*رحمت و مغفرت کے ایام*

سوموار اور جمعرات کی اہمیت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين ويوم الخميس فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء فيقال أنظروا هذين حتى يصطلحا أنظروا هذين حتى يصطلحا أنظروا هذين حتى يصطلحا (صحیح مسلم ٢٥٦٥)

سوموار اور پنج شنبہ کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ہے ہے سوائے اس شخص کے جس کی اپنے بھائی سے دشمنی ہو تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے ہے ان دونوں کو چھوڑ دو دو یہاں تک کہ دونوں صلح کرلیں ،ان دونوں کو چھوڑ دو دو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں ، ان دونوں کو چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ صلح کر لیں

اور انہیں سے منقول ایک حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

*تُعرض الأعمال في كل يوم خميس واثنين فيغفر الله عز وجل في ذلك اليوم لكل امرئ لا يشرك بالله شيئاً، إلا امرأ كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال أركوا هذين حتى يصطلحا، أركوا هذين حتى يصطلحا (صحيح مسلم ٢٥٦٥)*

پنج شنبہ اور دو شنبہ کو اللہ کے حضور اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالی ہر اس شخص کی مغفرت کر دیتے ہیں جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ہے سوائے اس شخص کے جس کی اپنی بھائی سے دشمنی ہو تو کہا جاتا ہے ان کے معاملے کو ٹال دو یہاں تک کہ یہ صلح کرلیں ان کے معاملے کو ٹال دو یہاں تک کہ یہ صلح کرلیں۔

اللہ تعالی ہر شخص کے عمل سے واقف ہیں یہاں تک کہ دلوں کے بھید کو بھی جانتے ہیں لیکن انہوں نے ہر چیز کا ایک نظام بنا رکھا ہے اور اسی سسٹم کے اعتبار سے دوشنبہ اور پنج شنبہ کو اس کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور جو شخص ہفتے بھر شرک سے بری رہا اس کی مغفرت کا اعلان کر دیا جاتا ہے یعنی ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اگر اس سے معصیت صادر ہوئی ہے تو اس کی سزا بھگت کر جنت میں ضرور داخل ہوگا لیکن اگر کوئی شخص بغض و عداوت میں مبتلا ہے تو اس کے لئے مغفرت کا اعلان نہیں کیا جاتا کیونکہ دوسرے گناہوں کی بہ نسبت یہ اندیشہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ اسے کفر و شرک تک پہنچا دے گا مگر دشمنی اور نفرت کے بارے میں خطرہ ہوتا ہے کہیں اس کی آگ میں تپ کر کفر و شرک میں مبتلا نہ ہو جائے اس لیے صلح کرنے تک ان کے جنتی ہونے کا فیصلہ روک لیا جاتا ہے۔

اور حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ دو شنبہ اور پنج شنبہ کو عام طور پر روزہ رکھا کرتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*ذانك يومان تعرض فيها الاعمال على رب العالمين فاحب ان يعرض عملي وانا صائم (نسائي ٢٤٥٨صحيح)*

ان دو دنوں میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال روزہ کی حالت میں پیش کیے جائیں۔

اور حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو شنبہ کے روزے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

*فيه ولدت وفيه انزل علي (صحيح مسلم ١١٦٢)*

اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی

*سنیچر کے دن روزہ رکھنے کی ممانعت*

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

*لاتصوموا يوم السبت إلا فيما افترض الله عليكم، وان لم يجد أحدكم إلا لحاء عنبة أو عود شجرة فليمضغه (ابو داوود٢٤٢١، ترمزي٧٤٤، ابن ماجه١٧٢٦- صحيح)*

سنیچر کے دن فرض روزے کے علاوہ کوئی اور روزہ مت رکھو اگر اس دن کھانے کے لئے صرف انگور کا چھلکا یا درخت کی لکڑی ملے تو اسے ہی چبا لو

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف سنیچر کا روزہ ممنوع ہے،اس لئے سنیچر اور اتوار دو دن روزہ رکھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے بلکہ ان دو دنوں کا روزہ حدیث سے ثابت ہے چنانچہ حضرت ام سلمہ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے سنیچر اور اتوار کا روزہ رکھا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ

*انهما عيدا المشركين فانا احب ان اخالفهم (مسند احمد٢٦٧٥٠- حسن)*

یہ دو دن مشرکوں کے عید کے دن ہیں اس لیے میں ان کے خلاف کرنا چاہتا ہوں-

(10)

*مختلف دنوں سے متعلق روایت*

حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

*خلق الله التربة يوم السبت، وخلق فيها الجبال يوم الأحد، وخلق الشجر يوم الاثنين، وخلق المكروه يوم الثلاثاء، وخلق النور يوم الأربعاء، وبث فيها الدواب يوم الخميس، وخلق آدم بعد العصر من يوم الجمعة، في آخر ساعة من ساعات الجمعة فيما بين العصر إلى الليل (صحيح مسلم ٢٧٨٩)*

اللہ تعالی نے زمین کو سنیچر کے دن پیدا کیا، اتوار کے دن اس میں پہاڑ اگائے، سوموار کے دن درخت لگائے، ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کے دن پیدا کیا،روشنی بدھ کے دن بنایا، جمعرات کے دن جانوروں کو پیدا کیا اور آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد بنایا جمعہ کے اوقات میں سے بالکل آخری وقت میں عصر سے لے کر مغرب کے درمیان میں۔

امام نووی نے لکھا ہے کہ بعض روایتوں میں مکروہ کی جگہ "التقن” ہے یعنی اللہ تعالی نے منگل کے دن تقن کو بنایا اور تقن سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان کی زندگی برقرار رہے اور حاصل یہ ہے کہ اس دن دونوں چیزی

ں پیدا کی گئیں (المنہاج ج٩/ص٧٣)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے