ماہ صفر کی حقیقت :
نحوست صرف معصیت میں ہے۔
مفتی ولی اللہ مجید قاسمی ۔
سال، مہینہ، دن اور وقت اللہ تعالی کا بنایا ہوا اور دستِ قدرت کا ایک نمونہ ہے، وہی دن اور رات کا خالق ہے اور زمانے کی گردش کا مالک ہے، اس لیے کسی وقت، دن اور مہینے کو منحوس سمجھنا درحقیقت اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں عیب نکالنا اور اس کی تخلیق پر اعتراض کرنا ہے اور یہ حد درجہ بدعقیدگی اور زبان درازی ہے اللہ تبارک و تعالی فرماتے ہیں:
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (الزمر: ٥)
اس نے سارے آسمان اور زمان برحق پیدا کئے وہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹ دیتا ہے سورج اور چاند کو کام پر لگایا ہوا ہے، ہر ایک، کسی معین مدت تک کے لیے رواں دواں ہے ہے یاد رکھو وہ بڑے اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیان کرتے ہیں :
قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر، بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار (صحيح بخاري: ٤٨٢٦، صحيح مسلم: ٢٢٤٦)
اللہ عزوجل فرماتے ہیں انسان مجھے ستاتا ہے، زمانے کو برا بھلا کہتا ہے حالانکہ کی زمانے کا مالک میں ہی ہوں معاملہ میرے ہاتھ میں ہے میں ہی دن اور رات کو الٹتا پلٹتا ہوں۔
اچھا یا برا،مبارک یا منحوس وقت نہیں بلکہ انسان کا قول و عمل ہے اگر وہ کسی وقت کو اللہ کی اطاعت و ذکر میں مشغول رکھتا ہے تو اس کے لئے بابرکت ہے اور اگر اس کا وقت معصیت اور غفلت میں گزر رہا ہے تو وہ بے برکت ہے غرضیکہ اللہ کی نافرمانی کا نام نحوست ہے
صفر نام رکھنے کی وجہ:
ذو القعدہ، ذی الحجہ، محّرم اور رجب کو زمانہ جاہلیت میں بھی قابل احترام سمجھا جاتا تھا، کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جو ہدایات و تعلیمات ان میں باقی رہ گئی تھیں ان میں سے چار مہینوں کا احترام بھی تھا اس لیے وہ ان میں لوٹ مار اور جنگ و جدال سے بچتے تھے اور مسلسل تین ماہ رکے رہنے کے بعد جب صفر کا چاند دکھائی دیتا تو وہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور ان کے گھر خالی ہو جاتے اس مناسبت سے انہوں نے اس مہینے کا نام صفر رکھ دیا چنانچہ امام ابن کثیر نے آیت "ان عدة الشهور” کی تفسیر میں علامہ علم الدین سخاوی کے حوالے سے لکھا ہے:
سمي بذلك لخلو بيوتهم منهم حين يخرجون للقتال والأسفار، يقال: صفر المكان، إذا خلا،
اس مہینے کا نام صفر اس لئے رکھا گیا کہ جنگ اور سفر کے لئے جانے کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہوتے تھے اور جب کوئی جگہ خالی ہو تو اس موقع پر کہا جاتا ہے صفرالمکان (جگہ خالی ہو گئی) (ابنِ کثیر جلد٣/ص٣٤٧)
اور جنگ و جدال کے نتیجے میں لوگ تباہ و برباد اور مصیبتوں سے دوچار ہوجاتے جس کی وجہ سے ان میں اس مہینے کی نحوست کا عقیدہ رواج پانے لگا حالاں کہ بربادی اور ویرانی کی وجہ خود ان کی باہمی آویزش تھی لیکن اصل سبب پر غور کرنے کے بجائے وہ اس مہینے کو منحوس سمجھنے لگے اور انہیں اپنے اس عمل کے برے نتیجے اور انجام کار کا احساس نہیں رہا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدعقیدگی کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا عدوى ولا صفر ولا هامة (صحيح بخاري: ٥٧١٧ ، صحيح مسلم: ٢٢٢)
کوئی مرض بذات خود متعدی نہیں ہوتا اور نہ ہی صفر کی نحوست کوئی چیز ہے اور نہ مردے کی روح پرندے کی شکل اختیار کرتی ہے۔
امام ابو داؤد نے محمد بن راشد کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے "لاصفر” کی وضاحت کرتے ہوئے کہا
سمعنا ان الجاهلية يستشئمون بصفر فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا صفر (ابوداؤد: ٣٩١٦)
ہم نے سنا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کے مہینے سے بدشگونی لیتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفر میں کوئی نحوست نہیں ہے ۔
اور علامہ طیبی لکھتے ہیں :
عرب کے مشرکوں کا خیال تھا کہ اس مہینے میں آلام و مصائب اور فتنے بہت زیادہ ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لاصفر کہہ کر ان کی تردید فرمائی (الكاشف: جلد ٩/ص٢٩٨٠)
اور حافظ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں:
اسلام سے پہلے عرب کے لوگ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیا اور فرمایا کہ صفر میں کوئی نحوست نہیں ہے حدیث کی تاویل میں منقول مختلف اقوال میں یہ سب سے زیادہ مناسب تاویل ہے (لطائف المعارف: ١٤٦)
حقیقت یہ ہے کہ کسی زمانے کو منحوس سمجھنا اور اس کے تقاضے پر عمل کرنا ایک شرکیہ عمل اور زمانہ جاہلیت کی پیداوار ہے جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں مسلمانوں کو اس طرح کی چیزوں سے بہت دور رہنا چاہیے اگر انسان کبھی برے حالات سے دوچار ہو جائے تو وہ اس کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ سمجھے اور کسی خلاف شریعت کام میں مبتلا ہے تو اس سے باز آجائے اور توبہ و استغفار کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے کی صرف وہی حالات کو بدلنے کے قدرت رکھتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم ويعفو عن كثير (سورةالشورى: ٣٠)
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے
اور اگر کوئی نیک بندہ کسی مصیبت کا شکار ہوتا ہے تو وہ اسے اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش اور بلندی درجات کا سبب خیال کرے اور اپنے خالق و مالک سے اپنے ربط و تعلق کو مزید مضبوط کرے اور ہر مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہئے:
احفَظِ اللهَ يحفَظْك ، احفَظِ اللهَ تجِدْه تُجاهَك ، إذا سألتَ فاسألِ اللهَ ، وإذا استعنْتَ فاستعِنْ باللهِ ، واعلمْ أنَّ الأمةَ لو اجتمعتْ على أن ينفعوك بشيءٍ ، لم ينفعوك إلا بشيءٍ قد كتبه اللهُ لك ، وإنِ اجتمعوا على أن يضُرُّوك بشيءٍ لم يضُروك إلا بشيءٍ قد كتبه اللهُ عليك ، ( جامع الترمذي: ٢٥١٦، مسنداحمد: ٢٦٦٩ )
تو اللہ کا خیال رکھ (یعنی اس کے احکام کی تعمیل اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ ہو) اللہ تعالی تیرا خیال رکھیں ( یعنی دنیا و آخرت کی آفات و بلیات سے تیری حفاظت کریں گے) تو اللہ کو یاد رکھ اس کو تو اپنے سامنے پائے گا اور جب تو کسی چیز کو مانگنا چاہے تو بس اللہ سے مانگ اور جب کسی مدد کی ضرورت ہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کر، اور جان لو ک ساری انسانی برادری مل کر تجھ کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے جو اللہ نے تیرے مقدر میں لکھ رکھا ہے اور اگر ساری دنیا تجھ کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو صرف اتنا ہی نقصان پہنچا سکتی ہے جو اللہ تعالی نے پہلے ہی تیرے مقدر میں لکھ دیا ہے
اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے:
اللَّهمَّ لا مانعَ لما أعطيتَ ، ولا مُعطيَ لما منعتَ ، ولا رادَّ لما قضيتَ ، ولا ينفعُ ذا الجَدِّ منك الجَدُّ (صحيح بخاري: ٨٤٤، صحيح مسلم: ٥٩٣)
اے اللہ جو تو دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو نہ دینا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور نہ ہی تیرے مقابلے میں کسی مال دار کی مال داری فائدہ پہنچا سکتی ہے .
صفر کی نحوست کے سلسلے میں بعض کتابوں میں یہ روایت لکھی ہوئی ہے:
من بشرني بخروج صفر بشرته بالجنة
جو مجھے صفر کے ختم ہونے کی خوشخبری سنائی میں اسے جنت کی بشارت دوں گا۔
یعنی اس مہینے کی نحوست کی وجہ سے بخیروعافیت اس کے گذر جانے پر اس کی اطلاع دینے والے کو جنت کی خوش خبری دی جارہی ہے.
لیکن تمام محدثین متفق ہیں کہ مذکورہ روایت من گھڑت اور بے بنیاد ہے اور اسلامی ہدایات و تعلیمات کے صراحتاً خلاف ہے (دیکھئے الموضوعات الکبریٰ: ٤٣٧ تذکرہ الموضوعات: ١١٦) اور فتاوی ہندیہ میں ہے کچھ لوگ صفر کے مہینے میں سفر میں نہیں جاتے اور نہ کوئی کام جیسے کہ نکاح اور رخصتی وغیرہ اس مہینے میں کرتے ہیں ہیں اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی جو کوئی مجھے صفر کے ختم ہونے کی خوش خبری دے میں اسے جنت کی بشارت دوں گا کیا یہ حدیث صحیح ہے کیا اس مہینے میں کسی طرح کی نحوست ہے اور کوئی کام شروع کرنا ممنوع ہیں ؟ جواب یہ ہے کہ صفر کے سلسلے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں اصلاً وہ نجومیوں کا نظریہ ہے اور وہ لوگ اپنی بات کو رواج دینے کے لیے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیتے ہیں حالانکہ یہ خالص جھوٹ ہے (الھندیہ: جلد٥/ص ٥٦١)
لہذا ماہ صفر کے بارے میں نحوست کا اعتقاد رکھنا اور اس کے آخری بدھ کو روزہ رکھنا یا مخصوص طریقے سے نماز پڑھنا یہ عقیدہ رکھنا کی آخری بدھ کو آخرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں افاقہ ہوا تھا اور اس خوشی میں کھانا پکانا، اچھا کپڑا پہننا اور سیر و تفریح کے لیے جانا نہایت غلط اور خلاف حقیقت ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ آخری بدھ کو بیماری کی ابتداء اور ربیع الاول میں وفات ہوئی تھی۔
۔