لباس اور زینت۔
ولی اللہ مجید قاسمی ۔
لباس اور ستر پوشی انسانی فطرت اور تہذیب و شائستگی کی علامت ہی نہیں بلکہ زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت بھی ہے ، لباس اولاد آدم کی وہ خصوصیت ہے جس سے وہ دیگر حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے ، لباس شرم و حیاء کے فطری تقاضوں کی تکمیل ہی نہیں تہذیب وتمدن کا ایک معیار بھی ہے ، یہی وجہ ہے کہ تخلیق انسانی کے ابتدائی دور ہی میں ستر پوشی کی طرف رہنمائی کی گئی ۔
’’ اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَؤُ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی‘‘۔
’’(اے آدم ) جنت میں تم کبھی بھوکے نہ ہوگے اور نہ ننگے ، نہ تمہیں پیاس لگے گی اور نہ دھوپ میں تپوگے ‘‘۔(سورۂ طٰہٰ: 118،119)
اور آگاہ کردیا گیا کہ خبردار اس سلسلہ میں شیطان کی فریب کاریوں کا شکار نہ ہوجانا ، وہ تمہیں انسانیت کی سطح سے گراکر جانوروں کی طرح ننگا اور بے پردہ کرنے کی کوشش کرے گا ، لیکن حضرت آدم اور حوا کو شیطان نے دھوکا دیا اور انھوں نے ممنوعہ درخت کو کھالیا جس کے نتیجے میں جنتی لباس اُتاردیا گیا ۔
’’ فَدَلّٰھُمَا بِغُرُوْرٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا ‘‘۔
’’شیطان دونوں کو دھوکے دے گیا ، جب دونوں نے درخت کا پھل چکھا تو ان کے ستر بے پردہ ہوگئے ‘‘۔(سورۂ الاعراف :22)
لیکن جذبہ حیا اور فطرت کے تقاضوں سے مجبور ہوکر دونوں درخت کے پتوں سے اپنا تن ڈھانکنے لگے ۔
’’ وَطَفِقَا یَخْصِفَانِ عَلَیْھِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ‘‘۔
’’اور دونوں اپنے اوپر درخت کے پتے چپکانے لگے ‘‘۔(سورہ الاعراف :23)
حضرت آدم و حواء سے یہ لغزش ہوچکی ، اس لیے اب آدم کے بیٹوں اور حواء کی بیٹیوں سے خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ ، کہ تم اب شیطان کے پھندے میں نہ آجانا ، کیونکہ وہ تمہارا اَزلی دشمن اور لباسِ انسانیت کو تار تار کرنے والا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ لَا یَفۡتِنَنَّکُمُ الشَّیۡطٰنُ کَمَاۤ اَخۡرَجَ اَبَوَیۡکُمۡ مِّنَ الۡجَنَّۃِ یَنۡزِعُ عَنۡہُمَا لِبَاسَہُمَا لِیُرِیَہُمَا سَوۡاٰتِہِمَا۔
’’اے آدم کی اولاد ! شیطان تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوادیا ۔ اس طرح دونوں سے ان کا لباس اتروادیا جس سے وہ دونوں بے پردہ ہوگئے ‘‘۔(سورہ الاعراف :27)
اور بطور احسان فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے تمہارے لیے ایسے اسباب مہیا کردیئے ہیں کہ جس سے تم زمین میں جاکر پوشش کاسامان بہم پہنچا سکتے ہو ، اس لیے اس سمت بے توجہی نہ ہو اور ہمیشہ تن ڈھانکے رہنا ۔
’’ یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِباَساً یُّوَارِیْ سَوْاٰ تِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْویٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ ‘‘۔
’’اے اولاد آدم ! ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور زیب وزینت بھی ہے ، اور تقویٰ کا لباس وہی بہتر ہے ‘‘۔ (سورہ الاعراف : 26)
حضرت آدم وحواء کے اس واقعہ میں باربار لباس کے تذکرہ سے جہاں لباس کی اہمیت ، تاکید اور وجوب کی وضاحت ہوتی ہے وہیں اس بات کی طرف اشارہ بھی مقصود ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے پہلے ’’لباس تقویٰ‘‘ سے محروم کردیتا ہے ،اور شرم و حیاء کے جوہر کو چھین لیتا ہے پھر یہ ظاہری لباس ایک بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے،یہاں تک کہ مختلف حیلوں اور تدبیروں سے اسے بھی جسم سے علاحدہ کردیتا ہے ، معلوم ہوا کہ لباس باطنی ( تقویٰ ) اور لباس ظاہری میں ایک مضبوط رشتہ ہے ، اسی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے آیت کے آخر میں ’’ لباس التقویٰ ذٰلک خیر ‘‘ کہا گیا ۔
حدیث میں مختلف پیرایہ سے لباس کی طرف توجہ دلائی گئی ، بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ تنہائی میں بھی بلا ضرورت برہنہ ہونا بہتر نہیں تاکہ شرم وحیاء انسان کی عادت اور خصلت بن جائے ، زبان نبوت سے ارشاد ہوتا ہے :
” إِيَّاكُمْ وَالتَّعَرِّيَ ؛ فَإِنَّ مَعَكُمْ مَنْ لَا يُفَارِقُكُمْ إِلَّا عِنْدَ الْغَائِطِ، وَحِينَ يُفْضِي الرَّجُلُ إِلَى أَهْلِهِ، فَاسْتَحْيُوهُمْ وَأَكْرِمُوهُمْ ". عن ابن عمر
’’ لوگو! برہنگی سے بچو ، کیونکہ تمہارے ساتھ ایسے لوگ رہتے ہیں جو کبھی تم سے جدا نہیں ہوتے ( مراد فرشتے ہیں ) سواء قضاء حاجت اور ہم بستری کے وقت ، سو ان سے شرم کرو اور ان کا احترام کرو‘‘ ۔(ترمذی :107/2.حديث:2800)
ایک دوسری حدیث میں ہے ۔
احْفَظْ عَوْرَتَكَ إِلَّا مِنْ زَوْجَتِكَ أَوْ مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ". قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا كَانَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ ؟ قَالَ : ” إِنِ اسْتَطَعْتَ أَلَّا يَرَيَنَّهَا أَحَدٌ فَلَا يَرَيَنَّهَا ". قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَا كَانَ أَحَدُنَا خَالِيًا ؟ قَالَ : ” اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ ".
’’اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر ، بجز اپنی بیوی اور لونڈی کے ، راوی کہتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا ، یا رسولﷲ! جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ (سفر وغیرہ) میں ہوں تو ؟ فرمایا ! اگر تجھ سے ہوسکتا ہے کہ کوئی نہ دیکھے تو ضرور ایسا کرو ، میں نے عرض کیا جب ہم میں سے کوئی تنہائی میں ہو تب ؟ ارشاد فرمایا ! ﷲ تعالیٰ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے‘‘۔( ابوداؤد:4017, ترمذی:105/2، ابن ماجہ: 138/1)
ہم بستری اور ضرورت کے وقت ستر کھولنے کی اجازت دی گئی ہے مگر حسب ضرورت۔
’’ اذا أتیٰ أحدکم أھلہ فلیستتر ولا یتجرد تجرد العیرین ‘‘.
’’جب تم اپنی بیوی کے پاس آنا چاہو تو گدھے کی طرح بالکل ننگے نہ ہوجایا کرو‘‘ ۔(ابن ماجہ: 138/1)
غسل کے وقت بھی بلا ضرورت بے لباس ہونے سے روکا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
’’ من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلا یدخل الحمام الا بمئزرٍ‘‘۔
’’جو کوئیﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ غسل خانہ میں بغیر لنگی کے داخل نہ ہو‘‘ ۔(ترمذی: 107/2)
پوری امت کا اجماع اور اتفاق ہے کہ جسم کے کچھ حصے کو ( جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ) لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ رکھنا فرض ہے ، تنہائی میں ستر پوشی ضروری ہے یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں فقہاء کی رائیں مختلف ہیں ، شافعیہ اور حنفیہ کے یہاں راجح یہ ہے کہ تنہائی اور خلوت میں بھی طبعی اور شرعی ضرورت کے بغیر ستر کھولنا جائز نہیں ہے ، جبکہ مالکیہ کے یہاں تنہائی میں ستر پوشی صرف بہتر اور مستحب ہے(شرح مہذب 271/3 ،معارف القرآن 211/7 )
اوپر مذکورہ احادیث سے ان لوگوں کے نقطۂ نظر کی تائید ہوتی ہے جو تنہائی میں بھی ستر پوشی کو واجب اور ضروری قرار دیتے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ جنہیں ﷲ نے عقل سلیم سے نوازا ہے اور جن کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے وہ اگر ان ہدایات و ارشادات کا بغور مطالعہ کریں تو بے ساختہ بول اُٹھیں گے کہ انسانیت کی اس سے بڑی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی کہ ﷲ اور اس کے رسول نے لباس کا حکم دے کر جنسی انارکی ، طوفان بدتمیزی کے ایک بہت بڑے سیلاب پر بند لگادیا ہے ، ورنہ اس دنیا کی کیا حالت ہوتی سوچا نہیں جاسکتا ۔
لباس سے متعلق بنیادی اصول:
اسلام دین فطرت ہے ، اس لیے ہر معاملہ میں وہی تعلیم دیتا ہے جو فطرت کے مطابق اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ہو ، چنانچہ اس نے ستر پوشی کو واجب اور ضروری تو قراردیا لیکن اس کے لیے کوئی مخصوص وضع قطع متعین نہیں کی ، کیونکہ لباس کی ساخت ، تراش ، خراش اور نوعیت لوگوں کے مزاج و مذاق کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے ، موسم ، آب و ہوا ، جغرافیائی حالات و خصوصیات کے اعتبار سے بھی لباس میں تفاوت ناگزیر ہے ، نیز طرزِ معاشرت ، معاشی حالت ، تہذیب و شائستگی بھی لباس پر اثر انداز ہوتی ہے ، اس رنگارنگی اور اختلاف کے باوجود لوگوں کو کسی ایک لباس کا پابند بنانا مشکل اور دشوار تو ہے ہی خلاف فطرت بھی ہے ، اس لیے اسلام نے کسی خاص لباس کا پابند نہیں بنایا بلکہ اس سلسلہ میں چند رہنما اور بنیادی اصولوں پر اکتفا کیا تاکہ تمام لوگ اس اعتبار سے اپنے لباس کی اصلاح کرلیں ۔
واجبی لباس :
کم از کم لباس جو کسی مرد کے لیے ضروری ہے یہ ہے کہ وہ ناف سے لے کر گھٹنے تک کے حصے کو چھپالے حنفیہ کےیہاں ناف ستر میں داخل نہیں ہے جب کہ گھٹنہ ستر میں شامل ہے، دیگر ائمہ کے یہاں راجح قول کے مطابق ناف اور گھٹنا دونوں ستر میں داخل نہیں ہیں تاہم اس سے ملے ہوئے حصے کو چھپانا ضروری ہے (نہایۃ المحتاج 8/2، السراج الوہاج ، 52، الاقناع 120/2۔)
ایک عورت کے لیے منہ، ہاتھ، پاؤں کے علاوہ بقیہ تمام جسم کو چھپانا ضروری ہے، واضح رہے کہ یہ ستر کے احکام ہیں، حجاب اور پردہ کے حدود اس سے بھی زیادہ ہیں کہ اجنبی مردوں سے ہاتھ اور چہرہ وغیرہ کو بھی چھپانا ضروری ہے(الدرالمختار 237/5)
لباس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بدن کو چھپائے ، اس قدر باریک اور شفاف نہ ہو کہ کپڑا پہننے کے باوجود برہنہ اور بے لباس معلوم ہو ، اس کے اندر سے بدن جھلک رہا ہو ، اس کی ساخت اس قدر تنگ اور چست نہ ہو کہ جسم کے نشیب وفراز نمایاں ہوں ، حضرت دحیہ کلبی فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ کے پاس قبطی کپڑے(جسے مصر کے قبطی بنایا کرتے تھے ، باریک اور سفید رنگ کا ہوا کرتا تھا) لائے گئے ، آپ نے اس میں سے ایک کپڑا مجھے دیا اور فرمایا اس کے دو ٹکڑے کرلو ، ایک تم قمیص بنالو اور دوسرا ٹکڑا بیوی کو دے دو کہ دوپٹہ بنالے ، اور اس سے کہو کہ اس کے نیچے استر لگالے تاکہ بدن نہ جھلکے ۔ (ابوداؤد 568/2)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جہنمیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے دیکھا نہیں ، (یعنی وہ اس وقت تک موجود نہیں تھے ) ایک وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے ، جس کے ذریعہ وہ لوگوں کی پٹائی کریں گے ۔ (مراد ظالم حکمراں ہیں ) دوسری وہ عورتیں ہیں جو کپڑے پہنے ہوئی ہوں گی مگر ننگی ہوں گی ۔ وہ لوگوں کو مائل کریں گی اور خود مردوں کی طرف مائل ہوں گی ، ان کے سر اونٹ کے جھکے ہوئے کوہان کی طرح ہوں گے ، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی ، داخل ہونا تو دور کی بات ہے وہ اس کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پائیں گی ، حالانکہ اس کی خوشبو دور دور تک پھیلی ہوگی ۔(مسلم: 205/2)
ایک دور تھا کہ محدثین کو اس کی توجیہ کی ضرورت پڑتی تھی کہ ’’کاسیات عاریات ‘‘ ( جو کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی مگر اس کے باوجود ننگی ہوں گی )سے کیا مراد ہے ؟ چنانچہ مختلف توجیہیں ذکر کی گئی ہیں ، مگر کسے معلوم کہ ﷲ کے رسول ﷺ کی نگاہیں اس عہد کو دیکھ رہی تھیں جب کہ اس حدیث کی تشریح کے لیے کسی شرح کی ضرورت نہ ہوگی ، لوگوں کی عملی زندگی اس کی سراپا تفسیر بن جائے گی ، عہد حاضر میں ’’کاسیات عاریات ‘‘ کا نمونہ ہر شاہراہ پر آپ کو مل جائے گا ۔
ریشم اور سونے کا استعمال :
مرد و عورت دونوں کی جنس الگ ہے ، دونوں کی جسمانی ساخت میں تفاوت ہے ، ہر ایک کا میدان عمل جدا جدا ہے ، دونوں کے ذہن و مزاج میں فرق ہے ، ایک ’’خاتونِ خانہ ‘‘ ہے جو گھر کے لیے باعث زیب وزینت ہے تو دوسرے کے لیے فکرِ معاش کے لیے بادیہ پیمائی ، ایک کی زندگی کی انتہا گھر کی چہار دیواری ہے تو دوسرے کے لیے کائنات کی شش جہات ، اس فطری اور طبعی فرق کی بنا پر اسلام نے دونوں کے لباس میں بھی فرق رکھا ہے ، مرد کو زیورات اور ریشمی لباسوں کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس کا اصل جوہر مردانگی ، جرأت و بہادری اور طاقت و قوت ہے ، عیش پرستی اور آرائش و زیبائش مرد کی مردانگی کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے ، جس قوم کے مردوں میں یہ رجحان پیدا ہوجائے وہ صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادی جاتی ہے ۔
زیب وزینت اور آرائش کے سامانوں میں سونے ، چاندی اور ریشم کو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ایک نمایاں مقام حاصل ہے ، اور واقعہ ہے کہ یہ چیزیں عورتوں ہی کو زیب دیتی ہیں ، اسی لیے ﷲ کے رسول ﷺ نے بڑی سختی سے مردوں کے لیے ریشمی لباس اور سونے چاندی کے استعمال سے منع فرمایا ، حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ریشم کو اپنے داہنے ہاتھ میں اور سونے کو بائیں ہاتھ میں لے کر فرمایا :
’’ھٰذان حرام علیٰ ذکور امتی حل اناثھم۔
’’یہ دونوں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں اور عورتوں کے لیے حلال ہیں ‘‘۔(ابوداؤد:561/2)
نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’ انما یلبس الحریر فی الدنیا من لا خلاق لہ فی الآخرۃ‘‘۔
’’دنیا میں ریشمی لباس وہی پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ‘‘۔(بخاری: 867/2)
ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’ من کان یؤمن باﷲ والیوم الآخر فلا یلبس حریراً ولاذھباً ‘‘۔
’’جو کوئی ﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ ریشمی لباس اور سونا استعمال نہ کرے‘‘ ۔(الجامع الصغیر:639/2)
سونا مردوں کے لیے بالکل حرام ہے ، خواہ کم ہو یا زیادہ ، لیکن چاندی میں انگوٹھی کی حد تک اجازت ہے ، بشرطیکہ اس کا وزن ایک مثقال (4گرام ،374ملی گرام ) سے کم ہو ۔ (ابوداؤد:580/2،احناف اسی کے قائل ہیں ، درمختار: 225/5)
ریشم کے بارے میں قدرے تفصیل ہے ، اگر تانا ریشم ہو اور بانا ریشم نہ ہو اس کی اجازت ہے ،ایسے ہی ریشمی نقش ونگار کا کپڑا پہننے کی بھی گنجائش ہے ۔(ہندیہ:326/5، رد المحتار: 639/5)
حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے خالص ریشمی کپڑے سے منع فرمایا ہے ، اگر نقش ونگار ریشم کا ہو ، یا تانا سوت کا ہو تو کوئی حرج نہیں،(أخرجہ الطبرانی بسندٍ حسنٍ ، وأصلہ عند أبی داؤد وأخرجہ الحاکم بسند صحیح، اعلاء السنن : 238/17) خالص ریشم کی مقدار چار انگل کے بقدر ہوتو اس کی اجازت ہے ، حضرت عمر ؓ سے منقول ہے کہﷲ کے رسول ﷺ نے دو، تین ، چار انگل ریشم کی اجازت دی ہے ۔ (مسلم: 192/2)
سونا ، چاندی اور ریشم جس طرح سے بڑوں کے لیے ناجائز ہے ، بچوں کے لیے بھی حرام ہے اور پہنانے والا گنہ گار ہوگا ،(فتاویٰ قاضی خاں: 412/3)کیونکہ حدیث میں ’’ ذکور ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو بالغ و نابالغ ہر ایک کو شامل ہے ، نیز صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے بھی یہی ثابت ہے ، حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم ریشمی کپڑے بچوں کے اوپر سے اتار لیتے تھے اور بچیوں پر چھوڑ دیتے’’ (کنا ننزعہ عن الغلمان ونترکہ علی الجواری‘‘۔المغنی: 366/1)حضرت حذیفہ ؓ ایک مرتبہ سفر سے آئے دیکھا کہ ان کے بچے ریشمی لباس پہنے ہوئے ہیں ، سو آپ نے لڑکوں کے لباس کو پھاڑ دیا اور بچیوں کو چھوڑ دیا ،(حوالہ سابق)حضرت عبد ﷲ بن مسعود ؓ سے بھی اسی طرح کا واقعہ منقول ہے ۔ (اعلاء السنن : 352/17)
غیروں سے مشابہت :
اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے پیروکار حق کے طرفدار ، رفتار وگفتار ، معاشرت و کردار ، لباس وپوشاک ، حجاب ونقاب ، چال چلن ،اور رہن سہن میں نمایاں اور ممتاز ہوں ، خالص اسلامی تہذیب و تمدن کے حامل ہوں ، غیروں میں مل کر وہ اپنی حیثیت عرفی کو نہ گنوا بیٹھیں ، اپنی شناخت اور پہچان برقرار رکھیں ، اس لیے حدیث میں بڑی شدت سے غیر قوموں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ۔ حضور ﷺ نے دو ٹوک لفظوں میں فرمایا:
’’ من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘۔
’’ جو کسی قوم کی مشابہت اختیارکرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے‘‘ ۔(ابوداؤد : 559/2)
ایک اور موقعہ پر ارشاد ہوتا ہے :
’’ جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ، اس لیے یہود و نصاریٰ سے مشابہت اختیار نہ کرو‘‘ ۔(ترمذی :99/2)
نیز آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ راہبوں کی وضع قطع سے احتراز کرو ، جوکوئی ان کے لباس کو اختیار کرتا ہے یا تشبہ کرتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے ‘‘۔(فتح الباری: 272/10)
اسلام اس معاملہ میں بڑا حساس واقع ہوا ہے ، اس لیے ذخیرۂ حدیث میں ہمیں اس طرح کے بکثرت الفاظ ملتے ہیں کہ یہود کی مخالفت کرو ، نصاریٰ کی مخالفت کرو ، مجوس کی مخالفت کرو یعنی ان کا طریقۂ زندگی نہ اختیار کرو ، یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ کسی معاندانہ جذبہ کے زیر اثر ہے ، اورنہ اس میں کسی قومی ونسلی احساسِ برتری اور عصبیت کو دخل ہے ، بلکہ اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ظاہری مشابہت اور موافقت کا اثر ظاہر ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ وہ انسان کے دل تک سرایت کرجاتا ہے ، اور رگ وریشہ میں پیوست ہوجاتا ہے ، اگر کفار و مشرکین سے ظاہری یک رنگی اور ہم آہنگی اپنی جگہ محدود رہتی تو شریعت میں ان کی مخالفت کی اتنی شدت نہ ہوتی بلکہ یہاں تو اس کا معاملہ اُلٹا ہے کہ یہ ہم نوائی جہاں ظاہر کو گندہ کرتی ہے وہیں باطن کو بھی آلودہ کردیتی ہے اور دل کی گندگی اسلام کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتا ،کیونکہ اس کی اصلاح کا مرکز دل ہی تو ہے ۔
لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اولادِ آدم میں باہم بہت سی چیزیں مشترک ہیں ، اس لیے ہر بڑی چھوٹی چیز میں ممتاز ہونا مشکل اور دشوار ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ مشابہت کی حدیں واضح کردی جائیں ، تاکہ مسئلہ کی مکمل وضاحت ہوسکے ، ممنوع مشابہت کی عمومی طور سے چار صورتیں ہوسکتی ہیں :
1۔ مذہبی تشبہ:
کسی قوم کا مذہبی شعار ،اور طور طریقہ کو اختیار کرنا ، مثلاً زُنّارپہننا ، صلیب لٹکانا ، قشقہ لگانا وغیرہ ، یہ بہر طور ناجائز اور حرام ہے ، اور تشبہ کی بدترین شکل ہے ، فقہاء نے ایسے شخص کے بارے میں کفر کا حکم لگایا ہے ، فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’یکفر بوضع قلنسوۃ المجوس علیٰ راسہٖ علی الصحیح الا لضرورۃ دفع الحر والبرد وبشد الزنار فی وسطہٖ الا اذا فعل ذٰلک خدیعۃ فی الحرب وطلیعۃ للمسلمین‘‘ ۔
’’اور مجوسیوں کی ٹوپی پہننے کی وجہ سے تکفیر کی جائے گی ، مگر یہ کہ ضرورت کی بنا پر سردی و گرمی سے بچنے کے لیے لگائے ، ایسے ہی زنار باندھنے کی وجہ سے بھی تکفیر کی جائے گی مگر یہ کہ لڑائی میں تدبیر اور مسلمانوں کے لیے جاسوسی کی غرض سے ایسا کرے ‘‘۔( ہندیہ 276/2)
2۔ صنفی تشبہ:
مردکو عورت کی ہیئت اپنانا یا عورت کو مرد کی شکل و صورت اختیار کرنا ، صنفی تشبہ ہے ۔
مشابہت کے مفہوم میں بات چیت ، چال چلن ، لباس و پوشاک سب شامل ہیں ،اور جنس مخالف کی مشابہت اختیارکرنے والوں کو شریعت قابل لعنت ٹھہراتی ہے ، حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں ، اور ان مردوں پر بھی لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں ۔(بخاری 876/2)حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی جو مردانہ لباس پہنتی ہے ۔(رواہ ابوداؤد والحاکم فی المستدرک، وقال حدیث صحیح ، والجامع الصغیر 406/2)
3۔ قومی تشبہ:
قومی تشبہ سے مراد ان چیزوں کو اختیار کرنا، جو کسی قوم کے ساتھ خاص ہوں ، مثلاً کوٹ اور پتلون کسی زمانہ میں انگریزوں کا قومی لباس تھا ، یا جیسے دھوتی ہندوؤں کا مخصوص لباس ہے ، اور کسی دوسرے قوم کے مخصوص پہناوے کو اپنانا مکروہ اور ناجائز ہے ، لیکن یہ کراہت اسی وقت تک ہے جب تک خصوصیت باقی رہے ، عموم پیدا ہوجانے کے بعد یہ کراہت ختم ہوجائے گی ، حضرت تھانوی ؒ لندن میں انگریزی لباس پہننے کے بارے میں رقم طراز ہیں :
’’ میں اس باب میں یہ سمجھے ہوا ہوں کہ جس جگہ یہ لباس قومی ہے جیسے ہندوستان میں ، وہاں اس کا پہننا ’’من تشبہ بقومٍ فھو منھم ‘‘ میں داخل ہے ، اور جہاں ملکی ہے جس کی علامت یہ ہے کہ وہاں سب قومیں اور سب مذاہب کے لوگ ایک ہی لباس پہنتے ہیں وہاں پہننا کچھ حرج نہیں ‘‘۔(امداد الفتاویٰ)
4-تشبہ بالفساق:
جو لباس فساق وفجار ، بددین وبدکار لوگ پہنا کرتے ہیں اسے اپنانا بھی کراہت سے خالی نہیں لیکن یہ حکم بھی اسی وقت ہے جب تک کہ ان کے ساتھ مخصوص ہو ، دیکھنے والا سوچنے لگے کہ شاید یہ شخص بھی غلط کاروں کے گروہ کا ایک فرد ہے ۔
مذکورہ صورتوں کے علاوہ بقیہ چیزوں میں تشبہ اختیار کرنا ممنوع نہیں ہے بشرطیکہ شریعت میں صراحتاً اس کی ممانعت نہ آئی ہو ، مثلاً سلام کے لیے ہاتھ اٹھانے کی ممانعت آئی ہے کیونکہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے ، (ترمذی: 99/2) اب اگر یہ قومی مشابہت باقی نہ رہے عمومیت اختیار کرجائے پھر بھی یہ جائز نہ ہوگا ، واضح رہے کہ اگر دور ہونے کی وجہ سے زبان سے السلام علیکم کہہ کر ہاتھ سے اشارہ کردے تو جائز ہے ، بلا ضرورت صرف ہاتھ کے اشارہ سے سلام کرنا منع ہے ۔
کپڑے کا رنگ :
واقعہ ہے کہ لباس کے مسئلہ میں رنگ کی کوئی قید نہیں ، شریعت نے کسی خاص رنگ کے کپڑے کا پابند نہیں بنایا ہے ، سرخ اور مُعصفر (عصفرایک گھاس ہے جس سے زرد رنگ نکلتا ہے اور اس سے رنگے ہوئے کپڑے کومعصفر کہاجاتا ہے ) کپڑے کے علاوہ ہرطرح کے رنگین کپڑے استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔(درمختار: 228/5)
ان دورنگوں سے ممانعت کی وجہ بھی خود رنگ نہیں بلکہ خارجی اسباب ہیں، مثلاً عورتوں یا کفار سے مشابہت ، چنانچہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ایک صحابی کوزرد رنگ کے کپڑے سے منع کرتے ہوئے فرمایا :
’’ ان ھٰذا من ثیاب الکفار فلا تلبسھا‘‘ ۔
’’یہ کافروں کے کپڑے ہیں ان کو مت پہنو ‘‘۔(مسلم 193/2)
ایک صاحب کو زعفرانی کپڑا پہنے ہوئے دیکھ کر فرمایا :
’’أاِنک امرأۃٌ ‘‘؟
’’کیا تو عورت ہے ؟ ‘‘(اعلاء السنن : 365/17)
عورتوں کے لیے ان دونوں رنگوں کی بھی اجازت ہے ، یہ ایک طویل حدیث کا آخری ٹکڑا ’’معصفر ‘‘ کے سلسلہ میں یہ ہے ۔
’’ افلا کسوتھا بعض أھلک فانہ لابأس بہ للنساء‘‘ ۔
’’کیوں نہ اسے اپنے گھر والوں میں سے کسی کو دے دیا ، کہ وہ عورتوں کے لیے جائز ہے‘‘ ۔(ابوداؤد )
البتہ عدتِ وفات کے ایام میں معصفر، زعفرانی اور سرخ نیا لباس ان کے لیے بھی ممنوع ہے ، ہندیہ میں ہے :
’’خوشبودار ‘‘ معصفر ، سرخ اور زعفران سے رنگا ہوا کپڑا ( عدت وفات میں جائز نہیں ) الاّ یہ کہ وہ کپڑا دھلا ہوا ہو ، زعفران اس سے نہ جھڑتا ہو ۔ شمس الائمہ کہتے ہیں کہ مذکورہ کپڑوں سے مراد وہ ہے جو نیا اور قابل زینت ہو، اگر پرانا ہو ، اور باعثِ زیبائش نہ ہو تو کوئی حرج نہیں‘‘ ۔( الہندیہ523/1)
ذیل میں چند ایسے رنگین کپڑوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کا استعمال خود رسول ﷲ ﷺ سے ثابت ہے ۔
1۔ سبز لباس جنتیوں کا لباس ہے ، (فتح الباری: 282/10) ﷲ کے رسول ﷺ کو ہرے رنگ کے کپڑے پسند تھے اور آپ نے اسے پہنا بھی ہے ، حضرت ابورمثہ فرماتے ہیں کہ میں نے جسم مبارک پر دو سبز چادر یں دیکھیں ،(ابوداؤد: 562/2) حضرت یعلی بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول ﷲ ﷺ سبز چادر میں حرم کا طواف کررہے ہیں ، (حوالہ سابق 259/1)آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل کے پیش نظر فقہاء لکھتے ہیں کہ سبز لباس مسنون ہے ۔ (ردالمحتار: 223/5)
2۔ سیاہ رنگ کا لباس بھی حضور اکرم ﷺ نے استعمال فرمایا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کے لیے سیاہ اُون کا ایک جُبّہ بنایا اور آپؐ نے اسے پہنا ،(ابوداؤد ، نسائی ، مستدرک حاکم،فتح الباری:281/10۔) حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضور ﷺ فتح مکہ کے دن سیاہ عمامہ باندھے ہوئے تھے ، (نسائی: 299/2) ان احادیث کے مطابق سیاہ رنگ کا لباس بھی مستحب ہے ، (رد المحتار: 223/5۔) لیکن میت پر بطور اظہارِ غم سیاہ کپڑے کا استعمال جائز نہیں ، ہندیہ میں ہے :
’’ولا یجوز صبغ الثیاب الاسود أو أکھب تأسفاً علی المیت‘‘(ہندیہ: 333/5)
3۔ زعفران کے علاوہ دیگر رنگ کے زرد کپڑے پہننا جائز ہے اور نوویؒ کے بقول اس میں کسی کا اختلاف نہیں ، ان کے الفاظ میں :
’’یجوز لبس الثوب الابیض والاحمر والاصفر والاخضر والمخطط وغیرھا من الوان الثیاب ولا خلاف فی ھٰذا ولا کراھۃ فی شیٔ منہ۔ ‘‘
’’سفید ، سرخ ، پیلا ، سبز ، دھاری دار اور دیگر رنگ کے لباس کا پہننا جائز ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اور نہ ہی کوئی کراہت ہے‘‘ ۔(شرح مہذب: 452/4)
حضرت عبد ﷲ بن عمر ؓ سے کسی نے پوچھا کہ آپ پیلا رنگ استعمال کرتے ہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ میں نے رسول ﷲ ﷺ کو اس رنگ سے کپڑا رنگتے ہوئے دیکھا ہے ،(بخاری۔)
امام ابوداؤد اور ترمذی نے صحیح سند سے حضرت ابورمثہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ دو پیلے کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے ۔ (شرح مہذب: 452/4)
4۔ دھاری دار سرخ کپڑا باتفاق جائز ہے ، خالص سرخ کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان قدرے اختلاف ہے ، امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالک ؒ، امام شافعی ؒ کے یہاں جائز ہے ، بعض احناف اور حنابلہ کے نزدیک ناجائز ہے ، یہ لوگ درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں ۔
1۔ حضرت عبد ﷲ بن عمر ؓ سے منقول ہے کہ ﷲ کے رسول کے پاس سے ایک آدمی گزرا جو سرخ کپڑے میں ملبوس تھا ، اس نے آپ ﷺ کو سلام کیا لیکن آپ ﷺ نے سلام کا جواب نہیں دیا (رواہ ابوداؤد والترمذی و فیہ راو مختلف فیہ۔)
2۔ ایک سفر کے موقع پر آپ ﷺ نے سواریوں پر سرخ چادریں دیکھ کر فرمایا: کیا میں نہیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سرخ رنگ تم میں رواج پاتا جارہا ہے ،’’ ألا أریٰ ھٰذہ الحمرۃ قد غلبتکم‘‘ ، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے جلدی جلدی اسے سواریوں سے اتارنا شروع کیا ، یہاں تک کہ ہمارے بعض اونٹ بدک گئے ۔ (رواہ ابوداؤد وفی سندہ راوٍ لم یسم۔)
3۔ بنواسد کی ایک صاحبہ نقل کرتی ہیں کہ وہ حضرت زینب ام المومنین ؓ کے پاس تھی اور ان کے کپڑے میں سرخی چڑھارہی تھی کہ اچانک نبی ﷺ آگئے لیکن جب سرخ رنگ دیکھا تو لوٹ کر چلے گئے ، جب زینب نے یہ دیکھا تو اس کپڑے کو دھو دیا اور سرخی کو چھپا دیا ۔(فی سندہٖ ضعف۔)
4۔ سرخی شیطان کی زینت ہے اور شیطان اسے پسند کرتا ہے ۔(حدیث ضعیف ہے۔)
جن احادیث میں آنحضور ﷺ سے سرخ رنگ کا استعمال منقول ہے ان سے دھاری دار سرخ کپڑا مراد ہے ،کیونکہ حدیث میں ’’ برد ‘‘ اور ’’حلہ ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس سے مراد یمنی چادر ہے اور یمنی چادر خالص سرخ نہیں ہوتی ۔
جو حضرات خالص سرخ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں وہ ان احادیث کو استدلال میں پیش کرتے ہیں جن میں مذکور ہے کہ آنحضور ﷺ نے ’’ حلہ حمراء ‘‘ اور ’’برد احمر ‘‘ (سرخ چادر ) کو استعمال کیا ہے، مثلاً حضرت براء بن عازب ؓ کی یہ حدیث کہ میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کو سرخ چادر میں ملبوس دیکھا (بخاری) اور حضرت جابر کی یہ روایت کہ میں نے رسول ﷲ ﷺ کو چاندنی رات میں دیکھا ، میں کبھی ﷲ کے رسول کو دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف اس وقت آپؐ سرخ چادر اوڑھے ہوئے تھے ، تو مجھے آپ چاند سے زیادہ خوبصورت معلوم ہوئے ،(ترمذی)نیز سنن ابوداؤد میں ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ منیٰ میں خطبہ دے رہے تھے اور اس وقت جسم مبارک پر سرخ چادر تھی ۔
جن روایتوں میں ممانعت آئی ہے وہ ضعف سے خالی نہیں ہیں ، علاوہ ازیں وہ صریح بھی نہیں ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سرخ سے مراد ’’عصفر ‘‘ سے رنگا ہوا سرخ کپڑا مراد ہو ، چنانچہ حضرت عبد ﷲ بن عمر ؓ سے منقول پہلی حدیث کی بعض سندوں میں صراحت ہے کہ وہ رنگ ’’ معصفر ‘‘ تھا ۔ (سرخ رنگ سے متعلق مکمل تفصیل اعلاء السنن: 359/17سے ماخوذ ہے)
واقعہ ہے کہ سرخ رنگ کا استعمال آپ ﷺ سے ثابت ہے ، رہا اسے دھاری دار پر محمول کرنا تو بقول منادی صرف دعویٰ ہے جس کی پس پشت کوئی دلیل نہیں ،(اعلاء السنن : 361/17)تاہم دلائل سے قطع نظر چونکہ آج کے دور میں مکمل سرخ کپڑے میں عورتوں سے مشابہت ہے ، نیز اہل وقار کے لباس میں بھی شامل نہیں ، اس لیے یک گونہ کراہت تنزیہی ضرور پیدا ہوجائے گی ، طبری کی یہ بات قابل لحاظ ہے :
’’میں ہر رنگ کے کپڑے کو جائز سمجھتا ہوں البتہ مکمل سرخ رنگ کے کپڑوں کو ناپسند کرتا ہوں ، اس لیے کہ یہ ہمارے زمانے میں اہل وقار کا لباس نہیں اور جب تک گناہ کے دائرہ میں نہ آتا ہو صاحب وقار لوگوں کی وضع اختیار کرنی چاہیے ۔(فتح الباری: 142/10)
5۔ باوجودیکہ نبی کریم ﷺ سے مختلف رنگ کے لباس کا استعمال منقول ہے تاہم سفید لباس آپ کو بطور خاص پسند تھا ، آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’سفید کپڑا پہنو کیونکہ وہ بہترین لباس ہے‘‘۔(احمد ، ترمذی وصححہ ۔نیل الاوطار :111/2)
ایک دوسری حدیث میں ہے :
’’سفید کپڑا پہنو کہ وہ زیادہ پاک اور عمدہ ہوتا ہے‘‘۔(نیل الاوطار 110/2)
سفید کپڑے کا عمدہ ہونا تو ظاہر ہے ، پاک اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ سفید کپڑے پر داغ دھبہ وغیرہ فوراً نمایاں ہوجاتا ہے ، اور انسان دھونے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جبکہ دیگر کپڑوں میں یہ بات نہیں ، بسا اوقات نجاست اور گندگی کو کپڑے کا رنگ چھپا لیتا ہے۔
متکبرانہ لباس:
لباس سے متعلق یہی چند رہنما اور بنیادی اصول ہیں جو مذکور ہوئے اگر کوئی ان اصول کو اپنا لیتا ہے تو اسلام کا منشا پورا ہوجائے گا ، تاہم لباس سے ہٹ کر خود پہننے والے کے اپنے حالات بھی ہیں ۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ اس کے پیروکار میں ’’عبدیت ‘‘وبندگی کی شان نمایاں رہے ، وہ خدا کی زمین پر بندہ بن کر رہے ، غرور ، تکبر ، گھمنڈ اور خود پسندی و خود نمائی سے کنارہ کش رہے ، تواضع ، انکساری اور فروتنی اس کی عادت و فطرت بن جائے ، تواضع اور کبر کا تعلق تو دل سے ہے ،لیکن لباس و پوشاک اور رفتار و گفتار اس کے آئینہ دار ہیں ، اس لیے ﷲ کے رسول ﷺ نے متکبرانہ لباس کی ممانعت فرمائی ہے ۔ ارشاد ہے :
’’کلو اواشربوا تصدقوا والبسوا مالم یخالط اسراف ولا مخیلۃ ‘‘ ۔
’’کھاؤ اور پیو، صدقہ وخیرات کرو اور کپڑے پہنو بشرطیکہ فضول خرچی اور تکبر کی آمیزش نہ ہو‘‘ ۔ (بخاری: 860/2)
عربوں میں یہ طریقہ رائج تھا کہ وہ کپڑا اس طرح پہنتے تھے کہ اس کا کچھ حصہ زمین پر گھسٹتا تھا ، اس طرح کی پوشش کو بڑائی کا ذریعہ سمجھتے تھے ، گویا وہ متکبرین کے فیشن میں داخل تھا ، ﷲ کے رسول ﷺ نے بڑی سخت وعید اس کے لیے بیان فرمائی ، حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
’’جو اپنے کپڑے تکبر سے گھسیٹے ہوئے چلے گا ، ﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر بھی نہیں اُٹھائیں گے ‘‘۔ (حوالہ سابق)
نیز آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ کپڑے کی آخری حد زیادہ سے زیادہ ٹخنوں تک ہے اور جو اس سے زیادہ ہو وہ جہنم میں ہے ‘‘۔( یعنی اس کی سزا جہنم ہے ) ( بخاری مع فتح الباری: 256/10)
واضح رہے کہ یہ وعید مردوں کے لیے ہے ، عورتیں اس میں شامل نہیں ، ان کے لیے ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا جائز ہے ۔(فتح الباری :259/10)
تکبر کی وجہ سے ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانا حرام تو ہے ہی لیکن اگر کبر نہ ہو تو بھی کراہت سے خالی نہیں ، لیکن یہ بھی پیش نظر رہے کہ بلا عذر جولوگ ٹخنہ سے نیچے لٹکتے ہوئے لباس پہنتے ہیں ، اگر معلوم کیا جائے تو ان میں خود پسندی اور بڑائی کی خو بو ضرور پائی جاتی ہے ، ابن عربی نے بہت سچ اور حق بات کہی ہے :
’’لایجوز للرجل أن یجاوز بثوبہ کعبہ ویقول لا أجرہ خیلاء ، لان النھی قد تناولہ لفظاً ، ولا یجوز لمن تناولہ اللفظ حکما ان یقول لا أمتثلہ ، لان تلک العلۃ لیست فیّ فانھا دعوی غیر مسلمۃ بل اطالۃ ذیلہ دالۃ علی تکبرہ‘‘۔
’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کپڑے کو ٹخنے سے نیچے لٹکائے اور کہے کہ میں غرور کی وجہ سے نہیں گھسیٹ رہا ہوں ، اس لیے کہ ممانعت لفظوں کے اعتبار سے اس صورت کو بھی شامل ہے اور جائز نہیں ہے کہ جسے لفظ حکمی طور پر شامل ہو کہ کہے میں اس کا پابند نہیں کیونکہ وہ وجہ مجھ میں نہیں ، سو یہ دعویٰ ناقابل تسلیم ہے ، بلکہ اس کا کپڑے کے دامن کو طویل رکھنا ہی تکبر کی علامت ہے ‘‘۔(ایضاً :264/10)
اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ کپڑے لٹکانے سے احتراز کرو کیونکہ وہ تکبر کی وجہ سے ہے ۔( ایاک واسبال الازار فانہ من المخیلۃ‘‘۔ فتح الباری: 259/10)
لباسِ شہرت :
شہرت پسندی اور جذبہ نمود و نمائش بھی ایک بری عادت ہے ،اس لیے رسول ﷲ ﷺ نے شہرت کے کپڑوں سے منع فرمایا اور آگاہ کیا کہ :
’’ جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنتا ہے ﷲ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے ، پھر اس میں آگ بھڑکائی جائے گی ‘‘۔ (ابوداؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ۔نیل الاوطار: 136/6)
’’لباس شہرت ‘‘ سے مراد وہ کپڑا ہے جو بطور تفاخر اور شان وشوکت و خوشحالی کی نمائش کے جذبہ سے پہنا جائے ، جسے پہن کر دوسروں پر بڑائی جتانا مقصود ہو ، ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی خواہش کی کارفرمائی ہو ، جس کا مقصد معاشرہ میں اپنے آپ کو ممتاز کرنا اور پہچنوانا ہو ، اس لیے ’’لباس شہرت ‘‘ کا مصداق قیمتی اور بہترین کپڑا ہی نہیں بلکہ وہ گدڑی بھی ہے جسے اس غرض سے پہنا جائے کہ لوگ مجھے پہنچا ہوا بزرگ سمجھیں ، لوگوں کی نگاہیں میری طرف اُٹھیں ،چنانچہ علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
’’جب کپڑا لوگوں میں مشہور ہونے کی نیت سے پہنا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ قیمتی لباس ہو یا گھٹیا ، عمومی پہناوے سے ہم آہنگ ہو یا نہ ہو ، اس لیے کہ حرمت شہرت سے متعلق ہے اور اس میں معتبر نیت ہے گرچہ وہ ظاہر کے مطابق نہ ہو ‘‘۔ (نیل الاوطار: 126/6)
واقعہ ہے کہ شہرت پسندی اور ریاکاری کا تعلق دل سے ہے ، اور دل کا حال ﷲ ہی بہتر جانتا ہے ، اس لیے رَوا نہیں کہ ہم کسی کے کپڑے کو شہرت اور نمود و نمائش کا لباس کہہ کر اُنگلی اُٹھائیں، غرضیکہ لباس میں آسائش اور آرائش کا خیال رکھنا درست ہے ، نمائش درست نہیں ۔
بے ڈھنگا اور میلا لباس :
لباس کی ہیئت اور ساخت ایسی ہونی چاہیے جسے پہن کر انسان باوقار معلوم ہو ، اس میں سنجیدگی اور متانت ہو ، دیکھنے میں بھلا اور آراستہ معلوم ہو ، بے تکا اور بے ڈھب نہ ہو، ایسے لباس سے بچنا چاہیے جس سے مضحکہ خیز صورت بنتی ہو ، لباس سے مقصود دو چیزیں ہیں ، ستر پوشی اور زینت و آرائش ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِباَساً یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًا‘‘۔
’’اے انسانو ! ہم نے تمہارے لیے لباس اتارا جو تمہارے لیے ستر پوشی اور سامان زینت ہے‘‘ ۔(سورہ الاعراف)
اگر ﷲ نے وسعت اور فراوانی دی ہے تو عمدہ اور بہتر لباس استعمال کرنا چاہیے ، پھٹے حال رہنا مناسب نہیں ، زیب وزینت خدا پرستی اور دینداری کے منافی نہیں ، خود ﷲ کے رسول ﷺ نے بیش قیمت لباس استعمال کیے ہیں ۔(بخاری: 356/1)
نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ﷲ پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کے انعام واحسان کے آثار ظاہر ہوں ‘‘۔(ترمذی: 109/2)
ایک مرتبہ آپؐ نے ایک صحابی کودیکھا کہ وہ بہت معمولی اور خراب لباس پہنے ہوئے ہیں ، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا تمہارے پاس مال و دولت ہے ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں ، فرمایا : کس قسم کا مال ہے ؟ انہوں نے کہا مجھے ﷲ نے ہر قسم کا مال دے رکھا ہے ، آپ نے فرمایا : جب ﷲ نے تمہیں مال ودولت سے نوازا ہے تو پھر اس کے انعام واکرام کا اثر بھی تمہارے اوپر نظر آنا چاہیے ۔(ابوداؤد: 562/2)
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ایک پراگندہ بال شخص کو دیکھ کر فرمایا : کیا یہ آدمی کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس سے سر کے بال درست کرلیتا ، ایک دوسرے شخص کو دیکھا جو بہت میلے کپڑے پہنے ہوئے تھا تو فرمایا : کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے یہ اپنے کپڑے دھو لیتا ۔(حوالہ بالا)
خاص کر جمعہ ، عیدین اور اجتماعی جگہوں کے لیے بہتر اور اچھے لباس کا انتخاب کرنا چاہیے اور نظافت و زیبائش کا خصوصی اہتمام مناسب ہے ، ارشادِ نبوی ﷺ ہے :
’’اگر ہوسکے تو کام کاج کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے لیے ایک مخصوص جوڑا بنا لینے میں کیا حرج ہے‘‘ ۔ (حوالہ سابق 156/1 ، باب الجمعہ)
کپڑوں کے اقسام :
عمامہ:
سر چھپانے کے لیے پگڑی کااستعمال عربوں میں اسلام سے پہلے بھی رائج تھا ، حضرت علی ؓ کے الفاظ میں عمامہ عربوں کا تاج ہے ، العمائم تیجان العرب(مجمع الزوائد: 119/5) اسلام نے بھی اسے برقرار رکھا ، بلکہ اس کی طرف رغبت دلائی ، ارشاد ہوتا ہے : اعتموا تزدوا حلماً ۔
عمامہ باندھو اس سے حلم میں اضافہ ہوگا ،(فتح الباری: 273/10، فیض القدیر: 555/1)
اور مشرکین سے ممتاز رہنے کے لیے کہا گیا کہ مسلمان پگڑی کے ساتھ ٹوپی کا استعمال بھی کریں۔(ابوداؤد: 562/2)
عمامہ کا طریقہ یہ کہ ہے اسے پیچ دار باندھ کر شملہ دونوں مونڈھوں کے درمیان آدھی پشت تک چھوڑ دیا جائے ،(ترمذی: 225/4۔ ایسے ہی شملہ دائیں کان کی جانب بھی چھوڑا جاسکتا ہے ، اور دو شملہ چھوڑنے کی بھی اجازت ہے اس طور پر کہ ایک کنارے کو آگے کی جانب اور دوسرے حصہ کو پیچھے کی جانب کرلیا جائے ، (مجمع الزوائد :120/5)اور بغیر شملہ کے بھی عمامہ باندھنا آپ ﷺ سے ثابت ہے ۔(زاد المعاد: 50/1) عمامہ کی مقدار کے بارے میں بارہ اور سات ہاتھ تک کی روایتیں ہیں مگر وہ فنی معیار پر پوری نہیں اترتیں (تحفۃ الاحوذی :49/3)
عمامہ ہر وقت مستحب ہے ، تاہم اجتماعی جگہوں میں اور ایسے ہی نماز کے وقت اس کی اہمیت کچھ اور ہی بڑھ جاتی ہے ،(ویتاکد للصلوٰۃ ، فیض القدیر: 555/1)لیکن مسند فردوس وغیرہ حدیث کو محدثین نے موضوع قرار دیا ہے جس میں عمامہ باندھ کر نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ عمامہ کے ساتھ نماز پچیس نمازوں کے برابر ہے۔(تحفۃ الاحوذی :49/3)
ٹوپی :
آپ ﷺ عام طور سے ٹوپی عمامہ کے نیچے پہنا کرتے تھے مگر آپ سے صرف ٹوپی پہننا بھی منقول ہے ،(زاد المعاد: 50/1 ، الاتحاف 254/8)اور کہا جاتا ہے کہ آپ کی ٹوپی سفید اور سر سے چپکی ہوئی ہوتی تھی، (فیض القدیر 246/5) ترمذی نے نقل کیاہے کہ صحابہ کرام کی ٹوپیاں گول اور سر سے لگی ہوئی ہوتی تھیں ۔(ہذا حدیث منکر،ترمذی 308/1تحفۃ الاحوذی 69/3 )
ٹوپی سے مقصود سر چھپانا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے مختلف ساخت اور وضع کی ٹوپیاں پہنی ہیں ، (الاتحاف254/8)صحابی رسول حضرت انس ؓ اور دیگر لوگوں سے ’’برنس ‘‘ پہننا ثابت ہے جسے راہب لگایا کرتے تھے ،(بخاری مع الفتح 271/10) اس لیے کسی مخصوص وضع کی ٹوپی پر اصرار درست نہیں ۔
رومال اور تولیہ :
ﷲ کے رسول ﷺ نے رومال کا استعمال بھی فرمایا ہے بایں طور کہ اس سے سر اور چہرہ کے اکثر حصہ کو چھپا لیتے تھے ، عربی میں اس کے لیے ’’تقنع ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ، جس کی تشریح حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے یہ کی ہے :
’’ وھو تغطیۃ الراس واکثر الوجہ برداء أو غیرہ ‘‘۔
’’چادر یا اس کے علاوہ اور کسی کپڑے سے سر اور چہرہ کے اکثر حصہ کو ڈھانک لینا ’’تقنع ‘‘ ہے‘‘ ۔(فتح الباری 274/10)
چہرہ یا ہاتھ وغیرہ پوچھنے کے لیے تولیہ استعمال کرنا بھی جائز ہے ، فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
’’ لابأس بخرقۃ الوضوء والمخاط وفی الجامع الصغیر یکرہ الخرقۃ التی تحمل لیسمع العرق والصحیح انہ لایکرہ‘‘۔
’’ وضو خشک کرنے کے لیے یا ناک صاف کرنے کے لیے کسی کپڑے کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ، جامع صغیر میں ہے کہ وہ کپڑے جسے پسینہ پوچھنے کے لیے اٹھائے پھرتے ہیں مکروہ ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ مکروہ نہیں ہے‘‘ ۔ (ہندیہ333/5۔ردالمحتار231/5)
قمیص :
قمیص ،ﷲ کے رسول ﷺ کا پسندیدہ لباس ہے ، کیونکہ اس سے بدن اچھی طرح ڈھک جاتا ہے ، نیز اس میں تواضع وانکساری بھی ہے ، آپ کے قمیص کی لمبائی ٹخنے سے اوپر اور آدھی پنڈلی تک ہوتی ،(الاتحاف251/8) اور آستین گٹوں تک ،(ترمذی 238/2)اور گریبان سینے کے سامنے ہوتا ۔(بخاری مع الفتح 267/10)
چادر :
کرتے کی جگہ چادر اوڑھنا بھی آپ ﷺ کا معمول تھا ، یمن کی بنی ہوئی چادر جس میں سرخ یا سبز دھاریاں ہوتی تھیں آپ کو بہت پسند تھی ،(بخاری مع الفتح 268/10)چادر کی لمبائی عام طور پر چھ ہاتھ اور چوڑائی ساڑھے تین ہاتھ ہوتی تھی ۔ (زاد المعاد 51/1)
لنگی اور پائجامہ :
ﷲ کے رسول ﷺ زیادہ تر لنگی ہی باندھا کرتے تھے جس کی لمبائی ساڑھے چار ہاتھ اور چوڑائی ڈھائی ہاتھ ہوتی ، (زاد المعاد 51/1) پائجامہ ستر پوشی کے لیے بہترین لباس ہے ، آنحضور ﷺ سے پائجامہ خریدنا ثابت ہے اور ظاہر ہے کہ پہننے ہی کے لیے خریدا ہوگا،(حوالہ مذکور)بعض ضعیف حدیثوں میں صراحت ہے کہ آپؐ نے پائجامہ پہنا بھی ہے،(فتح الباری 269/10)صحابہ کرام آپ کی اجازت سے پائجامہ پہنا کرتے تھے بلکہ آپ نے ان کو پائجامہ کی ترغیب بھی دی ہے ۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’ یا ایھا الناس اتخذوا السراویلات فانھا من استر ثیابکم‘‘۔
’’اے لوگو! پائجامہ پہنو کیونکہ وہ ستر پوشی کے لیے بہترین لباس ہے ‘‘۔(مجمع الزوائد۔)
اچکن :
مسور بن مخرمہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے ایک مرتبہ اچکنیں تقسیم فرمائیں اور مخرمہ کو نہیں دیا ، تو انہوں نے مجھ سے کہا بیٹے آؤ رسول ﷲ ﷺ کے پاس چلیں ، میں ان کے ساتھ چلا ، والد نے کہا جاؤ اور آنحضور ﷺ کو باہر تشریف لے آنے کے لیے عرض کرو ، میرے کہنے پر آنحضرت ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ کے دست مبارک میں ان اچکنوں میں سے ایک اچکن تھی ، اور فرمایا: مخرمہ! میں نے یہ اچکن تمہارے لیے بچا رکھی تھی ۔(بخاری مع الفتح 213/10)
جبہ :
حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے رومی جبہ پہنا جس کی آستین تنگ تھی ،(بخاری مع الفتح 213/10)
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ جبہ پہننا جائز ہے وہیں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دیگر قوموں کے بنائے ہوئے لباس استعمال کیے جاسکتے ہیں ،کیونکہ ’’ رومی جبہ ‘‘ شام میں بنایا جاتا تھا جو عیسائیوں کے زیر اقتدار تھا ۔
جوتا اور موزہ :
ننگے پیر چلنے کی وجہ سے جو مشکلیں ، پریشانیاں اُٹھانی پڑتی ہیں ،وہ محتاج بیان نہیں نیز اس کی وجہ سے بہت جلد تھکن کااحساس روز مرہ کا مشاہدہ اور تجربہ ہے ، جوتا اور چپل پہن کر چلنے میں اس کی بہ نسبت بہت کم تکلیف اور مشقت ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک سفر کے موقع پر فرمایا : لوگو ! جوتے استعمال کرو کیونکہ جوتا پہننے والا شخص سوار کی طرح ہے ۔(مسلم شریف 197/2۔)
مراد یہ ہے کہ جوتا پہن کر چلنے میں ننگے پیر کی بہ نسبت کم پریشانی ہوتی ہے ۔(فتح الباری213/10)
ﷲ کے رسول ﷺ جوتا استعمال کرتے تھے مگر آپ کا جوتا اس طرح سے نہیں تھا جو ہمارے یہاں مروج ہے ، بلکہ چمڑے کے ایک شول پر دو تسمے لگے ہوئے تھے ، (بخاری مع الفتح 213/10۔) جس طرح آج کل کی چپلیں ہوا کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے موزہ بھی پہنا ہے ، ترمذی نے نقل کیا ہے کہ نجاشی شاہ حبشہ نے دو سیاہ سادہ موزے آپ کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کیا اور آپؐ نے اسے استعمال فرمایا ۔ (شمائل ترمذی ؍6)
جب کہیں بیٹھنا ہو تو بہتر ہے کہ جوتا اتار دیا جائے ، حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا : ’’جب تم بیٹھو تو جوتا اتار دیا کرو تاکہ قدم کو راحت محسوس ہو ‘‘،(مجمع الزوائد 140/15) ایسے ہی کھانے کے وقت جوتا نکال دینا اچھا اور پسندیدہ ہے ، کیونکہ آنحضور ﷺ کاا رشاد ہے : ’’جب تمہارے سامنے کھانا پیش کیا جائے تو جوتا اُتار دو ، اس لیے کہ یہ عمل پاؤں کے لیے راحت رساں ہے‘‘ (فیض القدیر 417/1)
صرف ایک جوتا پہن کر نہیں چلنا چاہیے ، اگر راستہ میں کسی جوتے میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو بیٹھ کر ٹھیک کرلے ، پھر آگے بڑھے ، رسول خدا ﷺ کا یہی فرمان اور یہی طرزِ عمل ہے ، (بخاری مع الفتح 309/10) ایسے ہی ایک آستین کو پہننا اور دوسرے کو لٹکا لینا یا کندھے پرڈال لینا بھی ممنوع ہے ، (فتح الباری 311/10) کیونکہ یہ وقار کے خلاف ہے ۔
آواز دینے والے جوتے اس غرض سے پہننا کہ لوگ میری طرف متوجہ ہوں ، نگاہیں میری طرف اُٹھیں ممنوع ہے ، خاص کر عورتوں کے لیے اس طرح کی جوتی پہن کر باہر نکلنا کراہت سے خالی نہیں ۔
جوتا پہننے سے پہلے جھاڑ لینا مستحب ہے ، حضرت ابوامامہ ؓفرماتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے موزہ پہننے کا ارادہ کیا ، ابھی ایک ہی پہنا تھا کہ دوسرے کو کوا اُٹھا لے گیا اور جب اوپر لے جاکر گرایا تو اس میں ایک سانپ نکلا ، یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا : جو کوئی ﷲ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ جوتے کو جھاڑنے سے پہلے نہ پہنے ۔(مجمع الزوائد 140/5)
اوڑھنی :
ﷲ پاک کا ارشاد ہے :
’’وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ‘‘
’’اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں ‘‘۔( سورہ النور:31)
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں اوڑھنی سر پر رکھ کر اسے پیچھے کی طرف لٹکا دیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ نمایاں رہتا ۔(روح المعانی 53/6)’’گویا یہ حسن کا مظاہرہ تھا ‘‘ قرآن کریم نے اس طرز عمل پر نکیر کی اور یہ تصور دیا کہ اوڑھنی کوئی فیشن یا ’’ گلے کا ہار ‘‘ نہیں بلکہ اس سے مقصود ستر پوشی ہے ، اس لیے اوڑھنی کا اس قدر دبیز ہونا لازمی اور ضروری ہے کہ سر کے بال نظر نہ آئیں ، نیز اس سے بال کے ساتھ کان ، گردن اور سینے کا حصہ چھپ جائے ۔ (تفسیر قرطبی 230/12 ،و تفسیر منیر 226/18)
ان لوگوں نے جن کے درمیان قرآن نازل ہورہا تھا آیت کا یہی مطلب اور مفہوم سمجھا ، چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عورتوں نے اپنے موٹے کپڑوں کو چھانٹ کر ان کا دوپٹہ بنالیا ۔(بخاری)
حضرت عائشہؓ ،ﷲ کی ان نیک بندیوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں : ﷲ مہاجرین کی عورتوں پر رحمت نازل کرے ، جب آیت وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ نازل ہوئی انہوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اوڑھنی بنالیا ،(ابوداؤد 567/2) اس سلسلہ میں صرف لوگوں کی فہم پر اعتماد نہیں کیا گیا بلکہ حدیث میں اس کی صراحت کردی گئی کہ ستر پوشی کے لیے باریک دوپٹہ کافی نہیں ، حضرت دحیہ کلبی فرماتے ہیں کہ : ﷲ کے رسول ﷺ کے پاس ’’قبطی ‘‘ کپڑے(جسے مصر کے قبطی بنایا کرتے تھے ، باریک اور سفید ہوا کرتا تھا ) لائے گئے ، آپ نے اس میں سے ایک کپڑا مجھے بھی دیا اور فرمایا : اسے دو ٹکڑے کرلو ایک سے تم قمیص بنا لو اور دوسرے ٹکڑے کو اپنی اہلیہ کو دے دو کہ دو پٹہ بنا لے مگر اپنی بیوی سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے استر لگالے تاکہ بال نظر نہ آئے ۔ (ابوداؤد 567/2)
ساڑی :
عورتوں کے لیے ساڑی پہنے کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ اس سے مکمل طور سے ستر پوشی ہوجائے ، البتہ ان علاقوں میں جہاں خالص ہندوانہ لباس مانا جاتا ہے وہاں ساڑی کا استعمال مکروہ ہے ، مفتی کفایت ﷲ صاحب لکھتے ہیں :
’’جہاں مسلمان عورتوں کے اپنے لباس میں ساڑی داخل ہے وہاں پہننا جائز ہے ، جہاں مسلمانوں میں ساڑی مروج نہ ہو صرف غیر مسلم عورتوں کے لباس میں داخل ہو وہاں مکروہ ہے‘‘ ۔(کفایت المفتی 161/9)
ساڑی کے علاوہ قمیص ، پائجامہ ، تہبند وغیرہ کا استعمال بھی جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ مردوں سے امتیاز برقرار رہے ۔
برقعہ :
ایک عورت کے لیے ممکن حد تک بہتر ہے کہ وہ گھر کی چہار دیواری کے اندر ہی رہے تاہم بوقت حاجت وضرورت باہر نکلنے کی بھی اجازت ہے ، لیکن اس وقت بھی پورے جسم کو سر سے پیر تک اس طرح چھپا لینا ضروری ہے کہ جسم کے نشیب وفراز ظاہر نہ ہوں ، یہ عورت کو قید کرنا یا اپاہج بنادینا نہیں ہے بلکہ اس کی عصمت و عفت کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے ، قرآن گویا ہے :
’’ یٰٓا اَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُوْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ أدْنیٰ أنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُوْذَیْن‘‘ (احزاب 59)
’’اے نبی ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادر کے ایک حصہ کو لٹکا لیا کریں ، اس کی وجہ سے وہ پہچانی جاسکیں گی ، لہٰذا ستائی نہ جائیں گی‘‘ ۔
آیت میں جلابیب کا لفظ آیا ہے جو جلباب کی جمع ہے ، جلباب ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا جسم چھپ جائے ،(تفسیر قرطبی) آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ’’ پورے بدن کو ڈھانپنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ نیچے چہرہ پر بھی لٹکا لیویں ‘‘(تفسیر عثمانی) جسے عام طور پر گھونگھٹ نکالنا کہتے ہیں ، حضرت عبد ﷲ بن عباس ؓاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
’’ﷲ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلیں تو وہ اپنے چہرہ کو سر کے اوپر سے اس طرح ڈھانک لیں کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے‘‘ ۔ ( تفسیر منیر 107/22، الوھبہ زحیلی)
تاہم مقصود پورے جسم کو چھپانا ہے ، اس لیے یہی ہیئت اور کیفیت ضروری نہیں ہے، جس طرح بھی پورا جسم چھپ جائے اور مقصود حاصل ہوجائے وہ کافی ہے ۔
برقعہ کے یہ احکام متفقہ ہیں اور عام طور سے مسلمان عورتوں کا اس پر عمل بھی ہے ، اس وقت جس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ ہے موجودہ برقعہ کی ہیئت ، نوعیت اور ساخت ، افسوس کہ اس سے برقعہ کا مقصد پورا نہیں ہوتا ، رنگین اور قیمتی برقعہ اس پر طرفہ تماشا ان کی ساخت ، بناؤ سنگار اور فیشن کے اظہار کا بہترین ذریعہ ہے ، حالانکہ قرآن میں زینت اور بناؤ سنگار کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ (سورہ نور ، 31)
جصاص رازی لکھتے ہیں:
’’جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہار زینت قرار دے کر ممنوع کیا ہے تو مزین رنگوں کے کام دار برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولیٰ ممنوع ہوگا‘‘۔(معارف القرآن 406/6)
کپڑا پہننے کے آداب :
جن چیزوں میں ایک گونہ شرافت ، اعزاز ، زینت وجمال ، صفائی و ستھرائی اور پاکیزگی کا پہلو ہو اس میں شریعت دائیں سمت سے ابتداء کو پسند کرتی ہے ، اور اس کے برخلاف کے لیے بائیں جانب کو ، ام المومنین حضرت حفصہ سے منقول ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ خورد و نوش ، پوشش اور عطیہ دینے اور لینے میں دائیں ہاتھ کو استعمال کرتے اور بائیں کو اس کے علاوہ دیگر چیزوں میں ،(أخرجہ ابوداؤد واحمد ، فیض القدیر 206/5) حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ پاکی وصفائی ، جوتا پہننے ، کنگھی کرنے اور ہر کام میں کوشش بھر داہـنی جانب سے ابتداء پسند کرتے تھے ۔(بخاری 870/2)
نیز آپ کا فرمان بھی ہے کہ:
’’ اذا لبستم وتوضأتم فابدوا بایامنکم ‘‘۔
’’جب تم کپڑے پہنو اور وضو کرو تو دائیں جانب سے ابتدا کرو‘‘۔(فیض القدیر 436/1)
اس لیے کپڑا اور جوتا وغیرہ پہننے میں مستحب ہے کہ دائیں سے ابتدا کی جائے اور اتارنے میں بائیں سمت کی رعایت رکھی جائے ۔
نئے لباس کے سلسلہ میں آنحضور ﷺ کا طرز عمل یہ تھا کہ پہنتے وقت اس کپڑے کا نام لیتے مثلاً کہتے کہ یہ کرتا ہے ، عمامہ ہے ، وغیرہ ، پھر یہ دعا پڑھتے :
’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ اَسْاَلُکَ خَیْرَہٗ وَخَیْرَ ماَصُنِعَ لَہٗ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّہٖ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہٗ‘‘۔
’’یاﷲ آپ کے لیے تعریف ہے کہ آپ نے یہ لباس مجھے پہنایا ، خدا وندا! آپ سے میں اس کی بھلائی کا اور اس چیز کی بھلائی کا خواہاں ہوں جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اور اس کے شر اور اس کے مقصد استعمال کے شر سے پناہ چاہتا ہوں ‘‘۔(ترمذی 306/1 ، ابوداؤد 558/2)
اور کبھی یہ دعا پڑھتے :
’’اَلْحَمْدَ ﷲِ الَّذِی کَسَانِی مَا اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِی وَأتَجَمَّلُ فِی حَیَاتِیْ ‘‘۔
’’تعریف اس خدا کی جس نے مجھے یہ لباس عطا فرمایا جس سے میں ستر پوشی کرتا ہوں اور اپنی زندگی میں اس سے آرائش حاصل کرتا ہوں ‘‘۔ (زاد المعاد 19/2)
نیز آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی کپڑے پہنتے وقت یہ کہہ لے :
’’اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ کَسَانِیْ ھٰذَا الثَّوبَ وَرَزَقَنِیْہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ ّمِنِّی وَلَا قُوَّۃَ‘‘۔
’’تعریف اس خدا کی جس نے مجھے یہ لباس پہننے کو دیا جس میں میری محنت اور کوشش کو کوئی دخل نہیں‘‘ ۔
تو اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔(ابوداؤد 558/2)
زیب وزینت:
جاہلی ماحول میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ زیبائش و آرائش ، روحانیت اور بزرگی کے خلاف اور ﷲ تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے ، میلے کچیلے کپڑے ، پراگندہ اور بکھرے ہوئے بال اور بے ڈھنگا پن ہی ﷲ والے کی پہچان ہے ، ایران اور ہندوستان میں مذہبی کتابوں اور شخصیتوں کے زیر سایہ یہ تصور پروان چڑھتا رہا ، عیسائیوں میں ’’رہبانیت ‘‘ کی ایجاد نے اسے آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ، مشرکین عرب بھی اس خیال کے حامی تھے، قرآن حکیم نے اس نقطہ نظر کی تردید کی ، اور بتایا کہ ﷲ کی پیدا کردہ زینت وجمال سے اس کے نیک اور فرمانبردار بندوں کو بھی فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے بلکہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں انہیں کے لیے پیدا کی گئی ہیں ، ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ یٰٓا بَنِیْ آدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ۔قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ ﷲِ الَّتِیْ أخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ، قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیاَ خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ،کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ‘‘۔
’’اے لوگو! ہر نماز کے وقت زینت اختیار کرو ، کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو ، بلاشبہ ﷲ تعالیٰ فضول خرچ کر نے والے کو پسند نہیں کرتے ، تم کہہ دو کس نے زینت اور پاکیزہ رزق کو حرام قرار دیا ہے جسے ﷲ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے ، تم کہہ دو یہ نعمتیں ہیں ایمان والوں کے لیے دنیاوی زندگی میں ، اور قیامت میں صرف انہی کے لیے خاص ہوں گی ، ایسے ہی ہم جاننے والوں کے لیے آیتوں کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں‘‘۔ (سورۃالاعراف:32/31)
زینت و جمال نہ صرف جائز ہے بلکہ مطلوب ہے ، قرآن میں لباس کا ایک مقصد یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ وہ زینت کا ذریعہ ہے اور حدیث میں ہے کہ کسی صحابی نے دریافت کیا کہ اچھا اور خوبصورت کپڑا پہننا تکبر میں داخل ہے ، فرمایا نہیں بلکہ ﷲ کو جمال پسند ہے ،(صحیح مسلم 65/1باب تحریم الکبائر۔) خود یہ حسین کائنات اس کے ذوق جمال کی تصویر ہے جسے دیکھ کر بے ساختہ دل سے آواز آتی ہے فتبارک اﷲ أحسن الخالقین …لیکن ہر چیز کی طرح اس کی بھی ایک حد ہے ، کسی بھی چیز میں افراط وتفریط اور غلو ناپسندیدہ ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مذکورہ آیت میں کہاگیا ہے ’’ اور فضول خرچی نہ کرو بلاشبہ ﷲ تعالیٰ فضول خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں ‘‘ لہٰذا زیبائش و آرائش میں انہماک اور غلو ناپسندیدہ ہے ۔
سر کے بال :
سرپر بال ایک ضرورت بھی ہے اور باعث آرائش بھی ، سردی گرمی سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہے اور خوبصورتی کا سبب بھی ، تاہم کبھی بال نہ رکھنا بھی ایک ضرورت بن جاتی ہے ، اس لیے شریعت میں دونوں کی اجازت ہے ، رسول ﷲﷺعام طور پر بال رکھا کرتے تھے ، اور صرف عمرہ کے موقع پر منڈایا کرتے تھے ،(المجموع للنووی:296/1) آپؐ کی زلف کبھی کان کی لَو تک ہوتی ، کبھی گردن تک اور کبھی بعض اوقات کاندھے تک پہنچ جاتی ، (مرقاۃ المفاتیح 470/4) مکی زندگی میں مشرکین کی مشابہت سے بچنے کے لیے بالوں کو اپنی حالت پر چھوڑ دیتے اور مانگ نہ نکالتے تھے ، لیکن مدنی زندگی میں یہود کی مشابہت سے بچنے کی خاطر مانگ نکالا کرتے تھے ،(صحیح بخاری 877/2) جو سر کے بیچ میں ہوتی ، (عون المعبود ، 241/11) اس لیے اب عام حالت میں مانگ نکالنا مسنون ہے …آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل سے اسلامی مزاج اور مذاق کا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز میں غیر مسلموں کی مشابہت ناروا ہے ، لہٰذا بالوں کی تراش خراش میں فاسق وفاجر اور فلمی اداکاروں کی نقالی درست نہیں ہے ۔
بالوں کو بکھرا اور الجھا ہوا چھوڑ دینا بھی ناپسندیدہ ہے ، ﷲ کے رسول ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے ، جن کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ، آپ ﷺ نے انہیں درست کرنے کو کہا ، بال درست کرنے کے بعد جب واپس آئے تو فرمایا :
’’ألیس ھٰذا خیرٌ من أن یأتی أحدکم ثائر الراس کأنہ شیطان‘‘۔
’’کیا یہ اس حالت سے بہتر نہیں ہے کہ تم شیطان کی طرح بکھرے بال کے ساتھ آؤ‘‘۔(رواہ الامام مالک ، نیل الاوطار ،123/1)
بالوں کو سنوارنا اور کنگھی کرنا مسنون ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺنے فرمایا :
’’ من کان لہ شعرٌ فلیکرمہ ‘‘ ۔
’’جو کوئی بال رکھے تو اس کی دیکھ ریکھ کرتا رہے ‘‘۔(سنن ابوداؤد ،573/2)
لیکن بال سنوارنے اور کنگھی کرنے میں حد سے زیادہ انہماک ممنوع ہے ، حضرت عبد ﷲ بن مغفل ؓسے منقول ہے کہ ﷲ کے رسولﷺنے کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے مگر یہ کہ کبھی کبھی ہو، نھیٰ عن الترجل الا غبا(جامع ترمذی ، 305/1)اس حدیث میں ’’ غبا ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم ہے ایک دن کے ناغہ سے کوئی کام کرنا، لیکن یہاں مراد یہ ہے کہ کوئی کنگھی کرنے میں اس درجہ منہمک نہ ہوجائے کہ بس آئینہ اور کنگھی ہی کا ہوکر رہ جائے ، روزانہ کنگھی کرنے سے روکنا مقصود نہیں ہے ،(دیکھیے حاشیہ السندی علی السنن للنسائی ، 275/2) چنانچہ ایک روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے ، حضرت ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ میرے بال بڑھے ہوئے تھے ، ﷲ کے رسولﷺ سے دریافت کیا تو فرمایا کہ روزانہ کنگھی کیا کرو ۔(سنن نسائی ، 291/2، حدیث صحیح ہے ، عون المعبود 217/11)
ٍٍعورتوں کے لیے بال نسوانیت کی علامت ہے ، اسے مونڈنا اور تراشنا حرام ہے ،(قطعت شعر راسھا أثمت ولعنت ولو باذن الزوج ۔الدر المختار ،407/6) اس لیے کہ اس میں مردوں کے ساتھ مشابہت ہے اور حدیث میں مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے۔(صحیح بخاری)
نقلی بال :
دھوکہ دہی ، فریب کاری اور جعل سازی سخت ناپسندیدہ عمل ہے ، اسی بنیاد پر ﷲ کے رسول ﷺ نے نقلی بال لگانے کی شدت سے ممانعت فرمائی ہے کہ اس عمل کی وجہ سے انسان خود کو ﷲ کی لعنت کا مستحق بناتا ہے ، حدیث میں ہے :
’’لعن اﷲ الواصلۃ والمستوصلۃ‘‘۔
’’ﷲ نے بال جوڑنے اور جڑوانے والی عورت پر لعنت کی ہے‘‘۔(صحیح بخاری 878/2)
حضرت سعید بن مسیب ؒ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓ مدینہ آئے اور تقریر فرمائی ، جس میں انہوں نے بالوں کا ایک گچھا نکال کر فرمایا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہود کے علاوہ کوئی ایسا کرتا ہے ، نبی ﷺ نے نقلی بال لگانے کو فریب قرار دیا ہے ،’’أن النبیﷺ سماہ الزور یعنی الواصلۃ فی الشعر ‘‘۔
انہی سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
’’سمعت رسول اﷲ ینھیٰ مثل ھٰذہ ویقول انما ھلکت بنی اسرائیل حین اتخذ ھٰذہ نساء ھم‘‘۔
’’میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کو اس جیسی چیزوں سے منع کرتے سنا ہے اور آپؐ فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب یہ طریقہ اختیار کیا تو وہ ہلاک ہوگئے‘‘ ۔(حوالہ مذکور 878،875/2)
یہ عمل اس قدر ناروا ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺنے اس عورت کو بھی اس کی اجازت نہیں دی ،جس کے بال بیماری کی وجہ سے گر گئے تھے ، اور وہ دلہن بننے والی تھی ،(صحیح بخاری 878/2) ممانعت کے اس حکم میں ہر طرح کے بال داخل ہیں انسانی بال ہوں یا دیگر حیوانات کے ، چنانچہ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ:
’’زجر النبی أن تصل المرأۃ بشعرھا شیئًا‘‘۔
’’عورت کا اپنے بال کے ساتھ کسی بھی چیز کے جوڑنے سے اﷲ کے رسولؐ نے منع فرمایا ہے‘‘۔(صحیح مسلم 205/2)
لیکن اگر فریب دہی نہ ہو تو ایسی صورت میں حیوانی اور مصنوعی بال کا استعمال درست ہے ،(لا باس للمرأۃ أن تجعل فی قرونھا وذوائبھا شیئاً من الوبر،الہندیہ 385/5نیز رد المحتار 273/6)بشرطیکہ اصلی اور مصنوعی وغیرہ میں امتیاز اور فرق باقی رہے ، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے منقول ہے کہ انہوں نے بعض خواتین کو اونی دھاگا لگانے کی اجازت دی ہے ،(دیکھیے المعتصرمن المختصر 381/1)اور حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ریشمی اور اونی دھاگا لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لاباس بالقرامل ،( أخرجہ ابوداؤد بسندٍ صحیح ،فتح الباری 459/10) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے لیے اونی یا ریشمی چوٹی کی اجازت ہے ، البتہ انسانی بال لگانے کی گنجائش نہیں ہے ، اور اس حکم میں مرد وعورت دونوں یکساں ہیں ۔
چہرہ اور بھوں کے بالوں کو اکھاڑنا :
زیبائش وآرائش میں اتنا آگے بڑھ جانا کہ اس کی وجہ سے ﷲ کی بنائی ہوئی ساخت تبدیل ہوجائے غلط اور ناروا ہے ، ﷲ کی بنائی ہوئی ہیئت میں تبدیلی کی ایک شکل بھوں کے بالوں کو اکھاڑنا اور انہیں باریک کرنا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے :
’’لعن اﷲ الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰہ‘‘۔
’’ﷲ کی لعنت ہے گودنے اور گودوانے والیوں پر ، بالوں کے نوچنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فصل پیدا کرنے والیوں پر ، جو اﷲ کی بنائی ہوئی صورت میں تبدیلی پیدا کرنے والی ہیں‘‘ ۔(صحیح بخاری 879/2)
امام ابوداؤد نے لکھا ہے کہ نوچنے سے مراد بھوں کے بالوں کو اکھاڑ کر باریک کرنا ہے ،(سنن ابوداؤد:572/2) اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت کے چہرے پر دوچار بال اُگ آئیں تو اسے صاف کردینا اس حکم میں شامل نہیں ہے ، اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ ؓسے کسی عورت نے دریافت کیا کہ عورت اپنے شوہر کے لیے رخسار کے بال صاف کرسکتی ہے ، انہوں نے فرمایا ممکن حد تک تکلیف دہ چیزوں کو ختم کرو ،(فتح الباری 462/10)اور علامہ شامی نے لکھا ہے کہ عورت کو داڑھی اور مونچھ نکل آئے تو اسے ختم کردینا مستحب ہے ۔(رد المحتار 373/6)
مونچھ تراشنا :
ﷲ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے :
’’خالفوا المشرکین ووفروا اللحیٰ واحفوا الشوارب‘‘۔
’’مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی خوب بڑھاؤ اور مونچھ پست رکھو ‘‘۔(صحیح بخاری 875/2)
نیز آپ ﷺنے فرمایا :
’’ من لم یأخذ من شاربہٖ فلیس منا ‘‘۔
’’جو مونچھ کو نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔(جامع ترمذی 105/2 وقال حسن صحیح وقال ابن حجر سندہ قوی،فتح الباری 413/10)
مونچھ تراشنے سے متعلق روایات میں مختلف الفاظ منقول ہیں ، بعض الفاظ کا مفہوم ہے کہ مونچھ تراشنے میں مبالغہ سے کام لینا چاہیے اور اسے بالکل پست کردینا چاہیے ،(جیسے جز ، احفاء ، انہاک وغیرہ ،دیکھیے وجوب احفاء اللحیہ: 35)
اور بعض روایات کا تقاضا ہے کہ معمولی طورپر تراشا جائے اور ﷲ کے رسول ﷺ کے طرزِ عمل سے اسی کی تائید ہوتی ہے کہ آپ ﷺ اس طرح تراشا کرتے کہ بال ہونٹ کے اوپری سرے کے برابر ہوجاتے ،(جامع ترمذی 105/2، وقال حسن۔) بعض فقہاء نے اس طریقے کی سنیت پر اجماع نقل کیا ہے۔(رد المحتار 407/6)
مونچھ کے دونوں کناروں کو بڑا رکھنا جائز اور درست ہے، (الہندیہ 358/5) امام غزالی نے حضرت عمر ؓ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ مونچھ کے دونوں کناروں کو چھوڑ دیا کرتے تھے ،(المجموع: 388/1) ہفتہ میں ایک مرتبہ مونچھ تراشنا افضل ہے ، ہر ہفتہ نہ ہوسکے تو پندرہ دن پر ، اور آخری حد چالیس دن ہے کہ اس کے بعد چھوڑے رکھنے پر گناہ ہوگا ، حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ﷲ کے رسولﷺنے ہمارے لیے مونچھ تراشنے ، ناخن کاٹنے ، بغل کے بال اکھاڑنے اور زیرِ ناف کے بال مونڈنے کے لیے ایک وقت متعین کردیا تھا کہ ہم چالیس رات سے زیادہ نہ چھوڑیں ،(صحیح مسلم 129/1، کتاب الطہارۃ باب خصال الفطرۃ)مونچھ تراشنے میں دائیں طرف سے ابتداء کرنا مستحب ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺہر کام دائیں طرف سے پسند فرماتے تھے ۔(المجموع: 288/1)
بال تراشنے یا مونڈنے کے بعد اسے دفن کردینا چاہیے ، کسی علاحدہ جگہ پر ڈال دینا بھی درست ہے ، لیکن استنجاخانے وغیرہ میں پھینکنا مکروہ ہے کہ احترامِ انسانیت کے خلاف ہے ۔ (الہند یہ 357/5)
داڑھی بڑھانا:
اﷲ تعالیٰ نے داڑھی کے ذریعہ مرد کو زینت اور وجاہت عطا فرمائی ہے ، یہ انسانی فطرت اور مردانہ حسن کی علامت ہے :
’’عن عائشۃ ؓقالت قال رسول ﷲ ﷺ عشر من الفطرۃ ،قص االشارب واعفاء اللحیۃ ‘‘(صحیح مسلم 129/1)
داڑھی مونڈنا فطرت کو مسخ کرنا اور عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا ہے اور یہ دونوں ہی باتیں باعث لعنت اور ﷲ کی رحمت سے دوری کا ذریعہ ہیں ، حدیث گزرچکی ہے کہ فطرت کے بگاڑنے والے اور عورت کی مشابہت اختیار کرنے والے پرﷲ کی پھٹکار پڑتی رہتی ہے ، داڑھی اسلامی شعار اور مسلمانوں کی شناخت اور پہچان ہے ، ﷲ کے رسول ﷺنے تاکیدی الفاظ کے ساتھ داڑھی بڑھا نے کا حکم دیا ہے ، حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا :
’’خالفوا المشرکین و وفروا اللحیٰ وأحفواالشوارب‘‘۔
’’مشرکین کی مخالفت کرو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور مونچھ پست رکھو ‘‘۔(صحیح بخاری و مسلم ، المشکوۃ ، ص: 380)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں :
’’جزوا الشوارب وأرخوا اللحیٰ خالفوا المجوس‘‘۔
’’مونچھ پست کرو اور داڑھی لٹکاؤ ، مجوس کی مخالفت کرو ‘‘۔(صحیح مسلم 129/1)
’’مجوس ‘‘ آگ کے پجاری اور دو خدا پر یقین رکھنے والی قوم ہے ، اس لیے ابن عمرؓ کی روایت میں ان کو مشرک کہا گیا ہے ، (خالفوا المشرکین أراد بھم المجوس یدل علیہ روایۃ مسلم خالفوا المجوس،عمدۃ القاری ؍نیز فتح الباری 430/10)داڑھی مونڈنے اور کاٹنے کا زیادہ تر رواج اسی قوم میں تھا ، ان میں کچھ لوگ داڑھی مونڈا کرتے تھے اور بعضے چھوٹی دا ڑھی رکھا کرتے تھے ،(فانھم کانوا یقصون لحاھم ومنھم من کان یحلقھا فتح الباری 430/10،عمدۃ القاری۔)آنحضور ﷺ نے دونوں کی مخالفت کا حکم دیا ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی بھی داڑھی تراشا کرتے تھے ، جیسا کہ حضرت ابوامامہ سے روایت ہے :
’’قلنا یا رسول ﷲ ان اھل الکتاب یقصون عثانینھم ویوفرون سبالھم فقال النبیﷺ قصوا سبالکم و وفروا عثانینکم وخالفوا أھل الکتاب‘‘۔
’’ہم نے کہا ﷲ کے رسول! اہل کتاب (یہودی اور عیسائی ) اپنی داڑھی تراشتے ہیں اور مونچھ لمبی رکھتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنی مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ‘‘ ۔(الفتح الربانی: 314/18)
ان روایتوں سے معلوم ہوا کہ جس طرح داڑھی مونڈنا مکروہ تحریمی ہے اور ﷲ کے رسول ﷺ کے حکم کی نافرمانی ہے اسی طرح سے داڑھی چھوٹی رکھنا بھی ناجائز اور نادرست ہے ۔
داڑھی کی مقدار :
حدیث میں داڑھی بڑھانے سے متعلق پانچ الفاظ مذکور ہیں ، اعفاء ، ایفاء ، ارخاء ، ارجاء ، توفیر ، اور ان میں سے ہر ایک کا مفہوم یہ ہے کہ داڑھی بڑھاؤ اور اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو ۔(معناھا کلھا ترکھا علیٰ حالھا.شرح الامام النووی علی الصحیح للمسلم) ان روایتوں میں بڑھانے کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ، البتہ ﷲ کے رسول ﷺ نے اپنے عمل کے ذریعہ اس کی حد مقرر فرمادی ہے اور کسی چیز کے مقدار کے تعین کے سلسلہ میں ﷲ کے رسول ﷺ کا فعل بھی حجت ہے ، جیسا کہ قرآن میں سر کے مسح کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بیان کیا گیا ہے کہ پورے سر کا مسح کیا جائے یا بعض کا ، آنحضور ﷺ نے عملی طور پر اس کی وضاحت فرمائی کہ سر کے اگلے حصے پر مسح کرلینا کافی ہے ، اسی طرح سے قرآن میں چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے لیکن ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے اس سلسلہ میں قرآن خاموش ہے ، اور ﷲ کے رسول ﷺ کا قول بھی موجود نہیں ہے ، البتہ آپ ﷺ کا عمل موجود ہے ، اسی طرح سے داڑھی کے مسئلے میں ﷲ کے رسولﷺکا عمل موجود ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی داڑھی ایک مشت سے ہرگز کم نہ تھی ، چنانچہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کی داڑھی آپ کے سینے کو بھرے ہوئے تھی ، کسی میں کہا گیا کہ آپ کی داڑھی بڑی تھی ،’’عظیم اللحیۃ ‘‘ کسی حدیث میں کہا گیا کہ وہ گھنی داڑھی والے تھے ، ’’کث اللحیۃ ‘‘ ۔(وجوب اعفاء اللحیۃ :13)
اس کی مزید وضاحت بعض صحابہ کرام ؓکے عمل سے ہوتی ہے ، چنانچہ سنت نبوی کے عاشق اور گرویدہ ، حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق منقول ہے :
’’ کان ابن عمـــر اذا حج أو اعتمــر قبض علیٰ لحیتہٖ فمـا فضل أخذہ‘‘(1)
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ جب حج یا عمرہ کرتے تو داڑھی کومشت میں لیتے جو ایک مشت سے زیادہ ہوتا اسے کاٹ دیتے‘‘۔
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر کا یہ عمل حج و عمرہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ، بلکہ جب بھی بال حدِ اعتدال سے بڑھ جائے تو وہ اس کو کاٹ دینے کے قائل ہیں ۔(فتح الباری 429/10)
حضرت ابوہریرہ ؓ کا عمل بھی اسی کے مطابق تھا ۔
’’کان ابوہریرۃ یقبض علیٰ لحیتہٖ فیاخذ مافضل عن القبضۃ ‘‘۔
’’حضرت ابوہریرہؓ اپنی داڑھی مٹھی میں لیتے اور جو بھی مٹھی سے زائد بال ہوتے انہیں کاٹ دیتے‘‘ ۔(نصب الرایۃ : 458/2، عمدۃ القاری 47/22)
واضح رہے کہ ﷲ کے رسولﷺنے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اپنے عمل کے ذریعہ اس کی حد بندی فرمادی ہے نیز بعض صحابہ کرام کے عمل سے اس کی مزید وضاحت ہوجاتی ہے اس لیے جس طرح سے داڑھی بڑھانے کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے ،اسی طرح سے ﷲ کے رسولﷺ نے عمل کے ذریعہ جو وضاحت فرمائی ہے اس پر بھی عمل واجب ہے اور ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا جائز نہیں ہے ۔
دوسرے یہ کہ داڑھی بڑھانے کے متعلق حدیث کی کتابوں میں جو الفاظ مذکور ہیں ان کے ظاہر کا تقاضا ہے کہ داڑھی کو ہاتھ ہی نہ لگایا جائے اور کسی بھی حال میں اسے نہ کاٹا جائے ، کہ ﷲ کے رسول ﷺنے داڑھی بڑھانے ، اسے چھوڑ دینے اور بھرپور رکھنے کا حکم دیا ہے اور آنحضور ﷺسے داڑھی تراشنا صحیح روایتوں سے ثابت نہیں ہے ، زیادہ سے زیادہ جو ثابت ہے وہ بعض صحابہ کرام کا ایک مشت کے بعد کاٹ دینا ، ایک مشت سے کم داڑھی رکھنا نہ تو کسی حدیث سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور ائمۂ فقہ اور بزرگان دین سے ، یہ بات ذکر کی جاچکی ہے کہ حدیث میں داڑھی بڑھانے کے ساتھ مجوس اور اہل کتاب کی مخالفت کا بھی حکم دیا گیا ہے اور یہ دونوں گروہ داڑھی چھوٹی رکھتے تھے، ان کی مخالفت اور داڑھی بڑھانے کی روایت پر عمل کی صورت یہی ہے کہ یا تو داڑھی بالکل چھوڑ دی جائے یا ایک مشت کے بعد کاٹی جائے کہ بعض صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مشت کے بعد کاٹ دینے کے باوجود مجوس کی مخالفت ہوجائے گی اوریہ داڑھی رکھنے کی کم سے کم مقدار ہوگی ، اور اس سے بھی چھوٹی رکھنے کی صورت میں نہ تو داڑھی بھرپور رکھنے کے حکم پر عمل ہوگا اور نہ ہی اہل کتاب اور مجوس کی مخالفت ہوسکے گی ۔
داڑھی میں گرہ لگانا :
داڑھی چڑھانا اور گرہ لگانا مکروہ ہے ، حدیث میں ہے کہ جو شخص داڑھی چڑھاتا ہے ، محمد(ﷺ)اس سے بری ہیں ،(سنن ابوداؤد وسندہٗ جید ،المجموع 290/1) داڑھی کے بال میں بہ تکلف شکن پیدا کرنے کا بھی یہی حکم ہے ،(المجموع 292/1)داڑھی کے بال کو اکھاڑنا بھی درست نہیں ہے ،(فتح الباری 430/10)نیز نچلے ہونٹ کے بال کو کاٹنا یا نوچنا بھی ممنوع ہے ، البتہ رخسار اور حلق کے بال کو کاٹنا درست ہے ۔(الہندیہ 358/5)
سفید بال نوچنا :
بال کے سفید ہونے سے وقار اور وجاہت میں اضافہ ہوجاتا ہے ، حدیث میں اسے ’’ نور ‘‘ کہا گیا ہے ، جو قیامت کی تاریکی میں اس کے لیے روشنی ہوگی ، نیز اس کی وجہ سے نیکی لکھی جاتی ہے اور خطاؤں کو معاف کردیا جاتا ہے ، ﷲ کے رسول ﷺ نے سفید بال اکھاڑنے سے منع فرمایا ہے ۔ لاتنتفوا الشیب،(2)اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہم سفید بال اکھاڑنے کو مکروہ اور ناپسند سمجھتے ہیں ۔(المجموع 293/1)
خضاب :
یہود ونصاریٰ کے یہاں زیب وزینت دینداری اور بزرگی کے خلاف ہے ، اسی نظریہ کی وجہ سے وہ خضاب کے استعمال کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے ، ﷲ کے رسول ﷺنے دینداری کے اس غلو آمیز تصور پر نکیر فرمائی اور اپنی امت کو خضاب استعمال کرنے کا حکم دیا ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا :
’’ان الیھود والنصاریٰ لا یصبغون فخالفوھم‘‘۔
’’یہود ونصاریٰ خضاب نہیں لگاتے ہیں لہٰذا ان کی مخالفت کرو اور خضاب لگاؤ ‘‘۔(صحیح بخاری 875/2)
فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓکے والد ابوقحافہ کے سر اور داڑھی کے سفید بال کو دیکھ کر فرمایا :
’’غیروا ھٰذا وجنبوا السواد‘‘۔
’’ اس سفیدی کو بدل دو ، البتہ کالے خضاب سے بچو‘‘۔(صحیح مسلم 199/2)
مہندی کا خضاب اور زرد ، سرخ اور کسم(3)کے خضاب کو آپ نے پسند فرمایا ہے ، (دیکھیے نیل الاوطار 120،119/1)
البتہ خضاب لگانے کا حکم وجوبی نہیں بلکہ استحبابی ہے ، یہی وجہ ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر ؓو عمر ؓ سے خضاب لگانا منقول ہے وہیں بعض دیگر صحابہ کرام سے خضاب کا نہ لگانا بھی ثابت ہے ۔ (حوالہ مذکور 118/1)
سیاہ خضاب کا استعمال مکروہِ تحریمی ہے ، ﷲ کے رسول ﷺکا ارشاد ہے:
’’یکون قومٌ فی آخر الزمان یخضبون بالسواد کحواصل الحمام لایریحون رائحۃ الجنۃ‘‘۔
’’آخر زمانہ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح سیاہ خضاب استعمال کریں گے ، ایسے لوگ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گے ‘‘۔(قال الالبانی صحیح ،سنن ابوداؤد ،ص 624)
اور حضرت ابوالدرداء سے منقول ایک حدیث میں ہے :
’’من خضب بالسواد سود اللّٰہ وجھہٗ یوم القیامۃ‘‘۔
’’جو کوئی سیاہ خضاب استعمال کرے گا تو ﷲ تعالیٰ قیامت میں اس کے چہرہ کو سیاہ کردیں گے‘‘ ۔(أخرج الطبرانی وسندہ لین، فتح الباری 434/10)
حضرت ابوبکرؓ کے والد کے متعلق روایت گزر چکی ہے جس میں آپ ﷺ نے سیاہ خضاب سے بچنے کا حکم فرمایا ہے ، ان روایتوں کی بنیاد پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ سیاہ خضاب کا ستعمال مکروہ ہے ۔(4)
اس کے برعکس ایک حدیث میں ہے کہ ﷲ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا :
’’ان أحسن مااختضبتم بہ ھذا السواد ارغب لنسائکم فیکم وأھیب لکم فی صدور عدوکم ‘‘۔
’’سب سے بہتر سیاہ خضاب ہے جس سے تمہاری عورتیں تمہاری طرف مائل ہوتی ہیں اور دشمن کے سینے میں تمہارا رُعب بیٹھ جاتا ہے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ ،ص: 258فی الزوائد اسنادہ حسن ،سنن ابن ماجہ ،تحقیق محمد فواد ص: 1197)
اور بعض صحابہ کرام جیسے حضرت سعد بن ابی وقاص ، عقبہ بن عامر ، حسن ، حسین وغیرہ سے سیاہ خضاب کا استعمال منقول ہے ، لیکن مذکورہ روایت کے متعلق محدثین کا خیال ہے کہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ،(فی سندہ ضعفاء۔ التعلیق الممجد،ص: 392)
لیکن ابن قیم کہتے ہیں کہ حضرت حسن و حسین کے متعلق صحیح سند ثابت ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرتے تھے (زاد المعاد 184/3) اور مفتی محمّد تقی عثمانی صاحب نے ان کے علاوہ سات صحابہ کرام اور تابعین عظام کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں نام بنام لکھا ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کیا کرتے تھے.اور امام سرخسی کے حوالے سے یہ عبارت نقل کی ہے :
ان الاصح ان الخضاب للتزين للزوجة جائز.
(تکملہ فتح الملہم150/4)
لیکن مذکورہ حدیث ان روایتوں سے فروتر ہے جن میں ممانعت آئی ہے ، اور صحابہ کرام کا عمل حالت جہاد پر محمول ہے کہ دشمن پر رعب ودہشت طاری ہوجائے ، ایسی حالت میں سیاہ خضاب کا استعمال جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ ہے ،(الہندیہ ،359/5) یا ’’کسم ‘‘ وغیرہ کا خضاب مراد ہے جو سیاہی مائل ہوا کرتا ہے اور اسی کو سیاہ کہہ دیا گیا ہے ۔
امام زہری کی رائے کے مطابق وقت سے پہلے اگر بال سفید ہوجائیں تو سیاہ خضاب استعمال کرسکتے ہیں ، البتہ بڑھاپے میں سیاہ خضاب ممنوع ہے ، حضرت ابو قحافہ کو اسی بنیاد پر سیاہ خضاب سے منع کیا گیا ، ان کے الفاظ یہ ہیں :
’’کنا نخضب بالسواد اذ کان الوجہ جدیداً فلما نغص الوجہ والاسنان ترکناہ‘‘۔
’’جب تک چہرہ تر وتازہ تھا ہم سیاہ خضاب استعمال کرتے تھے لیکن جب سے چہرہ اور دانتوں میں تغیر آگیا تو ہم نے اسے چھوڑ دیا ‘‘۔( فتح الباری 434/10)
مہندی :
ﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ان أحسن ما غیرتم بہ ھٰذا الشیب الحناء والکتم‘‘۔
’’بہترین رنگ جس کے ذریعہ تم اس سفیدی میں تبدیلی کرو مہندی اور کتم کا رنگ ہے‘‘ ۔(رواہ الخمسۃ وصححہٗ الترمذی، نیل الاوطار 120/1)
اس لیے مہندی اور کتم کا خضاب پسندیدہ ہے اور عورتوں کے لیے ہاتھ اور پیر میں بھی مہندی لگانا مستحب اور بہتر ہے ، (المرقاۃ ،304/8)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ کسی عورت کے ہاتھ میں مہندی لگی نہ دیکھ کر ناپسندیدگی کااظہار فرماتے تھے ، (السنن الکبریٰ 509/7)انہیں سے منقول ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک خاتون نے ﷲ کے رسول کی خدمت میں کوئی نوشتہ پیش کیا ، آنحضور ﷺ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا معلوم نہیں مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا ؟ انہوں نے کہا عورت کا ہاتھ ہے ، ﷲ کے رسول نے فرمایا :
’’لوکنت امرأۃ لغیرت أظفارک یعنی بالحناء‘‘۔
’’اگر تو عورت ہوتی تو ناخن میں مہندی لگائے ہوتی ‘‘۔(قال الالبانی حسن ، سنن ابوداؤد /621)
ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے لیے ہمہ وقت مہندی لگانا سنت ہے ، صرف عید اور شادی کے موقع پر مہندی لگانا اور دوسرے دنوں میں اس کا اہتمام نہ کرنا غلط ہے ۔
مردوں کے لیے بغرض زینت ہاتھ ، پیر میں مہندی لگانا درست نہیں ہے ، (اما خضب الیدین والرجلین فلا یجوز للرجال،فتح الباری 435/10) یہی حکم چھوٹے بچوں کا بھی ہے ، (الہندیہ 359/5، خلاصۃ الفتاویٰ 373/4)حدیث میں ہے کہ ﷲ کے رسول نے ایک ہجڑے کے ہاتھ اور پیر میں مہندی لگی دیکھ کر حکم دیا کہ اسے مدینہ سے نکال باہر کرو ، (أخرجوہ من المدینۃ .سنن ابوداؤد 674/2) کہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے ، اور مرد کو ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ، البتہ علاج کے طور پر مرد کے لیے بھی مہندی لگانے کی اجازت ہے ، حدیث میں ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ کے پیر میں درد ہوتا تو آپ مہندی لگانے کے لیے کہتے ۔(سنن ابوداؤد ،540/2، مسند احمد 462/6)
سرمہ :
سرمہ سے آنکھوں کی حفاظت ہوتی ہے ، اور نگاہ کی برقراری اور تیزی کا ذریعہ بھی ہے اور عورتوں کے لیے باعث زینت بھی ، رات میں سرمہ لگانا بہتر ہے کہ اس وقت سرمہ کا اثر دیر تک باقی رہتا ہے اور آنکھ اسے اچھی طرح جذب کرلیتی ہے ، سرمہ لگانے میں طاق عدد کی رعایت مسنون ہے ، ﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’من اکتحل فلیوتر من فعل فقد أحسن ومن لا فلا حرج‘‘۔
’’سرمہ لگانے میں طاق عدد کی رعایت کرنی چاہیے ، اس کے مطابق عمل کرنا اچھا ہے اور جو نہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں ‘‘۔(سنن ابوداؤد ،6/1، حدیث حسن ہے ، فتح الباری: 225/1)
ﷲ کے رسول ﷺ ہر آنکھ میں تین سلائی لگایا کرتے تھے ،(جامع ترمذی 305/1،وحسنہ)بعض روایتوں میں ہے کہ دائیں میں تین اور بائیں میں دو سلائی لگاتے ، شروع اور ختم دونوں دائیں آنکھ پر کرتے ، (زاد المعاد 280/4سندہ جید)مردوں کے لیے زیبائش کے مقصد سے دن میں سیاہ سرمہ لگانا کراہت سے خالی نہیں ، (الہندیہ ، 359/5) عورتوں کے لیے سیاہ سرمہ اور کاجل کی اجازت ہے ۔
میک اَپ :
عورت کی فطرت کی رعایت کرتے ہوئے شریعت اسلامیہ نے ان کے لئے مردوں کی بہ نسبت زیب و زینت کی زیادہ گنجائش رکھی ہے ، اسی لیے انہیں زیورات ، ریشمی اور شوخ رنگ کے کپڑے کی اجازت دی گئی ہے ، اور ان کے لیے درست ہے کہ وہ رخسار اور ہونٹوں پر سرخی لگائیں ، ہاتھ اور پیر میں مہندی رچائیں ، کریم اور پاؤڈر کا استعمال کریں ، (فتح الباری ، 462/10)لیکن ان کے لیے بھی بناؤ سنگار میں حد سے زیادہ انہماک اور مبالغہ ناپسندیدہ ہے ، اسی لیے ﷲ کے رسول ﷺنے ہمہ وقت کنگھی لے کر بالوں کے سنوارنے سے منع فرمایا ہے ۔( نھیٰ عن الترجل الاغبا.سنن ابوداؤد 573/2)
حافظ ولی الدین عراقی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
’’ اس میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، لیکن عورت کے لیے کراہیت مرد کے اعتبار سے کچھ کم ہے ، اس لیے کہ زیب و زینت میں ان کے لیے مرد سے زیادہ گنجائش ہے ، اس کے باوجود ان کے لیے بھی اس میں مبالغہ نہ کرنا ہی بہتر ہے۔‘‘(فیض القدیر 311/2)
غلو آمیز زینت ہی کی ایک شکل ہے، بھوں کے بال کو اکھاڑنا ، اپنے بال میں دوسروں کے بال لگانا ، دانتوں کے درمیان فصل کرنا ، جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ، لہٰذا زیبائش و آرائش کے لیے بیوٹی پارلر میں جانا ، اور کسی پیشہ ور کی خدمات حاصل کرنا اگرچہ وہ عورت ہی کیوں نہ ہو کراہت سے خالی نہیں ہے ، اس طرح کے مراکز کو قائم کرنا سخت ناپسندیدہ ہے ۔(یکرہ کسب الماشطۃ۔الفقہ الاسلامی وأدلتہٗ ،341/1)
زیبائش میں اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس میں غیر مسلموں اور فاسقوں کی مشابہت نہ ہو ، اس لیے سیندور ، ٹکلی یا اس جیسے ہندوانہ سنگار سے احتراز ضروری ہے ۔
دانتوں کا نوک دار بنانا اور ان کے درمیان فصل پیدا کرنا :
حضرت آدمؑ کا سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں جب شیطان بارگاہِ خداوندی سے دھتکارا گیا تو اس نے اولادِ آدم کو گمراہ کرنے اور انہیں جنت سے محروم اور جہنم میں اپنا ساتھی بنانے کی مختلف تدبیریں اور ترکیبیں سوچیں ، جس میں ایک تدبیر یہ تھی کہ انسان کو ﷲ کی بنائی ہوئی صورت اورہیئت میں تبدیلی کے لیے آمادہ کرے گا ۔ (ولاٰمرنھم فلیغیرن خلق اﷲ.سورۃ النساء: 119)
داڑھی مونڈنا ، بھوں کے بالوں کو اکھاڑنا ، دانتوں کے درمیان فصل پیدا کرنا ، ان میں دراز پیدا کرنا ،گھِس کر چھوٹا کرنا ، یہ سب شیطان کے بہکاوے میں آکر ﷲ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنا ہے ، ﷲ کے رسولﷺ فرماتے ہیں :
’’لعن اﷲ الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللّٰہ ‘‘۔
’’ﷲنے لعنت فرمائی ، جسم گودنے اور گدوانے والیوں پر ،بالوں کو نوچنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فصل پیدا کرنے والیوں پر جو اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی کرتی ہیں‘‘ ۔(صحیح بخاری وغیرہ 879/2۔)
دانتوں کو باریک اور نوک دار بنانا ممنوع ہے ، ایسے ہی اسے گھس کر چھوٹا کرنا بھی ناجائز ہے ، البتہ اگر دانت تکلیف دہ حد تک بڑھ جائے تو اسے اکھاڑنے یا چھوٹا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،(5) اس لیے کہ حدیث میں زینت اور خوبصورتی کے لیے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ، لیکن اگر تکلیف اور پریشانی دور کرنے کے لیے ہوتو اس کی اجازت ہے ۔
گودنا :
جسم کے کسی حصے میں سوئی کے ذریعہ سیاہی وغیرہ بھر دی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے بنائے ہوئے نقوش ابھر آتے ہیں ، ذوق اور رغبت کے اعتبار سے مختلف قسم کے نقوش بنائے جاتے ہیں ، رُخسار پر تل بنانے ، اپنا اور اپنے متعلقین کانام کندہ کرانے ، دیوی اور دیوتا کی تصویر بنانے کا غیر مسلموں میں اس وقت بھی عام رواج ہے ، ظاہر ہے کہ یہ بھی ایک ناروا فیشن ہے ، اس لیے حدیث میں اس عمل کو باعث لعنت ٹھہرا یا گیا ہے ۔
خوبصورتی کے لیے آپریشن :
جسم ، ﷲ کی امانت ہے ، انسان اس کا مالک نہیں کہ جس طرح جی میں آئے کاٹ ، چھانٹ کرتا رہے بلکہ بوقت ضرورت ہی جسم کے کسی حصے کو چیرنے پھاڑنے کی اجازت ہے ، زیبائش وآرائش ضرورت میں داخل نہیں ،ا س لیے محض اس مقصد سے جسم میں کسی بھی طرح کی سرجری درست نہیں ہے ، کہ یہ بھی بناوٹی خوبصورتی کے لیے ﷲ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی ہے ، مشہور محدث امام جریر طبری لکھتے ہیں :
’’کسی عورت کے لیے ﷲ کی پیدا کردہ بناوٹ میں خوبصورتی کے مقصد سے کمی ، زیادتی جائز نہیں ہے ، جیسے کسی کے بھوں کے بال ملے ہوئے ہوں تو وہ کشادگی کے لیے بالوں کو اکھاڑ دے ‘‘۔(فتح الباری ، 462/10)
اس لیے عمر ڈھل جانے کی وجہ سے چہرہ پر پڑی جھری کو آپریشن کے ذریعہ ختم کرنا ، ناک اور پستان کو درست کرانا ، آنکھ بڑی کرانا جائز نہیں ہے ، البتہ اگر جسم میں غیر طبعی نقص پیدا ہوجائے ، جیسے کہ گومڑ نکل آئے ، مسہ ابھر آئے یا دانت تکلیف دہ حد تک بڑھ جائے تو اس کا آپریشن درست ہے ، امام طبری ہی کا بیان ہے :
’’اگر اس کی وجہ سے ضرر اور تکلیف ہو ، جیسے لمبے دانت کی وجہ سے کھانے میں پریشانی ہورہی ہو ، یا زائد انگلی کی وجہ سے اذیت ہورہی ہو تو دانت اکھاڑنے اور انگلی کاٹ دینے کی اجازت ہے ‘‘۔(فتح الباری ، 462/10 الہندیہ ،360/5)
ناخن تراشنا :
ناخن ، انگلیوں کی حفاظت کا ایک اہم ذریعہ ہے ، لیکن حد سے بڑھ جائے تو پریشانی کا سبب بھی ہے ، میل ، کچیل جمع ہوجانے کی وجہ سے گھن اور کراہیت ہوتی ہے ، اور طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ، طبیعت از خود تقاضا کرتی ہے کہ اسے کاٹ دیا جائے ، اسی لیے حدیث میں ناخن تراشنے کو فطری چیز کہا گیا ہے ، (صحیح بخاری ، 875/1)ناخن کاٹنے کی آخری مدت چایس روز ہے ، (صحیح مسلم ، 129/1) اس سے زیادہ تاخیر باعث گناہ ہے ، بعض لوگوں میں ناخن بڑھانے کا رُجحان پایا جاتا ہے ، یہ ایک غیر فطری اور غیر شرعی طریقہ ہے ، جمعہ کے دن صفائی ، ستھرائی اور پاکیزگی کی ایک خاص فضیلت ہے ، اس لیے ہر جمعہ کو ناخن تراشنا بہتر ہے۔ (الدرالمختار،405/6)
رسول ﷲﷺکے متعلق منقول ہے کہ آپ جمعہ کے دن مونچھ تراشنے اور ناخن کاٹنے کو اچھا سمجھتے تھے ۔ (فتح الباری ، 424/10)
کاٹنے کی ابتداء کس طرف سے ہو ؟ اس مسئلے میں روایات خاموش ہیں ، مختلف لوگوں نے اپنے اپنے رجحان کے اعتبار سے الگ الگ صورتیں تجویز کی ہیں ، چونکہ ﷲ کے رسول ﷺہر چیز میں داہنی طرف سے ابتداء کو پسند فرماتے تھے ،ا س لیے علامہ نووی ؒ کا خیال ہے کہ بہتر ہے کہ داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کیا جائے اور دائیں طرف ترتیب وار چھوٹی انگلی تک کاٹنے کے بعد انگوٹھے کے ناخن کو تراشا جائے ، اور بائیں ہاتھ میں چھوٹی انگلی سے ابتداء کی جائے اور ترتیب وار کاٹتے ہوئے آخر میں انگوٹھے کے ناخن کو کاٹا جائے، پیر میں دائیں طرف سے چھوٹی انگلی سے شروع کرنا ، ترتیب وار کاٹتے ہوئے آخر میں انگوٹھے کے ناخن کو تراشنا اور بائیں پیر کے انگوٹھے سے ابتداء کرنا اور چھوٹی انگلی پر ختم کرنا پسندیدہ ہے ۔(فتح الباری ، 423/10)
دانت سے ناخن کاٹنا مکروہ ہے ، اس کی وجہ سے برص کی بیماری ہوجانے کا خطرہ ہے ،(الہندیہ ، 358/5)ناخن کاٹ کر گندی جگہ ڈالنا مکروہ اور احترام انسانیت کے خلاف ہے ، بہتر ہے کہ اسے کہیں دفن کردیا جائے ،(حوالہ سابق)حضرت عبد اﷲ بن عمر ؓ کا یہی معمول تھا۔(فتح الباری ، 423/10)
زیورات :
عورت کے لیے زیور کا استعمال اس کی فطرت کا تقاضا اور نسوانیت کی علامت ہے ، اور اس کے جذبۂ آرائش کے عین مطابق ہے ، اس لیے اسے ہر طرح کے زیور کے استعمال کی اجازت ہے ۔(6) مرد کے لیے زیور حرام ہے ، خواہ سونے کا ہو یا اس کے علاوہ کسی دیگر دھات کا ، چاندی میں انگوٹھی کی حد تک اجازت ہے ، ﷲ کے رسولﷺکا ارشاد ہے کہ سونا اور ریشم میری امت کے مردوں کے لیے حرام ہے اور عورتوں کے لیے حلال ہے ، (سنن ابوداؤد ،561/2 سنن نسائی 293/2) اور حضرت عبد ﷲ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے کسی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو نکال کر پھینک دیا اور فرمایا:
’’یعمد أحدکم الیٰ جمرۃ من نارٍ فیجعلھا فی یدہٖ‘‘۔
’’تم لوگ جان بوجھ کر اپنے ہاتھ میں آگ کا شعلہ کیوں رکھ لیتے ہو ‘‘۔(صحیح مسلم ، 195/2)
جس طرح مرد کے لیے سونے کی انگوٹھی حرام ہے ، اسی طرح سے سونے کا قلم ، سگریٹ ، لائٹر ، سگریٹ ہولڈر وغیرہ مرد وعورت دونوں کے لیے حرا م ہے ، البتہ سونے کی گھڑی عورت کے لیے جائز ہے اور مرد کے لیےحرام ۔
مجبوری اور علاج کے طور پر مرد کے لیے سونے کا استعمال کرنا جائز ہے ، حضرت عرفجہ ؓ کی ناک کسی جنگ کے موقع پر کٹ کر گرگئی تھی ، انہوں نے چاندی کی ناک لگائی ، مگر اس میں بدبو پیدا ہوجایا کرتی تھی تو ﷲ کے رسول ﷺ نے انہیں سونے کی ناک لگانے کا حکم دیا ،(جامع ترمذی 306/1وقال حسن) اور حضرت انس بن مالک ؓسے دانتوں میں سونے کا تار لگالینا منقول ہے ۔(نصب الرایۃ 237/4)
انگوٹھی :
انگوٹھی ایک طرف سامانِ زینت ہے تو دوسری طرف ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ بھی ، کہ اس سے مہر لگانے کا کام لیا جاتا تھا ، اور اسی ضرورت کی وجہ سے رسول ﷲ ﷺ نے انگوٹھی پہنی ہے ، حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے مختلف بادشاہوں کے پاس خط لکھنا چاہا ( تاکہ اس کے ذریعہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچائی جاسکے ) صحابہ کرام نے عرض کیا کہ وہ لوگ کسی ایسے خط کو قبول نہیں کرتے ہیں جس پر مہر نہ ہو ، تو ﷲ کے رسول ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی ،(صحیح بخاری 872/2) ابتداء میں آپ ﷺ نے اس مقصد کے لیے سونے کی انگوٹھی پہنی تھی ، آپؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت سے صحابہ کرام بھی سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے لگے ، جب اس کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو آپ نے سونے کی انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور صحابہ کرام کو بھی اس سے منع فرمادیا ۔(حوالہ مذکور)
انگوٹھی میں چاندی کی مقدار زیادہ سے زیادہ ایک مثقال ہونی چاہیے ، (4گرام۔374 ملی گرام) اس سے زائد وزن کی انگوٹھی کا استعمال مردوں کے لیے درست نہیں ہے ، کیونکہ حدیث میں اس سے زیادہ وزن کی انگوٹھی پہننے سے منع کیا گیا ہے : لا تتمہ مثقالاً ،(اعلاء السنن 361/17) مردوں کے لیے دیگر دھات کی انگوٹھی اور کڑا وغیرہ پہننا جائز نہیں ہے۔
انگوٹھی پر نقش :
انگوٹھی پر کسی قسم کا جملہ ، فقرہ اور نام لکھنا درست ہے ،(رد المحتار 361/6، شرح مہذب 463/4)رسول اکرم ﷺ کی انگوٹھی پر ’’محمد رسول ﷲ ‘‘ نقش تھا ، پہلی سطر میں محمد ، دوسری میں رسول اور تیسری میں ﷲ لکھا ہوا تھا ، اور دوسروں کو حکم تھا کہ وہ اپنی انگوٹھی میں یہ نقش نہ بنائیں ،(صحیح بخاری 873/2، فتح الباری 403/10) اس کا مقصد دھوکہ اور التباس سے بچنا تھا ، کیونکہ یہ انگوٹھی بطور مہر استعمال ہوتی تھی دوسرے لوگ بھی اس کی نقل اتار لیتے تو خصوصیت باقی نہ رہتی اور مقصد فوت ہوجاتا ، اب چونکہ ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہے اس لیے اس طور پر نقش بنانا جائز ہے ۔
انگوٹھی پر ﷲ کے اسماء اورصفات ، قرآنی آیت اور ’’محمد ‘‘ لکھا ہوا ہو تو استنجاء اور ناپاکی کی حالت میں اسے اتار دینا چاہیے ،(رد المحتار 873/2)حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب قضاء حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو انگوٹھی اتار دیتے ۔(جامع ترمذی 305/1وقال حسن صحیح)
نگینہ :
رسول مقبول ﷺ کی ایک انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا مگر دوسری انگوٹھی میں حبشی پتھر کا نگینہ لگا ہوا تھا ، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ آپ ﷺ کے پاس صرف ایک انگوٹھی تھی جس کا نگینہ چاندی ہی کا تھا مگر بناوٹ اور ساخت حبشی تھی ،(فتح الباری 395/10) لیکن صحیح یہ ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ کے پاس ایک سے زائد انگوٹھی تھی ، عورتوں کی طرح دو یا تین نگینہ لگانا ان کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ ہے ، مردوں کو انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھنا چاہیے ، ﷲ کے رسول ﷺ کا یہی طرزِ عمل تھا ، (صحیح بخاری873/2)عورتوں کے لیے چونکہ زینت مقصود ہے ، اس لیے ان کو اوپر کی طرف رکھنا چاہیے ۔(رد المحتار 361/6)
انگوٹھی پہننے کا طریقہ:
انگوٹھی ، دونوں ہاتھ کی انگلیوں میں پہنی جاسکتی ہے ، ﷲ کے رسول ﷺ سے دونوں ہی ثابت ہے ، (ابوداؤد :580/2، المرقاۃ :444/4) لیکن افضل اور بہتر کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں قدرے اختلاف ہے ، امام نووی شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ داہنے ہاتھ میں پہننا افضل ہے ، اس لیے کہ یہ زینت ہے اور داہنا ہاتھ زینت اور عظمت کا زیادہ مستحق ہے ،(شرح مسلم للنووی197/2)علامہ بدر الدین عینی کہتے ہیں کہ بائیں ہاتھ میں پہننا مناسب ہے ، کیونکہ گرچہ ﷲ کے رسول ﷺ سے دائیں ہاتھ میں پہننا ثابت ہے مگر یہ ابتداء میں تھا ، بعد میں بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے ، اور یہی آپ ﷺ کا آخری عمل تھا ، (عمدۃ القاری :37/22)علامہ بغوی کا بھی یہی خیال ہے ، (حوالہ سابق)اس نقطۂ نظر کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے ،(حدیث ضعیف ہے ، فتح الباری 401/10) حنبلی علماء کی بھی یہی رائے ہے ، اور امام مالک کے یہاں تو دائیں ہاتھ میں پہننا مکروہ ہے ،(الموسوعہ : 27/11 الفقہ علی المذاہب الاربعۃ : 14/2)علامہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اگر مہر لگانا مقصود ہو تو بائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے تاکہ دائیں ہاتھ کے ذریعہ نکال کر اس سے مہر لگا سکے اور اگر پہننے کا مقصد زینت ہوتو دائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے ،(فتح الباری 401/10) یہ ایک بہتر توجیہ ہے ،اور انگوٹھی کی طرح گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے ۔
انگوٹھی چھوٹی انگلی میں پہننا مسنون ہے ۔ (سنن ابوداؤد 580/2، المجموع 463/4) اور شہادت اور درمیان کی انگلی میں پہننا ممنوع ہے ، حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے مجھے شہادت اور اس سے ملی ہوئی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا ، (صحیح مسلم : 197/2)انگوٹھا اور چھوٹی انگلی کے بعد والی میں پہننا ﷲ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے ، ( المرقات : 445/4) علامہ بدرالدین عینی کہتے ہیں کہ چھوٹی انگلی کے علاوہ کسی دوسری میں پہننا سخت مکروہ اور خلاف ِ سنت ہے ،(عمدۃ القاری : 37/22) یہ حکم مردوں کے لیے ہے ، عورتوں کو تمام انگلیوں میں پہننے کی اجازت ہے ،(المرقاۃ : 445/4، عون المعبود : 286/11) نیز ان کے لیے بہ اتفاق پیر میں بھی پہننا جائز ہے۔(الموسوعہ : 24/11)
دیگر دھات کے زیورات :
پیتل ، تانبا ، اور لوہا وغیرہ کے زیورات کا استعمال جائز ہے ،(7) مگر ان دھاتوں کی انگوٹھی مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے ، حنفیہ ، مالکیہ اور حنابلہ کا یہی نقطۂ نظر ہے ،(الموسوعۃ الفقہیۃ : 24/11)شافعی فقہاء کے یہاں صحیح تر قول کے مطابق بلاکراہت جائز ہے ،(۱المجموع:466/4الفقہ علی المذاہب الاربعۃ :15/2)امام بخاری ؒ کا بھی یہی رجحان ہے ،(صحیح بخاری :872/2، فتح الباری 396/10)جو لوگ کراہت کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ احادیث ہیں :
1۔ ایک صحابی لوہے کی انگوٹھی پہن کر ﷲ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، انہیں دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا ، کیا وجہ ہے کہ تم پر جہنمیوں کا لباس دیکھ رہا ہوں ؟ وہ اسے گھر رکھ کر پیتل کی انگوٹھی پہن کر آئے تو فرمایا کیا بات ہے کہ میں بتوں کی بدبو محسوس کررہا ہوں ؟ وہ گئے اور سونے کی انگوٹھی پہن کر آئے تو فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کہ میں تم پر جنتیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں ، وہ کہنے لگے ﷲ کے رسول ! کس چیز کی انگوٹھی استعمال کروں؟ ارشاد فرمایا : چاندی کی اور ایک مثقال سے زائد نہ ہو۔(رواہ ابوداؤد والنسائی والترمذی وصححہ ابن حبان،عمد ۃ القاری : 33/22.والحق ان الحدیث حسن .اعلاء السنن 331/17)
2۔ حضرت عبد ﷲ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی ، ﷲ کے رسول ﷺ نے انہیں دیکھا، انہوں نے آنحضور ﷺ کی نگاہ سے ناپسندیدگی کو بھانپ لیا ، اور اسے رکھ کر لوہے کی انگوٹھی پہن کر آگئے تو فرمایا یہ اس سے بدتر اور ناکارہ ہے ، ھٰذا أخبث وأخیب ۔(وفی سندہ عبد ﷲ بن المومل وھو ضعیف،عمد ۃ القاری : 33/22)
3۔انہی سے منقول ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے سونے اور لوہے کی انگوٹھی سے منع فرمایا ۔(أخرجہ البیہقی والطبرانی فی الاوسط بسند رجالہ ثقات)
4۔حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھ کر فرمایا ، اسے اتار دو ، انہوں نے اسے اتار کر لوہے کی پہن لی تو فرمایا یہ اس سے زیادہ برا ہے، ذا شر منہ۔(اعللہ العینی بالانقطاع ، قلت الانقطاع غیر مضر عندنا فی خیر القرون،اعلاء السنن 327/17)
جواز کے قائلین دلیل میں درج ذیل احادیث پیش کرتے ہیں ۔
1۔ایک طویل حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ایک صاحب بہت ہی خستہ حال مگر گھر بسانے کے خواہش مند تھے ، ﷲ کے رسول ﷺ نے ان سے فرمایا جاؤ مہر کا انتظام کرو گرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو ۔( التمس ولو خاتماًمن حدید۔صحیح بخاری : 872/2)
ٍ 2۔حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ بحرین سے ایک صاحب آئے اور سلام کیا ، لیکن ﷲ کے رسول ﷺ نے ان کے سلام کا جواب نہیں دیا ، ان کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی اور جسم پر ریشمی جبہ تھا ، و ہ گئے اور دونوں اتار کر آئے تو رسول ﷲ ﷺ نے ان کے سلام کا جواب دیا ، نووارد نے کہا ﷲ کے رسول ! ابھی آپؐ کے پاس آیا تھا تو آپ نے اعراض فرمایا (اس کی کیا وجہ ہے ؟) تو نبی کریم ﷺ نے جواب دیا کہ تیرے ہاتھ میں آگ کا شعلہ تھا ، انہوں نے دریافت کیا کہ کس چیز کی انگوٹھی استعمال کروں ؟ آپ ﷺ نے کہا چاندی ، لوہا اور پیتل کا ایک حلقہ بنالو ۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ ابو النجیب وثقہ ابن حبان ورجالہ ثقات،اعلاء السنن : 331/17)
3۔امام ابوداؤد نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ کی انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی کا غلاف چڑھا ہوا تھا ۔(سنن ابوداؤد : 580/2)
دلائل کا ایک جائزہ :
جو لوگ کراہت کے قائل ہیں ان کی دلیل صریح اور واضح ہے ، لیکن روایت سندی حیثیت سے کمزور ہے ، زیادہ سے زیادہ مجموعی اعتبار سے دوسرے درجے کی حدیث (حسن )کہی جاسکتی ہے ، اور جو لوگ جواز کے قائل ہیں ان کی طرف سے پیش کردہ روایت اعلیٰ معیار کی ہے ، اور واضح بھی ہے ، اس روایت کے متعلق یہ کہنا کہ ’’ اس سے لوہے کی انگوٹھی پہننے کی اجازت معلوم نہیں ہوتی ہے ‘‘ خلافِ ظاہر ہے ، اورغیر تسلی بخش ہے ،(درس ترمذی ، مولانا محمد تقی عثمانی) نیز حضرت ابوسعید خدری کی حدیث بھی بالکل صریح ہے گرچہ صحت کے درجے سے فروتر ہے ، لیکن سنن ابوداؤد کی روایت اس موضوع سے غیر متعلق ہے کیونکہ جولوگ کراہت کے قائل ہیں وہ بھی لوہے کی ایسی انگوٹھی کو جائز قرار دیتے ہیں جس پر چاندی کا غلاف چڑھا ہوا ہو ۔ (ردالمحتار :360/6)
گھڑی:
سونے اور چاندی کی گھڑی کے ناجائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ، البتہ گھڑی یا اس کا چین لوہے کا ہو تو اسے پہننے میں کوئی کراہت نہیں ہے ، اس لیے کہ :
الف : لوہے سے متعلق ممانعت کی احادیث اسنادی اعتبار سے ضعیف ہیں ، اور جن روایتوں سے جواز معلوم ہوتا ہے وہ ان کے مقابلے میں قوی ہیں ، اور دو روایتوں میں تعارض کے وقت اسی حدیث کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی اسنادی حیثیت مضبوط ہو ۔
ب: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فقہاء کرام نے اس ممانعت کو انگوٹھی ہی تک محدود رکھا ہے ، اور لوہے کی دیگر چیزوں کے پہننے کی اجازت دی ہے جیسا کہ عورتوں کے لیے انگوٹھی کے سوا لوہے کے دوسرے زیورات کی اجازت ہے ، اور مرد و عورت ہر ایک کے لیے بیلٹ میں لوہے کاحلقہ استعمال کرنادرست ہے ۔(بخلاف المنطقۃ فلا یکرہ فیھا حلقۃ حدیدأو نحاس۔ردالمحتار :359/6)
ج: گھڑی میں ضرورت کا پہلو غالب ہے ، اور ضرورت کی چیزوں میں وسعت اور گنجائش رکھی گئی ہے ، اور ایسی باتیں بھی گوارا کرلی جاتی ہیں جو بغرضِ زینت اور آرائش درست نہیں ہے ۔
د: چین کی حیثیت تابع کی ہے ، اور بعض چیزیں اصلاً جائز نہیں ہوتی ہیں لیکن تبعاً جائز ہوا کرتی ہیں ، چنانچہ علامہ حصفکی نے لکھا ہے کہ قمیص میں ریشمی گھنڈی درست ہے کیونکہ وہ تابع ہے ، (لا بأس بعروۃ القمیص وزرہ من الحریر لأنہ تبع ۔ردالمحتار : 359/6)ایسے ہی فقہاء نے جوتے میں سونے کی کیل اور نگینے کو سونے کے تار سے باندھنے کی اجازت دی ہے کہ اس کی حیثیت تابع کی ہے ۔
بہتر ہے کہ گھڑی داہنے ہاتھ میں پہنی جائے اور اس کا ڈائل ہتھیلی کی جانب ہو ، کیونکہ رسول ﷲ ﷺ ہر اچھی چیز میں داہنی جانب کو ترجیح دیا کرتے تھے نیز انگوٹھی کے نگینے کو ہتھیلی کی جانب رکھتے تھے ۔
گھڑی یا کسی بھی چیز پر سونے ، چاندی کا پانی چڑھا ہو تو اس کا استعمال مرد و عورت ہر ایک کے لیے درست ہے ۔(أماالتمویہ الذی لا یخلص فلا بأس بہ بالاجماع۔ الہندیہ 334/5)
خوشبو اور سینٹ:
خوشبو ، روح کی غذا ، دل کے سکون و سرور کا ذریعہ اور ذہن ودماغ کے لیے راحت رساں اور خالق کائنات کی پسندیدہ چیز ہے ، ان ﷲ طیب یحب الطیب ،(زاد المعاد : 279/4) اور نبی آخر الزماں ﷺ کو بےحد مرغوب تھی اور یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ بکثرت خوشبو استعمال کرتے تھے ،(حوالہ مذکور)لہٰذا خوشبو کا استعمال بہتر اور پسندیدہ ہے ، اور اجتماعی جگہوں پر جیسے نمازِ جمعہ ، عیدین اور دیگر مجلسوں میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ، ﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے اور خوشبو لگائے اور اگر خوشبو موجود نہ ہوتو پانی اس کے لیے خوشبو ہے ۔ (جامع ترمذی : 118/1، کتاب الجمعہ)
کوئی تحفہ کے طور پر خوشبو پیش کرے تو اس کو واپس نہیں کرنا چاہیے ، حدیث میں ہے کہ خوشبو پیش کی جائے تو اسے لینے سے انکار مت کرو ۔(من عرض علیہ طیبٌ فلا یردہٗ،سنن ابوداؤد :622 تحقیق شیخ البانی)
مردوں کے لیے تیز اور بے رنگ اور عورتوں کے لیے شوخ رنگ کی ہلکی خوشبو پسندیدہ ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا :
’’طیب الرجال ما أظھر ریحہ وخفی لونہ وطیب النساء ماأظھر لونہ وخفی ریحہ‘‘۔
’’مرد کی خوشبو وہ ہے جس کی بو ظاہر ہو اور رنگ پوشیدہ ہو، اور عورت کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ نمایاں ہو اور خوشبو پوشیدہ ہو‘‘ ۔ (جامع ترمذی : 107/2، ابواب الاستیذان ،وقال حسن)
اظہارِ زینت :
عورت کا دائرۂ کار گھر کی چہار دیواری ہے ، ( وقرن فی بیوتکن) حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت جب گھر سے باہر قدم رکھتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے ، اس لیے ضرورت ہی کی وجہ سے باہر نکلنے کی اجازت ہے ، اور وہ بھی اس طرح کہ رفتار وگفتار سے شانِ دلربائی کا مظاہرہ نہ ہو ، چال میں ایک وقار اور گفتگو سے ایک طرح کی بے اعتنائی کا اظہار ہو ، اور زینت کی جگہیں پوشیدہ رہیں ، ناز وادا کے ساتھ چلنا ، پائل کی جھنکار سے اپنی طرف متوجہ کرنا ، رس بھری گفتگو کرنا ، خوشبو لگاکر نکلنا سخت ناروا اور ناجائز ہے ، یہ چیزیں روگی دلوں کوراغب کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور عصمت وعفت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں ، اسلام پہلے ہی مرحلے میں ان پر پابندی لگادیتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ میں بے حیائی کے جراثیم پیدا نہ ہوں اور برائیوں کے پنپنے کا موقع نہ ملے ، خالقِ کائنات کا ارشاد ہے :
’’وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ‘‘۔
’’اپنے گھروں میں رہا کرو ، اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے حسن وجمال کی نمائش نہ کرتی پھرو‘‘ ۔(سورہ احزاب : 33)
عورت کی فطرت اور شوہر کی دلجوئی کے مقصد سے بناؤ ، سنگار کی اجازت تو ہے ، لیکن اسے دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا غلط ہے ، جس آرائش کا مقصد شوہر کے سوا غیر مردوں کی لذتِ نظر بننا ہو ، جس سے غرض جذبات میں اُبال اور دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہو ، وہ قرآن کی زبان میں ’’تبرج‘‘ ہے اور ناجائز و حرام ہے ، اسی بنیاد پر عورت کیلئے بجنے والے زیورات پہننا اور پہن کر اس طرح چلنا کہ آواز پیدا ہو ممنوع ہے ۔
’’ولا یضربن بأرجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن‘‘۔
’’اور اپنے پاؤں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ اس کی وجہ سے پوشیدہ زینت ظاہر ہوجائے ‘‘۔(سورۃ النور :31)
یہاںتک کہ غیر محرم سے نرم ، لوچدار اور شیریں گفتگو سے منع کیا گیا ہے ۔
’’فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہٖ مرضٌ‘‘۔
’’اور پست لہجے میں گفتگو نہ کرو کہ اس کی وجہ سے بیمار اور روگی دل بری خواہش کرنے لگے‘‘ ۔(سورۃ الاحزاب : 33)
اور یہ بھی ناجائز ہے کہ وہ خوشبو لگا کر باہر نکلے ، حدیث میں ہے :
’’ المرأۃ اذا استعطرت فمرت بالمجلس فھی کذا وکذا یعنی زانیۃ ‘‘۔
’’جب کوئی عورت خوشبو لگاکر کسی مجلس سے گزرے تو وہ ایسی ویسی ہے یعنی بدکار ہے ‘‘۔ (سنن ابوداؤد :575/2،جامع ترمذی : 106/2،وقال حسن صحیح)
بے جان تصویر :
زینت اور سجاوٹ کے لیے دیواروں ، یا کپڑوں یا کاغذ وغیرہ پر درخت ، پہاڑ ، جھیل یا ایسے ہی بے جان قدرتی مناظر کی تصویر سازی جائز اور درست ہے ، تقریباً اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے ، خود حدیث میں اس کی وضاحت ہے ، ﷲ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
’’ثلاث لن یلج ملک مادام فیھا أبداً کلب أو جنابۃ أو صورۃ روحٍ‘‘۔
’’تین چیزیں جب تک گھر میں رہیں گی کوئی فرشتہ اس میں داخل نہیں ہوگا ، کتا، ناپاک آدمی ، اور جاندار کی تصویر‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل :85/1)
معلوم ہوا کہ اس چیز کی تصویر ناجائز ہے جس میں جان اور روح ہو ، بے جان چیزوں کی تصویر میں کوئی قباحت نہیں ہے ، ایک دوسری حدیث میں مزید وضاحت ہے جسے حضرت عبد ﷲ بن عباس ؓنے ﷲ کے رسول ﷺ سے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تصویر بنانے والا جہنم میں ڈالا جائے گا ، اور جتنی تصویریں اس نے بنائی تھیں ان میں جان پھونک دی جائے گی ، اور وہ تصویر اسے جہنم میں عذاب دیتی رہے گی ، حضرت عبد ﷲ بن عباس ؓ نے حدیث سننے والے سے کہا کہ اگر تم تصویر بنانا ہی چاہو تو ایسی چیز کی تصویر بناؤ جس میں روح نہ ہو ۔( وان ابیت الا تصنع فعلیک بھٰذا الشجر وکل شیٔ لیس فیہ روح ۔صحیح مسلم 202/2)
پامال تصویر :
فرش ،بستر یا ایسی کسی چیز پر جاندار کی تصویر ہو جو پامال ، حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی ہو تو اس کی بھی اجازت ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل ؑنے بارگاہِ نبوت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی ، نبی ﷺ نے کہا آئیے ، انہوں نے کہا میں کیسے آسکتا ہوں جبکہ آپ کے گھر میں تصویر دار پردہ پڑا ہوا ہے ، آپ یا تو اس کا سر کاٹ دیجئے یا بستر بنا لیجئے جسے روندا جائے ، کیونکہ فرشتے کسی ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو۔ سنن نسائی : 301/2، جامع ترمذی 801/2وقال حسن صحیح)
اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول ﷲﷺ سفر سے واپس آئے ،میں نے الماری پر تصویر دار پردہ لٹکا رکھا تھا ، ﷲ کے رسول ﷺ نے اسے دیکھا تو پھاڑ دیا اور فرمایا سب سے زیادہ سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو ﷲ کی بناوٹ کی نقل اتارتے ہیں ، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم نے اس کے ایک یا دو تکیے اس کے بنالیے ،(صحیح بخاری : 880/2) مسند احمد میں ہے کہ وہ تصویر اس میں اسی طرح موجود تھی ۔(مسند احمد بن حنبل :247/6)
علامہ شامی اس طرح کی تصویر کے جائز ہونے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ تصویر کی کراہت یا تو اس لیے ہے کہ اس میں تعظیم کا پہلو پایا جاتا ہے ، یا غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے ، پامال تصویر میں یہ دونوں باتیں نہیں ہیں ، اس لیے جائز ہے ۔( الذی یظھرمن کلامھم ان العلۃ اما التعظیم أو التشبیہ)
چھوٹی تصویر بنانا :
تصویر اس قدر باریک اور چھوٹی ہوکہ زمین پر رکھ کر کھڑا ہوکر دیکھا جائے تو اس کے اعضاء مکمل طور پر دیکھائی نہ دیں تو ایسی تصویر کی بھی اجازت ہے ،(رد المحتار : 436/1)چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ کے متعلق منقول ہے کہ ان کی انگوٹھی کے نگینہ پر شیر کی تصویر تھی ، اور حضرت ابوہریرہؓ کے نگینے میں دو مکھیوں کی تصویر بنی ہوئی تھی ۔
جاندار کی تصویر :
کسی جاندار کے مجسمہ کی حرمت پر تمام علماء کا اتفاق ہے ، اس لیے زینت کے مقصد سے گھروں میں کتا ، بلی ، بطخ وغیرہ کے مجسمے کو رکھنا حرام ہے کہ یہ عیش پرستوں کا شیوہ اور طریقہ ہے کہ وہ اپنے محلوں کو مجسموں سے آباد رکھتے ہیں ، جو ﷲ کی رحمت سے ویران ہوتے ہیں ، اورگھروں میں جاندار کے مجسموں کی موجودگی فرشتوں کی دوری کا باعث ہے ، رسول ﷲ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’ان الملائکۃ لاتدخل بیتاً فیہ تماثیل‘‘۔
’’ایسے گھروں میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جس میں مجسمے ہوں ‘‘۔(متفق علیہ)
ایسی تصویروں کی حرمت پر بھی اتفاق ہے جن کی عبادت اور پرستش کی جاتی ہو، گرچہ وہ بے جان چیز کی کاغذی تصویر ہی کیوں نہ ہو ، جیسے صلیب وغیرہ ۔
بے سایہ کاغذی اور عکسی تصویر (فوٹو ) کے سلسلہ میں قدرے اختلاف ہے ، صحیح یہ ہے کہ ایسی تصویر بھی ناجائز ہے کیونکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت میں صراحت ہے کہ جس تصویر کی وجہ سے حضرت جبرئیل امین ؑبارگاہِ نبوت میں حاضر نہ ہوسکے وہ پردے پر بے سایہ تصویر تھی ، اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کی مذکورہ روایت میں بھی تصویر دار پردے کا ذکر ہے ، جن حدیثوں سے اس طرح کی تصویروں کا جائز ہونا معلوم ہوتا ہے وہ یا تو منسوخ ہیں یااس سے بے جان چیزوں کی تصویر مراد ہے ۔ جیسے درج ذیل روایتیں:
الف: زید بن خالد نے حضرت ابوطلحہ سے روایت کی ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں کوئی تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ، حدیث کے راوی بُسر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زید بیمار ہوگئے ، ہم ان کی عیادت کو گئے دیکھا کہ ان کے دروازے پر تصویر دار پردہ پڑا ہوا ہے تو میں نے عبید ﷲ خولانی سے کہا کیا زید نے ہم سے ایسی حدیث بیان نہیں کی ہے جس میں تصویر کو ممنوع قرار دیا گیا ہے تو عبید ﷲ نے کہا ان کی روایت میں یہ بھی تو موجود ہے ،الا رقماً فی الثوب سوائے اس کے کہ کپڑے میں کوئی نقش و نگار ہو ۔(صحیح بخاری 881/1، صحیح مسلم 200/2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کی ممانعت ہے مگر یہ کہ کپڑے میں نقش ونگار ( رقم فی الثوب ) ہوتو اس کی اجازت ہے ، عربی زبان میں ’’رقم‘‘ نقش ونگار کو کہتے ہیں ، اور اس حدیث میں بے جان چیزوں کی تصویر کو کپڑے میں جائز قرار دیا گیا ہے ، اور حضرت ابو طلحہ کے دروازے پر اسی طرح کا کپڑا پڑا ہوا تھا جیسا کہ علامہ نوویؒ کا خیال ہے(شرح النووی علی المسلم 200/2)لیکن حدیث کے راوی حضرت زید نے روایت کے ان الفاظ سے ’’ان الملائکۃ لاتدخل بیتاً فیہ صورۃ‘‘ (فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو )یہ سمجھا کہ اس سے جاندار اور غیر جاندار ہر طرح کی تصویر مراد ہے ، اس لیے حضرت ابو طلحہ کے گھر منقش پردہ دیکھ کر انہیں اعتراض ہوا لیکن حضرت عبید ﷲ خولانی کی وضاحت سے ان کا اعتراض ختم ہوگیا ۔
ب: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک پردہ پر پرندہ کی تصویر تھی ، جب بھی کوئی داخل ہوتا تو تصویر پر اس کی نظر پڑتی ، ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اسے ہٹادو کیونکہ جب بھی گھر آتا ہوں تو اسے دیکھ کر دنیا یاد آجاتی ہے ۔(صحیح مسلم 200/2)
ج: حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ کے پاس ایک پردہ تھا جس سے انہوں نے مکان کے ایک حصے کو ڈھانک دیا تھا ، ﷲ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا اسے میرے پاس سے ہٹادو کیونکہ اس کی تصویر نماز میں میرے سامنے ہوتی ہے ۔( امیطیہ عنی فانہ لاتزال تصاویرہ تعرض لی فی صلاتی۔صحیح بخاری 881/2)
بے سایہ تصویر اور فوٹو کو جائز قرار دینے والے کہتے ہیں کہ ان دونوں احادیث میں رسول ﷲ ﷺ نے تصویر ہٹانے کے لیے کہا ، اسے مٹانے یا کپڑا پھاڑدینے کا حکم نہیں دیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی تصویر جائز ہے ، البتہ چونکہ اس سے دنیا یاد آتی ہے ،اور یہ تصویریں انسان کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں جس کی وجہ سے نماز کے خشوع میں خلل پڑتا تھا اس لیے ﷲ کے رسول ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اسے ہٹانے کا حکم دیا ۔
لیکن ان روایتوں سے بھی تصویر کے جواز پر استدلال درست نہیں ہے ، کیونکہ تصویر کے جائز نہ ہونے کی مختلف وجوہات ہیں ، بعض وجوہات ایسی ہیں کہ اس سے صرف کراہت اور ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے مگر اسے دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ تصویر جائز ہے درست نہیں ، جیسا کہ ایک موقع پر کسی کو ریشمی لباس میں دیکھ کر رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا یہ متقیوں کا لباس نہیں ہے .(لیس ھٰذا من لباس المتقین ) اس حدیث میں ریشم کے حرام ہونے کی ایک کم درجہ وجہ بیان کی گئی ہے ، لیکن اسے دیکھ کر یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ریشم کا استعمال درست ہے ، زیادہ سے زیادہ تقویٰ کے خلاف ہے ، بلکہ ضروری ہے کہ اس سلسلہ کی تمام حدیثیں سامنے رکھی جائیں اور مجموعے سے جو بات معلوم ہو اس کے مطابق حکم لگایا جائے ، یہی بات تصویر میں بھی ہے ، کہیں آپ ﷺ نے اس کی حرمت کی اصل وجہ بیان فرمائی کہ یہ ﷲ کی صفت تخلیق کی نقالی ہے ، اور کبھی اس سے کم درجہ وجہ بیان کی کہ اس سے دنیا یاد آتی ہے ، اور کبھی یہ کہا :
ان ﷲ لم یامرنا ان نکسوا الحجارۃ والطین۔ ﷲ تعالیٰ نے ہمیں پتھر اور مٹی کو کپڑوں سے آراستہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے(صحیح مسلم 200/2)
اس لئے کہ یہ عیش پسندوں اور دنیا پرستوں کا طریقہ ہے ، آخر کی ان وجہوں کو دیکھ کر کہہ دینا غلط اور اسلامی اصول سے ناواقفیت کی دلیل ہے کہ تصویر درست ہے ، زیادہ سے زیادہ دیواروں وغیرہ پر تصویر دار پردہ لٹکانا مکروہِ تنزیہی ہے ۔
علاوہ ازیں اسلام میں کسی چیز کو حرام قرار دینے کے سلسلہ میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے ، ابتداء میں سخت الفاظ نہیں استعمال کیے گئے بلکہ اس کی برائیوں اور قباحتوں کو دل میں اتارنے کی کوشش کی گئی ، اور جب طبیعت خود بخود اس سے نفرت کرنے لگی تو اسے حرام قرار دیا گیا جیسا کہ شراب کے سلسلہ میں کیا گیا ، یہی تدریج تصویر میں بھی ملحوظ رکھی گئی ہے کہ ابتداء میں اس کے متعلق زیادہ سخت الفاظ استعمال نہ کئے گئے اور جب اس کی قباحت ذہن نشیں ہوگئی تو اس کی حرمت کی صراحت کردی گئی ۔
تصویر کے متعلق مختلف روایات جمع کرنے کے سلسلہ میں اس کے سوا جو کوشش کی جاتی ہے اس سے بات بننے کے بجائے اور بگڑ جاتی ہے ، جیسے بعض لوگوں نے کہا کہ مجسمہ اور ایسی تصویر جس کی پرستش ہوتی ہو ، جن میں تعظیم اور تقدیس کا پہلو پایا جاتا ہو وہ حرام ہے ، مجسمہ اور مشرکانہ تصویر کے علاوہ فوٹو جائز اور درست ہے ، مگر حدیث کے الفاظ میں اس توجیہ کی گنجائش نہیں ہے ، کیونکہ کسی بھی حدیث میں مشرکانہ اور غیر مشرکانہ کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے ، علاوہ ازیں صحابہ کرام اور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے متعلق یہ سوچا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ﷲ کے رسول ﷺ کے گھر میں مشرکانہ تصویر لگا رکھی تھی جسے دیکھ کر ﷲ کے رسول ﷺ غضبناک ہوگئے۔
اسلام نے ابتداء ہی سے جس ذہن کی تعمیر شرک بیزاری کی بنیاد پر کی ہو ، جس نے شرک کے معمولی رخنے کو بھی گوارا نہیں کیا ، اس کے پیروکاروں کے متعلق یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ ان سب کے باوجود وہ اپنے گھروں کو مشرکانہ تصویر سے مزین رکھا کرتے تھے ۔
پردہ لٹکانا اور مکان کی تزئین و آرائش :
دنیا، آخرت کی کھیتی ہے ، یہاں انسان اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ نیک عمل کرے ، ﷲ کی رضا جوئی اور خوشنودی کے کام کرے ، مسلمان کے لیے دنیا ایک مسافر خانہ کی طرح سے ہے ، دنیا کی مثال اس سایہ دار درخت کی سی ہے جس کی ٹھنڈی اور گھنیری چھاؤں میں مسافر چند گھڑی کے لیے رکتا ہے اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے ، ظاہر ہے کہ ایسی جگہ کو اپنی فکر و نظر کا مرکز، دوڑ دھوپ کا مقصد بنالینا اور اس کی تزئین وآرائش میں مشغول ہونا عقلمندی کی بات نہیں ہے ، کوئی بھی عقلمند انسان کرایہ کے مکان کی پختگی کے لیے اپنی کمائی کو ضائع نہیں کرتا ہے کہ ایک دن اسے خالی کرنا ہے ، یہ دنیا تو کرایہ کے مکان سے بھی زیادہ ناپائدار ہے ، اس لیے حدیث میں بے ضرورت دیواروں پر پردہ لگانے اور گھروں کی تزئین و آرائش میں غلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عبد ﷲ بن عمر ؓ سے منقول ہے :
’’نبی کریم ﷺ حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے ، دروازے پر منقش پردہ پڑا ہوا تھا ،اسے دیکھ کر الٹے پاؤں واپس آگئے ، حضرت علی ؓ گھر آئے تو حضرت فاطمہ کو غمزدہ پایا ، پوچھنے پر انہوں نے واقعہ کا ذکر کیا ، حضرت علیؓ بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ کا وہاں سے واپس آنا فاطمہ کے لیے بہت شاق ہے ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہمیں دنیا سے کیا واسطہ ؟ ہمیں نقش و نگار سے کیا تعلق ؟ (مالنا وللدنیا ، ما انا والرقم‘‘۔ سنن ابو داؤد 200/2، قال الالبانی صحیح)
اورحضرت عبد ﷲ بن عمرو سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول میرے پاس سے گزرے ، میں اور میری والدہ دیوار پر مٹی کا پلاسٹر لگا رہے تھے ( وانا اطین حائطا لی انا وامی ) ﷲ کے رسول ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور فرمایا ! موت کا معاملہ اس عمارت سے زیادہ قریب ہے (الامر اسرع من ذٰلک .حوالہ مذکور ، قال الالبانی صحیح ، سنن ابوداؤد محقق 783)
اس لیے موت کے بعد زندگی کے لیے تیاری کرنی چاہیے اور آخرت کے گھر کو بنانے اور سجانے کی کوشش ہونی چاہیے۔
حاشيه______________________________
(1)صحیح بخاری 875/2، مؤطا امام مالک کے الفاظ یہ ہیں: کان اذا حلق فی حج أو عمرۃٍ أخذ من لحیتہٖ وشاربہٖ ،ص:274 مسند امام ابوحنیفہ کے الفاظ یہ ہیں: انہ کان یقبض علیٰ لحیتہٖ ثم یقص ماتحت القبضۃ ، جامع المسانید 309/2 )
(2)پوری روایت اس طرح ہے: لاتنتفوا الشیب مامن مسلم یشیب شیبۃ فی الاسلام الا کانت لہ نوراً یوم القیامۃ وقال فی حدیث یحییٰ الا کتب اﷲ لہ بھا حسنۃ وحط عنہ بھا خطیئۃ ، قال الالبانی حسن صحیح ،سنن ابوداؤد 625محقق ۔
(3) ’’کسم ‘‘ ایک گھاس کا نام جس کا رنگ سیاہ مائل بہ سرخ ہوتا ہے .(فتح الباری 435/10)
(4)دیکھیے الدرالمختار 422/6والصحیح بل الصواب أنہ حرام،المجموع 294/1، ویکرہ صباغ الشعر بالسواد من غیر تحریم .(الثمر الدانی 474)، قیل لأبی عبد اﷲ تکرہ الخضاب بالسواد قال أی وﷲ.(المغنی:67/1)
(5) أما لو احتاجت الیہ للعلاج أو لعیب فی السن ونحوہ فلاباس .(شرح النووی علی الصحیح للسلم 205/2)
(6)ہار ، کنگن ، پازیب ، انگوٹھی اور کان میں بالی پہننے کے سلسلہ میں بعض صحابیات کا عمل احادیث میں مذکور ہے ، دیکھیے ، صحیح بخاری ، 574/2
(7) لا بأس للنساء بتعلیق الخرز فی شعورھن من صفر أو نحاس أو شبہ أو حدید أو نحوھا للزینۃ.( الہندیہ 359/5، نیز دیکھیے امداد الفتاویٰ 136/4)