مالی تعزیر( جرمانہ)کا شرعی حکم
مولانا ولی اللہ مجید قاسمی
تعزیر کا اصل معنیٰ ہے روکنا اور واپس کردینا(الردّ والمنع)۔ مدد اور تعظیم کے مفہوم میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔اصطلاحی معنیٰ میں بعض سزائوں کو ’تعزیر‘ کہاجاتاہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے لوگ جرم سے رک جاتے ہیں اور مجرم کو دوبارہ جرم کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔( لسان العرب 2925/4.الموسوعہ الفقہیہ 254/12)
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تعزیر کے اصل معنیٰ مدد اور تعظیم کے ہیں۔(الصحاح603/1.مقایس اللہ/669) اس حیثیت سے دیکھاجائے تو تعزیر اسلامی احکام و قوانین کی عظمت و ہیبت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے اور جن لوگوں کے حق میں شریعت کی طرف سے متعین کردہ سزائیں کارگر نہیں ہوتیں،ان کے لیے اس سے مدد حاصل کی جاتی ہے۔ مثلاً کسی شرابی کو اس کی مقررہ سزا اس جرم سے باز نہ رکھ سکے توپھر قتل جیسی تعزیر کے ذریعہ اس کی زندگی ختم کردی جاتی ہے۔
’تعزیر‘سے ملتاجلتا ایک دوسرا لفظ ’تادیب‘ہے، جسے عام طورپر ہم معنیٰ شمار کیاگیاہے اور دونوں کا مفہوم ایک بیان کیاگیاہے، البتہ بعض شافعی علماء نے دونوں میں فرق کیاہے، یعنی حدود کے علاوہ کسی دوسرے جرم میں حکومت کی طرف سے دی گئی سزا ’تعزیر‘ اور استاذ، والدین اور شوہر کے ذریعہ کی گئی سرزنش ’تادیب‘ ہے۔ (روضۃ الطالبین 382/7)
اصطلاحی طور پر ہر اس جرم کی سزا کو تعزیر کہاجاتاہے جس کے بارے میں شریعت کی طرف سے کوئی سزا یا کفارہ مقرر نہ ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت کی طرف سے بعض جرائم کی سزا متعین ہے،جسے ’حد‘کہاجاتاہے۔ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے، جیسے چوری اور بدکاری کی سزا۔بعض ممنوعات میں کفارہ ہے، کوئی حد نہیں ہے، جیسے رمضان کے مہینے میں روزہ کی حالت میں جماع کرلینا۔ بعض معاصی میں حد ہے نہ کفارہ، بلکہ تعزیر ہے، یعنی اس میں شریعت کی طرف سے کوئی متعین سزا نہیں ہے، بلکہ اسے حاکم یا صاحب ِ اختیار کے حوالے کردیاگیاہے کہ وہ مجرم کو کوئی مناسب سزا دے، جیسے مارنا، قید کرنا، ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ۔
تعزیر کی مشروعیت کتاب وسنت اور اجماع وعقل سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالّٰتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً إِنَّ اللّہَ کَانَ عَلِیّاً کَبِیْراً (النساء:/34)
(اور تم کو جن عورتوں سے نافرمانی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ،خواب گاہ میں ان سے بے تعلقی برتو اور ان کو (ہلکے طریقے پر)مارو۔ اگر وہ تمہاری فرماں برداری کرنے لگیں توپھر ان پر زیادتی کے لیے بہانے تلاش مت کرو۔بے شک اللہ بڑی بلندی اور عظمت والا ہے۔)
اور حضرت ابوبردہؓ انصاری سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَا تَجْلِدُوْا فَوْقَ عَشَرَۃِ اَسْوَاطٍ الّا فِي حَدٍّ مِّنْ حُدُوْدِ اللّٰہِ ۔ (صحیح بخاری:6458.صحیح مسلم:1708)
(اللہ کی طرف سے مقررکردہ حد کے علاوہ کسی دوسرے جرم میں دس کوڑے سے زیادہ نہ مارو۔)
اور حضرت بہز بن حکیم کی سند سے منقول ہے :
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ حَبَسَ رَجُلاً فِي تُہْمَۃٍ ثُمَّ خَلّیٰ سَبِیْلَہٗ۔سنن ابوداؤد,:3630.جامع ترمذی:1417
(رسول اللہ ﷺ نے کسی الزام میں ایک آدمی کو قید میں رکھا، پھر چھوڑدیا۔)
علامہ ابن ہمامؒ کہتے ہیں کہ تعزیر کے ثبوت پر تمام صحابۂ کرام کا اجماع ہے۔(فتح القدیر 345/5)اور ابن نجیم کا بیان ہے کہ پوری امت اس پر متفق ہے۔ (البحر 71/5.نیز دیکھئے:نہایۃ المحتاج 19/8)
عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر معصیت کے کاموں اور برے افعال پر ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ وہ عادت بن جائے گی اور پھر بڑے جرائم کی طرف رغبت اور ہمت بڑھ جائے گی۔اس لیے ضروری ہے کہ پہلے مرحلے ہی پر بند لگادی جائے اور اس پر مناسب سزادی جائے۔(فتح القدیر 345/5)یہی تعزیر کا مقصد اور اس کی مشروعیت کی حکمت ہے۔ اس کے ذریعہ کسی کی اہانت مقصود نہیں، بلکہ جرم سے باز رکھنا ، معاشرے کو فساد سے پاک رکھنا اور مجرم کی اصلاح وتہذیب اس کا حقیقی مقصد ہے۔( 1)
تعزیر کی قسمیں
تعزیر کی متعدد قسمیں ہیں،جیسے جسمانی، ذہنی اور مالی وغیرہ۔ پھر تعزیر مالی کی چار صورتیں ہیں: (1)اتلاف (2) تغییر (3)حبس(4)تملیک۔
1۔اِتلاف
اتلاف کا مفہوم یہ ہے کہ کسی جرم کی وجہ سے مجرم کے مال کو ضائع کردیاجائے۔ عام طورپر فقہاء اس کے جواز کے قائل ہیں۔ چنانچہ فقہ حنفی میں اس بات کی صراحت ہے کہ کسی گھر میں مفسدانہ اور فاسقانہ کام انجام دیاجاتا ہو تواسے گرادینا جائز ہے، بلکہ ایسے گھروں کو نذرِ آتش کردینا بھی درست ہے۔چنانچہ حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ انہوں نے شراب فروشوں کے گھروں میں آگ لگادی تھی ۔ (2)
اسی طرح سے بعض کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ اغلام بازی کرنے والے کےگھر میں آگ لگا دی جائے گی(3)
اسی طرح سے مالکی علماء کے ہاں بھی بطور تعزیر پانی آمیز دودھ کو صدقہ کردینے اور خراب بناوٹ والے کپڑے کو جلادینے کی مثالیں ملتی ہیں۔ (تبصرۃ الحکام 298/2)
فقہائے حنابلہ کے یہاں اس مسئلے میں مختلف رائیں ملتی ہیں: بعض لوگوں کے یہاں بطور تعزیر کسی چیز کو تلف کرنا درست نہیں۔( 4) اور بعض لوگوں کے نزدیک ایساکرنا جائز ہے۔علامہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔(5)
شافعیہ کے یہاں بطور سزا کسی کی ملکیت کو ضائع کرنا جائز نہیں ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ سزاکے طورپر کسی چیز کو تلف کرنے کی اجازت پہلے تھی، لیکن پھر منسوخ ہوگئی۔ اس لیے اس پر عمل درست نہیں ہے۔
جواز کے دلائل:
1-منافقوں نے مسلمانوں کے خلاف سازش کرنے کے لیے ایک گھر بنایا اور اسے مسجد کا نام دیا، تاکہ وہاں ان کے اکٹھا ہونے سے کسی کو شبہ نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے سازش کے اس مرکز کو ڈھا دینے اور جلادینے کا حکم دیا(6)۔قرآن مجید میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ مَسْجِداً ضِرَاراً وَکُفْراً وَتَفْرِیْقاً بَیْْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَإِرْصَاداً لِّمَنْ حَارَبَ اللّہَ وَرَسُولَہُ مِن قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَی وَاللّہُ یَشْہَدُ إِنَّہُمْ لَکٰذِبُونَ(التوبۃ:107)
(اور جن لوگوں نے نقصان پہنچانے ،کفر کی باتیں کرنے، مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور جولوگ اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرچکے ہیں ان کے لیے پناہ گاہ فراہم کرنے کی غرض سے مسجد بنائی ہے اور (اب)وہ قسمیں کھائیں گے کہ بھلائی کے سوا ہماری کچھ اور نیت نہ تھی اور اللہ گواہی دیتا کہ وہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔)
اللہ کے رسول ﷺ نے اس عمارت کو محض گرا دینے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ اسے جلادینے کا حکم دیا اور اس کے ملبے کو دوسرے کاموں میں استعمال نہیں کیا، حالاں کہ اس کی لکڑیاں وغیرہ کام آسکتی تھیں۔اس طرزِ عمل سے معلوم ہوتاہے کہ بطور تعزیر کسی مال کو برباد کردینا درست ہے۔
2۔قرآن مجید میں ہے:
قَالَ فَاذْہَبْ فَإِنَّ لَکَ فِیْ الْحَیٰوۃِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَکَ مَوْعِداً لَّنْ تُخْلَفَہُ وَانظُرْ إِلٰیٓ إِلَہِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْْہِ عَاکِفاً لَّنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّہٗ فِیْ الْیَمِّ نَسْفاً(طہ:97)
(حضرت موسیٰ(علیہ السلام)نے سامری سے کہا:جائو،تمہارا زندگی بھر یہ حال رہے گا کہ تم کہوگے کہ کوئی مجھے ہاتھ نہ لگائے، اور تمہارے لیے ایک مقررہ وقت ہے ،جو تم سے ٹلے گا نہیں،اور اپنے اس خدا یعنی بچھڑے کے انجام کو دیکھو جس کی عبادت پر تم جمے ہوئے تھے۔ ہم اسے جلادیں گے اور پھر اسے ریزہ ریزہ کرکے سمندر میں بکھیر دیں گے۔)
حضرت موسیٰؑ نے سامری کے بچھڑے کو محض توڑنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ اسے جلا کرکے سمندر کے حوالے کردیا،حالاں کہ اسے توڑ کر یا پگھلا کر سونے جیسی قیمتی دھات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ مصلحت کا تقاضا ہو تو کسی مال کو ضائع کیاجاسکتاہے۔ یہ اگرچہ ہم سے پہلے کی شریعت کا ایک واقعہ ہے، لیکن اسے بیان کرنے کے بعد اس پر کوئی نکیر نہیں کی گئی ہے، بلکہ انداز بیان سے اس عمل کی تائید جھلک رہی ہے، نیز منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ دوسری دلیلوں سے اس طرح کے عمل کی غیر منسوخی ثابت ہورہی ہے، اس لیے یہ قابلِ استدلال ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مَا قَطَعْتُم مِّن لِّیْنَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلَی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللَّہِ وَلِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ (الحشر:۵)
(تم نے کھجوروں کے درخت کاٹ دیے، یا اس کو اپنی جڑوں پر باقی رہنے دیاتو یہ اللہ ہی کے حکم سے تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ نافرمانی کرنے والوں کو رسوا کرے۔)
صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے یہود کے قبیلے بنونضیر کے محاصرے کے موقع پر ان کے باغات کو کاٹنے اور جلانے کا حکم دیا تھا۔ اسی موقع پر مذکورہ آیت نازل ہوئی تھی۔(صحیح بخاری:4602.صحیح مسلم :1746) اس سے معلوم ہوتاہے کہ مصلحت کی وجہ سے کسی مال کو تلف کرنا جائز ہے۔ چنانچہ ابن العربیؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
اتلاف بعض المال لصلاح باقیہ مصلحۃ جائزۃ شرعاً مقصودۃ عقلاً۔(احکام القرآن 1768/4)
(پورے مال کی حفاظت کے لیے اس کے کچھ حصے کو تلف کردینا شریعت کی نظرمیں ایک جائز مصلحت اور عقل کی روٗ سے ایک صحیح مقصد ہے۔)
4۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالّذِی نَفسِي بِیدِہٖ لَقَد ھَمَمتُ اَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَیُحطَب ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَۃِ،فَیُوذَنَ لَھَا ،ثُمَّ آمُرَ رَجُلاً فَیَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ اُخَالِفَ الٰی رِجَالٍ فَاُحَرِّقَ عَلَیھِم بُیُوتَھُم۔(صحیح بخاری:618.صحیح مسلم:651)
(اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میں نے یہ ارادہ کرلیاتھا کہ لکڑی جمع کرنے کا حکم دوں، پھر نماز کے لیے اذان دلائوں اور اس کے بعد کسی سے نمازپڑھانے کے لیے کہوں اور خود میں جاکر ان لوگوں کے گھروں میں آگ لگادوں جو نماز کے لیے مسجد کی جماعت میں شامل نہیں ہوتے۔)
اس حدیث کی شرح میں علامہ عینیؒ لکھتے ہیں:’’اس سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ کسی کے مال کو برباد کرکے سزا دینا جائز ہے، کیوں کہ آگ لگا دینا ایک مالی سزا ہے۔‘‘( اوجز المسالک:12/3)
5- حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِذَا وَجَدتُم الرَّجُلَ قَد غَلَّ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ فَاَحرِقُوا مَتَاعَہٗ وَاضْرِبُوہُ۔(ابوداؤد:2713.ترمذی:1461)
(اگر تم کسی ایسے شخص کو پاؤ جس نے مالِ غنیمت میں خیانت کی ہو تواس کے سامان میں آگ لگادو اور اس کو زدو کوب کرو۔)
6۔حضرت عمروبن شعیب کی سند سے منقول ہے :
اِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ وَاَبَابَکَرٍ وَعُمَرَ حَرَّقُوا مَتَاعَ المَالِ وَضَرَبُوہُ۔(ابوداؤد: 2715)
(رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ نے مال ِ غنیمت میں خیانت کرنے والے کے مال کو آگ کے حوالے کردیا اور اس کی پٹائی کی۔)
پہلی حدیث سنداً ضعیف ہے، لیکن دوسری روایت درجۂ حسن سے کم تر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابودائودؒ اور حافظ منذریؒ نے اسے نقل کرنے کے بعد خاموشی اختیار کی ہے اور اس پر کوئی کلام نہیں کیاہے،جو ان دونوں کے نزدیک حسن ہونے کی علامت ہے۔ البتہ ایک دوسری صحیح حدیث اس کے برخلاف ہے، جس میں کہاگیاہے کہ ایک شخص نے مال ِ غنیمت میں خیانت کی، لیکن نبی ﷺ نے اس کے سامان کو جلانے کا حکم نہیں دیا۔(صحیح بخاری :کتاب الجہاد والسیر ۔باب القلیل من الغلو)اس کی توجیہ شارحین ِحدیث نے یہ کی ہے کہ چوں کہ دوسرے واقعہ میں خیانت کرنے والے کی وفات ہوچکی تھی اور اس کے وارثین اس کے مال کے مالک بن چکے تھے اور کسی شخص کی غلطی کی سزا اس کے وارثوں کو نہیں دی جاسکتی ، ا س لیے اس کے مال کو نہیں جلایاگیا۔(عمدۃ القاری:7/15)
مولانا انور شاہ کشمیریؒ مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:’’اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ تعزیری طورپر مال کو جلانا جائز ہے۔ عام طورپر ہماری کتابوں میں لکھاہے کہ مالی تعزیر درست نہیں،یہ حکم منسوخ ہے۔ لیکن میں نے حاوی قدسی نامی کتاب میں دیکھاہے کہ امام ابویوسفؒ کے نزدیک مالی تعزیر جائز ہے۔‘‘(العرف الشذی/427)
6۔حضرت عمرؓ کے حکم پر حضرت سعد بن وقاصؓ کے محل میں آگ لگادی گئی تھی،کیوں کہ محل میں رہنے کی وجہ سے لوگوں کو ان سے ملاقات میں پریشانی ہورہی تھی۔(مسند أحمد :390.کتاب الزھد لابن مبارک 474) اسی طرح انہوں نے رویشد نامی ایک شراب فروش کے گھر میں آگ لگوادی تھی، جس کی وجہ سے ساراگھر جل کر راکھ ہوگیاتھا ۔(کتاب الاموال :97.الاسماء و الکنی للدولابی:584/2) حضرت علیؓ سے بھی اس طرح کا واقعہ منقول ہے۔(الآداب الشرعیہ 263/1)اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ اگر وہ کسی کو پانی ملاہوا دودھ فروخت کرتے ہوئے دیکھتے تو اسے زمین پر گرادیتے تھے۔(6)(المدونہ 444/1. -وقال ابن تیمیہ: ھذا ثابت عن عمر(الحسبة:131)
یہ واقعات صحابۂ کرام کی موجودگی میں پیش آئے، لیکن کسی نے ان پر نکیر نہیں کی۔گویا کہ ان کے درمیان اس کے جواز پر اجماع تھا۔
7۔بعض جرائم کی وجہ سے شریعت نے جسم کے بعض اعضا یا پورے جسم کو تلف کرنے کا حکم دیاہے، جیسے چوری کی وجہ سے ہاتھ کاٹنا، یا شادی شدہ زانی کو رجم کرنا۔ اسی طرح کچھ جرائم کی بنیاد پر مجرم کے مال کو برباد کردینا بھی جائز ہونا چاہیے۔(الموسوعہ الفقہیہ 272/12)
(2)تغییر وتبدیلی
تغییر وتبدیلی کا مفہوم یہ ہے کہ ناجائز اور حرام چیز میں ایسی تبدیلی کردی جائے جس سے اس کی حرمت کی وجہ ختم ہوجائے۔ جیسے گانے بجانے کے آلات کے کل پرزے الگ کردیے جائیں، یا تصویر دار کپڑے کو پھاڑ دیاجائے، پھر اس کے اجزاء سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس شکل کے جواز پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ حضرت زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ ابوطلحہ انصاریؓ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے:
لاَ تَدخُلُ المَلاَ ئِکَۃُ بَیتاً فِیہِ کَلبٌ وَلاَ تَمَاثِیلُ۔
(فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتایاتصویر ہو۔)
یہ حدیث سن کر میں ام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوطلحہؓ اس طرح کی حدیث بیان کررہے ہیں۔ کیا آپ نے اس سلسلے میں نبی ﷺ سے کچھ سناہے؟انہوں نے کہا :نہیں،البتہ میں تم سے آپؐ کا طرز عمل بیان کروں گی۔ایک مرتبہ آپ کسی جنگ کے لیے تشریف لے گئے۔ میں نے دروازے پر ایک باتصویر پردہ لٹکادیا۔ واپسی پر آپؐ نے اسے دیکھ کر ناگواری کا اظہار فرمایا اور اسے کھینچ کر پھاڑ دیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس کپڑے سے ایک یادو تکیہ بنالیاگیا۔ (صحیح مسلم:2107)
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أتَانِي جِبرِیلُ علیہ السلام فَقَالَ لِي:۔۔۔فَمُرْ بِرَأسِ التِمثَالِ الَّذِي فِي البَیتِ یُقْطَعُ فَیَصِیْرُ کَھَیئَۃِ الشَّجَرَۃِ، وَمُرْبِالسِّتْرِ فَلْیُقْطَعْ فَلْیُجْعَلْ مِنہُ وِسَادَتَیْنِ مَنْبُوْذَتَینِ تُوْطَآنِ۔(ابوداؤد:4158.ترمذی:2806)
(جبرئیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا: آپ حکم دیجیے کہ گھر میں موجود مجسمے کا سر کاٹ دیاجائے، تاکہ وہ درخت کی طرح ہوجائے اور پردے کے بارے میں کہیے کہ اسے دو ٹکڑے کرکے دو تکیے یارومال بنالیے جائیں۔)
(3)حبس
حبس کا مفہوم یہ ہے کہ مجرم کے مال کو کچھ مدت تک کے لیے چھین لیاجائے، تاکہ اسے سبق حاصل ہو اور وہ جرم سے باز آجائے۔ پھر تو بہ واصلاح کے بعد اس کا مال اسے واپس کردیاجائے اور اگر توبہ اور اصلاح ِ حال کی کوئی امید ہی نہ ہو تو اسے افادۂ عام کے کاموں میں لگادیاجائے۔ بعض لوگوں نے لکھاہے کہ حنفیہ میں سے امام ابویوسفؒ،جو تعزیر مالی کے قائل ہیں، ان کے نزدیک یہی شکل مراد ہے۔ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصریؒ بزازیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
إن معنیٰ التعزیر بأخذ المال علی القول بہ امساک شيئٍ من مالہ عنہ مدۃ لینزجر، ثم یعیدہ الحاکم الیہ، لاّ أن یأخذہ الحاکم لنفسہ أو لبیت المال ،کما یتوھّمہ الظلمۃ ،أو لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سببٍ شرعيٍ۔
(جولوگ مالی جرمانہ کے قائل ہیں ان کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرم کے مال کو ایک مدت تک کے لیے لے لیاجائے ،تاکہ وہ اس جرم سے باز آجائے ، اس کے بعد حاکم اسے واپس کردے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے لے کر حاکم خود رکھ لے، یا بیت المال کے حوالے کردے، جیساکہ ظالم حکم رانوں نے گمان کررکھاہے، کیوں کہ کسی مسلمان کے مال کو کسی شرعی سبب کے بغیر لینا جائز نہیں ہے۔)
مجتبیٰ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
لم یذکر کیفیۃ الأخذ ،وأری أن یأخذھا ، فیمسکھا ،فان أیس من توبتہ یصرفھا الی مایریٰ۔(البحر:68/5)
(انہوں نے مال لینے کی کیفیت کی وضاحت نہیں کی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اسے لے کر اپنے پاس محفوظ رکھے اور اگر اس کی توبہ سے مایوس ہوجائے تواپنی صواب دید کے مطابق جہاں چاہے خرچ کرے۔)
اس کی نظیر یہ ہے کہ باغیوں کی سواری اور ہتھیار کو ان سے چھیننے کے بعد ایک مدت تک کے لیے محفوظ رکھاجاتاہے اور توبہ کرلینے کے بعد انہیں واپس کردیا جاتا ہے۔ (الموسوعہ الفقہیہ 271/12)
(4)تملیک
تملیک یہ ہے کہ مجرم کے مال کو چھین کر فقیروں اور مسکینوں کے حوالے کردیاجائے، یاسرکاری خزانے میں جمع کردیاجائے۔ بعض مالکی علماء اس شکل کے جواز کے قائل ہیں۔(الاعتصام :124/2)
۔ اورابن فرحونؒ نے نقل کیاہے کہ امام مالکؒ سے پانی ملے ہوئے دودھ کے بارے میں پوچھاگیا کہ کیا اسے بہادیاجائے؟ توانہوں نے کہا:نہیں، بلکہ اگر بیچنے والے نے پانی ملاکر دھوکہ دیاہے تو دودھ کو اس سے لے کر صدقہ کردیاجائے ۔ ملاوٹی زعفران اور مشک کے سلسلے میں بھی ان کی یہی رائے ہے۔ (دیکھیے تبصرۃ الحکام:298/2)
اور حنفیہ میں سے امام ابویوسفؒ سے بھی یہی منقول ہے۔ اور بعض مشائخ نے اسی کو اختیار کیاہے، لیکن تاریخ کے صفحات نے ان لوگوں کے ناموں کو محفوظ نہیں رکھا ہے۔ چنانچہ علامہ ابن ہمامؒ خلاصۃ الفتاویٰ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
سمعت من ثقۃ أن التعزیر بأخذ المال ان رأی القاضي أو الوالي جاز ، و من جملۃ ذٰلک رجل لا یحضر الجماعۃ یجوز تعزیرہ بأخذ المال مبني علی اختیار من قال بذٰلک من المشایخ کقول أبی یوسف۔(فتح القدیر 345/5)
( میں نے بعض قابل ِ اعتماد لوگوں سے سنا ہے کہ اگر قاضی یا حکم راں مناسب سمجھے تو مالی جرمانہ لینا جائز ہے، مثلاً کوئی شخص جماعت سے نماز نہ پڑھتا ہو تو اس سے مالی جرمانہ لینا جائز ہے۔ یہ رائے ان مشایخ کے قول پر مبنی ہے جو امام ابویوسفؒ کی رائے کو اختیار کرتے ہیں۔)
(امام شافعی کا قول قدیم یہی ہے۔(المہذب148/1) حنابلہ میں سے بعض لوگ اسی کے قائل ہیں۔ علامہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ نے اسی کو راجح قرار دیاہے۔
اس کے برخلاف امام ابوحنیفہؒ اور محمدؒ کے نزدیک تعزیر مالی جائز نہیں ہے اور فقہ حنفی میں فتویٰ اسی پر ہے۔(رد المحتار 106/6) مالکیہ کے یہاں بھی یہی راجح ہے۔(حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر 355/4) امام شافعیؒ کابھی قول ِ جدید یہی ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔(المہذب 148/1.المجموع308/5) اسی طرح فقہ ِ حنبلی میں بھی یہی راجح ہے۔(المغنی 526/12)
جواز کے دلائل :
1۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے درخت پر لگے ہوئے پھل کی چوری کے سلسلے میں دریافت کیاگیا توآپ نے فرمایا:
مَا أصَابَ بِفِیہِ مِن ذِي حَاجَۃٍ غَیرِمُتَّخِذٍ خُبْنَۃً فَلاَ شَيْئَ عَلَیہِ ، وَمَن خَرَجَ بِشَيئٍ مِنْہُ فَعَلَیہِ غَرَامَۃُ مِثلَیہِ ، وَالعُقُوبَۃُ ، وَمَنْ سَرَقَ شَیْئاً مِنہُ بَعدَ أن یُّؤویہِ الجَرِین فَبَلَغَ ثَمَنَ المِجَنِّ فَعَلَیہِ القَطْعُ ، وَمَن سَرَقَ دُونَ ذٰلِکَ فَعَلَیہِ غَرَامَۃُ مِثلَیہِ وَالعُقُوبَۃُ ۔(ابوداؤد:1710.نسائی:4973.واللفظ لہ۔)
(اگر کوئی ضرورت مند اس میں سے کچھ کھالے تو کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ وہ کپڑے میں سمیٹ کر نہ لے جائے۔اور اگر کوئی شخص پھل سمیٹ کر باہر لے جائے تو اس سے دوگنا تاوان لیا جائے گا اور اس جرم پر اسے سزا دی جائے گی۔ اور اگر کھلیان میں آ جانے کے بعد اس میں سے کچھ چوری کرلے اور اس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور اگر اس سے کم ہو تو اس سے دوگنا تاوان لیا جائے گا اور اس کی سرزنش کی جائے گی۔)
اور عمروبن شعیب کی سند سے منقول ہے کہ قبیلۂ مزینہ کا ایک شخص خدمت ِنبوی میں حاضر ہوا اور دریافت کیاکہ جنگل میں چرتے ہوئے جانور کو کوئی شخص چوری کرلے تواس کی کیاسزاہے؟آپؐ نے فرمایا:
ھِيَ وَمِثلُھَا وَالنَّکَالُ ، وَلَیسَ فِي شَيئٍ مِنَ المَاشِیَۃِ قَطعٌ الاّ فِیما آوَاہُ المَرَاحُ ، فَبَلَغَ ثَمَنَ المِجَنِّ ، فَفِیہِ قَطْعُ الیَدِ، وَمَا لَم تَبلُغْ ثَمَنُ المِجَنِّ فَفِیْہِ غَرَامَۃُ مِثلَیہِ وَجَلدَاتُ نَکَالٍ۔ (نسائی وغیرہ 4969)
(وہ جانور واپس لیا جائے گا اور بطور تاوان اسی جیسا دوسرا جانور بھی۔
اور اسے عبرت ناک سزا دی جائے گی اور مویشی کی چوری میں ہاتھ
نہیں کاٹا جائے گا ،الا یہ کہ کوئی باڑے میں موجود جانور کو چُرا لے
اور اس کی قیمت ڈھال کے بقدر ہو تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اور اگر
ڈھال کے برابر نہ ہو تو دوگنا تاوان لیا جائے گا اور کوڑے کی
عبرت ناک سزا دی جائے گی۔)
2۔حضرت بہز بن حکیم کی سند سے منقول ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
مَن اَعطَاھَا مُؤتَجِراً فَلَہٗ اَجرُھَا ، وَمَن أبیٰ فَاِنَّا آخِذُوھَا وَشَطْرَ اِبِلِہِ عَزمَۃً مِّن عَزمَاتِ رَبِّنَا لاَیَحِلُّ لِآلِ محمّدٍ مِنھَا شَيئٌ ۔(ابوداؤد:1557.نسائی2443.واللفظ لہ)
(جو شخص ثواب کی نیت سے زکوٰۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا اور جوکوئی اس سے انکار کرے گا تومیں اس سے زکوٰۃ بھی وصول کروں گا اور اسی کے ساتھ اس کے آدھے اونٹوں کو لے لوں گا۔ یہ ہمارے رب کا قطعی حکم ہے اور اس میں آل محمد کے لیے کچھ بھی حلال نہیں ہے۔)
3۔سلیمان بن ابی عبداللہ کہتے ہیں:’’میں نے دیکھاکہ حضرت سعد بن وقاصؓ نے مدینہ کے حرم میں، جسے رسول اللہ ﷺ نے حرم قرار دیاتھا، ایک شخص کو شکار کرتے ہوئے پکڑا تو اس کا کپڑا چھین لیا۔ اس کے آقا اس کے بارے میں ان کے پاس گفتگو کرنے کے لیے آئے توانہوں نے کہا :رسول اللہ ﷺ نے اسے حرام قرار دیاہے اور فرمایا ہے:مَن أخَذَ أحَداً یَّصِیدُ فِیہِ فَلْیَسْلُبْہُ ثِیَابَہٗ۔ (جو کسی کو شکار کرتے ہوئے پائے تواس کا کپڑا چھین لے)لہٰذا رسول اکرم ﷺ کے فرمان پر عمل کی وجہ سے جو چیز ملی ہے میں اسے واپس نہیں کرسکتا۔البتہ اگر تم چاہو تو تمہیں اس کی قیمت ادا کردوں گا۔‘‘(ابوداؤد :2037.وقال الحاکم ھذا حدیث صحیح الاسناد ۔و وافقہ الذھبی۔المستدرک1448/1) ۔اس واقعہ کو امام مسلمؒ نے ان الفاظ میں نقل کیاہے:
، أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ، فَوَجَدَ عَبْدًا يَقْطَعُ شَجَرًا، أَوْ يَخْبِطُهُ، فَسَلَبَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ ؛ جَاءَهُ أَهْلُ الْعَبْدِ، فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ عَلَى غُلَامِهِمْ، أَوْ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ، فَقَالَ : مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ.
(صحیح مسلم : 1364)
یہ روایات مالی جرمانہ کے سلسلے میں بالکل واضح اور صریح ہیں۔ان کی کوئی ایسی معقول توجیہ نہیں کی جاسکی ہے۔ البتہ ان احادیث کے ذریعہ استدلال کو دو طرح سے مخدوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
1۔اسلام کے ابتدائی دور میں مالی جرمانہ جائز تھا، مگر بعد میں منسوخ کردیاگیا۔ نسخ کی دلیل وہ آیات وروایات ہیں جن میں ناحق طریقے سے کسی کے مال کو لینے سے منع کیاگیاہے۔ ان کی حیثیت اصول اور ضابطے کی ہے۔ اس کے برخلاف جرمانہ لینے کی دلیلیں جزئی واقعات کی حیثیت رکھتی ہیں اور جزئی واقعات کے مقابلے میں اصولی دلائل کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اس اعتراض کے جواب میں کہاگیاہے کہ نسخ کے لیے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ کون سا حکم پہلے دیاگیا اور کون سا بعد میں؟یعنی ناسخ ومنسوخ کی تاریخ کاعلم ہوناچاہیے اور مذکورہ مسئلے میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ نووی شافعیؒ لکھتے ہیں:
’’یہ دعویٰ کسی بھی طورسے ثابت نہیں ہے کہ مالی جرمانہ کی سزا اسلام کے ابتدائی دور میں دی جاتی تھی اور بعد میں منسوخ ہوگئی ۔ دوسرے یہ کہ نسخ کو اس وقت اختیار کیاجاتاہے جب تاریخ معلوم ہو(جس سے یہ پتا چلے کہ کون حکم پہلے کا ہے اورکس حکم کا تعلق بعد سے ہے) اور اس معاملے میں تاریخ معلوم نہیں ہے۔‘‘ (المجموع308/5)
علامہ ابن قیمؒ کہتے ہیں :’’جن لوگوں نے یہ کہاہے کہ مالی جرمانہ مطلقاً منسوخ ہے انہوں نے اماموں کے نقطۂ نظر کو نقل کرنے اور اس سے استدلال کرنے میں غلطی کی ہے۔ امام احمدؒ وغیرہ کے نزدیک ان میں سے اکثر واقعات میں مالی جرمانہ جائز ہے۔اسی طرح امام مالکؒ کے یہاں ان میں سے بہت سے معاملات میں تعزیر مالی درست ہے۔آپؐ کی وفات کے بعد خلفائے راشدین اور اکابر ِ صحابہ کا طرز ِ عمل نسخ کے دعوے کو باطل کرنے کے لیے کافی ہے۔ جولوگ نسخ کے دعوے دار ہیں ان کے پاس نہ تو کتاب وسنت کی کوئی دلیل ہے اور نہ اجماع، جو ان کے دعوے کو صحیح قرار دے سکے۔ (الطرق الحکمیہ 692/2)
2۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ زکوٰۃ ادانہ کرنے کی صورت میں بطور جرمانہ آدھا مال چھین لینے والی بہز بن حکیم کی سند سے مروی روایت ضعیف ہے۔ اس کے جواب میں کہاجاتاہے کہ یہ حدیث کسی بھی حال میں درجۂ حسن سے کم تر نہیں ہے۔امام ابودائودؒ کی روایت کے بارے میں علامہ نوویؒ کہتے ہیں کہ بہز تک اس کی سند بخاری ومسلم کے معیار کے مطابق ہے، البتہ بہز کے بارے میں اختلاف ہے ۔ علی بن مدینیؒ اور یحییٰ بن معینؒ نے انہیں ثقہ قرار دیاہے اور یحییٰ بن معینؒ سے بہزعن ابیہ عن جدہ کے متعلق پوچھاگیا تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ سند صحیح ہے، اگر اس سے نیچے کے راوی قابل اعتماد ہوں۔‘‘ (المجموع304/5)
4۔یحییٰ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ان کے والد حضرت عبدالرحمن بن حاطبؒ کے غلاموں نے قبیلۂ مزینہ کے ایک آدمی کی اونٹنی چوری کرکے ذبح کردی۔ حضرت عمرؓ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی۔ پہلے توانہوں نے ان کے ہاتھوں کو کاٹنے کا حکم دیا، لیکن پھر کچھ سوچ سمجھ کر رک گئے۔عبدالرحمن بن حاطب سے کہا:میراخیال ہے کہ تم انہیں بھوکا رکھتے ہو، جس کی وجہ سے وہ چوری پر مجبور ہوئے۔ اللہ کی قسم، میں تم پر ایک بھاری جرمانہ لگائوں گا۔ پھر اونٹنی کے مالک سے پوچھا کہ اس کی کیا قیمت ہوگی؟ اس نے کہا:چار سو درہم۔حضرت عمرؓ نے عبدالرحمن بن حاطب سے کہاکہ جائو ، اسے آٹھ سو درہم ادا کرو۔(مصنف عبد الرزاق 238/10.ھذا اثر عن عمر کالشمس ۔المحلی166/13) حضرت عمرؓ سے یہ بھی منقول ہے کہ گم شدہ جانور کو اگر کوئی شخص چھپالے تواس سے دوگنا تاوان لیاجائے گا۔(الموسوعہ الفقہیہ 272/12)مگر ان میں سے پہلا واقعہ سند کے اعتبار سے منقطع ہے، کیوں کہ یحییٰ بن عبدالرحمن کی حضرت عمرؓ سے ملاقات ثابت نہیں اور نہ انہوں نے ان سے کوئی روایت سنی ہے۔ بعض لوگوں نے یحییٰ کے بعد ان کے والد کا اضافہ کیاہے، یعنی ان کے والد نے مذکورہ واقعہ کو دیکھا ۔مگر ابوعمر کہتے ہیں کہ یہ راوی کا وہم ہے، کیوں کہ موطا کے تمام راویوں نے اس اضافے کے بغیر اسے نقل کیاہے اور یہ متن کے اعتبار سے منکر ہے۔ کیوں کہ یہ ظلم وزیادتی اور تاوان کے اصول کے خلاف ہے۔(اعلاء السنن988/11)
مگر ابن جریج نے بھی اسے” عن ابیہ”کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے ۔(مصنف عبدالرزاق 238/10)جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافہ صحیح ہے اور روایت متصل ہے ۔
5۔ایک شخص نے کسی کی اونٹنی کو ہلاک کردیا۔ اس کے مالک نے حضرت عثمانؓ سے فریاد کی توانہوں نے فیصلہ کیا کہ اونٹنی کی قیمت اور مزید اس کی قیمت کا ایک تہائی حصہ بطور تاوان ادا کیا جائے۔علامہ ابن حزمؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ انتہائی درجے کی صحیح روایت ہے اور صحابہ میں سے کسی سے اس کے برخلاف منقول نہیں ہے۔(المحلی 166/13) گو یا اس پر ایک طرح سے اتفاق اور اجماع ہے۔
حضرت عثمانؓ کا فیصلہ سندی حیثیت سے بے غبار ہے، مگر اس کی یہ تاویل کی گئی ہے کہ انہوں نے اونٹ کی قیمت سے زیادہ تاوان اس سامان کے بدلے میں دلایا جو اس نے اونٹ پر لاد رکھاتھا۔ اس کی قیمت اونٹ کی تہائی قیمت کے برابر تھی اور ہلاک کرنے والے نے اونٹ کے ساتھ اسے بھی ضائع کردیاتھا۔اس فیصلے کی یہ تاویل ضروری ہے، کیوں کہ یہ ظلم وزیادتی اور تاوان کے متفقہ اصول کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ
(البقرۃ:194)
(تواگر کوئی شخص تم پر زیادتی کرے توتم بھی ویسی ہی زیادتی اس پر کرو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے۔)
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُواْ بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِہِ (النحل:126)
(اور اگرتم لوگ (کسی کے ظلم کا) بدلہ لو تواتنا ہی بدلہ لو جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی ہے۔)
اور تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے سامان کو ضائع کردے تواس سے صرف اسی جیسا دوسرا سامان یا اس کی قیمت لی جائے گی۔(اعلاء السنن 688/11)
6۔کتاب وسنت میں متعدد خطائوں اور گناہوں پر کفارہ واجب کیاگیاہے، جس کی بعض صورتوں میں مال خرچ کرنا ہوتاہے۔ غور کیاجائے تو یہ بھی ایک طرح سے مالی جرمانہ ہے۔ چنانچہ قتل خطا، ظہارکرنے اور رمضان میں روزہ رکھ کر جماع کرنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا حکم دیاگیاہے۔ اسی طرح قسم توڑ دینے اور رمضان میں روزہ رکھ کر جماع کرلینے یا ظہار کرلینے اور پھر غلام آزاد کرنے یا روزہ نہ رکھنے کی عدم استطاعت کی صورت میں مسکینوں کو کھانا کھلانے کا حکم دیاگیاہے۔ نیز احرام کی حالت میں شکار کرنے یا احرام کے ممنوعات کے ارتکاب یاواجب کے چھوڑنے پر مالی کفارہ اداکرنا ہوتاہے۔ قتل کی بعض صورتوں میں دیت وصول کرنا بھی ایک طرح سے مالی جرمانہ ہے۔
عدم جواز کے دلائل:
1۔مالی جرمانہ لوگوں کے مال کو باطل طریقے سے ہڑپنے اور خوشی ورضامندی کے بغیر زبردستی چھین لینے میں داخل ہے۔حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْ (النساء:29)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو!آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔ لین دین ہوناچاہیے آپس کی رضامندی سے۔)
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرۃ:188)
(اور تم لوگ نہ توآپس میں ایک دوسرے کے مال نارواطریقے سے کھائو اور نہ حاکموں سے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کاکوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔)
اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
مَنِ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسلِمٍ بِغَیرِ حَقٍّ لَقِيَ اللّٰہَ وَھُوَ عَلَیہِ غَضْبَانٌ۔(مسند احمد:3946)
(جس شخص نے کسی مسلمان کا مال ناحق طریقے سے لیا وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہوگا۔)
اور ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
اَلَا لَاتَظلِمُوا، اَلَا لَا یَحِلُّ مَالُ امْرئٍ اِلّا بِطِیبِ نَفسِہٖ۔(مسند احمد 20695)
(خبر دار! ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ خبردار! کسی کا مال اس کی مرضی کے بغیر لینا جائز نہیں۔)
جولوگ مالی جرمانہ کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ناحق مال کو کھانا نہیں ہے، بلکہ شرعی سبب سے یہ لیا جارہا ہے اور شرعی سبب سے جو مال حاصل کیاجائے اسے باطل نہیں کہاجاسکتا۔حدیث سے استدلال کے سلسلے میں مفتی محمد تقی عثمانی نے فرمایا:
’’تعزیر بالمال کے عدم جواز پر کوئی صریح دلیل مجھے نہیں ملی۔ عام طورپر فقہاء اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: لَا یَحِلُّ مَالُ امْرئٍ اِلّا بِطِیبِ نَفسِہ،یعنی کسی مسلمان کا مال اس کی طیب ِنفس کے بغیر حلال نہیں ہے۔ لیکن یہ استدلال کم زور ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں اس مسلمان کا ذکر ہے جو کسی گناہ اور جرم کا مرتکب نہ ہو۔لیکن اگر کوئی مسلمان کسی جرم کا مرتکب ہو تواس پر جس طرح سے جسمانی سزا عائد کی جاسکتی ہے، اسی طرح مالی سزا بھی عائد کی جاسکتی ہے، اس لیے کہ مسلمان کا مال توطیب ِنفس سے حلال ہوجاتاہے، لیکن جان تو طیب ِ نفس سے بھی حلال نہیں ہوتی۔ لہٰذا جب کسی مسلمان نے جرم کیا اور پھر سزا کے طورپر اس کی جان کو کوئی نقصان پہنچایا جارہا ہے تویہ سب کے نزدیک جائز ہے توپھر مال، جو طیب نفس سے حلال ہوجاتا ہے، وہ جرم کے ارتکاب کی صورت میں بدرجہ اولیٰ جائز ہوناچاہیے۔‘(درس ترمذی 119/5)
2۔بعض لوگوں نے دعویٰ کیاہے کہ مالی جرمانہ کے ناجائز ہونے پر اجماع ہے، چنانچہ علامہ دسوقیؒ نے لکھاہے:
لَایَجُوزُ التَّعزِیرُ بِاَخْذِ المَالِ اِجْمَاعًا۔(حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر 355/4)
لیکن ماقبل میں جو اختلاف ذکر کیاگیاہے وہ اس دعوے کی تردید کے لیے کافی ہے۔
3۔اگر مالی جرمانہ کو جائز قرار دیاجائے توظالم وجابر حکمرانوں کے لیے لوگوں کے مال کو ہڑپنے کا ایک آسان بہانہ ہاتھ آجائے گا۔ اس لیے ’سدِّ ذریعہ ‘کے طورپر اسے ناجائز قرار دیاجائے گا۔(رد المحتار 106/6)
میراخیال ہے کہ یہی وہ اہم دلیل ہے جس کی بنیادپر عام طورپر فقہاء تعزیر مال کو ناجائز کہتے ہیں۔ کیوں کہ اس زمانے میں ظلم و جور کا دور دورہ تھا۔ مختلف بہانوں سے لوگوں کی زمین،جائیداد اور مال ومتاع کو ہتھیا لینے کا عام رواج تھا۔ اس پس منظر میں علماء نے اسے ناجائز قرار دیا۔ان کی کوشش ہوتی تھی کہ جواز سے متعلق اقوال سے حکمراں طبقہ آگاہ نہ ہونے پائے۔ چنانچہ علامہ محمد جعفر سندھیؒ کہتے ہیں:
الّا أن روایۃ جواز التعزیر بأخذ المال ینبغی أن لا یطّلع علیہ سلاطین زماننا ،لأنّھم بعد الا طلاع قد یجاوزون حدّ الأخذ بالحق الیٰ التعدّي بالباطل۔(احسن الفتاویٰ 553/5)
(تعزیر مالی کے جواز کی بات ہمارے زمانے کے حکمرانوں کو نہیں معلوم ہونی چاہیے۔اس لیے کہ اس سے آگاہ ہوجانے کے بعد وہ جائز طریقے سے لینے کے بجائے ناحق اور ظلم وزیادی سے لینے لگیں گے۔)
مگر ہندوستان جیسے ممالک میں، جہاں اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے اور معاصی و جرائم سے باز رکھنے کے لیے کوئی جسمانی سزا نہیں دی جاسکتی ہے، یہاں اس کے سواکوئی مؤثر طریقہ نہیں ہے کہ مالی جرمانہ کی اجازت دی جائے، جس میں حد سے تجاوز کا امکان بہت کم ہے۔ مولانا عزیز الرحمن دیوبندیؒ نے رائے دی ہے کہ ’’عوام کو سوائے جرمانہ کے اور کسی طریقے سے تنبیہ ہونا دشوار ہے۔‘‘چنانچہ نماز چھوڑنے پر مالی جرمانہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں:
’’پس جس طریقے سے بے نمازی کو پابند ِ نماز بناسکیں وہ ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ عوام کو سوائے جرمانہ کے کسی اور طریقے سے تنبیہ ہونا دشوار ہے اور ہر ایک تعزیر کو ہر ایک شخص جاری بھی نہیں کرسکتا اور جرمانہ مالی بکیفیت ِ خاص ائمہ سے منقول ہے۔‘‘(فتاوی دارالعلوم دیوبند 234/12)
حواشی
1۔ علامہ عینیؒ کہتے ہیں:التعزیر للتادیب ۔(البنایۃ:211/3)۔اور علامہ شامیؒ کہتے ہیں:لأن التعزیر شُرع للتطہیر۔ (ردالمحتار:103/6)۔ نیز دیکھیے الموسوعۃ الفقہیۃ:256/12)
2۔ انّہ یُھدم البیت علی من اعتاد الفسق وأنواع الفساد في دارہ۔ (ردالمحتار:110/6)
3-قلت قد تقدم للشارح عن الدرر في باب الوط الذي لا يوجب الحد أنه في اللواطة يعزر باحراق بيته (تقريرات الرافعي 45/6)المحتسب اذا نهى القطان عن وضع القطن على طريق العامة فلم يمتنع فاوقد المحتسب النار غلى قطنه و احرقه يضمن إلا إذا علم فسادا في ذالك و رأى المصلحة في احراقه . (خلاصة الفتاوى 337/4)
4۔ چنانچہ مطالب أولی النھیٰ میں ہے:’’وکذایحرم التعزیر بأخذ مالہ أو اتلافہ۔‘‘اور علامہ ابن قدامہؒ کہتے ہیں:ولأنّ الواجب أدب والتأدیب لایکون بالاتلاف۔( المغنی:526/12)
5۔ عبداللہ بن محمد بن عبدالوہاب لکھتے ہیں: التعزیر بالمال سائغ اتلافاً وأخذاً ، وھو جارٍ علی أصل أحمد، لأنہّ لم یختلف أصحابہ أنّ العقوبات فی المال غیر منسوخۃ۔( الدرر السنیۃ:449/4)
6۔ جلادینے کے قصے کو ابن اسحاق اور ابن مردویہ وغیرہ نے نقل کیاہے۔ (تفسیر ابن کثیر:389/2، الدر المنثور:285/4) اور علامہ ابن تیمیہؒ نے اسے صحیح قرار دیاہے۔( الحسبۃ فی الاسلام:47) بعض لوگوں نے مرسل ہونے کی وجہ سے اسے ناقابل ِ اعتبار قرار دیاہے، جو صحیح نہیں ہے، کیوں کہ بہت سے اماموں کے نزدیک مرسل قابل ِاعتماد ہے۔