متعدد قسموں میں سے ایک قسم ہے ۔ تاہم خصوصی طور پر بھی دو آیتوں میں عشر کا تذکرہ ہے ۔ وہ یہ ہیں:
1- یاایھا الذین انفقوا من طیبات ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ .
ایمان والو! اپنی کمائی میں سے عمدہ چیز کو خرچ کیا کرو اور ان چیزوں میں سے بھی خرچ کرو، جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے اور ردی چیزوں کو خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو، حالانکہ تم کبھی اس چیز کو لینے والے نہیں ہو مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ ۔(سورۃ البقرہ/267)
اس آیت میں ’’انفاق‘‘ سے مراد صدقہ اور زکات ہے ، کیونکہ قرآن حکیم میں متعدد جگہوں پر ’’انفاق‘‘ کو زکات کے لیے استعمال کیاگیاہے-(احکام القرآن للجصاص 543/1، احمدبن علی الجصاص، ت370، ط البھیۃ المصریۃ، المغنی 154/4، ابن قدامہ حنبلی ،ت 620ھ ط دارعالم الکتب الریاض 1986ء)
نیز ’’مما اخرجنا لکم من الارض‘‘(جوچیزیں ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کی ہیں) سے مراد زمینی پیداوار ہے جس کے متعلق اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کے ایک حصے کو بطور زکات خرچ کریں اور یہ کہ انسان جس غلے اور پھل کو ردی اور خراب سمجھ کر خود استعمال نہیں کرتاہے، اسے وہ اللہ کی راہ میں دینے سے احتراز کرے۔
2- وھو الذی انشأ جنات معروشات وغیر معروشات والنخل والزرع مختلفا اکلہ والزیتون والرمان متشابھا وغیر متشابہ کلوا من ثمرہ اذا اثمر واتوا حقہ یوم حصادہ ولا تسرفوا ولا یحب المسرفین .
اور وہی (اللہ تعالیٰ) ہے جس نے ایسے باغات پیدا کیے جن میں بعض ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں (جیسے انگور) اور کچھ ٹٹیوں پرنہیں چڑھائے جاتے، نیز کھجوروں کے درخت اور کھیتیاں اگائیں، جن میں مختلف طرح کے کھانے کی چیزیں ہوتی ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیا ، جو باہم ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور نہیں بھى
ان کے پھل اور پیداوار میں سے کھاؤ اور اس میں اس کا جو حق ہے کاٹنے کے دن وہ حق ادا کرو اور فضول خرچی نہ کرو، یقینا اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔(سورۃ الانعام:142)
اس آیت میں ’’واتوا حقہ یوم حصادہ‘‘(کاٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو) سے مراد پیداوار کی زکات ہے جیساکہ رئیس المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس اور بعض دوسرے صحابہ کرام اور بیشتر مفسرین، جمہور فقہاء اور محدثین کی رائے ہے ۔(دیکھئے تفسیر طبری 153/8ابوجعفر محمد بن جریر ،ت310ھ، ط مصطفی البابی الحلبی 1954ء ، تفسیر قرطبی 99/7 ابوعبداللہ محمدبن احمد ت 774ھ، ط داراحیاء التراث العربی بیروت1985ء)
ارشاد نبوی ﷺ:
2- عن ابن عمر عن النبی ﷺ قال فیما سقت السماء والعیون او کان عثریا العشر وفیما سقی بالنضح نصف العشر.(رواہ الجماعۃ الا مسلما، نیل الاوطار 140/4 للشوکانی محمدبن علی، ت 1255ھ، ط مکتبۃ الدعوۃ الاسلامیہ الازہر)
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جو کھیتی بارش یا چشمے کے پانی سے سیراب ہوتی ہو یا ایسا درخت ہوکہ اسے سیراب کرنے کی ضرورت نہ ہو یا زمین ہمیشہ نم رہتی ہو جس کی وجہ سے آب پاشی کی حاجت پیش نہ آئے، اس میں دسواں حصہ بطور زکات ہے اور جس کھیتی کو ڈول وغیرہ کے ذریعہ سیراب کیاگیا ہو اس میں بیسواں حصہ زکات ہے۔
2- عن جابر انہ سمع النبی ﷺ یقول فیما سقت الانھار والغیم العشر وفیما سقی بالسانیۃ نصف العشر (رواہ احمدومسلم والنسائی وابوداؤد. نیل الاوطار140/4)
حضرت جابرؓ سے منقول ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جس زمین کو نہر اور بارانی پانی سے سیراب کیاگیا ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور جس کھیت کو جانور کے مدد سے سینچا گیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔
3- عن معاذ بن جبل …قال رسول اللہ ﷺ ان آخذ مما سقت السماء وما سقی بعلا العشر وما سق بالدوالی نصف العشر (رواہ ابن ماجہ /131والسند حسن، ارواء الغلیل 284/3)
حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (انھیں یمن بھیجتے ہوئے ) فرمایاکہ جو زمین بارانی پانی سے سیراب ہو یا جسے آبپاشی کی ضرورت نہ ہو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لو اور جسے ڈول وغیرہ کے ذریعہ سینچا گیا ہو اس میں سے بیسواں حصہ لو۔
واضح رہے کہ الفاظ کے معمولی فرق اور کچھ اضافہ کے ساتھ اس طرح کی روایتیں حضرت ابوہریرہؓ، عبداللہ بن عمروؓ اور عمروبن حزم ؓ سے بھی منقول ہیں جسے امام ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، طحاوی اور محدث حاکم وغیرہ نے نقل کیا ہے ۔(دیکھئے ارواء الغلیل 284/3للالبانی محمدناصرالدین، ط المکتب الاسلامی 1985ء)
اجماع امت:
غلہ اور پھلوں میں بطور زکات دسواں یا بیسواں حصہ فرض ہونے کے سلسلہ میں پوری امت متفق ہے ، صحابہ کرام کے زمانے سے لے کر آج تک کے علماء اور فقہاء کا اتفاق ہے کہ زمینی پیداوار کے کچھ حصے کو مسکینوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا فرض اور ضروری ہے۔(فلان الامۃ اجمعت علی فرضیۃ العشر ، البدائع 170/2علامہ کاسانی علاء الدین بن ابی بکر ت587ھ، ط نعیمیہ دیوبند، المغنی154/4،لابن قدامہ عبداللہ بن احمدت620ھ، ط دارعالم الکتب1997ء ، نیل الاوطار140/4)
انفاق فی سبیل اللہ کی حکمت اور مصلحت:
اللہ کی بے شمار اور ان گنت نعمتوں سے انسان فیض یاب ہوتا ہے، جس میں سے ایک عظیم نعمت زمین ہے جو رہائش کا ذریعہ بھی ہے اور سامان خورد و نوش کا خزانہ بھی، انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ زمین کے سینے کو چاک کرکے اس میں بیج ڈالتا ہے، لیکن اس بیج کی حفاظت، اس کی ساخت و پرداخت اور نشوونما میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے بلکہ دست قدرت اسے پروان چڑھاتی ہے ، اس کے لیے مناسب ماحول مہیا کرتی ہے اور بارانِ رحمت سے اسے سیراب کرتی ہے ، زمین سے پیداوار کا حصول انسان کی تدبیر اور عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ دست قدرت کا عطیہ ہے ، یہ اللہ کا بڑا احسان اور انعام ہے ،اس احساس اور شعور کو بیدار رکھنا ضروری ہے ، اسی لیے قرآن حکیم میں باربار اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
افرأیتم ما تحرثون أانتم تزرعونہ ام نحن الذارعون، لو نشاء لجعلناہ حطاما فظلتم تفکھون انا لمغرمون بل نحن محرومون ۔
تم غورکرو کہ جو بیج تم ڈالتے ہو ، کیا تم اسے اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں تو تم متعجب ہوکر رہ جاؤ گے کہ ہمارا بڑا نقصان ہوگیا بلکہ ہم بالکل ہی محروم رہ گئے.(سارا سرمایہ ہی ڈوب گیا)
(سورۃ الواقعۃ:63-67)
نیز فرمایاگیاہے:
فلینظر الانسان الی طعامہ انا صببنا الماء صبا ثم شققنا الارض شقا فانبتنا فیھا حبا و عنبا و قضباو زیتونا و نخلا ووحدائق غلبا وفاکھۃ وابا متاعالكم ولانعامكم.
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے کھانے کی طرف نظر ڈالے کہ ہم نے عجیب طور پر پانی برسایا پھر عجیب طور پر زمین کو پھاڑا پھر ہم نے اس میں غلہ، انگور ، ترکاری ، زیتون، کھجور ، گھنے باغات، پھل اور میوے اور جانور کا چارہ پیدا کیا، یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کے لیے ہے۔(سورۃ عبس :32-34)
ایک دوسری آیت میں ہے:
وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض وانا علی ذھاب بہ لقادرون فأنشانا لکم بہ جنات من نخیل و اعناب لکم فیھا فواکہ کثیرۃ ومنھا تاکلون .
ہم نے ایک خاص اندازے کے مطابق آسمان سے پانی برسایا اور پھر اس کو زمین میں ٹھہرائے رکھا اور ہم اس پانی کو ختم کردینے پر بھی قدرت رکھتے ہیں، پھر ہم نے اس کے ذریعہ کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے، تمہارے واسطے اس میں بکثرت میوے بھی ہیں اور ان سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔(سورۃ المومنون:18-19)
اس نعمت پر اللہ کا شکر بجالانا ضروری ہے ، جس کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا ایک حصہ ان لوگوں پر خرچ کیاجائے جو اس سے محروم ہیں، اس کے ذریعہ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی حاجت برآری کی جائے، ورنہ تو یہ نعمت انسان کے لیے زحمت اور عذاب خداوندی کو دعوت دینے کا ذریعہ بن جائے گی ، جس کے نتیجے میں دنیا و آخرت دونوں کی نامرادی اور ناکامی ہاتھ آئے گی ، چنانچہ قرآن مجید نے ایک باغ کے مالکوں کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ انھوں نے یہ طے کیاکہ اس مرتبہ پھل بالکل صبح سویرے توڑ لیے جائیں تاکہ فقیروں اور محتاجوں کو خبر نہ ہو اور ان کے آنے سے پہلے ہی پھل گھر آجائے، جس رات یہ مشورہ طے پایا اسی رات قدرت کے ہاتھوں نے باغ کو اس طرح سے تباہ و برباد کردیاکہ پہنچانا نہ جاتا تھا، مشورے کے مطابق صبح جلدی اٹھے، دوسروں کو جگایا، دبے قدموں سے چلتے ہوئے اور آہستہ آہستہ گفتگو کرتے ہوئے باغ تک پہنچے، لیکن وہاں جب باغ کی حالت دیکھی تو پہلے یہ خیال آیا کہ ہم راستہ بھول کر کسی اور جگہ پہنچ گئے ہیں لیکن جب غور کیا تو معلوم ہواکہ یہ تو وہی جگہ ہے اور اپنی محرومی پر ہاتھ ملنے لگے۔(سورہ القلم :17-32)
پیداوار اور دیگر چیزوں کی زکات میں فرق:
پیداوار اور دیگر چیزوں کی زکات میں بعض بنیادی مسائل میں فرق ہے ، جو درج ذیل ہیں:
1-سونا،چاندی، روپیہ، مال تجارت وغیرہ میں زکات اسی وقت واجب ہے جبکہ اس پر ایک سال گذر جائے لیکن اناج اور پھل کی زکات کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ پیداوار جب حاصل ہوجائے اسی وقت زکات ادا کرنا ضروری ہے اور اگر سال میں کئی فصل ہوں تو ہر فصل پر زکات ہے۔
2-دیگر چیزوں کی زکات کے لیے عقل و بلوغ شرط ہے ، کسی مال پر زکات اسی وقت فرض ہے جبکہ اس کا مالک بالغ اور عقل و شعور کا حامل ہو، بچے اور پاگل کے مال میں زکات فرض نہیں ہے لیکن پیداوار کی زکات میں ان شرطوں کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، اس لیے بچے اور پاگل کی کھیتی میں بھی زکات ہے۔
3-اناج اور پھل کی زکات فرض ہونے کے لیے زمین کا مالک ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صرف پیداوار کامالک ہونا کافی ہے ، اس سے مالک زمین کے علاوہ کاشتکار کے لیے بھی زکات ادا کرنا ضروری ہے ، ایسے ہی وقف زمینوں سے پیداوار حاصل کرنے والے کے ذمے بھی عشر ہے ، اس کے برخلاف دیگر چیزوں کی زکات کے لیے اس کا مالک ہونا شرط ہے۔
4- اگر کوئی شخص نصاب کے بقدر مال زکات کا مالک ہے لیکن اس کے ذمے اتنا قرض ہے کہ اس کے بقدر مال الگ کرلینے کے بعد نصاب کی مقدار باقی نہ بچے تو اس پر زکات نہیں ہے لیکن عشر کا مسئلہ اس سے مختلف ہے کہ یہ اس وقت بھی واجب ہے جب کہ پیداوار کا مالک قرض سے گھرا ہوا ہو ۔ بایں طور کہ اس پیداوار کو قرض میں دے دے تو کچھ نہ بچے، بھلے ہی اس نے قرض کی رقم کو کھیت ہی میں استعمال کیا ہو۔(دیکھئے البدائع173-184جلد2، رد المحتار 266/3لابن عابدین شامی، ط زکریا بکڈپو دیوبند 1996ء)
ہرطرح کی پیدا وار میں زکات ہے:
خلیفہ راشد حضرت عمربن عبدالعزیز، تفسیر قرآن میں امتیازی حیثیت کے مالک حضرت مجاہد، مشہور فقیہ اور محدث ، حضرت ابراہیم نخعی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہر طرح کی زمینی پیداوار میں زکات فرض ہے ، خوردنی چیز ہو یا غیر خوردنی، انسانی غذا ہو یا جانور کا چارہ اور گھاس، بشرطیکہ خودرو نہ ہو بلکہ بالقصد اس کی کاشت کی جاتی ہو اور اس سے فائدہ حاصل کرنا مقصود ہو کیونکہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث میں عمومی طور پر ہر طرح کی زمینی پیداوار سے زکات نکالنے کا حکم دیاگیاہے اور چند مخصوص پیداوار میں زکات واجب ہونے کے لیے کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں ہے۔
مشہور صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمر اور بعض تابعین و تبع تابعین کے نزدیک صرف چار چیزوں میں عشر واجب ہے:گیہوں، جو ، کھجور اور کشمش۔ ان حضرات کے پیش نظر یہ روایات ہیں:
1- انما سن رسول اللہ ﷺ الزکات فی الحنطۃ والشعیر والتمر والزبیب رواہ الدارالقطنی وزاد
ابن ماجۃ الذرۃ.
اللہ کے رسول ﷺ نے چار چیزوں میں زکات کو مسنون قرار دیاہے؛گیہوں، جو، کھجور اور کشمش۔اور ابن ماجہ کی روایت میں مکئی کا اضافہ ہے۔(نیل الاوطار 143/4)
2- عن ابی موسیٰ و معاذ ان النبی ﷺ قال لھما لا تاخذا فی الصدقۃ الا فی ھذہ الاصناف الاربعۃ الشعیر والحنطۃ والزبیب والتمر رواہ الطبرانی و الحاکم ۔
حضرت ابوموسیٰ اور معاذ سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ صدقہ صرف چار چیزوں میں سے وصول کرنا ؛جو، گیہوں، کشمش اور کھجور۔(بلوغ المرام/130، ابن حجر عسقلانی 852، ط دارعالم الکتب الریاض 1996ء)
لیکن یہ دونوں روایتیں پایۂ ثبوت سے فروتر اور ضعیف ہیں۔(دیکھئے الدرایۃ علی ھامش الھدایۃ 181/1ابن حجر عسقلانی ، نیل الاوطار 143/4)
امام مالک اور شافعی کے نزدیک عشر ان چیزوں میں واجب ہے جو عام حالات میں بطور غذا استعمال ہوتی ہوں، ذخیرہ اندوزی کے لائق ہوں اور ان کو خشک کیاجاسکتا ہو اگر ان تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو عشر واجب نہیں ہے ، چنانچہ بادام اور اخروٹ وغیرہ میں زکات نہیں ہے کیونکہ عام حالت میں انھیں بطور غذا استعمال نہیں کیاجاتا ہے اور نہ ہی سیب جیسے پھل میں عشر ہے کیونکہ اسے خشک کرکے ذخیرہ نہیں بنایا جاتاہے، یہ حضرات دلیل کے طور پر حضرت معاذ بن جبل کی روایت کو پیش کرتے ہیں جس میں کہاگیاہے:
فاما القثاء والبطیخ والرمان والقصب فقد عفا عنہ رسول اللہ ﷺ ۔(رواہ الدارقطنی واسنادہ ضعیف ۔بلوغ المرام/ 130، نصب الرایۃ 386/2محمدعبداللہ بن یوسف الزیلعی 762ھ، ط المجلس العلمی ڈابھیل ،گجرات1938)
ککڑی، خربوزہ، انار اور گنے میں رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کو معاف قراردیاہے۔
امام احمدبن حنبل کے نزدیک ایسے دانے اور پھلوں میں عشر واجب ہے جو پیمانہ سے ناپے جاتے ہوں ، باقی رہنے وا لے ہوں اور ان کو خشک کیا جاسکتا ہو، ان شرطوں میں سے کوئی ایک نہ ہو تو عشر واجب نہیں ہے ، ان کی دلیل یہ روایتیں ہیں:
قال رسول اللہ ﷺ لمعاذ خذ الحب من الحب.( سنن ابوداؤد225/1-226، ط کتب خانہ رشیدیہ دہلی)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ سے فرمایا:دانہ سے دانہ وصول کرو۔
قال رسول اللہ ﷺ لیس فی حب ولا ثمر صدقۃ حتی یبلغ خمسۃ اوسق۔( رواہ مسلم والنسائی .المغنی157/4)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دانہ اور کھجور میں زکات نہیں ہے یہاں تک کہ اس کی مقدار پانچ وسق کو پہنچ جائے۔
طریقہ استدلال یہ ہے کہ حدیث ’’فیما سقت السماء العشر‘‘ (جو کھیتی آسمانی بارش سے سیراب ہو اس میں دسواں حصہ زکات ہے) عام ہے لیکن اس میں مذکورہ دونوں روایتوں کی وجہ سے تخصیص کردی جائے گی اور جو چیزیں دانہ(حب) کے قبیل سے نہ ہوں اور کیلی نہ ہوں وہ اس کی عمومیت سے خارج ہوں گی اور جو چیزیں دانہ اور پھل کے قبیل سے ہوں اور کیلی ہوں وہ اس کی عمومیت میں شامل ہوں گی۔(حوالہ مذکور)
سبزی ، ترکاری اور پھل:
سبزی ، ترکاری اورجلد خراب ہوجانے والے پھلوں میں بھی عشر واجب ہے ، جیساکہ قرآن حکیم میں کہاگیاہے:
* واتوا حقہ یوم حصادہ.
اس آیت کا پہلا اور حقیقی مفہوم اور مصداق سبزی، ترکاری اور پھل ہے کیونکہ انھیں کو کاٹنے اور توڑنے کے دن ہی صدقہ کرنا واجب ہے ، جیساکہ آیت میں کہاگیا ہے، ورنہ گیہوں وغیرہ کا عشر تو کاٹنے کے دن کے بجائے گاہنے اور بھوسہ الگ کرنے کے بعد دینا واجب ہے ۔ علاوہ ازیں اس آیت میں مذکور پھل وغیرہ میں انار بھی شامل ہے جو جلد خراب ہوجانے والے پھلوں میں سے ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیداوار میں زکات واجب ہونے کے لیے اس طرح کی شرطوں کا شریعت میں لحاظ نہیں رکھا گیاہے۔
* یاایھا الذین آمنوا انفقوا من طیبات ما کسبتم ومما اخرجنا لکم من الارض .
اے ایمان والوں اپنی کمائی میں سے صاف ستھری چیزیں خرچ کرو اور اس چیز میں سے جس کو ہم نے تمہارے واسطے زمین سے پیدا کیا۔(سورۃ البقرہ:267)
یہ آیت بالکل عام ہے اور زمین سے نکلنے والی ہر طرح کی پیداوار کو شامل ہے ، جس میں سبزی اور ترکاری بھی داخل ہے بلکہ حقیقی مفہوم سبزی اور ترکاری ہی ہے کیونکہ حقیقتاً زمین سے نکلی ہوئی یہی چیزیں ہیں جسے بعینہٖ صدقہ کیاجاتاہے، رہا گیہوں وغیرہ تو وہ زمین سے نکلنے والے پودے سے نکلا ہے ۔(فانھا غیر مخرجۃ من الارض حقیقۃ بل من المخرج من الارض، البدائع179/2)
وہ روایتیں بھی سبزی اور پھل میں زکات کو واجب قرار دیتی ہیں جن میں عمومی طور پر کسی تخصیص کے بغیر دسواں یا بیسواں حصہ واجب قرار دیاگیاہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کے متعلق منقول ہے کہ جس وقت وہ بصرہ کے گورنر تھے وہ سبزی اور ترکاری سے عشر وصول کیاکرتے تھے۔,(فتح القدیر 186/2محمدبن عبدالواحد ت681ھ، ط داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان)
سبزی، ترکاری اور جلد خراب ہوجانے والے پھلوں میں عشر ہونے کا یہ نقطۂ نظر
امام ابوحنیفہ سے منقول ہے ، اس کے برخلاف امام مالک، شافعی، احمدبن حنبل اور امام ابویوسف ومحمد کے نزدیک ان چیزوں میں عشر نہیں ہے ، ان حضرات کے پیش نظر یہ روایت ہے:
لیس فی الخضراوات صدقۃ.
سبزیوں میں صدقہ نہیں ہے ۔
اس طرح کی روایت امام ترمذی اور دارقطنی وغیرہ نے نقل کی ہے اور امام ترمذی نے کہاہے کہ اس مسئلہ سے متعلق کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے ۔(الدرایۃ علی ھامش الہدایۃ /185، نصب الرایۃ 386/2-387)
اور واقعہ ہے کہ عمومی آیات اور احادیث کی تخصیص کے لیے کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے ، اس سلسلہ میں جو روایتیں پیش کی جاتی ہیں ان میں سے کوئی بھی کلام سے خالی نہیں ہے ، لہٰذا ان کے ذریعہ سے قرآن حکیم کی عمومی آیتوں میں کیسے تخصیص کی جاسکتی ہے ؟ علاوہ ازیں کسی درجے میں ان کی صحت مان لی جائے تو بہتر تاویل کے ذریعہ انھیں قرآن و حدیث کے عموم کے مطابق بنایا جاسکتاہے، چنانچہ جس روایت میں صرف چار چیزوں کے اندر عشر کا تذکرہ ہے ، اس کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حصر اضافی ہے ، حقیقی نہیں۔ چنانچہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے یہاں بھی چار چیزوں کی تخصیص نہیں ہے ۔ یا یہ کہا جائے کہ وہاں عام طور پر یہی چار چیزیں پیدا ہوتی تھیں اس لیے صرف انھیں میں زکات لینے کا حکم دیاگیاہے، رہی دوسری حدیث جس میں کہاگیا ہے کہ سبزیوں میں زکات نہیں ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ عاملین زکات سبزیوں میں زکات وصول نہیں کریں گے بلکہ مالکین ازخود ادا کردیں (البدائع189/2) کیونکہ یہ چیزیں پائیدار نہیں ہوتی ہیں اور جلد خراب ہوجاتی ہیں اگر عاملین زکات کا انتظار کیاجائے تو حقداروں تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع اور برباد ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
تیسری حدیث جس کی بنیاد پر امام احمدبن حنبل صرف کیلی چیزوں میں عشر
واجب قرار دیتے ہیں ، سندی حیثیت سے صحیح ہے لیکن اس سے استدلال محل نظر ہے، کیونکہ حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اناج اور پھل میں عشر اسی وقت واجب ہے جب وہ ایک متعین مقدار کو پہنچ جائے ، رہا یہ کہ کیلی چیزوں کے علاوہ میں عشر ہے یا نہیں ؟توحدیث اس سے خاموش ہے، اس سے صرف کیلی میں عشر واجب قرار دینا ایک بے وزن دلیل ہے۔(احکام القرآن 284/2، ابن العربی ابوبکر محمدبن عبداللہ ت543ھ، ط دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ کا نقطۂ نظر قرآن و حدیث سے قریب تر اور عقل سے ہم آہنگ ہے ، چنانچہ علامہ ابن العربی مالکی لکھتے ہیں۔
واقوی المذاہب فی المسالۃ مذھب ابی حنیفۃ دلیلا واحوطھا للمساکین واولاھا قیاما بشکرالنعمۃ وعلیہ یدل عموم الآیۃ والحدیث. (شرح الترمذی 110/3، ابن العربی ، ط دارالکتب العلمیۃ بیروت 1997)
دلیل کے اعتبار سے امام ابوحنیفہ کا مذہب قوی ترین مذہب ہے ، اس میں مسکینوں کا زیادہ فائدہ ہے ، حصول نعمت کا شکریہ بھی اسی میں سب سے زیادہ ہے اور آیت و حدیث کے عموم کی دلالت بھی یہی ہے ۔
امام فخرالدین رازی شافعی لکھتے ہیں:
ظاہر الآیۃ یدل علی وجوب الزکاۃ فی کل ما تنبتہ الارض علی ما ھو قول ابی حنیفۃ واستدلالہ بھذہ الآیۃ ظاہر جدا( التفسیر الکبیر 53/7، فخرالدین محمدبن عمرت 604ھ، ط داراحیاء التراث العربی بیروت 1997ء)
بظاہر یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ زمین سے اگنے والی ہرچیز میں زکات واجب ہے جیساکہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے ، اس آیت سے ان کا استدلال بالکل ظاہر ہے۔
عقل میں آنے والی بات بھی یہی ہے کہ جب گیہوں اور جومیں عشر ہے تو پھر نارنجی، سیب اور اخروٹ کے مالکوں کو کیوں معاف رکھاجائے حالانکہ یہ چیزیں گراں قیمت اور اچھی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔
گھاس اور بھوسہ:
خودرو گھاس اور چارہ میں زکات نہیں ہے لیکن بالقصد جانور کے چارہ کے لیے گھاس اگائی جائے تو اس میں عشر واجب ہے ، خواہ بیچنے کے لیے اس کی کاشت کی جائے یا ذاتی استعمال کے لیے، بہرصورت اس میں زکات ہے۔(الہدایہ181/1، حاشیہ طحطاوی علی الدر419/1، رد المحتار 268/3)
یہاں تک کہ کسی پودے کو دانہ حاصل کرنے کے لیے اگایا گیا مگر کسی وجہ سے دانہ آنے سے پہلے ہی اسے کاٹ لیاگیا تو اس میں بھی عشر ہے .(فتح القدر 190/2) البتہ بھوسہ میں زکات نہیں ہے کیونکہ مقصود اناج کا حصول ہے اور اس میں زکات ہے۔(الہدایہ 182/1)
ایندھن اور فرنیچر کی لکڑی:
ان درختوں کی لکڑیوں پر زکات نہیں ہے جن سے مقصود پھل حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن جو درخت لکڑی حاصل کرنے ہی کے لیے لگایا جائے جیسے کہ بانس ، ساگون یا جلاون کی لکڑی اس میں عشر واجب ہے۔(حوالہ مذکور)
شہد:
شہد کی مکھیاں پھلوں اور پھولوں سے اپنی غذا حاصل کرتی ہیں اور ان دونوں چیزوں میں عشر ہے ، اس لیے شہد میں بھی عشر ہے کہ وہ انھیں دونوں سے پیدا ہوا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہ اور امام احمدبن حنبل کا نقطہ نظر ہے ، امام مالک اور شافعی کے نزدیک شہد میں زکات نہیں ہے کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔( دیکھئے المغنی 183/4، البدائع 183/2-184)
حنفیہ وغیرہ کے دلائل یہ ہیں:
1- عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ ان رسول اللہ ﷺ کان یوخذ فی زمانہ من قرب العسل من کل عشر قرب قربۃ من اوسطھا، (رواہ ابوعبید والاثرم وابن ماجۃ وقال الالبانی صحیح ارواء الغلیل 284/3)
حضرت عمرو بن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں شہد کے مشک سے عشر لیا جاتا تھا ، ہر دس مشک میں سے ایک درمیانی مشک۔
2- فکتب عمر ان ادی الیک ما کان یودی الی رسول اللہ ﷺ من عشور نحلہ، (رواہ ابوداؤد و اسنادہ صحیح حوالہ مذکور)
حضرت عمرؓ نے ان کے پاس لکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں شہد میں سے جو عشر ادا کیاکرتے تھے، اسے ادا کرو۔
شہد میں عشر سے متعلق روایتیں حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عمروالعاصؓ اور حضرت ابوسیاد سے بھی منقول ہیں۔ جن میں سے کوئی روایت بھی کلام سے خالی نہیں ہے (دیکھئے نصب الرایہ390/2 وغیرہ، فتح القدر 193/2، نیل الاوطار 146/4)
تاہم مجموعی اعتبار سے درجہ حسن میں آجاتی ہیں۔
(زاد المعاد 15/2، ابن القیم ابوعبداللہ محمدبن ابوبکر ت 751ھ، ط مؤسسۃ الرسالۃ 1985ء)
عشر کا نصاب:
زمینی پیدا وار کے علاوہ دوسرے مالوں میں زکات اسی وقت فرض ہے جبکہ ایک خاص مقدار کو پہنچ جائے لیکن زمینی پیداوار میں عشر واجب ہونے کے لیے کسی خاص مقدار کا لحاظ نہیں رکھا گیاہے،بلکہ کم یا زیادہ جو بھی پیدا ہو اس میں عشر ہے ، اس کے قائل صحابہ کرام میں حضرت عبداللہ بن عباس، تابعین میں حضرت عمربن عبدالعزیز، عطاء، مجاہد اور ابراہیم نخعی ہیں اور امام ابوحنیفہ کا یہی مسلک ہے ، اس کے برخلاف متعدد صحابہ کرام اور تابعین عظام اور امام مالک، شافعی، احمدبن حنبل، ابویوسف اور محمد کے نزدیک پیداوار میں عشر اسی وقت واجب ہے جبکہ اس کی مقدار پانچ وسق (تقریباً 653کیلوگرام) تک پہنچ جائے.(دیکھئے المحلی 112/5 ابومحمد علی بن احمدبن سعید بن حزم ت546، ط المنیریۃ ،نیل الاوطار141/4.فقہ الزکاۃ 173/1، الدکتور یوسف القرضاوی ، ط مؤسسۃ الرسالہ بیروت 1985ء )
ان حضرات کے دلائل یہ ہیں:
1- عن ابی سعید عن النبی ﷺ لیس فیما دون خمسۃ اوسق صدقۃ ولا فیما دون خمسۃ اواق صدقۃ ولا فیما خمس ذود صدقۃ.(رواہ الجماعۃ. نیل الاوطار 141/4)
حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ پانچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں ہے، پانچ اوقیہ سے کم میں صدقہ نہیں ہے اور پانچ اونٹ سے کم میں صدقہ نہیں ہے۔
2- عن عمروبن حزم ان رسول اللہ ﷺ کتب الی اھل الیمن بکتاب فیہ فرائض وکتب فیہ ماسقت السماء او کان سحا او بعلا فیہ العشر اذا بلغ خمسۃ اوسق و ما سقی بالرشاء او بالدالیۃ ففیہ نصف العشر اذا بلغ خمسۃ اوسق (اخرجہ الطحاوی 315/1، والحاکم 395/1-397وصححہ وافقہ الذھبی وقال الکشمیری اسنادہ قوی ، فیض الباری 46/3، وفی ذالک نظر بینہ الحافظ فی التہذیب ، ارواء الغلیل 274/3)
حضرت عمروبن حزم سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کے لیے ایک تحریر لکھی جس میں زکات کے متعلق باتیں درج تھیں ، اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ جس زمین کی سیرابی بارش کے پانی سے ہو،اسے سیراب کرنے کی ضرورت نہ پیش آئے تو اس میں دسواں حصہ ہے جب اس کی مقدار پانچ وسق ہوجائے اور جس زمین کی سینچائی ڈول وغیرہ سے ہو اس میں بیسواں حصہ ہے جب اس کی مقدار پانچ وسق کو پہنچ جائے۔
3- یہ حضرات زمینی پیداوار کو دوسری چیزوں کی زکات پر قیاس کرتے ہیں کہ جس طرح سے دوسری چیزوں کی زکات کے لیے نصاب شرط ہے ، اسی طرح سے زمینی پیداوار کے لیے بھی نصاب ضروری ہے کہ یہ بھی زکات ہی ہے کیونکہ زکات مالدار پر فرض ہے اور مالداری نصاب کے بغیر ثابت نہیں ہوگی۔(المغنی161/4-162)
امام ابوحنیفہ کی دلیل وہ آیتیں اور احادیث ہیں جن میں کسی تفصیل اور تحدید کے بغیر زکات کا حکم دیاگیاہے اور کم یا زیادہ کا لحاظ نہیں رکھا گیاہے(دیکھئے سورۃ البقرۃ:267, الانعام: 141،حدیث1,2,3)
اور یہ بھی کہ عشر کا سبب زمین کا کاشت کے لائق اور پیداوار کا حقیقتاً موجود ہوناہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر چیزوں کی طرح سال گذرنا شرط نہیں ہے اور نہ ہی زمین کا مالک ہونا ضروری ہے ، حالانکہ مالداری ثابت ہونے کے لیے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہے ، جس سے معلوم ہوتاہے کہ ’’عشر‘‘ میں مالداری کا اعتبار نہیں کیاگیاہے.(الہدایہ181/1) اور اس کا کوئی نصاب نہیں ہے۔
اور جن روایتوں میں نصاب کا تذکرہ ہے اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ زکات وصول کرنے والے زکات اسی وقت وصول کریں گے جبکہ اس کی مقدار پانچ وسق تک پہنچ جائے اور اگر اس سے کم ہو تو عامل زکات اسے وصول کرنے نہیں جائے گا بلکہ مالکین پر چھوڑدے گا کہ وہ خود ہی اس کی زکات اداکریں، اس تاویل کی مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ کشمیری نے جو کچھ لکھا ہے اس کا حاصل یہ ہے:
مویشی اور زمینی پیداوار میں سے زکات وصول کرنا اسلامی حکومت کے حقوق میں سے ہے اور مالکوں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر فقیروں اور مسکینوں میں تقسیم کردیں، البتہ ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں جنھیں مالکین خود فقیروں کو دے سکتے ہیں جیسے سبزی اور ترکاری چونکہ اس کی زکات بیت المال میں نہیں آتی ہے اور حکومت کے کارندے اسے وصول نہیں کرتے ہیں، اس لیے کہہ دیا گیا کہ سبزی میں صدقہ نہیں ہے ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ عام طور پر اس عہد میں صدقہ اسے کہاجاتاتھا جسے بیت المال میں لاکر جمع کیاجائے اور جسے انسان اپنے طور پر فقیروں کودے دے اسے صدقہ نہیں کہا جاتا تھا، یہ ایک معقول عرف ہے ، کیونکہ جب اس کی زکات بیت المال میں جمع نہیں کی گئی اور مالکوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا کہ وہ جسے چاہیں دیں تو یہ گویا شریعت کی نگاہ میں ایسا ہی ہوگیا کہ اس میں زکات ہی نہیں ہے ۔
اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھئے کہ عربوں میں ’’عریہ‘‘ کے نام سے ہبہ کا ایک طریقہ یہ تھا کہ وہ فقراء اور مسکینوں کو درخت دے کر کہہ دیتے تھے کہ اس کی نگرانی اور دیکھ ریکھ کرو اور پھل کھاؤ اور اگر کسی وجہ سے اس درخت کو واپس لینا چاہیں تو شریعت نے یہ حکم لگایا کہ درخت کے پھل کے بدلے میں فقیروں کو دوسرا دے دیں۔ نیز یہ کہ اس معاملہ کو پانچ وسق تک ہی محدود رکھیں، اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسری طرف عاملین زکات کو یہ حکم دیا کہ وہ اس پانچ وسق میں سے زکات وصول نہ کریں کیونکہ اسی صورت میں دوبارہ زکات وصول کرنا ہوجائے گا۔ غرضیکہ شریعت نے پانچ وسق تک ’’عریہ‘‘ کی اجازت دی ہے، جیساکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے’’رخص فی بیع العرایا فی خمسۃ اوسق‘‘ اور اسی پانچ وسق کو زکات سے مستثنیٰ قرار دیاہے، چونکہ اس کی زکات بیت المال میں جمع نہیں ہوتی ہے ، اس لیے کہہ دیاگیاہے اس میں صدقہ نہیں ہے۔(فیض الباری 46/3-47، الشیخ محمد انور الکشمیری ت1352ھ، ط ربانی بکڈپو، دہلی 1988)
اور مولانا بدرعالم میرٹھی لکھتے ہیں کہ اصل حکم تو یہی ہے کہ مال کے مالکین حکومتی کارندے کو زکات دیں اور اپنے طور پر اسے تقسیم نہ کریں لیکن مالکوں کے پاس بھی کچھ قریبہ رشتہ دار اور شناسا آتے ہیں، جو حقدار ہوتے ہیں اور انھیں خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے اچھا نہیں لگتاہے ، اس لیے شریعت نے انھیں اجازت دی ہے کہ وہ پانچ وسق تک اپنے پاس روک لیں اور اپنی صواب دید کے مطابق خرچ کریں اور عاملین زکات کو حکم دیاکہ وہ اس حد تک کی زکات نہ لیں۔(حاشیہ فیض الباری 49/3)
علامہ کاسانی کہتے ہیں :
نصاب کو بیان کرنے والی روایت خبرواحد ہے ، لہٰذا اسے قرآنی آیت اور خبرمشہور کے مخالف ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیاجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے جو قرآنی آیت اور حدیث نقل کی ہے ، اس میں صرف عشر کی فرضیت کا تذکرہ ہے اور نصاب کے بیان سے آیت و روایت خاموش ہے اور ہم نے جو روایت نقل کی ہے وہ مقدار کا تقاضا کرتی ہے ، لہٰذا یہ حدیث نصاب کے سلسلہ میں ’’بیان‘‘ ہے اور خبرواحد کے ذریعہ’’بیان‘‘ جائز ہے ، جیساکہ مجمل اور متشابہ کے بیان میں خبرواحد کو قبول کیاجاتاہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اسے ’’بیان‘‘ پر محمول کرنا ممکن نہیں ہے ، اس لیے کہ ہم نے جو دلیل پیش کی ہے وہ عام ہے اور اس مقدار کو بھی شامل ہے جو وسق میں آجائے اور اس مقدار کو بھی جو وسق میں نہ آئے اور آپ نے جو روایت پیش کی ہے وہ خاص ہے ، اس مقدار کے سلسلہ میں جو وسق میں آجائے،لہٰذا اس میں اس مقدار کا بیان بننے کی صلاحیت نہیں ہے جس میں عشر واجب ہے، کیونکہ ’’بیان‘‘ کی شان یہ ہے کہ وہ ان تمام کو شامل ہوتاہے جس کا مجمل تقاضا کرتاہے، حالانکہ یہ حدیث ایسی نہیں ہے جیساکہ ہم واضح کرچکے ہیں ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ روایت بیان کے لیے نہیں ہے۔(البدائع 180/2)
صاحب ہدایہ وغیرہ کا خیال ہے کہ اس حدیث میں اس پیداوار کا تذکرہ ہے جس سے تجارت مقصود ہو اور تجارتی پیداوار میں زکات اسی وقت واجب ہے جبکہ دو سو درہم کی قیمت کو پہنچ جائے ، خیال رہے کہ اس زمانے میں پانچ وسق دو سو درہم کے برابر ہوتاتھا ، اس لیے اسے نصاب بنایا گیاہے لیکن یہ تاویل بہت بعید ہے کیونکہ طحاوی کی مذکورہ حدیث میں صراحت ہے کہ اس سے مراد عشر ہے ، زکات تجارت نہیں۔(دیکھئے فیض الباری 46/3)
اس کے برخلاف ابن قدامہ حنبلی وغیرہ لکھتے ہیں کہ چاندی اور مویشی سے متعلق بھی عمومی روایتیں موجود ہیں مگر خصوصی احادیث کی وجہ سے اس میں تخصیص پیدا کرلی جاتی ہے ، اسی طرح عشر سے متعلق عمومی روایتوں میں بھی اس حدیث کی بنیاد پر تخصیص پیدا کرلی جائے گی اور عشر کے سلسلے میں سال گذرنے کا اعتبار اس لیے نہیں کیاگیا ہے کہ کٹائی کی وجہ سے پیداوار کی افزائش مکمل ہوجاتی ہے ، اب اس میں نمو کا امکان نہیں ہے، اس کے برخلاف دیگر اموال کی افزائش اور نمو کا امکان رہتاہے اس لیے نمو کے مکمل ہونے کی خاطر سال گذرنے کا اعتبار کیاگیاہے۔(المغنی162/4)
زکات کی مقدار:
حدیث میں پیداوار میں زکات کی دو مقدار بیان کی گئی ہے :دسواں اور بیسواں دسواں حصہ اس وقت واجب ہے جبکہ بارش ، قدرتی چشمے یا ندی وغیرہ کے ذریعہ اس کی آبپاشی کی گئی ہو یا درخت خود ہی زمین کی تہہ سے پانی چوس لے، یا وہاں ہمیشہ نمی رہتی ہے جس کی وجہ سے سیرابی کی ضرورت نہ ہو اور اگر سینچائی کے لیے رقم لگانی پڑے، محنت و مشقت درکار ہو ، ڈول وغیرہ کے ذریعہ کنویں سے پانی نکال کر آبپاشی کی جائے تو اس میں بیسواں حصہ زکات ہے۔(البدائع 185/2)
واضح رہے کہ اگر ندی یا تالا ب سے پانی لانے کے لیے کوئی نالی بنائی گئی اور نالی کے ذریعہ پانی خود بخود کھیت تک پہنچ جائے تو نالی بنانے یا صفائی کرنے میں جو محنت و مشقت ہوئی ہے یا پیسہ خرچ ہوا ہے اس کا اعتبار نہیں ہے اور اس کی وجہ سے مقدار میں کوئی کمی نہ ہوگی بلکہ دسواں حصہ ہی واجب ہوگا۔(المغنی 165/4)
ایسے ہی کھیت جوتنے ، گھاس نکالنے اور کھاد ڈالنے پر جو خرچ آتاہے اسے منھا نہیں کیا جائے گا کیونکہ حدیث میں ان اخراجات کا کوئی اعتبار نہیں کیاگیاہے بلکہ صرف آبپاشی کو معیار بناکر دو مقدار متعین کردی گئی ہے۔(البدائع 185/2، فتح القدیر 194/2، ردالمحتار 269/3)
ان اخراجات کا اعتبار نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ پانی نہر یا تالاب سے حاصل کیاجائے یا کنویں اور ٹیوب ویل سے، اس فرق کی وجہ سے زمین کی پیداوار ی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہوتاہے، اس کے برخلاف کھاد وغیرہ کی وجہ سے زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور یہ اضافہ اس خرچہ کا بدل ہے ، اس لیے خرچہ نکالنے کی ضرورت نہیں ہے زیادہ تر سینچائی بارانی پانی سے ہو تو دسواں حصہ اور اگر آبپاشی زیادہ تر غیر بارانی پانی سے ہو تو بیسواں بطور زکات فرض ہے اور اگر آدھی سینچائی بارش وغیرہ کے پانی سے ہو اور آدھی ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعہ تو آدھی پیداوار میں دسواں حصہ اور آدھی پیداوار میں بیسواں حصہ واجب ہے، یعنی چالیسویں حصے کا تہائی اور اگر تعداد معلوم نہ ہوسکے تو احتیاطاً دسواں حصہ واجب ہے۔(دیکھئے المغنی 166/4، رد المحتار 269/3)
عشری اور خراجی زمین:
مسلمانوں کے زمینوں پر عائد کردہ شرعی فریضہ کو عشر کہتے ہیں اور ایسی زمینیں عشری کہلاتی ہیں اور مسلمان حکومت میں رہنے والے غیر مسلم باشندوں کی زمینوں پر جو ٹیکس عائد کیاجاتاہے، اسے خراج کہتے ہیں اور ایسی زمین خراجی کہلاتی ہے ، کسی زمین کے عشری ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں:
1-زمین کے مالکین از خود مسلمان ہوجائیں جیسے مدینہ اور یمن وغیرہ کی زمین.
2-وہ ملک جو جنگ کے ذریعہ فتح ہو اور وہاں کی زمینیں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردی گئی ہوں جیسے خیبر کی زمین ۔
3-جزیرۃ العرب کا پورا علاقہ عشری ہے ۔
کسی سکونتی مکان کو کھیت یا باغ بنایا گیا ہے، یا بنجر زمین کو کاشت کے لائق بنایا گیاہے، تو اس کے عشری یا خراجی ہونے کا کیا معیار ہے ؟ اس سلسلہ میں ائمہ حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابویوسف کے نزدیک قرب و جوار کی زمینیں اس کے لیے معیار ہیں ، اگر گرد و پیش میں عشری زمین ہے تو اسے عشری قرار دیاجائے گا اور اگر خراجی زمین ہے تو خراجی سمجھاجائے گا۔ امام ابوحنیفہ اور محمد کے نزدیک اس کا دارومدار پانی پر ہے۔ اگر قدرتی پانی (چشمہ، کنواں، بڑے دریا جیسے دجلہ فرات، گنگا، جمنا) سے سینچائی کی جائے تو عشر واجب ہے اور اگر غیر مسلم بادشاہوں کی بنائی ہوئی نہر سے سیراب کیاجائے تو خراج واجب ہے۔
کسی زمین کے خراجی ہونے کی درج ذیل صورتیں ہیں:
1-کسی ملک کو جنگ یا صلح کے ذریعہ فتح کیاجائے مگر وہاں کی زمینوں پر غیرمسلموں کے قبضہ کو برقرار رکھاجائے۔
2-مسلم حکومت کی اجازت سے غیرمسلم شہری نے کسی بنجر زمین کو قابل کاشت بنایا ہو یا وہ مسلمانوں کے ساتھ شریک جنگ رہا اور تحفہ کے طور پر اسے کوئی زمین دے دی گئی ہو۔
3-کسی مسلمان نے خراجی زمین کو خرید لیا ہو۔(دیکھئے رد المحتار 286/6-290 وغیرہ، البدائع 178/2)
کسی زمین کے عشری یا خراجی ہونے سے متعلق مذکورہ تفصیلات ایسے ملک سے متعلق ہیں جہاں حکومت کی باگ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو۔ اور فقہاء کرام نے ’’دارالحرب‘‘ کی زمینوں سے متعلق بھی کچھ احکامات بیان کیے ہیں لیکن ایک ایسا ملک جہاں طویل عرصے تک مسلمان اس کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ، لیکن بدعملی کے نتیجہ میں حکومت ان سے چھن گئی اور وہ محکوم بنا لئے گئے، جہاں اکثریت کی حکومت ہے اور مسلمان اقلیت میں ہیں، اس کے باوجود انھیں مذہبی آزادی حاصل ہے ، وہ اپنی زمینوں سے ایک مالک کی طرح فائدہ اٹھارہے ہیں، ایسی جگہ کے مسلمانوں پر عشر واجب ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہماری فقہی کتابیں خاموش ہیں۔ بعد کے کچھ علماء نے ’’دارالحرب‘‘ پر قیاس کرتے ہوئے ہندوستان جیسے ممالک کو عشر و خراج سے مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن اس خیال سے اتفاق نہیں کیاجاسکتاہے ؛کیونکہ ہندوستان کو ایک حد تک ’’دارالحرب‘‘ مان بھی لیاجائے تو بھی اس میں اور وہ ملک جو اصلاً’’دارالحرب‘‘ ہے زمین و آسمان کا فرق ہے ، اس تفاوت کو نظرانداز کرکے دونوں پر یکساں حکم لگا دینا کیسے
درست ہوسکتاہے؟(دیکھئے جواہر الفقہ 265/2وغیرہ )
یہ ایک مخصوص صورت حال ہے جس کی طرف واضح رہنمائی سے ہماری فقہی کتابیں خاموش ہیں، تاہم درج ذیل دلیلوں کی روشنی میں معلوم ہوتاہے کہ اس طرح کی زمینوں میں عشر واجب ہے:
1- عشر کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے ، یہ غلے اور پھلوں کی زکات ہے اور عبادت ہے ، قرآن و حدیث میں کسی تفصیل اور تحدید کے بغیر مطلقاً کہا گیاہے کہ زمین سے تمہیں جو پیداوار حاصل ہو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور شریعت نے اس میں جو حق متعین کیا ہے ، اسے کٹائی کے دن ادا کردو، ایسے ہی اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس زمین کو بارش وغیرہ کے پانی سے سینچا گیا ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور جسے کنویں وغیرہ سے سیراب کیاگیا ہو اس میں بیسواں حصہ ہے۔
2- قرآن و حدیث کے اسی عموم کے پیش نظر فقہاء کرام کہتے ہیں کہ وجوب عشر کے لیے زمین کا مالک ہونا شرط نہیں ہے بلکہ پیداوار کا مالک ہونا کافی ہے اور یہ کہ وجوب عشر کا سبب وہ زمین ہے جو کاشت کے لائق ہو اور اس سے پیداوار حاصل ہوجائے۔(دیکھئے رد المحتار 293/6+
ہندوستان میں مسلمان اپنی زمینوں کے مالک ہیں یا وہ ایک مالک کی طرح اس سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور پیداوار حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا اس پیداوار پر عشر واجب ہے جیساکہ قرآن وحدیث کے عموم کا تقاضا ہے۔
3- فقہاء یہ بھی لکھتے ہیں کہ عشر واجب ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ زمین خراجی نہ ہو اور ایسی زمینوں پر بھی عشر ہے جو نہ عشری ہوں اور نہ خراجی جیسے پہاڑ ، جنگل اور صحراء اور ہندوستان کی زمینوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ یہی کہاجاسکتاہے کہ کافروں کے غلبہ و اقتدار کی وجہ سے زمین مسلمانوں کی ملکیت سے نکل گئی اور نہ وہ عشری باقی رہی اور نہ خراجی، لیکن جب مسلمان ایک مالک یا قابض کی حیثیت سے فائدہ اٹھارہے ہیں تو ان کے لیے پیداوار میں سے عشر نکالنا ضروری ہے کیونکہ عشر ایک دینی فریضہ اور عبادت ہے جس سے کوئی مسلمان کبھی سبکدوش نہیں ہوسکتاہے، خواہ وہ دارالاسلام کا باشندہ ہو یا غیر مسلم کے زیر اقتدار زندگی گذار رہا ہوجس طرح سے کوئی دیگر چیزوں کی زکات سے اس لیے بری الذمہ نہیں ہوسکتاہے کہ وہ’’دارالحرب‘‘ کا شہری ہے۔
واضح رہے کہ اکثر علماء کرام کی رائے یہی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے قبضہ میں جو زمینیں ہیں ان پر عشر واجب ہے جن میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت تھانوی ، مفتی شفیع صاحب اور مفتی کفایت اللہ ؒ کا نام سرفہرست ہے۔ چنانچہ مولانا مفتی شفیع صاحب لکھتے ہیں:
جن زمینوں کے مالک مسلمان نسلاً بعد نسل چلے آئے ہیں اور کسی زمانے میں ان پر کسی کافر کی ملکیت کا ثبوت نہیں ہے وہ ابتداء ہی سے مسلمانوں کی جائز ملکیت قرار دے کر عشری سمجھی جائیں گی اور جن زمینوں پر کسی کافر کی کسی زمانہ میں ملکیت ثابت ہے اور پھر اس سے منتقل ہوکر مسلمانوں کے قبضے میں آئی ہے وہ خراجی ہے ۔(دیکھئے: فتاویٰ رشیدیہ/358-360، امداد الفتاویٰ 51/2-52وغیرہ، جواہر الفقہ 259/2-266 ، کفایت المفتی 26/4-297)
فقہ اکیڈمی نے بھی اتفاق رائے سے فیصلہ کیا ہے کہ جو زمینیں عرصے دراز سے مسلمانوں کے پاس ہیں اور تاریخی طور پر ان کا خراجی ہونا ثابت نہیں ہے وہ عشری ہیں ، (دیکھئے: اہم فقہے فیصلے /60، ط اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا 1997ء)
(شائع شدہ: ماہنامہ زندگی نو دہلی ،مارچ،2002ء)