بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

*اللہ کا مہینہ*

 

   *مفتی ولی اللہ مجید قاسمی*

 

 جامعہ انوار العلوم فتح پور تال نرجا ضلع مئو 

 

محترم مہینے چار ہیں ،محرم ،رجب، ذو القعدہ ،ذوالحجہ، اور ان میں سب سے افضل محرم کا مہینہ ہے ، جس کے مرتبے اور درجے کے اظہار کے لئے اسے اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے ، حضرت حسن بصری سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال کی ابتداء اور انتہاء دونوں محترم مہینوں سے کیا ہے اور اللہ کی نگاہ میں رمضان کے بعد کوئی مہینہ محرم سے زیادہ بہتر نہیں ہے (لطائف المعارف:70)

 

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں :

 

افضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم ، و افضل الصلاۃ بعد الفریضۃ صلاۃ اللیل(صحیح مسلم:1163)

 

رمضان کے بعد سب سے افضل اللہ کے مہینہ محرم کا روزہ ہے ، اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل تہجد کی نماز ہے ۔

 

اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

 

سألت النبی صلی اللہ علیہ وسلم أی اللیل خیر؟ و ای الاشہر افضل ؟ فقال :خیر اللیل جوفہ و افضل الاشہر شہر اللہ الذی تدعونہ المحرم ( السنن الکبریٰ للنسائی :4216، سنن الدارمی : 1757عن ابی ھریرۃ ، شعب الایمان :3774)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دریافت کیا : رات کا کونسا حصہ سب سے بہتر ہے اور کونسامہینہ سب سے افضل ہے ؟ فرمایا : رات کا سب سے بہتر حصہ اس کا درمیانی حصہ ہے ، اور سب سے افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے جسے تم  لوگ محرم کہتے ہو۔

 

اور محرم کے مہینے کا ابتدائی دس دن بقیہ دنوں کی بہ نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے ۔ ابوعثمان نہدی کہتے ہیں کہ سلف تین عشرے کو بہت اہمیت دیتے تھے ،یعنی رمضان کا آخری دس دن اور ذو الحجہ اور محرم کا ابتدائی دس دن ۔اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ  "سورۃ الفجر ” میں جس فجر کی قسم کھائی گئی ہے اس سے مراد محرم کے پہلے دن کا فجر ہے جس سے سال کی شروعات ہوتی ہے (شعب الایمان :3771،لطائف المعارف :71)

 

محرم کا مہینہ اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ اس سے ہجری اور ہلالی سال شروع ہوتا ہے ، اس طرح سے وہ ماہ احتساب بھی ہے کہ انسان اس کی ابتداء میں گزشتہ پورے سال کا جائزہ لے اور عبادتوں کی توفیق اور دوسری نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر ندامت کے احساس کے ساتھ توبہ کرے اور اس سال کو اللہ کی عبادت و طاعت کا سال بنانے کا عزم اور عہد کرے ۔

 

اور افضل یہ ہے کہ سال کے پہلے مہینے کی ابتداء روزے سے ہو جس کی برکت سے امید ہے کہ پورے سال بندگی کی توفیق ملتی رہے گی اور خیر وعافیت کے گہوارے میں زندگی بسر ہوگی ، اس لئے کہ بارہ مہینوں میں سے صرف اِس ماہ کو اللہ کا مہینہ کہا گیا ہے اور عبادتوں میں سے صرف روزے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے ، چنانچہ حدیث میں ہے :

 

قال اللہ : کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی و انا اجزی بہ (صحیح بخاری:1904،صحیح مسلم:1151)

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انسان کا ہر عمل اس کے لئے ہوتا ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لئے ہوتا ہے اور میں اس کا بدلہ دونگا۔

 

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ایک روایت میں ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل محرم کا روزہ ہے ۔(صحیح مسلم :1163)

 

عاشوراء کا روزہ

 

محرم کے پورے مہینے میں روزہ رکھنا باعث فضیلت ہے اور خصوصاً عاشوراء کے روزے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

یوم عاشواء کانت تصومہ الانبیاء فصوموہ انتم (مصنف ابن ابی شیبہ:9355)

 

انبیاء کرام علیہم السلام عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے اس دن تم بھی روزہ رکھو۔

 

اور گزشتہ انبیاء کی جو تعلیمات صحیح شکل میں مکہ کے لوگوں میں موجود تھیں ان میں ایک عاشوراء کا روزہ بھی تھا چنانچہ قریش کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا ،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

 

کانت عاشوراء یوما تصومہ قریش فی الجاھلیۃ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصومہ 

 

قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا ۔

 

اور مدینہ ہجرت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس معمول کو باقی رکھا بلکہ اسے فرض روزے کی حیثیت دی ، البتہ رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد اس کی یہ حیثیت برقرار نہیں رہی تاہم اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ،

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول حدیث میں ہے کہ :

 

کانت عاشوراء یوما تصومہ قریش فی الجاھلیۃ و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصومہ فلما قدم المدینہ صامہ و امر بصیامہ فلما نزلت فریضۃ شہر رمضان کان رمضان ھو الذی یصومہ فترک یوم عاشوراء فمن شاء صامہ ومن شاء افطرہ (صحیح بخاری:2002، صحیح مسلم :1125)

 

قریش کے لوگ زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھااور مدینہ ہجرت کے بعد بھی آپ نے اس روزے کو رکھا اور لوگوں کو اس روزے کو رکھنے کا حکم دیا لیکن جب رمضان کی فرضیت کا حکم نازل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان ہی کا روزہ رکھا کرتے اور( بحیثیت فرض )عاشوراء کا روزہ ترک کردیا ،تو جو چاہے رکھے اور جو چاہے نہ رکھے ۔

 

اور سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

 

امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من اسلم أن أذن فی الناس ان من کان اکل فلیصم بقیۃ یومہ ومن لم یکن اکل فلیصم فان الیوم عاشوراء ۔(صحیح بخاری:2007،صحیح مسلم :1135)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردے کہ جو کھانا کھاچکا ہو وہ بقیہ دن کا روزہ رکھے اور جس نے نہ کھایا ہو وہ روزہ رکھ لے کیوں کہ آج عاشوراء کا دن ہے ۔

 

اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :

 

ارسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم غداۃ عاشوراء الی قری الانصاری من اصبح مفطرا فلیصم بقیۃ یومہ ومن اصبح صائما فلیصم قالت کنا نصومہ بعد ونصوم صبیانناو نجعل لھم اللعبۃ من العھن فاذا بکی احدھم علی الطعام اعطیناہ ذاک حتی یکون عند الافطار(صحیح بخاری:1960،صحیح مسلم :1136)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کی صبح میں انصار کی آبادیوں میں پیغام بھیجا کہ جو کوئی صبح میں کچھ کھاچکا ہو وہ بقیہ دن کا روزہ رکھےاور جس نے نہ کھایا ہو وہ کچھ نہ کھائے بلکہ روزہ رکھ لے ، وہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم اس دن روزہ رکھتی تھیں اور اپنے بچوں کو بھی رکھا تی تھیں اور ان کے لئے روئی کا کھلونا بنادیتی تھیں لہذا اگر کوئی بھوک کی وجہ سے روتا تو اسے وہ کھلونا دے کر بہلادیتی تھیں یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔

 

مدنیہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہود بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا پس منظر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن حضرت موسٰی کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی تھی ، اور انہوں نے شکر انے کے طور پر اس دن روزہ رکھا اور ہم انہیں کی اقتداء کرتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیں حضرت موسٰی سے تم سے زیادہ محبت و تعلق ہے ،اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول روایت کے الفاظ یہ ہیں :

 

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما قدم المدینۃ وجدھم یصومون یوما یعنی عاشوراء فقالو ھذا یوم عظیم وھو یوم نجی اللہ فیہ موسیٰ و اغرق آل فرعون فصام موسی شکراً للہ فقال انا اولیٰ بموسی منھم فصامہ و امر بصیامہ (صحیح بخاری: 3397)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ آئے تو یہود کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے پایا اور اس کے بارے میں معلوم کرنے پر انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم الشان دن ہے ، اسی دن اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون اور اس کے خاندان کو سمندر میں غرق کردیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کےطور پر روزہ رکھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہم تمہاری بہ نسبت حضرت موسیٰ سے زیادہ قریب ہیں تو آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی رکھنے کا حکم دیا ۔

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کی عمر تیرہ چودہ سال تھی اور فتح مکہ کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں ،غرضیکہ انہیں بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بالکل آخری مرحلے کے مشاہدہ کا موقع ملا ، وہ کہتے ہیں :

 

ما علمت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صام یوما یطلب فضلہ علی الایام الا ھذا الیوم و لا شہراً الا ھذا الشہر یعنی رمضان (صحیح مسلم :1132)

 

میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے دنوں کے بالمقابل عاشوراء کے دن کو اس کی فضیلت کی وجہ سے اہمیت دیتے ہوئے اس دن روزہ رکھاکرتے تھے اور اس طرح سے دوسرے مہینوں کی بہ نسبت رمضان کے مہینے کو خاص اہمیت دیتے تھے ۔

 

اور انہیں سے منقول ہے کہ :

 

حین صام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عاشوراء و امر بصیامہ قالو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ یوم تعظمہ الیہود والنصاریٰ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاذا کان العام المقبل ان شاء اللہ صمنا الیوم التاسع قال فلم یات العام المقبل حتی توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح مسلم :1134)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عاشوراء کا روزہ رکھا اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہود و نصاریٰ کے نزدیک یہ دن لائق عظمت اور قابل احترام ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان شاء اللہ آئندہ ہم نو محرم کا روزہ( بھی) رکھیں گے ، لیکن اس کے آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ۔

 

اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 

… ثلاث من کل شہر و رمضان الی رمضان فھذا صیام الدھر کلہ ،صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ ان یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ التی بعدہ و صیام یوم عاشوراء احتسب علی اللہ ان یکفر السنۃ التی قبلہ (صحیح مسلم :1162)

 

ہر مہینے کا تین روزہ اور رمضان کا روزہ پورے سال کا روزہ ہے ، اور عرفہ کے روزے کے بارے میں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف کردیں گے اور عاشوراء کے روزے کے بارے میں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے گزشتہ سال کے گناہ معاف کردیں گے ۔

 

حاصل یہ ہے کہ رمضان کے روزے کی فرضیت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے روزے کو ایک فرض کی طرح رکھا کرتے تھے ، اور اس کے بعد اس کی وہ حیثیت باقی نہیں رہی اور پھر الگ سے آپ نے کوئی نیا حکم اس کے روزہ کے بارے میں جاری نہیں فرمایا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی پابندی کے ساتھ عاشوراء کا روزہ رکھتے اور اس کی فضیلت بیان کرتے اور صحابہ کرام بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ۔

 

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 

ھذا یوم عاشوراء ولم یکتب اللہ علیکم صیامہ و انا صائم فمن احب منکم ان یصوم فلیصم ومن احب ان یفطر فلیفطر (صحیح مسلم : 1129،نیز دیکھئے صحیح بخاری:2003)

 

یہ عاشوراء کا دن ہے ، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے کو فرض نہیں کیا ہے اور میں اس روزے کو رکھنے والا ہوں تو تم میں سے جو چاہے روزہ رکھے اور جو نہ چاہے نہ رکھے ۔

 

اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

 

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرنا بصیام یوم عاشوراء و یحثنا علیہ و یتعاھدنا عندہ فلما فرض رمضان لم یامرنا ولم ینھنا ولم یتعاھدنا عندہ ( صحیح مسلم : 1128)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشوراء کے روزے کا حکم دیا کرتے اسے رکھنے کے لئے ہمیں ابھارتے اور ہماری نگرانی کرتے لیکن جب رمضان کا روزہ فرض ہوگیا تو ہمیں اس کے رکھنے کا حکم دیا اور نہ اس پر ابھارا اور نہ ہی ہماری نگرانی کی ۔

 

اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

 

امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان نصوم عاشوراء قبل ان ینزل صیام رمضان فلما نزل صیام رمضان لم یامرنا ولم ینھنا ونحن نفعلہ (مسند احمد: 15477)

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے روزے کے حکم نازل ہونے سے پہلے ہمیں عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور جب رمضان کے روزے کا حکم آگیا تو ہمیں نہ تو اس کا حکم دیا گیا اور نہ روکا گیا اور ہم اسے رکھتے ہیں ۔

 

عاشورہ کے دن کھانے پینے میں فراخی:

 

ایک روایت میں ہے :

من وسع على نفسه واهله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته۔

جو کوئی اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اوپر عاشوراء کے دن فراخی اختیار کرے اللہ تعالی اسے پورے سال فراخی عنایت کریں گے۔

اس حدیث کو متقدمین میں سے کسی نے صحیح قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی حدیث کی چھ مشہور کتابوں میں اسے ذکر کیا گیا ہے امام احمد بن حنبل سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے اسے بے حیثیت قرار دیا (فلم يره شيئا) علامہ ابن رجب حنبلی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی حیثیت سے اس کی سند صحیح نہیں ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حدیث متعددسندوں سے منقول ہے لیکن اس میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے محمد بن عبداللہ بن حکم اسی کے قائل ہیں اور عقیلی نے لکھا ہے کہ حدیث غیر محفوظ ہے *(لطائف المعارف/ص١٠٧)*

اور متاخرین میں سے بعض لوگوں نے متعدد سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے اس پرحسن کا حکم لگایا ہے اور اس کے برخلاف بعض لوگوں نے بہت زیادہ ضعیف یا من گھڑت قرار دیا ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے:

یہ روایت چار صحابہ کرام کے واسطے سے ہم تک پہنچی ہے حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابو سعید خدری، حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت جابر رضی اللہ عنہم

1-حضرت ابوہریرہ کی طرف منسوب روایت کی سند میں موجود ایک راوی محمد بن ذکوان کو امام بخاری نے منکر الحدیث قرار دیا ہے یعنی ان کے نزدیک اس سے روایت نقل کرنا حلال نہیں ہے۔ اور ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ شخص قابل اعتماد راویوں کی طرف نسبت کرکے منکر روایتیں بیان کرتا ہے۔ اسی طرح سے اس کے دوسرے راوی حجاج اور تیسرے راوی سلیمان پر بھی کلام کیا گیا ہے۔

2-حضرت ابو سعید خدری کے حوالے سے منقول روایت کی سند میں ایک راوی کا نام مذکور نہیں ہے، اور اس کے بارے میں کچھ اتا پتا نہیں ہے کہ وہ کون ہے؟ اس روایت کی ایک دوسری سند اس سے بھی بدتر ہے اس کا ایک راوی محمد بن اسماعیل جعفری متروک ہے اور ابو حاتم نے اسے منکرالحدیث قرار دیا ہے اسی طرح سے اس کے استاد عبداللہ بن سلمہ کو ابو زرعہ نے منکر الحدیث قرار دیا ہے۔

3-حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف منسوب روایت کے ایک راوی ھیصم کے بارے میں ابن حبان نے لکھا ہے کہ محدث اعمش کی طرف نسبت کرکے یہ روایتوں میں بڑا غضب ڈھاتا ہے اور بڑی مصیبتیں لے آتا ہے اور ابو زرعہ نے اسے متہم قرار دیا ہے اور عقیلی کہتے ہیں کہ ھیصم مجہول اور حدیث غیر محفوظ ہے اور ھیثمی کہتے ہیں وہ بہت زیادہ ضعیف ہے۔

4- اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذکورہ روایت محمد بن یونس کریمی سے منقول ہے جس کے بارے میں امام ذہبی کہتے ہیں "هالك” اور حبان وغیرہ نے لکھا ہے کہ قابل اعتماد راویوں کے حوالے سے من گھڑت روایتیں بیان کرتا تھا اس نے شاید ایک ہزار سے زیادہ حدیث گھڑی ہیں اور ابن عدی کہتے ہیں کہ اس پر حدیث کے گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے اور اس کے استاد عبداللہ ابن ابراہیم کے متعلق حاکم نے لکھا ہے کہ وہ ضعیف راویوں کی ایک جماعت سے موضوع حدیث نقل کرتا تھا۔

اس کی ایک دوسری سند بھی ہے جس کے بارے میں سیوطی نے لکھا ہے کہ اس سلسلے کی صحیح ترین سند ہے لیکن اس کے متن کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ "منكرا جدا” ۔

حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عمر کے قول کی حیثیت سے بھی اسے نقل کیا جاتا ہے جس کے بارے میں دارقطنی کہتے ہیں حدیث منکر اور ذہبی کہتے ہیں کہ خبر باطل اور ابن رجب حنبلی نے لکھا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے جس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں *(حوالہ سابق اور لطائف المعارف/ص١٠٧)*

حاصل یہ ہے کہ تمام راوایتوں کامدار منکر اور مجہول راویوں پر ہے اور اس طرح کی روایت متعدد سندوں سے منقول ہونے کے باوجود قوی نہیں ہو سکتی ہیں دوسرے یہ کہ درایت کے اعتبار سے بھی یہ لائق اعتماد نہیں ہیں کیونکہ صحیح احادیث میں اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ اس میں اس دن نفقے میں فراخی اور وسعت کی بات کہی گئی ہے یعنی دسترخوان کے وسیع رکھا جائے اور انواع و اقسام کے کھانے کھلائے جائیں بعض لوگوں نے اس تضاد  کو دور کرنے کے لیے تاویل کی ہے کہ اہل و عیال کو نقدی کی شکل میں دے دیا جائے یا افطار میں وسعت اختیار کی جائے لیکن ظاہر ہے کہ افطار کے وقت دس عاشوراء کا دن باقی نہیں رہے گا نیز نقدی دینے کو نفقے میں فراخی اختیار کرنا نہیں کہا جاتا۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بے اصل حدیث ہے اور یہی وجہ ہے کہ محدثین اور ائمہ مجتہدین میں سے کوئی اس کا قائل نہیں ہے صرف حضرت سفیان بن عیینہ نے ابراہیم بن محمد بن منتشر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ:

*كان يقال انه من وسع على عياله يوم عاشوراء وسع الله عليه سائر سنته (دیکھیے شعب الايمان :٣٧٩٦)*

اور اسے بیان کرنے کے بعد حضرت سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسے پچاس یا ساٹھ سال تک آزمایا ہےاور ہمارا تجربہ بہتر رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ کسی کے تجربے سے کسی حدیث کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہو سکتا ہے اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام کا تجربہ بھی نقل کیا جاتا ہے لیکن وہ مذکورہ سندوں سے منقول ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں 

اصلاً یہ احادیث شیعوں کے مقابلے میں ایجاد کی گئی ہیں وہ اس دن کو غم کا دن مانتے ہیں اور ماتم کرتے ہیں اس کے مقابلے میں ملک شام کے ناصبیوں نے اسے خوشی اور کھانے پینے کا دن قرار دیا علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

ملک شام کے ناصبیوں نے عاشوراء کے دن کو شیعوں کے مقابلے میں خوشی کا دن بنا لیا وہ اس میں مختلف طرح کے غلوں کو (کھچڑا) پکاتے ہیں غسل کرتے ہیں، خوشبو لگاتے ہیں اور عمدہ سے عمدہ کپڑا زیب تن کرتے ہیں انہوں نے اسے عید کا دن بنا لیا اس میں قسم قسم کے کھانے بناتے ہیں فرحت و مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ سب رافضیوں کی ضد میں ہوتا ہے (البداية،ج٨/ص٢٨٣)

اور ابن عز حنفی لکھتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے دن صرف روزہ رکھنا ثابت ہے، روزے کے علاوہ کسی اور چیز سے متعلق حدیث صحیح نہیں ہے، حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے جب شیعوں نے اس دن غم کا اظہار اور ماتم کرنا شروع کیا تو اہل سنت میں سے جاہلوں نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنا شروع کردیا اور اس کے لئے مختلف قسم کے دانے اور طرح طرح کے کھانے پکانے لگے اور سرمہ لگانے لگے اور اہل و عیال سے فراخی سے متعلق موضوع حدیثیں بیان کرنے لگے *(التنبيه على مشكلات الهدايه، ج١/ص٩٣٠)*

اور اس پر تمام لوگوں کا تقریباً اتفاق ہے کہ عاشوراء کے دن سرمہ اور خضاب لگانے اور غسل کرنے کی روایتیں من گھڑت ہیں *(دیکھئے لطائف المعارف ،ص١٠٧)*

 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے