سوال:
کرونا کے دور میں حکومتی پابندیوں کی وجہ سے نماز جمعہ بحالت مجبوری چھوٹی بڑی تمام مساجد میں شروع ہوئی۔ لاک ڈاؤن کی پابندی ختم ہونے کے بعد توقع تھی کہ لوگ حسب سابق بڑی مساجد میں واپس آجائیں گے لیکن جہاں جہاں چھوٹی مساجد میں جمعہ شروع ہوا لوگ وہاں جمعہ بند نہ کرنے پر بضد ہیں۔ ایسے میں جمعہ کے مقاصد واضح طور پر فوت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس پس منظر میں چند سوالات ہیں جن کے جوابات اور رہنمائی درکار ہے تاکہ لوگوں کو سمجھانے کی ایک بار پھر کوشش کی جاسکے۔
1۔ نماز جمعہ کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا چھوٹی بڑی تمام مساجد میں نماز جمعہ پڑھنے سے وہ مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں؟
2۔ کیا ایسی کوئی بات ہے کہ کسی جگہ بحالت مجبوری جمعہ شروع ہوا اور اب وہ مجبوری نہ ہو تو وہاں جمعہ بند نہیں کیا جاسکتا؟
3۔ شرعی، ملی اور اخوت اسلامی کے تقاضے کے تحت آپ ان لوگوں کو کیا رہنمائی کریں گے جو مرکزی مساجد میں نماز جمعہ پڑھنے کے بجائے اپنی اپنی مساجد میں جمعہ کے لیے بضد ہیں؟

امید ہے آپ مذکورہ بالا سوالات کے جوابات دے کر ملت کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے۔

محمد اسامہ
چاند پٹی، اعظم گڑھ، یوپی

جواب :
جمعہ کا مقصد مسلمانوں کی شان و شوکت اور وحدت و اجتماعیت کا اظہار اور ہفتہ وار تعلیم و تربیت کے مواقع مہیا کرنا ہے۔چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ محلہ میں نماز کی اشاعت کے لئے پنج وقتہ نمازوں کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا نظام بنایا گیا اور شہر میں نماز کی اشاعت یعنی اجتماعی عبادت کے لئے روزانہ ایک جگہ لوگوں کا جمع ہونا مشکل تھا اس لئے ہفتے میں ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا گیا اس لئے اجتماعی عبادت کے لئے ہفتہ واری اجتماع طے کیا گیا (دیکھئے حجت اللہ البالغہ مع رحمت اللہ الواسعۃ 598/3).
اگرچہ اصل یہی ہے کہ ایک شہر اور ایک بستی جمعہ ایک ہی جگہ ہونا چاہئے عہد نبوی اور دور صحابہ وتابعین کا عمل یہی ہے ۔لیکن اگر شہر بہت بڑا ہے یا کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جس میں سارے نمازی سما سکیں تو حسب ضرورت دیگر مساجد میں بھی جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے ۔مگر بے ضرورت متعدد جگہ جمعہ قائم کرنا شریعت کے مقصد ومنشا کو فوت کرنا ہے پس اس سے احتراز ضروری ہے ۔(رحمت اللہ الواسعۃ 608/4)
فقہ حنفی کی مشہور کتاب الھدایہ میں ہے کہ جمعہ کے دن معذوروں کے لئے ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ جمعہ جامع جماعات ہے یعنی ہفتہ کے بقیہ دنوں میں مختلف مساجد میں جماعت ہوتی تھی جمعہ کے دن ان تمام جماعتوں کو ایک جگہ کو کردیا گیا ہے لہذا الگ سے دوسری جماعت کرنا اس مقصد کے خلاف ہے ۔(1)

اور یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدینہ کے اندر متعدد مسجدیں تھیں لیکن جمعہ کی نماز صرف مسجد نبوی میں ہوتی تھی چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ : أَوَّلُ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى. يَعْنِي قَرْيَةً مِنَ الْبَحْرَيْنِ.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی میں مسجد عبد القیس میں قائم کیا گیا۔جواثی بحرین کی ایک آبادی کا نام ہے ۔ (صحيح بخاري 4371)
، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ : كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالْعَوَالِي، …
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے بالائی حصے سے باری باری جمعہ پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے… (صحيح بخاري :902)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے طرزعمل سے استدلال کرتے ہوئے امام شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک ایک شہر میں ایک سے زائد جگہ پر جمعہ پڑھنا درست نہیں ہے خواہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا الا یہ کہ کوئی شرعی ضرورت و حاجت پائی جائے ۔
اور یہ جمعہ کے صحیح ہونے کے لئے شرط ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سے زائد جگہ جمعہ کی نماز پڑھی گئی تو دوسرا جمعہ صحیح نہیں ہوگا ۔
امام مالک کا بھی مشہور قول یہی ہے اور امام ابوحنیفہ سے بھی ایک قول اسی کے مطابق منقول ہے اور مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی نے لکھا ہے کہ امام طحاوی ، تمرشاشی اور صاحب مختار نے اسی کو اختیار کیا ہے اور عتابی نے اسی کو زیادہ ظاہر کہا ہے اور صاحب بدائع نے اسی کو ظاہر روایت قرار دیا ہے ۔اور شرح منیہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ سے منقول دو روایتوں میں سے زیادہ ظاہر یہی رائے ہے اور صاحب نہر نے حاوی قدسی کے حوالے سے اسی پر فتوا نقل کیا ہے ۔اور امام جصاص رازی کہتے ہیں کہ ہم اسی کو اپناتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی مشروعیت کی حکمت اجتماع اور ملاقات ہے اور بلا حاجت متعدد مساجد میں جمعہ پڑھنا اس حکمت کے خلاف ہے ،نیز مختلف جگہوں پر پر پڑھنا کسی صحابی اور تابعی سے ثابت نہیں ہے ۔
۔(دیکھئے : الموسوعہ الفقہیہ 204/27.رد المحتار 16/3)
اور جو لوگ ایک سے زائد جگہوں پر جمعہ کے جواز کے قائل ہیں ان کے پیش نظر یہ بات ہے کہ محض ایک جگہ جمعہ لازم قرار دینے میں تنگی اور پریشانی ہوگی، لوگوں کو دور دراز کے علاقوں سے آنا ہوگا اس لئے دفع حرج کی بنیاد پر ایک سے زائد جگہ پر جمعہ کی اجازت دی گئی ہے ۔چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
لان في الزام اتحاد الموضع حرجا بينا لاستدعائه تطويل المسافة على اكثر الحاضرين.(رد المحتار 16/3)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مسجد تک آنے میں لوگوں کو کوئی پریشانی نہیں ہورہی ہے تو بلا وجہ دوسری مسجد میں جمعہ قائم کرنا جمعہ کے مقصد کے خلاف اور نامناسب ہے ۔
مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں سوالات کے جوابات یہ ہیں:
ا-جمعہ اسلامی شعائر میں سے ہے، اس کا مقصد عظیم یہ ہے کہ شعائرِ دین کا عظیم الشان مظاہرہ ہو اور یہ بات تب ہو سکتی ہے کہ جمعہ عظیم الشان جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے، محلے کی چھوٹی مساجد میں جمعہ کے قیام کی وجہ سے یہ مقصد فوت ہوجاتاہے ۔
2-بحالت مجبوری کوئی کام شروع کیاگیا ہو تو عذر زائل ہوجانے کے بعد اصل حکم پر عمل کرنا ہوگا ۔لہذا اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو متعدد جگہوں پر جمعہ بند کرکے پہلے کی طرح سے ایک جگہ پڑھنا چاہئے۔اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ بہت سے علماء اور فقہاء کے نزدیک بلاضرورت متعدد جگہ جمعہ پڑھنے سے جمعہ کی نماز ہوتی ہی نہیں ہے صرف ان لوگوں کی جمعہ کی نماز ہوگی جنھوں نے پہلے شروع کی ہے.اور یہ نقطۂ نظر بھی قوی اور مضبوط دلیل پر مبنی ہے اس لئے بے ضرورت متعدد جگہ پر جمعہ کی نماز پڑھنا احتیاط کے خلاف ہے۔ اور اماموں کے درمیان موجود اختلافی مسائل میں کوشش کرنا چاہئے کہ وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو سب کے نزدیک درست ہو اور شبہہ کی چیزوں سے بچنا چاہئے چنانچہ امام بخاری و مسلم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جو شخص مشتبہ چیزوں سے احتراز کریگا وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالیگا۔(2)

3-اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر جھکا دینے کا نام ہی اسلام ہے ۔اس لئے ایک مسلمان سے اس بات کی امید کی جانی چاہئے کہ وہ شریعت کے حکم کے سامنے اپنی ضد اور خواہش کو قربان کردیگا اور ملی وحدت اور اسلامی اخوت کو باقی رکھنے اور انتشار و افتراق سے باز رہنے کی کوشش کریگا۔
(1)ويكره ان يصلي المعذرون الظهر بجماعة يوم الجمعة و كذا أهل السجن لما فيه من الاخلال بالجمعة اذا هي جامعة للجماعات.(الهداية 83/1)
(2)فهو حينئذ قول معتمد في المذهب لا قول ضعيف ولذا قال في شرح المنية :الاولى هو الاحتياط لان الخلاف في جواز التعدد و عدمه قوي وكون الصحيح الجواز للضرورة لا يمنع شرعية الاحتياط للتقوى.
قلت :على انه لو سلم ضعفه فالخروج عن الخلاف اولى فكيف مع خلاف هولاء الائمة و في الحديث المتفق عليه فمن اتقى الشبهات استبرء لدينه و عرضه.(رد المحتار 17/3)
ولی اللہ مجید قاسمی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے