بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

فسق سے متعلق چند مسائل ۔

ولی ﷲ مجید قاسمی

ایک مومن و مسلم کی شان یہ ہے کہ وہ اطاعت و عبادت میں پوری طاقت لگا دینے اور بھر پور کوشش کرنے کے باوجود لرزاں اور ترساں رہتا ہے کہ اس سے کہیں کوئی کوتاہی نہ ہوگئی ہو۔ اس کے پہلو پوری رات بستر سے علاحدہ رہتے ہیں اور وہ  اللہ کی بارگاہ میں قیام و قعود اور رکوع و سجود میں مشغول رہتا ہے لیکن سحر کے وقت وہ معافی کا طلبگار ہوتا کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔و بالاسحار هم يستغفرون.
اور بشری عجز و کمزوری کی وجہ سے اگر کبھی نافرمانی سرزد ہوجاتی ہے تووہ کانپ اٹھتا ہے ، ندامت و شرمندگی کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ اس کے سرپر پہاڑ جیسا بوجھ ہے جس کے نیچے وہ دبا جا  رہا اور گھٹن محسوس کررہا ۔
وَ الَّذِیۡنَ  اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا  اللّٰہَ  فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ۔
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بےحیائی کا کام کر  بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کر گزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں  اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے ؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔(سورہ آل عمران : 135)
گناہ کے بعد مومن کی کیفیت و حالت کو بیان کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ، يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَكَذَا – قَالَ أَبُو شِهَابٍ بِيَدِهِ فَوْقَ أَنْفِهِ –
مومن اپنے گناہ کو ایسا سمجھتا ہے کہ گویا وہ پہاڑ کے نیچے کھڑا ہے جو اس پر گرا چاہتا ہے اور فاجر اپنے گناہ کو ایسا محسوس کرتا ہے گویا ناک پر سے  مکھی گزر گئی ہو جسے اس نے اپنے ہاتھ سے ہٹا دیا ۔(صحیح بخاري 6308)
اور حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” إِيَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ، فَإِنَّمَا مَثَلُ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ كَقَوْمٍ نَزَلُوا بَطْنَ وَادٍ، فَجَاءَ ذَا بِعُودٍ، وَجَاءَ ذَا بِعُودٍ، حَتَّى أَنْضَجُوا خُبْزَتَهُمْ، وَإِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتَى يُؤْخَذْ بِهَا صَاحِبُهَا تُهْلِكْهُ ".
اپنے آپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچاؤ کہ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ کچھ لوگ کسی وادی میں فروکش ہوئے اور وہ ایک ایک‌لکڑی چنتے رہے یہاں تک کہ اس سے روٹی پک گئی ۔اور چھوٹے گناہ کے مرتکب کو جب پکڑ لیا جائے گا تو وہ اس کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہوگا۔(مسند احمد:22808)
نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا:
يا عائشةُ ! إِيّاكِ ومُحقَّراتِ الذُّنوبِ، فإنَّ لها مِنَ اللهِ طالِبًا.
عائشہ! اپنے اپ کو چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچاؤ کیونکہ اس کے بارے میں بھی اللہ کے یہاں باز پرس ہوگی۔
(ابن ماجه:4243، وأحمد: 24415) واللفظ له)
درجہ کے اعتبار سے گناہ، صغیرہ اور کبیرہ   ہے لیکن خالق و مالک  کی نافرمانی کی حیثیت سے اس کا ارتکاب کسی سمجھدار کا کام نہیں ہوسکتا ہے ۔امام اوزاعی نے بڑی چشم کشا بات کہی ہے:
لَا تَنْظُرْ إِلَى صُغْرِ الْخَطِيئَةِ وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى مَنْ عَصَيْتَ.
گناہ کی  چھوٹائی کو مت دیکھو بلکہ یہ دیکھو کہ تم نے کس ذات کی نافرمانی کی ہے۔(حلية الاولياء223/5.ط السعادة)
صغیرہ اور کبیرہ گناہ ایسے ہی ہے جیسے کہ چھوٹی سی چنگاری اور بڑا سا شعلہ کہ آگ ہونے میں دونوں برابر ہیں اور ذرا سی لاپرواہی سے شعلہ کی طرح سے چنگاری بھی سب کچھ جلا کر ختم کردی گی۔اسی طرح سے نافرمانی کی حیثیت سے سب گناہ برابر ہیں اور صغیرہ گناہ سے لاپرواہ ہوجانا اسے کبیرہ بنا دیتا ہے کیونکہ  اللہ کی نافرمانی سے لاپرواہ ہوجانا کبیرہ گناہ ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کسی گناہ کو معمولی سمجھ کر کر گزرنا خود کبیرہ ہے ۔(دیکھئے خطبات عثمانی 264/3)
یہ بڑی جسارت کی بات ہوگی کہ کوئی گناہ کے بعد توبہ نہ کرے اور سرکشی و سرتابی کی زندگی گزارے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین اور آخرت کے معاملے میں بڑا لاپرواہ ہے اور اس کا دل خالق مالک کے احسان و عظمت سے خالی ہے ۔
اور ایسے لوگوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور ان کا اعتبار ختم ہوجاتا ہے اور جس کا کوئی بھروسہ نہ ہو تو دینی معاملات میں اس کو کیسے معتبر سمجھا جاسکتا ہے؟ ۔اور اللہ کے احکام کو توڑنے میں اور دینی اقدار کو پامال کرنے میں جسے کوئی شرمندگی نہیں ہے تو پھر گواہی وغیرہ کے وقت جھوٹ بولنے میں اسے کیا پریشانی ہوگی ؟اس لئے گواہی وغیرہ میں ان کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔نیز ان کا اعتبار کرنے اور ان کی بات ماننے میں ان کے ساتھ احترام کا معاملہ کرنا ہے حالانکہ اس طرح کے لوگوں کی تعظیم شرعا ممنوع ہے کہ ایسا کرنے میں معصیت کو رواج دینا ہوگا ۔ فرمان باری ہے:
وَ لَا تَرۡکَنُوۡۤا اِلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ۙ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ اَوۡلِیَآءَ ثُمَّ  لَا  تُنۡصَرُوۡنَ .
اور (مسلمانو) ان ظالم لوگوں کی طرف ذرا بھی نہ جھکنا، کہ دوزخ کی آگ تمہیں بھی آپکڑے اور تمہیں اللہ کو چھوڑ کر کسی قسم کے دوست میسر نہ آئیں، پھر تمہاری کوئی مدد بھی نہ کرے۔(سورہ ھود : 113)
اور حضرت ابو سعید خدری سے منقول ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ ".
صرف مومن کی صحبت اختیار کرو اور تمہارا کھانا صرف پرہیزگار لوگ کھائیں. (ابودؤد:4832 ترمذي :2395)
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ، فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ ".
انسان اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے لہذا دیکھ لو کہ تم کسے دوست بنا رہے ہو؟۔
(أبو داؤد :4833,ترمذي:2378)
اور اسی بنیاد پر حدیث میں فاسق و بدعتی کو تعظیمی القاب سے مخاطب کرنے سے منع کیا گیا ہے.( دیکھئے الموسوعہ الفقہیہ 145/32 )

فسق کی حقیقت:

فسق کے معنی کسی چیز سے باہر نکلنے اور خارج ہونے کے ہیں۔
اور اصطلاح شرع میں اطاعت و فرمانبرداری سے نکل جانے اور معصیت کا ارتکاب کر کے حد سے آگے بڑھ جانے  کو فسق کہا جاتا ہے۔(1)
اور علامہ قرطبی کہتے ہیں کہ اللہ کی اطاعت سے خروج کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو کفر کا ارتکاب کرے اور اس شخص پر بھی جو نافرمانی کا مرتکب ہو۔(2)
اس  اعتبار سے فسق کی دو قسمیں ہوں گی:
1-فسق اکبر جو کفر و شرک کے مترادف ہے اور درج ذیل آیتوں میں یہی مراد ہے:
*وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ ؕ اِنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ  وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ  فٰسِقُوۡنَ ۔
اور (اے پیغمبر) ان (منافقین) میں سے جو کوئی مرجائے، تو تم اس پر کبھی نماز (جنازہ) مت پڑھنا، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ۔ یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا، اور اس حالت میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔(سورہ التوبہ :84)
*اَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ جَنّٰتُ الۡمَاۡوٰی ۫ نُزُلًۢا بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ اَمَّا الَّذِیۡنَ فَسَقُوۡا فَمَاۡوٰٮہُمُ النَّارُ ؕ کُلَّمَاۤ  اَرَادُوۡۤا اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَاۤ اُعِیۡدُوۡا فِیۡہَا وَ قِیۡلَ لَہُمۡ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیۡ  کُنۡتُمۡ بِہٖ تُکَذِّبُوۡنَ ۔
چنانچہ جو لوگ ایمان لائے ہیں، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کے لیے مستقل قیام کے باغات ہیں جو ان کو پہلی مہمانی ہی کے طور پردے دیے جائیں گے، ان اعمال کے صلے میں جو وہ کیا کرتے تھے۔
رہے وہ لوگ جنہوں نے نافرمانی کی ہے، تو اس کے مستقل قیام کی جگہ جہنم ہے۔ جب بھی وہ اس سے نکلنا چاہیں گے، انہیں وہیں واپس لوٹا دیا جائے گا، اور ان سے کہا جائے گا کہ : آگ کے جس عذاب کو تم جھٹلایا کرتے تھے اس کا مزہ چکھو۔( سورہ السجدہ:19-20 )
* وَ یَوۡمَ  یُعۡرَضُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا عَلَی النَّارِ ؕ اَذۡہَبۡتُمۡ طَیِّبٰتِکُمۡ فِیۡ حَیَاتِکُمُ الدُّنۡیَا وَ اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہَا ۚ فَالۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ بِمَا کُنۡتُمۡ  تَفۡسُقُوۡنَ ۔
اور اس دن کو یاد کرو جب ان کافروں کو آگ کے سامنے پیش کیا جائے گا (اور کہا جائے گا کہ) تم نے اپنے حصے کی اچھی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں ختم کر ڈالیں  اور ان سے خوب مزہ لے لیا، لہذا آج تمہیں بدلے میں ذلت کی سزا ملے گی، کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے، اور کیونکہ تم نافرمانی کے عادی تھے۔(سورہ الاحقاف : 20)
2-فسق اصغر:
فسق اصغر کا مترادف معصیت ، گناہ اور بدعت ہے ۔اور درج ذیل آیتوں میں یہی مراد ہے:
* اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ  ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ  یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ  ؕؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ .
حج کے چند متعین مہینے ہیں۔ چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں (احرام باندھ کر) اپنے اوپر حج لازم کرلے تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے نہ کوئی گناہ نہ کوئی جھگڑا۔ اور تم جو کوئی نیک کام کرو گے اللہ اسے جان لے گا، اور (حج کے سفر میں) زاد راہ ساتھ لے جایا کرو، کیونکہ بہترین زاد راہ تقوی ہے  اور اے عقل والو ! میری نافرمانی سے ڈرتے رہو.(سورہ البقرۃ : 197)
*وَ اَشۡہِدُوۡۤا اِذَا تَبَایَعۡتُمۡ ۪ وَ لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّ لَا شَہِیۡدٌ ۬ؕ وَ  اِنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاِنَّہٗ فُسُوۡقٌۢ بِکُمۡ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ  عَلِیۡمٌ .
اور جب خریدوفروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ لکھنے والے کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے، نہ گواہ کو۔ اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہوگی، اور اللہ کا خوف دل میں رکھو، اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(سورہ البقرۃ:282)
* یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا  اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا  اَنۡ  تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ  فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ  نٰدِمِیۡنَ .
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔(سورہ الحجرات : نمبر 6)
فسق اصغر کی دو قسمیں ہیں:
فسق عملی اور فسق اعتقادی ۔
1-فسق عملی:
جان بوجھ کر کسی تاویل کے بغیر گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنا یا گناہ صغیرہ پر اصرار کرنا فسق عملی ہے ۔
جمہور کے نزدیک گناہ کی دو قسمیں ہیں کبیرہ اور صغیرہ اس کے برخلاف علامہ جوینی، باقلانی، اسفرائینی، ابن القشیری اور ابن فورک کے نزدیک تمام گناہ کبیرہ ہیں اور ان کو صغیرہ ان سے بڑے گناہ کی نسبت سے کہہ دیا جاتا ہے۔
جمہور کا نقطہ نظر راجح ہے اور ان کے دلائل یہ ہیں:
1-اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ نُدۡخِلۡکُمۡ  مُّدۡخَلًا کَرِیۡمًا.
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔  اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔(سورہ النساء:31)
2- وَ اعۡلَمُوۡۤا  اَنَّ  فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ  اِلَیۡکُمُ  الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ  فِیۡ  قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ  اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الرّٰشِدُوۡنَ ۙ.
اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں۔ بہت سی باتیں ہیں جن میں وہ اگر تمہاری بات مان لیں تو خود تم مشکل میں پڑجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے دل میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے، اور اسے تمہارے دلوں میں پرکشش بنا دیا ہے، اور تمہارے اندر کفر کی اور گناہوں اور نافرمانی کی نفرت بٹھا دی ہے۔  ایسے ہی لوگ ہیں جو ٹھیک ٹھیک راستے پر آچکے ہیں۔
(سورہ الحجرات :7)
اس آیت میں تین چیزیں ذکر کی گئی ہیں ،کفر فسق اور عصیان اور ظاہر ہے فسق اور عصیان دونوں کا مفہوم الگ الگ ہے اس طور پر کہ فسق سے گناہ کبیرہ اور عصیان سے گناہ صغیرہ مراد ہے اور اگر دونوں کا مصداق ایک ہو تو تکرار محض لازم آئیگا۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمْعَةُ إِلَى الْجُمْعَةِ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ مُكَفِّرَاتٌ مَا بَيْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْكَبَائِرَ ".
پنج وقتہ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک یہ سب اس درمیان کے گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں جب کہ  کبیرہ گناہوں سے  بچا جائے۔(صحیح مسلم 233)
اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے سنا ہے:
” مَا مِنِ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ، فَيُحْسِنُ وُضُوءَهَا وَخُشُوعَهَا وَرُكُوعَهَا، إِلَّا كَانَتْ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَمْ يُؤْتِ كَبِيرَةً، وَذَلِكَ الدَّهْرَ كُلَّهُ ".
اگر کوئی فرض نماز کے وقت اچھی طرح سے وضو کرے اور نماز میں خشوع وخضوع اختیار کرے اور رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے کرے تو یہ اس سے پہلے کے گناہوں کے لیے کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے اور ایسا ہمیشہ ہوتا رہتا ہے۔ (صحیح مسلم :228)

کبیرہ گناہ کی حقیقت:

ہر وہ گناہ جس کے ارتکاب پر آگ ،غضب ،لعنت یا عذاب کی وعید بیان کی گئی ہے یا اس پر کوئی دنیاوی سزا متعین ہے تو وہ کبیرہ گناہ ہے۔(دیکھیے: جامع البیان41/5. مدارج السالکین 247/1 البدائع 286/6)

صغیرہ پر اصرار:

صغیرہ پر اصرار کا مطلب یہ ہے کہ اسے گناہ کے ارتکاب پر کوئی ندامت اور شرمندگی نہ ہو گویا کہ وہ گناہ اور معصیت کے معاملے میں بالکل لاپرواہ ہے اور شرعی احکام کی اس کی نگاہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے (دیکھیے: قواعد الاحکام22/1. الفروق68/4)
کسی کام کو گناہ اسی وقت کہا جائے گا جب کہ اس کے  گناہ ہونے پر اتفاق ہو ۔اجتہادی و اختلافی مسائل میں کسی ایک پہلو کے صحیح اور دوسری جانب کے غلط ہونے کا یقین نہیں ہوتا ہے بلکہ مجتہد کا نقطۂ نظر حقیقت کے اعتبار سے غلط  ہو تو بھی وہ اجر و ثواب کا مستحق ہوتا ہے، اس لئے اسے معصیت نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
حضرت عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَصَابَ، فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ، فَلَهُ أَجْرٌ ".
جب کوئی حاکم فیصلہ کرنا چاہے اور اس میں اجتہاد کرے اور درست فیصلہ تک پہونچ جائے تو اس کے لئے دو اجر ہے اور اگر غلطی کر جائے تو اس کے لئے ایک اجر ہے ۔(صحیح بخاری :7352)
اور علامہ سیوطی کہتے ہیں:
لا ينكر المختلف فيه وانما ينكر المجمع عليه.
اختلافی امور میں کسی پر نکیر نہیں کی جائے گی ۔نکیر تو اجماعی معاملات میں کی جاتی ہے ۔(الاشباه والنظائر للسيوطي/ 158قاعدة: 35.)

2-فسق اعتقادی:

فسق اعتقادی کو بدعت کہا جاتا ہے علامہ ابن قیم کہتے ہیں کہ فسق اعتقادی جیسے اہل بدعت کا فسق جو اللہ اس کے رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جسے اللہ نے حرام کہا ہے اسے حرام سمجھتے ہیں اور جسے اللہ نے فرض  قرار دیا ہے اسے فرض سمجھتے ہیں لیکن اللہ اور اس کے رسول سے بہت سی چیزیں ثابت ہیں جن کا وہ جہالت اور تاویل کی بنیاد پر انکار کرتے ہیں اور بعض ایسی چیزوں کو ثابت مانتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول سے ثابت نہیں ہیں۔(مدارج السالکین 277/1)

بدعت کی حقیقت:

لغت کے اعتبار سے ہر نئی چیز کو بدعت کہا جاتا ہے اصطلاحی اعتبار سے بدعت کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں علامہ شمنی نے اس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
رسول اللہ ﷺ سے منقول حق کے خلاف کوئی چیز ایجاد کرنا کسی شبہ اور استحسان کی بنیاد پرخواہ اس کا تعلق علم سے ہو یا عمل اور حال سے ،اور اسے دین اور صراط مستقیم قرار دیا جائے ۔(3)

بدعت کی قسمیں:

بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعت فسق اور بدعت کفر۔
بدعت کفر یہ ہے کہ کوئی شخص ایسی چیزوں کی مخالفت اور انکار کرے جس کا قطعی اور یقینی طور پر دین کا حصہ ہونا معلوم ہے جیسے قرآن ، سنت متواترہ اور اجماع قطعی سے صراحتا ثابت شدہ کسی حکم کا انکار کرنا۔ شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
ہر اس شخص کی روایت رد نہیں کی جائے گی جسے بدعت کی وجہ سے کافر قرار دیا گیا ہو اس لئے کہ ہر گروہ کا دعوا ہے کہ اس کا مخالف بدعتی ہے اور کبھی مبالغہ کرتے ہوئے اپنے مخالف کو کافر کہہ دیتا  ہے ۔اگر اس کا اعتبار کیا جائے تو تمام جماعتوں کی تکفیر لازم آئیگی۔اس سلسلے میں قابلِ اعتماد یہ ہے کہ اس شخص کی روایت حدیث رد کی جائے گی جو شریعت کی کسی متواتر حکم کا انکار کرے جس کا دین کا حصہ ہونا بدیہی طور پر معلوم ہو یا اس کے برخلاف عقیدہ رکھے ۔رہا وہ شخص جو ایسا نہیں ہے اور اس کی یادداشت ٹھیک ہے اور اسی کے ساتھ وہ ورع اور تقویٰ سے بھی متصف ہے تو اس کی روایت کے قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔(4)
بدعت فسق یہ ہے کہ کوئی شخص خبر واحد یا کسی صحابی کے قول سے ثابت شدہ کسی چیز کی مخالفت اور انکار کرے یا ایسے عمل کو ثابت مانے جو کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ہے۔علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ بعض اہل بدعت ظاہری اور باطنی طور پر مومن ہوتے ہیں لیکن جہل و ظلم کی وجہ سے سنت میں غلطی کر جاتے ہیں ایسے لوگ نہ تو کافر ہیں اور نہ منافق البتہ اپنے ظلم و سرکشی کی وجہ سے کبھی وہ فاسق ہوتے ہیں اور کبھی نافرمان اور کبھی تاویل میں غلطی کرنے والے جس کی غلطی معاف ہے اور بعض کفریہ باتیں کہتے ہیں جیسے کہ نماز زکوۃ وغیرہ کا انکار کرنا اور شراب، جوا،  اور محرم سے نکاح وغیرہ کو حلال سمجھنا۔ پھر اس طرح کے لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا ہے تو ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی جیسے کہ کوئی نو مسلم ہو یا دور دراز کے علاقوں میں رہتا ہو جہاں اسلامی شریعت کی دعوت نہ پہنچی ہو تو ایسا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کسی چیز کا انکار کر دے تو اسے کافر نہیں کہا جائے گا جب تک کہ اسے اس کے بارے میں معلوم نہ ہو جائے۔(مجموع الفتاوی 352/3باختصار)
بدعت کفر کے مرتکب کا نہ تو کسی معاملے میں گواہی قبول کی جائے گی اور نہ حدیث کی روایت لی جائے گی ۔اور اگر بدعت فسق کا مرتکب ہے لیکن وہ اپنی بدعت کی طرف دعوت دینے والا نہیں ہے اور نہ ہی وہ اپنے مذھب کی ترویج کے لئے اور اپنے ہم نواؤں کی خاطر جھوٹ بولنے کو جائز سمجھتا ہے تو اس کی روایت اور اس کی گواہی قبول کی جائے گی۔دیکھئے:(الباحث الحثیث 299/1 ط،مكتبه المعارف.الرياض 2014ء)
چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں بدعتیوں کی گواہی قبول کروں گا البتہ شیعوں میں سے خطابیہ کے گواہی کو قبول نہیں کروں گا اس لیے کہ وہ اپنے ہم مذہب کے لیے جھوٹی گواہی کو جائز سمجھتے ہیں۔(5)

عدل کی تعریف:

فسق کے مقابلے میں عدل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنی ہیں میانہ روی، اعتدال اور استقامت۔
اور اصطلاح میں عدل کہا جاتا ہے  کبیرہ گناہوں سے اجتناب اور صغیرہ گناہوں پر اصرار سے احتراز اور خلاف وقار قول و عمل سے بچنا۔(6)
عدل کی تعریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عدل مکمل طور پر فسق کی ضد نہیں ہے بلکہ فسق کے مقابلے میں قدرے عام ہے کہ غیر عادل کے لیے فاسق ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ عدالت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بعض ایسے جائز کاموں سے بھی اجتناب کرے جس کی وجہ سے لوگوں کی نگاہوں میں اس کی حیثیت گھٹ جاتی ہو  یا اس کا وقار و اعتبار  ختم ہو جاتا ہو۔اور ظاہر ہے کہ کسی مباح کام کے کرنے والے کو فاسق نہیں کہا جاسکتا ہے ۔چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی جو گھٹیا حرکتیں کرتا ہو جیسے کہ راستے میں پیشاب کرنا، راہ چلتے ہوئے کھانا پینا ؛اس لیے کہ یہ خلاف وقار ہے اور جب کوئی شخص اس طرح کی چیزوں سے شرماتا نہیں ہے تو وہ جھوٹ بولنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا۔(الفقہ الحنفی فی  ثوبہ الجدید 158/3)
حاصل یہ ہے کہ فسق و عدل ایک شرعی اصطلاح ہے اور متعین پر کسی کو اس کا مصداق قرار دینے میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور متعین طور پرکسی فاسق قرار دینے کے لئے  شرعی ثبوت کی ضرورت ہوگی ۔قیاس و اجتہاد اور عقل و بصیرت کی بنیاد پر کسی کو فاسق قرار دینے کی گنجائش نہیں ہے ۔علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں:
کفر و فسق ایک خالص شرعی حکم ہے ،عقل کے ذریعے اس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے ،کافر وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے کافر کہا ہے اسی طرح سے فاسق وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے فاسق کہا ہے ۔اور یہی معاملہ ایمان و اسلام کا بھی ہے ۔(منہاج السنہ 92/5)
قرآن حکیم میں ہے :
یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ  مِّنۡ  نِّسَآءٍ  عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۔
اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔  اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔(سورہ الحجرات : 11)
تفسیر:
معاشرے میں جن باتوں سے لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں، ان آیتوں میں ان باتوں کو نہایت جامعیت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ کسی دوسرے کا کوئی ایسا برا نام رکھ دیا جائے جو اسے ناگوار ہو۔ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ایسا کرنا گناہ ہے، اور اس سے خود تم گنہگار ہو گے، اور خود تم پر گنہگار ہونے کا نام لگے گا، اور کسی مسلمان پر یہ نام لگنا کہ وہ گنہگار ہے، ایمان لانے کے بعد بہت بری بات ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تم کسی دوسرے پر برا نام لگا رہے تھے، اور اس عمل سے خود تم پر برا نام لگ گیا۔
( آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
علامہ ابن عبدالبر مالکی کہتے ہیں کہ برے القاب سے مراد کسی مسلمان  کو کافر و فاسق بنانا ہے اور یہ مفہوم مذکورہ بالا حدیث کے موافق ہے اور قرآن و حدیث میں کسی مسلمان کو کافر یا فاسق بنانے کی نہایت وضاحت کے ساتھ ممانعت آئی ہے۔(التمہید 21/17)
حضرت ابوذر غفاری سے منقول ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ، إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ، إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ ".
کوئی شخص کسی پر فسق و کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ اگر وہ واقعہ  کے مطابق نہ ہو تو اس کا وبال اسی پر لوٹ کے آجائیگا ۔
(صحيح بخاري: 6045)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
اس اس حدیث کا تقاضہ ہے کہ جو شخص دوسرے کو فاسق یا کافر کہے اور وہ ایسا نہ ہو تو کہنے والا ہی اس وصف کا مستحق ہوگا اور اگر وہ ویسا ہی ہو تو  اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اس لیے کہ اس نے سچ بات کہی ہے لیکن فاسق یا کافر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کو فاسق کہنے کی وجہ سے گنہگار بھی نہیں ہوگا بلکہ اس صورت میں کچھ تفصیل ہے اگر اس کا مقصد اس کی حالت بیان کرکے اس کی خیر خواہی اور نصیحت ہو  تو ایسا کرنا جائز ہے اور اگر اسے شرم دلانا ، بدنام کرنا  اور صرف تکلیف پہنچانا مقصود ہو تو  یہ جائز نہیں ہے کیونکہ شریعت کی طرف سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ اس طرح کی باتوں کو چھپا لے  اور اس فعل کی قباحت کو اس کے سامنے واضح کرے اور اچھی طرح سے اسے وعظ و  نصیحت کرے تو جہاں تک نرمی کے ذریعے سے ایسا کرنا ممکن ہو تو اس کے لیے جائز نہیں ہے ہے کہ وہ سختی کے ذریعے سے ایسا کرے اس لیے کہ ایسا کرنے کی وجہ سے اسے بھڑکانا ہوگا  اس لئے کہ بہت سے لوگ ضدی ہوتے ہیں خصوصاً اس وقت جب کہ حکم دینے والا مرتبہ کے اعتبار سے مامور سے کم تر ہو۔(7)
حضرت ابوبکرہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
” فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَإِنَّ الشَّاهِدَ عَسَى أَنْ يُبَلِّغَ مَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ مِنْهُ ".
تمہارے خون‌،تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لئے ایسے ہی حرام ہیں جیسے کہ یہ دن ،یہ مہینہ اور یہ شہر محترم ہے ۔تم میں سے موجود غائب کو پہونچا دے ۔ہوسکتا ہے کہ جسے پہونچایا گیا ہو وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھنے والا ہو۔
(صحیح بخاری:67. صحیح مسلم:1679)
اور کسی کو بے عزت کرنے کا ایک بڑا ذریعۂ اس پر کفر و فسق کا الزام لگانا ہے اور اس طرح سے کسی مسلمان کی عزت پامال کرنے میں خود اپنا ایمان و اسلام داؤ پر لگنے کا خطرہ ہے ۔

قبول شہادت :

فسق و عدل کا تعلق عقیدہ و عمل سے ہےجس کے بارے میں شریعت میں وضاحت ہے کونسا عقیدہ وعمل کفر تک پہونچانے والا ہے اور کونسا فسق کا سبب ہے اور کونسا گناہ صغیرہ ہے اور کونسا کبیرہ ہے اور ظاہر ہے کہ کسی گناہ کے صغیرہ یا کبیرہ ہونے میں اور کسی عقیدہ و عمل کے بدعت ہونے میں عرف کا کوئی دخل نہیں ہے  اس لئے فسق کی تعریف زمانے کے عرف اور اخلاقی حالات پر موقوف نہیں ہے ۔
البتہ عدل کی تعریف میں ایک لفظ "مروءۃ” جس کے بارے میں عرف کے ذریعے فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ کونسا عمل موجودہ حالات میں وقار کے خلاف ہے اور گھٹیا حرکت ہے اور کونسا عمل ایسا نہیں ہے ۔چونکہ گواہی کے معاملے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس میں ترک معصیت کے ساتھ ایسے امور سے بھی بچنا ہوتا جس سے  اعتبار اٹھ جاتا ہے اس لئے اس میں اعتماد کو بحال رکھنے کے لئے کچھ زائد شرطیں لگائی گئی ہیں ۔
نیز اگر گواہ عادل ہوں تو قاضی کو ان کی گواہی کے مطابق فیصلہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اگر گواہ عادل نہ ہوں تو اس کے لئے فیصلہ کرنا ضروری نہیں ہے البتہ اگر اس کے خیال میں غیر عادل ہونے کے باوجود گواہوں کے سچ بولنے کا ظن غالب ہو تو وہ اس پر فیصلہ کرسکتا ہے گویا کہ عدل ہونے کی شرط وجوب کے لئے ہے جواز کے لئے نہیں.لیکن گواہی کے قبول کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ فاسق کو عادل مان لیا گیا یا حالات و زمانہ کی تبدیلی کی وجہ سے عدل و فسق کی تعریف میں کچھ تغیر واقع ہوگیا (8) چنانچہ قران حکیم میں ہے :
یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا  اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا  اَنۡ  تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ  فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ  نٰدِمِیۡنَ .
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو،  کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔(سورہ الحجرات : 6)
علامہ آلوسی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اس آیت سے اس بات پر استدلال گیا ہے کہ فاسق شہادت کا اہل ہے اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہو تو تو چھان بین اور تحقیق کے حکم کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ غلام کسی معاملے میں گواہی دے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور اس کی چھان بین نہیں کی جائے گی ۔اور امام شافعی کہتے ہیں کہ فاسق شہادت کا اہل نہیں ہے ۔(9)
چونکہ فاسق شہادت کا اہل ہے البتہ فسق کی وجہ سے جھوٹ بولنے کا امکان ہے اس لئے اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی کہ وہ دینی معاملات میں لاپرواہی اور دل میں عظمت الٰہی کی کمی اسے جھوٹ پر آمادہ کرسکتی ہے لیکن احوال و قرائن سے معلوم ہو کہ وہ گواہی میں سچا ہے تو اس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے چنانچہ امام ابویوسف کہتے ہیں:
ان الفاسق اذا كان وجيها في الناس ذا مروة تقبل شهادته لانه لا يستاجر لوجاهته ويمتنع عن الكذب لمروته.
فاسق شخص جب لوگوں میں ذی وجاہت اور صاحب وقار ہو تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اس لیے کہ   وجاہت کی وجہ سے اسے خریدا نہیں جاسکتا ہے اور  وقار کی باعث جھوٹ بولنے سے باز رہے گا۔(الهدايه مع فتح القدير 11/6.ط،دار عالم الكتب 2003ء)
اور قاضی ثنا اللہ پانی پتی کہتے ہیں:
بلکہ ہمارے زمانے میں فاسق اگر صاحب وجاہت اور باوقار ہو اور ظن غالب ہو کہ وہ گواہی میں جھوٹ نہیں بولتا ہے یا قرائن کے ذریعے اس کی سچائی معلوم ہوجائے تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی ۔(10)
اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر قبول شہادت کے لئے بھی عادل ہونے کی شرط لگادی جائے تو داد رسی اور انصاف تک رسائی نہیں ہوپائیگی اور صاحب حق اپنے حق سے محروم رہ جائے گا کیونکہ ہر طرف فسق وفجور کا غلبہ ہے چنانچہ علامہ طرابلسی لکھتے ہیں کہ علامہ قرافی کہتے ہیں کہ علماء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ اگر کسی جگہ سب لوگ غیر عادل ہوں تو ہم صلاح کے اعتبار ان میں سب سے بہتر اور فسق و فجور کے اعتبار سےان میں  سے کم تر کو ان پر گواہ بنائیں گے اور قاضی وغیرہ کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوگا تاکہ مصلحت ضائع نہ ہو ۔
وہ کہتے ہیں کہ میرے خیال میں کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کریگا اس لئے کہ کسی کام کا مکلف بنانے کے لئے اس کا ممکن ہونا شرط ہے اور یہ سب ضرورت و مجبوری کے احکام ہیں تاکہ اموال برباد اور حقوق ضائع نہ ہوں ۔
اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ دوچار کو چھوڑ کر اگر سب فاسق و فاجر ہوں تو آپس میں ان کی گواہی قبول کی جائے گی اور ان فاسقوں میں جو بہتر سے بہتر ہے اس کی گواہی پر فیصلہ کیا جائے گا ۔یہی درست ہے اور اسی پر عمل ہے گرچہ زبانی طور پر بہت سے فقہاء اس کا انکار کرتے ہیں ۔۔۔۔اور جب کسی فاسق کے سچ بولنے کا ظن غالب ہوجائے تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اور اس پر فیصلہ کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ نے فاسق کی خبر کو رد کرنے کا حکم نہیں دیا ہے لہذا مطلقا اسے رد کرنا درست نہیں ہے بلکہ اس کی چھان بین کی جائے گی یہاں تک کہ سچ اور جھوٹ واضح ہوجائے،۔۔۔۔(بحوث فی قضایا فقهيه معاصره 218/2.ط دار القلم دمشق 2020ء)

فاسق کی خبر :

خبر کا تعلق روایات سے ہوگا یا دیانات و معاملات سے ۔
1-اگر خبر کا تعلق حدیث کی روایت سے ہے تو اس کے لیے راوی کا عادل ہونا شرط ہے اس لیے فاسق کی روایت غیر معتبر ہے اور امام کرخی کا کہنا ہے کہ جن روایات میں عذاب و سزا کا ذکر ہو تو ان کے لیے عدالت کے ساتھ تواتر شرط ہے.
2-دیانات یعنی اللہ کے حقوق سے متعلق جو احکام ہوں ان کے بارے میں خبر دینے والے کا  مسلمان اور عادل ہونا شرط ہے جیسے کہ پانی کی پاکی و ناپاکی کے متعلق کوئی خبر دیتا ہے اور وہ مسلمان و عادل ہے تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور اگر فاسق ہو تو غور و فکر کے بعد رجحان قلب اور ظن غالب پر عمل کیا جائے گا اور حلال و حرام سے متعلق مسائل بھی دیانات میں شامل ہیں .(الحل والحرمۃ من الدیانات ۔البحر الرائق187/8)
دیانات کی بعض شکلیں معاملات کے ضمن میں ہوتی ہیں جیسے کہ کسی کافر یا فاسق نوکر کو گوشت لانے کے لیے بھیجا جائے اور وہ آکر کہے کہ میں نے اسے مسلمان سے خریدا ہے تو اس کی بات پر اعتبار کر کے اس کا کھانا درست ہے اس مثال میں خرید و فروخت ایک معاملہ ہے لیکن اس کی خبر کے ذریعے گوشت کا حلال ہونا بھی معلوم ہو رہا ہے اس اعتبار سے ضمنی طور پر اس میں دیانت کا پہلو شامل ہے لیکن اس طرح کے مسائل کو فقہاء معاملات ہی کے حکم میں رکھتے ہیں اور اس میں کافر اور فاسق کے خبر کا اعتبار کر لیا جاتا ہے۔
3-معاملات:
معاملات کی تین قسمیں ہیں: لازم، غیر لازم اور  لازم و غیر لازم کا مجموعہ.
اگر خبر کی وجہ سے کسی پر کوئی چیز لازم ہو رہی ہو تو خبر دہندہ کا عادل ہونا اور کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے۔
معاملات سے متعلق خبر غیر لازم میں عادل ہونا شرط نہیں ہے لہذا فاسق بلکہ کافر کی خبر کا بھی اعتبار کر لیا جائے گا۔
لازم و غیر لازم کے مجموعے میں نصاب شہادت یا عدالت کا ہونا ضروری ہے۔(دیکھیے: تبین الحقائق29/7. رد المحتار497/9)

چاند کی خبر :

چاند کی خبر کا تعلق دیانات سے ہے اور گزر چکا ہے کہ دیانات میں فاسق کی خبر غیر معتبر ہے ۔چاہے رمضان کا چاند ہو یا دوسرے مہینوں کا ہر ایک  کے ثبوت کے لئے خبر دینے والے کا عادل ہونا شرط ہے چنانچہ حدیث میں ہے:
فان شهد ذوا عدل فصوموا وافطروا وانسكوا
اگر دو عادل شخص گواہی دیں تو روزہ رکھو، عید مناؤ اور قربانی کرو۔(السنن للدارقطني:2193صحيح لغيره)
البتہ اگر حالات و قرائن کی بنیاد پر قاضی کو ظن غالب حاصل ہوجائے کہ غیر عادل شخص سچ بول رہا ہے تو وہ اس کی خبر پر رویت ہلال کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔
مفتی شفیع صاحب عثمانی رویت ہلال کے مسئے میں لکھتے ہیں:
پانچویں شرط :شہادت کی سب سے اہم شرط ہے جو ہر قسم کی شہادت میں ضروری سمجھی جاتی ہے وہ شاہد کا عدل ہونا ہے جو بنص قران ثابت ہے۔واشهدوا ذوي عدل منكم۔
اور لفظ عدل ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کی تعریف یہ ہے:
وہ مسلمان جو کبیرہ گناہوں سے مجتنب ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرے اور اس کے اعمال صالحہ اعمال فاسدہ پر اور راستکاری خطا کاری پہ غالب ہو (ہدایہ, عالمگیری وغیرہ)
اس کے مقابل جو شخص کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہے یا صغیرہ گناہوں کا عادی ہے اور اس کے برے اعمال اچھے اعمال پہ غالب ہیں وہ اصطلاح شرح میں فاسق کہلاتا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ شاہد عدل ہونا چاہیے فاسق نہ ہو۔
تنبیہ ضروری:
مگر باتفاق فقہاء اس کا مطلب یہ ہے کہ فاسق کی شہادت قبول کرنا اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا قاضی کے ذمے واجب نہیں لیکن اگر قاضی کو قرائن کے ذریعے معلوم ہو جائے کہ یہ جھوٹ نہیں بولتا اس بنا پر وہ فاسق کی شہادت پر کوئی فیصلہ کر دے تو یہ فیصلہ صحیح اور نافذ ہے (ہدایہ ،شرح وقایہ، در مختار، شامی ،عالمگیری وغیرہ)
اور جب سے دنیا میں فسق کی کثرت ہوئی اور عام معاملات کی شہادت میں ایسے لوگ آنے لگے جو شرعی اصطلاح میں فاسق ہیں تو لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور مقدمات کے فیصلے کے لیے حضرات فقہاء نے یہ صورت اختیار کی ہے کہ جس فاسق کے معاملے میں قرائن اور حالات سے اس کا اطمینان ہو جائے کہ یہ جھوٹ نہیں بولتا تو اس کی شہادت قبول کر کے اس پر مقدمات کے فیصلے کریں۔ البتہ ایسے لوگوں میں سے اس کا انتخاب کریں جو دوسروں کی نسبت زیادہ صلاحیت رکھتا ہو مثلا نماز روزہ کا پابند اور عام احکام شرعیہ کا احترام کرتا ہو۔
فقہ کی مستند اور مشہور کتاب معین الحکام میں اس بحث کو ایک مستقل باب میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ قرار دی ہے کہ حق تعالی نے فاسق کی شہادت کو رد کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس کی تحقیق کر لو۔اذا جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا.
جس کا مطلب یہی ہے کہ تحقیق سے اس کا سچا ہونا ثابت ہو جائے تو قبول کر لو ورنہ رد کر دو. تو جب حالات کا جائزہ لے کر قاضی کو اس کے سچا ہونے کا گمان غالب ہو جائے تو وہ اس کی شہادت قبول کر سکتا ہے. اور اس زمانے میں جب کہ فسق کی بہت سی صورتیں مثلا داڑھی منڈانا وغیرہ ایسی عام ہو گئی کہ ان کی وجہ سے مطلقا شہادت کو رد کر دیا جائے تو بہت سے معاملات کا ثبوت کسی طرح بہم نہ پہنچے گا فقہاء کے اس مسلک کے سوا کوئی چارہ نہیں اسی لیے معین الحکام میں یہ تحقیق نقل کرنے کے بعد لکھا گیا ہے:
هذا هو الصواب الذي عليه العمل.(معین الحکام/145)
یعنی یہی صحیح ہے جس پر سب قضاۃ کا عمل ہے.(جواہر الفقہ 474/3)

دینی مناصب کے لئے فاسق کا انتخاب:

فاسق کی اذان مکروہ ہے کیونکہ  حدیث میں ہے:
الامام ضامن والمؤذن مؤتمن.
امام ذمہ دار ہے اور موذن پر اعتماد کیا گیا ہے‌۔(ابوداؤد:517)
اور فاسق قابل اعتماد نہیں ہوتا ہے۔
نیز ایک دوسری حدیث میں ہے:
ليوذن خياركم وليومكم قراءكم.
تم میں سب سے اچھے لوگ اذان دیں اور تم میں سے زیادہ قرآن پڑھنے والے امامت کریں۔(ابوداؤد :590)
لیکن اس کے باوجود اگر فاسق اذان دے دے تو جمہور کے نزدیک اس کا اعتبار کیا جائے گا۔
نماز کی امامت ایک بہت اہم مرتبہ ہے اور حدیث میں  اس منصب پر ایسے لوگوں کو فائز کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو دینداری اور پرہیزگاری میں اعلی مقام پر ہوں۔
اور علامہ سرخسی کہتے ہیں مقام امامت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے امامت کی ہے لہذا امامت کے لیے اسے اختیار کرنا چاہیے جو اخلاق و کردار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہو اور اسی کی بنیاد پہ حضرت ابوبکر کو خلیفہ منتخب کیا گیا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تمہارے دین کے لیے منتخب کیا ہے تو وہ تمہاری دنیا کے لیے بھی منتخب کردہ  ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کے لیے اسی کو منتخب کیا ہے جو لوگوں میں سب سے افضل ہے۔ (المبسوط40/1)
اس لیے تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ فاسق کی امامت مکروہ ہے البتہ اگر وہ امام بن جائے تو اس کی اقتدا میں ادا کردہ نماز درست ہے جمہور اسی کے قائل ہیں۔
قضا اور فیصلے کی ذمہ داری بہت ہی اہم اور نازک ذمہ داری ہے علامہ سرخسی کہتے ہیں کہ قاضیوں کا کام دین کے اہم امور سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس پر اسی کو منتخب کرنا چاہیے جس کے بارے میں معلوم ہو وہ اس کے لائق اور اس امانت کو ادا کرنے والا ہے اور اس لیے بھی کہ جس کی امانت و دیانت معلوم نہ ہو یا جو امانت کی ادائیگی سے عاجز ہو اسے مال کا امین بنانے میں اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے تو جب مال کا یہ معاملہ ہے تو دینی معاملے میں بدرجہ اولی اس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ (المبسوط 106/6)
اور علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق علماء اہل مدینہ اور دوسرے لوگوں کے نزدیک اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قاضی اسی کو بنانا مناسب ہے جس کی دینداری اور نیکی پر اعتماد ہو (الکافی /497)
لیکن اس کے باوجود اگر فاسق کو قاضی بنا دیا گیا ہے تو اس کا قاضی بننا صحیح ہے اور اس کا فیصلہ نافذ ہوگا حنفیہ اور بعض مالکیہ اسی کے قائل ہیں۔
اور اگر منصب قضا کو سنبھالنے کے لیے کوئی دیندار موجود نہ ہو تو مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ سب کہتے ہیں کہ غیر دینداروں میں سے کم تر فاسق کو ان پر قاضی بنا دیا جائے گا تاکہ نظم و ضبط برقرار رہ سکے اور دینی و دنیاوی مصلحت کا ضیاع لازم نہ ائے۔
اسی طرح سے وقف کے متولی کو بھی عادل اور دین دار ہونا چاہیے لیکن اگر وہ فسق کا مرتکب ہو جائے تو وہ معزول نہیں سمجھا جائے گا۔
ان تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ اجتماعی ذمہ داریوں پر اور دینی اور مذہبی تنظیموں اور اداروں کے انتظام و انصرام کے لیے دیندار اور پرہیزگار افراد کا  انتخاب ضروری ہے اور غیر دیندار افراد کے انتخاب سے جہاں تک ہو سکے احتراز لازم ہے لیکن اگر ان اوصاف کے حامل اشخاص موجود نہ ہوں یا موجود ہوں لیکن کوئی شخص اپنی دنیاوی وجاہت کی بنیاد پر ذمہ دار بن جاتا ہو یا بنا دیا جاتا ہو اور اس کو علیحدہ کرنے میں ضرر و فساد اور انتشار و افتراق کا اندیشہ ہو تو جائز فیصلوں میں اس کی اطاعت ضروری ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا، وَإِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ ".
بات سنو اور اطاعت کرو گرچہ تم پر کوئی حبشی غلام کو حاکم بنادیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو ۔(صحیح بخاري :7142.)
اور حافظ ابن حجر عسقلانی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
یہ تفصیل اس وقت ہے جب کہ کسی کو منتخب کرنے کی آزادی ہو لیکن اگر کوئی غلام طاقت کے زور پر حکومت حاصل کرلے تو فتنہ کی آگ کو بجھانے کے لئے اس کی اطاعت واجب ہوگی جب تک کہ وہ کسی معصیت کا حکم نہ دے ۔(11)

اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
” السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ ".
مسلمان کے لئے پسند و ناپسند ہر معاملے میں حاکم کی بات سننا اور ماننا ہے جب تک کہ وہ گناہ کا حکم نہ دے اور اگر معصیت کا حکم دیتا ہے تو نہ اس کی بات سنی جائے گی اور نہ اس پر عمل کیا جائے گا ۔( صحیح بخاري: 7144)
چنانچہ صحابہ کرام کا یہی طریقہ رہا وہ لوگ ظالم حکمرانوں کی اقتدا میں نماز پڑھتے رہے ،ان کی معیت میں جہاد کرتے رہے اور مقدمات کا فیصلہ کرانے کے لیے ان کے پاس جاتے ۔اور ان کے فیصلوں کی پابندی کیا کرتے تھے۔اس لئے کہ نظم و ضبط کو قائم اور اجتماعیت کو باقی رکھنا اور افتراق و انتشار سے بچنا ضروری ہے ۔

داڑھی کا مسئلہ:

امام ابو حنیفہ ،مالک اور احمد بن حنبل کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اسے مونڈنا حرام ہے متاخرین شافعیہ میں سے اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے اس کے برعکس متقدمین شافعیہ کے نزدیک داڑھی رکھنا سنت اور اسے مونڈنا مکروہ تنزیہی ہے بعض مالکیہ بھی اسی کے قائل ہیں ( 12)
جو لوگ اسے واجب کہتے ہیں ان کے دلائل بہت مضبوط اور واضح ہیں کہ حدیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور امر وجوب کے لئے ہوتا ہے الا یہ کہ استحباب و اباحت کا کوئی قرینہ اور دلیل موجود ہو نیز بڑھانے کے حکم کے ساتھ مشرکوں کی مخالفت کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی مخالفت کرنا اور مشابہت سے بچنا بھی ضروری ہے اور اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے اور اللہ کی خلقت میں تبدیلی ہے جو  شیطانی بہکاوے کا نتیجہ ہے ۔
جو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ داڑھی سے متعلق احادیث میں امر کا لفظ اور غیر مسلموں کی مخالفت کرنے اور مشابہت سے بچنے کا حکم وجوب پر نہیں بلکہ استحباب پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس طرح کی متعدد احادیث میں بہ اتفاق استحباب یا اباحت مراد ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
إِنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى لَا يَصْبُغُونَ فَخَالِفُوهُمْ ".
یہود و نصارٰی خضاب نہیں لگاتے لہذا ان کی مخالفت کرو۔(بخاري 3462مسلم2103.)
اور حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” غَيِّرُوا الشَّيْبَ، وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ ".
سفیدی کو تبدیل کرو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو ۔( ترمذي 1752.نسائي5073)
ان احادیث میں خطاب لگانے کے لئے امر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے نیز یہود و نصارٰی کی مخالفت کرنے اور ان کے ساتھ مشابہت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔مگر اس معاملے سب لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خضاب لگانا محض مستحب ہے اور واجب و ضروری نہیں ۔
اسی طرح سے مونچھ کو بالکل پست کرنے کا حکم دیا گیا ہے :
خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ "۔
مشرکوں کی مخالفت کرو اور داڑھی بھر پور رکھو اور مونچھ کو بالکل پست کرو۔(بخاري 5892مسلم259).
حضرت عبداللہ بن عمر سے منقول ہے :
ذكر رسول الله المجوس فقال انهم يوفون سبالهم ويحلقون لحاهم فخالفوهم فكان ابن عمر يستعرض سبلته فجزها.
رسول ﷲ ﷺ نے مجوس کا تذکرہ کیا اور فرمایا:وہ لوگ مونچھ کے کنارے کو بڑھاتے ہیں اور داڑھی مونڈتے ہیں لہذا ان کی مخالفت کرو ۔حضرت عبداللہ بن عمر پہلے مونچھ کے کنارے کو دراز رکھتے تھے لیکن اس حدیث کے سننے کے بعد اسے کاٹ دیا ۔
(السنن الكبرى للبيهقي151/1 .صحيح ابن حبان290/12)
اس کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے  ثابت ہے کہ وہ اپنی مونچھ کے  کنارے کو دراز رکھتے تھے .
حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
صلوا في نعالِكمْ ولا تشبهُوا باليهودِ.
چپل میں نماز پڑھو اور یہودیوں کے ساتھ مشابہت اختیار نہ کرو۔(الجامع الصغير :5004) • صحيح.
لیکن کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے کہ جوتا چپل پہن کا نماز پڑھنا واجب یا مستحب ہے ۔
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن میں کسی کام کے کرنے اور غیر مسلموں کی مخالفت کرنے اور ان کے ساتھ مشابہت سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن وہاں استحباب مراد ہے نہ کہ وجوب۔(دیکھئے : افادة ذوي الافهام بان حلق اللحية مكروه وليس بحرام لعبد العزيز ابن صديق الغماري)
اس اعتبار سے داڑھی مونڈنے اور ایک متعین مقدار میں رکھنے کا مسئلہ اختلافی  اور اجتہادی ہے۔لھذا جو لوگ اس کے وجوب کے قائل ہیں ان کے مقلدین و متبعین کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا اور منڈانے یا متعین مقدار میں کمی کرنے کی وجہ سے ان پر فسق کا اطلاق ہوگا اور خواہش نفس کی بنیاد پر اور آسانی کے پیش نظر دوسرے ائمہ کے نقطہ نظر کو اختیار کرنا غلط ہوگا ۔(13)کہ یہ درحقیقت  نفس کی پیروی اور دین کے ساتھ کھلواڑ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے :
یٰدَاوٗدُ  اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ  لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا یَوۡمَ الۡحِسَابِ  .
اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہذا تم لوگوں کے درمیان برحق فیصلے کرو، اور نفسانی خواہش کے پیچھے نہ چلو، ورنہ وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔ یقین رکھو کہ جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے، کیونکہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا تھا۔(سورہ ص :26)
اس طرح کے لوگ فاسد مقصد اور خود غرضی و نفس پرستی میں کوئی راۓ اختیار کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے قرآن وحدیث میں دلیل تلاش کرتے ہیں اور اگر کوئی دلیل مل بھی جائے تو وہ درحقیقت دلیل کی پیروی نہیں بلکہ خواہش نفس کی اتباع ہوتی ہے وہ اپنی رائے اور خیال کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا متبع نہیں ہوتا ہے۔اور ایسا شخص رفتہ رفتہ وہ دین کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے ۔
اور جو ائمہ داڑھی مونڈنے کو مکروہ اور مقدار کی تحدید کے بغیر اس کے رکھنے کو مستحب قرار دیتے ہیں ان کے مقلدین پر داڑھی مونڈنے اور ہلکی داڑھی رکھنے پر فسق کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے  ۔اس لئے کہ
اجتہادی مسائل میں کسی پر نکیر کرنا  درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کی چیزوں میں اختلاف، حق اور باطل کا اختلاف نہیں ہے بلکہ صواب اور غیر صواب کا اختلاف ہے اور نکیر کسی منکر پر کیاجاتا ہے اور یہ منکر نہیں بلکہ اس میں ہر فریق لائق اجر ہے، اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے :
’’ اذا حکم الحاکم فاصاب فلہ اجران واذا حکم فاخطأ فلہ اجر واحد‘‘(بخاری و مسلم)
’’حاکم اپنے اجتہاد کے ذریعے درست فیصلہ کردے تو اسے دوہرا اجر ہے اور جب فیصلے میں چوک ہوجائے تو اکہرا ثواب ہے ‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد ی مسائل میں غلطی ہوسکتی ہے اور غلطی ہونے کا مطلب ہے کہ اختلاف ہوگا اور غلطی کے باوجود اجر کا ثبوت اس اختلاف کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔
حضرت یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ اہل فتویٰ کے درمیان ہمیشہ بعض چیزوں کے حلال و حرام ہونے میں اختلاف رہا ہے لیکن حلال یا حرام قرار دینے والوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے متعلق یہ خیال نہیں کرتا کہ جسے وہ حلال یا حرام سمجھ رہا ہے دوسرا اس کے برخلاف سمجھنے کی وجہ سے ہلا ک ہوگیا۔ (جامع بیان العلم :۲/۸۸)
اور امام شافعی لکھتے ہیں کہ جو آدمی کسی علمی و فقہی مسئلے میں مجھ سے اختلاف رکھتا ہے  میں اس سے یہ نہیں کہتا کہ وہ اللہ سے توبہ کرے، کیونکہ توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور ایسا آدمی گنہگار نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک یا دو ثواب کا حقدار ہو تا ہے۔ (اختلاف رائے آداب واحکام، از ڈاکٹر سلمان فہد عودہ :۱۰۳)
اور علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جو لوگ اجتہاد کرتے ہیں، اہل سنت ان کو گنہگار نہیں مانتے ہیں، وہ ا س معاملے میں اصول و فروع کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں ہیں، لہٰذا جوشخص اللہ عز و جل کی مراد کو سمجھنے کی پوری کوشش کر ے اور وہ اس کا اہل ہوتو وہ اس اجتہاد کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوگا بلکہ وہ ایک یا دو اجر کا مستحق ہوگا، حاصل یہ ہے کہ اجتہادی مسائل میں کسی کو گنہگار قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ اس کی وجہ سے مسلمانوں سے قطع تعلق صحیح ہوگا۔ (مجموع الفتاویٰ :۱۳/۱۲۵)

فاسق کی توبہ:

حقوق اللہ میں توبہ کی صورت یہ ہے کہ معصیت سے باز آجائے اس پر ندامت و پشیمانی  اور دوبارہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو ارشاد ربانی ہے:
* وَ الَّذِیۡنَ  اِذَا فَعَلُوۡا فَاحِشَۃً اَوۡ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ ذَکَرُوا  اللّٰہَ  فَاسۡتَغۡفَرُوۡا لِذُنُوۡبِہِمۡ ۪ وَ مَنۡ یَّغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ۪۟ وَ لَمۡ یُصِرُّوۡا عَلٰی مَا فَعَلُوۡا وَ ہُمۡ یَعۡلَمُوۡنَ ۔
اور یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کبھی کوئی بےحیائی کا کام کر  بیٹھتے ہیں یا (کسی اور طرح) اپنی جان پر ظلم کر گزرتے ہیں تو فورا اللہ کو یاد کرتے ہیں  اور اس کے نتیجے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہوں کی معافی دے ؟ اور یہ اپنے کیے پر جانتے بوجھتے اصرار نہیں کرتے۔(سورہ آل عمران : 135)
* یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا  اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً  نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ  اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ  مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ  النَّبِیَّ  وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ  نُوۡرُہُمۡ  یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ  یَقُوۡلُوۡنَ  رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ  لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔
اے ایمان والو ! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو، کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہاری برائیاں تم سے جھاڑ دے، اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کردے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اس دن جب اللہ نبی کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں ان کو رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا۔  وہ کہہ رہے ہوں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمارے لیے اس نور کو مکمل کردیجیے اور ہماری مغفرت فرما دیجیے۔ یقینا آپ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔(سورہ التحریم : 8)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے "توبہ نصوح” کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا:
ان يندم العبد على الذنب الذي اصاب فيعتذر الى الله ثم لا يعود اليه كما لا يعود اللبن الى الضرع.
بندے سے جو گناہ سرزد ہوگیا ہے اس پر اسے ندامت ہو اور وہ اللہ سے معذرت طلب کرے اور پھر اس گناہ کی طرف واپس نہ جائے   جیسے کہ دودھ تھن میں واپس نہیں آتا ہے ۔
( الدر المنثور376/6. روح المعاني عن ابن مردويه187/28)
اور حضرت عمر عبداللہ ابن مسعود اور عبداللہ ابن عمر سے "توبہ نصوح” کی تفسیر میں منقول ہے:
ان تتوب من الذنب ثم لا تعود في ابدا او لا تريد ان تعود.
گناہ سے توبہ کرے اور پھر کبھی پلٹ کر اس کا ارتکاب نہ کرے یا دوبارہ کرنے کا ارادہ نہ رکھے ۔(جامع البيان 167/28)
اور اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو مذکورہ تینوں چیزوں کے ساتھ حق کی ادائیگی یا معافی تلافی ضروری ہے چنانچہ حضرت ابوھریرہ سے منقول ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:
” مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهَا ؛ فَإِنَّهُ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُؤْخَذَ لِأَخِيهِ مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ أَخِيهِ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ".
اگر کسی نے اپنے بھائی پر ظلم کیا ہو تو اس سے  آج ہی معافی مانگ لے ۔کیونکہ آخرت میں درھم و دینار نہیں ہوگا بلکہ ظلم کے بدلے اس کی نیکیاں لی جائیں گی ۔اور اگر اس کے پاس نیکی نہ ہوگی تو اس کے بھائی کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائینگے ۔( صحیح بخاری: 6534)
توبہ کے لیے مذکورہ چیزوں کا ہونا کافی ہے یا توبہ کے بعد اصلاح عمل ضروری ہے اس سلسلے میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے حنفیہ مالکیہ اور شافعیہ کے نزدیک عملی طور پر اصلاح حال ضروری ہے حنابلہ کا بھی ایک قول یہی ہے دوسری رائے یہ ہے کہ توبہ کے لیے مذکورہ چیزوں کا پایا جانا کافی ہے اس کے لیے اصلاح عمل شرط نہیں ہے حنابلہ کا یہی مذہب ہے اور حنفیہ و مالکیہ سے ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے ‌۔ (دیکھئے: فتح القدیر 400/7.عقد الجواہر الثمينه151/3. المهذب623/5 المغني194/14)
پہلے نقطہ نظر کے دلائل یہ ہیں:
1- وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ  فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَ اَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ۔
اور تم میں سے جو دو مرد بدکاری کا ارتکاب کریں، ان کو اذیت دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلیں تو ان سے درگزر کرو۔ بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔(سورہ النسآء : 16)
2- اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ  حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ  اللّٰہُ  غَفُوۡرًا  رَّحِیۡمًا ۔
ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔(سورہ الفرقان : 70)
3-وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ  شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً  وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً  اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ.اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا ۚ فَاِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوۡرٌ  رَّحِیۡمٌ .
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ . اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود فاسق ہیں۔
ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ کرلیں، اور (اپنی) اصلاح کرلیں، تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (سورہ النور : 4-5)
مذکورہ ایتوں میں توبہ کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ توبہ کے بعد اصلاح عمل ضروری ہے نیز توبہ کرنے والے کے متعلق اندیشہ ہے کہ محض ظاہری طور پر توبہ کر رہا ہو تاکہ اس کے ذریعے اپنے مقصد کو حاصل کر سکے اور پھر اپنی پچھلی زندگی کی طرف لوٹ جائے۔
اور جو لوگ محض توبہ کو کافی سمجھتے ہیں ان کے دلائل یہ ہیں:
1- وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ  نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ۔
اور جو شخص کوئی برائی کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے، پھر اللہ سے معافی مانگ لے تو وہ اللہ کو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان پائے گا۔(سورہ النسآء : 110)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محض توبہ سے گناہ معاف ہوجاتا ہے ۔اور حدیث میں کہاگیا ہے کہ:
” التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ ".
گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس کا کوئی گناہ نہیں ہے۔(ابن ماجه: 4250.)
اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابوبکرہ سے کہا جو ایک صحابی پر زنا کی تہمت کے گواہ تھے  لیکن اسے ثابت نہیں کر پائے :
تب اقبل شهادتك.
توبہ کرلو تو دوسرے معاملات میں تمہاری گواہی قبول کرلوں گا ۔(رواه البخاري تعليقا بالجزم في كتاب الشهادات. والبيهقي في السنن الكبرى 152/10)
حقیقت یہ ہے کہ توبہ کے لیے اس شرط کا تعلق گواہی سے ہے یعنی کسی معاملے میں فاسق کی گواہی اسی وقت قبول کی جائے گی جبکہ وہ اپنے فسق سے توبہ کر لے اور اس کے عمل سے توبہ کا ظہور ہو کیونکہ گواہی کا معاملہ بڑا نازک ہے اس سے جان و مال اور عزت و آبرو کا فیصلہ متعلق ہے اس لیے اس میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ گواہی کے لیے ہے محض عادل ہونا کافی نہیں بلکہ عادل ہونے کے ساتھ متہم نہ ہونا بھی ضروری ہے اور اسی بنیاد پر باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں قبول نہیں کی جاتی ہے گرچہ وہ عادل ہو کہ اس رشتے کی وجہ سے جھوٹ بولنے کا شبہہ موجود ہے لہذا فاسق اگر توبہ کر لے تو اب وہ گنہگار اور فاسق باقی نہیں رہے گا اور توبہ کی وجہ سے اس کی یہ صفت زائل ہو چکی ہے جیسا کہ مذکورہ آیت و روایت سے معلوم ہوتا ہے البتہ گواہی کے معاملے میں احتیاط کا تقاضا ہے ایک مدت تک عملی طور پہ توبہ کے ظہور کا مشاہدہ کیا جائے۔
رہا حضرت ابوبکرہ کا معاملہ تو وہ نہایت پرہیزگار اور بڑے عبادت گزار تھے ان کی دینداری سب لوگوں کو معلوم تھی البتہ کسی شبہ کی وجہ سے وہ اس معاملے میں ملوث ہو گئے اس لیے انہیں اس معاملے سے توبہ کر لینا کافی تھا۔( فتح القدیر400/7)
عملی صلاح و تقوی کے ظہور کے لیے کوئی مدت متعین نہیں ہے بلکہ اس کی سچائی کا ظن غالب ہو جانا کافی ہے حنفیہ وغیرہ کے ہاں اسی پر فتوی ہے اور بعض حنفیہ وغیرہ نے ایک سال یا چھ ماہ اس کی مدت متعین کی ہے۔(14)

(1)هو الخروج عن الطاعة والتجاوز الحد بالمعصية.(فتح القدير  للشوکانی: 8/4).
(2)الخروج عن طاعة الله عز وجل فقد يقع على من خرج بكفر وعلى من خرج بعصيان۔ (الموسوعه الفقهيه الكويتيه 141/32)
(3)ما احدث على خلاف الحق الملتقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم او عمل او حال بنوع شبهة واستحسان وجعل دينا قويما  وصراطا مستقيما (رد المحتار 261/1)
(4)لا يرد كل مكفر ببدعته لان كل طائفة تدعي ان مخالفيها مبتدعة وقد تبالغ فتكفر مخالفيها فلو اخذ ذلك على الاطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف والمعتمد ان الذي ترد روايته من انكر امرا متواترا من الشرع معلوما من الدين بالضرورة او اعتقد عكسه اما من لم يكن كذلك وانضم الى ذلك ضبطه لما يرويه مع ورعه وتقواه فلا مانع من قبوله. (تدريب الراوي/281.ط ،جمعيه احياء التراث الكويت،2009
(5)اقبل شهادة اهل الاهواء الا الخطابية من الرافضة لانهم يرون الشهادة بالزور لموافقيهم
(الباحث الحثيث 300/1)۔
(6)العدل هوالمسلم البالغ العاقل الذی سلم من اسباب الفسق و خوارم المروءة. الباحث الحثيث280/1. تدريب الراوي/258.)
امام غزالی اس کی حقیقت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
العدالة عبارة عن استقامة السيرة والدين وحاصلها يرجع الى هيئة راسخة في النفس تحمل على ملازمة التقوى والمروءة جميعا حتى تحصل ثقة النفوس بصدقه وذلك انما يتحقق باجتناب الكبائر وبعض الصغائر وبعض المباحات.( اصول الفقه الاسلامي 1195/2 ط،دار الفكر ،دمشق ،1998ء)
علامہ شامی لکھتے ہیں:
العدل من يجتنب الكبائر كلها حتى لو ارتكب كبيره تسقط عدالته وفي الصغائر العبرة للغلبة او الاصرار على الصغيرة فتصير كبيرة.(رد المحتار 8/189)
(7)وهذا يقتضي أن من قال لآخر: أنت فاسق، أو قال له: أنت كافر، فإن كان ليس كما قال كان هو المستحق للوصف المذكور، وأنه إذا كان كما قال لم يرجع عليه شيء؛ لكونه صدق فيما قال، ولكن لا يلزم من كونه لا يصير بذلك فاسقا ولا كافرا أن لا يكون آثما في صورة قوله له: أنت فاسق، بل في هذه الصورة تفصيل: إن قصد نصحه أو نصح غيره ببيان حاله جاز، وإن قصد تعييره وشهرته بذلك ومحض أذاه لم يجز؛ لأنه مأمور بالستر عليه وتعليمه وعظته بالحسنى، فمهما أمكنه ذلك بالرفق لا يجوز له أن يفعله بالعنف؛ لأنه قد يكون سببا لإغرائه وإصراره على ذلك الفعل كما في طبع كثير من الناس من الأنفة، ولا سيما إن كان الآمر دون المأمور في المنزلة، (فتح الباري 84/12).
(8) المراد من يجب قبول شهادته على القاضي ومن لا يجب لا من يصح قبولها ولا من لا يصح لان ممن ذكره ممن لا تقبل الفاسق ولو قضى بشهادته صح (رد المحتار 187/8)
العدالة وهي شرط وجوب القبول على القاضي لا شرط جواز كما سياتي …ويصح قضاء القاضي بشهاده الفاسق ان تحرى عن شهادته وتاكد من صدقه ولا يصح قضاؤه من غير تحر للاجماع عندنا وقال الشافعي لا يصح لان الاصل انه لا يجوز قضاء القاضي بشهادة الفاسق اتفاقا وانما الخلاف في صحته ونفاذه لو قضى بها وقد تحر الصدق فيها (الفقه الحنفي في ثوبه الجديد 150/3-154)
(9)واسْتُدِلَّ بِالآيَةِ عَلى أنَّ الفاسِقَ أهْلٌ لِلشَّهادَةِ وإلّا لَمْ يَكُنْ لِلْأمْرِ بِالتَّبَيُّنِ فائِدَةٌ، ألا تَرى أنَّ العَبْدَ إذا شَهِدَ تُرَدُّ شَهادَتُهُ ولا يُتَثَبَّتُ فِيها خِلافًا لِلشّافِعِيِّ (روح المعاني.)
(10)بل فی زماننا هذا الفاسق اذا كان وجيها ذا مروة يغلب على الظن انه لا يكذب في الشهادة او دلت القرائن على صدقه تقبل شهادته (تفسير مظهري 327/1 سورة البقرة.آيت :282)
(11)وهذا كله إنما هو فيما يكون بطريق الاختيار، وأما لو تغلب عبد حقيقة بطريق الشوكة فإن طاعته تجب إخمادا للفتنة ما لم يأمر بمعصية  (فتح الباري)

(12) الاصح عند الشافعيه ان حلق اللحية مكروه ( الموسوعه الفقهيه الكويتيه226/35)قال الاردبيلي ولا يجوز-يعني التعزير- بحلق اللحية ولا باخذ المال.الانوار لأعمال الابرار 521/2 ط مؤسسة الحلبي1970ء
قال ابن حجر في تحفه المحتاج: ” وظاهره حرمه حلقها وهو انما يجي على حرمته التي عليها اكثر المتاخرين، اما على كراهته التي عليها الشيخان -يعني الامامين الرافعي والنووي- وآخرون فلا وجهه للمنع اذا راه الامام.
قال عياض: يكره حلقها وقصها.( اكمال المعلم بفوائد مسلم 63/2)
(13)امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:
لو ان رجلا عمل بكل رخصة بقول اهل الكوفة في النبيذ واهل المدينة في السماع واهل مكة في المتعة كان فاسقا. (اصول الافتاء وادابه/206)
امام نووي کہتے ہیں:
لو جاز اتباع اي مذهب شاء لافضى ذلك الى  ان يلتقط رخص المذاهب متبعا هواه ويتخير بين التحليل والتحريم والوجوب والجواز وذلك يؤدي الى انحلال ربقة التكليف
المجوع 55/1)
اور علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں:
حيث قال في من نكح عند شهود فسقة ثم طلقها ثلاثا فاراد التخلص من الحرمة المغلظة بان النكاح كان فاسدا في الاصل على مذهب الشافعي فلم يقع الطلاق . وهذا القول يخالف اجماع المسلمين فانهم متفقون على ان من اعتقد حل الشيء كان عليه ان يعتقد ذلك سواء وافق غرضه او خالف ومن اعتقد تحريمه كان عليه ان يعتقد ذلك في الحالين وهؤلاء المطلقون لا يقولون بفساد النكاح بفسق الولي الا عند الطلاق الثلاث لا عند الاستمتاع والتوارث . يكونون في وقت يقلدون من يفسده وفي وقت يقلدون من يصححه بحسب  الغرض والهوى ومثل هذا لا يجوز باتفاق الامة….ونظير هذا ان يعتقد الرجل ثبوت شفعة الجوار اذا كان طالبا لها وعدم ثبوتها اذا كان مشتريا فان هذا لا يجوز بالاجماع وكذا من بنى على صحة ولاية الفاسق في حال نكاحه وبنى على فساد ولايته في حال طلاقه لم يجوز ذلك باجماع المسلمين ولو قال المستفتي المعين انا لم اكن اعرف ذلك وانا من اليوم التزم ذلك لم يكن من ذلك لان ذلك يفتح باب التلاعب بالدين وفتح الذرية الى ان يكون التحليل والتحريم بحسب الاهواء. (مجموع الفتاوى لابن تيميه 101/32)
(14) الفاسق اذا تاب لا تقبل شهادته ما لم يمض عليه زمان يظهر التوبة ثم بعضهم قدره بستة اشهر وبعضهم قدره بسنة والصحيح ان ذلك مفوض الى راي القاضي والمعدل .وفي الخلاصة ولو كان عدلا فشهد بزور ثم تاب فشهد تقبل من غير مدة….. وقدمنا ان الشاهد اذا كان فاسقا سرا لا ينبغي ان يخبر بفسقه كي لا يبطل حق المدعي وصرح به في العمدة ايضا. (رد المحتار. 190/8)
وفي البدائع كل فاسق تاب عن فسقه قبلت توبته وشهادته الا المحدود في القذف والمعروف بالكذب لان من صار معروفا بالكذب واشتهر به لا يعرف صدقه من توبته بخلاف الفاسق اذا تاب عن سائر انواع الفسق فان شهادته تقبل. (البحر الرائق134/7)
8/9/2024ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے