قرآن مجید کا طریقہ تدریس -جائزہ اور تجزیہ ۔

ولی اللہ مجید قاسمی ۔

قرآن مجید ایک زندہ و تابندہ کتاب ہے، دنیا و آخرت کے ہر معاملے میں بہترین رہنما ہے، زندگی کے راز سے پردہ اٹھاتا ہے اور انسان کے حقیقی وجود سے آشنا کرتا ہے، سسکتی اور دم توڑتی ہوئی انسانیت کے لیے زندگی کا پیغام ہے، خوارگی، درماندگی، مصیبت و مشکلات، رنج و الم اور فکر و غم سے نجات کے لیے نسخہ شفا ہے،اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے شاہ کلید ہے، جنہوں نے اسے تھاما اور اس کے مطابق زندگی گزاری وہ دنیا میں سر بلند ہوئے اور آخرت کی جیت بھی یقینی ہے۔(فمن تبع هداي فلا يضل ولا يشقى۔طہ:123)
اور جس نے اس سے منہ موڑا اور پس پشت ڈالا وہ ہر جگہ ناکام و نامراد ہوا.(ومن اعرض عن ذكري فان له معيشة ضنكا. طه:124)
قرآن حکیم کو سیکھنا اور سکھانا پڑھنا اور پڑھانا ہر کام سے اچھا اور ہر عمل سے بہتر ہے۔ جو لوگ اس عمل میں مشغول ہیں وہ یقینی طور پر دنیا کے بہترین لوگ ہیں۔ اس لیے کہ کوئی کام تین باتوں میں سے کسی ایک کی وجہ سے افضل اور اشرف قرار پاتا ہے۔ موضوع اشرف ہو ، مقصد اعلی ہو یا اس کی شدید ضرورت ہو ۔قرآن سیکھنے اور سکھانے میں بیک وقت یہ تینوں چیزیں پائی جاتی ہیں۔ اس کا موضوع اللہ کا کلام ہے جو تمام حکمتوں کا سرچشمہ اور تمام فضائل کا گنجینہ ہے۔ اس میں ماضی کی خبر بھی ہے اور مستقبل کے لیے رہنمائی بھی۔ اس کا مقصد اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا اور حقیقی سعادت سے ہمکنار ہونا ہے۔ ضرورت کی شدت اس قدر ہے کہ تمام شرعی علوم کا انحصار اللہ کی کتاب پر ہے یہ وہ مرکز اور محور ہے جس کے ارد گرد تمام علوم گردش کرتے ہیں (دیکھیے : الاتقان للسیوطی175/2)

قرآن کا حق:

قرآن کی برکت سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ اللہ کی دی ہوئی اس عظیم ترین نعمت کی اہمیت پہچانی جائے اور اس کی قدر کی جائے ۔اس کے جو حقوق ہیں وہ ادا کیے جائیں۔ قرآن حکیم کے جو حقوق ہیں ان میں تجوید، تحفیظ اور تدبر کو خصوصی اور بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن سیکھتے اور سکھاتے ہوئے ان چیزوں کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

1-تجوید:

قرآن مجید کا سب سے پہلا حق اور تعلیم قرآن کی سب سے پہلی سیڑھی اسے صحیح طریقے سے پڑھنا ہے ۔قرآن مجید کی تلاوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شامل ہے اور قرآن کی تلاوت اسے صحیح طور پر پڑھنا ہے جس کے لیے علم تجوید سے واقفیت ضروری ہے؛ کیونکہ صحت کے ساتھ حروف کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں معنی اور مفہوم بدل جاتا ہے اور کبھی مفہوم کی یہ تبدیلی اس درجہ خطرناک ہوتی ہے کہ کفر کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔

2-تحفیظ:

قرآن سے محبت اور اس کی عظمت کا تقاضہ ہے کہ اسے شوق کے ہاتھوں لیا جائے ، ذوق کی نگاہوں سے پڑھا جائے اور دل کے آئینے میں بسایا جائے۔ بہتر ہے کہ ایک صاحب ایمان کے سینے میں پورا قرآن محفوظ ہو اور ایک عالم دین کے لیے کم از کم اتنا یاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ نماز میں مسنون سورتیں پڑھ سکے۔ روز مرہ کی زندگی میں رہنمائی حاصل کر سکے۔مسائل کے استخراج اور استنباط میں مدد اور وعظ و نصیحت کے موقع پر اسے پڑھ سکے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
جس شخص کے سینے میں قرآن کا کوئی حصہ نہ ہو تو وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔
ان الذي ليس في جوفه شيء من القرآن كالبيت الخرب( رواہ الترمذي وقال: حسن صحيح. وقال الحاكم :صحیح الاسناد. الترغيب592/2)

3-تدبر قرآن:

قرآن کے نزول کا مقصد ہے اس سے رہنمائی حاصل کرنا ہے اور یہ قرآن کے مفہوم اور معنی سے آگاہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس لیے ہوئی تھی کہ وہ قرآن کا پڑھنا سکھائیں اور اس کی تعلیمات سے آگاہ کریں ۔صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کے الفاظ بھی سیکھتے تھے، معنی بھی اور عمل بھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں
فتعلمنا القرآن والعمل جميعا.
ہم نے قرآن اور اس پر عمل کو ایک ساتھ سکھا۔
اور جو لوگ قرآن کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ان کے متعلق خود قرآن میں کہا گیا ہے :
افلا يتدبرون القرآن ام على قلوب اقفالها
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں؟(سورہ محمد:24)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام، تابعین عظام اور اس امت کے علماء نے اس زریں سلسلے کو جاری رکھا اور ہر دور میں درس قرآن کی محفل سجتی رہی یہاں تک کہ جب تعلیم و تربیت کے لیے باقاعدہ درسگاہیں بننے لگیں تو ان میں بھی فہم قرآن کو ایک نمایاں مقام دیا گیا۔

مدارس کے نصاب تفسیر پر ایک نظر :

چنانچہ قرآن فہمی کے سلسلے میں آج جو بیداری اور سرگرمی پائی جاتی ہے وہ انھیں مدارس کا دین ہے ۔اور حقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس اسلامی علوم اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کے لیے مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی آہنی دیواروں سے ٹکرا کر ہر مخالفانہ کوشش پاش پاش ہو جاتی ہے۔ حضرت علی میاں ندوی کے الفاظ میں:
"مدرسہ وہ مقام ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے ،جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں ،مدرسہ عالم اسلام کا وہ بجلی گھر ہے جہاں سے انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، یہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں (دعوت اسلامی اور مدارس دینیہ، مجموعہ مقالات./73 )
ہر مدرسے کے نصاب تعلیم میں "علم تفسیر” ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل ہے بلکہ دوسرے تمام علوم کے پڑھنے اور پڑھانے کا مقصد بھی فہم قرآن ہے. نحو و صرف بلاغت بلکہ فقہ اور حدیث کے بھی پڑھانے کا مقصد طالب علم کو فہم قرآن سے قریب کرنا ہے، تمام مدارس کے نصاب میں قرآن کو ایک محور اور مرکز کی حیثیت حاصل ہے؛ اس لیے یہ کہنا کہ "فلاں مدرسے کا نصب العین فہم قرآن ہے اور سب سے پہلے نصاب تعلیم میں قرآن کو مرکزیت کا درجہ دینے کا آوازہ اس نے بلند کیا ہے” ایک بے جا اور تعصب پر مبنی بات ہے .اس لیے مدارس کے نصاب تفسیر کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں صرف یہ دیکھنا ہے کہ یہ مدارس اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہیں ؟اور کہاں کمی محسوس ہو رہی ہے ؟اور حالات کی وجہ سے کس درجہ تبدیلی کی ضرورت ہے؟۔
ہندوستان میں پھیلے ہوئے تمام مدارس کے نصاب تفسیر کا جائزہ لینا ایک دشوار گزار اور دقت طلب کام ہے اس لیے صرف چھ مدرسوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے جو مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت ان مدرسوں کا نیا اور جاری نصاب ہے انھیں کی روشنی میں جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

1-دارالعلوم دیوبند:

تعلیم قرآن کے پہلے مرحلے سے متعلق یہاں ایک مکمل شعبہ موجود ہے جہاں حفص اور قرت سبعہ و عشرہ کا نظم ہے اس کے علاوہ ابتدائی جماعت ہی سے قرآن مجید کو صحت کے ساتھ پڑھنے کا لحاظ رکھا جاتا ہے ،اسی طرح سے عربی درجات میں بھی پہلے اور دوسرے سال اس کے لیے ایک گھنٹی رکھی گئی ہے اور پارہ عم حفظ کرایا جاتا ہے۔ بعد کے درجات میں داخلہ لینے والے طلباء کے لیے خارجی اوقات میں اس کی تعلیم اور امتحان کا نظم ہے۔
عربی سوم سے قرآن مجید کا ترجمہ کرایا جاتا ہے اور تین سالوں میں حل لغات اور نحو و صرف کی ضروری چیزوں کے ساتھ پورے قرآن کا ترجمہ مکمل کر لیا جاتا ہے— عربی ششم میں جلالین اور اصول تفسیر میں الفوز الکبیر پڑھائی جاتی ہے —سال ہفتم اور ہشتم میں تفسیر کی کوئی کتاب درس میں شامل نہیں۔ عربی سوم سے پنجم تک اس کے لیے ایک گھنٹہ اور عربی ششم میں دو گھنٹہ مختص کیا گیا ہے اس نصاب کے مرتبین کو یہ احساس تھا:
"ان کتابوں کی تعلیم سے قرآن فہمی میں اس قدر مناسبت اور استعداد تو ضرور پیدا ہو جاتی تھی کہ طالب علم فراغت تحصیل کے بعد ذاتی مطالعہ سے مزید بصیرت حاصل کر سکتا ہے نیز ضرورت کے وقت آیات قرآنیہ سے فی الجملہ استفادہ کر سکتا ہے مگر چونکہ سب لوگوں کو بالعموم ایسے حالات میسر نہیں آتے کہ وہ زمانہ تحصیل علم کے بعد علوم سے مزاولت باقی رکھ کر اپنے علم و معلومات میں مزید اضافہ کر سکیں اس لیے ضرورت سمجھی گئی کہ زمانہ تعلیم ہی میں تفسیر کے متعلق تفصیلی معلومات کا ذخیرہ طالب علم کے لیے مہیا کر دیا جائے تاکہ بعد میں اگر مطالعہ کتب کا موقع میسر نہ آئے تو محفوظ شدہ معلومات سے اس کی تلافی ہو سکے۔( تاریخ دارالعلوم دیوبند 281/1)
اس کے لیے تکمیل تفسیر کے نام سے ایک سالہ کورس شروع کیا گیا جس میں تفسیر ابن کثیر سورہ صافات سے سورہ ناس تک۔ تفسیر بیضاوی سورہ البقرہ سے الاعراف تک اور مناہل العرفان کے منتخب حصے پڑھائے جاتے ہیں۔
اس نصاب کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں تدریس قرآن کے ایک پہلو یعنی تجوید پر خاطرخواہ توجہ دی گئی ہے لیکن عربی درجات میں تحفیظ کا پہلو قابل توجہ ہے، اسی طرح سے قرآن فہمی اور اس سے مناسبت ،شغف اور لگاؤ کے اعتبار سے بھی بڑی کمی محسوس ہوتی ہے، مذکورہ نصاب کے ذریعے طلبہ میں نہ تو قرآن سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی دور حاضر کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ قرآن پر بعض حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں نہ تو ان سے آگاہی ہوتی ہے اور نہ تسلی بخش جواب دینے کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔ طلبہ قرآنی علوم ،تاریخ قرآن اور اس کے جغرافیہ سے ناواقف ہوتے ہیں۔
تکمیل تفسیر کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ شعبہ ذمہ داران کی بے توجہی اور طلبہ کی عدم دلچسپی کا شکار ہے ۔تکمیل ادب اور افتاء کی طرح اس شعبے میں داخلے کے لیے ان میں شوق اور آمادگی نہیں پائی جاتی اور نہ ہی ان کی کوئی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ شیخ الحدیث کی طرح شیخ التفسیر سے عظمت و احترام وابستہ نہیں جس کی وجہ سے اساتذہ میں بھی اس فن میں مہارت کا شوق پیدا نہیں ہوتا۔
شیخ الہند نے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی پستی اور زوال کے دو اسباب ہیں: کتاب اللہ سے دوری اور آپسی اختلاف۔
اور مالٹا سے واپسی کے بعد انہوں نے آپسی اختلاف دور کرنے اور اللہ کی کتاب سے تعلق جوڑنے کی قابل قدر کوشش کی لیکن افسوس یہ ہے کہ خود اپنوں میں ان کی اس کوشش کو خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء :

دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نصابی چارٹ کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی تجوید کے لیے قابل قدر کوشش کی گئی ہے چنانچہ درجہ پرائمری میں (جو پانچ سال پر مشتمل ہے) صحت مخارج کے ساتھ قرآن پڑھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے. اسی طرح سے ثانوی درجات میں (جس کی مدت چھ سال ہے )بھی تجوید کا نظم ہے. تحفیظ کا پہلو یہاں قدرے غنیمت لیکن ناکافی ہے کہ صرف پرائمری میں جز عم اور انتیسویں پارہ میں سے سورہ نوح سے آخر تک کے حفظ کا اہتمام ہے۔لیکن عربی درجات میں اس کا کوئی نظم نہیں ہے۔
درجات عالیہ کے چار سالوں میں قرآن حکیم کے زیادہ تر حصے کی تفسیر کی جاتی ہے۔ عالیہ سوم میں اصول تفسیر کے لیے الفوز الکبیر داخل ہے اور مراجع میں ابن کثیر، کشاف ،روح المعانی، احکام القران ابن عربی و جصاص کا ذکر ہے۔
پہلے سال میں ہفتے میں چھ، دوسرے میں پانچ، تیسرے میں چھ اور چوتھے سال میں تین گھنٹی تفسیر کے لیے خاص کی گئی ہے۔
فضیلت کے درجات میں جو طلبہ تفسیر میں اختصاص چاہتے ہیں ان کے لیے پہلے سال میں تفسیر کشاف ہفتے میں تین گھنٹی اور علوم القران( مناع قطان) اور الاتقان ہفتے میں نو گھنٹی رکھی گئی ہے .دوسرے سال میں اعجاز القرآن ،اصول تفسیر ومناھجہ اور احکام القرآن پڑھائی جاتی ہے اور ہفتے میں تین گھنٹی اس کے لیے مخصوص ہے۔
قرآن فہمی کی صلاحیت پیدا کرنے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ نصاب بھی دیوبند کی طرح ناکافی ہے۔ عالمیت میں رواں ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ مراجع میں مذکور قدیم اور ضخیم کتابوں سے استفادہ کی کیا شکل ہوگی؟ کیا تھوڑے سے وقت میں ان تفسیروں کا احاطہ کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا ان سے حالات کے تقاضوں کی تکمیل ہو سکتی ہے؟ عام طور پہ طلبہ عالمیت کے بعد دیگر اداروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ عالمیت کے درجات میں اصول تفسیر کے طور پہ صرف الفوز الکبیر پر اکتفا کیا جاتا ہے ان درجات میں علوم قرآن کی کوئی کتاب داخل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جن طلبہ کا مادہ اختصاص تفسیر نہیں ہوتا وہ فضیلت میں بھی ان چیزوں سے محروم رہتے ہیں۔

جامعہ اشرفیہ مبارک پور:

جامعہ اشرفیہ میں بھی تجوید سکھانے کی اچھی اور کامیاب کوشش کی گئی ہے چنانچہ عربی درجات (جس کی مدت آٹھ سال ہے) کے پہلے اور تیسرے اور چوتھے سال میں تجوید کی چار کتابیں درس میں شامل ہیں اور عملی طور پہ اچھے خاصے حصے کی مشق کرائی جاتی ہے لیکن تحفیظ کے اعتبار سے یہاں بھی کمی محسوس ہوتی ہے صرف پارہ عم حفظ کرانے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو لائق توجہ ہے۔
اور تفہیم قرآن کا پہلو اور بھی تشویش ناک ہے آٹھ سالہ طویل مدت میں بھی پورے قرآن کے ترجمہ و تفسیر کا کوئی نظم نہیں۔ چوتھے سال سے درس قران کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور پارہ 28، 29، 30 کے ترجمے پر اکتفا کیا جاتا ہے اور ہفتہ میں صرف دو گھنٹی اس کے لیے خاص کی گئی ہے ۔ پانچویں سال میں سورہ شعراء سے جاثیہ تک کے ترجمہ کا نظم ہے اور تدوین قرآن مطالعہ میں شامل ہے۔ چھٹے سال میں تفسیر کے عنوان سے جلالین درس میں شامل ہے اور سورہ بقرہ سے انعام تک پڑھایا جاتا ہے اور زبدۃ الاتقان سے صفحہ 84 تک کی تعلیم ہوتی ہے۔ ساتویں سال میں تفسیر مدارک سورہ کہف سے فرقان تک اور آٹھویں سال میں تفسیر بیضاوی کا ابتدائی حصہ اور مطالعہ قرآن کے عنوان سے کنز الایمان داخل نصاب ہے ۔اس کی روشنی میں سورہ اعراف سے یونس تک کے مطالعہ کو لازم قرار دیا گیا ہے اور ان تمام درجات میں تفسیر قرآن کے لیے ہفتے میں ایک گھنٹی رکھی گئی ہے۔

جامعہ سلفیہ بنارس:

جامعہ سلفیہ کے نصابی چارٹ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پرائمری ،متوسطہ (مدت تعلیم تین سال) اور ثانویہ (مدت تعلیم دو سال) میں تجوید اور تحفیظ کے پہلو پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے لیکن عربی درجات میں اس کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے چنانچہ عالمیت( مدت تعلیم دو سال) اور فضیلت (مدت تعلیم تین سال) میں حفظ و تجوید کا کوئی نظم نہیں ہے .
متوسطہ سال سوم سے قرآن مجید کے ترجمے کی ابتدا ہوتی ہے اورثانویہ سال دوم یعنی تین سال تک یہ سلسلہ چلتا ہے اس دوران پارہ 29 30 ،سورہ شوری سے تحریم تک، فرقان سے حم سجدہ تک ترجمہ کرایا جاتا ہے اور ہفتے میں چار یا پانچ گھنٹی اس کے لیے مخصوص ہے۔
عالمیت سال اول سے فضیلت سال دوم یعنی چار سال تک تفسیر پڑھائی جاتی ہے اور تفسیر جلالین فاتحہ سے اعراف تک تیسیر العلی القدیر سورہ انفال سے طہ تک۔ فتح القدیر انبیاء سے شعراء تک اور تفسیر بیضاوی، رازی محمد عبدہ اور اضواء البیان کے منتخبات نصاب میں داخل ہیں ۔
عالمیت سال دوم میں اصول تفسیر کے موضوع پر الفوزالکبیر اور فضیلت سال دوم میں علوم القرآن کے موضوع پر فتح المنان اور سال سوم میں التفسیر والمفسرون کے منتخبات داخل نصاب ہیں۔
تفسیر کے لیے چار یا پانچ ۔اصول تفسیر کے لیے ایک۔ علوم القران کے لیے چار ۔تاریخ تفسیر کے لیے پانچ گھنٹی ہفتہ میں رکھی گئی ہے۔
جامعہ سلفیہ میں قرآن کے لیے ایک حد تک بہتر نصاب مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس کے لیے وقت بہت کم رکھا گیا ہے نصاب میں مذکور تفسیری کتابوں کی ضخامت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قدر کم وقت میں یا تو کورس پورا نہیں ہوتا ہوگا یا بہت روا روی میں پڑھایا جاتا ہوگا۔

مدرسۃ الاصلاح سرائمیر :

"یہ مدرسہ قرآن مجید کی محققانہ تعلیم میں پورے ملک میں شہرت رکھتا ہے. یہاں کے نصاب تعلیم میں قرآن مجید کو وہی مقام دیا گیا ہے جس کا وہ بجا طور سے مستحق ہے. یہاں پورے قرآن کی باقاعدہ تعلیم کا اہتمام ہے. دینی علوم میں قرآن ،حدیث اور فقہ کی جو اہمیت ہے اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے لیکن ان تینوں میں جو فرق مراتب ہے کم ہی نصابوں میں اس کی رعایت ملے گی۔ مدرسۃ الاصلاح میں سب سے زیادہ نو پیریڈ قرآن مجید کو چھ پیریڈ احادیث مبارکہ کو اور تین پیریڈ فقہ کو دیے گئے ہیں” (مقالہ عمر اسلم اصلاحی بموقع دو روزہ قومی سیمینار۔ تدریس قرآن کا منہاج ۔جون 2010 )
مدرسۃ الاصلاح سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے عام طور پہ اس طرح کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن نصابی چارٹ پہ نظر ڈال کر دیکھنے سے اس دعوے کی تائید نہیں ہوتی ہے چنانچہ مکتب سے لے کر فضیلت تک کے 15 سالہ دورانیہ میں سے صرف مکتب کے پانچ سال میں تجوید کے ساتھ ناظرہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ عربی درجات میں تجوید سیکھنے کا کوئی نظم نہیں ہے۔ تحفیظ کا حال اس سے بھی برا ہے کہ حفظ کے نام پر ایک سورہ بھی یاد کرانے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحی نے اسی پہلو پر نقد کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا تھا :
ہم لوگ ایسے ادارے کے پڑھے ہوئے ہیں جہاں قرآن مجید عربی میں نہیں اردو میں پڑھا جاتا ہے (ماہنامہ زندگی نو جون 2010 )
اس وقت سے لے کر آج تک اس صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔
عالمیت (مدت تعلیم آٹھ سال) کے چوتھے سال سے تفسیر قرآن کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور چار سالوں میں پورے قرآن کی تفسیر مکمل کر لی جاتی ہے. عالمیت کے ساتویں اور آٹھویں سال میں علامہ فراہی کی دو کتابیں مفردات القرآن اور اسالیب القرآن داخل نصاب ہیں ۔
فضیلت (مدت تعلیم دو سال)سال اول میں علامہ زرکشی کی البرہان اور علامہ فراہی کی التکمیل فی اصول التاویل اور دوسرے سال میں الفوز الکبیر اور علامہ فراہی کتاب دلائل النظام داخل درس ہے۔ ان دونوں سالوں میں تفسیر قرآن داخل نصاب نہیں۔
تفسیر کا طریقہ یہ بیان کیا جاتا ہے:
قرآن پاک کی تعلیم ابتدا میں سادہ یعنی نحو و صرف، ادب ،ترجمہ مطلب اور نظم کی رعایت سے ہوتی ہے پھر بتدریج عمود، نظام و حجج، اسالیب و معانی، اسرار و حقائق ،قانون و حکمت اور تطبیق کتاب و سنت کے ساتھ محققانہ ہوتی ہے۔( مدرسۃ الاصلاح کی ابتدا اور اس کا نصب العین/ 37 )
وہاں کے ذمہ داروں کا احساس ہے کہ مدارس و جامعات میں پورے قرآن مجید کی باقاعدہ تدریس کا اہتمام نہیں .بیشتر مدارس میں قرآن کم، بعض مفسرین کی تفسیریں زیادہ پڑھائی جاتی ہیں۔( کلیدی خطاب دو روزہ قومی سیمینار جون 2010) اس لیے یہاں کسی تفسیری کتاب کا سہارا لیے بغیر براہ راست قرآن فہمی کی صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے .
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اساتذہ شیخ امین احسن اصلاحی صاحب کی تفسیر تدبر قرآن سے پڑھاتے ہیں اور طلبہ اسی سے تیاری کرکے امتحان دیتے ہیں ۔
اور براہ راست قرآن سمجھنے کا مفہوم یہ ہے کہ حدیث ،صحابہ کرام کے آثار اور فہم سلف سے بے نیاز ہو کر لغت، جاہلی شعراء اور نظام قرآن کے ذریعے تفسیر کی جائے چنانچہ علامہ فراہی لکھتے ہیں:
قرآن مجید بالکل قطعی الدلالہ ہے ہر آیت میں مختلف معنی کا احتمال محض ہماری قلت علم اور تدبر کا نتیجہ ہے.( مقدمہ نظام القران /35 )
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن اپنی تفسیر کے لیے ان فروع (یعنی حدیث ،تاریخ گذشتہ انبیاء کے صحیفے) کا محتاج نہیں (حوالہ مذکور/ 40 )
ان کے نزدیک پورے قرآن مجید کی تفسیر خود قرآن کے ذریعے کی جا سکتی ہے بایں طور کی لغت عرب ،قدیم شعرا کے کلام ،سیاق و سباق نظم اور نظائر کے ذریعے اس کے مفہوم کو متعین کیا جائے گا۔
اس طریقے سے کی گئی تفسیر کے نادر و نایاب نمونے دیکھنے ہوں تو نظام القرآن اور تدبر قرآن کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
مدرسۃ الاصلاح علامہ فراہی کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہے اور وہاں طلبہ میں براہ راست غور و فکر کرنے اور عبارتوں سے نتائج اخذ کرنے کا ملکہ پیدا کیا جاتا ہے( دیکھیے مدرسہ اصلاح کا طریقہ تدریس قرآن از عمر اسلم اصلاحی )

جامعۃ الفلاح:

جامعۃ الفلاح میں تعلیم کے پانچ مراحل ہیں: 1-ابتدائی (مدت تعلیم پانچ سال) 2-ثانوی (مدت تعلیم تین سال) ان دو مرحلوں میں تجوید کے ساتھ ناظرہ اور پارہ عم حفظ کرایا جاتا ہے.3- مولوی( مدت تعلیم تین سال) اس میں پہلے اور دوسرے سال میں جز عم کے حفظ کا نظم ہے اور تجوید کے لیے جمال القرآن داخل نصاب ہے اور ہفتہ میں دو یا تین گھنٹی اس کے لیے مخصوص ہے ۔مولوی سال سوم سے فضیلت کے آخری سال تک مختلف سورتوں کو حفظ کرایا جاتا ہے اور امتحان لیا جاتا ہے۔ مولوی سال سوم میں ہفتے میں تین گھنٹی سورہ ملک سے سورہ ناس تک ترجمہ کے لیے خاص کی گئی ہے ۔4- عالمیت( مدت تعلیم دو سال) پہلے سال میں سورہ سبا سے واقعہ تک اور دوسرے سال میں مریم سے احزاب تک کی تفسیر کی جاتی ہے اور ہفتے میں نو گھنٹیاں اس کے لیے رکھی گئی ہیں. اصول تفسیر کے لیے مقدمہ اصول تفسیر ابن تیمیہ اور مقدمہ نظام القران فراہی داخل نصاب ہے .5- فضیلت (مدت تعلیم تین سال) پہلے سال میں سورہ یونس سے کہف تک دوسرے سال میں مائدہ سے توبہ تک اور تیسرے سال میں فاتحہ سے نساء تک کی تفسیر کی جاتی ہے اور ہفتے میں نو گھنٹی اس کے لیے رکھی گئی ہے ۔
ان تین سالوں میں خصوصی مطالعے کے لیے بالترتیب تفسیر ابن کثیر ،فتح القدیر، کشاف، مباحث فی علوم القران مناع قطان ، الفوز الکبیر، مناہل العرفان، دلائل النظام فراہی، الاتقان،اسالیب القرآن فراہی نصاب میں شامل ہے ۔
اس ادارے کے نصاب میں تحفیظ قرآن کے لیے لائق ستائش اور قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ ایک معیاری اور آئیڈیل نصاب مرتب کیا گیا ہے۔ دیگر مدارس کو بھی اس سمت میں پیشرفت کرنا چاہیے۔ تجوید کی حالت یہاں بھی باعث تشویش ہے۔ لیکن مدرسہ اصلاح کے بہ نسبت قدرے غنیمت ہے ۔
قرآن فہمی کے اعتبار سے یہاں کا نصاب قدرے معیاری اور طریقہ تدریس لائق ستائش ہے ،معقول اور منقول دونوں کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے طلبہ میں قرآن کا ذوق اور اس سے شغف پیدا ہوتا ہے ۔البتہ اس اعتبار سے کبھی محسوس ہوتی ہے کہ عالمیت بلکہ فضیلت تک کے نصاب میں پورے قرآن کی تفسیر کا کوئی نظم نہیں ہے حالانکہ عام طور پر طلبہ عالمیت کے بعد عصری جامعات کا رخ کرتے ہیں اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ عالمیت تک لغت اور نحو و صرف کی ضروری چیزوں پر اکتفا کرتے ہوئے ضروری تشریحات کے ساتھ پورے قرآن کی تفسیر کرادی جائے۔

عمومی جائزہ:

تدریس قرآن کے تجویدی پہلو پر دیوبند، ندوہ، سلفیہ اور اشرفیہ میں ایک متوازن نصاب ترتیب دینے کی قابل قدر کوشش کی گئی ہے۔ فلاح میں قدرے اس کی رعایت کی گئی ہے تو اصلاح میں بالکل نہیں ،تحفیظ کے پہلو سے بھی اصلاح بالکل صفر ہے جبکہ فلاح نے اس سلسلے میں اچھی پیش رفت کی ہے۔ دیوبند، ندوہ اور اشرفیہ کے نصاب میں اس سلسلے میں کمی محسوس ہوتی ہے۔ سلفیہ کا نصاب قدرے غنیمت ہے البتہ توجہ کی ضرورت ہے ۔
قرآن فہمی کے لیے اصلاح، فلاح کے علاوہ دیگر مدارس میں نحوی، صرفی اور حل لغات کے ساتھ رواں ترجمہ پر اکتفا کیا جاتا ہےاور اس کا طریقہ محاضراتی ہوتا ہے۔ استاد اپنے مطالعے کا نچوڑ طلبہ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اور طلبہ کسی جلسے کے سامعین کی طرح اسے سن لیتے ہیں۔ تدریس کے عمل میں ان کی عدم شمولیت کی وجہ سے ان میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا نہیں ہوتا ۔
اس طریقے تدریس کے بعد دیوبند میں جلالین کے پڑھانے پر اکتفا کیا جاتا ہے حالانکہ علامہ سیوطی کے بارے میں اہل علم جانتے ہیں کہ وہ زود نویس تھے جس کی وجہ سے ان کی کتابوں میں تحقیق و تدقیق نہیں پائی جاتی۔ جلالین کے بارے میں خود انہوں نے لکھا ہے کہ اسے 40 دن میں مکمل کر لیا گیا ہے ۔ظاہر ہے کہ غور و فکر اور تحقیق کا جو حق ہے وہ ادا نہیں کیا گیا ۔یہی حال ان کے استاذ علامہ محلی کا بھی ہے ۔ان کی تحریروں میں بھی تحقیق کی کمی محسوس ہوتی ہے اور اس کے ساتھ یہ تفسیر حد درجہ مختصر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تفسیر اور قرآن کے الفاظ تقریبا برابر ہیں۔ اس لیے اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے یہ کتاب تفسیر کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔
ندوہ، اشرفیہ اور سلفیہ میں رواں ترجمہ اور ہلکی پھلکی تشریح کے بعد بعض تفسیروں کو پڑھایا یا مطالعہ کرایا جاتا ہے جو قدیم ہونے کی وجہ سے جدید تقاضوں کا کوئی حل پیش نہیں کرتی اور ضخیم ہونے کی وجہ سے پوری کتاب پر نظر نہیں ہو پاتی ۔
فلاح اور اصلاح میں کسی تفسیر کی مدد کے بغیر براہ راست قرآن سمجھنے کی کوشش کا دعوی کیا جاتا ہے اور اس عمل میں طلبہ کو بھی شریک کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مفید اور بہتر طریقہ ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی تفسیر کے مسلمہ اصولوں کی پابندی کی جائے اور استاذ کسی خاص مکتب فکر کا نمائندہ نہ ہو نیز وہ تحقیق اور مطالعہ کا ذوق رکھتا ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو اپنے نقطہ نظر کی کسی تفسیری کتاب کے مطالعے پر اکتفا کرے گا ۔اور انفرادیت اور پسندیدہ شخصیات کی نمائندگی کے شوق میں قرآن کے مسلمہ اصولوں کو نظر انداز کر دینے کی وجہ سے قرآن کو بازیچہ اطفال بنا لینے کا خطرہ ہے۔اس طرح کے لوگوں کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا:
زاجتہاد عالمان کم نظر— اقتدا برفتگاں محفوظ تر .
اجتہاد اندر زمان انحطاط— قوم را برہم ہمی پیچد بساط۔
اصول تفسیر کے لیے عام طور پر مدارس میں الفوز الکبیر داخل ہے یہ کتاب بہت وقیع، قیمتی اور معلوماتی ہے لیکن اصول تفسیر کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کرتی ہے اس لیے ضرورت ہے کہ اصول حدیث اور فقہ کی طرح کوئی جامع کتاب داخل کی جائے۔فہد رومی کی کتاب "اصول التفسیر و مناھجہ” ایک جامع اور مفید کتاب ہے اسے نصاب میں داخل کیا جانا چاہیے۔
اصلاح کے نصاب میں علامہ فراہی کی کتاب مفردات القرآن اور اسالیب القرآن داخل ہے جن کا براہ راست اصول قرآن سے کوئی تعلق نہیں اور ان کی حیثیت کسی مرتب کتاب کی نہیں بلکہ اشارات و افادات کی ہے جن میں بعض اصولوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
دیوبند اور اصلاح میں فضیلت تک۔ ندوہ ، سلفیہ اور فلاح میں عالمیت تک علوم القران پر کوئی کتاب موجود نہیں ہے جو ایک بہت بڑی کمی ہے۔ اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے ۔اسی طرح سے قرآن میں مذکور جگہوں اور ملکوں کے جغرافیے پر بھی کوئی کتاب داخل نصاب نہیں اور نہ ہی درس میں اس کی طرف توجہ دی جاتی ہے حالانکہ قرآن فہمی میں اس سے بڑی مدد مل سکتی ہے اس لیے اس کمی کی تلافی کی ضرورت ہے۔

تجاویز اور مشورے :

قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید کتاب ہے اور زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہے۔ قرآن مجید کی تدریس میں اس کا لحاظ رکھا جانا بہت ضروری ہے ۔الفاظ قرآنی کی تشریح کے ساتھ دور حاضر کے تقاضوں اور چیلنجوں اور مسائل کا حل کرنا ضروری ہے ۔قرآن کا درس اس انداز سے ہونا چاہیے کہ وہ ہماری زندگی میں شامل ہو جائے اور ہر مسئلے کے حل کے لیے اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اس سے ایسا شغف اور شعوری تعلق پیدا ہو جائے کہ ہر قدم اسی کی روشنی میں اٹھے اس کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے:
1-ابتداء ہی سے صحت مخارج اور تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کی تعلیم دی جائے اور ابتدائی ثانوی و عالمیت کے درجات میں اس کے لیے روزانہ ایک گھنٹی خاص کی جائے جس میں تجوید اور وقف کے قواعد پڑھائے جائیں اور حدر کے ساتھ پورا قران پڑھایا جائے۔
2-ابتدائی سے فضیلت تک حفظ قرآن کا اہتمام کیا جائے اور اس کے لیے ایک معیاری نصاب مرتب کیا جائے ۔
3-بچے کے ہاتھ میں مترجم قرآن دیا جائے اور ناظرہ کے ساتھ ترجمہ بھی پڑھایا جائے تاکہ شروع ہی سے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ سمجھ کر پڑھنے کی کتاب ہے.
4-کسی تفسیری کتاب کا سہارا لیے بغیر براہ راست قرآن کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے اور تدریس کے عمل میں طلبہ کو بھی شامل کیا جائے لکچر اور محاضرہ کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔ براہ راست سے مراد یہ ہے کہ تفسیر کی کوئی کتاب پڑھانے کے بجائے قرآن مجید کو خود قرآن حکیم ،صحیح احادیث ،آثار صحابہ و تابعین، لغات عرب ،عقل سلیم اور نظم قرآن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے اور علم اسباب النزول، علم الناسخ و المنسوخ ، علم غریب القران جیسے معاون علوم سے مدد لی جائے۔ اس طرح تفسیر کرتے ہوئے تین سال کی مدت میں پورے قرآن مجید کو پڑھا دیا جائے.
5-فضیلت کے درجات میں مشہور اور مستند تفسیروں کا تنقیدی مطالعہ کرایا جائے.
6-تدریس کا طریقہ تحقیقی ، تطبیقی اور استنباطی ہو.
7-عالمیت کے درجات میں اصول تفسیر سے متعلق جامع کتاب نصاب میں شامل کی جائے اور علوم القرآن کی مختصر اور آسان کتابیں پڑھائی جائیں نیز قرآن میں مذکور جگہوں اور ملکوں کے جغرافیے سے بھی باخبر کیا جائے۔ فضیلت کے درجات میں اصول تفسیر اور علوم قرآن سے متعلق تفصیلی کتابیں نصاب میں داخل کی جائیں.
8-قران مجید کے لیے گھنٹوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ ہفتہ میں کم از کم نو گھنٹی اس کے لیے رکھی جائے اور فضیلت کے آخری سال تک قران مجید کی تفسیر کرائی جائے.
9-علم تفسیر کے لیے ماہرین تیار کیے جائیں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے حدیث کے استاذ سے زیادہ انہیں عزت و احترام دیا جائے
10-استاد و طالب علم دونوں کو قرآنی تعلیمات کا پیکر ہونا چاہیے ۔قرآن پڑھنے کے ساتھ اس کے سانچے میں خود کو ڈھالنا بھی چاہیے کہ یہی اصل مقصد ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو قرآن ان پر لعنت کرتا ہے.
رب قاری يقرا القرآن والقرآن يلعنہ۔( مسند احمد )
شارحین کہتے ہیں کہ اس سے مراد بے عمل قاری یا غلط قرآن پڑھنے والا ہے۔

شائع شدہ:مجلہ قرآن مجید اور عصر حاضر۔ترتیب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔جون 2012ء۔المعہد العالی حیدرآباد کہ زیر اہتمام منعقد ہونے والے بین الاقوامی قرآن مجید سمینار مورخہ چھ تا آٹھ فروری 2011 میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے