تلاوت قرآن کے آداب
(از احیاء علوم الدین)

ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو

اللہ عز وجل کی طرف سے نازل کردہ کتاب ہدایت کا نام قرآن ہے، جو زندگی
کی پر پیچ راہوں میں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اور ظلمت و تاریکی میں شمع فروزاں اور چراغ راہ ہے،جس نے اسے تھاما وہ بامراد اور کامیاب ہوا اور جس نے اس سے منھ موڑا وہ نامراد اور ناکام ہوا۔

قرآن کی فضیلت:

اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو قرآن سیکھے اور
سکھائے (صحیح بخاری)
نیز آپ سے منقول ہے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں کہ جو شخص تلاوت قرآن میں مشغول ہونے کی وجہ سے اپنی ضرورت کی چیزیں مجھ سے نہ مانگ سکے تومیں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا. (ترمذی و قال حسن غریب)
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: کہ اہل قرآن، اللہ والے اور اس کےمخصوص لوگوں میں شامل ہیں۔ (نسائی ، ابن ماجہ، حاکم، سندہ حسن )
حضرت عبد اللہ بن مسعود کہا کرتے تھے کہ جب تمہیں علم کی جستجو ہو تو قرآن پڑھا
کرو؛ کیونکہ اس میں گذشتہ اور آئندہ کا علم ہے، نیز وہ کہتے ہیں کہ ہر شخص اپنے متعلق قرآن سے دریافت کرے، اگر وہ قرآن سے محبت رکھتا ہے، اسے پسند کرتا ہے تو وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اگر اسے قرآن سے بغض ہے تو سمجھ لے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول سے بغض ہے۔

غفلت کے ساتھ تلاوت کی مذمت:

حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں
لیکن قرآن ان پر لعنت کرتا ہے، ابوسلیمان دارانی کہتے ہیں کہ جہنم کا داروغہ بت پرستوں سے پہلے ان لوگوں کو پکڑے گا جو حاملین قرآن ہونے کے باوجود اللہ کی نافرمانی کرتے تھے۔
حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے قرآن کو ایک منزل اور رات کو اس منزل تک پہنچنے کے لئے سواری بنا رکھا ہے، تم اس پر سوار ہو کر منزل تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہو اور جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اسے اپنے رب کی طرف سے نازل کردہ خط اور پیغام سمجھتے تھے ، رات میں اس پر غور کرتے اور دن میں اسے نافذ کرتے ۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ قرآن عمل کرنے کے لئے نازل ہوا تھا لیکن لوگوں نے اس کے پڑھنے ہی کو عمل سمجھ رکھا ہے، وہ شروع سے آخر تک قرآن پڑھ جاتے ہیں،
ایک حرف بھی ان سے نہیں چھوٹتا ، لیکن اس پر عمل کو انھوں نے چھوڑ رکھا ہے۔
اور حضرت ابن عمر اور حضرت جندب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ ہم نے قرآن سے پہلے ایمان کو سیکھا اور اس کے بعد جب اللہ کے رسول ﷺ پر کوئی سورت نازل ہوتی تو اس کے ذریعہ ہم حلال و حرام کو معلوم کرتے اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لوگ ایمان سے پہلے قرآن پڑھ لیتے ہیں اور شروع سے آخر تک قرآن پڑھ جاتے ہیں لیکن انھیں معلوم نہیں ہے کہ اس میں کن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور کس سے روکا گیا ہے؟۔

تلاوت قرآن کے ظاہری آداب:

1- باوضو، ادب وسکون کے ساتھ تلاوت کرنا ۔
رخ قبلہ کی طرف ہو اور سر جھکا ہوا ہو، کسی چیز پر ٹیک نہ لگائے اور متکبروں کی نشست اختیار نہ کرے، سب سے بہتر طریقہ یہ ہےکہ نماز میں قیام کی حالت میں تلاوت کرے، بے وضو اور لیٹ کر تلاوت بھی درست ہے لیکن کن اس کا ثواب کم ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
الذين يذكرون الله قياما و قعودا و على جنوبهم و يتفكرون في خلق السموات والارض.
وہ لوگ جو کھڑے، بیٹھ کر اور لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی تخلیق کے سلسلہ میں غور و فکر کرتے ہیں۔( آل عمران : 191)
اللہ تعالی نے اس آیت میں ہر ایک کی تعریف کی ہے، لیکن سب سے پہلے قیام کو اس کے بعد بیٹھنے اور اسکے بعد لیٹنے کا ذکر ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ قیام کی حالت
میں ذکر کرنا بیٹھ کر اور لیٹ کر ذکر کرنے سے افضل ہے۔

2۔ تین دن سے پہلے مکمل قرآن نہ پڑھنا۔

اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص تین دن سے پہلے پورے قرآن کو پڑھ
لے وہ اسے سمجھ نہیں سکتا ہے۔ (رواہ الترمذی وغیرہ و قال صحیح )
نیز آپ نے عبداللہ بن عمرو کو حکم دیا کہ وہ سات دن میں مکمل قرآن پڑھیں ۔ ( بخاری و مسلم)

3-صحیح طریقے سے حروف کی ادائیگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا۔

اس لئے کہ تلاوت کا مقصد قرآن کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا ہے۔ اور رک رک کر پڑھنااس کے لئے معاون ہے ، حضرت ام سلمہ اللہ کے رسول ﷺ کے قرآن پڑھنے کے سلسلہ میں کہتی ہیں کہ آنحضرت اس طرح سے پڑھتے تھے کہ ایک ایک حرف واضح ہوتا تھا،
ابن عباس کہتے ہیں کہ ٹھہر ٹھہر کہ سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھنا اور اسے سمجھنا، جلدی جلدی پورے قرآن کے پڑھنے سے بہتر ہے۔

4- تلاوت کے وقت رونا اور آنسو بہانا۔

اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ قرآن پڑھو اور رؤو ، اگر رونا نہ آئے تو رونےجیسی شکل بناؤ اور بہ تکلف رونے کی کوشش کرو۔ (ابن ماجہ وسندہ جید )
اس کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن میں وارد عذاب و عقاب کی وعید پر غور کرے اور اپنی
کوتاہیوں کو یاد کرے اور جب اپنی کمی اور کوتاہی پیش نظر ہوگی تو یقینی طور پر دل رنجیدہ ہوگا اور خود بخود آنسو چھلک پڑے گا۔

5- آیتوں کے حقوق کی رعایت کرنا۔

جب سجدہ کی آیت پڑھے تو سجدہ کرے، ثواب اور جنت سے متعلق آیت ہو تو اللہ
سے اسے طلب کرے، عذاب اور جہنم کی آیت سے گذرے تو اس سے پناہ مانگے تسبیح اور
تقدیس کی آیت سامنے آئے تو سبحان اللہ ، اللہ اکبر کہے، دعا اور استغفار کی آیت آئے تو دعا کرے اور مغفرت طلب کرے، اللہ کی رحمت کا ذکر آئے تو اس کا طلب گار بن جائے اور عذاب سے متعلق آیت ہو تو اس سے پناہ چاہے۔

6_نغمگی کے ساتھ تلاوت کرنا۔

اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنی آواز کے ذریعہ قرآن کو سنوار کر کے پڑھو،
نیز آپ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں جو قرآن کو نغمگی کے ساتھ نہ پڑھے ۔
اگر کسی کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو تو بہ آواز بلند تلاوت کرے کم از کم اس قدر تو ضروری ہے کہ وہ خود کو سنا سکے۔

تلاوت قرآن کے باطنی آداب:

1- تلاوت کے وقت عظمت خداوندی کا خیال رہے، یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالی اس سے ہم کلام ہیں، جس طرح سے ناپاکی کی حالت میں قرآن چھونا ممنوع ہے، اسی طرح سے ضروری ہے کہ تلاوت کے وقت دل ہر طرح کی گندگی سے صاف ہو اور اللہ تعالی کی عظمت و ہیبت اور جلال سے پر ہو، حضرت عکرمہ کے متعلق نقل کیا جاتا ہے کہ جب وہ قرآن کھول کر پڑھتے تو بے ہوش ہو جاتے اور ہوش آنے پر ان کے زبان پر یہ کلمات نکلتے:
یہ میرے رب کا کلام ہے ۔ یہ میرے رب کا کلام ہے۔
اور اللہ کی عظمت و ہیبت کے استحضار کے لئے ضروری ہے کہ اس کی صفات اور جلال و افعال پیش نظر رہیں، عرش و کرسی، زمین و آسمان ، جن و بشر، شجر و حجر اور تمام جاندار کےمتعلق سوچے کہ ان سب کا خالق اور رازق ایک ہے، وہ بے انتہا قدرت و طاقت کا مالک ہے۔ یہ سب اس کے سامنے بے دست و پا ہیں ، اگر ان پر احسان کرے تو اس‌ کا فضل ہے اور عذاب میں مبتلا کر دے تو اس کا عدل ہے۔

2_تلاوت کے وقت دل حاضر رہے اور ہمہ تن اس میں مشغول ہو جائے ، ادھر ادھر کے خیالات سے بچے اور خود کلامی میں مصروف نہ رہے۔
دل کی حاضری کا مقصد ہے قرآن میں غور و فکر کرنا اور اسی وجہ سے ٹھہر ٹھہر کے
پڑھنے کو مسنون کہا گیا ہے، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ بے سوچے سمجھے کی عبادت اور تدبر کے بغیر تلاوت میں کوئی اچھائی اور بھلائی نہیں ہے اور اگر تدبر کے لئے کسی آیت کو بار بار پڑھنا پڑھے تو اس میں بھی کوتاہی نہ کرے، اللہ کے رسول ﷺ سے منقول ہے کہ آپ پوری رات صرف اس آیت کی تلاوت کرتے رہے۔
ان تعذبهم فانهم عبادك و ان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم ۔
اگر آپ انھیں عذاب میں مبتلا کر دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔(المائدہ: 118)
اور حضرت تمیم داری سے منقول ہے کہ انھوں نے پوری رات اس آیت کی تلاوت
میں گذار دی:
ام حسب الذين اجترحوا السيئات أم نجعلهم كالذين آمنوا وعملوا الصالحات سواء محياهم و مماتهم ساء ما يحكمون ۔
کیا برے کام کرنے والے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انھیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا مرنا یکساں ہو جائے ، ان کا یہ فیصلہ ایک غلط فیصلہ ہے۔(الجاثية : 21)
3- فہم قرآن کی راہ میں جو چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں ان سے دور رہنا۔
فہم قرآن کے لئے چار چیزیں رکاوٹ بنتی ہیں:
1-حروف کو صحیح طرح سے ادائیگی میں اس درجہ مشغول ہو جانا کہ قرآن میں
تدبر سے توجہ ہٹ جائے ۔ جس شخص کی پوری توجہ ادائیگی پر مبذول رہے گی وہ قرآن کیسے سمجھ سکتا ہے ؟
2_کسی مخصوص مکتب فکر کا مقلد جامد ہونا.
ایسے لوگ بھی قرآن میں غور و فکر نہیں کر سکتے نہیں کیونکہ ان کے سامنے جب کوئی
حقیقت قرآن کی روشنی میں نکھر کر آئیگی تو وہ اسے قبول کرنے اور مان لینے کے بجائے اپنے تقلیدی نقطہ نظر کے مطابق تاویل کے سانچے میں ڈھال لیں گے، اسی پس منظر میں بعض صوفیا سے منقول ہے کہ علم حجاب ہے یعنی عقائد وغیرہ کے سلسلہ میں وہ علم جو محض تقلید پر مبنی‌ ہو وہ حقیقت جاننے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔
3_ کسی گناہ پر اصرار کرنا، غرور اور خود پسندی میں مبتلا ہونا اور خواہش نفس کی
پیروی کرنا، یہ چیزیں دل کے آئینہ پر گرد و غبار ڈال دیتی ہیں جس کی وجہ سے حقانیت نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے، یہ چیزیں دل کے لئے بدترین حجابات میں سے ہیں اور اکثر لوگ اسی حجاب کی وجہ سے قرآن سمجھنے سے محروم رہے۔
4-یہ سمجھنا کی قرآنی کلمات کی تفسیر وہی ہے جو ابن عباس اور مجاہد وغیرہ سے
منقول ہے، اس کے علاوہ جو تفسیر ہے وہ تفسیر بالرائے ہے اور رائے کے ذریعہ تفسیر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ یہ چیز بھی قرآن سمجھنے کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
تلاوت کے وقت یہ ذہن نشین رہنا ضروری ہے کہ قرآنی احکام کا سب سے پہلا مخاطب وہ خود ہے، جب اس کے سامنے کوئی حکم آئے تو یہ سمجھے کہ وہی اس حکم کا پابند ہے.ممانعت کی آیت آئے تو سمجھے کہ سب سے پہلے خود اس کے لئے اس سے دور رہنا ضروری ہے۔
گذشتہ قوموں اور انبیاء کے حالات پڑھے تو یہ نہ سمجھے کہ یہ قصہ و کہانی ہے، جو گزرے ہوئے لوگوں سے متعلق ہے خود اس کی ذات کا اس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ خیال رہے کہ اسکے لئے بھی اس میں عبرت و موعظت کا سامان ہے۔
تلاوت کے وقت وہ خود کو قرآن کے ساتھ چلنے کی کوشش کرے یعنی قرآنی آیات کے اعتبار سے کبھی اس پر غم و فکر چھا جائے، تو کبھی مسرت و خوشی سے اچھل پڑے،
عذاب کی آیتوں کو پڑھتے ہوئے اور جہنم سے گذرتے ہوئے اس پر خوف اور کپکپی طاری
ہو جائے مغفرت اور جنت کی بشارت سن کر خوشی و مسرت سے پھولے نہ سمائے۔اللہ کے اسماء و صفات کے ذکر کے ساتھ اس کی عظمت اور ہیبت وجلال کی وجہ سے سرنگوں ہو جائے حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے مجھ سے کہا کہ قرآن پڑھو، میں نے سورہ نساء شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا :
فكيف اذا جئنا من كل امة بشهيد وجئنا بك على هولاء شهيداً .
اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے؟(سورہ النساء:٦١)
تو میں نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی آنکھوں سے آنسورواں ہیں ۔
اس طرح سے تلاوت کرتے ہوئے وہ محض الفاظ کا ناقل نہیں ہوگا بلکہ قر آن اسکی زندگی میں شامل ہو جائے گا اور اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑے گا، لہذا جب کوئی قرآن کی اس آیت کو پڑھے :
اني اخاف ان عصیت ربی عذاب يوم عظیم ۔
: اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے ایک بڑے ہولناک دن کےعذاب کا خوف ہے۔(سوره یونس:۱۵)
اور اس کے اندر خوف وخشیت پیدانہ ہوتو وہ محض ناقل ہے۔ اس طرح سے جب یہ
آیت اس کے سامنے آئے:
عليك توكلنا و اليك انبنا واليك المصير ۔
ہم نے آپ ہی پر بھروسہ کیا اور آپ ہی کی طرف ہم نے رجوع کیا اور آپ ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے۔(الممتحنہ:٤)
اور خود اس میں توکل اور انابت نہ ہو تو وہ بھی محض ناقل ہے ، اسی طرح سے قرآن
کی دیگر آیتوں کو پڑھتے ہوئے اگر اس میں وہ صفات پیدا نہ ہوں تو اس تلاوت سے زبان
تھکانے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہے اور تلاوت کا یہی وہ طریقہ ہے جس میں تلاوت کرنے والا خود اپنے اوپر لعنت کر رہا ہوتا ہے اور وہ قرآن کی اس آیت مصداق ہے:
ومنهم اميون لا يعلمون الكتاب الا امانی (البقره: ۷۸)
یعنی وہ کتاب سے تلاوت کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کرتے۔
اس لئے کہا گیا ہے کہ جو شخص قرآنی اخلاق سے متصف نہ ہو جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی اسے کہتے ہیں کہ تمہیں میرے کلام سے کیا سروکار ہے جبکہ تم مجھ سے منھ موڑے ہوئے ہو، اگر تم اس طرز عمل سے باز نہ آؤ گے تو میرا کلام پڑھنا چھوڑ دو اور جو شخص بے عملی کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کے پاس حاکم وقت کی طرف سے یہ پیغام آئے کہ فلاں عمارت کی تعمیر کرو اور اسے آباد کرو، وہ اس پیغام کو بار بار پڑھتا ہے اور اسی کے ساتھ اس عمارت کی ویرانی اور بربادی میں اس کے دونوں ہاتھ مشغول ہیں ، وہ اپنے زبان کے ذریعہ اس کی محبت اور اطاعت کا اظہار کر رہا ہے اور عمل کے ذریعہ اس کی بغاوت کر رہا ہے، گویا کہ وہ اس کے پیغام کا مذاق اڑا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اپنی پوری توجہ قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنے پر لگاتے تھے ان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو پورے قرآن کے حافظ ہوں ، مدینہ میں صحابہ کرام کی کل تعداد بیس ہزار تھی ، جن میں مکمل قرآن کے حافظ صرف چھ لوگ تھے، زیادہ تر لوگ ایک یا دو سورتوں کے حافظ تھے اور جو ان میں سورہ بقرہ اور انعام حفظ کر لیتا اس کا شمار علماء میں ہوتا۔
ایک صحابی اللہ کے رسول کے پاس قرآن سیکھنے کے لئے آئے جب وہ قرآن کی اس
آیت پر پہنچے:
فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره.(الزلزلة : ۸،۷)
جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔
تو کہنے لگے بس یہی میرے لئے کافی ہے، اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے متعلق ارشاد فر مایا: یہ شخص یہاں سے فقیہ بن کر واپس ہوا ہے۔
تلاوت کرتے وقت محض زبان کو حرکت دینے کا فائدہ بہت ہی کم ہے بلکہ بے عمل
تلاوت کرنے والا زیادہ مناسب ہے کہ وہ اللہ کے اس قول کا مصداق ہو:
ومن اعرض عن ذكرى فان له معيشة ضنكا و نحشره يوم
القيامة أعمى، قال رب لم حشرتني اعمى وقد كنت بصيراً قال كذالك
اتتك آياتنا فنسيتها وكذالك اليوم تنسى (طه :١٢٤-١٢٦)
اور جو کوئی میرے ذکر سے منھ موڑلے گا تو اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے، وہ کہے گا پروردگار ! آپ نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا، دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، اللہ تعالیٰ کہیں گے کہ دنیا میں تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں اور تو نے اسے بھلا دیا، اس طرح آج تو بھلایا جارہا ہے۔ : یعنی تم نے قرآن کو چھوڑ رکھا تھا تم نے اس میں غور نہیں کیا اور اس پرعمل میں خود کو تھکایا نہیں ، اس لئے کہ کسی معاملہ میں کوتاہی کرنے والے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے اسے بھلا رکھا ہے اور قرآن کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس میں زبان، عقل، دل سب شریک رہیں۔
زبان کا حصہ یہ ہے کہ ترتیل کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرے اور عقل کا حصہ اس کے معانی تک رسائی حاصل کرنا ہے اور دل کا حصہ یہ ہے کہ اس سے عبرت و نصیحت حاصل کرے، پس ضروری ہے کہ زبان سے تلاوت عقل اسکی ترجمانی اور دل اس سے نصیحت حاصل کرے۔
٧-خود کو قرآن کی سطح پر لانے کی کوشش کرےیعنی وہ محسوس کرے کہ وہ خود اللہ تبارک وتعالی سے قرآن سن رہا ہے، قرآن پڑھنے کےتین درجےہیں
١- بندہ یہ محسوس کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہے، اسے دیکھ رہا ہے اور
قرآن خود اس سے سن رہا ہے ۔
٢- دل میں یہ خیال رہے کہ اللہ تبارک و تعالی اسے دیکھ رہے ہیں اور اس پر اپنی مہربانی اور انعام واحسان کی بارش کر رہے ہیں
٣- کلام میں اسے متکلم جلوہ گر نظر آئے اور کلمات میں اس کی صفات کی جھلک
محسوس کرے، اس کیفیت میں اس کی نگاہ نہ خود پر ہوتی ہے نہ اپنی تلاوت پر اور نہ اس کی نوازشوں پر بلکہ اس کی پوری توجہ متکلم پر ہوتی ہے جسے محسوس کر کے وہ ہر چیز سے غافل ہو جاتا ہے۔
٨- اپنی بے بسی اور کوتاہی ہر وقت سامنے، جب ان آیتوں کو پڑھے جس میں اچھے لوگوں کی تعریف کی گئی ہے تو یہ نہ سمجھے کہ میں ان میں شامل ہوں بلکہ اپنی کوتاہی پیش نظر ہے اور اللہ سے دعا کرے کہ اسے بھی ان لوگوں میں شامل کر دے اور جب گنہگاروں اور سیہ کاروں کا تذکرہ آئے تو یہ محسوس کرے کہ وہ بھی ایسا ہی ہے اور اللہ کے عذاب اور پکڑ‌ سے لرزاں اور ترساں رہے.
شائع شدہ مجلہ تعلق بالقرآن اہمیت اور تقاضے۔جامعہ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ ۔اپریل 2011ء

Related Post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے