جوا اور جوا آمیز معاملات۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
جوا کی حقیقت:
جس معاملہ میں دونوں طرف سے مال ہو اور انجام معلوم نہ ہو وہ جوا (قمار) ہے، اسی کو فقہاء کبھی ’’غرر‘‘ اور کبھی ’’خطر‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور ایسی تمام صورتوں کو ’’جوا‘‘ شمار کرتے ہیں ۔ ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:
لا خلاف بین اھل العلم فی تحریم القمار وان المخاطرۃ من القمار(احکام القرآن 388/1)
اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جوا حرام ہے اور "خطر” یہ جوا ہی کی ایک قسم ہے۔
قرآن پا ک میں ’’جوا‘‘ کے لیے ’’میسر‘‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے، یہ لفظ یا تو ’’یسر‘‘ (سہولت و آسانی) سے ماخوذ ہے کیونکہ جوا میں ایک فریق دوسرے کا مال بلامحنت و مشقت آسانی سے حاصل کرلیتاہے ، اس لیے اس معاملہ کو ’’میسر‘‘ کہاگیاہے یا اس کا ماخذ ’’یسار‘‘(مالداری) ہے چونکہ ایک فریق جیتنے کی صورت میں کافی مال و دولت حاصل کرلیتاہے، اس لیے اس کو ’’میسر‘‘کہاگیاہے.(تفسیر کبیر 45/6) یایہ ’’یسر‘‘(تقسیم کرنا ، بانٹنا) سے ماخوذ ہے ، اس صورت میں ’’میسر‘‘ سے مراد وہ اونٹ ہے جو ’’قمار‘‘ کے لیے ذبح کرکے
تقسیم کیاجاتاہے۔(تاج العروس 627/3)
قرآن پاک میں لفظ’’میسر‘‘ اسی آخری معنیٰ میں استعمال کیاگیاہے، میسر کے سلسلہ میں عربوں میں ایک خاص طریقہ رائج تھا، ان کے یہاں دس تیر مختلف ناموں کے رکھے ہوتے تھے ، ان تیروں پر ایک سے سات تک مختلف حصے لکھے ہوئے ہوتے تھے اور تین تیروں پر کوئی حصہ لکھا ہوا نہ ہوتا تھا ، جب کبھی کچھ لوگ مل کر اونٹ ذبح کرتے تو اس کے گوشت کو اٹھائیس حصوں میں بانٹ دیتے تھے اور ان سارے تیروں کو ایک ڈبہ میں رکھ کر خلط کرکے ہر ایک کے نام پر ایک تیر نکالا جاتا، جس شخص کے نام پر جو تیر آتا اس پر لکھا ہوا حصہ اسے مل جاتا اور جس شخص کے نام پر خالی تیر آتا اسے نہ صرف یہ کہ گوشت میں سے کوئی حصہ نہ ملتا بلکہ پورے اونٹ کی قیمت بھی اسی کو ادا کرنی پڑتی، طرفہ تماشا یہ کہ جن لوگوں کو گوشت ملتا تھا وہ اسے اپنے استعمال میں نہ لاتے تھے بلکہ فقراء و مساکین کو کھلا دیتے تھے اور جولوگ ان کے اس عمل میں شریک نہ ہوتے ان کو معاشرہ میں گری ہوئی نظروں سے دیکھاجاتا اور وہ برے القاب سے موسوم کیے جاتے تھے ۔(الکشاف132/1)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ’’میسر‘‘ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خاص قسم کے جوے کا نام ہے مگر شرعاً ’’میسر‘‘ قمار(جوا) کے ہم معنیٰ ہے اور ہر قسم کے جوئے کو شامل ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
المیسر ھو القمار کانوا یتقامرون فی الجاھلیۃ الی مجیء الاسلام فنھاھم اللہ عن ھذہ الاخلاق القبیح۔ (تفسیر منار 56/7) میسر یہ جوا ہے ، زمانہ جاہلیت سے اسلام کے آنے تک لوگ جوا کھیلتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اس بری اور گندی عادت سے لوگوں کو منع کردیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی اسی طرح کی تشریح منقول ہے (تفسیر ابن جریر 358/2) اس کے علاوہ عطاء، ابن سیرین، مجاہد سعید بن المسیب، قتادہ، حسن بصری، طاؤس اور ضحاک وغیرہ کی بھی یہی رائے ہے کہ ہر وہ معاملہ جس میں ہارجیت کی شرط ہو وہ ’’میسر‘‘ ہے جیسے شطرنج، چوسر اور یہاں تک کہ بچوں کا اخروٹ اور لکڑی گٹکوں سے کھیلنا بھی۔(الجامع لاحکام القرآن 36/2)
بنیادی صورتیں:
یوں تو ’’جوا‘‘ کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں لیکن عام طور سے اس وقت جو جوا آمیزمعاملات رائج ہیں ان کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
1-ہر فریق کی طرف سے رقم کی ادائیگی کسی احتمالی واقعہ (چانس) پر موقوف ہو مثلاً زید اور عمر میں دوڑ کا مقابلہ ہو اس شرط پر کہ جو ہار جائے وہ جیتنے والے کو مثلاً دس روپئے اداکرے گا اور اس میں کسی کے لیے بھی رقم کی ادائیگی متعین نہیں ہے بلکہ یہ ادائیگی ایک احتمالی واقعہ ہارجیت پر موقوف ہے ۔
2-ایک فریق کی طرف سے کچھ مخصوص رقم کا ادا کرنا لازمی ہو اور دوسر ی طرف ادائیگی کسی احتمالی واقعہ پر موقوف ہو جیسے لاٹری ہے کہ اس میں ٹکٹ فیس جمع کرنا لازمی ہے ، لیکن اس کے بدلے میں ملنے والی رقم غیریقینی ہے۔
جوا حرام ہے:
عرب شراب اور جوئے کے بہت رسیا تھے، شراب اور جوا ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا ، جوئے اور شراب کو مایۂ عزت و شرافت اور شائستگی کے لوازم میں سمجھا جاتا تھا اور جو لوگ اس سے اجتناب کرتے تھے ، معاشرہ میں ان کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، ان کو گری ہوئی نظر سے دیکھاجاتا اور وہ برے القاب سے یاد کئے جاتے تھے اور لطف یہ کہ وہ جوئے میں ملی ہوئی رقم کو خود پر خرچ کرنے کو باعث عار بھی سمجھتے تھے اور جوا صرف اس لیے کھیلا کرتے تھے کہ اس سے حاصل شدہ رقم کو فقیروں پر خرچ کریں اور مسکینوں کی مدد کریں، وہ جوا ایک کار خیر سمجھ کر کھیلا کرتے تھے ، اس لیے اس کی برائی کے طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا تھا مگر حساس ذہنوں میں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ جس معاملہ میں ایک شخص دوسرے کے مال کو باطل طریقے پر ہڑپ لیتاہے ، جس کے نتیجے میں طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں اور نوبت جنگ و جدال تک جا پہنچتی ہے وہ معاملہ شرعی نقطۂ نظر سے کیونکر درست ہوسکتاہے؟ چنانچہ انھوں نے اپنے اس خیال کو نبی اکرمﷺ کے سامنے پیش کیا اور اس کے متعلق شریعت کا حکم دریافت کیا ، اسی کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی:
یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمھما اکبر من نفعھم (البقرہ :219)
یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق دریافت کررہے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ فائدے بھی ہیں لیکن ان کا گناہ ان کے فائدے سے کہیں بڑھاہوا ہے۔
شراب اور جوئے سے متعلق یہ پہلی آیت ہے چونکہ اسلام ایک دین فطرت ہے، وہ انسانی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہے ، اس لیے اس نے بیک قلم شراب اور جوئے کو صراحتاً حرام قرار نہیں دیا بلکہ تدریجی طور پر آہستہ آہستہ اس کی حرمت کا حکم نازل کیا گیا اور اگر دفعتاً اس کو حرام قرار دیدیا جاتاتو جولوگ اس کے خوگر تھے ممکن ہے کہ ان کو یکلخت اس سے باز آنے میں دقت ہوتی ، لہٰذا پہلے مرحلے میں صرف یہ کہہ کر چھوڑدیاگیا کہ ’’اس کا نقصان اس کے فائدے سے بڑھاہواہے‘‘۔
دین کے معاملہ میں جن کی حس زیادہ تیز تھی وہ اس آیت سے سمجھ گئے کہ اسلام اس اندھیر نگری کو پسند نہیں کرتا ، اس لیے وہ پہلے ہی مرحلہ میں شراب اور جوئے سے احتیاط کرنے لگے تھے مگر جن لوگوں کے پیش نظر ان کے منافع تھے وہ اب بھی اس میں لگے رہے اور اسی صورت حال پر ایک زمانہ گذر گیا۔ جب لوگوں کے دلوں میں اسلام راسخ ہوگیا اور شراب و جوئے کی برائیاں ان کے سامنے واضح ہوگئیں تو ان کا دل خودبخود ان چیزوں سے نفرت کرنے لگا اس وقت سورۃ مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی:
یا ایھا الذین آمنوا انما الخمر و المیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلاۃ فھل انتم منتھون واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واحذروا فان تولیتم فاعلموا انما علی رسولنا البلاغ المبین(مائدہ)
اے ایمان والوں بلاشبہ شراب، جوا، بت پرستی اور پانسے یہ سب بڑی گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں ، لہٰذا ان سے بچو تاکہ تمہیں کامیابی ملے ، شیطان تو بس یہ چاہتاہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں لگاکر تمہارے مابین دشمنی اور کینہ کی راہ ہموار کردے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے غافل کردے ۔ کیا تم ان چیزوں سے رک جاؤگے؟ اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور ان چیزوں سے باز آجاؤ ۔اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس صاف صاف پہنچادینا ہے۔
اس آیت نے جوئے اور شراب کو نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ ان کے بعض مفاسد اور خرابیوں کاذکر کرکے ان کی حرمت کو اور موکد کردیا، امام رازی اور دیگر مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں تقریباً دس طریقوں سے شراب اور جوئے کی حرمت کو موکد کرکے بیان کیاگیاہے:
1-اس آیت کو لفظ ’انما‘ سے شروع کیا گیا جو تاکیدی معنی پر دلالت کرتاہے۔
2-ان چیزوں کو "رجس” کہاگیا ، رجس گندگیوں کے ڈھیر کوکہتے ہیں جس کے نام ہی سے طبع انسانی گھن کرتی ہے۔
3- شراب اور جوئے کے ساتھ بت پرستی کا ذکر کرکے بتلا دیا کہ یہ ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں، اگر بت پرستی اور توہم پرستی اعتقادی خرابیاں ہیں تو شراب اور جوا مالی اور اجتماعی برائیاں ہیں اور یہ تمام چیزیں جاہلیت کی پیداوار ہیں جن کو ختم کرنا مسلمانوں کے فرائض میں داخل ہے۔
4- انھیں شیطانی عمل اور ابلیسی تحریک کا نتیجہ قرار دیا اور جس کام کا محرک شیطان ہو اس میں کسی بھلائی اور نفع کی امید رکھنا بچھو سے ڈنک نہ مارنے کی خواہش رکھنے کے مترادف ہے، اگر بہ ظاہر نفع کا کوئی پہلو نظر بھی آتا ہے تو وہ محض ایک فریب نظر ہے۔
5-ان تمام خرابیوں کو بیان کرکے صراحتاً اس سے اجتناب کاحکم دیاگیا اور ترک کے بجائے اجتناب کا لفظ استعمال کیاگیا جو بتلاتا ہے کہ ان چیزوں کے چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ اس سے فقہاء نے مستنبط کیاہے کہ جوئے کا کھیل دیکھنا بھی حرام ہے۔
6-ان سے بچنے کو نجات کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کاموں میں لگنا دنیا و آخرت میں تباہی اور خسارے کو دعوت دینا ہے۔
7- شیطان ان چیزوں میں لگا کر تمہارے درمیان دشمنی اور انتقام کی آگ بھڑکاتا ہے،اور کینہ پروری کی راہ ہموارکردیتا ہے۔
8-یہ دونوں چیزیں اللہ کے ذکر اور نماز جیسی اہم عبادت سے غافل کردیتی ہے اور جب انسان کے دل میں خدا کی یاد باقی نہیں رہتی تو پھر اس کے اور حیوانوں کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا؛کیونکہ انسان کے دل میں جب اللہ کا خوف ہوتاہے تو وہ کبھی راہ سے بے راہ نہیں ہوتا، اگر کبھی انجانے میں کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو وہ خدا کو یاد کرکے لرز اٹھتا ہے ، اس کے برعکس شراب اور جوئے میں منہمک انسان جو کچھ شیطنت کرتاہے وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔
9- فھل انتم منتھون جوا اور شراب کی خرابیوں کا تذکرہ اوپر سے چلاآرہا ہے اس جملہ نے اسے موکد کرکے شدت سے اس کی حرمت پر مہر ثبت کردی ، گویا کہ یوں کہاگیا کہ شراب اور جوئے کی خرابیاں مختلف پہلوؤں سے تمہارے سامنے آچکی ہیں، ان تمام خرابیوں کے ہوتے ہوئے کیا تم اب بھی اس میں لگے رہوگے یا باز بھی آؤگے؟
مفسرین لکھتے ہیں :آنحضرت ﷺ جب اس فقرہ پر پہنچے تو صحابہ کرام اطاعت شعاری کے جذبہ سے سرشار ہوکر چیخ پڑے انتھیناانتھینا (ہم رک گئے . ہم باز آگئے)
10-اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول…
اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لو اور شراب و جوئے سے بازآجاؤ۔ اس آیت نے شراب اور جوئے کی حرمت پر آخری کیل ٹھونک دی کہ نافرمانی اور سرکشی سے باز آجاؤ ، اب اگر اس تفصیل اور توضیح کے بعد بھی تم نے روگردانی کی تو سمجھ لو کہ ہمارے رسول کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے نازل کردہ حکم کو واضح طور سے لوگوں کے سامنے پیش کردے اور یہ ذمہ داری انھوں نے ادا کردی ہے ، حجت تام ہوچکی اور اتمام حجت کے بعد ہماری پکڑ نہایت سخت ہوتی ہے۔( تفسیر رازی 79/12-80 ، تفسیر منار 43/7-45)
شراب اور جوئے کی حرمت جس شد و مد کے ساتھ قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے شاید ہی کسی دوسرے معاملہ میں اتنی تفصیل اور تاکید کی گئی ہو ، وجہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں کچھ لوگ شراب اور جوئے کے رسیا اور خوگر ہوتے ہیں اور اگر اس قدر سختی اور تفصیل سے بیان نہ کیا جاتا تو بعدمیں آنے والون کے لیے حیلے اور بہانے کی راہیں مل جاتیں،
لوگ مختلف طریقوں سے تاویل کرکے اس کو حلال کرنے کی کوشش کرتے مگر قربان جائیے اس علیم اور خبیر پر کہ نہ صرف اس نے ان دونوں چیزوں کو حرام قرار دیا بلکہ اس کی قباحت و شناعت کو لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح راسخ کردیا کہ لوگ شراب اور جوئے کے نام تک سے نفرت کرنے لگے، شاید ہی مسلم معاشرہ میں شرابی اور جواری سے بدتر کوئی گالی ہو۔ اگر آج شراب پینے والوں کو بھی شرابی اور جوا کھیلنے والوں کو جواری کہہ دیاجائے تو وہ بھی مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ اس کی قباحت اور شفاعت میں مزید سختی احادیث رسول اللہ ﷺ نے پیدا کردی ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من قال لصاحبہ تعال اقامرک فلیتصدق۔ (بخاری 922/2، مسلم 42/2)
اگرکوئی کسی سے صرف یہ کہہ دے کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے چاہیے کہ کچھ صدقہ کرے۔
یعنی صرف جوا کھیلنا ہی حرام نہیں بلکہ جوئے کی طرف بلانا اور جوا کھیلنے کا ارادہ ظاہر کرنا بھی گناہ ہے اور اس گناہ کا کفارہ یہ ہے کہ وہ کچھ صدقہ کرکے خدا سے معافی کا طلب گار ہوگا۔ نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’والدین کا نافرمان، جواری اور ہمیشہ شراب پینے والے کو جنت نصیب نہ ہوگی۔‘‘(مشکاۃ/318)
کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑھ کر خسارے کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ محض چند گھڑی کی عشرت اور گناہ بے لذت کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کی جنت اس کے ہاتھ سے چلی جائے۔
اسی طرح سے آنحضرت ﷺ نے ایسے تمام معاملات اور کاروبار سے منع فرمایا ہے جس میں جوا کا عنصر پایا جاتا ہو۔
معاشی و اخلاقی نقصانات:
اسلام نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اسے یوں ہی حرام قرار نہیں دیا ہے بلکہ اس کے پس منظر میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں اور یہ مصلحتیں کیوں نہ ہو ں گی جب کہ یہ شریعت اس ذات کی طرف سے ہے جو علیم و خبیر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے بندوں پر ماں سے زیادہ شفیق اور مہربان بھی ہے۔
واللہ یعلم المفسد من المصلح ولو شاء اللہ لاعنتکم ان اللہ عزیز حکیم(بقرہ:22)
اللہ تعالیٰ فساد پیداکرنے والوں اور اصلاح کرنے والوں کو بخوبی جانتاہے، اگر اللہ چاہتا تو تم کو پریشانی میں ڈال دیتا ۔ اللہ یقینا زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
اس نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ یا تو سراپا نقصان دہ ہیں یا ان کا نقصان نفع سے بڑھ کر ہے۔لیکن ہمارا علم محدود اور ناقص ہے ، ضروری نہیں کہ ہم مضرتوں اور خرابیوں کو جان سکیں ، ہمارا کام تو صرف ’’سننا اور بجالانا‘‘ہے، مثال کے طور پر خنزیر ہی کو لے لیجئے قرآن نے اس کے گوشت کو حرام قرار دیا اس وقت لوگوں کے سامنے اس کے حرام ہونے کے لیے اس کے سواکوئی اور بات نہ تھی کہ وہ ’’نجس‘‘ اور ناپاک ہے جس کی وجہ سے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے، لیکن طبی تحقیق و تجربہ نے یہ انکشاف کیاکہ سور کا گوشت انسانی صحت کے لیے تباہ کن ہے ، اس میں مہلک جراثیم ہوتے ہیں جو گوشت کے ساتھ جسم انسانی میں منتقل ہوجاتے ہیں اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار بنادیتے ہیں، اس کے گوشت کے استعمال سے غیرت کم ہوجاتی ہے ، جنسی بے اعتدالی اور ہوسناکی پیدا ہوجاتی ہے ، جو اخلاق انسان کے لیے نہایت تباہ کن اثر رکھتی ہے ، نہ معلوم آئندہ کیاکیا انکشافات ہوں، علم و تحقیق کی روشنی جتنی پھیلے گی اور انکشافات کا دائرہ جتنا وسیع ہوگا اسلام کی وہ مصلحتیں اور حکمتیں بھی واضح ہوتی چلی جائیں گی، جو اس کے حلال و حرام کردہ چیزوں میں پنہاں اور پوشیدہ ہیں۔
جوئے کی حرمت کی کچھ حکمتوں کو تو خود قرآن نے واضح کردیا ہے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے ، ان کے علاوہ کچھ اور مصلحتیں اور مضرتیں لوگوں نے انھیں نصوص کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اپنی مایہ ناز تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں ایک اچھوتے اور نرالے پیرایہ میں اس کی کچھ مصلحتوں کو اس طرح بیان کیا ہے:
قمار سے حاصل ہونے والا مال حرام اور باطل ہے ، اس لیے کہ یہ لوگوں سے ان کا مال چھیننا اور جہالت ، حرص و لالچ اور غلط آرزوؤں کے پیچھے چلنا ہے، تمدن اور تعاون میں اس کا کوئی دخل نہیں ، نقصان اٹھانے والا خاموش رہ جائے تو غصہ اور افسوس کے ساتھ خاموش رہے گا ، لڑے تو ایک ایسی بات پر لڑے گا جس کا سبب وہ خود بنا ہے ، فائدہ اٹھانے والا اس جوئے سے لذت اندوز ہوتاہے اور زیادہ سے زیادہ کی لالچ میں گرفتار رہتاہے اور یہ حرص کسی مقام پر جاکر رکتی نہیں ہے ، اس کا سلسلہ چل پڑے تو معیشت کو نقصان ہوگا ، باہمی مخاصمت بڑھے گی ، معاشی تگ و دو ٹھپ پڑجائے گی اور اس تعاون سے جو تمدن کی بنیاد ہے لوگوں میں اعراض پیدا ہوجائے گا ۔ اگر آپ نے کسی جوئے خوار کو دیکھاہے تو آپ کو بخوبی اس کااندازہ ہوگا۔(حجۃ اللہ البالغہ مترجم 258/2)
جوا آمیز معاملات:
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عربوں کے یہاں جوا کی مختلف قسمیں مروج تھیں، موجودہ دورمیں بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں،صرف نام بدل گیا ہے،
حقیقت اسی اصلی روپ میں اب بھی جلوہ گر ہے ، اس لیے اختصار کے ساتھ ان صورتوں کا بھی تعارف ضروری ہے تاکہ اس کی روشنی میں جوا کے نت نئے طریقوں کے بارے میں حکم شرعی معلوم ہوسکے۔
بیع حصاۃ:
انہیں میں سے ایک ’’بیع حصاۃ‘‘ ہے یعنی کنکری کے واسطے سے معاملہ کرنا، فقیہ و محدث علامہ ابن ہمام نے ’’بیع حصاۃ‘‘ کی اصطلاحی تعریف کچھ اس طرح کی ہے : کپڑے کا مالک خریدار سے کہے کہ یہ کنکری پھینکو جس کپڑے پر جاکر گرے اس کو تمہیں اتنے روپیہ میں فروخت کررہاہوں(فتح القدیر 617/6) قریب قریب یہی تشریح مالکیہ نے بھی کی ہے(بدایۃ المجتہد 148/2) شوافع کی بھی یہی رائے ہے ، البتہ ان کے یہاں ایک اور شکل کا تذکرہ ملتاہے کہ مالک زمین خریدار سے کہے کہ کنکری پھینکو جہاں جاکر گرے وہاں تک کی زمین میں تمہیں اتنی قیمت میں بیچ رہاہوں۔(شرح نووی علی مسلم 2/2)، فقہاء حنابلہ سے بھی یہی تشریح منقول ہے۔
علامہ ابن قیم نے کچھ اور صورتیں ذکر کی ہیں جیسے کوئی شخص ہاتھ میں کنکر ی لے کر کہے کہ میرے ہاتھ میں جتنی کنکریاں ہیں اسی کے بقدر سامان میرا ہوگا یا مٹھی میں بند ہر کنکری کے بدلے ایک درہم دینا ہوگا ۔(زادالمعاد 517/5)
بیع ملامسہ:
بیع ملامسہ جسے ’’بیع لماس‘‘ بھی کہتے ہیں۔ (دیکھئے فتح القدیر 417/6 ، موطا امام مالک 276، المغنی 146/4، شرح نووی علی مسلم 2/2) ، لفظ لمس سے ماخوذ ہے بمعنی چھونا ، ٹٹولنا، کسی چیز کو ہاتھ لگاکر دیکھنا ، ’’ملامسہ‘‘ کی تشریح فقہاء نے یہ کی ہے ، مالک خریدار سے کہے کہ اندھیرے میں یا آنکھ بند کرکے جس سامان پر ہاتھ رکھ دو ، ہاتھ رکھ دینے کے بعد معاملہ طے سمجھاجائے گا ، بعدمیں دیکھنے پر پسند آئے نہ آئے ،
لینا ضروری ہے۔(فتح القدیر417/6)
بیع منابذۃ:
منابذہ کی تشریح حنفیہ یہ کرتے ہیں کہ سامان کی خریدو فروخت بن دیکھے سامان کے بدلے ہورہی ہو ، ہر ایک اپنی چیز دوسرے کی طرف پھینکے، پھینکنے کے بعد معاملہ مکمل ہوجائے گا ، دیکھنے کے بعد لینے یا نہ لینے کا اختیار نہ ہوگا۔(موطا امام مالک 276، شرح نووی علی مسلم 2/2) فقہ حنبلی کے ترجمان ابن قدامہ نے منابذہ کی حقیقت یہ بیان کی ہے : خریدار کہے کہ جس کپڑے کو بھی تم میری طرف پھینک دو میں اسے اتنے روپیہ میں خرید رہاہوں، گویا یوں کہہ رہا ہے کہ ان مختلف کپڑوں میں سے غیر متعین طور پر ایک کپڑا اتنے میں خرید کر رہاہوں۔(المغنی 146/4)
واضح رہے کہ ’’حصاۃ، منابذہ، ملامسہ‘‘ کی دیگر تفسیریں بھی ذکر کی گئی ہیں، ہم نے صرف انھیں صورتوں کا انتخب کیا ہے جو قمار کے ذیل میں آتی ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ تینوں صورتوں میں باوجود اس کے کہ یہ معاملہ ناجائز ہے ضروری ہے کہ فریقین میں سامان کی قیمت پہلے طے پاچکی ہو، اگر قیمت بھی متعین نہیں ہے تو ان معاملات کے ناجائز ہونے کے دوہرے اسباب پیدا ہوجائیں گے یعنی قیمت کا غیر متعین ہونا اور قمار کا پایا جانا ۔(رد المحتار 109/4)
تمام ائمہ متفق ہیں کہ خریدو فروخت کی یہ تمام صورتیں ناجائز اور حرام ہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے صراحتاً ان معاملات سے منفع فرمایاہے، حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
نھی رسول اللہ ﷺ عن بیع الحصاۃ و
بیع الغرر۔(مسلم واصحاب السنن جمع الفوائد 248/1)
رسول اللہ ﷺ نے حصاۃ اور بیع غرر سے منع فرمایا ہے۔
بیع غرر کی تشریح امام مالک نے یہ کی ہے کہ گم شدہ سامان کے مالک سے کوئی کہے کہ اپنے سامان کو تم مجھے مثلاً بیس روپیہ میں فروخت کردو ، میں اسے تلاش کرکے لے لوں گا، حالانکہ سامان کی اصل قیمت مثلاً پچاس روپیہ ہے ، اب اگر سامان مل جائے تو مالک کو تیس روپیہ کا نقصان ہوگا اور نہ ملنے کی صورت میں خریدار کا بیس روپیہ ڈوب جائے گا ۔
نیز ابوہریرہؓ ہی سے مروی ہے :
نھی رسول اللہ ﷺ عن الملامسہ والمنابذۃ (بخاری 287/1)
رسول اللہ ﷺ نے ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایاہے۔
ممانعت کی وجہ مشترکہ طور پر دو ہے ، ایک سامان خریدوفروخت کا غیر متعین ہونا، دوسرے دھوکہ دہی اور جوا کی آمیزش۔
انعامی مقابلہ:
اسلام ان تمام کھیلوں کو جائز اور مباح قرار دیاہے جس سے جسم کی ورزش ہو، جو جسمانی قوت میں اضافہ کا سبب ہو، انسان کے اندر قوت مدافعت پیدا کرنے والے ایسے کھیل شریعت کی نظرمیں پسندیدہ اور مستحسن ہیں اور شرعی حد میں رہ کر بازی لگانے اور انعام دینے کی بھی گنجائش ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔(نیل الاوطار 79/8) خود آپ ﷺ نے رکانہ کے ساتھ کشتی لڑی(حوالہ سابق 92/8) اور حضرت عائشہؓ کے ساتھ دوڑمیں مقابلہ کیا۔(ابوداؤد 348/1کتاب الجہاد)، ان احادیث کے پیش نظر فقہاء کرام متفق ہیں کہ تمام مفید کھیلوں میں بلامعاوضہ مقابلہ جائز
ہے ۔(رد المحتار 258/5)، لیکن عوض کے ساتھ مقابلہ صرف تین چیزوں میں جائز ہے : گھوڑ دوڑ ، تیراندازی اور اونٹ کی دوڑ۔ کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
لا سبق الا فی نصل أو خف أو حافر۔(ابوداؤد 348/1، نسائی 124/2)
انعامی مقابلہ صرف تیر اندازی، گھوڑ دوڑ اور اونٹوں کی دوڑ میں ہے۔
بعض فقہاء کی رائے میں ہر وہ کھیل جو جہاد کے لیے معین و مددگار ہو اس میں انعام مقرر کرنا یا ایسی بازی لگانا جس میں جوا شامل نہ ہوجائز ہے۔(بغیۃ المشتاق /89)، دلائل کی روشنی میں یہی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے ، اس لیے کہ ہر زمانے کے تقاضے جدا جدا ہیں۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں عام طور سے یہی تین چیزیں جہاد میں کام آتی تھیں۔ اس لیے آپ نے ان کی اہمیت بتلانے کے لیے بطور خاص ان کا تذکرہ کیا جیساکہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:
الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی۔(مسلم 142/2، ترمذی 139/2، ابوداؤد کتاب الجہاد 340/1)
سنو قوت توصرف تیراندازی ہے،سنو قوت توصرف تیراندازی ہے،سنو قوت تو صرف تیراندازی ہے۔
اس حدیث میں قوت صرف تیر اندازی کو بتلایا گیا ہے لیکن مقصود قوت و طاقت کو تیر اندازی میں محصور کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتلانا ہے کہ یہ قوت کا ایک عظیم ذریعہ ہے ، اس سے غفلت تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے، اسی طرح مذکورہ حدیث کا مقصد یہ ہے کہ یہ تین چیزیں جہاد میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں، لہٰذا تم اس پر خصوصی توجہ دو یہاں تک کہ اس جذبہ کو بیدار کرنے کے لیے انعام بھی مقرر کیاجاسکتا ہے ۔
انعامی مقابلہ کی شرطیں:
انعامی مقابلہ کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں جوا کا عنصر شامل نہ ہو، اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:
1-انعام کوئی تیسرا شخص جو اس مقابلہ میں شریک نہ ہو ، اپنی طرف سے ادا کرے۔
2-معاوضہ کی شرط یکطرفہ ہو مثلاً شکیل انیس سے کہے کہ آؤ! دوڑ میں مقابلہ کریں، اگر تم جیت جاؤگے تو میں تمہیں دس روپیہ ادا کروں گا، اگر میں جیت گیا تو تمہارے ذمہ کچھ نہیں۔
3-معاوضہ دو طرفہ ہو مگر فریقین کسی تیسرے شخص کو اپنے ساتھ شریک کرلیں اور یہ شرط ٹھہرے کہ فریقین میں سے جوآگے بڑھ جائے گا دوسرا فریق اسے مثلاً ایک ہزار روپیہ اداکرے گا اور اگریہ تیسرا شخص جیت گیا تو کسی کے ذمہ کچھ نہیں یا یہ کہ تیسرا آدمی جیت جائے تو فریقین مل کر اس کو دو ہزار دیں گے اور ہار جانے کی صورت میں اسے ان دونوں کو کچھ دینا نہ ہو لیکن فریقین میں سے جو آگے بڑھے گا ہارنے والے کے ذمہ اس کو ایک ہزار دینا ضروری ہے۔ اصطلاح میں اس تیسرے شخص کو ’’محلل‘‘ کہتے ہیں ، اس صورت کے جواز کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس تیسرے شخص کا گھوڑا۔ اگر گھوڑوں کی ریس ہو رہی ہو-طاقت و قوت میں ان دونوں کے گھوڑوں کے برابر ہو، اگریہ تیسرا گھوڑا کمزور یا بہت تیز و طرار ہوکہ پیچھے رہ جانا یا جیت جانا یقینی ہو تو اس وقت قمار پیدا ہوجانے کی وجہ سے یہ صورت جائز نہ ہوگی(دیکھئے درمختار مع الرد 285/5، رشیدیہ پاکستان ، مجمع الانھر 550/2) اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا:
من أدخل فرسا بین فرسین وھو لا یومن ان
یسبق فلیس بقمار وان ادخل فرسا بین فرسین وقد امن ان یسبق فھو قمار(ابوداؤد 348/1، ابن ماجہ /206، مسند احمد 505/2 عن ابی ہریرۃ)
دو گھوڑو ں کے مقابلہ میں اگر تیسرے گھوڑ ے کو بھی شامل کرلیاجائے جس کے آگے بڑھ جانے کا امکان ہو تو یہ قمار نہیں ہے ، اور اگر اس کا ہارجانا یقینی ہوتو یہ قمار ہے۔
یہ تمام شرطیں معاوضہ سے متعلق تھیں، مقابلہ کے جائز ہونے کے لیے ان کے علاوہ بھی پانچ چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔
1-معاوضہ کی نوعیت معلوم ہو کہ روپیہ ہے یا کوئی سامان۔
2-انعام یا بازی پر لگائی جانے والی رقم یا سامان کی مقدار کا علم ہو۔
3-مسافت یا مدت متعین ہو کہ یہاں سے وہاں تک یا اتنے منٹ تک دوڑناہے۔
4-سواری متعین ہو مثلاً کس گھوڑے کو مقابلہ کے لیے استعمال کیاجائے گا۔
5-دونوں میں سے ہر ایک کے آگے بڑھ جانے اور جیت جانے کا امکان ہو، اگر کوئی سواری بالکل مریل اور کمزور ہو کہ ہارجانا یقینی ہو تو مقابلہ درست نہیں۔(دیکھئے نیل الاوطار 78/8، شرح منح الجلیل 770/1، حواشی تحفۃ المحتاج39/9)
6-مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ہر فریق کو اختیار ہے کہ اس مقابلہ سے دست بردار ہوجائے لیکن شروع ہوجانے کے بعد یہ اختیار ختم اور جیتنے والے کو مقرر ہ رقم دیناضروری ہے۔(دیکھئے در مختار 285/5، شرح مہذب 129/15)
7-ایک ہی مقابلہ میں متعدد لوگوں کے لیے انعام مقرر کیاجاسکتاہے مثلاً اول، دوم ، سوم وغیرہ نیز تمام شرکاء کے لیے بھی کچھ نہ کچھ انعام مقرر کیاجاسکتاہے ۔مگر درجہ بندی کے اعتبار سے انعام میں بھی تفاوت ضروری ہے ، ورنہ مقابلہ کا مقصد حاصل نہ ہوگا۔
8-اگرمتعددلوگوں کی ایک ہی پوزیشن ہو مثلاً پچاس شرکاء میں سے دس اول آجائیں تو اس وقت اول درجہ کی رقم ان میں برابر تقسیم کردی جائے لیکن اگر تمام شرکاء اول آجائیں تو پھر کسی کو کچھ نہیں ملے گا۔
9- دو جماعتوں کے درمیان مقابلہ کا وہی حکم ہے جو دو افراد سے متعلق ہے، علاوہ ازیں درج ذیل شرائط کا لحاظ بھی ضروری ہے۔
الف-دونوں طرف شرکاء کی تعداد برابر ہو۔
ب- انتخاب میں قوی اور ضعیف کو ملحوظ رکھاجائے ، ایسا نہ ہو کہ ایک طرف ماہر اور تنو مند جمع ہوجائیں اور دوسری طرف کمزور اور بے کار قسم کے ، انتخاب کے لیے قرعہ اندازی درست نہیں کیونکہ اس میں امکان ہے کہ ایک طرف اچھے لوگ جمع ہوجائیں اور دوسری طرف بالکل بودے قسم کے لوگ۔
ج-ایک جماعت کے تمام شرکاء کے درمیان انعام کو برابرتقسیم کیاجائے۔
10- انفرادی مقابلہ میں یہ شرط لگانا کہ جیتنے والا انعام کو اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے گا لغو اور فاسد ہے ، لیکن اس کی وجہ سے معاملہ پرکوئی اثرنہیں پڑے گا، معاملہ برقرار رہے گا، البتہ جیتنے والے کی مرضی ہے ، چاہے اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے یا نہ کرے۔
11-مقابلہ کے وقت ایک دوسرے کی سواری کو دھکا دینا، اس کو چھیڑنا درست نہیں۔
12-دائیں بائیں کھڑا ہونے میں فریقین کے درمیان اختلاف ہوتو قرعہ کے ذریعہ اس کی تعیین کی جائے۔(شرح مہذب 90/15-145)
13-قبلہ کی طرف نشانہ بازی مکروہ ہے ، اس لیے قبلہ کے علاوہ کسی اور سمت
میں تختۂ مشق کو نصب کرنا چاہیے۔(رد المحتار 286/5)
تیراندازی اور نشانہ بازی:
زمانہ نے کتنی کروٹیں بدلیں، دیگرچیزوں کے ساتھ جنگی سازوسامان میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ، تیرو تلوار کی جگہ اب ٹینک اور توپ نے لے لی مگر ان سب ترقیوں کے باوجود تیر اندازی کی آج بھی ایک اہمیت اور قدر و قیمت ہے ، مگر مسلمانوں نے اس عظیم قومی ورثہ کی طرف سے جو بے توجہی و بے التفاتی برتی ہے وہ ناقابل بیان اور ناقابل اظہار ہے ، کاش ان کے پیش نظر اللہ کے رسول ﷺ کا یہ پیغام ہوتا:
واعدوا لھم مااستطعتم من قوۃ الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی(مسلم 142/2، کتاب الامارۃ، ترمذی 139/2 کتاب التفسیر)
سنو ! قوت تو صرف تیراندازی ہے،سنو! قوت تو صرف تیراندازی ہے،سنو ! قوت تو صرف تیراندازی ہے۔
کاش وہ تیر اندازی کی اس فضیلت کو سامنے رکھتے :
ما تشھد الملائکۃ من لھوکم الا الرھان والنضال.(رواہ السیوطی فی الجامع الصغیر ورمز لہ بالحسن 436/5)
کسی بھی کھیل میں فرشتے حاضر نہیں ہوتے ہیں سوا تیر اندازی اور گھوڑ دوڑ کے۔
موجودہ دورمیں بندوق بھی تیراندازی ہی کے حکم میں ہے اس کا سیکھنا، مشق کرنا کارِ ثواب اور اس پر شرعی حد میں رہ کر انعامی مقابلہ جائز اور پسندیدہ ہے۔
گھوڑدوڑ:
یہ ایک پسندیدہ اور محبوب کھیل ہے ، اس کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود اللہ کے رسول اللہ ﷺ اس میں شریک رہا کرتے تھے، حضرت انسؓ سے دریافت کیاگیا کہ آپ لوگ آنحضرت ﷺ کے عہد مسعود میں گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کیاکرتے تھے؟ اور آپ ﷺ اس میں شرکت فرماتے تھے؟ حضرت انسؓ نے فرمایا: ہاں آنحضور اس میں شریک ہواکرتے تھے، بخدا آپﷺ نے ایک گھوڑے پر بازی لگائی جس کا نام ’’سبحہ‘‘ تھا ، وہ مقابلہ میں دوسرے گھوڑوں سے آگے بڑھ گیا ، یہ دیکھ کر آپﷺ خوشی و مسرت سے کھل اٹھے۔(مسند احمد 160/3)
نیز آپ ﷺ نے ہمت افزائی کے لیے جیتنے والے کو انعام سے بھی نوازا ، حضرت عبداللہ بن عمر راوی ہیں:
سبق رسول اللہ ﷺ بین الخیل واعطی السابق(نیل الاوطار 79/8)
اللہ کے رسول ﷺ نے گھوڑ دوڑ کامقابلہ کروایا اور جیتنے والے کو انعام سے نوازا۔
لیکن یہ فضیلت و اہمیت اسی وقت ہے جبکہ اس میں جو ئے کا عنصر شامل نہ ہو، جو گھوڑے جوا کے لیے استعمال ہوں ، حدیث میں اسے شیطانی گھوڑا کہا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
گھوڑے تین طرح کے ہوتے ہیں:رحمانی، شیطانی اور انسانی ۔ رحمانی گھوڑا وہ ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے استعمال کیاجائے، اس گھوڑے کا چارہ اور لید، پیشاب سب قیامت کے دن وزن کیے جائیں گے
(اور اس کے بقدر اس کے مالک کو ثواب دیاجائے گا) اور شیطانی گھوڑا وہ ہے جو جوا کے لیے استعمال کیاجائے اور انسانی گھوڑا وہ ہے جسے انسان افزائش نسل کے لیے پالتا ہے اور وہ اس کی محتاجی دورکرنے کا ذریعہ بن جاتاہے۔(دیکھئے نسائی 120/2، ابن ماجہ/200، مسند احمد395/1، عن ابن مسعود)
گھوڑ دوڑ کی مروجہ صورت-جس میں تمام شرکاء ایک متعین فیس ادا کرتے ہیں اور انعامی رقم صرف جیتنے والے کو ملتی ہے-جوا ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے کیونکہ فیس کے نام پر شرکاء جو رقم ادا کرتے ہیں وہ انعام نہ ملنے کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے ، لوگ اس امید پر یہ رقم اداکرتے ہیں کہ جیت جانے پر ایک بڑی رقم ہاتھ آئے گی اور ہار جانے کی صورت میں بہت معمولی رقم ڈوبے گی ، گویا اس معمولی رقم کو بازی پر لگاتے ہیں اور انجام غیریقینی ہے اور اسی کا نام ’’جوا‘‘ ہے ، علاوہ ازیں گھوڑ دوڑ کا مقصد-جسمانی قوت، جہاد کے لیے ٹریننگ- اس سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ بازی لگانے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ، وہ تو محض شوقیہ نام و نمود اور قسمت آزمائی کے لیے ایسا کرتے ہیں، اگر جوا شامل نہ بھی ہو جب بھی کراہت سے خالی نہیں ، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
اما اذا قصد التلھی او الفخر والشجاعۃ فالظاھر الکراہۃ۔(رد المحتار 258/5)
اگر محض کھلواڑ، خودنمائی اور بہادری مقصود ہو تو مکروہ ہے۔
دوڑمیں مقابلہ:
دوڑنا بھی ایک بہتر اور عمدہ ورزش ہے ، اس سے بدن میں چستی اور پھرتی آتی ہے ، آنحضرت ﷺ نے خود اپنی امت کی تعلیم کی خاطر نیز خوش طبعی کے لیے حضرت
عائشہ کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا ، چنانچہ وہ فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے دوڑ میں مجھ سے مقابلہ کیا اور میں جیت گئی، پھر جب میرا جسم فربہ ہوگیا اور دوبارہ مقابلہ کیا تو آپ ﷺ مجھ سے آگے نکل گئے اور فرمایایہ اس وقت کا بدلا ہے۔(ابوداؤد 348/1کتاب الجہاد ، مسند احمد39/6 )، صحابہ کرام بھی آپﷺ کی اجازت اور موجودگی میں دوڑ کا مقابلہ کیاکرتے تھے، حضرت سلمہ بن اکوع اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں :
ایک سفر کے موقع پر ایک انصاری جو دوڑنے میں بہت تیز تھے کہنے لگے کیا مدینہ تک کوئی مجھ سے دوڑ میں مقابلہ کر سکتاہے ؟ ہے کوئی جوان مرد جو مجھ سے مقابلہ کرے؟ میں نے ان سے کہا: آپ کسی شریف کی عزت کا خیال نہیں کرتے؟ آپ کے دل میں کسی باعزت شخص کی قدر و قیمت نہیں ہے؟ وہ کہنے لگے میں اللہ کے رسول ﷺ کے سوا کسی کی پروا نہیں کرتا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے جاکر اجازت چاہی، آپ ﷺ نے فرمایا: اگرتم چاہتے ہو تو جاؤ مقابلہ کرلو، حضرت سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے مدینہ تک دوڑ کا مقابلہ کیا اور آگے ہی رہا۔(نیل الاوطار 92/8)
ان دونوں حدیثوں کے پیش نظر فقہاء نے لکھاہے کہ دوڑ میں مقابلہ کرنا اور معاوضہ مقرر کرنا جائز ہے بشرطیکہ جوا کا عنصر شامل نہ ہو۔(ہندیہ 322/5)، نیز یہ کہ دوڑ میں مقابلہ شرف و وقار ، علم و فضل اور بزرگی کے منافی نہیں کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے جب حضرت عائشہ کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا ، اس وقت آپ کی عمر پچاس سے زائد تھی۔(نیل الاوطار 92/8)
کشتی لڑنا، کراٹا کھیلنا:
جہاد میں معین اور مددگار ہونے کی حیثیت سے کشتی لڑنا بھی جائز ہے ، خود آپ ﷺ نے کشتی لڑی ہے ، حضرت محمدبن علی فرماتے ہیں کہ : رکانہ نامی ایک شخص نے نبی ﷺ سے کشتی لڑنے میں مقابلہ کیا، جس میں آپ ﷺ نے اسے پچھاڑودیا(حوالہ سابق)، اس میں معاوضہ مقرر کرنا بھی جائز ہے ، حضرت سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت ہے کہ رکانہ کے ساتھ مقابلہ میں آپ نے معاوضہ مقرر کیا تھا۔(کتاب المراسیل /14لابی داؤد)، فقہ حنفی کے مشہور عالم علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں:
وکذا المصارعۃ علی ھذا التفصیل وانما جاز لان فیہ حثا علی الجہاد۔
اور اسی تفصیل کے مطابق کشتی میں بھی معاوضہ مقر ر کرنا جائز ہے ، اس لیے کہ اس کے ذریعہ جہاد پر ابھارا جاتاہے۔(رد المحتار 259/5)
پیشہ ور پہلوانی جس کا مقصد صرف ہوس رانی ہے ، جذبہ خودستائی و خودنمائی کی تسکین مقصود ہے، ستر پوشی کا کوئی اہتمام نہیں، نہ مد مقابل کی کوئی رعایت بلکہ ایذارسانی اور نقصان دہی کی کوشش کرنا، جوا کی آمیزش اس کے علاوہ، اتنی ساری برائیاں جس میں جمع ہوجائیں اس کے ناجائز ہونے میں کیا کلام ہوسکتاہے؟
کراٹے کا حکم بھی کشتی سے مختلف نہیں ، صحیح مقصد کے تحت سیکھنا اور سکھانا جائز ہے اور انعامی مقابلہ بھی کیاجاسکتاہے ۔
تیراکی ، غوطہ خوری:
تیراکی بھی قوت و طاقت اور ورزش کا ایک بہترین ذریعہ ہے ، ہر دور میں اس کی اہمیت مسلم رہی ہے ، جہاد کے لیے معاون و مددگار ہے، اس کی اسی حیثیت کے پیش نظر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ذکر کے سوا ہر چیز لہوولعب ہے ، علاوہ چار چیزوں کے : اپنی بیوی کے ساتھ کھیلنا، گھوڑے کو سدھانا، تیر اندازی اور تیراکی سیکھنا۔(الجامع الصغیر للسیوطی 281/2، معز یا الی سنن النسائی ورمز لہ بالحسن)
جوا کی آمیزش نہ ہو تو انعامی مقابلہ بھی درست ہے ، یہی حکم غوطہ خوری کا بھی ہے۔
کبڈی، ہاکی، فٹ بال، کرکٹ وغیرہ:
ہاکی، فٹ بال، والی وال، بیڈمنٹن ، کبڈی یہ سب ایسے کھیل ہیں جو صحت اور ورزش کے نقطہ نظر سے مفید ہیں ، لہٰذا نیک نیتی سے درج ذیل شرائط کی پابندی کرتے ہوئے کھیلا جائے تو مباح ہے:
1-جوا کا عنصر نہ ہو لہٰذا میچ اور مقابلہ میں انٹری فیس کے نام سے ہرپارٹی سے جو رقم وصول کی جاتی ہے وہ درست نہیں، البتہ اگر ٹورنامنٹ کے منتظمین انتظامی امور پر خرچ کرنے کے لیے کچھ مخصوص رقم ہر پارٹی سے لیں تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔
2-نماز اور جماعت کی پابندی کا خیال رکھاجائے۔
3-سترپوشی کا اہتمام ہو۔
عورتوں کے لیے وہ تمام کھیل ناجائز ہیں جو مردانہ نوعیت کے ہیں مثلاً کبڈی والی وال وغیرہ، البتہ بیڈمنٹن یا اس جیسے ہلکے پھلکے کھیل صحت اور ورزش کے نقطۂ نظر سے پردہ کی رعایت کرتے ہوئے کھیلیں تو جواز کی گنجائش ہے۔
علمی مقابلہ:
دین کی حفاظت و صیانت اور مدافعت کبھی تیر و تلوار سے کی جاتی ہے اور کبھی زبان و قلم سے ۔ چنانچہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جاھدوا المشرکین بأموالکم وأنفسکم و ألسنتکم۔
مشرکوں سے جان و مال اور زبان کے ذریعہ جہاد کرو۔(ابوداؤد: 2504)
زبان و قلم کی اہمیت ہر دورمیں مسلم رہی ہے ، یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جس کی افادیت کا شاید ہی کوئی منکر ہو، موجودہ حالات میں جب کہ ہر طرف سے باطل کی فکری یلغار اور علمی یور ش ہورہی ہے ، ایمانیات ، اعتقادیات میں شک و شبہ پیدا کیاجارہا ہے، مسلمات میں طرح طرح سے کیڑے نکالے جارہے ہیں، اس کی اہمیت اور وقعت اور دوچند ہوجاتی ہے ، یقینا ان چیزوں کا علمی طرز پر دفاع کرنے والا ، جواب دینے والا کسی مرد مجاہد سے کم نہیں، اور یقینا علمی صعوبتوں ، پریشانیوں اور کٹھنائیوں کو طے کرنے کے لیے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرنے کے لیے باہمی مقابلہ کروانا معاوضہ اور انعام دینا بازی لگانا جائز اور بہتر ہے ۔ محقق عبداللہ بن محمدلکھتے ہیں:
اور اسی طرح دو عالموں کے درمیان اختلاف کی صورت میں کسی بڑے عالم کے پاس رجوع ہونے کی ضرورت پڑجائے اور اس پر کوئی معاوضہ مقرر ہوجائے یعنی یہ شرط ٹھہرا لیں کہ اگر ان کا جواب تمہارے موافق ہوا تو میں تم کو اتنی رقم دوں گا اور اگر انھوں نے میری تائید کی تو میں تم سے کچھ نہیں لوں گا ، یہ جائز ہے ، اس لیے کہ جہاد کی وجہ سے جب گھوڑ سواری میں معاوضہ مقرر کرنا جائز ہے تو اس میں کیونکر جائز نہ ہوگا ، جبکہ اس کے ذریعہ علم دین حاصل کرنے کی طرف رغبت دلائی جاتی ہے اور جس طرح دین کی حفاظت وصیانت جہاد سے ہوتی ہے ، اسی طرح علم سے بھی ہوتی ہے۔(مجمع الانھر 550/2)
البتہ اگر شرط دو طرفہ ہو تو جوا کی وجہ سے جائز نہیں۔ علامہ ابن عابدین شامی رقمطرازہیں:
اور اگر یہ شرط ہوکہ جس کی بات صحیح ہو دوسرا اسے اتنا روپیہ دے گا تو یہ صحیح نہیں ، اس لیے کہ یہ دو طرفہ شرط ہے اور جوا ہے ، الا یہ کہ درمیان میں کسی محلل کو داخل کرلیاجائے مثلاً کسی مسئلہ میں تین رائیں پیدا ہوگئی ہوں اور دو آدمی یہ شرط لگالیں کہ اگر تیسرے کی رائے درست ہو تو ہم دونوں اسے معاوضہ دیں گے اور اگر ہم میں سے کوئی جیت گیا تو اس کو تیسرے پر کچھ نہیں ہے۔(رد المحتار286/5)
تعلیمی تاش:
تعلیمی طریقوں کو سہل اور آسان بنانے کی غرض سے نیز بچوں کی نفسیات کے پیش نظرکھیل کود اور سیر و تفریح کی چیزوں میں ذہنی اور فکری تربیت کے سامان بھی مہیاکردئے گئے ہیں، انھیں طریقوں میں سے تعلیمی تاش بھی ہے جس سے لغت اور زبان کے سیکھنے میں کافی مدد ملتی ہے ، اس لیے علماء نے لکھاہے کہ تعلیمی تاش کھیلناجائز ہے ، چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
اگر ہار جیت نہ ہو تو جائز ہے بلکہ مبتدیوں کے حق میں شاید مفید ہو۔(امداد الفتاویٰ252/4)
اس کے جواز پر شامی کی درج ذیل عبارت سے بھی استدلال کیاجاسکتاہے:
اور یہ معلوم کرنا کہ مٹھی میں کیا ہے ؟ جفت ہے یا طاق؟ اور انگوٹھی سے کھیلنا ، میں نے بعض فقہاء شوافع سے سنا ہے کہ یہ ان کے یہاں اس وقت جائز ہے جبکہ وہ حسابی قواعد پر مبنی ہو جسے علماء حساب نے اس کے استخراج کے طریقہ میں ذکر کیا ہے نہ کہ محض اٹکل اور ظن پر مبنی ہو، میں کہتا ہوں ہمارے یہاں بھی اسی وقت جائز ہے جبکہ اس سے حساب دانی کی مشق مقصود ہو۔(رد المحتار 259/5، نعمانیہ دیوبند)
معمہ:
معمہ بمعنی پیچیدہ بات، پہیلی، الجھا ہوا مسئلہ ۔(فرہنگ آصفیہ2130/3) آج کل رسائل و جرائد کی تجارت کا ایک اہم ذریعہ ہے ، یہ معمہ ادبی بھی ہوتاہے ، سیاسی اور سماجی بھی نیز دینی اور مذہبی پہلو سے بھی تعرض کرتاہے، غرضیکہ اس سے کوئی نہ کوئی دینی یا دنیوی مفاد وابستہ ہے، اس وقت عام طور سے معمہ کی دو صورتیں رائج ہیں:
1-اخبار و رسائل میں کوپن ہوتے ہیں اور معمہ کے حل کے ساتھ کوپن بھیجنا ضروری ہوتاہے۔
2-معمہ کے حل کے ساتھ کچھ فیس بھی مطلوب ہوتی ہے۔
پہلی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ اگر خریدار کو کوپن کے ساتھ بھی رسالہ و اخبار اتنی ہی قیمت میں ملتاہے جتنا کہ عام طور پر مارکٹ میں بغیر کوپن کے اس قسم کا رسالہ و اخبار دستیاب ہے تو یہ صورت جائز ہے کیونکہ خریدار کو اپنی رقم کا پورا معاوضہ رسالہ و اخبار کی شکل میں مل چکا ہے ، اس کی رقم کا کوئی حصہ داؤ پر نہیں لگا، اس کو انعام نہ ملنے کی صورت میں کوئی نقصان نہں، لیکن کوپن والے رسالہ کی قیمت اس جیسے عام رسالوں سے زائد ہو تو یہ درست نہیں کیونکہ سمجھاجائے گا کہ وہ کوپن کی وجہ سے اس کی قیمت زیادہ لے رہاہے اور لوگ انعام کی لالچ میں زائد رقم گوارا کرلیتے ہیں اور اس زائد رقم کو داؤ پر لگادیتے ہیں اور کسی رقم کو داؤ پر لگانا اور انجام سے بے خبری یہی ’’جوا‘‘ ہے ، دوسری
صورت صریح جوا ہے اس لیے بہر صورت ناجائز اور حرام ہے۔
چوسر:
جس کھیل میں نہ دنیاوی فائدہ ہو اور نہ دینی، نہ اس سے ذہنی بالیدگی اور فکری تربیت ہوتی ہو اور نہ کوئی جسمانی ورزش ، محض وقت گذاری کا ایک ذریعہ ہو، جس میں وقت کے ضیاع و نقصان کے سوا کوئی فائدہ نہ ہو ، ہر عقلمند انسان اسے ناپسند کرتاہے، اسلام دین فطرت ہے ، جودنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتا ہو اسے کیونکر جائز کہہ سکتاہے، ایسے کھیلوں میں اگر انعامی ہار جیت ہو گرچہ جوا نہ ہو تو بھی حرام ہے، ایسے ہی بے فائدہ کھیلوں میں چوسر ہے، جس کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ نے سخت الفاظ میں وعید فرمائی۔ ارشادہے: جوشخص چوسر کھیلتا ہے وہ اپنے ہاتھ کو خنزیر کے گوشت اور خون میں رنگ لیتاہے۔(مسلم، ابوداؤد، جمع الفوائ158/2) نیز آپﷺ نے فرمایا: چوسرکھیلنے والا اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتاہے۔(ابوداؤد675/2، ابن ماجہ 267، موطا امام مالک /379، مسنداحمد394/4)
ان دونوں حدیثوں کے پیش نظر تمام فقہاء متفق ہیں کہ چوسر بہرصورت حرام ہے ، خواہ جوا کے طور پر کھیلاجائے یا محض دل بہلانے اور وقت گذاری کے لیے ، ابن قدامہ حنبلی کا بیان ہے:
جس کھیل میں جوا شامل ہو وہ حرام ہے اور جو کھیل جوئے سے خالی ہوں ان میں سے بعض حرام اور بعض جائز ہیں، چوسر حرام کھیلوں کے زمرے میں آتاہے ، امام ابوحنیفہ اور اکثرشوافع کا یہی مذہب ہے۔بعض شوافع کی رائے میں یہ مکروہ ہے ، حرام نہیں۔(المغنی مع الشرح الکبیر 35/12)
شیخ دردیرمالکی لکھتے ہیں:
چوسرکھیلناحرام ہے، عوض کے ساتھ ہو یا عوض کے بغیر۔(الشرح الصغیر 676/3، نیز دیکھئے فقہ حنفی میں مجمع الانھر 553/2، فقہ شافعی میں کف الرعاع /95 لابن حجر ہیتمی)
شطرنج:
یہ سنسکرت لفظ چترانگ سے عربی بنالیا گیا ہے، اس میں چھ قسم کے مہرے ہوتے ہیں جوشاہ، فرزین، فیل، اسپ، رخ اور پیدل کہلاتے ہیں، اس میں دو سلطنت کے بادشاہوں کو لڑتے ہوئے دکھلایا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہ و مالک و احمد کی رائے کے مطابق چوسر کی طرح شطرنج بھی حرام ہے گرچہ جوا نہ ہو۔(ابن کثیر 544/1)، کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
لھو المومن باطل الا الثلاث تادیبہ لفرسہ، مناضلتہ عن قوسہ وملاعبتہ مع أھلہ(نیل الاوطار 85/8)
مومن کا ہر کھیل باطل ہے، سوا تین چیزوں کے : گھوڑے کو سدھانا، تیراندازی کی مشق کرنا، اپنے اہل و عیال کے ساتھ کھیلنا۔
حضرت علی نے کچھ لوگوں کو شطرنج کھیلتے ہوئے دیکھ کر فرمایا:
یہ کیسے بت ہیں جن پر تم جھکے پڑے ہو، اپنے ہاتھ میں آگ رکھ لینا یہاں تک کہ وہ بجھ جائے شطرنج کھیلنے سے بہتر ہے۔(تفسیرقرطبی 339/8)
حضرت عبداللہ بن عمر سے شطرنج کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایا: وہ چوسر سے بدتر ہے۔(الدرالمنثور 169/7)
امام شافعی کا خیال ہے کہ تین شرطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے شطرنج کھیلا جاسکتا ہے:
1-اس میں مشغول ہوکر نماز اور دیگر واجبات سے غافل نہ ہو۔
2-جوا کی آمیزش نہ ہو۔
3-دوران کھیل زبان کو فحش اور بدگوئی سے محفوظ رکھے، اگر ان شرطوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ ہو تو یہ کھیل حرام ہوگا۔(فتاویٰ عبدالحئی/ 486)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ امام شافعیؒ نے جواز کے قول سے رجوع کرلیا ہے، قاضی ثناء اللہ پانی پتی لکھتے ہیں:
اور وہ جو امام شافعی سے مروی ہے کہ آپ نے شطرنج کھیلنے کو مباح قرار دیا، اس بارے میں صحیح قول یہ ہے کہ آپ نے اس سے رجوع کرلیاہے۔(تفسیر مظہری 446/1)
گویا کہ اب اس کی حرمت پر ایک طرح کا اجماع اور اتفاق ہوگیا ہے۔
لوڈو، تاش، کیرم بورڈ وغیرہ:
چوسر اور شطرنج ہی کی طرح کرکٹ، لوڈو، تاش اور کیرم بورڈ بھی ہے بلکہ اس سے بدتر کہ سوائے وقت گذاری کے کوئی فائدہ نہیں، اگر رقم کی شرط ٹھہرا لی جائے گرچہ بغیر جوا کے یکطرفہ طور پر ہو یا کوئی تیسرا بطور انعام دے تو بھی باعث گناہ اور ناجائز ہے۔ فقہ و فتاویٰ کی مشہور کتاب ہندیہ میں ہے:
وکل لھو ما سوی الشطرنج حرام بالاجماع۔
شطرنج کے علاوہ ہر کھیل بہ اجماع حرام ہے۔(ہندیہ 352/5)
یعنی شطرنج کے حرام اور جائز ہونے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے مگرشطرنج کے علاوہ دیگر بے فائدہ کھیلوں کے حرمت کے سلسلہ میں کوئی اختلاف نہیں، تمام فقہاء بیک زبان حرام ہونے کے قائل ہیں، وجہ یہ ہے کہ شطرنج میں تو کچھ فائدہ ممکن ہے مثلاً اس سے ذہنی بالیدگی اور فکری تربیت حاصل ہوتی ہے ، اس سے جنگ کے طریقے معلوم ہوتے ہیں، جہاد کے لیے معاون ہے جیساکہ امام شافعی کا خیال ہے۔ مگر لوڈو وغیرہ میں ایسا کوئی فائدہ متصور نہیں ہے ۔ لوڈو اور تاش ہی سے ملتاجلتا ایک کھیل’’چودہ گٹی‘‘ ہے ۔ علماء نے صراحتاً اسے حرام قرار دیاہے، محقق عبداللہ بن محمد لکھتے ہیں:
ویحرم اللعب بالنرد والشطرنج والاربعۃ عشر۔
چوسر، شطرنج اور چودہ گٹی کھیلنا حرام ہے۔(مجمع الانھر 553/2)
علامہ شامی مزید وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں:
چودہ گٹی کھیلنا حرام ہے ، اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ لکڑی کے ایک ٹکڑے پر تین سطریں کھینچ دی جاتی ہیں اور ان پر چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ دئے جاتے ہیں۔(رد المحتار 271/5۔رشیدیہ پاکستان)
کیرم بورڈ وغیرہ کی شکلیں گو کچھ مختلف ہوتی ہیں مگر ان سب کا مقصد ایک ہے ، بے فائدہ کھیل تماشا اور وقت کاٹنا، حالانکہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا امتحان کی جگہ ہے ، یہاں انسان وقت گذاری کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے، یہاں کے ایک ایک لمحہ ، ایک ایک پل کے بارے میں باز پرس ہوگی، وقت ایک امانت ہے، جس کا ایک سکنڈ بھی ضائع کردینا مجرمانہ خیانت ہے، وقت ایک دولت ہے ، ایک عظیم نعمت ہے اور جو چیز جس قدر اہم ہوتی ہے اس کی ناقدری کا وبال بھی اسی قدر سخت ہوا کرتاہے ، آخرت میں انسان خواہش کرے گا کہ اسے پھر مہلت دے دی جائے تو وہ دنیا میں جاکر اچھے اچھے کام کرے گاتو اس وقت ارشادباری ہوگا:
اولم نعمر کم ما یتذکر فیہ من تذکر وجاء کم النذیر فذوقوا فما للظالمین من نصیر۔
کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی کہ اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو کرلیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والے (انبیاء اور علماء) آئے تواب جہنم کا مزا چکھو، ظالموں کاکوئی مددگار نہیں ہے۔(فاطر:27)
کاش لوگ اس حقیقت کو سمجھتے کہ زندگی کا سرمایہ دم بدم برف کی طرح پگھلا جارہاہے ، وہ وقت نہیں کاٹ رہے ہیں بلکہ خود وقت ان کو کاٹ رہا ہے، وہ لمحہ بہ لمحہ موت سے قریب اور قبر کے گڑھے کی طرف تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں، اے کاش زندگی کا چراغ گل ہونے سے پہلے ہوش آجائے اور ان بے فائدہ کھیل تماشوں سے کنارہ کش ہوجائیں، اے کاش اللہ کے رسول کا یہ فرمان ذہن و دماغ میں اترجائے اور لوگ اسے حرزجاں بنالیں:
مامن یوم طلعت شمسہ الا یقول: من استطاع ان یعمل فی خیرا فلیعملہ فانی غیر مکرر ابدا.
ہر دن سورج نکلتے ہوئے یہ پیغام سناتا ہے کہ جو کوئی آج اچھا کام کرسکتا ہے ، کرلے کیونکہ میں کبھی بھی لوٹ کر نہیں آؤں گا۔
(رواہ البیہقی و الدیلمی)
بند ڈبے:
آج کل مختلف مالیت کے بند ڈبوں کی فروختگی کا بہت زیادہ رواج ہے، کسی میں بیش قیمت سامان ہوتے ہیں ، کسی میں کم اور کسی میں بالکل نہیں، قیمت سب کی یکساں ہوتی ہے ، لوگ قسمت کے بھروسے خریدتے ہیں، یہ صورت زمانہ جاہلیت کے پانسوں کے ذریعہ تقسیم کے (استقسام بالازم) بالکل ہم شکل ہے ، کھلا ہوا جوا اور حرام ہے، اس کی ایک دوسری صورت بھی رائج ہے کہ کوئی کمپنی اپنے سامان کی فروختگی کے لیے کچھ سامانوں میں کوپن ڈال دیتی ہے کہ جس ڈبہ سے کوپن برآمد ہو اس کے خریدار کو اس کوپن کے مطابق انعام دیا جائے گا، اس طریقہ کو مطلقاً حرام نہیں کہاجاسکتاہے بلکہ اس میں تفصیل ہے ، اگر اس سامان کی قیمت اتنی ہی متعین ہے جتنی عام طور سے بغیر کوپن کے وہ سامان دستیاب ہے مثلاً بازار میں ۱۰۰ گرام چائے کی قیمت دس روپیہ ہے اور اس انعامی اسکیم کے تحت کوپن والے اسی قسم کی چائے کی قیمت دس روپیہ ہی ہے تو یہ درست ہے ، کیونکہ یہاں انعام حاصل کرنے کے لیے کوئی رقم بغیر کسی معاوضہ کے داؤ پر نہیں لگائی جارہی ہے بلکہ رقم کا پورا معاوضہ ایک چائے کے ڈبہ کی شکل میں اسے مل رہاہے، اب اگر اس کے ساتھ کوئی انعام بھی مل جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر کوپن کی وجہ سے اس چائے کی قیمت عام بازار بھاؤ سے زیادہ ہو تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اس میں جوا کی آمیزش ہے۔
گولیاں اور لٹو:
چھوٹے بچے آپس میں کانچ کی گولیاں کھیلتے ہیں، لٹو سے جی بہلاتے ہیں ، اگر ان کھیلوں میں ہار جیت ہو رہی ہو تو حرام اورناجائز ہیں، مفسر قرآن علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: حضرت مجاہد و عطاء کا خیال ہے کہ ہر قمار(جوا)’’میسر‘‘ میں داخل ہے، یہاں تک کہ بچے جو اخروٹ کھیلتے ہیں وہ بھی۔(تفسیر ابن کثیر 544/1)
فقہی اصول ہے کہ جو کام بڑوں کے لیے حرام ہے وہ بچوں کے لیے بھی درست نہیں اور ان کے عمل کے ذمہ دار والدین اور سرپرست ہوں گے، ان سے اس سلسلہ میں بازپرس ہوگی، اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اس قسم کے فضول کھیلوں سے دور رکھیں اور ایسے کھیلوں کی طرف رغبت دلائیں جن سے ان کے جسمانی نشوونما میں مدد مل سکے اور ان کی ذہنی و فکری تربیت کا ذریعہ ہو، بچوں کا ذہن بڑا حساس ہوتا ہے وہ ہر اچھی بری چیز کی طرف بڑی تیزی سے لپکتا ہے ، یہاں تک کہ آگ کے دہکتے ہوئے شعلے کی طرف بھی ، کیا ماں باپ اس کو گوارا کریں گے کہ ان کے دیکھتے ہوئے بچہ شعلہ کو ہاتھ میں لے لے؟ یقینا کوئی اسے برداشت نہیں کرسکتا، پھر آپ ان کے لیے ایسے کھیلوں کو کیونکر گوارا کرلیتے ہیں جو ان کے ذہن و دماغ کو جلاکر خاکستر کر دیتاہے، ایک معمولی کھیل ان کی ذہنی و جسمانی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے، یہ بچے خدا کی امانت ہیں، ان کی پرورش اسی احساس اور جذبہ کے تحت ہونی چاہیے ، اگر ان کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی برتی گئی ، ان کو غلط راستے پر ڈالا گیا تو اللہ کے یہاں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
کبوتر اور پتنگ بازی:
اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا : شیطان چڑیل کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔(ابوداؤد 675/2، ابن ماجہ /267)
علامہ شوکانی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ حدیث بتلارہی ہے کہ کبوتر سے کھیلنا مکروہ ہے ، اور ان کھیلوں میں سے ہے جس کی اجازت نہیں، علماء کی ایک جماعت نے اسے مکروہ کہاہے لیکن اگر حدیث کی صحت تسلیم ہے تو اس کا حرام ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس سے کھیلنے والے کو شیطان کہنا اس کی واضح دلیل ہے اور کبوتر کو چڑیل اس لیے کہا گیا کہ وہی اس کھیل کے لیے سبب بنتاہے یا اس وجہ سے کہ وہ شیطانوں جیسا کام کرتاہے کیونکہ انسان اس کی متابعت پر فریفتہ اور شیفتہ ہوتاہے اور اس کی خوبصورتی و نغمہ سنجی کی وجہ سے اس سے کھیلتارہتاہے۔(نیل الاوطار 94/8)
شوکانی کی اس تشریح سے معلوم ہوا کہ کبوتربازی حرام ہے اور بعض علماء کے نزدیک مکروہ ہے ، لیکن حرمت و کراہت کا اختلاف اسی وقت ہے جبکہ جوا نہ ہو اگر اس میں ہارجیت پر معاوضہ مقرر ہو تو بہ اتفاق حرام ہے بلکہ گناہ بالائے گناہ ہے ۔ البتہ صرف پالنے کی غرض سے اور دل بہلانے کے مقصد سے کبوتر رکھنا درست ہے ، بشرطیکہ اس میں ہمہ تن مصروف نہ ہوجائے ۔ مجمع الانہر میں ہے:
جوشخص پرندوں سے کھیلتاہے، اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی ، اس لیے کہ وہ اس میں مدہوش رہتاہے اور ایک قسم کے ’’لہو‘‘ (کھیل) پر اصرار کرتاہے۔ اگر وہ کبوتردل بہلانے کے لیے رکھتاہے ، اسے اڑاتانہیں ہے تو اس کی عدالت ساقط نہیں ہوگی، اس لیے کہ کبوتر گھر میں رکھنا جائز اور مباح ہے۔(مجمع الانھر 198/2کتاب الشہادات)
پتنگ بازی بھی ان کھیلوں میں سے ہے جن میں وقت ضائع کرنے کے سوا کوئی فائدہ نہیں، نیز اس میں بے فائدہ مال کا ضائع کرنا بھی ہے ، اس لیے بہرصورت مکروہ ہے ، خواہ ہار جیت کی بازی ہو نہ ہو۔ (دیکھئے رد المحتار 482/5)
مرغ و تیتر بازی:
مرغ و تیتر بازی ایک انتہائی بہیمانہ فعل ہے اور شقاوت و سنگ دلی کی انتہا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ، یہ اس قوم کا طریقہ اور شیوہ ہے ، جس پر اللہ کا دردناک عذاب نازل ہوچکا ہے، میری مراد اس سے قوم لوط ہے ، یہ ایک بدترین قسم کی مقابلہ بازی ہے ، ہار جیت پر کوئی رقم مقرر ہویا نہ ہو بہر حال حرام ہے۔(دیکھئے روضۃ الطالبین 351/10للنووی)، اللہ کے رسول ﷺ نے صراحتاً اس سے منع فرمایا ہے:
نھی النبی ﷺ عن التحریش بین البھائم ۔
نبی ﷺ نے جانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع کیا ہے۔(ابوداؤد :2562.ترمذي :1708)
ایک جانور جس کے پاس زبان نہیں کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو الفاظ کی شکل دے سکے، اپنی فریاد کو پیش کرسکے وہ اپنی بے بس نگاہوں سے رحم کی دہائی دیتا ہے مگر انسان کی درندگی اور سنگ دلی دیکھئے کہ وہ اس منظر سے لطف اندوز ہوتاہے، اس کی ترحم آمیز نگاہوں کا جواب ظالمانہ مسکراہٹ سے دیتاہے، اے کاش یہ اس دن سے ڈرتا جس دن کہ یہ خود بے بس اور مجبور ہوگااور اللہ ان بے جان جانوروں کو قوت گویائی عطا کریں گے اور یہ اس کے تمام جرائم کا گن گن کر بدلہ لیں گے۔
بے فائدہ کھیل کا دیکھنا:
وہ کھیل اور تماشا جو اسلامی نقطۂ نظر سے درست نہیں ان کا دیکھنا بھی جائز نہیں ، یہاں تک کہ ایسے کھیل کود کی آواز سننا بھی مکروہ ہے۔(البحر الرائق 207/8)،
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ.
اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (سورہ المؤمنون : 3)
تفسیر:
لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا.
(آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
حضرت شیخ الہندرحمہ اللہ لکھتے ہیں: "خود تو لہو و لعب میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اگرکوئی اور شخص مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔(فتاویٰ مفتی محمود،کتاب الحظرالاباحہ،11/295،جمعیۃ پبلیکیشنز)
اس لیے ٹیلی ویژن پر بے فائدہ کھیل و تماشا دیکھنا ناجائز ہے ، خواہ براہ راست ٹیلی کاسٹ ہو یا بالواسطہ ، خاص کر حرمت اس وقت اور دو چند ہوجاتی ہے جبکہ ستر پوشی کا کوئی اہتمام نہ ہو۔ اور دیکھنے میں مشغول ہوکر نماز و دیگر واجبات سے غافل ہوجائے، اسی طرح ریڈیو پر ایسے کھیلوں کے نشریہ کو سننا مکروہ ہے۔
واضح ہوکہ مرد کے لیے ناف سے لے کر گھٹنے تک چھپانا ضروری ہے۔
جوشخص ایسے کھیلوں میں مشغول ہو امام ابویوسف کے یہاں اسے سلام کرنا مکروہ ہے، امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ سلام کرنا جائز ہے کیونکہ جتنی دیر میں وہ سلام کا جواب دے گا ، کم از کم اتنی دیر تک تو وہ گناہوں سے محفوظ رہے گا۔(بدائع الصنائع 127/5)
انشورنس:
سود تمام اخلاقی برائیوں کی جڑ ہے ، اسے شریعت نے جس قدر سختی اور شدت سے منع کیا ہے شاید ہی دوسرے احکام کے سلسلے میں اس قدر سختی برتی ہو۔ ارشاد باری ہے:
فان لم تفعلوا فأذنوا بحرب من اللہ ورسولہ. (سورہ البقرۃ)
اگر تم سودی کاروبار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو تو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔
زبان رسالت نے اس کی قباحت و شناعت میں مزید شدت پیدا کردی ارشاد ہے:
سودی معاملہ کرنے والے کو ستر قسم کے گناہ ہوتے ہیں جس میں سب سے ادنیٰ درجہ کا گناہ اپنی ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے ۔ (مشکاۃ 246/1)
صرف سودی معاملہ کرنے والا ہی مجرم نہیں بلکہ اس معاملہ میں کسی درجہ میں تعاون کرنے والا بھی برابر کا شریک ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا:
سود لینے والے ، دینے والے ، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور سودی معاملہ ک گواہ ان تما م پر اللہ کی لعنت ہے۔(مسلم، ابوداؤد، ترمذی ۔ جمع الفوائد 248/1)
اس کی شدت اور سنگینی کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے اس کے شائبہ تک سے بچنے کا حکم دیا اور فرمایاکہ سود کو چھوڑدو اور جس معاملہ میں سود کے ہونے کا شک و شبہ ہواسے بھی چھوڑدو۔(مشکاۃ246/1)
مگر افسوس کہ اب وہ زمانہ آگیا ہے جس کی پیشین گوئی اللہ کے رسول نے فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ حرام کو حلال نام دے کر استعمال کریں گے، وہ شراب کو پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر۔(بخاری837/2، مسنداحمد318/5)
انشورنس جو سود و قمار کا ایک معجون مرکب ہے ، اسے امداد باہمی اور تعاون جیسے خوبصورت و دلکش عنوان سے جائز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انشورنس حرام ہے:
انشورنس میں بنیادی طور پر دو حرام عنصر شامل ہیں:ایک سود ، دوسرے جوا۔ سود اس طور پر کہ کمپنی پالیسی ہولڈر کو خطرہ پیش آجانے کی صورت میں خواہ اس نے پریمیم کی چند ہی قسطیں ادا کی ہوں، مکمل رقم ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے مثلاً پالیسی ہولڈر نے ابھی متعینہ دو ہزار رقم میں سے صرف دو سو ادا کیا تھا کہ جس خطرہ کے لیے انشورنس کرایا تھا وہ خطرہ پیش آگیا اس صورت میں بیمہ کمپنی معاہدہ کے مطابق مثلاً بیس ہزار روپے ادا کرتی ہے اور اگر حادثہ پیش نہیں آیا اور اس نے مکمل قسط جمع کردی تو اب کمپنی اصل رقم کچھ اضافہ کے ساتھ واپس کرتی ہے ، سوال یہ ہے کہ کمپنی دونوں صورتوں میں جو زائد رقم اس کو دے رہی ہے وہ کس چیز کا معاوضہ ہے؟ ظاہرہے کہ یہ اس قرض کا معاوضہ ہے جو اس نے بیمہ کمپنی میں پریمیم کے نام سے جمع کیا ہے اور اسلام میں اسی کا نام سود ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ لکھتے ہیں:
الربا ھو القرض علی ان یؤدی الیہ اکثر أو افضل مما اخذ۔(حجۃ اللہ البالغہ 98/2)
ربا اس طور پر قرض دینا ہے کہ اسے اس سے زیادہ یا اس سے بہتر واپس ملے گا۔
جو لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سود صرف تجارت میں ہے ، قرض میں نہیں ہے وہ بدترین قسم کی تحریف معنوی میں مبتلا ہیں۔ قرآن پاک کی آیت:
احل اللہ البیع وحرم الربا۔
اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور ربا کو حرام قرار دیا ہے۔(سورہ البقرۃ)
اسی سودی قرض کے لیے ہی نازل ہوئی ہے ۔امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں:
یہ بات بالکل ظاہرہے کہ زمانہ جاہلیت کا سود قرض میعاد کی شکل میں لیا جاتا تھا جس میں زیادتی کی شرط لگادی جاتی تھی ، یہ زیادتی مہلت کا بدل ہوتی تھی ، اللہ نے اسے حرام قرار دیا۔(احکام القرآن 186/2) قرض میں سود کا ہونا، ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس سے انکار کسی صاحب علم کے لیے ممکن نہیں اور یہ ایک ایسا اجتماعی اور اتفاقی مسئلہ ہے جس سے انحراف کی گنجائش نہیں جولوگ سطحی قسم کی دلیلوں کا سہارا لے کر اس سے انحراف
کرتے ہیں وہ شریعت محمدیہ پر بہتان باندھتے ہیں۔
انشورنس میں دوسری بڑی خرابی ’’قمار‘‘(جوا) ہے کیونکہ اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر پالیسی ہولڈر وقت سے پہلے مرجائے تو اس کو ایک خطیر رقم ملے گی اور اگر وقت معینہ میں کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تو اس کی بہ نسبت کچھ کم رقم ملے گی۔ بالفاظ دیگر وقت مقررہ سے پہلے مرجانا یا حادثہ پیش آجانا یہ پالیسی ہولڈر کے لیے جیت ہے اور وقت مقررہ کے بعد موت ہار ہے ، یہ شکل صراحتاً جوئے کی ہے کیونکہ موت کا آنا گو کہ یقینی ہے مگر کون کس وقت مرے گا یہ غیریقینی ہے اور کسی غیریقینی واقعہ کو نفع و نقصان کا مدار بنانا ہی قمار ہے۔ (تعلیق الملک علی الخطر۔مبسوط 59/12) مغربی مفکرین کو بھی احساس ہے کہ انشورنس اور دوسرے قمار آمیز طریقوں میں باہم فرق کرنا بڑا مشکل ہے ، جسٹس فولٹن ایک مقدمہ میں لکھتا ہے:
بلا لحاظ اس کے کہ اس بات کی کوئی سند ہے یا نہیں بظاہر یہ کہنا سخت مشکل ہے کہ آخر اصولاً کیا فرق ہے اس معاہدہ میں کہ ’’الف‘‘ ایک سالانہ رقم ’’ب‘‘ کو اس شرط پر دیتا رہے گا کہ ایک خاص مدت کے اندر ’’الف‘‘ کی موت واقع ہوجانے کی صورت میں ’’ب‘‘ ایک بڑی رقم اداکرے گا اور اس معاہدہ میں ایک چھوٹی رقم اس شرط پر دی جائے کہ ایک خاص گھوڑا دوسرے گھوڑوں سے آگے نکل گیا تو دوسرا فریق ایک بڑی رقم ادا کرے گا۔
اور لارڈ بریمول مقدمہ سالٹ بنام نارتھیمن میں لکھتا ہے:
ہر بیمہ زندگی ایک قسم کے جوئے کی شرط ہے ۔ میں بیس پونڈ سالانہ کی بازی جیتے جی اس امید پر لگاتا ہوں کہ اگر میری موت کا واقعہ پیش آگیا تو کچھ لوگوں کو ایک ہزار ملیں گے، اگرمیں جلدی مرگیا تو جیت گیا اور دیرمیں مروں تو ہار گیا۔ (بینکنگ اور انشورنس از سید ابوالاعلیٰ مودودی)
انشورنس ہندوستان میں:
ہندوستان میں آئے دن کے مسلم کش فسادات کے پس منظر میں فقہ اکیڈمی سے منسلک علماء کرام نے مسلمانوں کے جان و مال کو درپیش خطرات کے باعث ضرورتاً انشورنس کی اجازت دی ہے لیکن اس سلسلہ میں سب سے اہم بات جو ان کی نظروں سے شاید اوجھل رہ گئی ہے یہ ہے کہ ہندوستان کی نسبت سے فسادات روکنے کی تدبیر کے طور پر اسے تجویز کرنے میں جہاں منافع ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہیں بلکہ نقصان نفع سے بڑھا ہوا ہے، کیونکہ فطری اور طبعی طور پر مسلمانوں کے ذہن میں سود اور جوا کی جو قباحت و شناعت جاگزیں ہے اضطراراً اس کو مستقل اپنانے کی وجہ سے رفتہ رفتہ دینی و اخلاقی حس ختم ہوتی چلی جائے گی پھر ایک بری چیز کی برائی کا احساس بھی باقی نہیں رہے گا۔ نیز ’’اضطرار‘‘ جس کی بنیاد پر حرام چیزیں وقتی طور پر جائز ہوجاتی ہیں ایک انفرادی حکم ہے، لیکن پوری کی پوری قوم اسے مستقل طور پر قرار داد پاس کرکے اپنائے، یہ ’’اضطرار‘‘ کے مفہوم سے بہت بعید ہے بلکہ یہ ایک طرح سے اجتماعی خودکشی کے مترادف ہے۔
لاٹری:
شکلوں کی تبدیلی سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ہے ، زمانہ قدیم میں پانسوں کے ذریعہ جوا کھیلا جاتاتھا اور آج اس کی جگہ لاٹری نے لے لی ہے ، دونوں کی حقیقت ایک ہے گو شکلیں کچھ بدلی ہوئی ہیں، شراب وہی پرانی ہے البتہ بوتل نئے طرز کی ہے ، ’’بلیک‘‘ کے قانونی ڈکشنری میں لاٹری کی یہ تعریف کی گئی ہے:
کسی قیمت کے بدلے انعام حاصل کرنے کا موقع (chance)حاصل کرنا لاٹری ہے۔
اس تعریف کا تجزیہ کرتے ہوئے اسی ڈکشنری میں آگے کہاگیاہے :
لاٹری کے تین لازمی عناصر ہیں ایک مالی معاوضہ(جوداؤپر لگایا جاتاہے) دوسرے انعام، تیسرے چانس اور لاٹری ہر اس اسکیم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ کسی شخص کو کچھ مالی معاوضہ کے بدلے اس بات کا موقع دیاجاتاہے کہ وہ یا تو انعام حاصل کرے یا کچھ حاصل نہ کرے اس کا فیصلہ کلی طور سے چانس کے ذریعہ کیاجاتاہے۔(البلاغ اکتوبر 1992ء)
غرضیکہ بخت و اتفاق کے دوسرے کھیلوں کی طرح لاٹری بھی ہے جس میں ایک قلیل رقم کو اس امید پر داؤ پر لگایا جاتا ہے کہ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو ایک خطیر رقم ہاتھ آئے گی ۔ اس رقم کے حاصل ہونے کا دارومدار محض چانس اور اتفاق پر ہے اور یہ جوا ہے کیونکہ جوا کی تعریف جیساکہ بارہاگذرچکی ہے یہ ہے کہ ہر دو طرف سے مال ہو اور مال کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد محض چانس اور اتفاق ہو، جصاص رازی لکھتے ہیں
لاخلاف بین أھل العلم فی تحریم القمار وان المخاطرۃ من القمار(احکام القرآن 288/1)
اہل علم کے درمیان جوا کے حرام ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس میں کچھ بھی اختلاف نہیں ہے کہ مخاطرہ قمار ہی ہے (مخاطرہ کا مفہوم اوپر بیان ہوچکاہے۔)
لاٹری میں جوا کی دیگر خرابیوں کے علاوہ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں کھلے عام احکام خداوندی کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ، جسے اللہ نے گندگی اور شیطانی عمل کہاہے، اس کے ارتکاب کی کھلے طور پر دعوت دی جاتی ہے ، ایک ناجائز اور حرام چیز
کی برائی کا احساس تک باقی نہیں رہتا، یہ چیز انتہائی سنگین صورت حال کی غمازی کرتی ہے ، جن کے دل خدا اور آخرت کے خوف سے خالی ہوں، جن کے یہاں حرام و حلال کا کوئی تصور نہ ہو ، وہ اگر ایسا کریں تو کچھ تعجب کی بات نہیں لیکن افسوس کہ مسلمان جن کے پاس ایک مکمل قانون ہے ، جن کے یہاں حرام و حلال کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے، جن کے ہاتھوں میں ایک روشن چراغ ہے ، وہ بھی اس اندھیرے میں لوگوں کو چراغ دکھانے کے بجائے اندھیرے میں اندھوں کے پیچھے چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اے کاش مسلمان اپنے فرض منصبی کو پہچانتے اور اندھیرے میں بھٹکنے کے بجائے اسلام کی روشنی میں خود چلتے اور لوگوں کو چلنے کی دعوت دیتے۔
صرف لاٹری نکالنا ہی حرام نہیں بلکہ لاٹری ٹکٹوں کو فروخت کرنا ، اس کا ایجنٹ بننا اور کسی بھی درجہ میں تعاون کرنا ناجائز اور نادرست ہے۔ اللہ پاک کا ارشادہے:
ولاتعاونوں علی الاثم والعدوان واتقوا اللہ ان اللہ شدید العقاب۔
گناہ اور ظلم میں مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے ۔
علامہ شبیر احمدعثمانی اس آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
حق پرستی، انصاف پسندی اور تمام عمدہ اخلاق کی جڑ خدا کا خوف ہے ، اگر خدا سے ڈر کرنیکی سے تعاون اور بدی سے ترک تعاون نہ کیا تو عذاب عام کا اندیشہ ہے۔
بلاشبہ لاٹری ایک برائی ہے ، گندگی ہے ، اس کے ٹکٹ کو خرید نا یا کسی بھی درجہ میں اعانت کرنا جرم اور حکم خداوندی سے کھلی بغاوت ہے۔
آخری بات:
موجودہ دورمیں رائج جوئے کی مختلف شکلیں آپ کے سامنے آچکی ہیں، جوئے کی حقیقت اور اس کی حرمت سے بھی آگاہ کیا جاچکاہے، اس کے باوجود بھی اگر کسی معاملہ کے متعلق شبہ ہو کہ یہ جوا ہے یا نہیں؟ تو اس وقت اللہ کے رسول ﷺ کے اس ارشاد کے پیش نظر اس سے دست کش ہوجانا ہی کامیابی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
حلال و حرام کو واضح طور پر بیان کردیا گیاہے لیکن اس کے باوجود بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو معلوم نہیں کہ وہ حلال ہیں یا حرام؟ جو شخص ایسی چیزوں کو اپنی آبرو اور دین کی حفاظت کی غرض سے چھوڑدے تو وہ سلامتی میں رہے گا اور جو ایسی چیزوں کو کرگذرے تو ایسے شخص کا حرام میں مبتلاہوجانا کچھ بعید نہیں ہے ، جس طرح کوئی شخص ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد اپنے جانور کو چراتا ہے تو ہوسکتا ہے جانور کبھی چراگاہ میں پڑجائیں۔ سنو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے اور یاد رکھو ! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔(بخاری، مسلم ، ترمذی)
جوا، لاٹری اور انشورنس سے حاصل شدہ رقم حرام ہے اور جس جسم کی پرورش حرام
مال سے ہو ، جن رگوں میں حرام دولت سے تیار شدہ خون گردش کرتاہو ، جس جسم کی نشوونما میں ناجائز غذا شامل ہو اس کے بارے میں اللہ کے رسول کا تہدید آمیز فرمان یہ ہے:
لایدخل الجنۃ جسد غذی بالحرام(مشکوٰۃ)
حرام غذا سے پروان چڑھنے والاجسم جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
نیز آپ نے فرمایا:
لایدخل الجنۃ لحم نبت من السحت وکل لحم نبت من السحت کانت النار اولی بہ (مشکاۃ)
وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جس کی نشوونما حرام سے ہوئی، ہر وہ گوشت جو حرام سے پلا بڑھا ہو وہ آگ کا زیادہ مستحق ہے۔
حرام مال سے کوئی نیکی کا کام انجام دینا ، صدقہ و خیرات کرنا نامقبول ہے بلکہ الٹے وبال جان ہے ، اس میں کوئی برکت نہیں، پس چند روز کی چمک دمک ہے ، اگر اسے چھوڑکر مرجائے تو جب تک وہ موجود رہے گا ، اس کا عذاب اسے ملتارہے گا ، گھر والے توعیش کریں گے اور اس کے حصہ میں جہنم کی تپش اور سوزش آئے گی ، نبی اکرم ﷺ کاارشادہے:
کوئی حرام مال سے صدقہ کرے تو وہ قبول نہیں ہوتاہے، اس میں سے جو کچھ وہ خرچ کرتاہے اس میں برکت بھی نہیں ہوتی اور جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑجاتاہے تو وہ جہنم کے لیے توشہ بن جاتاہے، بیشک اللہ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتاہے، بلکہ برائی کو نیکی سے ختم کرتاہے، بلاشبہ گندگی، گندگی کو ختم نہیں کرسکتی۔(رواہ احمد)
حیلے ، بہانے اور مختلف تدبیروں سے کسی حرام کو حلال کرلینے سے وہ حقیقتاً حلال نہیں ہوجائے گا بلکہ اس طرح کے حیلے اور تدبیروں کی سخت مذمت کی گئی ہے ، یہودیوں کو سنیچر کے روز شکار کرنے سے منع کیاگیاتھا اور اس دن ساحل پر مچھلیاں بکثرت آیا کرتی تھیں، لالچ پیداہوئی مگر حکم خداوندی آڑے آیا ، ذہن نے تدبیر بتلائی کہ ساحل کے اردگرد گڑھا کھود لو سنیچر کے روز مچھلیاں اس میں آکر جمع ہوجائیں گی ، دوسرے دن آسانی سے پکڑلینا، اللہ تعالیٰ نے اس چالبازی کی بڑی سخت سزادی ، دنیا ہی میں ان کے چہروں کو بگاڑ دیا، وہ بندر بنادئے گئے، قرآن نے اس واقعہ کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے۔
ولقد علمتم الذین اعتدوا منکم فی السبت فقلنا لھم کونوا قردۃ خاسئین(بقرہ:65)
تم ان لوگوں سے واقف ہو جنہوں نے سنیچر کے سلسلہ میں خدائی حکم سے تجاوز کیا تھا (اس جرم کی سزا میں )ہم نے ان سے کہاکہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔
دنیامیں حیلے اور بہانے سے لوگوں کو مطمئن کیاجاسکتاہے، مفتی سے غلط فتویٰ حاصل کیا جاسکتا ہے ، مگر یاد رکھئے! ایک دن ایسا بھی آنے والا ہے ، جہاں چالبازیوں کی حقیقت کھل جائے گی ، تخیل کی یہ پروازیں دم توڑ دیں گی، الفاظ کے گھروندے ریت کے ذروں کی طرح بکھر جائیں گے، جسم کا ہر حصہ خود اس کے خلاف گواہی دے گا، اس دن توبہ کرنا، پچھتانا، آنسو بہانا کوئی کام نہ آئے گا، لہٰذا اے انسان! اس سے پہلے کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے، خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو اپنی زندگی کا دستور بنالے کیونکہ اسی میں تیرے دین اور دنیا کی بھلائی مضمر ہے۔ دنیاوی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے اور عقبیٰ کی جیت بھی یقینی ہے ، یہی تیری تنگدستی اور بدحالی کا واحد علاج ہے ، پسماندگی اور پستی کا مداوا ہے۔
شائع شدہ: ماہنامہ انوار العلوم جہاناگنج اعظم گڑھ ۔مئی 1996ء سے متعدد قسطوں میں۔