فرض اور سنت کے درمیان وقفہ۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

فرض اور سنت کے درمیان وقفہ مطلوب شریعت ہے، دو الگ الگ نوعیتوں کی نمازوں کو بلافصل پڑھنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضرت سائبؓ سے روایت ہے :

فان رسول اللہ ﷺ امرنا بذالک ان لا نوصل صلاۃ بصلاۃ حتی نتکلم او نخرج۔

اللہ کے رسول ؐ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک نماز کو دوسری نماز سے نہ ملائیں یہاں تک کہ ہم دونوں کے درمیان یا تو گفتگو کرلیں یامسجد سے باہر آجائیں (صحیح مسلم)

ایک دوسری روایت میں ہے ایک صحابی جماعت میں شروع سے حاضر تھے، سلام پھیرنے کے فوراً بعد وہ نفل پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے اس پر نکیر کی اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان کی تائید فرمائی، روایت کے الفاظ یہ ہیں :

فقام الذی ادرک معہ التکبیرۃ الاولی من الصلاۃ یشفع فوثب عمر فاخذ بمنکبہ فھزہ ثم قال اجلس فإنہ لم یھلک اھل الکتاب الاانہ لم یکن بین صلاتھم فصل فرفع النبی ﷺ بصرہ فقال اصاب اللہ بک یا ابن الخطاب۔

وہ صحابی جو پہلی تکبیر ہی سے نماز میں شریک تھے نفل پڑھنے کے لئے کھڑے ہوگئے، حضرت عمرؓ جھٹکے سے اٹھے اور ان کے دونوں مونڈھوں کو پکڑکر حرکت دی اور بولے بیٹھ جاؤ، اہل کتاب اسی لئے ہلاک ہوئے کہ ان کی نمازوں کے درمیان فصل نہیں تھا۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر نگاہ اٹھائی اور فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے لوگوں کو درستگی تک پہونچائے۔ ( سنن ابوداؤد 144/1)

کیا سنت اور فرض کے درمیان اس وقفہ کی کوئی حدبندی ہے کہ اس سے زیادہ وقفہ غیر مستحب ہے؟ جواب ہے کہ کسی حدیث یا ائمہ حنفیہ سے کوئی حد بندی منقول نہیں ہے، اللہ کے رسول ﷺ سے فرض کے بعد طویل دعا مانگنا ثابت ہے، نیز آپ ﷺ نے فرض کے بعد تسبیحات، آیۃ الکرسی، قل اعوذب الفلق ،اور قل اعوذ برب الناس پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے مروی ہے :

کان رسول اللہ ﷺ اذا اسلم من صلاتہ یقول بصوتہ الاعلی لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی شئیً قدیر لاحول ولاقوۃ الاباللہ لا الہ الا اللہ ولا نعبد الا ایاہ ، لہ النعمۃ ولہ الفضل ولہ الثناء الحسن لاالہ الا اللہ مخلصین لہ الدین و لو کرہ الکافرون –

اللہ کے رسول ﷺ جب اپنی نماز سے سلام پھیر لیتے تو بلند آواز سے کہتے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہت ہے، تعریف کا مستحق وہی ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے،طاقت وقوت کا سرچشمہ وہی ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں، نعمت اور فضل اسی کی طرف سے ہے، تعریف کے لائق وہی ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ہم خالص اسی کی بندگی کرتے ہیں اگرچہ کافر اسے برا سمجھیں۔. ( رواہ مسلم )

اور حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں :

ان النبی ﷺ کان یقول فی دبرکل صلاۃ مکتوبۃ لاالہ الااللہ وجدہ لاشریک لہ‘ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئیً قدیر۔اللھم لا مانع لمااعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجدمنک الجد ( متفق علیہ )

نبی کریم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد فرماتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ یکتا ہے ‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘ اسی کے لئے بادشاہت ہے‘ وہی تعریف کا حقدار ہے‘ وہ ہر چیز پر قادر ہے‘ ائے اللہ! جس چیز کو تو عطا کردے اسے کوئی روک نہیں سکتا ہے اور جس چیز کو تو روک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور تیرے سامنے مالدار کی مالداری کام نہ آئے گی۔(نیل الاوطار 306/2) امام بخاری نے کتاب الدعوات میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے :

کان یقول فی دبر صلاتہ اذا سلم ۔

نماز کے بعد سلام پھیر کر یہ دعا کرتے ۔

(صحیح البخاری 937)

اور عبدالرحمن ابن غنم نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں:

من قال قبل ان ینصرف و یثنی رجلہ من صلاۃ المغرب والصبح لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ‘ لہ الملک ‘ ولہ الحمد ‘ بیدہ الخیر یحیی و یمیت و ھو علی کل شئیً قدیر عشر مرات کتب لہ بکل واحدۃ عشر حسنات ومحیت عنہ عشر سئیات ورفع لہ عشر درجات وکانت لہ حرزاً من کل مکروہ وحرزا من الشیطان الرجیم و لم یحل لذنب ان یدرکہ الاالشرک …

جو شخص فجر اور مغرب کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے اور پاؤں موڑنے سے پہلے کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں‘سلطنت اسی کے لئے ہے‘ وہی تعریف کا مستحق ہے‘ خیر اور بھلائی اسی کے دست قدرت میں ہے ‘ وہی مارتا اور جلاتا ہے‘ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دس مرتبہ اگر اسے پڑھ لے تو ہر مرتبہ کے بدلے دس نیکیاں لکھی جائیں گی‘ دس گناہ معاف ہونگے اور اس کے دس درجہ بلند کردئے جائیں گے اور اس کے لئے ہر بری چیز اور شیطان رجیم سے حفاظت کا ذریعہ ہے اور شرک کے علاوہ کسی گناہ کی وجہ سے وہ ہلاک نہ ہوگا۔ ( رواه احمد وروی الترمذی نحوہ عن ابی ذر الی قولہ الاالشرک ولم یذکر صلاۃ المغرب وقال حدیث صحیح غریب (المشکاۃ) یہی روایت عمل الیوم واللیلہ میں حضرت عمارہ بن شعیب ؓ کے واسطے سے مذکور ہے اور مغرب کی نماز کا ذکر ہے اور کتاب کے محقق نے حدیث کو حسن قراردیا ہے۔ دیکھئے عمل الیوم واللیۃ 3805 رقم الحدیث 577)

رہی وہ حدیث جس میں مذکور ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرض نماز کے بعد صرف اللھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذاالجلال والاکرام کے بقدر بیٹھا کرتے تھے ۔( کان النبی اذا سلم لم یقعدہ الا یقدار مایقول اللھم انت السلام )تو اس سلسلہ میں کہنا یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کبھی کبھار ایسا کرتے تھے کیوں کہ لفظ ’’ کان‘‘ استمرار اور ہمیشگی پر دلالت نہیں کرتا‘ بلکہ اگر کوئی کام ایک مرتبہ بھی کیاگیا ہوتو اسے لفط ’’ کان‘‘ کے ذریعہ بیان کردیا جاتا ہے۔(دیکھئے: نیل الاوطار 312/2 )

یا دونوں طرح کی حدیثوں میں موافقت پیدا کرنے کے لئے یہ کہا جائے قبلہ رخ بس اتنی ہی دیر بیٹھا کرتے تھے اور اس کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرلیتے۔(علامہ ا بن قیم لکھتے ہیں لم یمکث مستقبل القبلۃ الاما یقول ذالک)

واضح رہے کہ اس حدیث کا فرض و سنت کے درمیان وقفہ کی حد بندی سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ زیادہ سے زیادہ حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے رسول نماز کے بعد جائے نماز پر اتنی دیر ٹہرا کرتے تھے‘ لیکن سنت و فرض کے درمیان فاصلہ سے متعلق روایت خاموش ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرامؓ عام طورپر سنت گھروں میں پڑھا کرتے تھے اور ظاہر ہے کہ گھر جانے میں اس سے زیادہ وقفہ ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے